پاکستانی سٹوڈنٹس سرخ جھنڈے پہننے لگے ہیں۔ نوجوان نسل مایوس ہو کر جو راستہ ڈھونڈ رہی ہے وہ پاکستان پہلے ہی بھگت چکا ہے، کیا یونیورسٹی کا مقصد سیاستدان پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ۵۰۰ سیاستدانوں کے لئے ۱۰ لاکھ گریجویٹس کی تعلیم کو داو پر مت لگائیں، پہلے ہی تعلیم کا کوئی معیار نہیں ہے
ہے۔ معاشرے کے اندر ایک بحران ہے جو ساٹھ فی صد غریب آبادی اور ایک ایسی نوجوان نسل جسکا کوئی مستقبل نہیں پر مشتمل ہے۔حالات بہتر بنانے کا راستہ بھی مشکل ہے۔ ملکی سیکورٹی کی وجہ سے سب سے بڑے پڑوسی سے تجارت نہٰں کرسکتے، ایران سے کرو تو امریکہ ناراض، افغانستان پسماندہ ملک ہے۔چین پہاڑوں کے دوسری طرف ہے۔ امیر طبقہ ٹیکس دینے کو راضی نہیں ۔عدالتیں اور پولیس آزاد نہیں۔ سیاسی جماعتیں نہیں شریف، بھٹو اور خان فین کلبز ہیں، میڈیا کے اندر غیر جانبداری نہیں، پنجابی دانشور منافق ہے۔
پاکستان میں جاری بحران نظام کا بحران بنتا جارہا ہے۔ پارلیمانی نظام چل سکتا ہے لیکن مسئلہ سیاسی جماعتوں کی ساخت کا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں پیری مریدی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ، آج تک پارلیمنٹ مٰیں کوئی اچھی بحث سننے کو نہٰیں ملی، ساری بحث اپنے لیڈر کی تعریفوں اور دوسرے کی برائیوں پر ہے، جو جتنا بڑا جگت باز ہے اتنا بڑا پارلیمنٹیرین ہے۔ کیسی جمہوریت موجود ہے کہ کوئی ایم این اے پارٹی پوزیشن سے ہٹ کر ووٹ نہیں کرسکتا اور پارٹی پوزیشن کا مطلب ایک شخص کی غلامی ہے کیونکہ جماعتوں میں انتخابات کا کوئی نظام موجود نہیں۔ پاکستان میں بہت گھٹن ہے، میڈیا اور پنجابی دانشور کی منافقت اس گھٹن کو اپنی مرضی کے مطابق کیش کرتی ہے۔ رہی سہی کسر ملک کی معیشت نے نکال دی تھی۔ اب معیشت کچھ بہتر ہونے لگی ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ معیشت بہتر ہونے تک دیر ہو جائے۔عمران خان کچھ حالات بہتر کررہا ہے لیکن سست رفتاری سے۔ اس رفتار سے نہیں جس رفتار سے قوم توقع لگائی بیٹھی تھی۔ ابھی لگتا ہے کہ کچھ بھاپ نکلنی باقی ہے۔
ہے۔ معاشرے کے اندر ایک بحران ہے جو ساٹھ فی صد غریب آبادی اور ایک ایسی نوجوان نسل جسکا کوئی مستقبل نہیں پر مشتمل ہے۔حالات بہتر بنانے کا راستہ بھی مشکل ہے۔ ملکی سیکورٹی کی وجہ سے سب سے بڑے پڑوسی سے تجارت نہٰں کرسکتے، ایران سے کرو تو امریکہ ناراض، افغانستان پسماندہ ملک ہے۔چین پہاڑوں کے دوسری طرف ہے۔ امیر طبقہ ٹیکس دینے کو راضی نہیں ۔عدالتیں اور پولیس آزاد نہیں۔ سیاسی جماعتیں نہیں شریف، بھٹو اور خان فین کلبز ہیں، میڈیا کے اندر غیر جانبداری نہیں، پنجابی دانشور منافق ہے۔
پاکستان میں جاری بحران نظام کا بحران بنتا جارہا ہے۔ پارلیمانی نظام چل سکتا ہے لیکن مسئلہ سیاسی جماعتوں کی ساخت کا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں پیری مریدی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ، آج تک پارلیمنٹ مٰیں کوئی اچھی بحث سننے کو نہٰیں ملی، ساری بحث اپنے لیڈر کی تعریفوں اور دوسرے کی برائیوں پر ہے، جو جتنا بڑا جگت باز ہے اتنا بڑا پارلیمنٹیرین ہے۔ کیسی جمہوریت موجود ہے کہ کوئی ایم این اے پارٹی پوزیشن سے ہٹ کر ووٹ نہیں کرسکتا اور پارٹی پوزیشن کا مطلب ایک شخص کی غلامی ہے کیونکہ جماعتوں میں انتخابات کا کوئی نظام موجود نہیں۔ پاکستان میں بہت گھٹن ہے، میڈیا اور پنجابی دانشور کی منافقت اس گھٹن کو اپنی مرضی کے مطابق کیش کرتی ہے۔ رہی سہی کسر ملک کی معیشت نے نکال دی تھی۔ اب معیشت کچھ بہتر ہونے لگی ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ معیشت بہتر ہونے تک دیر ہو جائے۔عمران خان کچھ حالات بہتر کررہا ہے لیکن سست رفتاری سے۔ اس رفتار سے نہیں جس رفتار سے قوم توقع لگائی بیٹھی تھی۔ ابھی لگتا ہے کہ کچھ بھاپ نکلنی باقی ہے۔