اے کربلا اے کربلا

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
واقعہ کربلا، کتنا سچ کتنا جھوٹ ؟
ساری دنیا کی تمام لائبریاں دیکھ لیں تمام میوزیم دیکھ لیں یا دنیا کے کسی شخص کو دیکھ لیں کسی کے پاس ایک معمولی سا کاغذ کا ٹکڑا نہی ملے گا جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ یہ کسی شعیہ یا سنی تاریخ دان کے اپنے ہاتھ کی لکھی تحریر ہے جو واقعہ کربلا کے متعلق ہے (یہی حال تمام کتب احادیث کا ہے) دستیاب شیعہ سنی اسلامی تاریخ کے مطابق واقعہ کربلا نبی اکرمؐ کی وفات کے تقریباً 50 سال بعد 680 میں ہوا جب ہم دستیاب شعیہ سنی اسلامی تاریخ دیکھتے ہیں تو نبی اکرمؐ کی وفات کے 130 سال بعد جو پہلا تاریخ دان گزرا اسکا نام ابن اسحاق ہے جبکہ اس 130 سال کے دوران بڑے واقعات رو نما ہوے ہوں گے جس میں واقعہ کربلا بھی شامل ہونا چاھیئے لیکن ابن اسحاق کی بیان کی ہوئ پوری تاریخ میں واقعہ کربلا شامل نہی واقعہ کربلا کا ابتدائ تذکرہ ابو مخنف کے شاگردوں نے بیان کیا جو انتہائ مختصر ہے (جی ہاں خود ابو مخنف نے نہی بلکہ اسکے شاگردوں نے ) اسکے بعد واقع کربلا کا تفصیلی زکر تاریخ طبریٰ میں ملتا ہے جو کہ نبی اکرم ؐ کی وفات کے تقریباً 300 سال بعد اور واقعہ کربلا کے تقریبا 250 سال بعد لکھی گئ تاریخ طبریٰ چالیس جلدوں پہ مشتمل ہے جو آسانی سے دستیاب ہے اس کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ اس میں بیان تمام واقعات کا کوئ عینی شاہد نہی اور یہ تمام باتیں صرف اور صرف لوگوں سے سن کر لکھی گئ ہیں اور ساتھ ہی کئ لوگوں کے بارے میں میں لکھا ہے کہ وہ جھوٹے تھے لیکن ان جھوٹوں کی باتوں کو بھی اس لئے شامل کیا گیا ہے کہ واقعات کو پڑھ کر لوگ خود فیصلہ کریں (خیال رہے کہ یہ سارے واقعات لوگ واقعہ کربلا کے 250 سال کے بعد سنا رہے ہیں) کیا آج کے جدید ترین دور میں کوئ تاریخ دان یا کوئ محقق سو فیصد صحیح صحیح یہ لکھ سکتا ہے کہ صحرائے تھر میں آج سے 250 سال پہلے کتنے بچے،جوان،بوڑھے اور خواتین کس مصیبت میں مبتلا ہوکر جاں بحق ہوے ؟ کس کس نے ان بھوکے پیاسے لوگوں کو مارا ؟؟ کس کس نے خوراک اور پانی پہچانے کی سنجیدہ کوشش کی ؟؟ کس کس نے انکو خوراک اور پانی پہنچانے سے روکا ؟؟ کون کامیاب رہا کون ناکام رہا ؟؟ یقینی کوئ ایسا نہی (یہ بھی ایک حیرت کی بات ہے کہ زاکرین کے ہر سال کے بیانات میں کربلا میں ہونے والے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور ذاکرین بھی اس طرح بیان کررہے ہوتے ہیں جیسے ان ذاکرین نے یہ سب کچھ اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھا ہو) اتمام حجت اگر ہم واقعہ کربلا کو من و عن مان لیتے ہیں تو بھی یاد رکھیں کہ آخرت میں ہم سے اس واقعہ کے بارے میں کوئ معمولی سا سوال بھی نہی ہوگا نہ حضرت علیؓ کی ولایت پہ سوال ہوگا نہ باقی تین خلفا راشدین پہ کوئ سوال ہوگا کیا واقعہ کربلا ہمیں وہ سب کچھ سکھاتا ہے جو واقعہ کربلا کی یاد منانے والے کرتے ہیں ایک گروہ اس واقعہ کی یاد میں خود کو مار پیٹ کر لہو لہان کر رہا ہوتا ہے تو دوسرا گروہ ان بھوکے پیاسے لوگوں کو یاد کرکے حلیم بریانی،حلوے اور میٹھے چاولوں کی دیگ پہ "خود کش" حملے کررہا ہوتا ہے خود کو مارپیٹ کرنے والا گروہ یکم محرم سے دودھ اور شربت کی سبیل سجائے اور "نیاز" کے بیش قیمت لنگر تقسیم کررہا ہوتا ہے جبکہ خود کو مارپیٹ کرنے والے گروہ کے نزدیک امام حسینؓ کا قافلہ بھوک اور پیاس کا شکار تھا دونوں گروہ(شیعہ+سنی) کو قافلہ حسینی کی قربانیوں کا کوئ خیال نہی ہوتا خیال صرف اور صرف اپنی "بھوک" کا ہوتا ہے اسی طرح ان گروہوں کا لہو گرمانے والے علما اور ذاکرین کی طرف نظر ڈالیں تو یہ بات سو فیصد سچ ثابت ہوتی ہے کہ اتنا تو واقعہ کربلا میں شمر اور کوفیوں نے نہی کمایا ہوگا جتنا اس واقعہ کو بیان کرکے زاکرین اور علما کما رہے ہیں
 

