سیاسی

وزارت اعلیٰ پنجاب ساتویں بار اور وزارت اعظمیٰ پانچویں بار شریف خاندان کے ہی گھر میں شریف خاندان 1985 سے سیاست کررہا ہے مگر وزارت اعلیٰ پنجاب ساتویں بار اور وزارت اعظمیٰ پانچویں بار ن لیگ کے اپنے گھر میں پہنچ گئی۔ گزشتہ روز شہبازشریف کو ایک بار پھر وزیراعظم اور مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا اعلان کیا گیا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ شریف خاندان کے گھر کا چوتھا فرد وزیراعلیٰ پنجاب بنے گا۔ شریف خاندان میں سے پہلی بار نوازشریف 1985 میں وزیراعلیٰ پنجاب بنے وہ 1985 سے 1988 کے بعد ضیاء الحق دور میں وزیراعلیٰ بنے، اسکے بعد 1988 کے عام انتخابات کے بعد نوازشریف ایک بار پھر وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔ اگر 1990 میں غلام حیدروائیں وزیراعلیٰ پنجاب تھے مگر وہ نوازشریف اور شہبازشریف کے احکامات پر ہی صوبے کے معاملات چلاتے تھے۔ اسکے بعد 1997 میں شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب بنے مگر انکی وزارت اعلیٰ کااختتام مشرف کے مارشل لاء 12 اکتوبر 1999 کو اختتام پذیر ہوا ۔ الیکشن 2008 کے بعد شہازشریف دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے اور 2013 تک وزیراعلیٰ رہے، 2013 کے عام انتخابات کے بعد شہبازشریف دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے اور 2018 تک براجمان رہے۔ سال 2022 میں رجیم چینج آپریشن ہوا تو حمزہ شہباز تحریک انصاف کے منحرف اراکین کی وفاداریاں تبدیل کرواکر وزیراعلیٰ پنجاب بن گئےمگر 18 جولائی کا الیکشن ہونے کے بعد ان سے وزارت اعظمیٰ تحریک انصاف نے چھین لی۔ جب حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو انکے والد وزیراعظم پاکستان تھے۔ اب مریم نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بننے جارہی ہیں اور شریف خاندان کا چوتھا فرد ہوگا وہ وزیراعلیٰ کے عہدے پر راج کرے گا۔ اسی طرح وزارت اعظمیٰ بھی شریف خاندان کے پاس رہی ، نوازشریف پہلی بار 1993 اور دوسری بار 1997 میں وزیراعظم بنےاسکے بعد نوازشریف جلاوطن ہوئے مگر الیکشن 2013 میں دوبارہ وزیراعظم بنے ۔ اسکے بعد نوازشریف انتخابی سیاست سے آؤٹ ہوگئے اور شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بن گئے۔اسکی وجہ شہبازشریف کا پنجاب میں ہونا بنی وگرنہ شہبازشریف وزارت اعظمیٰ کے مضبوط امیدوار تھے۔ اسکے بعد عمران خان کو اقتدار ملا مگر رجیم چینج آپریشن کے بعد شہبازشریف وزیراعظم بن گئے اور وہ 16 ماہ وزیراعظم بنے۔ اگر چہ تحریک انصاف اکثریت میں ہے مگر شہبازشریف پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کی مدد سے دوبارہ وزیراعظم بننے جارہے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر ورہنما مسلم لیگ ن خواجہ محمد آصف نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں انتخابات کے حوالے سے ایک سوال "نوازشریف تو ووٹ کو عزت دو کی بات کرتے تھے تو کیا یہ ایسے ہونا تھا کہ تحریک انصاف سے ووٹ حاصل کرنے والوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا تھا" کا جواب دیتے ہوئے کہا ٹیکنیکلی دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن ووٹ کو عزت ہی دے رہی ہے کیونکہ ن لیگ میں شامل ہونے والے لوگ آزاد حیثیت میں انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلے کا نشان نہ ملنے پر آزاد حیثیت میں عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدوار اگر اپنی مرضی سے مسلم لیگ ن میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو آ سکتے ہیں ہم تو کسی کو لے اوور نہیں کر رہے نہ ہی کسی کے پاس گئے ہیں۔ پروگرام کے میزبان شاہزیب خانزادہ کے سوال "لوگ جب عمران خان کے پاس جا رہے تھے تو مریم نوازشریف کہتی تھیں کہ لوٹوں کی جگہ باتھ روم میں ہے، اب وہ ن لیگ میں شامل ہو رہے ہیں" پر جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آپ جو بات کر رہے ہیں میں اس سے بطور ایک سیاسی ورکر تو اختلاف نہیں کر سکتا! انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے اس وقت بلکہ کئی دہائیوں سے جو حالات ہیں ان کی بہتری کے لیے تو ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں لیکن بعض دفعہ ایسے حالات ہو جاتے ہیں کہ ان کے اندر رہتے ہوئے ہمیں کام کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اس بات پر افسوس ہے لیکن میں آپ کی اس بات پر زیادہ بحث نہیں کروں گا۔
سابقہ صدر پاکستان زرداری نے حامد میر کو فون کر کے بلایا حامد میر پہنچے تو صدر زرداری ایک گن ہاتھ میں پکڑ کر سٹیل کے بنکر میں چھپے بیٹھے تھے۔ اس وقت انکا ہاتھ ٹریگر پر تھا۔ حامدمیر کے مطابق آصف زرداری جس وقت صدر پاکستان تھے تو انہوں نے فون کرکے حامدمیر کوبلایا،وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے اور پھر تیسرے کمرے اور اس سے بیڈروم پہنچے جہاں سٹیل کے بنکر میں آصف زرداری چھپے ہوئے تھے اور نکے ہاتھ میں رائفل تھی اور انگلی ٹریگر پر تھی۔ حامدمیر کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے کہا کہ یہ مجھے ماردیں گے اور کہیں گے کہ اس نے خودکشی کرلی تم گواہ رہنا میں لڑتے لڑتے شہید ہوجاؤں گا۔ حامدمیر کے مطابق یہ وہ دن تھے جب میڈیا پر خبریں چل رہی تھیں کہ آصف زرداری کی زبان بندی کردی گئی ہے اور اسکے بعد جنرل کیانی نے مداخلت کرکے انہیں دبئی بھجوایا۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما چوہدری منظور احمد نے کہا ہے کہ جنرل قمر باجوہ نے پیپلزپارٹی کے وفد سے کہا تھا کہ 18ویں ترمیم کا خمازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا جسے ہم بھگت رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق جیو نیوز کی الیکشن کے حوالے سے خصوصی ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما چوہدری منظور احمد نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا ایک وفد جی ایچ کیو گیا تھا جہاں جنرل باجوہ نے سب کے سامنے کہا تھا کہ" آپ لوگوں نے جو 18ویں ترمیم منظور کی ہے یہ شیخ مجیب کے 6 نکات سے بھی زیادہ خطرناک ہیں اس کا خمیازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم تو آج تک بھگت رہے ہیں، یہاں آئی جے آئی بن رہی ہے،ملک کو آگے بڑھنے دیں، پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنے دیں، بلے کا نشان ان کا حق ہے، میں ہارتا ہوں ہارنے دیں، یہ صرف پی ٹی آئی کے ساتھ ظلم نہیں ہورہا، اسی الیکشن میں ہمارے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ چوہدری منظور احمد نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے چاہتی ہے کہ جمہوریت آگے بڑھے،ہمیں ایسی جمہوریت نہیں چاہیے جس میں میں یا میرے جیسے لوگ الیکشن نہیں لڑ سکیں گے کیونکہ اب یہ صرف پیسے والوں کا کام رہ گیا ہے۔
