آشیانہ کیس ٗ قانونی دستاویز نے شہباز اور فواد کیخلاف کیس تباہ کردیا

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
شہباز شریف اور فواد حسن فواد کیخلاف نیب کے آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کے بنیادی کیس کو ایک قانونی دستاویز نے تباہ کر دیا ہے اور اس سے انکشاف ہوا ہے کہ پروجیکٹ کیلئے لطیف اینڈ سنز کا کنٹریکٹ منسوخ ہوا ہی نہیں تھا بلکہ ٹھیکیدار اور پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایل ڈی سی) کے درمیان باہمی معاہدے کے تحت ختم کیا گیا تھا۔ دی نیوز کے پاس معاہدے کی نقل دستیاب ہے، اور یہ نیب کا کیس خراب کرنے کیلئے کافی ہے۔ نیب نے شریف اور فواد کو یہ پروجیکٹ من پسند کمپنی کو دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کر رکھا ہے۔

580487_3668780_08-ashiyana-case_akhbar.jpg


معاہدے کی نقل پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران فواد حسن فواد کے وکیل کی طرف سے پیش کی گئی، اس میں دونوں فریقین، لطیف سنز اور پی ایل ڈی سی، کے دستخط موجود ہیں۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ایک ارب 49؍ کروڑ 52؍ لاکھ 22؍ ہزار 824؍ روپے کے منصوبے پر عمل کیلئے 16؍ فروری 2013ء کو طے پانے والے معاہدے کو فریقین باہمی اتفاق رائے کے ساتھ ختم اور منسوخ کرتے ہیں۔ معاہدے پر 9؍ نومبر 2013ء کو دستخط کیے گئے اور اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ فریقین اپنی منشا اور خوشی سے ناگزیر وجوہات کی بنا پر پروجیکٹ پر عمل کا معاہدہ ختم کرتے ہیں اور کسی بھی فریق کا دوسرے فریق پر کوئی دعویٰ یا ہرجانہ نہیں واجب الادا نہیں ہے۔ اس معاہدے کے منظرعام پر آنے کی وجہ سے نیب کے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق سیکریٹری برائے وزیراعظم کے کیس کو نیا ڈرامائی موڑ مل گیا ہے۔ دونوں نیب کی حراست میں ہیں۔ پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں معاہدے کی نقل پیش کیے جانے کے بعد نیب کا یہ دعویٰ مسترد ہو جاتا ہے کہ فواد حسن فواد نے غیر قانونی طور پر آشیانہ کا کنٹریکٹ اپنے عہدے (سیکریٹری عملدرآمد برائے وزیراعلیٰ پنجاب) کا غلط استعمال کرتے ہوئے منسوخ کرایا۔ نیب کی جانب سے گرفتاری کیلئے جو وجوہات عدالت میں پیش کی گئی تھیں

وہ یہ تھیں کہ مارچ 2013ء کے دوران ملزم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکریٹری فواد حسن فواد (اس وقت کے سیکریٹری عملدرآمد) نے اپنے عہدے اور اختیارات کا غلط استعمال کیا اور اس میں بدنیتی شامل تھی، انہوں نے پی ایل ڈی سی، بورڈ، کے اختیارات غیر قانونی طور پر حاصل کیے اور غیر قانونی ہدایات جاری کیں اور اس وقت کے سی ای او طہور قریشی اور پروجیکٹ ڈائریکٹر سید علی معظم پر دبائو ڈالا کہ وہ چوہدری عبداللطیف اینڈ سنز کو دیے گئے قانونی ٹھیکے کو منسوخ کریں۔ نیب نے مزید الزام عائد کیا تھا کہ فواد حسن فواد نے سی ای او پر دبائو ڈالا کہ وہ ٹھیکہ منسوخ کریں۔