oscar

Minister (2k+ posts)
واقعہ کربلا، کتنا سچ کتنا جھوٹ ؟
ساری دنیا کی تمام لائبریاں دیکھ لیں تمام میوزیم دیکھ لیں یا دنیا کے کسی شخص کو دیکھ لیں کسی کے پاس ایک معمولی سا کاغذ کا ٹکڑا نہی ملے گا جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ یہ کسی شعیہ یا سنی تاریخ دان کے اپنے ہاتھ کی لکھی تحریر ہے جو واقعہ کربلا کے متعلق ہے (یہی حال تمام کتب احادیث کا ہے) دستیاب شیعہ سنی اسلامی تاریخ کے مطابق واقعہ کربلا نبی اکرمؐ کی وفات کے تقریباً 50 سال بعد 680 میں ہوا جب ہم دستیاب شعیہ سنی اسلامی تاریخ دیکھتے ہیں تو نبی اکرمؐ کی وفات کے 130 سال بعد جو پہلا تاریخ دان گزرا اسکا نام ابن اسحاق ہے جبکہ اس 130 سال کے دوران بڑے واقعات رو نما ہوے ہوں گے جس میں واقعہ کربلا بھی شامل ہونا چاھیئے لیکن ابن اسحاق کی بیان کی ہوئ پوری تاریخ میں واقعہ کربلا شامل نہی واقعہ کربلا کا ابتدائ تذکرہ ابو مخنف کے شاگردوں نے بیان کیا جو انتہائ مختصر ہے (جی ہاں خود ابو مخنف نے نہی بلکہ اسکے شاگردوں نے ) اسکے بعد واقع کربلا کا تفصیلی زکر تاریخ طبریٰ میں ملتا ہے جو کہ نبی اکرم ؐ کی وفات کے تقریباً 300 سال بعد اور واقعہ کربلا کے تقریبا 250 سال بعد لکھی گئ تاریخ طبریٰ چالیس جلدوں پہ مشتمل ہے جو آسانی سے دستیاب ہے اس کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ اس میں بیان تمام واقعات کا کوئ عینی شاہد نہی اور یہ تمام باتیں صرف اور صرف لوگوں سے سن کر لکھی گئ ہیں اور ساتھ ہی کئ لوگوں کے بارے میں میں لکھا ہے کہ وہ جھوٹے تھے لیکن ان جھوٹوں کی باتوں کو بھی اس لئے شامل کیا گیا ہے کہ واقعات کو پڑھ کر لوگ خود فیصلہ کریں (خیال رہے کہ یہ سارے واقعات لوگ واقعہ کربلا کے 250 سال کے بعد سنا رہے ہیں) کیا آج کے جدید ترین دور میں کوئ تاریخ دان یا کوئ محقق سو فیصد صحیح صحیح یہ لکھ سکتا ہے کہ صحرائے تھر میں آج سے 250 سال پہلے کتنے بچے،جوان،بوڑھے اور خواتین کس مصیبت میں مبتلا ہوکر جاں بحق ہوے ؟ کس کس نے ان بھوکے پیاسے لوگوں کو مارا ؟؟ کس کس نے خوراک اور پانی پہچانے کی سنجیدہ کوشش کی ؟؟ کس کس نے انکو خوراک اور پانی پہنچانے سے روکا ؟؟ کون کامیاب رہا کون ناکام رہا ؟؟ یقینی کوئ ایسا نہی (یہ بھی ایک حیرت کی بات ہے کہ زاکرین کے ہر سال کے بیانات میں کربلا میں ہونے والے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور ذاکرین بھی اس طرح بیان کررہے ہوتے ہیں جیسے ان ذاکرین نے یہ سب کچھ اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھا ہو) اتمام حجت اگر ہم واقعہ کربلا کو من و عن مان لیتے ہیں تو بھی یاد رکھیں کہ آخرت میں ہم سے اس واقعہ کے بارے میں کوئ معمولی سا سوال بھی نہی ہوگا نہ حضرت علیؓ کی ولایت پہ سوال ہوگا نہ باقی تین خلفا راشدین پہ کوئ سوال ہوگا کیا واقعہ کربلا ہمیں وہ سب کچھ سکھاتا ہے جو واقعہ کربلا کی یاد منانے والے کرتے ہیں ایک گروہ اس واقعہ کی یاد میں خود کو مار پیٹ کر لہو لہان کر رہا ہوتا ہے تو دوسرا گروہ ان بھوکے پیاسے لوگوں کو یاد کرکے حلیم بریانی،حلوے اور میٹھے چاولوں کی دیگ پہ "خود کش" حملے کررہا ہوتا ہے خود کو مارپیٹ کرنے والا گروہ یکم محرم سے دودھ اور شربت کی سبیل سجائے اور "نیاز" کے بیش قیمت لنگر تقسیم کررہا ہوتا ہے جبکہ خود کو مارپیٹ کرنے والے گروہ کے نزدیک امام حسینؓ کا قافلہ بھوک اور پیاس کا شکار تھا دونوں گروہ(شیعہ+سنی) کو قافلہ حسینی کی قربانیوں کا کوئ خیال نہی ہوتا خیال صرف اور صرف اپنی "بھوک" کا ہوتا ہے اسی طرح ان گروہوں کا لہو گرمانے والے علما اور ذاکرین کی طرف نظر ڈالیں تو یہ بات سو فیصد سچ ثابت ہوتی ہے کہ اتنا تو واقعہ کربلا میں شمر اور کوفیوں نے نہی کمایا ہوگا جتنا اس واقعہ کو بیان کرکے زاکرین اور علما کما رہے ہیں
اتنی لمبی پوسٹ آپ خود لکھتے تو جواب بنتا تھا۔ پرویزیوں کے پیج سے کاپی پیسٹ پر کیا کہا جائے
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
What is wrong with it?