بیرسٹر گوہر نے نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کے پروگرام فیصلہ آپ کا میں نوازشریف کی الیکشن سے پہلے نااہلی بارے سوال کے جواب میں کہا کہ نوازشریف کے ساتھ بھی اگر زیادتی ہوئی ہے تو وہ نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کا میں ایسے جواب دوں گا کہ نوازشریف نے کبھی کسی عدالت میں یہ شکوہ نہیں کیا کہ قانون کے مطابق کارروائی نہیں ہو رہی، ان کے کسی گواہ کا کراس ایگزامینیشن کا رائٹ ختم نہیں کیا گیا، 342 کی سٹیٹمنٹ دینے کیلئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں وقت نہیں ملا۔ بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نوازشریف کو سزا دینے سے پہلے 6 ہفتے کا وقت دیا تھا کہ آپ کے پاس جو اربوں کی پراپرٹی ہے اس کے ثبوت جمع کروا دیں جس میں وہ ناکام ہو گئے۔ دوسری طرف ٹرائل کورٹ میں انہی جج صاحب نے فیصلہ کیا لیکن نوازشریف کو وقت دیا گیا تھا جس میں کراس ایگزامینیشن ہوا، ان کی 342 کی سٹیٹ ریکارڈ ہوئی ، کلوزنگ بھی ہوئے لیکن نوازشریف گواہ پیش نہیں کر سکے ۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے ان کے کیس میں قانون کے مطابق عدالتی کارروائی مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ ہوا اور فیصلہ آنے کے بعد وہ جیل میں چلے گئے لیکن ہمارے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ میں نوازشریف کا کیس یہ تھا کہ وہ نااہل ہوئے یا نہیں تاہم ریفرنس نیب نے خود فائل کیا جس پر عدالت نے مانیٹرنگ جج کو اپوائنٹ کیا۔ نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کی طرف سے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر کے بیان کو تروڑ مروڑ پیش کرتے ہوئے اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر لکھا کہ: بیرسٹر گوہر خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نوازشریف کے ساتھ زیادتی ہوئی جو کہ نہیں ہونی چاہیے تھی۔ بیرسٹر گوہر کا بیان غلط انداز میں پیش کرنے پر تحریک انصاف کی طرف سے شدید تنقید کی گئی۔ سربراہ پی ٹی آئی مرکزی میڈیا ڈیپارٹمنٹ صبغت اللہ ورک نے بیرسٹر گوہر کا بیان شیئر کرتے ہوئے اپنے پیغام میں لکھا: چیئرمین تحریک انصاف نے اپنی گفتگو میں یہ جملہ کہاں بولا ہے جسے نکال کر ہم نیوز ڈیجیٹل میں بیٹھے سائنسدانوں نے عوام کو بیچنے کی نہایت سستی سی کوشش کی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ :ہم نیوز انتظامیہ سے پہلے بھی التماس کی کہ اپنی صفوں میں موجود ان سائنسدانوں سےانکے عزائم و اہداف کے بارے میں پوچھ لیجئے اور اگر ان کی سماعتوں میں کسی قسم کا نقص ہے تو اس کا بندوبست کریں! بصورت دیگر اگر صحافت پیشِ نظر ہے تو وہی کچھ بیان کیجئے جو کہا جاتا ہے! صبغت اللہ نے لکھا: جب جب آپ نے خود سے انجینئرنگ کرنے کی کوشش کی ہے، آپ پکڑے بھی گئے ہیں اور ادارے کا نام بھی خراب ہوا ہے۔یہ حرکت بہرحال نہایت بھونڈی اور قابلِ مذمت ہے! ہم آپ سے شفاف صحافت سے بڑھ کر کچھ بھی توقع نہیں رکھتے، یہ تو نری کِذب فروشی ہے، احساس کیجئے!
تحریک انصاف کے سابق ایم این اے فیض الحسن شاہ نے الیکشن کے دوران ہی تحریک انصاف چھوڑدی تھی، پہلے انکے بھائی کو لاپتہ کیا گیا تھا اور بعدازاں انہیں بھی گرفتار کرکے پارٹی چھڑوادی گئی۔ فیض الحسن شاہ کے پی ٹی آئی چھوڑنے کے بعد انکے بھتیجے سید وجاہت حسنین شاہ نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنیکا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد ایک بار پھر گجرات کی سادات فیملی پر برا وقت آگیا انکے خاندان کے مزید افراد لاپتہ ہوگئے۔ سابق ایم این اے اور حلقہ این اے 65 کے امیدوار سید فیض الحسن شاہ کے بیٹے سید مہدی شاہ کھاریاں سے لاپتہ ،خاندانی ذرائع نے سید مہدی شاہ کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کر دی ۔ یاد رہے کہ فیض الحسن شاہ 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھےجبکہ 9 مئی واقعات کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ان کے بھتیجے وجاہت حسنین اسی حلقے سے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امید وار ہیں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے امیدوار وجاہت حسنین شاہ کے کزن اور سابق ایم این اے فیض الحسن شاہ کے بھتیجے سید علی رضا شاہ کو بھی نامعلوم افراد نے اٹھا لیا۔ علی رضا کو آنکھوں کی بیماری ہے اور وہ دیکھ بھی نہیں سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بے شک ائیر چیف مارشل ظہیر سدھو کے بھائی اور مسلم لیگ ن کے امیدوار نصیر سدھو کی جیت کو ہر صورت ممکن بنایا جائے۔ لیکن اگر بات کسی نابینا کو اغوا کرنے تک آ گئی ہے تو پھر آنکھوں والوں کو ویسے ہی ان کی جیت کا نوٹیفکیشن جاری کر دینا چاہئے
سابق رکن قومی اسمبلی اور این اے30 سے انتخابات میں حصہ لینے والی پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شاندانہ گلزار نے عمران خان کی حکومت کے خلاف غیر ملکی سازش کے حوالے سے ہوشربا انکشاف کردیئے ہیں۔ سینئر صحافی واینکر پرسن معید پیرزادہ نے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شاندانہ گلزار کا انٹرویو کیا اور دوران انٹرویو ان سے غیر ملکی سفیر کی ملاقات سے متعلق سوال کیا۔ شاندانہ گلزار نے کہا مجھے ٹریڈ اینڈ کامرس پر بات کرنے کے لیے ایک سفیر کی رہائش گاہ پر بلایا گیا اور مجھے گاڑی اندر لے جانے سے روک دیا گیا، ملاقات میں مجھ سے عمران خان سے حوالے سے پوچھا گیاجس پر میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرا باس ہے، پالیسیوں پر ہمارا اختلاف بھی ہوجاتا ہے مگر اچھا آدمی ہے بات سنتا ہے۔ شاندانہ گلزار نے کہا کہ مجھ سے پاکستان کے معاشی حالات کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے کہا کہ مستقبل بہت روشن ہے، ہماری ایکسپورٹس میں کورونا کے باوجود اضافہ ہوا ہے، ہم 6 فیصد کی شرح سے ترقی کررہے ہیں۔ رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ اس دوران مجھ سے عمران خان کے متبادل کے بارے پوچھا گیا اور کہا گیا کہ کچھ طاقتو ر حلقے یہ چاہتے ہیں کہ آپ پارٹی چھوڑ کر بلاول یا مریم کی پارٹی جوائن کرلیں،میرے لئے یہ جملہ حیران کن تھا ۔ مجھے غصہ بھی آیا کہ کسی ملک کا سفیر ایسے کیسے بات کرسکتا ہے، میں نے کہا کہ ایسی گفتگو سے پرہیز کریں، تو مجھے دو حساس نام لے کر کہا گیا تھا کہ یہ لوگ بھی عمران خان سے خفا ہیں، میں نے جواب دیا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ شاندانہ گلزار نے کہا کہ میں نے جواب دیا کہ مریم کی تعلیم مجھ سے کم ہے اور بلاول کا تجربہ مجھ سے کہیں زیادہ کم ہے، میں کبھی ان کی پارٹی میں نہیں جاؤں گی، جس کے بعد مجھ سے مولانا فضل الرحمان کے بارے میں پوچھا گیا اور کہا گیا کہ وہ بھی پٹھان ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ مں نے اس بارے عمران خان،اسد قیصر اور اسد عمر کو بتایا،غیر ملکی افراد کی میٹنگز صرف میرے ساتھ نہیں بہت سارے لوگوں کے ساتھ ہوئیں۔ ان لوگوں کے ساتھ ڈائریکٹ ایمبسی نے رابطہ کیا تھا۔