شہباز شریف، جنہیں اکتوبر کے پہلے ہفتے میں گرفتار کیا گیا تھا، پر بھی بدنیتی سے ٹھیکہ منسوخ کرانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ میں پیر کے روز ہونے والی کارروائی میں فواد کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اس وقت سب کو حیران کر دیا جب انہوں نے انشکاف کیا کہ کالسنز (چوہدری لطیف اینڈ سنز) کا ٹھیکہ منسوخ کیا ہی نہیں گیا تھا بلکہ 9؍ نومبر 2013ء کو پی ایل ڈی سی اور کالسنز نے ایک معاہدے کے تحت باہمی رضامندی سے کنٹریکٹ کو ہی منسوخ کر دیا۔ دی نیوز کے پاس اس معاہدے کی مستند نقل دستیاب ہے جو پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کی گئی تھی۔ باہمی معاہدے کی شرائط یہ ہیں کہ آشیانہ کی کنٹریکٹر کمپنی کالسنز فروری 2013ء میں تفویض کردہ تمام حقوق و مفادات سے دستبردار ہو جائے گی۔ معاہدے کے تحت کالسنز نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ کسی بھی طرح کے وسائل کا دعویٰ کرے گی اور نہ ہی کسی طرح کی قانونی چارہ جوئی کرے گی۔ اس کے عوض، پی ایل ڈی سی نے کالسنز کی جانب سے جمع کرائی جانے والی 7؍ کروڑ 40؍ لاکھ (74؍ ملین) روپے کا زر ضمانت واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور کالسنز نے پی ایل ڈی سی کی جانب سے دیئے گئے موبلائزیشن ایڈوانس کی مد میں دیے گئے 74؍ ملین روپے واپس کیے۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ کالسنز کے مستقبل کے ٹینڈرز میں شرکت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔

اس بات پر بھی اتفاق ہوا تھا کہ سائٹ پر جو بھی کام ہو چکا ہے اس کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کی ادائیگی سات دن میں کی جائے گی۔ عدالت میں پیش کردہ دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ کالسنز نے 4؍ کروڑ روپے کا دعویٰ کیا اور ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے دعوے کا جائزہ لیتے ہوئے کالسنز کو 59؍ لاکھ روپے کی ادائیگی کی جسے کالسنز نے قبول کیا۔ معاہدے کی تصدیق نوٹری پبلک کی جانب سے کی گئی ہے۔ فواد کے وکیل نے دلیل دی کہ جس وقت فریقین کے درمیان یہ معاہدہ ہوا اس وقت فواد پنجاب میں کسی عہدے پر نہیں تھے بلکہ انہیں اپریل 2013ء میں وفاقی حکومت میں ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ پروجیکٹ کا معاہدہ منسوخ کرنے کے معاہدے پر اس وقت کے پی ایل ڈی سی کے چیف ایگزیکٹو شاہد لطیف نے دستخط کیے تھے جبکہ نیب نے الزام عائد کیا ہے کہ فواد نے سی ای او طاہر خورشید پر معاہدہ منسوخ کرنے کیلئے دبائو ڈالا،

جبکہ طاہر خورشید باہمی معاہدے سے کئی ماہ قبل ہی ٹرانسفر ہو چکے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ نیب اس کیس پر گزشتہ کئی ماہ سے تحقیقات کر رہا ہے لیکن اس اہم دستاویز کو کبھی سامنے نہیں لایا۔ معاہدے کے سامنے آنے کی وجہ سے شہباز شریف اور فواد حسن فواد کو گرفتار کرنے کیلئے بتائی گئی وجوہات ختم ہو گئی ہیں اور ان کیخلاف نیب کے کیس کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔

Jang
 
Last edited by a moderator:

Nightcrawl

Chief Minister (5k+ posts)
شہباز شریف اور فواد حسن فواد کیخلاف نیب کے آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کے بنیادی کیس کو ایک قانونی دستاویز نے تباہ کر دیا ہے اور اس سے انکشاف ہوا ہے کہ پروجیکٹ کیلئے لطیف اینڈ سنز کا کنٹریکٹ منسوخ ہوا ہی نہیں تھا بلکہ ٹھیکیدار اور پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایل ڈی سی) کے درمیان باہمی معاہدے کے تحت ختم کیا گیا تھا۔ دی نیوز کے پاس معاہدے کی نقل دستیاب ہے، اور یہ نیب کا کیس خراب کرنے کیلئے کافی ہے۔ نیب نے شریف اور فواد کو یہ پروجیکٹ من پسند کمپنی کو دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کر رکھا ہے۔

