ملالہ نے ایک ایسے گھرانے میں جنم لیا جس میں شجرہ نسب میں مردوں کا نام تو لکھا جاتا تھا، مگر عورتوں کا نہیں ، ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے پہلی بار سماج کی اس رِیت کے خلاف جاتے ہوئے فخر کے ساتھ اپنی بیٹی ملالہ کا نام شجرہ نسب میں لکھا۔ خاندان کے لوگوں نے مخالفت کی، مگر ملالہ کا والد ڈٹا رہا۔ اس نے کہا میرے لئے میری بیٹی کسی بھی طرح میرے بیٹے سے کم نہیں، تو میں کیوں اس کو پہچان نہ دوں۔ ملالہ کے والد نے اس کو آزادی دی کہ وہ بھی لڑکوں کی طرح جب چاہے باہر گھوم پھر سکتی ہے، اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ ملالہ کئی بار گھر سے باہر نکلتی تو کئی مرد اسے گھورتے، مگر ملالہ اتنی نڈر تھی کہ وہ نظریں جھکانے یا شرمانے کی بجائے جواباً گھورنے والے کو گھورنا شروع کردیتی۔ یہ وہ اعتماد تھا جو ملالہ کو اس کے والد نے دیا تھا۔ یہ سب ملالہ کے والد نے اپنی کتاب "لیٹ ہر فلائی" میں لکھا ہے۔۔
ایسا باپ ہر بیٹی کو نہیں ملتا۔ پاکستان میں تو ایسے باپ دیکھنے کو ہی نہیں ملتے۔ پاکستان میں ماں باپ زبانی کلامی تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے بیٹا اور بیٹی دونوں برابر ہیں، مگر عملی طور پر وہ بیٹے اور بیٹی میں کھلم کھلا تفریق کرتے ہیں۔ بیٹے کو پوری آزادی ہوتی ہے کہ وہ جب چاہے گھر سے باہر گھومنے پھرنے چلا جائے، جب دل کرے سائیکل، موٹر سائیکل یا گاڑی اٹھائے اور دوستوں سے ملنے چلا جائے، مگر بیٹی کو یہ آزادی نہیں ہوتی، بیٹی کو کہا جاتا ہے کہ پورے گھر کی عزت کا بوجھ تمہارے کندھوں پر ہے، تم نے کسی نہ کسی مرد (باپ، بھائی، خاوند) کے کھونٹے سے بندھ کر رہی رہنا ہے۔ اگر کبھی باہر نکلنا ہے تو یا کسی محرم مرد کے ساتھ نکلنا ہے یا پھر بڑا سا کالا سا تمبو نما برقعہ اوڑھ کر نکلنا ہے۔۔ بیٹا اگر گھر سے باہر نکلے تو اس سے کوئی سوال نہیں ہوتا، بیٹی نے گھر سے باہر جانا ہو تو اس سے سو سوال ہوتے ہیں۔ بیٹے کو آزادی ہے کہ وہ سائیکل چلا سکتا ہے، بائیک چلا سکتا ہے، مگر بیٹی کو یہ آزادی نہیں۔۔ بیٹے کو یہ آزادی ہے کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ محبت کا اظہار کرسکتا ہے، کسی لڑکی کے ساتھ افیئر چلاسکتا ہے، مگر بیٹی ایسا کرے تو عزت غیرت کے نام پر اس کا قتل کردیا جاتا ہے۔ بہن کے سامنے بھائی کسی لڑکی کو پسند کرنے کا اظہار کرے تو بہن خوش ہوتی ہے، مگر بھائی کے سامنے بہن کسی لڑکے کو پسند کرنے کا اظہار کربیٹھے تو اسی بھائی کی "غیرت" جاگ جاتی ہے اور وہ بہن کو مار کر اپنی "غیرت" کی آگ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں۔۔ صنفی امتیاز کی ایسی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں عام دیکھی جاسکتی ہیں۔
اسی لئے میں اس خواہش کا اظہار کررہا ہوں کہ ہر بیٹی کو ملالہ کے باپ جیسا باپ ملے تاکہ وہ اپنی بیٹی کے وجود پر شرمندہ نہ ہو، وہ اپنی بیٹی کو بیٹے کے برابر حقوق دے۔ جس دن پاکستانی معاشرے میں بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر آزادی اور حقوق ملنے لگے، اس دن سے ہی پاکستانی معاشرے کی بلندیوں کی طرف پرواز کا آغاز ہوجائے گا۔ میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ میاں ہر باپ کو ملالہ جیسی بیٹی دے۔ ملالہ نے ثابت کیا ہے کہ اگر لڑکی کو باپ اور گھر کا اعتماد حاصل ہو تو وہ ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔ آج ایک ملالہ کی آواز میں اتنی طاقت ہے کہ اس کا محض ایک بیان پوری دنیا میں گونجتا ہے اور پاکستان جیسے معاشروں میں اس کا صرف ایک جملہ ہلچل مچا دیتا ہے۔ پاکستانی کی پوری قوم اپنی جہالت بھری آواز سے شور شرابا کرتی رہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں، دنیا میں کہیں بھی اس کی کوئی وقعت نہیں، مگر ملالہ کا ایک بیان ، ملالہ کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک جملہ دنیا کے کونے کونے میں گونجتا ہے۔۔۔
ایسا باپ ہر بیٹی کو نہیں ملتا۔ پاکستان میں تو ایسے باپ دیکھنے کو ہی نہیں ملتے۔ پاکستان میں ماں باپ زبانی کلامی تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے بیٹا اور بیٹی دونوں برابر ہیں، مگر عملی طور پر وہ بیٹے اور بیٹی میں کھلم کھلا تفریق کرتے ہیں۔ بیٹے کو پوری آزادی ہوتی ہے کہ وہ جب چاہے گھر سے باہر گھومنے پھرنے چلا جائے، جب دل کرے سائیکل، موٹر سائیکل یا گاڑی اٹھائے اور دوستوں سے ملنے چلا جائے، مگر بیٹی کو یہ آزادی نہیں ہوتی، بیٹی کو کہا جاتا ہے کہ پورے گھر کی عزت کا بوجھ تمہارے کندھوں پر ہے، تم نے کسی نہ کسی مرد (باپ، بھائی، خاوند) کے کھونٹے سے بندھ کر رہی رہنا ہے۔ اگر کبھی باہر نکلنا ہے تو یا کسی محرم مرد کے ساتھ نکلنا ہے یا پھر بڑا سا کالا سا تمبو نما برقعہ اوڑھ کر نکلنا ہے۔۔ بیٹا اگر گھر سے باہر نکلے تو اس سے کوئی سوال نہیں ہوتا، بیٹی نے گھر سے باہر جانا ہو تو اس سے سو سوال ہوتے ہیں۔ بیٹے کو آزادی ہے کہ وہ سائیکل چلا سکتا ہے، بائیک چلا سکتا ہے، مگر بیٹی کو یہ آزادی نہیں۔۔ بیٹے کو یہ آزادی ہے کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ محبت کا اظہار کرسکتا ہے، کسی لڑکی کے ساتھ افیئر چلاسکتا ہے، مگر بیٹی ایسا کرے تو عزت غیرت کے نام پر اس کا قتل کردیا جاتا ہے۔ بہن کے سامنے بھائی کسی لڑکی کو پسند کرنے کا اظہار کرے تو بہن خوش ہوتی ہے، مگر بھائی کے سامنے بہن کسی لڑکے کو پسند کرنے کا اظہار کربیٹھے تو اسی بھائی کی "غیرت" جاگ جاتی ہے اور وہ بہن کو مار کر اپنی "غیرت" کی آگ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں۔۔ صنفی امتیاز کی ایسی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں عام دیکھی جاسکتی ہیں۔
اسی لئے میں اس خواہش کا اظہار کررہا ہوں کہ ہر بیٹی کو ملالہ کے باپ جیسا باپ ملے تاکہ وہ اپنی بیٹی کے وجود پر شرمندہ نہ ہو، وہ اپنی بیٹی کو بیٹے کے برابر حقوق دے۔ جس دن پاکستانی معاشرے میں بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر آزادی اور حقوق ملنے لگے، اس دن سے ہی پاکستانی معاشرے کی بلندیوں کی طرف پرواز کا آغاز ہوجائے گا۔ میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ میاں ہر باپ کو ملالہ جیسی بیٹی دے۔ ملالہ نے ثابت کیا ہے کہ اگر لڑکی کو باپ اور گھر کا اعتماد حاصل ہو تو وہ ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔ آج ایک ملالہ کی آواز میں اتنی طاقت ہے کہ اس کا محض ایک بیان پوری دنیا میں گونجتا ہے اور پاکستان جیسے معاشروں میں اس کا صرف ایک جملہ ہلچل مچا دیتا ہے۔ پاکستانی کی پوری قوم اپنی جہالت بھری آواز سے شور شرابا کرتی رہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں، دنیا میں کہیں بھی اس کی کوئی وقعت نہیں، مگر ملالہ کا ایک بیان ، ملالہ کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک جملہ دنیا کے کونے کونے میں گونجتا ہے۔۔۔
ملالہ اور ضیاء الدین یوسف زئی، آپ دونوں پاکستان کا فخر ہیں۔ ہمیں آپ دونوں پر ناز ہے۔۔