سینئر تجزیہ کار کامران خان نے کہا ہے کہ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں ن لیگ کا اکثریتی جماعت بن کر سامنے آنا مشکل ہے اسی لیے نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ آنے والی مخلوط حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے۔ اپنے تازہ ترین وی لاگ میں کامران خان نے کہا کہ کسی کو شبہ نہیں ہے کہ انتخابات 2024 فکسڈ ہیں، چند روز قبل تک یہ امکان تھا کہ میاں نواز شریف چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بنیں گے، مگر اس دوران ہونے والی پیش رفتوں کے بعد تیزی سے کچھ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ انتخابات کے بعد وفاقی میں حکومت بنانے کیلئے ن لیگ کو ہر صورت ایم کیو ایم، آئی پی پی اور آزاد امیدواروں کی کمزور بے ساکھیوں پر کھڑا ہونا پڑے گا، نواز شریف اس کمزور اور ایس آئی ایف سی کے سہارے پر کھڑی حکومت کو اپنے کاندھے پر سوار کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ کامران خان نے کہا کہ نواز شریف کا ذہن بن گیا ہے کہ ایسی کمزور حکومت کی سربراہی شہباز شریف کو سونپ دی جائے، اس فیصلے کو اسٹیبلشمنٹ اور ایس آئی ایف سی کی جانب سے بھی بخوشی قبول کیا جائے گا۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ نواز شریف اتنی بڑی قربانی کی ایک سیاسی قیمت بھی وصو ل کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی سیاسی وارث مریم نواز شریف کے پنجاب کی وزیراعلی بننے کی راہ ہموار کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے میں پیپلزپارٹی کی خاموش حمایت بھی کلیدی کردار ادا کرے گی کیونکہ پیپلزپارٹی نے نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے شہباز شریف کے ساتھ کام کرنے پر مشروط آمادگی ظاہر کی ہے اور اس کے بدلے صدر مملکت کے عہدے کا مطالبہ کردیا ہے، صدر زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی یہ جوڑی اسٹیبلشمنٹ کیلئے قابل قبول ہوگی۔
سابق وفاقی وزیر وسربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد کی طرف سے این اے 56 کے امیدوار پر بانی پی ٹی آئی سے 3 کروڑ روپے میں ٹکٹ خریدنے کے الزام پر پی ٹی آئی رہنما شہریار ریاض نے شدید ردعمل دے دیا۔ شیخ رشید احمد نے الزام عائد کیا تھا کہ راولپنڈی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے -56 سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار شہریار ریاض کو عمران خان نے 3 کروڑ روپے میں ٹکٹ فروخت کیا ہے۔ شہریار ریاض نے نجی ٹی وی چینل کیپیٹل ٹی وی سے تعلق رکھنے والے صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ: میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے شیخ رشید احمد کو ایک سیٹ کے بدلے اتنی بڑی بڑی وزارتیں دیئے رکھیں اور ہزاروں نوکریاں بھی ان کو ملیں لیکن وہ کہاں گئیں یہ الگ سوال ہے لیکن اپنے محسن پر 3 کروڑ روپے کا الزام لگانا انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیخ رشید احمد کے بیان کے بعد پارٹی کارکنوں کی طرف سے متعدد فون آ چکے ہیں، وہ انتہائی غم وغصے میں ہیں کہ عمران خان پر یہ مضحکہ خیز الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے 3 کروڑ روپے لے کر مجھے ٹکٹ جاری کیا ہے۔ شیخ رشید احمد کی عمر کا تقاضا ہے کہ وہ ایسے بیانات دے رہے ہیں اور ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان پر لگائے جانے والے الزام پر فیصلہ ہمارے کارکن اور عوام 8 فروری 2024ء کو اپنے ووٹ کے ذریعے دیں گے۔ شیخ رشید سے کہوں گا کہ تحریک انصاف کے کارکن اور ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کی سازش نہ کریں، یہ کامیاب نہیں ہو گی۔ آپ جس کے ایجنڈے پر یہ کام کر رہے ہیں یہ اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ واضح رہے کہ شیخ رشید احمد نے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی راولپنڈی میں طبی معائنے کے بعد ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان نے این اے -56 سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار شہریار ریاض کو ٹکٹ 3 کروڑ روپے میں فروخت کیا۔ ویڈیو بیان میں کہا "خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں، شہریار نے عمران خان سے 3 کروڑ روپے میں ٹکٹ خریدا ہے لیکن انہیں قلم دوست سے مار پڑے گی۔
چیف الیکشن کمشنر پاکستان تحریک انصاف رؤف حسن نے نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کے پروگرام اپ فرنٹ ود مونا عالممیں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اکبر ایس بابر ہماری سیاسی جماعت کے ممبر نہیں ہیں۔ ہماری سیاسی جماعت کا جو بھی ممبر ہے رابطہ کے اوپر اس کا نام اور نمبر موجود ہے، پارٹی ممبر کے لیے ہماری جماعت نے ایک سائنٹیفک میکنزم تیار کر کھا ہے۔اکبر ایس بابر صرف اور صرف پاکستان تحریک انصاف کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رؤف حسن کا کہنا تھا کہ انہیں کون پروموٹ کر رہا ہے وہ سب بھی کھل کر سامنے آتے جا رہے ہیں۔ ہماری جماعت کا جو بھی ممبر ہے اس کا نام رابطہ پر موجود ہے، وہ ہمارے پاس آئیں اور رابطہ پر اپنا پارٹی نمبر دکھا دیں تو انٹراپارٹی انتخابات کے لیے میں خود انہیں نامینیشن پیپرز دے دوں گا اور وہ انٹراپارٹی الیکشن میں حصہ لے لیں۔ ہماری جماعت سے غیرقانونی طور پر بلے کا انتخابی نشان چھین لیا گیا، اس وقت ہماری جماعت میں کوئی عہدہ نہیں ہے ، پارٹی عہدے دینے کے لیے دوبارہ سے انٹراپارٹی انتخابات کروانا ہوں گے۔ ہم نے جنرل باڈی بنا دی ہے جس کے فیصلوں کے تناظر میں انٹراپارٹی انتخابات کروائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت 5 فروری 2024ء کو دوبارہ سے انٹراپارٹی انتخابات منعقد کرے گی تاکہ پارٹی دوبارہ سے فنکشنل ہوئے اور اس صورت میں شائد الیکشن کمیشن ہمیں ہمارا انتخابی نشان بلا واپس کر دے۔ انٹراپارٹی انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کو ہمیں انتخابی نشان واپس دینا چاہیے کیونکہ ریزور نشستوں پر ہمارا حق اسی وقت ہو گا جب انتخابی نشان واپس ملے گا۔ چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نے کہا کہ 2012ء میں اکبر ایس بابر کو تحریک انصاف سے نکال دیا گیا تھا جس کی باقاعدہ دستاویز بھی ہم جاری کر چکے ہیں۔ اکبر ایس بابر تحریک انصاف کے ممبر نہیں ان کا مقصد صرف پارٹی کو بدنام کرنا ہے، اگر وہ انٹراپارٹی انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو رابطہ پر اپنا پارٹی نمبر دکھائیں تو میں خود انہیں نامینیشن پیپرز دوں گا۔
