فوج نے حکمرانوں پر دست شفقت رکھا ہوا تھا تبھی اٹھانے کی بات کی گئی ہے، تمام پارٹیوں کے لیڈرز کو بلوا کر بتا دیا گیا ہے کہ آج کے بعد ہماری طرف سے اس حکومت کو ہرگز سپورٹ نہیں کیا جاے گا۔ آپ سب کیلئے میدان ایک جیسا کھلا ہے۔
فوج کا یہ قدم ایک اور وجہ سے بھی ہے۔ لداخ میں چین انڈیا جنگ کسی بھی وقت شروع ہوسکتی ہے اور یہ بھی امکان ہے کہ اس سے پہلے انڈیا اپنی خفت چھپانے کیلئے پاکستان پر کوی جنگ وارد کردے۔ ان خطرناک ترین حالات میں فوج اپنی تمام تر توجہ دشمن کی طرف کرنا چاہتی ہے کیونکہ چین انڈیا جنگ میں ہماری ڈیوٹی سیاچن کو انڈین فوج سے پاک کرنے کی لگ چکی ہےچاہے اس کیلئے کتنی بھی قربانیاں دینی پڑیں سیاچن کی خاطر چین لداخ میں سارا پلان کررہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ سیاچن چھڑوانے کیلئے پلاننگ ہوچکی ہوگی۔
آرمی چیف کی ملاقات کے بعد اپوزیشن نے بھی اپنا لائحہ عمل ترتیب دے لیا ہے جسمیں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی اور تبدیلی بھی آتی جاے گی۔ اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ ملک کو کمزور نہ کریں اور حکومت کو نکالنے کیلئے ان انڈین فنڈڈ مذہبی عناصر کی مدد ہرگز نہ لیں جن کا مقصد اپنے بڑوں کے اس قول کو پورا کرنا ہے کہ پاکستان بنانے کے پاپ میں ان کا کوی حصہ نہیں ۔
اگر کسی کو یاد ہو تو عمران خان نے یہ بیان دیا تھا کہ اس کی حکومت کو پے در پے ناکامیوں اور بدترین پرفارمنس کے بعد اب آخری چھ ماہ دیئے گئے ہیں ۔ لگتا ہے کہ چھ ماہ بھی زیادہ تھے لہذا فوج نے تین ماہ بعد ہی اپنی پوزیشن واضح کردینی ضروری سمجھی ہے۔
حکومت کے نکمے اور نااہل وزرا اعلی و منسٹر صاحبان کی سپورٹ کرنے سے فوج خود بدنام ہورہی تھی۔ کرپشن یہ لوگ کررہے تھے اور نام فوج کا بدنام ہورہا تھا۔ جن مذہبی عناصر کو ن لیگ کے خلاف کھڑا کیا گیا تھا وہ تو فوج اور ریاست کے ہی نافرمان نکلے اور ملک کیلئے خطرہ بن گئے تھے لہذا وہ پالیسی بھی رد کردی گئی اور اب ان کو ان کی شرانگیزی کا نہایت سخت جواب دیا جاے گا۔ اول تو یہ عناصر بغیر سرپرستی کے کوی شورش برپا ہی نہیں کرتے مگر پھر بھی کسی کا دماغ گھوما تو اس کو ڈنڈا دے کر داتا دربار چوک میں نسب کردیاجاے گا
حکومت نے اعلی پولیس و محکمہ جاتی افسران کو پے در پے ٹرانسفر کرکے بہت بڑی حماقت اور ناتجربہ کاری کا ثبوت دیا ہے اس سے تمام ملک بالخصوص سب سے بڑے صوبے پنجاب کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ کوی چیک اینڈ بیلنس نہیں رہا، محکمے کے ہیڈ ہی نہ ہوں تو نچلا سٹاف جو پہلے ہی ہڈحرام ہوچکا ہے بالکل ہی ہاتھ چھوڑ کر بیٹھ جاے گا، بے دھڑک رشوت طلب کی جانے لگی ہے اور مجرموں کی سرپرستی کرنے والے پولیس افسران بھی اب شیر ہوگئے ہیں, افسران کے دفاتر میں پوسٹ کے ڈھیرلگ چکے ہیں جنہیں کھول کر دیکھنے والا بھی کوی نہیں کیونکہ کسی کو دو ماہ سے زیادہ مستقل نہیں کیا جاتا، چوری کی واراتیں دو سو گنا بڑھ گئی ہیں اور اب ڈاکو اتنے دلیر ہوگئے ہیں کہ عورتوں کو ریپ بھی کرنے لگ گئے ہیں۔ عثمان بزدار نے تو مزہبی طبقے کو خوش کرنے کیلئے انہیں کھلی چھٹی دے دی ہے اور دیوبندی مولوی خاص کر طاہر اشرفی جیسے انڈین فنڈڈ مولوی براہ راست بیوروکریٹس اور پولیس افسران سے مل کر اپنے مخالفین کو اندر کروانے میں لگے ہوے ہیں
ٹینڈے کے منہ والے شہباز گل نے موٹروے ریپ کیس میں عثمان بزدار کو جب ایڈوانس میں مبارک دی تو سارا ملک اس پر تھو تھو کرنے لگا جس کا اثر فوج نے بھی محسوس کیا کہ کیوں وہ ایسے بے حیا اور عقل سے عاری لوگوں کی حمایت کرکے بدنامی مول لے رہے ہیں جنہیں اتنی بھی عقل و شعور نہیں کہ خاتون کا ریپ ناکام کروانے کی مبارکباد تو بنتی تھی مگر ریپ ہونے کے بعد مبارکین دینا یوں لگتا ہے جیسے ریپ ہونے کی مبارکباد دی جارہی ہو؟ مزید یہ کہ خاتون کا ریپ کرنے والا مجرم بھی ابھی تک مفرور ہے۔
سرکاری خرچ پر وزرا اعلی کے عمرے اور پے در پے اسلامی بل بھی حکومت کے کسی کام نہیںآے بلکہ فرقہ ورانہ نفرت کو دوبارہ ابھار دیا گیا ۔ یزید امیر کا نعرہ نگانے والوں پر توہین آل رسول کا کوی پرچہ نہیں کاٹا گیا حالانکہ یزید کے ان لعنتی پیروکاروں کو سنگسار کر دیا جاتا تو بھی کم تھا ۔ آج حکمرانوں کی بدترین انتظامی صلاحیتوں کو جانچنے کے بعد فوج نے ان کی حمایت ترک کردی ہے تو کوی غلط نہیں کیا۔
ہم بھی فوج کو اپنی اس بات پر قائم رہنے اور اپنے ادارے کے اندر موجود کرپٹ لوگوں کو پکڑنے اور انہیں نشان عبرت بنانے نیز دھشت گردوں کی سرپرستی کرنے والوں کو فوج سے نکالنے کا مشورہ دیں گے تاکہ کوی اس منظم اور ملکی سلامتی کے لئے انتہای اہم ادارے کی طرف انگلی نہ اٹھا سکے
فوج اگر سیاست میں دخل انداز ہوتی رہی ہے تو اس کا خمیازہ بھی بھگت لیا کیونکہ آج عوام کے دلون میں فوج کی وہ عزت نہیں جو جنرل ضیا کے دور سے پہلے تھی
فوج کا یہ قدم ایک اور وجہ سے بھی ہے۔ لداخ میں چین انڈیا جنگ کسی بھی وقت شروع ہوسکتی ہے اور یہ بھی امکان ہے کہ اس سے پہلے انڈیا اپنی خفت چھپانے کیلئے پاکستان پر کوی جنگ وارد کردے۔ ان خطرناک ترین حالات میں فوج اپنی تمام تر توجہ دشمن کی طرف کرنا چاہتی ہے کیونکہ چین انڈیا جنگ میں ہماری ڈیوٹی سیاچن کو انڈین فوج سے پاک کرنے کی لگ چکی ہےچاہے اس کیلئے کتنی بھی قربانیاں دینی پڑیں سیاچن کی خاطر چین لداخ میں سارا پلان کررہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ سیاچن چھڑوانے کیلئے پلاننگ ہوچکی ہوگی۔
آرمی چیف کی ملاقات کے بعد اپوزیشن نے بھی اپنا لائحہ عمل ترتیب دے لیا ہے جسمیں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی اور تبدیلی بھی آتی جاے گی۔ اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ ملک کو کمزور نہ کریں اور حکومت کو نکالنے کیلئے ان انڈین فنڈڈ مذہبی عناصر کی مدد ہرگز نہ لیں جن کا مقصد اپنے بڑوں کے اس قول کو پورا کرنا ہے کہ پاکستان بنانے کے پاپ میں ان کا کوی حصہ نہیں ۔
اگر کسی کو یاد ہو تو عمران خان نے یہ بیان دیا تھا کہ اس کی حکومت کو پے در پے ناکامیوں اور بدترین پرفارمنس کے بعد اب آخری چھ ماہ دیئے گئے ہیں ۔ لگتا ہے کہ چھ ماہ بھی زیادہ تھے لہذا فوج نے تین ماہ بعد ہی اپنی پوزیشن واضح کردینی ضروری سمجھی ہے۔
حکومت کے نکمے اور نااہل وزرا اعلی و منسٹر صاحبان کی سپورٹ کرنے سے فوج خود بدنام ہورہی تھی۔ کرپشن یہ لوگ کررہے تھے اور نام فوج کا بدنام ہورہا تھا۔ جن مذہبی عناصر کو ن لیگ کے خلاف کھڑا کیا گیا تھا وہ تو فوج اور ریاست کے ہی نافرمان نکلے اور ملک کیلئے خطرہ بن گئے تھے لہذا وہ پالیسی بھی رد کردی گئی اور اب ان کو ان کی شرانگیزی کا نہایت سخت جواب دیا جاے گا۔ اول تو یہ عناصر بغیر سرپرستی کے کوی شورش برپا ہی نہیں کرتے مگر پھر بھی کسی کا دماغ گھوما تو اس کو ڈنڈا دے کر داتا دربار چوک میں نسب کردیاجاے گا
حکومت نے اعلی پولیس و محکمہ جاتی افسران کو پے در پے ٹرانسفر کرکے بہت بڑی حماقت اور ناتجربہ کاری کا ثبوت دیا ہے اس سے تمام ملک بالخصوص سب سے بڑے صوبے پنجاب کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ کوی چیک اینڈ بیلنس نہیں رہا، محکمے کے ہیڈ ہی نہ ہوں تو نچلا سٹاف جو پہلے ہی ہڈحرام ہوچکا ہے بالکل ہی ہاتھ چھوڑ کر بیٹھ جاے گا، بے دھڑک رشوت طلب کی جانے لگی ہے اور مجرموں کی سرپرستی کرنے والے پولیس افسران بھی اب شیر ہوگئے ہیں, افسران کے دفاتر میں پوسٹ کے ڈھیرلگ چکے ہیں جنہیں کھول کر دیکھنے والا بھی کوی نہیں کیونکہ کسی کو دو ماہ سے زیادہ مستقل نہیں کیا جاتا، چوری کی واراتیں دو سو گنا بڑھ گئی ہیں اور اب ڈاکو اتنے دلیر ہوگئے ہیں کہ عورتوں کو ریپ بھی کرنے لگ گئے ہیں۔ عثمان بزدار نے تو مزہبی طبقے کو خوش کرنے کیلئے انہیں کھلی چھٹی دے دی ہے اور دیوبندی مولوی خاص کر طاہر اشرفی جیسے انڈین فنڈڈ مولوی براہ راست بیوروکریٹس اور پولیس افسران سے مل کر اپنے مخالفین کو اندر کروانے میں لگے ہوے ہیں
ٹینڈے کے منہ والے شہباز گل نے موٹروے ریپ کیس میں عثمان بزدار کو جب ایڈوانس میں مبارک دی تو سارا ملک اس پر تھو تھو کرنے لگا جس کا اثر فوج نے بھی محسوس کیا کہ کیوں وہ ایسے بے حیا اور عقل سے عاری لوگوں کی حمایت کرکے بدنامی مول لے رہے ہیں جنہیں اتنی بھی عقل و شعور نہیں کہ خاتون کا ریپ ناکام کروانے کی مبارکباد تو بنتی تھی مگر ریپ ہونے کے بعد مبارکین دینا یوں لگتا ہے جیسے ریپ ہونے کی مبارکباد دی جارہی ہو؟ مزید یہ کہ خاتون کا ریپ کرنے والا مجرم بھی ابھی تک مفرور ہے۔
سرکاری خرچ پر وزرا اعلی کے عمرے اور پے در پے اسلامی بل بھی حکومت کے کسی کام نہیںآے بلکہ فرقہ ورانہ نفرت کو دوبارہ ابھار دیا گیا ۔ یزید امیر کا نعرہ نگانے والوں پر توہین آل رسول کا کوی پرچہ نہیں کاٹا گیا حالانکہ یزید کے ان لعنتی پیروکاروں کو سنگسار کر دیا جاتا تو بھی کم تھا ۔ آج حکمرانوں کی بدترین انتظامی صلاحیتوں کو جانچنے کے بعد فوج نے ان کی حمایت ترک کردی ہے تو کوی غلط نہیں کیا۔
ہم بھی فوج کو اپنی اس بات پر قائم رہنے اور اپنے ادارے کے اندر موجود کرپٹ لوگوں کو پکڑنے اور انہیں نشان عبرت بنانے نیز دھشت گردوں کی سرپرستی کرنے والوں کو فوج سے نکالنے کا مشورہ دیں گے تاکہ کوی اس منظم اور ملکی سلامتی کے لئے انتہای اہم ادارے کی طرف انگلی نہ اٹھا سکے
فوج اگر سیاست میں دخل انداز ہوتی رہی ہے تو اس کا خمیازہ بھی بھگت لیا کیونکہ آج عوام کے دلون میں فوج کی وہ عزت نہیں جو جنرل ضیا کے دور سے پہلے تھی