580487_3668780_08-ashiyana-case_akhbar.jpg


معاہدے کی نقل پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران فواد حسن فواد کے وکیل کی طرف سے پیش کی گئی، اس میں دونوں فریقین، لطیف سنز اور پی ایل ڈی سی، کے دستخط موجود ہیں۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ایک ارب 49؍ کروڑ 52؍ لاکھ 22؍ ہزار 824؍ روپے کے منصوبے پر عمل کیلئے 16؍ فروری 2013ء کو طے پانے والے معاہدے کو فریقین باہمی اتفاق رائے کے ساتھ ختم اور منسوخ کرتے ہیں۔ معاہدے پر 9؍ نومبر 2013ء کو دستخط کیے گئے اور اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ فریقین اپنی منشا اور خوشی سے ناگزیر وجوہات کی بنا پر پروجیکٹ پر عمل کا معاہدہ ختم کرتے ہیں اور کسی بھی فریق کا دوسرے فریق پر کوئی دعویٰ یا ہرجانہ نہیں واجب الادا نہیں ہے۔ اس معاہدے کے منظرعام پر آنے کی وجہ سے نیب کے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق سیکریٹری برائے وزیراعظم کے کیس کو نیا ڈرامائی موڑ مل گیا ہے۔ دونوں نیب کی حراست میں ہیں۔ پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں معاہدے کی نقل پیش کیے جانے کے بعد نیب کا یہ دعویٰ مسترد ہو جاتا ہے کہ فواد حسن فواد نے غیر قانونی طور پر آشیانہ کا کنٹریکٹ اپنے عہدے (سیکریٹری عملدرآمد برائے وزیراعلیٰ پنجاب) کا غلط استعمال کرتے ہوئے منسوخ کرایا۔ نیب کی جانب سے گرفتاری کیلئے جو وجوہات عدالت میں پیش کی گئی تھیں

وہ یہ تھیں کہ مارچ 2013ء کے دوران ملزم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکریٹری فواد حسن فواد (اس وقت کے سیکریٹری عملدرآمد) نے اپنے عہدے اور اختیارات کا غلط استعمال کیا اور اس میں بدنیتی شامل تھی، انہوں نے پی ایل ڈی سی، بورڈ، کے اختیارات غیر قانونی طور پر حاصل کیے اور غیر قانونی ہدایات جاری کیں اور اس وقت کے سی ای او طہور قریشی اور پروجیکٹ ڈائریکٹر سید علی معظم پر دبائو ڈالا کہ وہ چوہدری عبداللطیف اینڈ سنز کو دیے گئے قانونی ٹھیکے کو منسوخ کریں۔ نیب نے مزید الزام عائد کیا تھا کہ فواد حسن فواد نے سی ای او پر دبائو ڈالا کہ وہ ٹھیکہ منسوخ کریں۔

شہباز شریف، جنہیں اکتوبر کے پہلے ہفتے میں گرفتار کیا گیا تھا، پر بھی بدنیتی سے ٹھیکہ منسوخ کرانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ میں پیر کے روز ہونے والی کارروائی میں فواد کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اس وقت سب کو حیران کر دیا جب انہوں نے انشکاف کیا کہ کالسنز (چوہدری لطیف اینڈ سنز) کا ٹھیکہ منسوخ کیا ہی نہیں گیا تھا بلکہ 9؍ نومبر 2013ء کو پی ایل ڈی سی اور کالسنز نے ایک معاہدے کے تحت باہمی رضامندی سے کنٹریکٹ کو ہی منسوخ کر دیا۔ دی نیوز کے پاس اس معاہدے کی مستند نقل دستیاب ہے جو پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کی گئی تھی۔ باہمی معاہدے کی شرائط یہ ہیں کہ آشیانہ کی کنٹریکٹر کمپنی کالسنز فروری 2013ء میں تفویض کردہ تمام حقوق و مفادات سے دستبردار ہو جائے گی۔ معاہدے کے تحت کالسنز نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ کسی بھی طرح کے وسائل کا دعویٰ کرے گی اور نہ ہی کسی طرح کی قانونی چارہ جوئی کرے گی۔ اس کے عوض، پی ایل ڈی سی نے کالسنز کی جانب سے جمع کرائی جانے والی 7؍ کروڑ 40؍ لاکھ (74؍ ملین) روپے کا زر ضمانت واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور کالسنز نے پی ایل ڈی سی کی جانب سے دیئے گئے موبلائزیشن ایڈوانس کی مد میں دیے گئے 74؍ ملین روپے واپس کیے۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ کالسنز کے مستقبل کے ٹینڈرز میں شرکت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔

اس بات پر بھی اتفاق ہوا تھا کہ سائٹ پر جو بھی کام ہو چکا ہے اس کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کی ادائیگی سات دن میں کی جائے گی۔ عدالت میں پیش کردہ دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ کالسنز نے 4؍ کروڑ روپے کا دعویٰ کیا اور ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے دعوے کا جائزہ لیتے ہوئے کالسنز کو 59؍ لاکھ روپے کی ادائیگی کی جسے کالسنز نے قبول کیا۔ معاہدے کی تصدیق نوٹری پبلک کی جانب سے کی گئی ہے۔ فواد کے وکیل نے دلیل دی کہ جس وقت فریقین کے درمیان یہ معاہدہ ہوا اس وقت فواد پنجاب میں کسی عہدے پر نہیں تھے بلکہ انہیں اپریل 2013ء میں وفاقی حکومت میں ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ پروجیکٹ کا معاہدہ منسوخ کرنے کے معاہدے پر اس وقت کے پی ایل ڈی سی کے چیف ایگزیکٹو شاہد لطیف نے دستخط کیے تھے جبکہ نیب نے الزام عائد کیا ہے کہ فواد نے سی ای او طاہر خورشید پر معاہدہ منسوخ کرنے کیلئے دبائو ڈالا،

جبکہ طاہر خورشید باہمی معاہدے سے کئی ماہ قبل ہی ٹرانسفر ہو چکے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ نیب اس کیس پر گزشتہ کئی ماہ سے تحقیقات کر رہا ہے لیکن اس اہم دستاویز کو کبھی سامنے نہیں لایا۔ معاہدے کے سامنے آنے کی وجہ سے شہباز شریف اور فواد حسن فواد کو گرفتار کرنے کیلئے بتائی گئی وجوہات ختم ہو گئی ہیں اور ان کیخلاف نیب کے کیس کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔

Jang
Keep dreaming patwari
 

3rd_Umpire

Chief Minister (5k+ posts)
پٹواری صاحب، تم مفت میں اپنی بغلیں بجا بجا کر رتّے لال کر دو گے،
اور لُڈیاں ڈال کر پسینو پسین ہو کر چکرا کر گر جاؤ گے، اور
پٹواریوں کا وڈا، اور نِکا پیؤ کسی نہ کسی ڈکیتی میں دھر لئے جائیں گے
 
Last edited:

scolfeild

Minister (2k+ posts)
شہباز شریف اور فواد حسن فواد کیخلاف نیب کے آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کے بنیادی کیس کو ایک قانونی دستاویز نے تباہ کر دیا ہے اور اس سے انکشاف ہوا ہے کہ پروجیکٹ کیلئے لطیف اینڈ سنز کا کنٹریکٹ منسوخ ہوا ہی نہیں تھا بلکہ ٹھیکیدار اور پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایل ڈی سی) کے درمیان باہمی معاہدے کے تحت ختم کیا گیا تھا۔ دی نیوز کے پاس معاہدے کی نقل دستیاب ہے، اور یہ نیب کا کیس خراب کرنے کیلئے کافی ہے۔ نیب نے شریف اور فواد کو یہ پروجیکٹ من پسند کمپنی کو دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کر رکھا ہے۔