پرویزی فقہ منکرین حدیث ہی کی ایک قسم ہے جوکہ غلام احمد پرویز بٹالوی کی طرف منسوب ہے، اس فرقے کے عقائد قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے بالکل مخالف ہیں، یہ فرقہ ظاہراً حدیث رسول کا منکر ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ فرقہ قرآن کریم اور مذہب اسلام کا بھی مخالف ہے؛ کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک مذہب اسلام کا مدار دو ہی چیزیں رہی ہیں۔ (۱) کتاب اللہ، (۲) سنت رسول اللہ (حدیث) خلفائے راشدین، صحابہٴ کرام فقہائے عظام؛ بلکہ تمام عالم کے علماء حدیث رسول کو حجت مانتے آئے ہیں، مگر اس فرقے کا خیال اور عقیدہ یہ ہے کہ حدیث رسول حجت نہیں۔ در اصل اس فرقے کا مقصد صرف انکار حدیث تک محدود نہیں بلکہ یہ لوگ اسلام کے سارے نظام کو مخدوش کرکے ہرامر ونہی سے آزاد رہنا چاہتے ہیں، نمازوں کے اوقاتِ خمسہ، تعداد رکعات، فرائض وواجبات کی تفصیل، صوم وصلاة کے مفصل احکام، حج کے مناسک، بیع وشراء، امور خانہ داری، ازدواجی معاملات، اور معاشرت کے قوانین ان سب امور کی تفصیل حدیث ہی سے ثابت ہے، قرآن کریم میں ہرچیز کا بیان اجمالاً ہے جس کی تشریح وتفصیل حدیث میں ہے، یہ فرقہ ان سب تفصیلات اور پورے نظام کو یکسر بدلنا چاہتا ہے، نیز قرآن کریم میں بھی من مانی تفسیر کرکے حقیقی مطالب اور مرادِ الٰہی کو ختم کردینا چاہتا ہے، یہ فرقہ اہل قرآن کہلواتا ہے، بظاہر قرآن کی تائید میں مضامین بھی لکھتا ہے؛ لیکن درحقیقت یہ فرقہ قرآن کریم کی روح اور اس کے مفہوم کو فنا کردینا چاہتا ہے، یہی نہیں بلکہ قرآنِ کریم کی حقّانیت کو مخدوش کرنا چاہتا ہے، صحابہ، تابعین، محدثین، فقہاء، صوفیاء، اولیاء اورعلماء کو (نعوذ باللہ) قرآن کریم کا دشمن بتاتا ہے جب کہ انھی اسلاف کے توسط سے ہم تک دین اسلام پہنچا ہے۔ اس فرقے کے ایسے ایسے باطل عقائد ہیں کہ جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں؛ بلکہ ان عقائد کو تسلیم کرنے سے توہین خدا وتوہین رسول لازم آتی ہے جو کہ کفر کو مستلزم ہے۔ مثلاً: (۱) فرض صرف دو نمازیں ہیں۔ (۲) حج ایک بین الاقوامی کانفرنس ہے، اور قربانی کا مقصد بین الاقوامی سرمایہ کا ضیاع ہے۔ (۳) احادیث مبارکہ صرف تاریخی ہیں، حجت نہیں۔ (۴) ہمارا حدیثوں پر ایمان نہیں ہے۔ (۵) تمام حدیثیں ظنی ہیں، قرآن نے ظن پر عمل کرنے سے منع کیا ہے۔ (۶) صرف مردار، بہتا خون اور غیر اللہ کی طرف منسوب چیزیں حرام ہیں اسکے علاوہ تمام چیزیں حلال اور سب کا کھانا فرض ہے یعنی کہ کتا، کدھا، گیدڑ، بلی، چوہا حتی کہ پیشاب پاخانہ بھی حلال ہیں اور کھانا فرض ہیں۔ (طلوع اسلام) وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال قرآن کریم میں نہ جانے کتنی جگہ ارشاد ہے کہ نبی کا قول وفعل مانو اور اس کی اتباع کرو، اور نبی کا قول وفعل ہی حدیث ہے، لہٰذا حدیثِ رسول قرآن کے مطابق حجت ہیں اور یہ فرقہ اہل قرآن کہلواتا ہے؛ لہٰذا حدیث رسول کو بھی حجت ماننا پڑے گا ورنہ یہ فرقہ اپنے دعوی میں جھوٹا ہے، قرآن کریم میں ہے: ﴿اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ﴾ اطاعتِ خداو اطاعت رسول حدیث کو حجت مانے بغیر محال ہے۔ دوسری جگہ ہے: ﴿وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا﴾ تیسری جگہ ہے: ﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ اٰیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ﴾چوتھی جگہ ہے: ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ پانچویں جگہ ہے: ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ﴾ چھٹی جگہ ارشاد ہے: ﴿وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾ ساتویں جگہ ہے: ﴿وَاِنْ تُطِیْعُوْہُ تَہْتَدُوْا﴾ آٹھویں جگہ ہے: ﴿وَمَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ﴾ نویں جگہ ارشاد گرامی ہے: ﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ﴾ اس کے علاوہ اور بہت ساری آیتیں صراحةً ودلالةً حجیت حدیث پر دال ہیں، حدیثِ رسول کو حجت مانے بغیر اہل قرآن ہونے کا دعویٰ بالکل جھوٹا ہے۔
نیز اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لا یوٴمن أحدکم حتی یکون ہواہ تبعًا لما جئت بہ (شرح السنة) دوسری جگہ ارشاد ہے: علیکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدین المہدیین (أبو داوٴد) ولو ترکتم سنة نبیکم لضللتم (مسند أحمد بن حنبل) من عمل بسنتي دخل الجنة (ترمذي) ان کے علاوہ اور بہت ساری احادیث نبویہ اور آیاتِ مبارکہ سے حدیث کا حجت ہونا بالکل عیاں ہوجاتا ہے؛ لہٰذا ان تمام دلائل کے ہوتے ہوئے اگر کوئی نادان، کم عقل حجیت حدیث کا منکر ہے تو وہ قرآن کریم کا بھی منکر ہے، رسول علیہ السلام کا بھی دشمن ہے، نتیجةً اللہ تبارک وتعالیٰ کا دشمن ہے، اور اسکا اہل قرآن ہونے کا دعویٰ سراسر قرآن کریم اور مذہب اسلام کے مخالف ہے۔ اس فرقے کے ان باطل نظریات وعقائد کو دیکھ کر بس یہی دعا کرنے کو دل چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو ہدایت کے بعد گم راہی سے محفوظ فرمائے اور دماغی توازن بگڑجانے سے آخری سانس تک حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین۔

واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
What is wrong with it?


#11





فتنہ پرویزیت


ضروریات دین کا منکر کافر ہے۔


غلام احمد پرویز کے کفر پر تمام علمائے کرام کا اتفاق ہے۔
جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے دارالافتاء کا متفقہ فتویٰ۔
طلوع اسلام نامی جماعت کے عقائد و افکار کہ جن کو اس جماعت کے بانی غلام احمد پرویز اور اس کے پیروکاروں نے اپنی کتابوں اور مضامین کے ذریعہ پھیلایا ہے ، یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ جماعت متعدد گمراہیوں کا مجموعہ ہے۔یہ جماعت اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اتباع کو جھٹلاتی ہے اور مؤمنین کے راستے پر نہیں ہے اور معروف ضروریات دین میں تحریف کرتی ہے۔ لہٰذا یہ کافر ہے او ردین اسلام سے مرتد ہے۔ (اُردو ترجمہ)
عبدالعزیز بن عبداللہ بن آل شیخ، مفتی اعظم برائے حکومت سعودی عرب
عبدالعزیز بن عبداللہ بن آل شیخ ، مفتی اعظم برائے حکومت سعودی عرب کا عربی فتویٰ
حجیت حدیث کا منکر اور عبادات کے معنی و مفہوم میں تحریف کرنے والا کافر ہے۔
(مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد رفیع عثمانی کا فتویٰ)
غلام احمد پرویز نے مسلمات دین کا بڑی دیدہ دلیری سے انکار کیا ہے۔ اس کے خیالات قطعاً ناقابل برداشت ہیں۔ ہم کویت کی عدالت عظمیٰ اور مفتی اعظم سعودیہ کے فیصلوں کو مبنی برحق سمجھتے ہیں۔ ( وفاقی وزیرامور مذہبی و اقلیتی امور راجہ ظفر الحق کا سرکاری فیصلہ)
پرویز اپنے عقائد کے اعتبار سے ملحد، زندیق اور اسلام سے خارج ہے۔اسلامی حکومتوں پر واجب ہے کہ وہ اس قسم کے دشمنوں سے باخبر رہیں اور ان سے جہاد کریں۔
(چیف جسٹس عدالت عظمیٰ اسلامی امارت افغانستان)
’’دجالوں میں ایک دجال متنبی غلام احمد قادیانی ہے اور دوسرا کہ جس کا نام غلام احمد اور لقب پرویز ہے۔‘‘
(جامعۃ العلوم الاسلامیہ۔ بنوری ٹاؤن کراچی۔ ڈاکٹرعبدالرزاق اسکندر اور دارالافتاء کا فتویٰ)
اسلامی حکومتوں پر لازم ہے کہ فتنہ (پرویزیت) کا استیصال کریں اور ا س کی دعوت پر پابندی لگائیں۔ ان کی تالیفات کو ضبط کریں اور ان کی مجلسوں کو ممنوع قرار دیں۔
(دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)
(i)ہم غلام احمد پرویز اور اس کے ہم عقیدہ لوگوں کو کافر و مرتد سمجھتے ہیں۔
مفتی اعظم سعودیہ عبدالعزیز بن باز اور وزارت الاوقاف کویت کے جاری کردہ فتاویٰ کی تائید، تصدیق اور توثیق کرتے ہیں۔
(ii) غلام احمد پرویز چونکہ حدیث کی حجیت اور دیگر بعض ضروریات دین کا انکار کرتا ہے اس لئے وہ اور ان کے متبعین دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
(جامعہ اشرفیہ لاہور پاکستان اور جامعہ خیرالمدارس ملتان متفقہ فیصلہ)
غلام احمد پرویز اور طلوع اسلام کے باطل افکار گمراہ کن ہیں۔ علمائے امت کا پرویز کے کفر و الحاد پر اجماع مبنی برحق ہے۔ (شیخ الحدیث مولانا سراج الدین ) دارالعلوم نعمانیہ اور سرپرست اعلیٰ جامعہ سراج العلوم، ڈیرہ اسماعیل خان)
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)

