اللہ بھلا کرے۔۔(سفر نامہ)۔
تحریر:جانی
دسمبر ۱۵ ،۲۰۱۸
بقر عید کے تیسرے دن ہم تین بلکہ چار دوستوں نے کراچی کے ہاکس بے کے ساحل پر ایک سرکاری ہٹ میں بیٹھے پروگرام بنایا کہ باہر بہت گھوم لیئے ، تھوڑا اپنے ملک میں بھی گھوما پھرا جائے، اور یہ طے پایا کہ پاکستان کے بے مثال شُمال کی سیر پر نکلیں گے،۔
پروگرام اور پلاننگ تو بندہ کرتا رہتا ہے ، مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے، ، وہی ہمارے ساتھ بھی ہوا، ہم چار دوستوں میں سے بس دو ہی رہ گئے ، کیونکہ ایک کو اچانک ملک سے باہر جانا پڑا تو دوسرا بھی پروگرام میں حصہ لینے لائق نہ رہا، کچھ ذاتی مصرُوفیات کی وجہ سے۔
اگر ہم چار ہوتے تو بات اور ہوتی ، چونکہ ہم دو رہ گئے تھے اس لیئے اسی میں عافیت جانی کہ کسی ٹوور گروپ یا کمپنی کے ساتھ جایا جائے، اس طرح ہمیں ہوٹل کے علاوہ گاڑیوں کے ارینج کرنے کا بھی درد سر نہ رہتا، ۔ اگر چہ دوسرا راستہ تھا کہ اپنی گاڑی میں نکلا جائے، مگر ۔۔ کراچی سے لانگ ڈرائیو اور پھر شمال کی ڈرائیونگ۔۔ کافی تھکادینے والی بات لگتی تھی، ۔۔
اللہ بھلا کرے۔۔ میرے دوست کا جس نے چٹ سے انتظام کرلیا، ۔گروپ مل گیا اور ان کے ساتھ طے پایا کہ وہ ہمیں صبح کے تین بجے اسلام آباد کی ایک جگہ سے اٹھائیں گے۔۔ہم اسلام آباد وقت پر پہنچ گئے، ۔۔ مگر ہماری بدقسمتی کہہ لیں یا خوش قسمتی کہ اس روز سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنا تھا،۔ جس کی وجہ سے ٹوور والوں نے ہمارے اسلام آباد پہنچنے کے بعد بتایا کہ پروگرام ایک روز کے لیئے ڈیلے کردیا گیا۔۔ یہ بات وہ پہلے بھی بتا سکتے تھے، مگر ۔۔ پروفیشنلزم کے قتل کے لیئے مشہور ملک کی کمپنی اپنے ملک کا نام کیسے ڈبو سکتی تھی، ۔ ہمیں وقت پر بتا کر۔
اللہ بھلا کرے کہ اس کمپنی نے ہمیں ہوٹل بغیر ایکسٹرا چاجز کے فراہم کیا۔۔ورنہ رات تین بجے کے بعد بڑی خواری ہوتی۔
اب مسئلہ تھا۔۔ ہوٹل تک جانے کا۔ ہم نے ایک نجی ٹیکسی کے ایپ سے ایک گاڑی منگوائی۔۔ جو وقت پر پہنچی، ۔۔ مگر بد قسمتی سے نُصرت جاوید کی گاڑی کی طرح ہوا میں باتیں کرتے ہوئے جانے سے ہمیں بھی ایک زور دار دھڑام کی آواز کے ساتھ ایک طرف کو جھٹکے سے رُکنا پڑا،۔ ٹائر پھٹا ہی ایسا تھا۔۔
اللہ بھلا کرے اس ڈرائیور کا ۔۔جو باتوں سے نفیس انسان معلوم ہوتا تھا۔۔ نے رات کے تین بجے سُنسان اور اندھیری سڑک پر ٹائر پھڑوانے کے بعد، ہمارے لیئے ایک عدد اور گاڑی منگوائی، ۔ مگر پھر وہی پروفیشنلزم والی بات، ۔ کہ تقریبا پینتالیس منٹ انتظار کروا کر بھی اس گاڑی نے اپنا منہ نہ دکھایا۔ اور آخر میں یہ بہانا بنایا کہ ، وہ آرہا تھا مگر کچھ ایمرجنسی کی وجہ سے واپس چلا گیا۔۔یہ سنتے ہی میرا دوست سرگوشیانہ انداز میں بولا کہیں ہمارے لیئے پروگرام تو نہیں بنایا جارہا۔۔مگر ایسا نہ تھا۔۔(ہمارے ڈرائیور نے اس پر یہ تبصرہ کیا کہ ، چونکہ ایپ والی گاڑیوں کو سواریوں یعنی رائڈ کی گنتی پوری کرنی ہوتی ہے، اس لیئے یہ اکثر ویسے ہی یس کردیتے ہیں ، مگر آتے نہیں، اور کمپنی
سے بونس لے لیتے ہیں ۔۔ وغیرہ)۔
اللہ بھلا کرے وہ گاڑی نہ آئی مگر دوسری آگئی۔۔ اور ہم اس پہلے والے ڈرائیور جو شرمندہ دکھائی
دے رہا تھا کا شکریہ ادا کرتے نکل گئے۔۔جب ہم آرہے تھے تو راستے سے بریانی کے ڈبے بھی اُٹھا لائے، ۔جو ہوٹل آتے آتے ایسے ٹھنڈے ہوئے جیسے بعض سیاسی رہنما اندرسے باہر آکر ہوتے ہیں۔۔ ہوٹل والوں کو تازہ آرڈر دینا چاہا مگر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ۔۔ ان کے پاس کچن ہی نہیں۔۔مجبورا ٹھنڈی بریانی ڈھکاری اور جسم پر ٹھنڈا پانی ڈالنے کے بعد اللہ کو یاد کیا، اور سوگئے، ۔
اگلے روز کیونکہ ہماری ملاقات اپنے ٹوور والوں سے کوئی بارہ پندرہ گھنٹے بعد یعنی ایک بار پھر رات کے یا صُبح کے تین بجے طے پائی تھی، جیسے بعض نام نہاد بہادروں کی اسٹیبلشمنٹ سے ہوا کرتی تھی ،۔۔تو سوچھا کیوں نہ اسلام آباد کی سیر پر نکلا جائے، ۔۔ اسلام آباد جو کھبی انتہائی خوبصورت ، خاموش اور مدہوش کرنے کے لیئے مشہور شہر تھا۔۔ اب کچھ گرم، اور شور و غوغا کی وجہ سے ہوش میں لانے والا بن گیا تھا، ۔ اس روز شاید ہم نے کریم سروس کو استعمال کرنے کا ریکارڈ بھی بنایا۔ ۔ یہ بات اور تھی کہ ڈرائیور حضرات کی رگوں میں بس جانے والا قیمتیں طے کرنے کا فارمولا ابھی زندہ تھا، اس لیئے ہم سے اکثر میٹر کہ جگہ کلومیٹر یعنی سفر کے حساب سے کرایہ لیتے رہے، ۔۔
کہاں کہاں گئے اور کیا کیا دیکھا، ۔ یہ خاص نہیں ، بس یہ جان لیں کہ، جس اسلام آباد کا تصور تھا وہ اس سے ہٹ کر ملا، ۔ فیصل مسجد تک ظالموں سے محفُوظ نہ رہا، ۔ اور اس عبادت کی جگہ کو سیر گاہ بناکے رکھ دیا گیا ہے، ۔ ۔ جس سے صفائی اور اس کے گرد چمن بُری طرح مُتاثر ہوئے ہیں،۔ رہی سہی کسر انتظامیہ کی نالائقیوں نے پوری کردی۔
رات گئے کھانے کے لیئے اک فوُڈ کورٹ نُما جگہ گئے، وہاں سے فارغ ہوئے اور جسم میں چائے کی طلب نے پھڑک ماری تو ایک کونے میں چائے کا ایسا ہوٹل ڈھونڈھنے میں کامیاب ہوئے جہاں چائے کو اُبال کر ، اور کڑک بنانے کے بعد پلایا جاتا ہے، ورنہ تو ٹی بیگ کی چائے والوں نے دن بھر میں مت ماردی تھی،۔۔اور پھر کریم میاں کی خدمات لے کر اس جگہ پہنچے جہاں سے ہمیں ہمارے ٹوور والوں نے اُٹھانا تھا، ۔۔
اللہ بھلا کرے کہ وہ وقت پر پہنچ گئے، اپنی نئی ماڈل کی ایئر کنڈیشنڈ کوچ کے ساتھ۔۔
اور ہم دو دوستوں کو پچھلی سیٹوں پر قبضہ کرنے کو کہا گیا، جو کہ چار بندوں کے لیئے ہوتی ہے۔
اسلام آباد سے ایبٹ آباد کی طرف حویلیاں موٹر وے والے رُوٹ پر کوچ خوبصُورتی سے سفر کرنے لگی، ساتھ ہی ساتھ آسمان رنگ بدلنے میں لگا رہا، اوررات کے اندھیرے سے صُبح کے پُرنُور سویرے میں ڈھلنے لگا۔۔ بعض جگہوں پر دور تک ویرانے تھے مگر سبز رنگ کے ۔۔ اور بعض اوقات، بعض پرندے ہماری کوچ کے ساتھ ساتھ کسی ہمسفر کی طرح اُڑنے لگتے ۔ ۔مگر جلد ہی دھوکے سے باہر آجاتے۔۔ کہ ان کا جہاں اور تھا اور ہمارا جہاں اور۔
اللہ بھلا کرے۔۔ ٹوور والوں کا جنہوں نے مانسہرہ پہنچ کر جب ہم ناشتے کے لیئے ایک ریسٹورنٹ میں رُکے تو۔۔ نوید سُنائی کہ کوچ جو کہ نیئے ماڈل کی تھی اور جسے لاہوری ڈرائیور کوئی گدھا گاڑی سمجھ کے بھگا رہا تھا، کی طبیعت ناساز ہوگئی،۔اور مرمت کے لیئے مستری کے پاس بھیج دی گئی ہے۔،۔ہم بھی کیا کرتے انتظار کیا۔۔ اور دو گھنٹے بعد گاڑی واپس آئی۔۔ مگر اب اس کی نہ وہ والی دوڑ تھی نہ وہ صحت۔۔ اس لیئے ڈرائیور آہستگی سے چلانے لگا مگر ۔آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ۔۔ اس کوچ کے پاوں میں موچ آگئی ہے۔۔ اس لیئے یہ اونچائیوں پر سفر کے لائق نہیں رہی اور ہمیں۔۔۔(جاری ہے)۔۔
جانیjani
https://www.siasat.pk/forums/threads/اللّٰل-بھلا-کرے۔۲۔-اک-سبق-آموز-،سفرنامہ-۔.665199/
https://www.siasat.pk/forums/threads/اللّٰل-بھلا-کرے۔۔۔۔۳۔۔۔۔-اک-سبق-آموز-سفرنامہ.665595/
https://www.siasat.pk/forums/threads/اللّٰل-بھلا-کرے۔۔آخری-حصہ۔۔-اک-سبق-آموزسفر-نامہ-۔.665882/