برطانیہ: 10لاکھ افراد کا بریگزٹ پر دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ

Geek

Chief Minister (5k+ posts)

5c968a1377c98.jpg


برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں بریگزٹ مخالفین کا بڑا مظاہرہ ہوا جہاں انہوں نے حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی سے یورپین یونین سے اخراج کے معاملے پر ایک مرتبہ پھر ریفرنڈم کروانے کا مطالبہ کردیا۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق پیپلزووٹ مارچ کا آغاز پارک لین اور دیگر مقامات سے ہوا اور برطانوی پارلیمنٹ تک پہنچا جہاں آئندہ چند دنوں میں بریگزٹ پر حمتی فیصلہ ہوگا۔

مظاہرین نے یورپین یونین کے پرچم اٹھا رکھے تھے اور یونین کے ساتھ برطانیہ کے طویل شراکت داری برقرار رکھنے کے مطالبے درج تھے۔

بریگزٹ مخالف مظاہرے میں برطانیہ بھر سے عوام موجود تھے جو وزیراعظم تھریسامے کو بریگزٹ سے دست بردار کرنے کے لیے پرعزم تھے۔


لبرل ڈیموکریٹ رہنما وینس نے مظاہرین کی تعداد حیران کن اور متحد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘یہاں پر ملک بھر زندگی کے ہر شعبے اور عمر سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود ہے اور ملک میں ہم 60 فیصد افراد بریگزٹ کو روکنے کے خواہاں ہیں’۔
5c966f3c17c18.jpg

مظاہرے میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے—فوٹو:اے پی
پولیس کی جانب سے مظاہرین کی تعداد کے حوالے سے کوئی رپورٹ جاری نہیں کی گئی تاہم آزاد ذرائع کے مطابق بریگزیٹ پر دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کی تعداد 10 لاکھ تھی۔

دوسری جانب آن لائن پٹیشن میں 40 لاکھ سے زائد افراد نے آرٹیکل 50 کے خلاف ووٹ دیا تھا جو بریگزٹ معاملے کو مزید گھمبیر بنانے کا باعث بن گیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے گزشتہ روز اراکین پارلیمنٹ کو لکھے گئے ایک خط میں کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ بریگزٹ معاہدے کو پارلیمنٹ میں نہ لائیں تاہم دیگر اراکین کا خیال تھا وہ اپنے معاہدے کو اس وقت پارلیمنٹ میں لائیں گی جب اس کی حمایت کرنے والے اراکین کی تعداد زیادہ ہوگی۔

مزید پڑھیں:اراکین نے ساتھ نہیں دیا تو بریگزٹ طویل ہوگا، برطانوی وزیراعظم

خیال رہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں وزیراعظم تھریسامے کے بریگزیٹ منصوبے کی مخالفت میں ووٹ پڑے تھے جس کے بعد انہیں اپنے منصوبے پر عمل درآمد میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور طے شدہ وقت تک بریگزٹ ممکن نہ ہوپایا۔

یورپی یونین اراکین نے برطانیہ کو علیحدگی کے لیے دوڈیڈ لائن دی گئی تھیں اور 22 مئی تک بریگزٹ پر عمل درآمد کے لیے وقت دینے پر اتفاق کیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے اراکین پارلیمنٹ کو لکھے گئے خط کے باوجود تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا۔

برطانوی وزیر اعظم کے ترجمان کے مطابق یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے دو سال قبل طے کی گئی 29 مارچ کی تاریخ سے صرف 10 روز اور یورپی یونین کی اہم ترین کانفرنس سے 2 روز قبل تھریسا مے، یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک کو معاہدے میں تاخیر کے لیے خط لکھ رہی ہیں۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی خودمختاری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتدا میں معاشی مشکلات ضرور ہوں گی لیکن مستقبل میں اس کا فائدہ ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں ہی خرچ ہوسکے گا۔

 

GreenMaple

Prime Minister (20k+ posts)
It's hard to believe that these idiot goras ruled half of the world, which means that we must be even more stupider.
 

Billo Rani

Senator (1k+ posts)
Oh now they want to put it up to vote when they sat on their lazy asses and didn't bother to turn up to vote in the first place when they had the chance. Bohooo. You reap what you sow.