عام انتخابات 2024: پی ٹی آئی خواتین کوسب سے زیادہ ٹکٹ جاری کرنےوالی جماعت بن گئی عام انتخابات 2024 میں پاکستان تحریک انصاف جنرل نشستوں پر خواتین کوسب سے زیادہ ٹکٹیں جاری کرنے والی جماعت بن گئی ہے، اس معاملے میں ن لیگ سب سے آخر میں نظر آرہی ہے۔ خبررساں ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق عام انتخابات 2024 میں خواتین ووٹرز کی تعدادچھ کروڑ کے لگ بھگ ہے ، عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہےجن میں خواتین امیدواروں کی تعداد صرف محض تین سو کے قریب ہے۔ رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں انتخابات لڑنے والی خواتین کی تعداد355 جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن لڑنے والی خواتین کی تعدادصرف 672 ہے ۔ اس تعداد کو دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے مرد امیدواروں کےمقابلے میں خواتین کو کم مواقع دیئے، بڑی سیاسی جماعتوں کا موقف ہےکہ انہوں نے پانچ فیصد خواتین کوٹے پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے خواتین کو جاری کردہ ٹکٹوں کےمعاملے پر نظر ڈالی جائے تو خواتین کو سب سے زیادہ ٹکٹیں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جاری کی گئی، صرف قومی اسمبلی کیلئے پی ٹی آئی کی جانب سے 20 خواتین امیدوار میدان میں اتاری گئی ہیں، تاہم اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کہ متعدد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوچکے کردیئے گئے تھے۔ جبکہ بڑی جماعتوں میں سے جنرل نشستوں میں سے خواتین کو سب سےکم ٹکٹیں مسلم لیگ ن کی جانب سے جاری کی گئی ہیں۔ خیال رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے متعدد خواتین الیکشن لڑرہی ہیں، خیبرپختونخواہ سے شاندانہ گلزار، مومنہ باسط نمایاں ہیں اسی طرح پنجاب سے تحریک انصاف نے ڈیرہ غازی خان سے زرتاج گل، بہاولپور سے کنول شوذب، لودھراں سے عفت طاہرہ سومرو، راولپنڈی سے سیمابیہ طاہرستی کو امیدوار نامزد کیا ہے اسی طرح لاہور سے ڈاکٹر یاسمین راشد، عالیہ حمزہ، اٹک سے ایمان طاہر،سیالکوٹ سے ریحانہ امتیاز ڈار، قصور سے سدرہ فیصل،ملتان سے مہربانو قریشی، وہاڑی سے عائشہ نذیر جٹ، عارفہ نذیر جٹ، لیہ سے عنبرین مجید نیازی میدان میں ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے خیرپور سے عنبرین ملک، سانگھڑ سے حمیدہ مسعود شاہ، تھرپارکر سے مہرالنسا بلوچ، مٹیاری سے نازش فاطمہ بھٹی، ٹنڈو الہ یار سے روزینہ بھٹو کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ دادو سے شبانہ نواب بجارانی کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کیا ہے مسلم لیگ ن کی جانب سے مریم نواز، سائرہ افضل تارڑ، نوشین افتخار، شذرہ منصب،تہمینہ دولتانہ، شہربانو بخاری الیکشن کیلئے میدان میں ہیں، خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے این اے 29 اور این اے 31 سے صوبیہ شاہد اور این اے خیبر 24 سے فرح خان امیدوار ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر سندھ سے نفیسہ شاہ اور شازیہ مری کو میدان میں ہیں ہے۔ خیبرپختونخوا میں این اے 4 چارسدہ سے شازیہ طہماس، این اے 38 کرک سے مہر سلطانہ اور این اے 39 بنوں سے فرزانہ شیریں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔
سائفر کیس کے تفصیلی فیصلے میں آئین، قانون، دفعات کی بات کم ہے جبکہ الزامات زیادہ ہیں کہ شاہ محمودقریشی اور عمران خان نے یہ کیا وہ کیا، یہ چالاکیاں کیں۔اس میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ عمران خان نے سیاست کی تو اس پر کونسی دفعہ لگتی ہے، امریکہ سے تعلقات خراب ہوئے تو کونسی دفعہ لگتی ہے، تاخیری حربے استعمال کئے تو کونسے قانون کی کونسی شق لگتی ہے۔ یہ تفصیلی فیصلہ کم اور الزامات زیادہ ہیں کہ عمران خان اور شاہ محمودقریشی نے سیاست کی، ملک کو نقنصان پہنچایا، ملک دشمن قوتوں کو فائدہ دیا، معیشت کو نقصان پہنچایا، فوج پر الزامات لگائے۔ اپنی حکومت بچانے کیلئے فلاں فلاں حربے استعمال کئے۔ تفصیلی فیصلے میں سب سے زیادہ فوکس اس بات پر ہے کہ پاکستان اورامریکہ کے تعلقات خراب ہوئے ۔ سائفر کیس کے تفصیلی فیصلے کے اہم نکات دونوں مجرمان نے خود ساختہ پریشانیاں بنائیں، ہمدردیاں لینے کے لیے بےیار و مددگار بننے کی کوشش کی۔ سائفر بہت حساس دستاویز ہے جس سے امریکا پاکستان کا ایک دوسرے پر بھروسا بھی جڑا ہے پاک امریکہ تعلقات کو نقصان پہنچانے کے بعد عمران خان نے پاکستان کی عسکری قیادت پر انہیں اقتدار سے ہٹانے کی سازش کا جھوٹا الزام لگانا شروع کر دیا بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کا مؤقف بری طرح متاثر ہوا، عمران خان نے غیر ملکی طاقتوں کو فائدہ پہنچایا، جو ضروری نہیں کہ پاکستان کے ساتھ دوست ہو پراسیکیوشن کے گواہوں پر جرح بھی کی گئی لیکن وہ بغیر کسی مبالغہ آرائی اور کوئی کہانی گھڑے مطمئن، متاثر کُن پُراعتماد اور اپنے موقف پر قائم رہے عمران خان نے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے سرکاری وکیل کے ساتھ بدتمیزی کی اور فائلیں پھینکیں عمران خان،شاہ محمود کے وکلاء نے قانون کا مذاق بنایا، ان کا رویہ عدالت کے سامنے تھا، نقول فراہمی اور فرد جرم پر دونوں نے دستخط نہیں کیے جس سے نامناسب رویہ ثابت ہوا مجرمان کو جرح کا مکمل موقع دیا گیا لیکن جان بوجھ پرجرح نہیں کی۔ عمران خان نےغیر متعلقہ افراد کے سامنے سائفر کاپی ظاہر کر کے لہرایا جس سے ملک کو نقصان پہنچا عمران خان نے کہا جو کاغذ جلسے میں لہرایا وہ سائفر کی کاپی تھا،عمران خان کا جلسے میں سائفر کاپی ظاہر کر کے لہرانا غیر قانونی قدم تھا عمران خان، شاہ محمود قریشی ہمدردی نہ نرمی کے مستحق ہیں گواہان کے مطابق شاہ محمود قریشی نے جلسوں میں سائفر کے معاملے پر لوگوں کو اکسایا سائفر سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو نقصان پہنچایا گیا سائفر معاملے سے ملک دشمنوں کو فائدہ پہنچا مران خان اور شاہ محمود قریشی نے کیس میں تاخیر کے لئے چھپن چھپائی کا کھیل کھیل عمران خان، شاہ محمود قریشی نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے سائفر کو استعمال کیا، سائفر کو جلسے میں لہرانے سے ملک کے سائفر سسٹم کی سالمیت کو نقصان پہنچا مارچ کو انہوں نے کہا امریکا نے دھمکی دی، اس سے پاک امریکا تعلقات کو نقصان پہنچا، امریکا نے ردعمل میں تین بار کہا کہ عمران خان کا بیان حقیقت پر مبنی نہیں امریکا کے بعد عمران خان نے جھوٹ بولا کہ سازش کے تحت حکومت ختم کی گئی اور افواج پاکستان کو نشانہ بنایا۔ جب بھی عدالتی فیصلے پڑھے تو ہائیکورٹس، سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حوالے ملے، کہ فلاں فلاں کیس میں فلاں فلاں فیصلہ تھا یا قانون کے حوالے ہوتے ہیں کہ فلاں شق یہ کہتی ہے، فلاں شق یہ کہتی ہے۔ سائفر فیصلہ سارا پڑھا، ایسا کچھ نہ ملا، لگتا ہے ن لیگ الزامات کو تحریری شکل میں لکھا گیا ہے۔