پرویزی فقہ منکرین حدیث ہی کی ایک قسم ہے جوکہ غلام احمد پرویز بٹالوی کی طرف منسوب ہے، اس فرقے کے عقائد قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے بالکل مخالف ہیں، یہ فرقہ ظاہراً حدیث رسول کا منکر ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ فرقہ قرآن کریم اور مذہب اسلام کا بھی مخالف ہے؛ کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک مذہب اسلام کا مدار دو ہی چیزیں رہی ہیں۔ (۱) کتاب اللہ، (۲) سنت رسول اللہ (حدیث) خلفائے راشدین، صحابہٴ کرام فقہائے عظام؛ بلکہ تمام عالم کے علماء حدیث رسول کو حجت مانتے آئے ہیں، مگر اس فرقے کا خیال اور عقیدہ یہ ہے کہ حدیث رسول حجت نہیں۔ در اصل اس فرقے کا مقصد صرف انکار حدیث تک محدود نہیں بلکہ یہ لوگ اسلام کے سارے نظام کو مخدوش کرکے ہرامر ونہی سے آزاد رہنا چاہتے ہیں، نمازوں کے اوقاتِ خمسہ، تعداد رکعات، فرائض وواجبات کی تفصیل، صوم وصلاة کے مفصل احکام، حج کے مناسک، بیع وشراء، امور خانہ داری، ازدواجی معاملات، اور معاشرت کے قوانین ان سب امور کی تفصیل حدیث ہی سے ثابت ہے، قرآن کریم میں ہرچیز کا بیان اجمالاً ہے جس کی تشریح وتفصیل حدیث میں ہے، یہ فرقہ ان سب تفصیلات اور پورے نظام کو یکسر بدلنا چاہتا ہے، نیز قرآن کریم میں بھی من مانی تفسیر کرکے حقیقی مطالب اور مرادِ الٰہی کو ختم کردینا چاہتا ہے، یہ فرقہ اہل قرآن کہلواتا ہے، بظاہر قرآن کی تائید میں مضامین بھی لکھتا ہے؛ لیکن درحقیقت یہ فرقہ قرآن کریم کی روح اور اس کے مفہوم کو فنا کردینا چاہتا ہے، یہی نہیں بلکہ قرآنِ کریم کی حقّانیت کو مخدوش کرنا چاہتا ہے، صحابہ، تابعین، محدثین، فقہاء، صوفیاء، اولیاء اورعلماء کو (نعوذ باللہ) قرآن کریم کا دشمن بتاتا ہے جب کہ انھی اسلاف کے توسط سے ہم تک دین اسلام پہنچا ہے۔ اس فرقے کے ایسے ایسے باطل عقائد ہیں کہ جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں؛ بلکہ ان عقائد کو تسلیم کرنے سے توہین خدا وتوہین رسول لازم آتی ہے جو کہ کفر کو مستلزم ہے۔ مثلاً: (۱) فرض صرف دو نمازیں ہیں۔ (۲) حج ایک بین الاقوامی کانفرنس ہے، اور قربانی کا مقصد بین الاقوامی سرمایہ کا ضیاع ہے۔ (۳) احادیث مبارکہ صرف تاریخی ہیں، حجت نہیں۔ (۴) ہمارا حدیثوں پر ایمان نہیں ہے۔ (۵) تمام حدیثیں ظنی ہیں، قرآن نے ظن پر عمل کرنے سے منع کیا ہے۔ (۶) صرف مردار، بہتا خون اور غیر اللہ کی طرف منسوب چیزیں حرام ہیں اسکے علاوہ تمام چیزیں حلال اور سب کا کھانا فرض ہے یعنی کہ کتا، کدھا، گیدڑ، بلی، چوہا حتی کہ پیشاب پاخانہ بھی حلال ہیں اور کھانا فرض ہیں۔ (طلوع اسلام) وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال قرآن کریم میں نہ جانے کتنی جگہ ارشاد ہے کہ نبی کا قول وفعل مانو اور اس کی اتباع کرو، اور نبی کا قول وفعل ہی حدیث ہے، لہٰذا حدیثِ رسول قرآن کے مطابق حجت ہیں اور یہ فرقہ اہل قرآن کہلواتا ہے؛ لہٰذا حدیث رسول کو بھی حجت ماننا پڑے گا ورنہ یہ فرقہ اپنے دعوی میں جھوٹا ہے، قرآن کریم میں ہے: ﴿اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ﴾ اطاعتِ خداو اطاعت رسول حدیث کو حجت مانے بغیر محال ہے۔ دوسری جگہ ہے: ﴿وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا﴾ تیسری جگہ ہے: ﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ اٰیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ﴾چوتھی جگہ ہے: ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ پانچویں جگہ ہے: ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ﴾ چھٹی جگہ ارشاد ہے: ﴿وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾ ساتویں جگہ ہے: ﴿وَاِنْ تُطِیْعُوْہُ تَہْتَدُوْا﴾ آٹھویں جگہ ہے: ﴿وَمَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ﴾ نویں جگہ ارشاد گرامی ہے: ﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ﴾ اس کے علاوہ اور بہت ساری آیتیں صراحةً ودلالةً حجیت حدیث پر دال ہیں، حدیثِ رسول کو حجت مانے بغیر اہل قرآن ہونے کا دعویٰ بالکل جھوٹا ہے۔
نیز اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لا یوٴمن أحدکم حتی یکون ہواہ تبعًا لما جئت بہ (شرح السنة) دوسری جگہ ارشاد ہے: علیکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدین المہدیین (أبو داوٴد) ولو ترکتم سنة نبیکم لضللتم (مسند أحمد بن حنبل) من عمل بسنتي دخل الجنة (ترمذي) ان کے علاوہ اور بہت ساری احادیث نبویہ اور آیاتِ مبارکہ سے حدیث کا حجت ہونا بالکل عیاں ہوجاتا ہے؛ لہٰذا ان تمام دلائل کے ہوتے ہوئے اگر کوئی نادان، کم عقل حجیت حدیث کا منکر ہے تو وہ قرآن کریم کا بھی منکر ہے، رسول علیہ السلام کا بھی دشمن ہے، نتیجةً اللہ تبارک وتعالیٰ کا دشمن ہے، اور اسکا اہل قرآن ہونے کا دعویٰ سراسر قرآن کریم اور مذہب اسلام کے مخالف ہے۔ اس فرقے کے ان باطل نظریات وعقائد کو دیکھ کر بس یہی دعا کرنے کو دل چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو ہدایت کے بعد گم راہی سے محفوظ فرمائے اور دماغی توازن بگڑجانے سے آخری سانس تک حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین۔

واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند
Pervaiz was a genuine scholar of Islam. How can you label him as sect?
Sect is Shia Sunni wahabi deobandi bralevi ahle hadeeth QADIANI etc.
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
Pervaiz was a genuine scholar of Islam. How can you label him as sect?
Sect is Shia Sunni wahabi deobandi bralevi ahle hadeeth QADIANI etc.


فرقہ پرویزیت (منکرینِ حدیث) کے عقائد و نظریات
----------------------------
پرویزی فتنہ کیا ہے اور اسکے مذموم مقاصد کیا ہیں۔اور یہ خود کو اہلِ قرآن کہہ کر مسلمانوں کو کس طرح اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔
اب ہم اس فتنے کے رہبر غلام احمد پرویز کی کتب سے اسکے عقائد و نظریات پیش کرتے ہیں تاکہ ہم اس فتنے سے محفوظ رہ کر اپنا ایمان بچا سکیں۔
۱۔ حدیث عجمی سازش ہے۔
(مقام حدیث:۱/۴۲۱۔ ادارہ طلوع اسلام کراچی)
۲۔ آج جو اسلام دنیا میں رائج ہے اس کا قرآنی دین سےکوئی واسطہ نہیں ہے۔
(مقام حدیث:۱/۳۹۱۔ ادارہ طلوع اسلام کراچی)
۳۔ قرآن مجید میں جہاں پر اللہ اور رسول کا نام آیا ہے اس سے مراد مرکز ملت ہے۔
(اسلامی نظام:۸۶۔ ادارہ طلوع اسلام کراچی۔ معارف القرآن:۴/۶۲۶)
۴۔ اور جہاں پر اللہ اور رسول کی اطاعت کا ذکر ہے اس سے مراد مرکزی حکومت کی اطاعت ہے۔
(معارف القرآن:۴/۶۲۶)
۵۔ قرآن میں أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (نساء:۵۹) میں اولی الامر سے مراد افسرانِ ماتحت ہیں۔
(اسلامی نظام:۱۱۰)
۶۔ رسول کا کام صرف اتنا تھا کہ وہ اللہ کا قانون انسانوں تک پہنچادیں۔
(سلیم کے نام (پرویز):۲/۳۴، ادارہ طلوعِ اسلام کراچی)
۷۔ آپﷺ کی وفات کے بعد آپؐ کی اطاعت نہیں ہوگی، اطاعت زندوں کی ہوتی ہے۔
(سلیم کے نام (۱۵واں خط) ۲۵۰۔ خط نمبر۲۰۔۲۱ میں بھی یہی مضمون ہے)
۸۔ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اب انسانوں کو اپنا معاملہ خود ہی حل کرنا ہوگا۔
(سلیم کے نام (۱۵واں خط) ۲۵۰۔ خط نمبر۲۰۔۲۱ میں بھی یہی مضمون ہے)
۹۔ مرکز ملت کو اختیار ہے کہ وہ عبادات، نماز، روزہ، معاملات وغیرہ میں جس چیز کو دل چاہے بدل دے۔
(قرآنی فیصلے:۳۰۱۔ ادارہ طلوعِ اسلام کراچی)
۱۰۔ اللہ تعالیٰ کا (معاذ اللہ) کوئی خارج میں وجود نہیں ہے، بلکہ اللہ ان صافت کا نام ہے جو انسان اپنے اندر تصور کرتا ہے۔
(معارف القرآن:۴/۴۲۰)
۱۱۔ آخرت سے مراد مستقبل ہے۔
(سلیم کے نام ۲۱واں خط:۲/۱۲۴)
۱۲۔ آدم علیہ السلام کا کوئی وجود نہیں، یہ تو نام ہے نوعِ انسانی کا۔
(لغات القرآن:۱/۲۱۴)
۱۳۔ آپﷺ کا قرآن مجید کے سواء کوئی معجزہ نہیں ہے۔
(سلیم کے نام خط:۳/۳۶۔۳/۹۱۔ معارف القرآن:۴/۷۳۱)
۱۴۔ نماز مجوسیوں سے لی ہوئی ہے، قرآن مجید نے نماز پڑھنے کے لئے نہیں کہا بلکہ قیامِ صلوٰۃ یعنی نماز کے نظام کو قائم کرنے کا حکم ہے، مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کو ان بنیادوں پر قائم کرنا چاہئے جن سے اللہ کی ربوبیت کی عمارت قائم ہوجائے۔
(قرآن فیصلے:۲۶۔ معارف القرآن:۴/۳۲۸۔ نظامِ ربوبیت:۸۷)
۱۵۔ آپﷺ کے زمانہ میں نماز دو وقت میں تھی(فجر و عشاء)۔
(لغات القرآن:۳/۱۰۴۳)
۱۶۔ زکوٰۃ اس ٹیکس کا نام ہے جو اسلامی حکومت لیتی ہے۔
(قرآنی فیصلے:۳۷۔ سلیم کے نام ۵واں خط:۱/۷۷)
۱۷۔ آج کل زکوٰۃ نہیں ہے، کیونکہ ٹیکس ادا کردیا جاتا ہے، تو اب زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
(نظامِ ربوبیت:۷۸)
۱۸۔ حج نام ہے عالمِ اسلامی کی عالمی کانفرنس کا۔
(لغات القرآن:۲/۴۷۴)
۱۹۔ قربانی تو صرف عالمی کانفرنس میں شرکاء کے کھلانے کے لئے تھی، باقی قربانی کا حکم کہیں نہیں۔
(رسالہ قربانی:۳۔ قرآنی فیصلے:۵۵/۱۰۴)
۲۰۔ قرآن کی روح سے سارے مسلمان کافر ہوتے، موجودہ زمانہ کے مسلمان برہمنو سماجی مسلمان ہیں۔
(سلیم کے نام ۳۵واں خطا:۳/۱۹۷)
۲۱۔ صرف چار چیزیں حرام ہیں: (۱)بہتا ہوا خون۔ (۲)خنزیر کا خون۔ (۳)غیر اللہ کے نام کی طرف منسوب چیزیں۔ (۴)مردار۔
(حلال و حرام کی تحقیق)
۲۲۔ جنت اور جہنم کی بھی کوئی حقیقت نہیں، جو صرف انسانی ذات کی کیفیات کے یہ نام ہیں۔
(لغات القرآن:۱/۴۴۹، ادارہ طلوع اسلام لاہور)
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)

#11





فتنہ پرویزیت






فرقہ پرویزیت (منکرینِ حدیث) کے عقائد و نظریات
----------------------------
پرویزی فتنہ کیا ہے اور اسکے مذموم مقاصد کیا ہیں۔اور یہ خود کو اہلِ قرآن کہہ کر مسلمانوں کو کس طرح اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔
اب ہم اس فتنے کے رہبر غلام احمد پرویز کی کتب سے اسکے عقائد و نظریات پیش کرتے ہیں تاکہ ہم اس فتنے سے محفوظ رہ کر اپنا ایمان بچا سکیں۔
۱۔ حدیث عجمی سازش ہے۔
(مقام حدیث:۱/۴۲۱۔ ادارہ طلوع اسلام کراچی)
۲۔ آج جو اسلام دنیا میں رائج ہے اس کا قرآنی دین سےکوئی واسطہ نہیں ہے۔
(مقام حدیث:۱/۳۹۱۔ ادارہ طلوع اسلام کراچی)
۳۔ قرآن مجید میں جہاں پر اللہ اور رسول کا نام آیا ہے اس سے مراد مرکز ملت ہے۔
(اسلامی نظام:۸۶۔ ادارہ طلوع اسلام کراچی۔ معارف القرآن:۴/۶۲۶)
۴۔ اور جہاں پر اللہ اور رسول کی اطاعت کا ذکر ہے اس سے مراد مرکزی حکومت کی اطاعت ہے۔
(معارف القرآن:۴/۶۲۶)
۵۔ قرآن میں أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (نساء:۵۹) میں اولی الامر سے مراد افسرانِ ماتحت ہیں۔
(اسلامی نظام:۱۱۰)
۶۔ رسول کا کام صرف اتنا تھا کہ وہ اللہ کا قانون انسانوں تک پہنچادیں۔
(سلیم کے نام (پرویز):۲/۳۴، ادارہ طلوعِ اسلام کراچی)
۷۔ آپﷺ کی وفات کے بعد آپؐ کی اطاعت نہیں ہوگی، اطاعت زندوں کی ہوتی ہے۔
(سلیم کے نام (۱۵واں خط) ۲۵۰۔ خط نمبر۲۰۔۲۱ میں بھی یہی مضمون ہے)
۸۔ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اب انسانوں کو اپنا معاملہ خود ہی حل کرنا ہوگا۔
(سلیم کے نام (۱۵واں خط) ۲۵۰۔ خط نمبر۲۰۔۲۱ میں بھی یہی مضمون ہے)
۹۔ مرکز ملت کو اختیار ہے کہ وہ عبادات، نماز، روزہ، معاملات وغیرہ میں جس چیز کو دل چاہے بدل دے۔
(قرآنی فیصلے:۳۰۱۔ ادارہ طلوعِ اسلام کراچی)
۱۰۔ اللہ تعالیٰ کا (معاذ اللہ) کوئی خارج میں وجود نہیں ہے، بلکہ اللہ ان صافت کا نام ہے جو انسان اپنے اندر تصور کرتا ہے۔
(معارف القرآن:۴/۴۲۰)
۱۱۔ آخرت سے مراد مستقبل ہے۔
(سلیم کے نام ۲۱واں خط:۲/۱۲۴)
۱۲۔ آدم علیہ السلام کا کوئی وجود نہیں، یہ تو نام ہے نوعِ انسانی کا۔
(لغات القرآن:۱/۲۱۴)
۱۳۔ آپﷺ کا قرآن مجید کے سواء کوئی معجزہ نہیں ہے۔
(سلیم کے نام خط:۳/۳۶۔۳/۹۱۔ معارف القرآن:۴/۷۳۱)
۱۴۔ نماز مجوسیوں سے لی ہوئی ہے، قرآن مجید نے نماز پڑھنے کے لئے نہیں کہا بلکہ قیامِ صلوٰۃ یعنی نماز کے نظام کو قائم کرنے کا حکم ہے، مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کو ان بنیادوں پر قائم کرنا چاہئے جن سے اللہ کی ربوبیت کی عمارت قائم ہوجائے۔
(قرآن فیصلے:۲۶۔ معارف القرآن:۴/۳۲۸۔ نظامِ ربوبیت:۸۷)
۱۵۔ آپﷺ کے زمانہ میں نماز دو وقت میں تھی(فجر و عشاء)۔
(لغات القرآن:۳/۱۰۴۳)
۱۶۔ زکوٰۃ اس ٹیکس کا نام ہے جو اسلامی حکومت لیتی ہے۔
(قرآنی فیصلے:۳۷۔ سلیم کے نام ۵واں خط:۱/۷۷)
۱۷۔ آج کل زکوٰۃ نہیں ہے، کیونکہ ٹیکس ادا کردیا جاتا ہے، تو اب زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
(نظامِ ربوبیت:۷۸)
۱۸۔ حج نام ہے عالمِ اسلامی کی عالمی کانفرنس کا۔
(لغات القرآن:۲/۴۷۴)