580487_3668780_08-ashiyana-case_akhbar.jpg


معاہدے کی نقل پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران فواد حسن فواد کے وکیل کی طرف سے پیش کی گئی، اس میں دونوں فریقین، لطیف سنز اور پی ایل ڈی سی، کے دستخط موجود ہیں۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ایک ارب 49؍ کروڑ 52؍ لاکھ 22؍ ہزار 824؍ روپے کے منصوبے پر عمل کیلئے 16؍ فروری 2013ء کو طے پانے والے معاہدے کو فریقین باہمی اتفاق رائے کے ساتھ ختم اور منسوخ کرتے ہیں۔ معاہدے پر 9؍ نومبر 2013ء کو دستخط کیے گئے اور اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ فریقین اپنی منشا اور خوشی سے ناگزیر وجوہات کی بنا پر پروجیکٹ پر عمل کا معاہدہ ختم کرتے ہیں اور کسی بھی فریق کا دوسرے فریق پر کوئی دعویٰ یا ہرجانہ نہیں واجب الادا نہیں ہے۔ اس معاہدے کے منظرعام پر آنے کی وجہ سے نیب کے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق سیکریٹری برائے وزیراعظم کے کیس کو نیا ڈرامائی موڑ مل گیا ہے۔ دونوں نیب کی حراست میں ہیں۔ پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں معاہدے کی نقل پیش کیے جانے کے بعد نیب کا یہ دعویٰ مسترد ہو جاتا ہے کہ فواد حسن فواد نے غیر قانونی طور پر آشیانہ کا کنٹریکٹ اپنے عہدے (سیکریٹری عملدرآمد برائے وزیراعلیٰ پنجاب) کا غلط استعمال کرتے ہوئے منسوخ کرایا۔ نیب کی جانب سے گرفتاری کیلئے جو وجوہات عدالت میں پیش کی گئی تھیں

وہ یہ تھیں کہ مارچ 2013ء کے دوران ملزم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکریٹری فواد حسن فواد (اس وقت کے سیکریٹری عملدرآمد) نے اپنے عہدے اور اختیارات کا غلط استعمال کیا اور اس میں بدنیتی شامل تھی، انہوں نے پی ایل ڈی سی، بورڈ، کے اختیارات غیر قانونی طور پر حاصل کیے اور غیر قانونی ہدایات جاری کیں اور اس وقت کے سی ای او طہور قریشی اور پروجیکٹ ڈائریکٹر سید علی معظم پر دبائو ڈالا کہ وہ چوہدری عبداللطیف اینڈ سنز کو دیے گئے قانونی ٹھیکے کو منسوخ کریں۔ نیب نے مزید الزام عائد کیا تھا کہ فواد حسن فواد نے سی ای او پر دبائو ڈالا کہ وہ ٹھیکہ منسوخ کریں۔

شہباز شریف، جنہیں اکتوبر کے پہلے ہفتے میں گرفتار کیا گیا تھا، پر بھی بدنیتی سے ٹھیکہ منسوخ کرانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ میں پیر کے روز ہونے والی کارروائی میں فواد کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اس وقت سب کو حیران کر دیا جب انہوں نے انشکاف کیا کہ کالسنز (چوہدری لطیف اینڈ سنز) کا ٹھیکہ منسوخ کیا ہی نہیں گیا تھا بلکہ 9؍ نومبر 2013ء کو پی ایل ڈی سی اور کالسنز نے ایک معاہدے کے تحت باہمی رضامندی سے کنٹریکٹ کو ہی منسوخ کر دیا۔ دی نیوز کے پاس اس معاہدے کی مستند نقل دستیاب ہے جو پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کی گئی تھی۔ باہمی معاہدے کی شرائط یہ ہیں کہ آشیانہ کی کنٹریکٹر کمپنی کالسنز فروری 2013ء میں تفویض کردہ تمام حقوق و مفادات سے دستبردار ہو جائے گی۔ معاہدے کے تحت کالسنز نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ کسی بھی طرح کے وسائل کا دعویٰ کرے گی اور نہ ہی کسی طرح کی قانونی چارہ جوئی کرے گی۔ اس کے عوض، پی ایل ڈی سی نے کالسنز کی جانب سے جمع کرائی جانے والی 7؍ کروڑ 40؍ لاکھ (74؍ ملین) روپے کا زر ضمانت واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور کالسنز نے پی ایل ڈی سی کی جانب سے دیئے گئے موبلائزیشن ایڈوانس کی مد میں دیے گئے 74؍ ملین روپے واپس کیے۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ کالسنز کے مستقبل کے ٹینڈرز میں شرکت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔

اس بات پر بھی اتفاق ہوا تھا کہ سائٹ پر جو بھی کام ہو چکا ہے اس کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کی ادائیگی سات دن میں کی جائے گی۔ عدالت میں پیش کردہ دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ کالسنز نے 4؍ کروڑ روپے کا دعویٰ کیا اور ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے دعوے کا جائزہ لیتے ہوئے کالسنز کو 59؍ لاکھ روپے کی ادائیگی کی جسے کالسنز نے قبول کیا۔ معاہدے کی تصدیق نوٹری پبلک کی جانب سے کی گئی ہے۔ فواد کے وکیل نے دلیل دی کہ جس وقت فریقین کے درمیان یہ معاہدہ ہوا اس وقت فواد پنجاب میں کسی عہدے پر نہیں تھے بلکہ انہیں اپریل 2013ء میں وفاقی حکومت میں ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ پروجیکٹ کا معاہدہ منسوخ کرنے کے معاہدے پر اس وقت کے پی ایل ڈی سی کے چیف ایگزیکٹو شاہد لطیف نے دستخط کیے تھے جبکہ نیب نے الزام عائد کیا ہے کہ فواد نے سی ای او طاہر خورشید پر معاہدہ منسوخ کرنے کیلئے دبائو ڈالا،

جبکہ طاہر خورشید باہمی معاہدے سے کئی ماہ قبل ہی ٹرانسفر ہو چکے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ نیب اس کیس پر گزشتہ کئی ماہ سے تحقیقات کر رہا ہے لیکن اس اہم دستاویز کو کبھی سامنے نہیں لایا۔ معاہدے کے سامنے آنے کی وجہ سے شہباز شریف اور فواد حسن فواد کو گرفتار کرنے کیلئے بتائی گئی وجوہات ختم ہو گئی ہیں اور ان کیخلاف نیب کے کیس کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔

Jang
Source Wo be Al-maroof ---> Jang lol.
lanta teri post wich , kotaia da peio
 

patriot

Minister (2k+ posts)
اگر یہ معاہدہ موجود تھا تو اتنی دیر کہاں تھا پہلے ہی پیش کیوں نہ کر دیا گیا ؟
اس معاہدے کے فریق ثانی کا موقف کیا ہے اس سٹوری میں نہیں بتایا گیا ۔
اگر یہ خبر درست ہے تو نیب کی چھترول بنتی ہے اس ادارے کو بند کر دینا چاہیے ۔
 

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
اگر یہ معاہدہ موجود تھا تو اتنی دیر کہاں تھا پہلے ہی پیش کیوں نہ کر دیا گیا ؟
اس معاہدے کے فریق ثانی کا موقف کیا ہے اس سٹوری میں نہیں بتایا گیا ۔
اگر یہ خبر درست ہے تو نیب کی چھترول بنتی ہے اس ادارے کو بند کر دینا چاہیے ۔

فواد حسن فواد کے مطابق یہ معاہدہ پہلے سے ہی نیب کے پاس موجود تھا لیکن اس نے اسے چھپائے رکھا
 

miafridi

Prime Minister (20k+ posts)
LOLZZZZZ Another calibri font Trust Deed. :)

agar aesa document pehlay say mojud tah, toh Fawad hassan Fawad, aur Shehbaz Sharif ko itnay months jail main na guzarna parhtay. Na hi kabhi Shehbaz sharif ya Fawad Hassan Fawad ne yeh kabhi kaha hai k yeh contract ittefaq rae say mansookh kiya gaya. :)
 

Dr Adam

President (40k+ posts)
اگر یہ معاہدہ موجود تھا تو اتنی دیر کہاں تھا پہلے ہی پیش کیوں نہ کر دیا گیا ؟
اس معاہدے کے فریق ثانی کا موقف کیا ہے اس سٹوری میں نہیں بتایا گیا ۔
اگر یہ خبر درست ہے تو نیب کی چھترول بنتی ہے اس ادارے کو بند کر دینا چاہیے ۔



اور اگر یہ خبر غلط ہے تو عباسی کو مار مار کے دنبہ بنا دینا چاہئیے
 

Back
Top