برما میں مسلمانوں کا قتل عام

thinking

Prime Minister (20k+ posts)
Muslims Ummah ki behisi dekhni ho tu Burma par dekho
kab se zulam ki intah ho rahi ha wahan..lekan sab Musalman
aik do zubani bayanat de rehay bas aur kuch nahi..
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
11205593_903909736343371_1400504741246040093_n.jpg
 

casper_iam

MPA (400+ posts)
hamaray leadero may say shaid abhi tak ksi nay koi bayan nahi dia in ki himayat may ,,,,, chand lafz he keh dete agar madad nahi karsakte to
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
Re: آخرمسلمان ہی کیوں ظلم کا شکار؟


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دنیا میں ایک غیرت مند اور عزت دار قوم کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا طریقہ بھی سکھا دیا ہے۔
قرآن پاک اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتے ہوئے یہ تین ہدایات دیتا ہے۔

نمبر ایک "اپنے گھوڑے تیار رکھو"۔
نمبر دو "آخر تم ان لوگوں کے لئے کیوں نہیں لڑ پڑتے جنہیں کمزور پا کر دبا لیا گیا ہے"۔
نمبر تین "یہود و نصاری تمہارے دوست نہیں ہو سکتے"


یعنی مسلمانوں کو پہلا حکم یہ ہے کہ وقت اور حالات کے مطابق اپنے آپ کو دفاعی لحاظ سے مضبوط رکھو۔ دشمن کی سازشوں کو سمجھو اور اس سے بچاؤ کی ہر ممکن تدبیر کرو۔ اہل، دیانتدار اور صاحب ایمان شخص کی قیادت میں تربیت یافتہ طاقتور فوج تیار کرو جو دستیاب وسائل کے مطابق جدید ترین اسلحہ سے لیس ہو اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہو۔
-
دوسرا حکم یہ ہے کہ اسلامی فوج کا درست اور بروقت استعمال کیا جائے۔ ملک کی جغرافیائی اورنظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور مظلوم مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ بوقت ضرورت ملک و ملت کی حفاظت اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی تمام تر صلاحتوں اور طاقت کا استعمال کیا جائے۔
-
تیسری آیت میں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ یہود و نصاری سے کوئی توقع نہ رکھو۔ اپنے مسائل خود حل کرو۔ ایک دوسرے کو دبانے کے لئے دشمن کے آلہ کار نہ بنو۔
-
جب تک مسلمان ان احکامات پر عمل پیرا رہے ایک عالم پر حکمرانی کرتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر، احد، خندق، تبوک کے معرکوں میں خود شرکت فرما کر امت کو سکھا دیا کہ اللہ کے دین کی حفاظت کے لئے اپنی جان و مال سب نثار کر دو۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں ہی جنگ موتہ میں صرف تین ہزار کے لشکر کے ساتھ رومی سلطنت کی دو لاکھ پیشہ ور فوج کا سامنا کر کے دربار رسالت سے سیف اللہ کا خطاب حاصل کر لیا تھا۔ آگے چل کر خلافت راشدہ کے دور میں حضرت خالد نے حضرت سعد بن ابی وفاص اور حضرت عمرو بن العاص (رضی اللہ عنھم) سے مل کر عالم کفر کی جڑیں ہلا دیں اور دور دور تک اللہ کا پیغام پہنچآ دیا۔


حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے محدود وسائل کے ساتھ اس وقت کی دو طاقتور ریاستوں روم اور کسری کو فتح کر کے اسلام کا پرچم لہرا دیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں کے بحری بیڑے نے افریقہ پہنچ کر لیبیا تیونس اور مراکش کو فتح کیا۔

بنو امیہ کا دور فتوحات کے لحاظ سے بہت بہترین رہا یہاں تک کہ طارق بن زیاد اور موسی بن نصیر نے یورپ میں بھی اسلامی پرچم لہرا دیا۔

حجاج بن یوسف نے ایک مظلوم مسلمان لڑکی کی فریاد پر اپنے کم سن بھتیجے محمد بن قاسم کو ہزاروں میل دور انتہائی پرخطر مہم پر ہندوستان روانہ کیا۔ اللہ کا یہ مجاہد سندھ پہنچا، بہت سے علاقوں کو اسلامی سلطنت کے زیرنگیں کیا اور انتہائی کم عرصہ میں دور دور تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔ اللہ نے انہیں فتح عطا کی کیونکہ وہ اس کے حکم کی پیروی کر کے مظلوموں کی مدد کے لئے نکل کھڑے ہوئے تھے۔

سلطان صلاح الدین ایوبی کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ وہ اپنوں کی غداری اور سازشوں کے باوجود ثابت قدم رہے۔ سلطان ایوبی نے مشکل حالات میں جرات و بہادری کے ساتھ صلیبیوں کا سامنا کیا اور برطانیہ، فرانس، جرمنی، بلجیئم جیسے درجنوں یورپی ملکوں کی لاکھوں کی افواج کو ہر میدان میں شکست دے کر بیت المقدس کو آزاد کروایا۔
-

آج کل مسلم امہ کی جو ناگفتہ بہ حالت ہے اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلمانوں نے اللہ کے ان تینوں احکامات سے کھلم کھلا روگردانی اختیار کی۔ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئے اور آپس میں ہی دست و گریباں ہو گئے۔


اللہ تعالی نے مسلم امہ کو بے بہا معدنی دولت سے نوازا ہے مگر بدقسمتی سے بے تحاشا وسائل ہونے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت غربت کی زنگی گزار رہی ہے اور طاقتور اشرافیہ تمام تر ملکی وسائل پر قابض ہے۔ جو دولت مسلمانوں کی زںدگی بدل سکتی ہے اس دولت سے اسلام دشمن عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حکمرانوں نے قومی وسائل کی لوٹ مار اور کرپشن سے حاصل ہونا سرمایہ امریکہ اور یورپ منتقل کر دیا ہے جو آخر کار مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال ہوتا ہے۔ چند سال عرب بہار کے جو سلسلہ چلا ہے اس میں معزول ہونے والے حکمرانوں کے محلات میں دولت کے جو انبار برآمد ہوئےانہیں
دیکھ کر بڑے بڑوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔

اقتدار کی ہوس نے جہاں سول حکمرانوں کو فرعون بنا دیا وہیں فوجی حکام بھی اپنے اصل فرض سے ہٹ کر محلاتی سازشوں کا حصہ بن گئے۔

ترکی، مصر، پاکستان جیسے ملکوں کے جرنیل ہمیشہ اپنے ہی ملک کو فتح کرتے آئے ہیں۔ جرنیلوں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے اپنے ہی ملک کے شہریوں پر بے پناہ انسانیت سوز جرائم بھی کئے ہیں۔ اگر یہ جذبہ اور وسائل وطن کی حفاظت کے لئے استعمال کئے جاتے تو نہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنتا، نہ قبرص پر یونان کا قبضہ ہوتا نہ ہی شام کے علاقہ گولان اور اردن کی ساحلی پٹی پر اسرائیل قابض ہوتا۔


فلیسطین میں اسرائیل کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے مگر مسلمان اقوام متحدہ جیسی بھینس کے آگے بین بجا رہے ہیں۔ بھارتی فوج کشمیری مسلمانوں کا خون بہا رہی ہے اور ہم امریکہ اور برطانیہ سے مدد کی امید رکھتے ہیں خود اس برائی کی جڑ ہے۔

امریکہ نے خطرناک ہتھیار تلاش کرنے کے بہانے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی مگر مسلمان نہ صرف خاموش رہے بلکہ بہت سے مسلمان ملکوں کی فوج براہ راست اس قتل عام میں شریک رہی۔ لاکھوں عراقیوں کے قتل کے بعد امریکہ واپس چلا گيا اور پیچھے بربادی اور تباہی کی ایک داستان چھوڑ گیا۔ کسی مسلمان کو یہ بھی پوچھنے کی جرات نہ ہوئی کہ صاحب تم نے دس پندرہ لاکھ عراقی قتل کر دیئے اب بتاؤ کہ خطرناک ہتھیار ملے بھی یا نہیں؟

امریکہ کے ٹاور گرانے کا الزام ان مفلوک الحال افغانیوں پر لگایا گیا جن بیچاروں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں۔ اس کے بعد دھشت گردی کی نئی تاریخ رقم کی گئي۔ کارپٹ بمباری نے لاکھوں افغانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس سیاہ کارنامے میں ہماری اپنی فوج بھی حصہ دار رہی ہے۔

جب تک مسلمان اپنے اصل کی طرف واپس نہیں آتے اسی طرح نقصان اٹھاتے رہیں گے۔ نہ کسی اقوام متحدہ نے ان کے آنسو پونچھنے ہیں نہ کسی اور ادارے نے۔ اپنے اندر غیرت اور جذبہ پیدا کرنے کے لئے ٹیپو سلطان کا یہ فرمان کتنا شاندار ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے

اپنے آپ کو اس مشکل دور سے نکالنے کے لئے اپنے آپ کو منظم کرنا ہو گا صرف اور صرف اپنے دست و بازو پر بھروسہ کرنا ہو گا۔ ورنہ بقول شاعر تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں


http://azaddunya.com/articles-and-columns/7043-2014-07-25-21-42-14.html

 
Last edited:

fnoman

Senator (1k+ posts)
Re: آخرمسلمان ہی کیوں ظلم کا شکار؟

Pakistan with an Atom bomb,.. whats the point of having it if it can't save muslims
 

Pukaar

Senator (1k+ posts)
Re: آخرمسلمان ہی کیوں ظلم کا شکار؟


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دنیا میں ایک غیرت مند اور عزت دار قوم کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا طریقہ بھی سکھا دیا ہے۔
قرآن پاک اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتے ہوئے یہ تین ہدایات دیتا ہے۔

نمبر ایک "اپنے گھوڑے تیار رکھو"۔
نمبر دو "آخر تم ان لوگوں کے لئے کیوں نہیں لڑ پڑتے جنہیں کمزور پا کر دبا لیا گیا ہے"۔
نمبر تین "یہود و نصاری تمہارے دوست نہیں ہو سکتے"


یعنی مسلمانوں کو پہلا حکم یہ ہے کہ وقت اور حالات کے مطابق اپنے آپ کو دفاعی لحاظ سے مضبوط رکھو۔ دشمن کی سازشوں کو سمجھو اور اس سے بچاؤ کی ہر ممکن تدبیر کرو۔ اہل، دیانتدار اور صاحب ایمان شخص کی قیادت میں تربیت یافتہ طاقتور فوج تیار کرو جو دستیاب وسائل کے مطابق جدید ترین اسلحہ سے لیس ہو اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہو۔
-
دوسرا حکم یہ ہے کہ اسلامی فوج کا درست اور بروقت استعمال کیا جائے۔ ملک کی جغرافیائی اورنظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور مظلوم مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ بوقت ضرورت ملک و ملت کی حفاظت اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی تمام تر صلاحتوں اور طاقت کا استعمال کیا جائے۔
-
تیسری آیت میں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ یہود و نصاری سے کوئی توقع نہ رکھو۔ اپنے مسائل خود حل کرو۔ ایک دوسرے کو دبانے کے لئے دشمن کے آلہ کار نہ بنو۔
-
جب تک مسلمان ان احکامات پر عمل پیرا رہے ایک عالم پر حکمرانی کرتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر، احد، خندق، تبوک کے معرکوں میں خود شرکت فرما کر امت کو سکھا دیا کہ اللہ کے دین کی حفاظت کے لئے اپنی جان و مال سب نثار کر دو۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں ہی جنگ موتہ میں صرف تین ہزار کے لشکر کے ساتھ رومی سلطنت کی دو لاکھ پیشہ ور فوج کا سامنا کر کے دربار رسالت سے سیف اللہ کا خطاب حاصل کر لیا تھا۔ آگے چل کر خلافت راشدہ کے دور میں حضرت خالد نے حضرت سعد بن ابی وفاص اور حضرت عمرو بن العاص (رضی اللہ عنھم) سے مل کر عالم کفر کی جڑیں ہلا دیں اور دور دور تک اللہ کا پیغام پہنچآ دیا۔


حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے محدود وسائل کے ساتھ اس وقت کی دو طاقتور ریاستوں روم اور کسری کو فتح کر کے اسلام کا پرچم لہرا دیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں کے بحری بیڑے نے افریقہ پہنچ کر لیبیا تیونس اور مراکش کو فتح کیا۔

بنو امیہ کا دور فتوحات کے لحاظ سے بہت بہترین رہا یہاں تک کہ طارق بن زیاد اور موسی بن نصیر نے یورپ میں بھی اسلامی پرچم لہرا دیا۔

حجاج بن یوسف نے ایک مظلوم مسلمان لڑکی کی فریاد پر اپنے کم سن بھتیجے محمد بن قاسم کو ہزاروں میل دور انتہائی پرخطر مہم پر ہندوستان روانہ کیا۔ اللہ کا یہ مجاہد سندھ پہنچا، بہت سے علاقوں کو اسلامی سلطنت کے زیرنگیں کیا اور انتہائی کم عرصہ میں دور دور تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔ اللہ نے انہیں فتح عطا کی کیونکہ وہ اس کے حکم کی پیروی کر کے مظلوموں کی مدد کے لئے نکل کھڑے ہوئے تھے۔

سلطان صلاح الدین ایوبی کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ وہ اپنوں کی غداری اور سازشوں کے باوجود ثابت قدم رہے۔ سلطان ایوبی نے مشکل حالات میں جرات و بہادری کے ساتھ صلیبیوں کا سامنا کیا اور برطانیہ، فرانس، جرمنی، بلجیئم جیسے درجنوں یورپی ملکوں کی لاکھوں کی افواج کو ہر میدان میں شکست دے کر بیت المقدس کو آزاد کروایا۔
-

آج کل مسلم امہ کی جو ناگفتہ بہ حالت ہے اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلمانوں نے اللہ کے ان تینوں احکامات سے کھلم کھلا روگردانی اختیار کی۔ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئے اور آپس میں ہی دست و گریباں ہو گئے۔


اللہ تعالی نے مسلم امہ کو بے بہا معدنی دولت سے نوازا ہے مگر بدقسمتی سے بے تحاشا وسائل ہونے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت غربت کی زنگی گزار رہی ہے اور طاقتور اشرافیہ تمام تر ملکی وسائل پر قابض ہے۔ جو دولت مسلمانوں کی زںدگی بدل سکتی ہے اس دولت سے اسلام دشمن عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حکمرانوں نے قومی وسائل کی لوٹ مار اور کرپشن سے حاصل ہونا سرمایہ امریکہ اور یورپ منتقل کر دیا ہے جو آخر کار مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال ہوتا ہے۔ چند سال عرب بہار کے جو سلسلہ چلا ہے اس میں معزول ہونے والے حکمرانوں کے محلات میں دولت کے جو انبار برآمد ہوئےانہیں
دیکھ کر بڑے بڑوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔

اقتدار کی ہوس نے جہاں سول حکمرانوں کو فرعون بنا دیا وہیں فوجی حکام بھی اپنے اصل فرض سے ہٹ کر محلاتی سازشوں کا حصہ بن گئے۔

ترکی، مصر، پاکستان جیسے ملکوں کے جرنیل ہمیشہ اپنے ہی ملک کو فتح کرتے آئے ہیں۔ جرنیلوں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے اپنے ہی ملک کے شہریوں پر بے پناہ انسانیت سوز جرائم بھی کئے ہیں۔ اگر یہ جذبہ اور وسائل وطن کی حفاظت کے لئے استعمال کئے جاتے تو نہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنتا، نہ قبرص پر یونان کا قبضہ ہوتا نہ ہی شام کے علاقہ گولان اور اردن کی ساحلی پٹی پر اسرائیل قابض ہوتا۔


فلیسطین میں اسرائیل کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے مگر مسلمان اقوام متحدہ جیسی بھینس کے آگے بین بجا رہے ہیں۔ بھارتی فوج کشمیری مسلمانوں کا خون بہا رہی ہے اور ہم امریکہ اور برطانیہ سے مدد کی امید رکھتے ہیں خود اس برائی کی جڑ ہے۔

امریکہ نے خطرناک ہتھیار تلاش کرنے کے بہانے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی مگر مسلمان نہ صرف خاموش رہے بلکہ بہت سے مسلمان ملکوں کی فوج براہ راست اس قتل عام میں شریک رہی۔ لاکھوں عراقیوں کے قتل کے بعد امریکہ واپس چلا گيا اور پیچھے بربادی اور تباہی کی ایک داستان چھوڑ گیا۔ کسی مسلمان کو یہ بھی پوچھنے کی جرات نہ ہوئی کہ صاحب تم نے دس پندرہ لاکھ عراقی قتل کر دیئے اب بتاؤ کہ خطرناک ہتھیار ملے بھی یا نہیں؟

امریکہ کے ٹاور گرانے کا الزام ان مفلوک الحال افغانیوں پر لگایا گیا جن بیچاروں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں۔ اس کے بعد دھشت گردی کی نئی تاریخ رقم کی گئي۔ کارپٹ بمباری نے لاکھوں افغانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس سیاہ کارنامے میں ہماری اپنی فوج بھی حصہ دار رہی ہے۔

جب تک مسلمان اپنے اصل کی طرف واپس نہیں آتے اسی طرح نقصان اٹھاتے رہیں گے۔ نہ کسی اقوام متحدہ نے ان کے آنسو پونچھنے ہیں نہ کسی اور ادارے نے۔ اپنے اندر غیرت اور جذبہ پیدا کرنے کے لئے ٹیپو سلطان کا یہ فرمان کتنا شاندار ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے

اپنے آپ کو اس مشکل دور سے نکالنے کے لئے اپنے آپ کو منظم کرنا ہو گا صرف اور صرف اپنے دست و بازو پر بھروسہ کرنا ہو گا۔ ورنہ بقول شاعر تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں


http://azaddunya.com/articles-and-columns/7043-2014-07-25-21-42-14.html


تو بھائی کیا کریں؟ پوری دنیا پر فوج کشی کردیں اور دو سو سال پہلے کی طرح غلام بنالئے جائیں؟
اول تو آج دنیا میں مسلمان صرف نام کے ہیں کردار کے نہیں اور دوسرے یہ کہ مسلمان کالے جھنڈے والوں سے بری طرح پٹ رہے ہیں
 
Re: آخرمسلمان ہی کیوں ظلم کا شکار؟


تو بھائی کیا کریں؟ پوری دنیا پر فوج کشی کردیں اور دو سو سال پہلے کی طرح غلام بنالئے جائیں؟
اول تو آج دنیا میں مسلمان صرف نام کے ہیں کردار کے نہیں اور دوسرے یہ کہ مسلمان کالے جھنڈے والوں سے بری طرح پٹ رہے ہیں

دیکھنے والی آنکھ ہو تو کردار والے مسلمان بھی مل جائیں گے
امید ایک ایسی روشنی ہے جس کے سہارے انسان بڑی بڑی مصیبتیں جھیل جاتا ہے
اور ہمیں امید نہیں یقین ہے ہمارے اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ﷺ کی پیشن گوئیوں پر
فاتح ہم ہی ہیں کل، آج اور پھر کل
انشاء اللہ
 

sumisrar

Senator (1k+ posts)
Re: آخرمسلمان ہی کیوں ظلم کا شکار؟

ھمارے پاسس تین - چار لاکھ دے کر حجج کرنے کے پیسے ہیں پر ان ضرورت مندوں کے لئے کچھ نہیں - ، ان سب کے ہوتے هوئے پتا نہیں کس کا رب قبول کرے گا
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
Re: آخرمسلمان ہی کیوں ظلم کا شکار؟


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دنیا میں ایک غیرت مند اور عزت دار قوم کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا طریقہ بھی سکھا دیا ہے۔
قرآن پاک اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتے ہوئے یہ تین ہدایات دیتا ہے۔

نمبر ایک "اپنے گھوڑے تیار رکھو"۔
نمبر دو "آخر تم ان لوگوں کے لئے کیوں نہیں لڑ پڑتے جنہیں کمزور پا کر دبا لیا گیا ہے"۔
نمبر تین "یہود و نصاری تمہارے دوست نہیں ہو سکتے"


یعنی مسلمانوں کو پہلا حکم یہ ہے کہ وقت اور حالات کے مطابق اپنے آپ کو دفاعی لحاظ سے مضبوط رکھو۔ دشمن کی سازشوں کو سمجھو اور اس سے بچاؤ کی ہر ممکن تدبیر کرو۔ اہل، دیانتدار اور صاحب ایمان شخص کی قیادت میں تربیت یافتہ طاقتور فوج تیار کرو جو دستیاب وسائل کے مطابق جدید ترین اسلحہ سے لیس ہو اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہو۔
-
دوسرا حکم یہ ہے کہ اسلامی فوج کا درست اور بروقت استعمال کیا جائے۔ ملک کی جغرافیائی اورنظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور مظلوم مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ بوقت ضرورت ملک و ملت کی حفاظت اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی تمام تر صلاحتوں اور طاقت کا استعمال کیا جائے۔
-
تیسری آیت میں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ یہود و نصاری سے کوئی توقع نہ رکھو۔ اپنے مسائل خود حل کرو۔ ایک دوسرے کو دبانے کے لئے دشمن کے آلہ کار نہ بنو۔
-
جب تک مسلمان ان احکامات پر عمل پیرا رہے ایک عالم پر حکمرانی کرتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر، احد، خندق، تبوک کے معرکوں میں خود شرکت فرما کر امت کو سکھا دیا کہ اللہ کے دین کی حفاظت کے لئے اپنی جان و مال سب نثار کر دو۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں ہی جنگ موتہ میں صرف تین ہزار کے لشکر کے ساتھ رومی سلطنت کی دو لاکھ پیشہ ور فوج کا سامنا کر کے دربار رسالت سے سیف اللہ کا خطاب حاصل کر لیا تھا۔ آگے چل کر خلافت راشدہ کے دور میں حضرت خالد نے حضرت سعد بن ابی وفاص اور حضرت عمرو بن العاص (رضی اللہ عنھم) سے مل کر عالم کفر کی جڑیں ہلا دیں اور دور دور تک اللہ کا پیغام پہنچآ دیا۔


حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے محدود وسائل کے ساتھ اس وقت کی دو طاقتور ریاستوں روم اور کسری کو فتح کر کے اسلام کا پرچم لہرا دیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں کے بحری بیڑے نے افریقہ پہنچ کر لیبیا تیونس اور مراکش کو فتح کیا۔

بنو امیہ کا دور فتوحات کے لحاظ سے بہت بہترین رہا یہاں تک کہ طارق بن زیاد اور موسی بن نصیر نے یورپ میں بھی اسلامی پرچم لہرا دیا۔

حجاج بن یوسف نے ایک مظلوم مسلمان لڑکی کی فریاد پر اپنے کم سن بھتیجے محمد بن قاسم کو ہزاروں میل دور انتہائی پرخطر مہم پر ہندوستان روانہ کیا۔ اللہ کا یہ مجاہد سندھ پہنچا، بہت سے علاقوں کو اسلامی سلطنت کے زیرنگیں کیا اور انتہائی کم عرصہ میں دور دور تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔ اللہ نے انہیں فتح عطا کی کیونکہ وہ اس کے حکم کی پیروی کر کے مظلوموں کی مدد کے لئے نکل کھڑے ہوئے تھے۔

سلطان صلاح الدین ایوبی کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ وہ اپنوں کی غداری اور سازشوں کے باوجود ثابت قدم رہے۔ سلطان ایوبی نے مشکل حالات میں جرات و بہادری کے ساتھ صلیبیوں کا سامنا کیا اور برطانیہ، فرانس، جرمنی، بلجیئم جیسے درجنوں یورپی ملکوں کی لاکھوں کی افواج کو ہر میدان میں شکست دے کر بیت المقدس کو آزاد کروایا۔
-

آج کل مسلم امہ کی جو ناگفتہ بہ حالت ہے اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلمانوں نے اللہ کے ان تینوں احکامات سے کھلم کھلا روگردانی اختیار کی۔ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئے اور آپس میں ہی دست و گریباں ہو گئے۔


اللہ تعالی نے مسلم امہ کو بے بہا معدنی دولت سے نوازا ہے مگر بدقسمتی سے بے تحاشا وسائل ہونے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت غربت کی زنگی گزار رہی ہے اور طاقتور اشرافیہ تمام تر ملکی وسائل پر قابض ہے۔ جو دولت مسلمانوں کی زںدگی بدل سکتی ہے اس دولت سے اسلام دشمن عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حکمرانوں نے قومی وسائل کی لوٹ مار اور کرپشن سے حاصل ہونا سرمایہ امریکہ اور یورپ منتقل کر دیا ہے جو آخر کار مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال ہوتا ہے۔ چند سال عرب بہار کے جو سلسلہ چلا ہے اس میں معزول ہونے والے حکمرانوں کے محلات میں دولت کے جو انبار برآمد ہوئےانہیں
دیکھ کر بڑے بڑوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔

اقتدار کی ہوس نے جہاں سول حکمرانوں کو فرعون بنا دیا وہیں فوجی حکام بھی اپنے اصل فرض سے ہٹ کر محلاتی سازشوں کا حصہ بن گئے۔

ترکی، مصر، پاکستان جیسے ملکوں کے جرنیل ہمیشہ اپنے ہی ملک کو فتح کرتے آئے ہیں۔ جرنیلوں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے اپنے ہی ملک کے شہریوں پر بے پناہ انسانیت سوز جرائم بھی کئے ہیں۔ اگر یہ جذبہ اور وسائل وطن کی حفاظت کے لئے استعمال کئے جاتے تو نہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنتا، نہ قبرص پر یونان کا قبضہ ہوتا نہ ہی شام کے علاقہ گولان اور اردن کی ساحلی پٹی پر اسرائیل قابض ہوتا۔


فلیسطین میں اسرائیل کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے مگر مسلمان اقوام متحدہ جیسی بھینس کے آگے بین بجا رہے ہیں۔ بھارتی فوج کشمیری مسلمانوں کا خون بہا رہی ہے اور ہم امریکہ اور برطانیہ سے مدد کی امید رکھتے ہیں خود اس برائی کی جڑ ہے۔

امریکہ نے خطرناک ہتھیار تلاش کرنے کے بہانے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی مگر مسلمان نہ صرف خاموش رہے بلکہ بہت سے مسلمان ملکوں کی فوج براہ راست اس قتل عام میں شریک رہی۔ لاکھوں عراقیوں کے قتل کے بعد امریکہ واپس چلا گيا اور پیچھے بربادی اور تباہی کی ایک داستان چھوڑ گیا۔ کسی مسلمان کو یہ بھی پوچھنے کی جرات نہ ہوئی کہ صاحب تم نے دس پندرہ لاکھ عراقی قتل کر دیئے اب بتاؤ کہ خطرناک ہتھیار ملے بھی یا نہیں؟

امریکہ کے ٹاور گرانے کا الزام ان مفلوک الحال افغانیوں پر لگایا گیا جن بیچاروں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں۔ اس کے بعد دھشت گردی کی نئی تاریخ رقم کی گئي۔ کارپٹ بمباری نے لاکھوں افغانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس سیاہ کارنامے میں ہماری اپنی فوج بھی حصہ دار رہی ہے۔

جب تک مسلمان اپنے اصل کی طرف واپس نہیں آتے اسی طرح نقصان اٹھاتے رہیں گے۔ نہ کسی اقوام متحدہ نے ان کے آنسو پونچھنے ہیں نہ کسی اور ادارے نے۔ اپنے اندر غیرت اور جذبہ پیدا کرنے کے لئے ٹیپو سلطان کا یہ فرمان کتنا شاندار ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے

اپنے آپ کو اس مشکل دور سے نکالنے کے لئے اپنے آپ کو منظم کرنا ہو گا صرف اور صرف اپنے دست و بازو پر بھروسہ کرنا ہو گا۔ ورنہ بقول شاعر تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں


http://azaddunya.com/articles-and-columns/7043-2014-07-25-21-42-14.html


آپ کی درج کر دہ تین آیات میں سے پہلی آیت پر صرف پاکستان ، ایران اور ترکی پورا اترتے ہیں ۔ وہ بھی اس قدر کہ کافر اقوام ان سے پنگا نہ لیں
کچھ اقوام سیکولر ازم کے لبادے میں چھپ کر کفار کے شر سے بچے ہوئے ہیں

میرے خیال میں ایمان اور علم لازم و ملزوم ہیں ایمان تب ہی بڑھتا ہے جب انسان الله کی دنیا کو جانے اور الله کی کاریگری کا حقیقی شاہد ہو
قرآن پاک میں بھی جگہ جگہ غور و خوص کرنے کا حکم ہے ۔ اور میری یاد داشت کے مطابق ایک جگہ الله نے شکوہ کیا ہے کہ تم لوگ بہت کم غور و خوص کرتے ہو
لہٰذا کچھ اقوام کا امریکا کے ساتھ ٹکرا جانا اس دعوے کے ساتھ کہ ان کا ایمان مستحکم ہے، میری سمجھ سے بلا تر ہے کیوں کہ وہ لوگ جاہلیت میں اپنی مثال آپ ہیں
آپ اگر چاہیں تو بتا دیں کہ ان کے ایمان کو بڑھانے ولی چیز کیا ہے
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
Re: آخرمسلمان ہی کیوں ظلم کا شکار؟


تو بھائی کیا کریں؟ پوری دنیا پر فوج کشی کردیں اور دو سو سال پہلے کی طرح غلام بنالئے جائیں؟
اول تو آج دنیا میں مسلمان صرف نام کے ہیں کردار کے نہیں اور دوسرے یہ کہ مسلمان کالے جھنڈے والوں سے بری طرح پٹ رہے ہیں

فوج کشی کا کون کہتا ہے ؟؟ لیکن آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر بات ضرور کریں ، ہمارے حکمران تو بزدل ہیں ، جن کا اقتدار امریکا کے مرہون منت ہو وہ کس لئے کریں گے ؟ اس لئے اس رزق سے موت اچھی ،جس رزق سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
Re: آخرمسلمان ہی کیوں ظلم کا شکار؟

آپ کی درج کر دہ تین آیات میں سے پہلی آیت پر صرف پاکستان ، ایران اور ترکی پورا اترتے ہیں ۔ وہ بھی اس قدر کہ کافر اقوام ان سے پنگا نہ لیں
کچھ اقوام سیکولر ازم کے لبادے میں چھپ کر کفار کے شر سے بچے ہوئے ہیں

میرے خیال میں ایمان اور علم لازم و ملزوم ہیں ایمان تب ہی بڑھتا ہے جب انسان الله کی دنیا کو جانے اور الله کی کاریگری کا حقیقی شاہد ہو
قرآن پاک میں بھی جگہ جگہ غور و خوص کرنے کا حکم ہے ۔ اور میری یاد داشت کے مطابق ایک جگہ الله نے شکوہ کیا ہے کہ تم لوگ بہت کم غور و خوص کرتے ہو
لہٰذا کچھ اقوام کا امریکا کے ساتھ ٹکرا جانا اس دعوے کے ساتھ کہ ان کا ایمان مستحکم ہے، میری سمجھ سے بلا تر ہے کیوں کہ وہ لوگ جاہلیت میں اپنی مثال آپ ہیں
آپ اگر چاہیں تو بتا دیں کہ ان کے ایمان کو بڑھانے ولی چیز کیا ہے

ایمان اصل چیز ہے ، تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمان کفر کے مقابلے میں ہمیشہ کم تعداد میں رہے ہیں ، موجودہ دور میں آپ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ کفر کے پاس جدید ہھتیار ہیں لیکن یہ دلیل بھی فرسودہ ہو چکی ہے ، دوسری بات کفر کو ہمیشہ اپنی جان کی فکر ہوتی ہے اس لئے تحفظ پہلے ڈھونڈھتا ہے
مسلمان ایسا نہیں سوچتا ، تیسری بات مسلمانوں کو وہ لوگ خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو خود عمل سے جان چھڑاتے اور دوسروں کو ڈراتے ہیں