۱۹۔ قربانی تو صرف عالمی کانفرنس میں شرکاء کے کھلانے کے لئے تھی، باقی قربانی کا حکم کہیں نہیں۔
(رسالہ قربانی:۳۔ قرآنی فیصلے:۵۵/۱۰۴)
۲۰۔ قرآن کی روح سے سارے مسلمان کافر ہوتے، موجودہ زمانہ کے مسلمان برہمنو سماجی مسلمان ہیں۔
(سلیم کے نام ۳۵واں خطا:۳/۱۹۷)
۲۱۔ صرف چار چیزیں حرام ہیں: (۱)بہتا ہوا خون۔ (۲)خنزیر کا خون۔ (۳)غیر اللہ کے نام کی طرف منسوب چیزیں۔ (۴)مردار۔
(حلال و حرام کی تحقیق)
۲۲۔ جنت اور جہنم کی بھی کوئی حقیقت نہیں، جو صرف انسانی ذات کی کیفیات کے یہ نام ہیں۔
(لغات القرآن:۱/۴۴۹، ادارہ طلوع اسلام لاہور)
Have you read the Quran?
If not, I sincerely suggest you do before copy pasting.
 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
asal baat ye hai khud ko musalmaan kehlwane waalun ke darmiyaan quraan aur islam per khuli aur saer haasil behs az bas zaroori hai ta keh logoon ko asal haqaaiq ka ilm ho sake aur woh aik ummat ban saken.

is ko aap yun samjhen keh jab se insaanu ne hosh sambhaala hai un main nazriyaati ikhtilaaf chalaa aa rahaa hai. issi ko ham ideological warfare ya nazriyati jang kehte hen. isse ham jitna bhi chahen bhaag nahin sakte. balkeh is baat se bhaagne main hi hamaari zillat aur ruswayee chhupi hai. is liye keh jab hamaare paas khud apna nazriya hi naamaloom hai to doosrun se ham nazriyaati jang jeet kaise sakte hen? ye jang khaamosh rehne se aur tool pakarti hai khatam nahin hoti.

koi bhi laazmi baat mukammal tor per kabhi bhi taali nahin jaa sakti. yahee maamla quraan aur deene islam ko theek tarah se samajhne ka hai aik doosre ki madad se. jab tak ham is maamle main taal matol se kaam lete rahen ge hamaari haalat bad se badtar hoti rahe gi.

haan ye baat zaroor hai keh ham ko behso mubahise aik doosre ki baat ko theek tarah se samajhne aur aik doosre ko theek traah se samjhaane ke liye kerne chahiyen. aik doosre ko gaalam galoch aur maar katayee se hat ker. isse baat banti nahin balkeh bigad jaati hai.

mere nazdeek islam deen hai mazhab nahin hai aur na hi ho sakta hai. jo shakhs bhi quraan ko theek tarah se samajhne ki koshish kare ga us ko yahee baat samajh aati jaaye gi quraan se. mazhab kia hota hai aur deen kia hota hai is per main is forum per bahot kuchh likh chuka hun aur likh rahaa hun aur shaayad likhta bhi rahun ga.

logoon ko chahiye woh meri baatun ko pehle samjhen aur phir un per saer haasil behs karen. ye bahot hi zaroori hai agar ham ne khud quraan ko theek tarah se samajh ker deegar insaani duniya ke aage rakhna hai theek tarah se. sirf aur sirf yahee baat ham ko ummat banaa sakti aur duniya bhar ke insaanu ko hamaare saath milaa sakti hai samjhaa bujhaa ker.
 
Last edited: