jani1
Chief Minister (5k+ posts)

اللہ بھلا کرے۔۔۳۔۔(اک سبق آموز سفرنامہ)
تحریر:جانی۔
دسمبر۱۹، ۲۰۱۸
اللہ بھلا کرے بارڈر کا ۔۔ جسے ہاتھ لگا نے اور لمحوں کو تصاویر میں قید کرنے کے بعد وہاں رہنا بے کار تھا،۔اس لیئے واپس مڑے۔۔ اور وہاں سے اپنی کوچ تک چلتے ہوئے، جنگلی پہاڑی گائے کہہ لیں یا یارک، بے چاری کو اک رسی سے بندھا پایا، جو مالک کے جیب کی خوشنودی کے لیئے سیاحوں کے ساتھ سیلفیوں میں مشغول تھی۔مگر اپنا پہاڑی بکرا یعنی مارخوردکھائی نہ دیا، شاید ملک کے حرامخوروں کو ٹکریں مارنے چلا گیا تھا۔
کوچ کے قریب آہستگی سے قدم اُٹھاتے ہوئے پہنچے، مگر موبائل میں وقت دیکھا تو نماز کا ہوا چاہتا تھا، ۔ اس لیئے کوچ پر چڑھنے کے بجائے، ۔ گلیشیئر سے بہتے برفیلے پانی سے وضو کرنے کا سوچھا، ۔۔پانی میں ہاتھ ڈالا تو درد کی اک ٹھیس سی اُٹھی، ہاتھوں کی ہڈیوں کے پار ہوتی ہوئی، ۔ اس وجہ سے انتہائی احتیاط اور سست روی سے وضو کیا، ۔ اور وضو کے بعد جلدی سے آستینیں اُتارلیں۔۔اب مسئلہ سر کے چکرانے کے علاوہ ہاتھوں کے درد سے نمٹنے کا بھی پیدا ہوگیا تھا۔۔ مگر اللہ کا نام لے کر آہستگی سے دوبارہ کوچ کی طرف بڑھنا شروع کیا۔۔اور بالآخر پہنچ گئے۔۔
اللہ بھلا کرے ۔۔بچوں والوں کا ، جو کوچ کے اندر ہی براجمان تھے، ہوا میں پریشر کی کمی کی وجہ سے، وہ باہر نکلے ہی نہیں تھے، ۔ ۔اور ایک چھ ماہ کا بچہ توتقریبا بے ہوش ہوچکا تھا، ۔ شاید اسی لیئے وہاں کمزور دل والوں یا سانس کے مریضوںکو جانے سے منع کیا جاتا ہے،۔ بچے تو ویسے ہی نازک ہوتے ہیں، انہیں کیا پتہ ہوتا ہے کہ قدرتی مناظر کیا بلا ہوتےہیں، وہ تو سفر کی سختیاں مفت میں جھیلتے ہیں ، ماں باپ کی خوشی کے لیئے۔ ۔
خنجراب سے واپسی پر ہماری ایک اور رات ہنزہ میں گزارنی طے پائی تھی،۔ ۔اور اس کے بعد ناران میں آخری رات کے بعد سیدھے پنڈی اسلام آباد۔۔خیر۔۔مگر فلم میں جب تک تھرل نہ ہو، سسپنس نہ ہو، ڈرامہ نہ ہو کہاں مزہ آتا ہے، اور اسی بات پر یقین رکھتے ہوئے ہمارے گائیڈ صاحب نے ہنزہ پہنچتے پہنچتے مسافروں کو ہوا میں یوں لٹکایا، جیسے کوئی کٹے مرغے یا مرغی کو آزادی سے تڑپنے کا موقع دینے کے بجائے ، دونوں ٹانگوں سے پکڑ کر ہوا میں لٹکا دے، اور وہ لٹکے لٹکے ہی اپنی خالق حقیقی سے جا ملے۔
ہوا یوں کہ خجنراب سے ہنزہ کی واپسی پر ہمارے ڈائیور ، اور گائیڈ صاحب کو نیچھے سے اوپر آتی بعض گاڑیوں کے ڈرائیوران نے خبر دار کیا کہ ، رستے میں ہنزہ اور ناران کے بیچ لینڈ سلائڈنگ ہوئی ہے اور پہاڑ سے گرے پتھر اور ملبے نے سڑک بند کردی ہے۔۔ یہ سُننا تھا کہ کوچ میں بیٹھے مسافروں میں کھلبلی سی مچ گئی،۔ اور غیر یقینی سی صورت حال نے جنم لیا، ۔ اب لوگوں کو سیر سپاٹے سے زیادہ خیریت سے گھر پہنچنے کی فکر ہورہی تھی۔ ۔
اللہ بھلا کرے ۔۔ گائیڈ صاحب کا، جنہوں نے اس فکر کو دگنا کرنا اپنا فرض جانا، ۔ رات جب ہنزہ پہنچے تو فرمانے لگے اگر صبح تک رستے کی صفائی کی خبر نہ ملی تو چلاس کے پاس پہنچ کر ناران کی طرف نیچھے جانے کے بجائے ،۔ ہم مانسہرہ پہنچنے کے لیئے بشام والا رستہ اپنائیں گے، گوگل میپ چیک کرکے آپکو اندازہ ہوگا کہ میں کس جگہ کی بات کررہا ہوں، بظاہر اس میں کوئی گڑ بڑ نہ تھی، ۔ ہم سیاحوں کو ایک نیا رستہ دیکھنے کو مل جاتا، ۔اس پر ہمارے اکثر ہمسفر دوست راضی بھی ہوگئے، ۔ مگر جب گائیڈ صاحب بولے کہ یہ سفر نان سٹاپ ، اٹھارہ گھنٹے کا ہوگا، ، ۔۔تو۔۔۔
اللہ بھلا کرے ۔۔میرا بھی، کہ زندگی کا آدھا حصہ سفر کرتے کاٹ ڈالا، اس لیئے مجھے سب سے پہلے اندازہ ہوا کہ اٹھارہ گھنٹے سفر ،وہ بھی نان سٹاپ کا کیا مطلب ہوتا ہے، اور ڈرائیور کی کیا حالت ہوتی ہے۔۔ کسی بھی وقت اس کی آنکھ بند اور دوسرےجہاں کا دروازہ کھل سکتا ہے۔۔میں نے اس پر اپنے ہمسفر مردُووں کو اکھٹا کیا۔۔جن میں سے بعض تو پہلے ہی بیگم بچوں کے ساتھ یہ لمبا سفر طے کرکے جیسے کوئی سزا کاٹ رہے تھے، ۔شکر ہے جلدی بات سمجھ گئے۔۔ اور گائیڈ صاحب کے آتے ہی احتجاج شروع کردیا، ۔ ۔ کہ نو گھنٹے سفر کے بعد ہمیں لازما ہوٹل دیں گے۔۔ اور آرام کے بعد اگلے روز ہی نکلیں گے۔۔
اللہ بھلا کرے ۔۔ گائیڈ صاحب اور ان کی ہوشیاریوں کا۔۔کہ باقیوں کی بحث میں میری آواز کو ذرہ تیز پاکر ،۔ اندازہ لگا لیاکہ یہ آگ اسی کی لگائی ہوئی ہے، ۔ باقی ہمسفر دوستوں کو بہلا پُسلا نے کے بعد۔۔مجھے اور میرے دوست کو ایک طرف کرکے ٹریپ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولے۔، آپ فکر نہ کریں، رستے میں آرام بھی ہوجائے گا۔
اگلے روز چاربجے جاگنے کا کہا گیا۔ ۔ صُبح پانچ بجے کے آس پاس ناشتہ کرکے نکلے، ۔اور چلاس کے قریب پہنچے تو یہ خوش خبری ملی کہ راستہ کھل چکا ہے ۔ یہ خبر جیسے ان تین دنوں میں ملنے والی سب سے بڑی خوشی تھی، ۔ کہ نہ اب گائیڈ کے ساتھ بحث کی ضرورت رہ گئی تھی نہ ہوٹل کی فکر، کہ ایک آخری رات ناران میں ویسے ہی طے تھی۔۔
اللہ بھلا کرے ۔۔اس مقام کا جہاں پہنچ کر گروپ والوں نے خوب انجوائے کیا ، یعنی بوٹ رفٹنگ کا مقام،۔۔ ہم میں سے اکثر نے اس میں حصہ لیا، اور سات سو فی کس دے کر، پانچ سے ساتھ منٹ کے لیئے ٹیوب نما کشتی میں تیرتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ گئے۔۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی، یہ دس سے بیس منٹ ایسے تھے۔۔ جب اپنے ہمسفروں کے چہروں پر حقیقی خوشی کو تیرتا دیکھا۔۔ورنہ اس سے قبل سفر کرا کرا کے ادھ مرا کرا ڈالا تھا، ہمارے گائیڈصاحب نے۔۔اللہ بھلا کرے انکا۔۔
اس سفر کی آخری رات جو ناران میں طے پائی تھی، ۔ میں گائیڈ صاحب نے بون فائر کا انتظام کرایا، ۔۔ ایک ڈرم کے اندر لکڑیاں ڈال کر انہیں آگ لگائی، اور اس کے ارد گرد کُرسیاں رکھ دیں ،۔۔ اس کے علاوہ ہمارے سامنے تین عدد فنکار اپنی فن کا مظاہرہ لوک گیتوں کے سُروں کے سروں پر انڈین گانوں کے گیت مار کر کرنے لگے۔۔جسے ہمارے گروپ والوں نے کم اور ہوٹل میں موجود باقی مہمانوں نے زیادہ انجوائے کیا، ۔ کہ ہمارے گروپ سے چار پانچ ہماری طرح کے اکیلے تھکیلے مردوں نے ہی حصہ لیا تھا، ۔ اوربیویوں والے شاید ٹیویوں پر یا پھر اپنی مجبوریوں پر گزارہ کرنے پر مجبور تھے۔
اگلی صُبح جب آئی، ۔ تو جیسے بہار ساتھ لائی،۔ کیونکہ یہ ہماری آزادی کا دن تھا، اس سفر ناتمام کے تمام ہونے کا دن۔۔مگر۔۔(جاری ہے)
اگلا اخری حصہ ہوگا۔۔ پرومس۔۔ تب تک کے لیئے برداشت کیجیئے۔۔ شکریہ۔:giggle:۔
جانیjani
Last edited: