پی پی پی کچھ نہ کرے، بس ایک کام کرے کہ اسٹیل ملز کو اپنی تحویل میں لے اور یہاں کی تنخواہیں اپنے بجٹ میں سے دے۔
پی پی پی ضرور پوچھے کہ حکومت نے اس ادارے کو چلانے کے لیئے کیا کِیا، لیکن پہلے خود بھی بتائے کہ انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں اس ادارے کو چلانے کے لیئے کیا کِیا؟
یہ بھی بتائے کہ یہ ادارہ انھی کے دورِ حکومت کے اگلے سال سے ہی خسارے میں گیا۔ بعد از اگر نون لیگ والے ان کے ساتھ ملتے ہیں تو وہ بھی بتائیں کہ انکا تو باپ دادا کا کاروبار تھا اسٹیل انڈسٹری میں، جس سے انھوں نے پتہ نہیں کہاں کہاں اسٹیل ملز لگا کر چلا دیں، انھوں نے کیوں ۲۰۱۵ میں اس ادارے کو بلکل بند کردیا؟
ان کے سوال بنتے ہیں، اگر یہ خود جواب دینے کو راضی ہیں۔
کعبے کس منہہ سے جاوٗ گے غالبؔ؟
لیکن شرم کم از کم انکو تو نہیں آتی۔
ہاں یہ بات درست ہے کہ عمران خان نے کہا تھا کہ میں اس اسٹیل ملز کی مینجمنٹ بدل کر اسے چلاوٗں گا اورنجکاری نہیں کرونگا۔
مگر عوام جانتی ہے، کہ عمران خان کو یو ٹرن مارنے کی عادت ہے۔
لیکن اگر یہ یو ٹرن اسٹیل ملز کو تباہی کے راستے کی طرف سے واپس ترقیّ کے راستے پر لے آتا ہے تو مجھے تو منظور ہے یہ یوٹرن۔ بجائے اس راستے کے جو سیدھا تباہی کی طرف لے جاتا ہو، وہ بھی کسی اسپیڈ بریکر کے بغیر۔
مجھے میری عقل اجازت دیتی ہے اس یو ٹرن کے لیئے، کیونکہ میں اس وقت ہنستا تھا جب عمران خان نے اپنا بیان دیا تھا کہ میں اس کی نجکاری کے بغیر اسے چلا کر دکھاوٗں گا۔ مجھے پتہ تھا کہ عمران خان نے صرف اس اسٹیل ملز کو ابھی باہر سے دیکھا ہے۔ قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے۔
اور ابھی آپ ان لوگوں کے یو ٹرن کے رونے دیکھتے جائیں، اور ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ ان ساڑھے نو ہزار جفا کشوں میں سے کتنے ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں؟
یاسین جامڑو، جو تھریک انصاف کی لیبر یونین کا صدر ہے، اس کے ساتھ آج مظاہرے کے لیئے کوئی پچیس سے تیس بندے تھے۔ پیپلز پارٹی کی لیبر یونین کے صدر جناب شمشاد قریشی کے ساتھ تو اتنے بھی نہیں تھے کہ وہ کوئی ویڈیو ہی بنا کر فیسبک پر چڑھا دیتے۔ نون لیگ اور دیگر کا حال نہ پوچھیں۔
لیکن آپ یہ دیکھیں کہ ان شمشاد قریشی کی آواز پر فوراً پیپلز پارٹی کی قادت حرکت میں آگئی۔ ۳۰ مئی کو کراچی پریس کلب میں رضا ربّانی صاحب نے پریس کانفرنس کردی، جس ہال میں بمشکل بیس بندے تھے۔ دس ان میں سے رضا ربّانی کے ساتھ آئے تھے۔
ارے جناب، جن ملازمین کا مسئلہ ہے، انھیں تو خود یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ اسٹیل ملز کا اس کے علاوہ اب کوئی حل باقی نہیں بچا۔ اس میں پچھلے دس سال میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے چھوڑا ہی کیا ہے؟ صرف اپنے بندے بھرتی کروائے، وہ بھی میرٹ کا گلا کاٹ کر۔ جو بھرتی کروائے، وہ بھی ڈیوٹی پر نہیں آتے، کوئی کام نہیں کرتے۔ خود کہیں اور رہتے ہیں اور کالونی میں ملے سرکاری گھروں کو کرائے پر چڑھا کر رکھا ہوا ہے۔ یہ شمشاد قریشی صاحب بذاتِ خود، ایک چھوڑ، تین مکانوں پر قبضہ جما کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس کسمپرسی کے عالم میں بھی اسٹیل ملز کے یونین ملازمین، جنکی تعداد ساڑھے نو ہزار میں سے اڑھائی ہزار کے لگ بھگ ہے، ہر ماہ ڈیڑھ سو یونٹ بجلی اور گیس تو بلکل ہی مفت استعمال کرتے ہیں۔ یہ کونسی سیاست ہے کہ جس میں صرف یونین ورکروں کو مراعات ملیں اور دیگر ملازمین کوکچھ بھی نہیں؟
سوال تو ان سے سب سے پہلے پوچھنا چاہیئے کہ جب ملز دس سال سے خسارے میں جا رہی تھی، تو انھوں نے اپنی ماں جیسے اس ادارے کے ساتھ کیا برتاوٗ رکھا؟ جب ملز پانچ سال سے بند پڑی ہوئی تھی تو ان کی آوا زکو تب کیا ہوگیا تھا؟
کہتی ہے خلق خدا، تجھے غائبانہ کیا؟
چیف جسٹس آف پاکستان نے ویسے ہی نہیں ان کے بارے میں ریمارکس دیئے تھے کہ ان کو گھر بیٹھ کر کھانے کی عادت ہوگئی ہے۔
اور اب اگر اسٹیل ملز کا درد انکو ستا رہا ہے، تو دنیا ان پر ہنس رہی ہے،بذات خود اسٹیل ملز کے ملازمین کے، کہ جب ان بے دردوں کو درد اٹھے تو سمجھ جائیں کہ چوٹ کسی صحیح جگہہ پر لگی ہے۔