مفرور اور اشتہاری کو الیکشن لڑنے سے روکنے کی کوئی پابندی آئین میں ہے نہ قانون میں۔ عدالتیں اور ریٹرننگ افسران اپنے طور پر اضافی پابندیاں نہیں لگا سکتے، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ کا طاہر صادق کیس میں فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کے حق پر کسی بھی قسم کی پابندی نمائندہ حکومت کے دل پر حملہ کرنے کے مترادف ہے میجر طاہر صادق کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ امیدواروں کی اہلیت / نااہلیت کے متعلق اگر آئین یا قانون میں کوئی ابہام ہو تو پھر انتخابی قوانین کی تشریح امیدوار کے حق میں ہی کی جائے گی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اپنی پسند کے امیدوار کو آزادی سے ووٹ دینے کا حق جمہوری معاشرے کی روح ہے، ووٹ دینے کے حق پر کسی بھی قسم کی پابندی منتخب حکومت کے دل پر حملہ کرنے کے مترادف ہے، جمہوریت کا انحصار اس پر ہے کہ عوام منتخب حکومت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہوں، عوام کے انتخاب پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، عوام کا مینڈیٹ حکومت کی تقدیر بدل سکتا ہے، سپریم کورٹ عوام انتخابی عمل اور ووٹ کے ذریعے جمہوریت اور ملک کے عوامی معاملات میں حصہ لیتے ہیں، اس طرح شہری ووٹ دے کر اپنی پسند کی حکومت کی تشکیل کا انتخاب کرنے کے اپنے حق سے لطف اندوز ہوتے ہیں فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ایک آزاد ملک میں ووٹ کا حق استعمال کرنے سے زیادہ قیمتی حق اور کوئی نہیں، اگر ووٹ کا حق مجروح ہو رہا ہو تو دیگر تمام حقوق محض خیالی ہیں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 17 کی تشریح کرتے ہوئے کہا آرٹیکل 17(2) کے تحت سیاسی جماعت بنانا یا اس کا ممبر منتخب ہونا ہی الیکشن لڑنے کا حق نہیں بلکہ اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینا بھی حق ہے، اگر سیاسی انصاف کی آئینی اہمیت کے تحت شہریوں کی اپنی پسند کے نمائندوں کا آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا حق تسلیم نہ کیا جائے تو آرٹیکل 17(2) کھوکھلا ہے، شہریوں کا بطور ووٹر انتخابات میں حصہ لینا جمہوری حکومت کی بنیاد ہے سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ ووٹ کے حق کا استعمال شہریوں کی پسند کا اظہار ہے جس کو آئین کے آرٹیکل 19 سے بھی سپورٹ حاصل ہے، اپنے بنیادی حقوق کا استعمال کر کے شہری اپنی تقدیر کا فیصلہ اپنی پسند کی حکومت بنا کر کرتے ہیں فیصلے کے مطابق امیدوار کا الیکشن لڑنا اور ووٹر کا ووٹ دینا امیدوار کی اہلیت اور نااہلی کو طے کرتا ہے، امیدواروں کی اہلیت اور نااہلی کا تعین کرنے کا مقصد الیکشن لڑنے والے امیدواروں کی دیانتداری اور انتخابی عمل کی افادیت برقرار رکھنا ہے، یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ عوامی عہدہ رکھنے والے کچھ معیارات پر پورا اترتے ہوں، ایک مضبوط جمہوری معاشرے میں اہلیت اور نااہلی کا معیار کی واضح تشریح کی جاتی ہے جس کے بارے عوام کو آگاہی ہوتی ہے اور اس کا یکساں اطلاق کیا جاتا ہے، اہلیت اور نااہلی کا آئین میں واضح طور پر لکھا جانا چاہیے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابی قوانین حق رائے دہی کے حق میں بنائے جانے چاہیے تاکہ ووٹرز کے پاس اپنے مستقبل کی قیادت کے انتخاب کے لیے زیادہ سے زیادہ چوائس ہو، ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر عدالتوں کو کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد کرنے کے معاملات کو دیکھنا چاہیے شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ درخواست گزار کے خلاف اعتراض کنندہ اشتہاری مجرم کا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا، ریکارڈ سے ایسا کچھ ثابت نہیں ہوتا کہ درخواست گزار ایک اشتہاری مجرم ہے، کیس کو سنے بغیر کسی کو اشتہاری مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا، کسی اشتہاری کا صرف اس کے متعلقہ کیس تک ہی تعلق ہوتا ہے اس کا دیگر مقدمات سے کوئی تعلق نہیں بنتا، آئین اور الیکشن ایکٹ میں اشتہاری مجرم کے الیکشن لڑنے پر کوئی پابندی نہیں، الیکشن کمیشن اس بات کو یقینی بنائے کہ درخواست گزار عام انتخابات میں حصہ لے سکے،الیکشن کمیشن چاہے تو اعتراض کنندہ سے کیس کے اخراجات وصول کر سکتا ہے
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز کے چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری کا کہنا ہے کہالیکشن کے بعد سیاسی بحران کم ہوجائے گا، ہمارے ووٹوں کے بغیر کوئی بھی وزیراعظم نہیں بن سکتا. شہباز شریف کے محنتی ہونے پر بات کرتے ہوئے آصف زرداری نےکہا کہ شہباز شریف 'لکیرکے فقیر' ہیں، ملکی مسائل کے حل 'آؤٹ آف دی باکس' سوچے بغیر حل نہیں ہوسکتے۔ آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کی سوچ کا عکس ہے، 16 ماہ جو حکومت چلی ہے اس کی کارکردگی کا مسئلہ ان کو بھی ہے ہم سے بھی کچھ دوست پوچھتے ہیں، سب کہتے تھے کہ شہباز شریف سخت محنتی ہیں وہ ہیں، لیکن یہ لکیر کے فقیر ہیں۔ ہم نیوز کے پروگرام فیصلہ آپ کا ود عاصمہ شیرازی میں آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ہمیں جو مسائل ہیں وہ آؤٹ آف دی باکس سوچے بغیر حل نہیں ہو سکتے، یہ تو پہلے دن بائیکاٹ اور استعفیٰ دینا چاہتے تھے، اگر پارلیمنٹ میں نہ رہتے تو عدم اعتماد میں ووٹ بھی نہ دے سکتے. ایک انٹرویو میں آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ ہم باتیں بھی سن لیتے ہیں جیلیں بھی کاٹ لیتے ہیں لیکن جیل بھیجنے والوں کو کچھ نہیں کہتے، مگر میاں صاحب کے ہاں یہ حساب کتاب نہیں وہ بہت مغرور آدمی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ کبھی ہوا ہے کہ میاں صاحب لاڈلے نہ رہے ہوں؟ جب لاڈلے نہیں رہتے تو پاور سے نکل جاتے ہیں، کیسز میرے ختم نہیں ہوئے تو میں بانی پی ٹی آئی کے کیسز کا انجام کیا بتاؤں؟ کیسز میرے بھی چل رہے ہیں صرف میاں صاحب کے کیسز ختم ہوئے، وجہ شاید ہمارا ڈومیسائل کمزور ہوگا۔ سابق صدر نے یہ بھی کہا کہبابا بھٹ سے کشمور تک پی ٹی آئی نظر نہیں آتی، میں نے کب کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے بات کروں گا، جو آزاد امیدوار آئیں گے ان سے بات کریں گے۔ جے یو آئی، جماعت اسلامی، باپ پارٹی سے بات کریں گے. آصف زرداری نے کہا کہ پنجاب پیپلز پارٹی کا ہدف تھا اور ہمیشہ رہے گا، ملک میں نواز حامی نہیں اینٹی نواز ووٹ موجود ہے، جس پر بلاول ٹھیک کام کر رہے ہیں۔ پنجاب میں بہت محرومیت ہے جو دوستوں کو نظر نہیں آتی۔ انکا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ہی آتی ہے تو زراعت دوست پالیسی لاتی ہے، پیپلز پارٹی ہر گھر اور ہر محلے میں موجود ہے، بی بی کے زمانے سے ہمیں پنجاب میں توڑنے کی سازش کی جا رہی ہے، اس بار ارادہ ہے کہ مستقل پنجاب میں بیٹھنا ہے۔ آصف زرداری نے مزید کہا کہ میرے حساب سے تو پرو نواز ووٹ ہے ہی نہیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی دوبارہ سے مین پارٹیاں بنیں گی، تحریک انصاف اب سیاست ایک سائیڈ شو رہے گی، تحریک انصاف کوئی نظریہ فلاسفی نہیں بدتمیزی کا ڈرامہ ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جو لوگ تحریک انصاف میں گئے تھے وہ دوست واپس آنا چاہتے ہیں، امید ہے یہ دوست الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی میں واپس آجائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں سابق صدر کا کہنا تھا کہ مجھے حیرانی ہوگی اگر لطیف کھوسہ الیکشن جیت جائیں۔ سابق صدر نے مزید کہا کہ بلاول بھٹو زرداری تو وزارت خارجہ سے مستعفی ہونا چاہتے تھے، بلاول بھٹو زرداری کے لیے وزارت خارجہ کا تجربہ چاہیے تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا میں موسم سرد ہے اس موسم میں دہشتگردی کم ہوتی ہے، لوگ ووٹ ڈال سکیں گے، سرد موسم میں پہلے بھی الیکشن ہوئے ہیں، کچھ روڈ بلاکس ہیں اگر نہ ہو تو قومی اسمبلی کی 80 سے زائد نشستیں جیت سکتے ہیں۔ کچھ روڈ بلاکس نہ ہوئے تو کراچی کی تمام نشتیں جیت سکتے ہیں، انسان کو حالات کے ساتھ سمجھوتا کرناچاہیے، حالات سمجھوتا نہیں کرتے۔ آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کو پاکستان کا مستقبل سمجھتا ہوں، بلوچوں کو بہت پیار سے سنبھالنا ہوگا، مسائل حل کرنا ہوں گے، پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں ہے بلوچستان میں نہیں، پنجاب میں ساؤتھ میں پی ٹی آئی کم ہے سینٹر میں ہے۔ سابق صدر نے کہا کہ لائن لاسسز کم کریں گے تو 300 یونٹ بجلی غریب کو مفت مل سکتی ہے، سولر سسٹم سے بھی غریبوں کو مفت بجلی فراہم کی جاسکتی ہے ، غریبوں کو 300 یونٹ مفت بجلی ایک سال میں فراہم کردیں گے، پی آئی اے بیچنے نہیں دیں گے ، تمام ادارے بیچے بغیر چل سکتے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ جیل میں گزارا اور انہوںنے سیاست میںبہت تنقید کا سامنا بھی کیا۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹو کے شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی کمان آصف زرداری کو سوپنی گئی اور 2008ء میں وہ پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔ آصف علی زرداری کا تعلق ایک سیاسی خاندان سے ہے، ان کے والد حاکم علی زرداری پیپلز پارٹی میںشامل ہونے سے پہلے بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی میں سرگرم تھے تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار نے پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لینے سے متعلق سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے کو جمہوریت کو کمزور کرنے کا باعث بننے والافیصلہ قرار دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لینے سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہےجس میں فیصلے کے حق میں دلائل پیش کیے گئے ہیں، تاہم سینئر صحافی و تجزیہ کار اسد طور نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اپنا تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان پر ہونے والی تنقید کا جواب ہے۔ اسد طور نے کہا کہ بظاہر تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس کی جانب سے آنے والے عام انتخابات کی ساکھ غیر منصفانہ او ر جانبدارانہ چوٹ لگانے اوراسٹیبلشمنٹ کے آلہ کارالیکشن کمیشن پرہونے والی تنقید کے دفاع میں دیا جانے والا جواب ہے۔ https://x.com/AsadAToor/status/1750495886134903144?t=NbkjTx6wYnvmug9q0cRzmg&s=08 اسد طور نے کہا کہ فیصلے سے لگتا ہے کہ چیف جسٹس ملک میں جمہوریت پر پی ٹی آئی کے اندر کی جمہوریت کو ترجیح دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کیلئے پی ٹی آئی کے شفاف انٹراپارٹی انتخابات ملک میں ہونے والے انتخابات سے زیادہ اہم ہیں، چیف جسٹس نے یہ بھی کہنے کی کوشش کی کہ پی ٹی آئی کے بلے کا نشان کھونے کے ذمہ دار وہ نہیں بلکہ خود پی ٹی آئی ہے۔ اسد طور نے تحریری فیصلے میں درج ایک پورے پیراگراف کا حوالہ بھی دیا جس میں نشان سے محروم ہونے کی ساری ذمہ داری پی ٹی آئی پر ڈالی گئی تھی اور انٹرپارٹی انتخابات نا کروانے کو پی ٹی آئی ہٹ دھرمی قرار دیا گیا۔ اسد طور نے کہا کہ چیف جسٹس نے انٹرپارٹی انتخابات کروانے سے متعلق آرٹیکل 17 کی شق 4 کو ہٹانے کو واضح طور پر نظرانداز کیا اور اپنے فیصلے کا دفاع میں نفرت یا عداوت کی دلیل دیتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں انٹراپارٹی کی ضرورت کو ختم کرنا ایک غلطی تھی، جسے اگر تسلیم کرلیا جائے تو یہ تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہے، اسد طور نے کہا کہ چیف جسٹس نے لاکھوں ووٹرز اور ان کے امدیواروں کے حق رائے دہی کا دفاع کیا اور کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ تقریباً آٹھ لاکھ پچاس ہزار ممبران ہیں ، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرائے گئے تو یہ سب حق رائے دہی سے محروم ہو گئے۔
صحافی عامرمتین کا کہنا تھا کہ سارا شریف خاندان الیکشن لڑ رہا ہے اور مقابلے پر قیدی عورتیں ہیں جن کے ہاتھ اور منہ بندھے ہیں۔ واہ او شیرو ! ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ اب پنجاب کی پارٹی رہ گئی ہے وہ بھی پتا نہیں کتنے فیصد۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک خاندان کے چار لوگ لاہور میں 14 سیٹوں پہ الیکشن لڑ رہے ہوں۔ آدھے لاہور میں بڑا خاندان الیکشن میں کھڑا ہے لاہور میں ۔ عامرمتین کا کہنا تھا کہ مصیبت پڑ گئی ہے نواز شریف کو 26 سال بعد حلقے میں جانا پڑ گیا ہے ۔ تین بار کا وزیراعظم جیت کے بھی ہارا ہوا ہے کیونکہ انکا مقابلہ جیل میں موجود عمر رسیدہ عوت سے ہے عامرتمین نے کہا کہ نواز شریف کامقابلہ اک کینسر کی قیدی مریضہ یاسمین راشد سے ہے۔ یہ جیت کر بھی ہارے ہوئے ہیں۔ اگر ہار گئے تو بہت شرمندگی کی بات ہو گی۔ سارا شریف خاندان الیکشن لڑ رہا ہے اور مقابلے پر قیدی عورتیں ہیں جن کے ہاتھ اور منہ بندھے ہیں۔ واہ او شیرو !
پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما ندیم افضل چن نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے سرگودھا میں واضح پیغام دیا ہے کہ ہم تقسیم اور نفرت کی سیاست نہیں کرنا چاہتے نہ ہی یہ چاہتے ہیں کہ کسی کی بچیوں کو گھسیٹا جائے۔ نفرت اور تقسیم کی سیاست کو ختم کر ہمارے ملک کے مفاد میں ہے، پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے والے 80 فیصد لوگوں کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کے کارکنوں کے درمیان ایک دوری تھی جسے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو نے آکر ختم کیا ہے، بینظیر بھٹو شہید، آصف علی زرداری کے بعد بلاول بھٹو زرداری عوام میں آیا ہے اور اپنے کارکنوں سے بات کر رہا ہے۔ بلاول بھٹو روایتی سیاست کے خلاف ہیں اور وہ اپنے منشور میں نوجوانوں کو صرف نعرہ نہیں دے رہے بلکہ اس پر عملدرآمد کا طریقہ کار بھی بتا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو ہر ضلع اور تحصیل میں جاکر لوگوں سے مل رہے ہیں اور پیپلزپارٹی کی پالیسی پر نوجوانوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں دوسرا کوئی بھی رہنما نظر نہیں آرہا جو ایسے ہر ضلع یا تحصیل میں جا کر کارکنوں سے بات کر رہا ہو، سیاسی ماحول بنا رہا ہے۔ لوگوں نے ہمارے اداروں کو پولیٹیسائز کیا جبکہ بلاول بھٹو زرداری ڈی پولیٹیسائز لوگوں کو پولیٹیسائز کر کے سسٹم میںلا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایسے لوگ دوبارہ سے سیاست میں آئیں، ان کے ساتھ کرنے کی ضرورت تھی جو بلاول بھٹو کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے امیدواروں کے انتخاب جیتنے کی صورت میں ان کے سامنے اگر 2 چوائسز ہوں کہ ن لیگ میں جانا ہے یا پیپلزپارٹی میں تو ان کی ترجیح پیپلزپارٹی ہی ہو گی کیونکہ پیپلزپارٹی ان کی بات بھی کر رہی ہے۔ ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خیال میں پیپلزپارٹی ایک جمہوری جماعت ہے اور وہ انتقام کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی اور ہمیشہ آئین کی بات کرتی ہے۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی کے نوجوان طبقے کے پاس اگر ن لیگ یا پیپلزپارٹی چوائس ہو تو یقیناً ترجیح پیپلزپارٹی ہو گی اور ہمارا انتخاب بھی تحریک انصاف ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں بہت سے کھلواڑ ہو چکے ہیں لیکن ہم بی بی کی شہادت کے بعد بھی پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اے آر ڈی انہیں لوگوں کے ساتھ مل کر بنائی جو ان کی حکومت گرانے میں شامل تھے۔ پیپلزپارٹی نے ملک کے آئین کے لیے بڑے بڑے کمپرومائز کیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک آگے بڑھے چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے ہم تیار ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف اور پارٹی کے بانی عمران خان کی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں, جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر اینکر پرسن و تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات بنانے کی پوری کوشش کی مگر بات نہیں بنی۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سوا تمام جماعتوں کی امیدیں خلائی مخلوق سے وابستہ ہیں، خیبرپختونخوا کے کچھ حلقوں میں پیپلزپارٹی نے پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی ہے، پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے اپنے امیدواروں سے کہہ دیا ہے کہ اگر آپ نے وفاداری تبدیل کی تو کارکن آپ کا احتساب کریں گے۔ حامد میر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کچھ امیدوار اگر کامیابی کے بعد پارٹی تبدیل کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا ان سے زور زبردستی سے وفاداری تبدیل کروائی گئی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس حوالے سے الیکشن سے پہلے کوئی کردار ادا کرنا چاہئے۔ حامد میر نے مزید کہا کہ استحکام پاکستان پارٹی کے لوگ نجی گفتگو میں کہہ رہے ہیں ہماری اوپر بات ہوگئی ہے وزیراعلیٰ پنجاب ہمارا ہوگا، نواز شریف کے انتخابی مہم میں فعال نہ ہونے کی بڑی وجہ سیکیورٹی ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ تحریک انصاف کا ہر آزاد امیدوار ڈیل کرنے کی کوشش میں ہے کہ اسے جیتنے دیا جائے پھر پارٹی چھوڑ دے گا۔ سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ججز، حکومت اور سپریم کورٹ بار ایک پیج پر ہیں۔ سینئر اینکر پرسن و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ تحریک انصاف کے کارکن اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے چلارہے ہیں، پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سپورٹرز اپنے امیدواروں کے انتخابی نشانات کی پبلسٹی کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا بہت مشکل ہوگا کہ پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار پکے ہوئے پھل کی طرح کسی دوسری جماعت کی جھولی میں جاگریں گے، اگر کوئی بھی کامیاب امیدوار ایسا کرتا ہے تو اسے حلقے میں کارکنوں کے شدید ردعمل کا سامنا ہوگا، پی ٹی آئی کے کامیاب امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کیلئے انہیں اٹھانا پڑے گا، پھینٹی لگانی پڑے گی۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں الیکشن مہم چلانے کی اجازت تک نہیں دی جا رہی، الیکشن سے 3دن قبل مجھے چھوڑیںاور صرف ایک جلسہ کرنے کی اجازت دے دیں سب کو لگ پتہ جائے گا،نئے انٹرا پارٹی انتخابات ہوں گے یا نہیں اس بارے ابھی نہیںپتہ ،پی ٹی آئی چھوڑنے والا اپنا سیاسی مستقبل ختم کر لے گا، انہوں نے کہا ملک میں قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی مگر ہم آخری گیند تک لڑیں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق اڈیالہ جیل میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ توشہ خانہ میں تمام تحائف کا تخمینہ دبئی میں بھارتی شہری کی چھوٹی سی دکان سے لگوایا گیا عمران خان نے کہا سارا کیس اسی گواہ پر تھا جس پر آج جرح کی نہیں گئی, ایک کروڑ 80 لاکھ روپے کی جیولری کو 300 کروڑ روپے تک پہنچا دیا گیا، تحائف کی قیمت میں اضافہ صاحب کو خوش کرنے کےلئے کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نااہل کیا گیا جبکہ عدالت کا فیصلہ معطل ہو چکا ہے دوسری جانب ،سزا یافتہ نواز شریف کو کلیئر کر دیاگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری نااہلی کے خلاف اپیل اور انسانی حقوق کےلئے دائر پٹیشن کو نہیں سنا جا رہا، یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں ہمارے امیدواروں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کی مستردگی کےخلاف لاہور ہائی کورٹ فیصلہ کے باوجود 4 روز سے تحریری آرڈر جاری نہیں کر رہا، جس طرح کا الیکشن کروایا جا رہا ہے اس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا ملک کابیڑا غرق ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی لیکن ہم آخری گیند تک لڑیں گے، 5اگست کے بعد نریندر مودی سے کبھی رابطہ نہیں کیا، ابھی نندن کے معاملہ پر بھی مودی سے رابطہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی یہ سب جھوٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ جو پی ٹی آئی چھوڑے گا وہ اپنا سیاسی مستقبل ختم کر لے گا، پی ٹی آئی کے پاس ووٹ بینک ہے اسی لئے یہ پارٹی نہیں ٹوٹ رہی، الیکشن ختم ہوتے ہی لوگ پی ٹی آئی کی طرف آئیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ میں سیاست دان ہوں سیاست کروں گا بندوق ہاتھ میں نہیں پکڑوں گا، عزت ،ذلت ،زندگی ،موت ،رزق ،اقتدار سب اللہ دیتا ہے، الیکشن کمیشن کا میچ پہلے سے فکس تھا اسی لئے ہمارے انٹرا پارٹی انتخابات کے معاملے کو التوا دیا جاتا رہا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات پر سوال نہیں اٹھا سکتا، نئے انٹرا پارٹی انتخابات ہوں گے یا نہیں اس بارے ابھی کوئی پتہ نہیں، صدر مملکت نے معاملات سلجھانے کی بہت کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ سنا ہے نواز شریف نے لیہ کا جلسہ کینسل کر دیا ان کے جلسے نہیں جلسیاں ہو رہی ہیں، میں کہتا ہوں الیکشن سے تین دن قبل مجھے چھوڑ دیں اور صرف ایک جلسہ کرنے کی اجازت دے دیں ان کو لگ پتہ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ایک پلان اللہ بناتا ہے اور ایک پلان بندہ بناتا ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو اللہ کا پلان ہوتا ہے، پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کروں گا، یہ سب صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ عمران خان دوبارہ اقتدار میں نہ آ جائے۔
تحریک انصاف کو مختلف حلقوں سے بڑی بڑی کامیابیاں ملنے لگیں۔ قصور، جھنگ، ننکانہ صاحب، راولپنڈی میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی پوزیشن مستحکم۔۔ پی پی 125 جھنگ سردار افتخار احمد خان بلوچ سے پی ٹی آئی امیدوار سردار غلام احمد خان گاڈی کی سردار حاجی مختار خان بلوچ ،سرادر ظفر خان بلوچ کے ہمراہ ملاقات سرادر افتخار احمد خان بلوچ نے غلام احمد گاڈی کی ہمایت کا اعلان کر دیا جو انتخابی نشان چارپائی پر الیکشن لڑرہے ہیں۔ ننکانہ صاحب سے 2018 میں 69 ہزار کے قریب ووٹ لینے والے آزاد امیدوار طارق محمودباجوہ نے تحریک انصاف کے ارشد ساہی کی حمایت کااعلان کردیا۔۔ طارق محمودباجوہ نے نومئی کے واقعات پر تحریک انصاف چھوڑدی تھی۔ این اے 53 سے 2018 کے آزادامیدوار پیر نصیر الحسنین شاہ نے تحریک انصاف کے کرنل (ر) اجمل صابر راجہ اور صوبائی امیدوار امیر افضل کی حمایت کا اعلان کردیا۔ پیر نصیر الحسنین شاہ نے 2018 میں صوبائی نشست پر 22000 سے زائد ووٹ لئے تھے۔ این اے 97 سے تاندلیانوالہ سے عائشہ رجب بلوچ اور انکے بیٹے روشن رجب بلوچ نے تحریک انصاف کے امیدوار سعداللہ بلوچ کی حمایت کا اعلان کردیا لودھراں پی پی 225 سے حاجی عبداللہ تھیم ،ملک مشتاق تھیم نے تحریک انصاف کی امیدوار شازیہ حیات اللہ خان ترین کی حمایت کا اعلان کر دیا قصور کے حلقہ این اے 133 سے سابق وزیر سردار آصف نکئی نے تحریک انصاف کے امیدوار عظیم الدین کی حمایت کااعلان کردیا۔۔ سردار آصف نکئی تحریک انصاف کے سابق وزیر رہ چکے ہیں۔
تحریک انصاف سے بلا چھینے جانے کے بعد پیپلزپارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی کی نظریں تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں پر۔۔ بلاول کا آزاد امیدواروں کو ساتھ لیکر وزیراعظم بننے کا عزم۔۔ دوسری جانب فیاض الحسن چوہان بھی پیچھے نہ رہے اور کہا کہ جو بھی آزاد امیدوار جیتے گا وہ ہماری پارٹی میں آئے گا، انہیں اسی یقین دہانی پر جتوایا جائے گا کہ وہ ہماری پارٹی میں شامل ہونگے گزشتہ روز بلاول بھٹو نے صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ آزاد ارکان کے ساتھ ملکر پیپلز پارٹی کی حکومت بنائیں گے اور اگلی حکومت میں نواز شریف اپوزیشن لیڈر ہوں گے صرف یہی نہیں ایک نجی چینل کے شو میں بھی بلاول نے کہا کہ یہ جو الیکشن ہو رہے ہیں ان میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں سمیت آزاد امیدوار بڑی تعداد میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہم بالکل بہت سارے آزاد امیدواروں کیساتھ رابطے میں ہیں دوسری جانب فیاض الحسن چوہان نے بھی بڑے بڑے دعوے کردئیے اور کہا کہ تحریک انصاف کے صرف وہی لوگ الیکشن جیتیں گے جوکمٹمنٹ کریں گے کہ وہ بعد میں پارٹی چھوڑ دیں گے۔۔ ان جیتنے والوں کی بڑی تعداد استحکام پارٹی جوائن کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یاسمین راشد سمیت کچھ اہم رہنماوں کے خلاف الیکشن سے کچھ دن پہلے یا بعد ،فیصلے آسکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ نا اہل ہو جائیں گے فیاض چوہان کا کہنا تھا کہ میرے الیکشن لڑنے سے حلقے کا ووٹ بینک تقسیم ہوگا جسکا براہ راست فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا اسلیے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے