سیاسی

سابق رکن قومی اسمبلی اور این اے30 سے انتخابات میں حصہ لینے والی پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شاندانہ گلزار نے عمران خان کی حکومت کے خلاف غیر ملکی سازش کے حوالے سے ہوشربا انکشاف کردیئے ہیں۔ سینئر صحافی واینکر پرسن معید پیرزادہ نے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شاندانہ گلزار کا انٹرویو کیا اور دوران انٹرویو ان سے غیر ملکی سفیر کی ملاقات سے متعلق سوال کیا۔ شاندانہ گلزار نے کہا مجھے ٹریڈ اینڈ کامرس پر بات کرنے کے لیے ایک سفیر کی رہائش گاہ پر بلایا گیا اور مجھے گاڑی اندر لے جانے سے روک دیا گیا، ملاقات میں مجھ سے عمران خان سے حوالے سے پوچھا گیاجس پر میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرا باس ہے، پالیسیوں پر ہمارا اختلاف بھی ہوجاتا ہے مگر اچھا آدمی ہے بات سنتا ہے۔ شاندانہ گلزار نے کہا کہ مجھ سے پاکستان کے معاشی حالات کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے کہا کہ مستقبل بہت روشن ہے، ہماری ایکسپورٹس میں کورونا کے باوجود اضافہ ہوا ہے، ہم 6 فیصد کی شرح سے ترقی کررہے ہیں۔ رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ اس دوران مجھ سے عمران خان کے متبادل کے بارے پوچھا گیا اور کہا گیا کہ کچھ طاقتو ر حلقے یہ چاہتے ہیں کہ آپ پارٹی چھوڑ کر بلاول یا مریم کی پارٹی جوائن کرلیں،میرے لئے یہ جملہ حیران کن تھا ۔ مجھے غصہ بھی آیا کہ کسی ملک کا سفیر ایسے کیسے بات کرسکتا ہے، میں نے کہا کہ ایسی گفتگو سے پرہیز کریں، تو مجھے دو حساس نام لے کر کہا گیا تھا کہ یہ لوگ بھی عمران خان سے خفا ہیں، میں نے جواب دیا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ شاندانہ گلزار نے کہا کہ میں نے جواب دیا کہ مریم کی تعلیم مجھ سے کم ہے اور بلاول کا تجربہ مجھ سے کہیں زیادہ کم ہے، میں کبھی ان کی پارٹی میں نہیں جاؤں گی، جس کے بعد مجھ سے مولانا فضل الرحمان کے بارے میں پوچھا گیا اور کہا گیا کہ وہ بھی پٹھان ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ مں نے اس بارے عمران خان،اسد قیصر اور اسد عمر کو بتایا،غیر ملکی افراد کی میٹنگز صرف میرے ساتھ نہیں بہت سارے لوگوں کے ساتھ ہوئیں۔ ان لوگوں کے ساتھ ڈائریکٹ ایمبسی نے رابطہ کیا تھا۔
سینئر تجزیہ کار کامران خان نے کہا ہے کہ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں ن لیگ کا اکثریتی جماعت بن کر سامنے آنا مشکل ہے اسی لیے نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ آنے والی مخلوط حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے۔ اپنے تازہ ترین وی لاگ میں کامران خان نے کہا کہ کسی کو شبہ نہیں ہے کہ انتخابات 2024 فکسڈ ہیں، چند روز قبل تک یہ امکان تھا کہ میاں نواز شریف چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بنیں گے، مگر اس دوران ہونے والی پیش رفتوں کے بعد تیزی سے کچھ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ انتخابات کے بعد وفاقی میں حکومت بنانے کیلئے ن لیگ کو ہر صورت ایم کیو ایم، آئی پی پی اور آزاد امیدواروں کی کمزور بے ساکھیوں پر کھڑا ہونا پڑے گا، نواز شریف اس کمزور اور ایس آئی ایف سی کے سہارے پر کھڑی حکومت کو اپنے کاندھے پر سوار کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ کامران خان نے کہا کہ نواز شریف کا ذہن بن گیا ہے کہ ایسی کمزور حکومت کی سربراہی شہباز شریف کو سونپ دی جائے، اس فیصلے کو اسٹیبلشمنٹ اور ایس آئی ایف سی کی جانب سے بھی بخوشی قبول کیا جائے گا۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ نواز شریف اتنی بڑی قربانی کی ایک سیاسی قیمت بھی وصو ل کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی سیاسی وارث مریم نواز شریف کے پنجاب کی وزیراعلی بننے کی راہ ہموار کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے میں پیپلزپارٹی کی خاموش حمایت بھی کلیدی کردار ادا کرے گی کیونکہ پیپلزپارٹی نے نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے شہباز شریف کے ساتھ کام کرنے پر مشروط آمادگی ظاہر کی ہے اور اس کے بدلے صدر مملکت کے عہدے کا مطالبہ کردیا ہے، صدر زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی یہ جوڑی اسٹیبلشمنٹ کیلئے قابل قبول ہوگی۔
سابق وفاقی وزیر وسربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد کی طرف سے این اے 56 کے امیدوار پر بانی پی ٹی آئی سے 3 کروڑ روپے میں ٹکٹ خریدنے کے الزام پر پی ٹی آئی رہنما شہریار ریاض نے شدید ردعمل دے دیا۔ شیخ رشید احمد نے الزام عائد کیا تھا کہ راولپنڈی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے -56 سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار شہریار ریاض کو عمران خان نے 3 کروڑ روپے میں ٹکٹ فروخت کیا ہے۔ شہریار ریاض نے نجی ٹی وی چینل کیپیٹل ٹی وی سے تعلق رکھنے والے صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ: میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے شیخ رشید احمد کو ایک سیٹ کے بدلے اتنی بڑی بڑی وزارتیں دیئے رکھیں اور ہزاروں نوکریاں بھی ان کو ملیں لیکن وہ کہاں گئیں یہ الگ سوال ہے لیکن اپنے محسن پر 3 کروڑ روپے کا الزام لگانا انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیخ رشید احمد کے بیان کے بعد پارٹی کارکنوں کی طرف سے متعدد فون آ چکے ہیں، وہ انتہائی غم وغصے میں ہیں کہ عمران خان پر یہ مضحکہ خیز الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے 3 کروڑ روپے لے کر مجھے ٹکٹ جاری کیا ہے۔ شیخ رشید احمد کی عمر کا تقاضا ہے کہ وہ ایسے بیانات دے رہے ہیں اور ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان پر لگائے جانے والے الزام پر فیصلہ ہمارے کارکن اور عوام 8 فروری 2024ء کو اپنے ووٹ کے ذریعے دیں گے۔ شیخ رشید سے کہوں گا کہ تحریک انصاف کے کارکن اور ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کی سازش نہ کریں، یہ کامیاب نہیں ہو گی۔ آپ جس کے ایجنڈے پر یہ کام کر رہے ہیں یہ اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ واضح رہے کہ شیخ رشید احمد نے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی راولپنڈی میں طبی معائنے کے بعد ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان نے این اے -56 سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار شہریار ریاض کو ٹکٹ 3 کروڑ روپے میں فروخت کیا۔ ویڈیو بیان میں کہا "خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں، شہریار نے عمران خان سے 3 کروڑ روپے میں ٹکٹ خریدا ہے لیکن انہیں قلم دوست سے مار پڑے گی۔
چیف الیکشن کمشنر پاکستان تحریک انصاف رؤف حسن نے نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کے پروگرام اپ فرنٹ ود مونا عالممیں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اکبر ایس بابر ہماری سیاسی جماعت کے ممبر نہیں ہیں۔ ہماری سیاسی جماعت کا جو بھی ممبر ہے رابطہ کے اوپر اس کا نام اور نمبر موجود ہے، پارٹی ممبر کے لیے ہماری جماعت نے ایک سائنٹیفک میکنزم تیار کر کھا ہے۔اکبر ایس بابر صرف اور صرف پاکستان تحریک انصاف کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رؤف حسن کا کہنا تھا کہ انہیں کون پروموٹ کر رہا ہے وہ سب بھی کھل کر سامنے آتے جا رہے ہیں۔ ہماری جماعت کا جو بھی ممبر ہے اس کا نام رابطہ پر موجود ہے، وہ ہمارے پاس آئیں اور رابطہ پر اپنا پارٹی نمبر دکھا دیں تو انٹراپارٹی انتخابات کے لیے میں خود انہیں نامینیشن پیپرز دے دوں گا اور وہ انٹراپارٹی الیکشن میں حصہ لے لیں۔ ہماری جماعت سے غیرقانونی طور پر بلے کا انتخابی نشان چھین لیا گیا، اس وقت ہماری جماعت میں کوئی عہدہ نہیں ہے ، پارٹی عہدے دینے کے لیے دوبارہ سے انٹراپارٹی انتخابات کروانا ہوں گے۔ ہم نے جنرل باڈی بنا دی ہے جس کے فیصلوں کے تناظر میں انٹراپارٹی انتخابات کروائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت 5 فروری 2024ء کو دوبارہ سے انٹراپارٹی انتخابات منعقد کرے گی تاکہ پارٹی دوبارہ سے فنکشنل ہوئے اور اس صورت میں شائد الیکشن کمیشن ہمیں ہمارا انتخابی نشان بلا واپس کر دے۔ انٹراپارٹی انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کو ہمیں انتخابی نشان واپس دینا چاہیے کیونکہ ریزور نشستوں پر ہمارا حق اسی وقت ہو گا جب انتخابی نشان واپس ملے گا۔ چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نے کہا کہ 2012ء میں اکبر ایس بابر کو تحریک انصاف سے نکال دیا گیا تھا جس کی باقاعدہ دستاویز بھی ہم جاری کر چکے ہیں۔ اکبر ایس بابر تحریک انصاف کے ممبر نہیں ان کا مقصد صرف پارٹی کو بدنام کرنا ہے، اگر وہ انٹراپارٹی انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو رابطہ پر اپنا پارٹی نمبر دکھائیں تو میں خود انہیں نامینیشن پیپرز دوں گا۔
عام انتخابات 2024: پی ٹی آئی خواتین کوسب سے زیادہ ٹکٹ جاری کرنےوالی جماعت بن گئی عام انتخابات 2024 میں پاکستان تحریک انصاف جنرل نشستوں پر خواتین کوسب سے زیادہ ٹکٹیں جاری کرنے والی جماعت بن گئی ہے، اس معاملے میں ن لیگ سب سے آخر میں نظر آرہی ہے۔ خبررساں ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق عام انتخابات 2024 میں خواتین ووٹرز کی تعدادچھ کروڑ کے لگ بھگ ہے ، عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہےجن میں خواتین امیدواروں کی تعداد صرف محض تین سو کے قریب ہے۔ رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں انتخابات لڑنے والی خواتین کی تعداد355 جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن لڑنے والی خواتین کی تعدادصرف 672 ہے ۔ اس تعداد کو دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے مرد امیدواروں کےمقابلے میں خواتین کو کم مواقع دیئے، بڑی سیاسی جماعتوں کا موقف ہےکہ انہوں نے پانچ فیصد خواتین کوٹے پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے خواتین کو جاری کردہ ٹکٹوں کےمعاملے پر نظر ڈالی جائے تو خواتین کو سب سے زیادہ ٹکٹیں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جاری کی گئی، صرف قومی اسمبلی کیلئے پی ٹی آئی کی جانب سے 20 خواتین امیدوار میدان میں اتاری گئی ہیں، تاہم اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کہ متعدد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوچکے کردیئے گئے تھے۔ جبکہ بڑی جماعتوں میں سے جنرل نشستوں میں سے خواتین کو سب سےکم ٹکٹیں مسلم لیگ ن کی جانب سے جاری کی گئی ہیں۔ خیال رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے متعدد خواتین الیکشن لڑرہی ہیں، خیبرپختونخواہ سے شاندانہ گلزار، مومنہ باسط نمایاں ہیں اسی طرح پنجاب سے تحریک انصاف نے ڈیرہ غازی خان سے زرتاج گل، بہاولپور سے کنول شوذب، لودھراں سے عفت طاہرہ سومرو، راولپنڈی سے سیمابیہ طاہرستی کو امیدوار نامزد کیا ہے اسی طرح لاہور سے ڈاکٹر یاسمین راشد، عالیہ حمزہ، اٹک سے ایمان طاہر،سیالکوٹ سے ریحانہ امتیاز ڈار، قصور سے سدرہ فیصل،ملتان سے مہربانو قریشی، وہاڑی سے عائشہ نذیر جٹ، عارفہ نذیر جٹ، لیہ سے عنبرین مجید نیازی میدان میں ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے خیرپور سے عنبرین ملک، سانگھڑ سے حمیدہ مسعود شاہ، تھرپارکر سے مہرالنسا بلوچ، مٹیاری سے نازش فاطمہ بھٹی، ٹنڈو الہ یار سے روزینہ بھٹو کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ دادو سے شبانہ نواب بجارانی کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کیا ہے مسلم لیگ ن کی جانب سے مریم نواز، سائرہ افضل تارڑ، نوشین افتخار، شذرہ منصب،تہمینہ دولتانہ، شہربانو بخاری الیکشن کیلئے میدان میں ہیں، خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے این اے 29 اور این اے 31 سے صوبیہ شاہد اور این اے خیبر 24 سے فرح خان امیدوار ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر سندھ سے نفیسہ شاہ اور شازیہ مری کو میدان میں ہیں ہے۔ خیبرپختونخوا میں این اے 4 چارسدہ سے شازیہ طہماس، این اے 38 کرک سے مہر سلطانہ اور این اے 39 بنوں سے فرزانہ شیریں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔
سائفر کیس کے تفصیلی فیصلے میں آئین، قانون، دفعات کی بات کم ہے جبکہ الزامات زیادہ ہیں کہ شاہ محمودقریشی اور عمران خان نے یہ کیا وہ کیا، یہ چالاکیاں کیں۔اس میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ عمران خان نے سیاست کی تو اس پر کونسی دفعہ لگتی ہے، امریکہ سے تعلقات خراب ہوئے تو کونسی دفعہ لگتی ہے، تاخیری حربے استعمال کئے تو کونسے قانون کی کونسی شق لگتی ہے۔ یہ تفصیلی فیصلہ کم اور الزامات زیادہ ہیں کہ عمران خان اور شاہ محمودقریشی نے سیاست کی، ملک کو نقنصان پہنچایا، ملک دشمن قوتوں کو فائدہ دیا، معیشت کو نقصان پہنچایا، فوج پر الزامات لگائے۔ اپنی حکومت بچانے کیلئے فلاں فلاں حربے استعمال کئے۔ تفصیلی فیصلے میں سب سے زیادہ فوکس اس بات پر ہے کہ پاکستان اورامریکہ کے تعلقات خراب ہوئے ۔ سائفر کیس کے تفصیلی فیصلے کے اہم نکات دونوں مجرمان نے خود ساختہ پریشانیاں بنائیں، ہمدردیاں لینے کے لیے بےیار و مددگار بننے کی کوشش کی۔ سائفر بہت حساس دستاویز ہے جس سے امریکا پاکستان کا ایک دوسرے پر بھروسا بھی جڑا ہے پاک امریکہ تعلقات کو نقصان پہنچانے کے بعد عمران خان نے پاکستان کی عسکری قیادت پر انہیں اقتدار سے ہٹانے کی سازش کا جھوٹا الزام لگانا شروع کر دیا بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کا مؤقف بری طرح متاثر ہوا، عمران خان نے غیر ملکی طاقتوں کو فائدہ پہنچایا، جو ضروری نہیں کہ پاکستان کے ساتھ دوست ہو پراسیکیوشن کے گواہوں پر جرح بھی کی گئی لیکن وہ بغیر کسی مبالغہ آرائی اور کوئی کہانی گھڑے مطمئن، متاثر کُن پُراعتماد اور اپنے موقف پر قائم رہے عمران خان نے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے سرکاری وکیل کے ساتھ بدتمیزی کی اور فائلیں پھینکیں عمران خان،شاہ محمود کے وکلاء نے قانون کا مذاق بنایا، ان کا رویہ عدالت کے سامنے تھا، نقول فراہمی اور فرد جرم پر دونوں نے دستخط نہیں کیے جس سے نامناسب رویہ ثابت ہوا مجرمان کو جرح کا مکمل موقع دیا گیا لیکن جان بوجھ پرجرح نہیں کی۔ عمران خان نےغیر متعلقہ افراد کے سامنے سائفر کاپی ظاہر کر کے لہرایا جس سے ملک کو نقصان پہنچا عمران خان نے کہا جو کاغذ جلسے میں لہرایا وہ سائفر کی کاپی تھا،عمران خان کا جلسے میں سائفر کاپی ظاہر کر کے لہرانا غیر قانونی قدم تھا عمران خان، شاہ محمود قریشی ہمدردی نہ نرمی کے مستحق ہیں گواہان کے مطابق شاہ محمود قریشی نے جلسوں میں سائفر کے معاملے پر لوگوں کو اکسایا سائفر سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو نقصان پہنچایا گیا سائفر معاملے سے ملک دشمنوں کو فائدہ پہنچا مران خان اور شاہ محمود قریشی نے کیس میں تاخیر کے لئے چھپن چھپائی کا کھیل کھیل عمران خان، شاہ محمود قریشی نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے سائفر کو استعمال کیا، سائفر کو جلسے میں لہرانے سے ملک کے سائفر سسٹم کی سالمیت کو نقصان پہنچا مارچ کو انہوں نے کہا امریکا نے دھمکی دی، اس سے پاک امریکا تعلقات کو نقصان پہنچا، امریکا نے ردعمل میں تین بار کہا کہ عمران خان کا بیان حقیقت پر مبنی نہیں امریکا کے بعد عمران خان نے جھوٹ بولا کہ سازش کے تحت حکومت ختم کی گئی اور افواج پاکستان کو نشانہ بنایا۔ جب بھی عدالتی فیصلے پڑھے تو ہائیکورٹس، سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حوالے ملے، کہ فلاں فلاں کیس میں فلاں فلاں فیصلہ تھا یا قانون کے حوالے ہوتے ہیں کہ فلاں شق یہ کہتی ہے، فلاں شق یہ کہتی ہے۔ سائفر فیصلہ سارا پڑھا، ایسا کچھ نہ ملا، لگتا ہے ن لیگ الزامات کو تحریری شکل میں لکھا گیا ہے۔
مفرور اور اشتہاری کو الیکشن لڑنے سے روکنے کی کوئی پابندی آئین میں ہے نہ قانون میں۔ عدالتیں اور ریٹرننگ افسران اپنے طور پر اضافی پابندیاں نہیں لگا سکتے، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ کا طاہر صادق کیس میں فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کے حق پر کسی بھی قسم کی پابندی نمائندہ حکومت کے دل پر حملہ کرنے کے مترادف ہے میجر طاہر صادق کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ امیدواروں کی اہلیت / نااہلیت کے متعلق اگر آئین یا قانون میں کوئی ابہام ہو تو پھر انتخابی قوانین کی تشریح امیدوار کے حق میں ہی کی جائے گی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اپنی پسند کے امیدوار کو آزادی سے ووٹ دینے کا حق جمہوری معاشرے کی روح ہے، ووٹ دینے کے حق پر کسی بھی قسم کی پابندی منتخب حکومت کے دل پر حملہ کرنے کے مترادف ہے، جمہوریت کا انحصار اس پر ہے کہ عوام منتخب حکومت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہوں، عوام کے انتخاب پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، عوام کا مینڈیٹ حکومت کی تقدیر بدل سکتا ہے، سپریم کورٹ عوام انتخابی عمل اور ووٹ کے ذریعے جمہوریت اور ملک کے عوامی معاملات میں حصہ لیتے ہیں، اس طرح شہری ووٹ دے کر اپنی پسند کی حکومت کی تشکیل کا انتخاب کرنے کے اپنے حق سے لطف اندوز ہوتے ہیں فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ایک آزاد ملک میں ووٹ کا حق استعمال کرنے سے زیادہ قیمتی حق اور کوئی نہیں، اگر ووٹ کا حق مجروح ہو رہا ہو تو دیگر تمام حقوق محض خیالی ہیں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 17 کی تشریح کرتے ہوئے کہا آرٹیکل 17(2) کے تحت سیاسی جماعت بنانا یا اس کا ممبر منتخب ہونا ہی الیکشن لڑنے کا حق نہیں بلکہ اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینا بھی حق ہے، اگر سیاسی انصاف کی آئینی اہمیت کے تحت شہریوں کی اپنی پسند کے نمائندوں کا آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا حق تسلیم نہ کیا جائے تو آرٹیکل 17(2) کھوکھلا ہے، شہریوں کا بطور ووٹر انتخابات میں حصہ لینا جمہوری حکومت کی بنیاد ہے سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ ووٹ کے حق کا استعمال شہریوں کی پسند کا اظہار ہے جس کو آئین کے آرٹیکل 19 سے بھی سپورٹ حاصل ہے، اپنے بنیادی حقوق کا استعمال کر کے شہری اپنی تقدیر کا فیصلہ اپنی پسند کی حکومت بنا کر کرتے ہیں فیصلے کے مطابق امیدوار کا الیکشن لڑنا اور ووٹر کا ووٹ دینا امیدوار کی اہلیت اور نااہلی کو طے کرتا ہے، امیدواروں کی اہلیت اور نااہلی کا تعین کرنے کا مقصد الیکشن لڑنے والے امیدواروں کی دیانتداری اور انتخابی عمل کی افادیت برقرار رکھنا ہے، یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ عوامی عہدہ رکھنے والے کچھ معیارات پر پورا اترتے ہوں، ایک مضبوط جمہوری معاشرے میں اہلیت اور نااہلی کا معیار کی واضح تشریح کی جاتی ہے جس کے بارے عوام کو آگاہی ہوتی ہے اور اس کا یکساں اطلاق کیا جاتا ہے، اہلیت اور نااہلی کا آئین میں واضح طور پر لکھا جانا چاہیے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابی قوانین حق رائے دہی کے حق میں بنائے جانے چاہیے تاکہ ووٹرز کے پاس اپنے مستقبل کی قیادت کے انتخاب کے لیے زیادہ سے زیادہ چوائس ہو، ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر عدالتوں کو کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد کرنے کے معاملات کو دیکھنا چاہیے شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ درخواست گزار کے خلاف اعتراض کنندہ اشتہاری مجرم کا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا، ریکارڈ سے ایسا کچھ ثابت نہیں ہوتا کہ درخواست گزار ایک اشتہاری مجرم ہے، کیس کو سنے بغیر کسی کو اشتہاری مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا، کسی اشتہاری کا صرف اس کے متعلقہ کیس تک ہی تعلق ہوتا ہے اس کا دیگر مقدمات سے کوئی تعلق نہیں بنتا، آئین اور الیکشن ایکٹ میں اشتہاری مجرم کے الیکشن لڑنے پر کوئی پابندی نہیں، الیکشن کمیشن اس بات کو یقینی بنائے کہ درخواست گزار عام انتخابات میں حصہ لے سکے،الیکشن کمیشن چاہے تو اعتراض کنندہ سے کیس کے اخراجات وصول کر سکتا ہے
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز کے چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری کا کہنا ہے کہالیکشن کے بعد سیاسی بحران کم ہوجائے گا، ہمارے ووٹوں کے بغیر کوئی بھی وزیراعظم نہیں بن سکتا. شہباز شریف کے محنتی ہونے پر بات کرتے ہوئے آصف زرداری نےکہا کہ شہباز شریف 'لکیرکے فقیر' ہیں، ملکی مسائل کے حل 'آؤٹ آف دی باکس' سوچے بغیر حل نہیں ہوسکتے۔ آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کی سوچ کا عکس ہے، 16 ماہ جو حکومت چلی ہے اس کی کارکردگی کا مسئلہ ان کو بھی ہے ہم سے بھی کچھ دوست پوچھتے ہیں، سب کہتے تھے کہ شہباز شریف سخت محنتی ہیں وہ ہیں، لیکن یہ لکیر کے فقیر ہیں۔ ہم نیوز کے پروگرام فیصلہ آپ کا ود عاصمہ شیرازی میں آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ہمیں جو مسائل ہیں وہ آؤٹ آف دی باکس سوچے بغیر حل نہیں ہو سکتے، یہ تو پہلے دن بائیکاٹ اور استعفیٰ دینا چاہتے تھے، اگر پارلیمنٹ میں نہ رہتے تو عدم اعتماد میں ووٹ بھی نہ دے سکتے. ایک انٹرویو میں آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ ہم باتیں بھی سن لیتے ہیں جیلیں بھی کاٹ لیتے ہیں لیکن جیل بھیجنے والوں کو کچھ نہیں کہتے، مگر میاں صاحب کے ہاں یہ حساب کتاب نہیں وہ بہت مغرور آدمی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ کبھی ہوا ہے کہ میاں صاحب لاڈلے نہ رہے ہوں؟ جب لاڈلے نہیں رہتے تو پاور سے نکل جاتے ہیں، کیسز میرے ختم نہیں ہوئے تو میں بانی پی ٹی آئی کے کیسز کا انجام کیا بتاؤں؟ کیسز میرے بھی چل رہے ہیں صرف میاں صاحب کے کیسز ختم ہوئے، وجہ شاید ہمارا ڈومیسائل کمزور ہوگا۔ سابق صدر نے یہ بھی کہا کہبابا بھٹ سے کشمور تک پی ٹی آئی نظر نہیں آتی، میں نے کب کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے بات کروں گا، جو آزاد امیدوار آئیں گے ان سے بات کریں گے۔ جے یو آئی، جماعت اسلامی، باپ پارٹی سے بات کریں گے. آصف زرداری نے کہا کہ پنجاب پیپلز پارٹی کا ہدف تھا اور ہمیشہ رہے گا، ملک میں نواز حامی نہیں اینٹی نواز ووٹ موجود ہے، جس پر بلاول ٹھیک کام کر رہے ہیں۔ پنجاب میں بہت محرومیت ہے جو دوستوں کو نظر نہیں آتی۔ انکا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ہی آتی ہے تو زراعت دوست پالیسی لاتی ہے، پیپلز پارٹی ہر گھر اور ہر محلے میں موجود ہے، بی بی کے زمانے سے ہمیں پنجاب میں توڑنے کی سازش کی جا رہی ہے، اس بار ارادہ ہے کہ مستقل پنجاب میں بیٹھنا ہے۔ آصف زرداری نے مزید کہا کہ میرے حساب سے تو پرو نواز ووٹ ہے ہی نہیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی دوبارہ سے مین پارٹیاں بنیں گی، تحریک انصاف اب سیاست ایک سائیڈ شو رہے گی، تحریک انصاف کوئی نظریہ فلاسفی نہیں بدتمیزی کا ڈرامہ ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جو لوگ تحریک انصاف میں گئے تھے وہ دوست واپس آنا چاہتے ہیں، امید ہے یہ دوست الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی میں واپس آجائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں سابق صدر کا کہنا تھا کہ مجھے حیرانی ہوگی اگر لطیف کھوسہ الیکشن جیت جائیں۔ سابق صدر نے مزید کہا کہ بلاول بھٹو زرداری تو وزارت خارجہ سے مستعفی ہونا چاہتے تھے، بلاول بھٹو زرداری کے لیے وزارت خارجہ کا تجربہ چاہیے تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا میں موسم سرد ہے اس موسم میں دہشتگردی کم ہوتی ہے، لوگ ووٹ ڈال سکیں گے، سرد موسم میں پہلے بھی الیکشن ہوئے ہیں، کچھ روڈ بلاکس ہیں اگر نہ ہو تو قومی اسمبلی کی 80 سے زائد نشستیں جیت سکتے ہیں۔ کچھ روڈ بلاکس نہ ہوئے تو کراچی کی تمام نشتیں جیت سکتے ہیں، انسان کو حالات کے ساتھ سمجھوتا کرناچاہیے، حالات سمجھوتا نہیں کرتے۔ آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کو پاکستان کا مستقبل سمجھتا ہوں، بلوچوں کو بہت پیار سے سنبھالنا ہوگا، مسائل حل کرنا ہوں گے، پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں ہے بلوچستان میں نہیں، پنجاب میں ساؤتھ میں پی ٹی آئی کم ہے سینٹر میں ہے۔ سابق صدر نے کہا کہ لائن لاسسز کم کریں گے تو 300 یونٹ بجلی غریب کو مفت مل سکتی ہے، سولر سسٹم سے بھی غریبوں کو مفت بجلی فراہم کی جاسکتی ہے ، غریبوں کو 300 یونٹ مفت بجلی ایک سال میں فراہم کردیں گے، پی آئی اے بیچنے نہیں دیں گے ، تمام ادارے بیچے بغیر چل سکتے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ جیل میں گزارا اور انہوںنے سیاست میںبہت تنقید کا سامنا بھی کیا۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹو کے شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی کمان آصف زرداری کو سوپنی گئی اور 2008ء میں وہ پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔ آصف علی زرداری کا تعلق ایک سیاسی خاندان سے ہے، ان کے والد حاکم علی زرداری پیپلز پارٹی میںشامل ہونے سے پہلے بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی میں سرگرم تھے تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار نے پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لینے سے متعلق سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے کو جمہوریت کو کمزور کرنے کا باعث بننے والافیصلہ قرار دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لینے سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہےجس میں فیصلے کے حق میں دلائل پیش کیے گئے ہیں، تاہم سینئر صحافی و تجزیہ کار اسد طور نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اپنا تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان پر ہونے والی تنقید کا جواب ہے۔ اسد طور نے کہا کہ بظاہر تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس کی جانب سے آنے والے عام انتخابات کی ساکھ غیر منصفانہ او ر جانبدارانہ چوٹ لگانے اوراسٹیبلشمنٹ کے آلہ کارالیکشن کمیشن پرہونے والی تنقید کے دفاع میں دیا جانے والا جواب ہے۔ https://x.com/AsadAToor/status/1750495886134903144?t=NbkjTx6wYnvmug9q0cRzmg&s=08 اسد طور نے کہا کہ فیصلے سے لگتا ہے کہ چیف جسٹس ملک میں جمہوریت پر پی ٹی آئی کے اندر کی جمہوریت کو ترجیح دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کیلئے پی ٹی آئی کے شفاف انٹراپارٹی انتخابات ملک میں ہونے والے انتخابات سے زیادہ اہم ہیں، چیف جسٹس نے یہ بھی کہنے کی کوشش کی کہ پی ٹی آئی کے بلے کا نشان کھونے کے ذمہ دار وہ نہیں بلکہ خود پی ٹی آئی ہے۔ اسد طور نے تحریری فیصلے میں درج ایک پورے پیراگراف کا حوالہ بھی دیا جس میں نشان سے محروم ہونے کی ساری ذمہ داری پی ٹی آئی پر ڈالی گئی تھی اور انٹرپارٹی انتخابات نا کروانے کو پی ٹی آئی ہٹ دھرمی قرار دیا گیا۔ اسد طور نے کہا کہ چیف جسٹس نے انٹرپارٹی انتخابات کروانے سے متعلق آرٹیکل 17 کی شق 4 کو ہٹانے کو واضح طور پر نظرانداز کیا اور اپنے فیصلے کا دفاع میں نفرت یا عداوت کی دلیل دیتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں انٹراپارٹی کی ضرورت کو ختم کرنا ایک غلطی تھی، جسے اگر تسلیم کرلیا جائے تو یہ تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہے، اسد طور نے کہا کہ چیف جسٹس نے لاکھوں ووٹرز اور ان کے امدیواروں کے حق رائے دہی کا دفاع کیا اور کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ تقریباً آٹھ لاکھ پچاس ہزار ممبران ہیں ، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرائے گئے تو یہ سب حق رائے دہی سے محروم ہو گئے۔
صحافی عامرمتین کا کہنا تھا کہ سارا شریف خاندان الیکشن لڑ رہا ہے اور مقابلے پر قیدی عورتیں ہیں جن کے ہاتھ اور منہ بندھے ہیں۔ واہ او شیرو ! ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ اب پنجاب کی پارٹی رہ گئی ہے وہ بھی پتا نہیں کتنے فیصد۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک خاندان کے چار لوگ لاہور میں 14 سیٹوں پہ الیکشن لڑ رہے ہوں۔ آدھے لاہور میں بڑا خاندان الیکشن میں کھڑا ہے لاہور میں ۔ عامرمتین کا کہنا تھا کہ مصیبت پڑ گئی ہے نواز شریف کو 26 سال بعد حلقے میں جانا پڑ گیا ہے ۔ تین بار کا وزیراعظم جیت کے بھی ہارا ہوا ہے کیونکہ انکا مقابلہ جیل میں موجود عمر رسیدہ عوت سے ہے عامرتمین نے کہا کہ نواز شریف کامقابلہ اک کینسر کی قیدی مریضہ یاسمین راشد سے ہے۔ یہ جیت کر بھی ہارے ہوئے ہیں۔ اگر ہار گئے تو بہت شرمندگی کی بات ہو گی۔ سارا شریف خاندان الیکشن لڑ رہا ہے اور مقابلے پر قیدی عورتیں ہیں جن کے ہاتھ اور منہ بندھے ہیں۔ واہ او شیرو !
پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما ندیم افضل چن نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے سرگودھا میں واضح پیغام دیا ہے کہ ہم تقسیم اور نفرت کی سیاست نہیں کرنا چاہتے نہ ہی یہ چاہتے ہیں کہ کسی کی بچیوں کو گھسیٹا جائے۔ نفرت اور تقسیم کی سیاست کو ختم کر ہمارے ملک کے مفاد میں ہے، پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے والے 80 فیصد لوگوں کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کے کارکنوں کے درمیان ایک دوری تھی جسے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو نے آکر ختم کیا ہے، بینظیر بھٹو شہید، آصف علی زرداری کے بعد بلاول بھٹو زرداری عوام میں آیا ہے اور اپنے کارکنوں سے بات کر رہا ہے۔ بلاول بھٹو روایتی سیاست کے خلاف ہیں اور وہ اپنے منشور میں نوجوانوں کو صرف نعرہ نہیں دے رہے بلکہ اس پر عملدرآمد کا طریقہ کار بھی بتا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو ہر ضلع اور تحصیل میں جاکر لوگوں سے مل رہے ہیں اور پیپلزپارٹی کی پالیسی پر نوجوانوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں دوسرا کوئی بھی رہنما نظر نہیں آرہا جو ایسے ہر ضلع یا تحصیل میں جا کر کارکنوں سے بات کر رہا ہو، سیاسی ماحول بنا رہا ہے۔ لوگوں نے ہمارے اداروں کو پولیٹیسائز کیا جبکہ بلاول بھٹو زرداری ڈی پولیٹیسائز لوگوں کو پولیٹیسائز کر کے سسٹم میںلا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایسے لوگ دوبارہ سے سیاست میں آئیں، ان کے ساتھ کرنے کی ضرورت تھی جو بلاول بھٹو کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے امیدواروں کے انتخاب جیتنے کی صورت میں ان کے سامنے اگر 2 چوائسز ہوں کہ ن لیگ میں جانا ہے یا پیپلزپارٹی میں تو ان کی ترجیح پیپلزپارٹی ہی ہو گی کیونکہ پیپلزپارٹی ان کی بات بھی کر رہی ہے۔ ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خیال میں پیپلزپارٹی ایک جمہوری جماعت ہے اور وہ انتقام کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی اور ہمیشہ آئین کی بات کرتی ہے۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی کے نوجوان طبقے کے پاس اگر ن لیگ یا پیپلزپارٹی چوائس ہو تو یقیناً ترجیح پیپلزپارٹی ہو گی اور ہمارا انتخاب بھی تحریک انصاف ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں بہت سے کھلواڑ ہو چکے ہیں لیکن ہم بی بی کی شہادت کے بعد بھی پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اے آر ڈی انہیں لوگوں کے ساتھ مل کر بنائی جو ان کی حکومت گرانے میں شامل تھے۔ پیپلزپارٹی نے ملک کے آئین کے لیے بڑے بڑے کمپرومائز کیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک آگے بڑھے چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے ہم تیار ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف اور پارٹی کے بانی عمران خان کی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں, جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر اینکر پرسن و تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات بنانے کی پوری کوشش کی مگر بات نہیں بنی۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سوا تمام جماعتوں کی امیدیں خلائی مخلوق سے وابستہ ہیں، خیبرپختونخوا کے کچھ حلقوں میں پیپلزپارٹی نے پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی ہے، پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے اپنے امیدواروں سے کہہ دیا ہے کہ اگر آپ نے وفاداری تبدیل کی تو کارکن آپ کا احتساب کریں گے۔ حامد میر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کچھ امیدوار اگر کامیابی کے بعد پارٹی تبدیل کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا ان سے زور زبردستی سے وفاداری تبدیل کروائی گئی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس حوالے سے الیکشن سے پہلے کوئی کردار ادا کرنا چاہئے۔ حامد میر نے مزید کہا کہ استحکام پاکستان پارٹی کے لوگ نجی گفتگو میں کہہ رہے ہیں ہماری اوپر بات ہوگئی ہے وزیراعلیٰ پنجاب ہمارا ہوگا، نواز شریف کے انتخابی مہم میں فعال نہ ہونے کی بڑی وجہ سیکیورٹی ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ تحریک انصاف کا ہر آزاد امیدوار ڈیل کرنے کی کوشش میں ہے کہ اسے جیتنے دیا جائے پھر پارٹی چھوڑ دے گا۔ سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ججز، حکومت اور سپریم کورٹ بار ایک پیج پر ہیں۔ سینئر اینکر پرسن و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ تحریک انصاف کے کارکن اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے چلارہے ہیں، پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سپورٹرز اپنے امیدواروں کے انتخابی نشانات کی پبلسٹی کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا بہت مشکل ہوگا کہ پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار پکے ہوئے پھل کی طرح کسی دوسری جماعت کی جھولی میں جاگریں گے، اگر کوئی بھی کامیاب امیدوار ایسا کرتا ہے تو اسے حلقے میں کارکنوں کے شدید ردعمل کا سامنا ہوگا، پی ٹی آئی کے کامیاب امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کیلئے انہیں اٹھانا پڑے گا، پھینٹی لگانی پڑے گی۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں الیکشن مہم چلانے کی اجازت تک نہیں دی جا رہی، الیکشن سے 3دن قبل مجھے چھوڑیںاور صرف ایک جلسہ کرنے کی اجازت دے دیں سب کو لگ پتہ جائے گا،نئے انٹرا پارٹی انتخابات ہوں گے یا نہیں اس بارے ابھی نہیںپتہ ،پی ٹی آئی چھوڑنے والا اپنا سیاسی مستقبل ختم کر لے گا، انہوں نے کہا ملک میں قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی مگر ہم آخری گیند تک لڑیں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق اڈیالہ جیل میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ توشہ خانہ میں تمام تحائف کا تخمینہ دبئی میں بھارتی شہری کی چھوٹی سی دکان سے لگوایا گیا عمران خان نے کہا سارا کیس اسی گواہ پر تھا جس پر آج جرح کی نہیں گئی, ایک کروڑ 80 لاکھ روپے کی جیولری کو 300 کروڑ روپے تک پہنچا دیا گیا، تحائف کی قیمت میں اضافہ صاحب کو خوش کرنے کےلئے کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نااہل کیا گیا جبکہ عدالت کا فیصلہ معطل ہو چکا ہے دوسری جانب ،سزا یافتہ نواز شریف کو کلیئر کر دیاگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری نااہلی کے خلاف اپیل اور انسانی حقوق کےلئے دائر پٹیشن کو نہیں سنا جا رہا، یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں ہمارے امیدواروں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کی مستردگی کےخلاف لاہور ہائی کورٹ فیصلہ کے باوجود 4 روز سے تحریری آرڈر جاری نہیں کر رہا، جس طرح کا الیکشن کروایا جا رہا ہے اس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا ملک کابیڑا غرق ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی لیکن ہم آخری گیند تک لڑیں گے، 5اگست کے بعد نریندر مودی سے کبھی رابطہ نہیں کیا، ابھی نندن کے معاملہ پر بھی مودی سے رابطہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی یہ سب جھوٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ جو پی ٹی آئی چھوڑے گا وہ اپنا سیاسی مستقبل ختم کر لے گا، پی ٹی آئی کے پاس ووٹ بینک ہے اسی لئے یہ پارٹی نہیں ٹوٹ رہی، الیکشن ختم ہوتے ہی لوگ پی ٹی آئی کی طرف آئیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ میں سیاست دان ہوں سیاست کروں گا بندوق ہاتھ میں نہیں پکڑوں گا، عزت ،ذلت ،زندگی ،موت ،رزق ،اقتدار سب اللہ دیتا ہے، الیکشن کمیشن کا میچ پہلے سے فکس تھا اسی لئے ہمارے انٹرا پارٹی انتخابات کے معاملے کو التوا دیا جاتا رہا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات پر سوال نہیں اٹھا سکتا، نئے انٹرا پارٹی انتخابات ہوں گے یا نہیں اس بارے ابھی کوئی پتہ نہیں، صدر مملکت نے معاملات سلجھانے کی بہت کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ سنا ہے نواز شریف نے لیہ کا جلسہ کینسل کر دیا ان کے جلسے نہیں جلسیاں ہو رہی ہیں، میں کہتا ہوں الیکشن سے تین دن قبل مجھے چھوڑ دیں اور صرف ایک جلسہ کرنے کی اجازت دے دیں ان کو لگ پتہ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ایک پلان اللہ بناتا ہے اور ایک پلان بندہ بناتا ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو اللہ کا پلان ہوتا ہے، پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کروں گا، یہ سب صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ عمران خان دوبارہ اقتدار میں نہ آ جائے۔
تحریک انصاف کو مختلف حلقوں سے بڑی بڑی کامیابیاں ملنے لگیں۔ قصور، جھنگ، ننکانہ صاحب، راولپنڈی میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی پوزیشن مستحکم۔۔ پی پی 125 جھنگ سردار افتخار احمد خان بلوچ سے پی ٹی آئی امیدوار سردار غلام احمد خان گاڈی کی سردار حاجی مختار خان بلوچ ،سرادر ظفر خان بلوچ کے ہمراہ ملاقات سرادر افتخار احمد خان بلوچ نے غلام احمد گاڈی کی ہمایت کا اعلان کر دیا جو انتخابی نشان چارپائی پر الیکشن لڑرہے ہیں۔ ننکانہ صاحب سے 2018 میں 69 ہزار کے قریب ووٹ لینے والے آزاد امیدوار طارق محمودباجوہ نے تحریک انصاف کے ارشد ساہی کی حمایت کااعلان کردیا۔۔ طارق محمودباجوہ نے نومئی کے واقعات پر تحریک انصاف چھوڑدی تھی۔ این اے 53 سے 2018 کے آزادامیدوار پیر نصیر الحسنین شاہ نے تحریک انصاف کے کرنل (ر) اجمل صابر راجہ اور صوبائی امیدوار امیر افضل کی حمایت کا اعلان کردیا۔ پیر نصیر الحسنین شاہ نے 2018 میں صوبائی نشست پر 22000 سے زائد ووٹ لئے تھے۔ این اے 97 سے تاندلیانوالہ سے عائشہ رجب بلوچ اور انکے بیٹے روشن رجب بلوچ نے تحریک انصاف کے امیدوار سعداللہ بلوچ کی حمایت کا اعلان کردیا لودھراں پی پی 225 سے حاجی عبداللہ تھیم ،ملک مشتاق تھیم نے تحریک انصاف کی امیدوار شازیہ حیات اللہ خان ترین کی حمایت کا اعلان کر دیا قصور کے حلقہ این اے 133 سے سابق وزیر سردار آصف نکئی نے تحریک انصاف کے امیدوار عظیم الدین کی حمایت کااعلان کردیا۔۔ سردار آصف نکئی تحریک انصاف کے سابق وزیر رہ چکے ہیں۔
تحریک انصاف سے بلا چھینے جانے کے بعد پیپلزپارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی کی نظریں تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں پر۔۔ بلاول کا آزاد امیدواروں کو ساتھ لیکر وزیراعظم بننے کا عزم۔۔ دوسری جانب فیاض الحسن چوہان بھی پیچھے نہ رہے اور کہا کہ جو بھی آزاد امیدوار جیتے گا وہ ہماری پارٹی میں آئے گا، انہیں اسی یقین دہانی پر جتوایا جائے گا کہ وہ ہماری پارٹی میں شامل ہونگے گزشتہ روز بلاول بھٹو نے صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ آزاد ارکان کے ساتھ ملکر پیپلز پارٹی کی حکومت بنائیں گے اور اگلی حکومت میں نواز شریف اپوزیشن لیڈر ہوں گے صرف یہی نہیں ایک نجی چینل کے شو میں بھی بلاول نے کہا کہ یہ جو الیکشن ہو رہے ہیں ان میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں سمیت آزاد امیدوار بڑی تعداد میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہم بالکل بہت سارے آزاد امیدواروں کیساتھ رابطے میں ہیں دوسری جانب فیاض الحسن چوہان نے بھی بڑے بڑے دعوے کردئیے اور کہا کہ تحریک انصاف کے صرف وہی لوگ الیکشن جیتیں گے جوکمٹمنٹ کریں گے کہ وہ بعد میں پارٹی چھوڑ دیں گے۔۔ ان جیتنے والوں کی بڑی تعداد استحکام پارٹی جوائن کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یاسمین راشد سمیت کچھ اہم رہنماوں کے خلاف الیکشن سے کچھ دن پہلے یا بعد ،فیصلے آسکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ نا اہل ہو جائیں گے فیاض چوہان کا کہنا تھا کہ میرے الیکشن لڑنے سے حلقے کا ووٹ بینک تقسیم ہوگا جسکا براہ راست فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا اسلیے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے
سینئر صحافی وتجزیہ کار شہزاد اقبال نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات سے بظاہر شکوہ شکایت پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو ہے لیکن اصل شکایت مسلم لیگ کو ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے پاس نہ تو بیانیہ ہے نہ ہی وکٹم کارڈ تاہم تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے اس کے پاس بیانیہ بھی ہے اور وکٹم کارڈ بھی ہے۔ شاہ محمود قریشی کے ساتھ جو کچھ آج ہوا ہے وہ اس کی مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے لیکن انتخابات کے موقع پر یہ سب کچھ کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں جائے گا، اس لیے ن لیگ کو فکرمند ہونا چاہیے۔ کبھی کسی کے کاغذات نامزدگی چھین لیے جاتے ہیں، کوئی آر او کسی کو اپنے دفتر میں گھسنے نہیں دیتا جسے تحریک انصاف سوشل میڈیا پر اپنی طاقت کے ذریعے اسے اپنا بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کو وکٹم کارڈ دے کر ان کو سیاسی فائدہ دیا جا رہا ہے، تحریک انصاف بلے کا نشان واپس مل گیا، سائفر کیس اڑا دیا گیا۔ لوگ 2017ء کی بات سننے کے بجائے 2023ء کی بات سنیں گے اس لیے تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ن لیگ کو نقصان ہو رہا ہےاس لیے انہیں فکرمند ہونا چاہیے۔ سینئر تجزیہ نگار حفیظ اللہ نیازی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے حالات دیکھ کر دل دہل رہا ہے، شاہ محمود قریشی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مذمت کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ کچھ چیزیں جان بوجھ کر کرائی جا رہی ہیں، یا تو اس دہشت پھیلانا چاہتے ہیں یا کچھ ایسا ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آرہا۔ بلاول بھٹو سے اچھا منشور عمران خان نے دیا تھا جس میں 50 کروڑ نوکریاں اور پتا نہیں کیا کیا شامل تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ کے منشور کا کیا بنا؟ ق لیگ اور پرویز الٰہی کی حکومت نے کوئی وعدہ نہیں کیا لیکن ان کا دور حکومت بہت اچھا تھا لیکن 2008ء میں ق لیگ کہیں نظر آئی؟ میری پاکستانی سیاست پر ایک ہی رائے ہے کہ یہاں ایک ہی نعرہ چلتا ہے۔ حال ہی میں نوازشریف اور عمران خان نے اینٹی سٹیبلشمنٹ بیانیہ دیا تو ان کی شہرت ساتویں آسمان پر پہنچ گئی جبکہ پرویز الٰہی پرو سٹیبلشمنٹ تھے اس لیے سیاست سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں نے بہت مدبرانہ سیاست کی۔ 2013ء میں نوازشریف عمران خان کی قیادت کرنے شوکت خانم ہسپتال گئے، مارچ 2018ء میں بنی گالہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ 2014ء میں سٹیبلشمنٹ کے کہنے پر سیاست نہیں ریاست بچائو کے نام پر عمران خان نے سیاست سے کھلواڑ کیا۔ 2018ء میں عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا ، نوازشریف نے 20 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا میرا جھگڑا عمران خان سے نہیں، جنرل باجوہ اور جنرل فیض سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تب ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم باجوہ کا نام لے رہے ہو، تمہاری جرات کیسے ہوئی۔ عمران خان سٹیبلشمنٹ کو گالم گلوچ نکالنے کے ساتھ ساتھ مفاہمت بھی کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے مابین تصادم کی ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے جو آج بھی سیاسی جماعتوں کے بجائے سٹیبلشمنٹ سے معاملہ فہمی کرنا چاہتے ہیں۔
تحریک انصاف میں توڑ پھوڑ اور بڑے بڑے نام شامل کرنے کے بعد بھی آئی پی پی کے امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 18 اور صوبائی اسمبلی کی 40 نشستوں پر کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن انچیف جہانگیر ترین، ملتان اور لودھراں، علیم خان، عون چوہدری لاہور سے الیکشن لڑیں گے۔جہانگیر ترین نے این اے 155 لودھراں اور این اے 149 ملتان سے کاغذات جمع کروا دیے۔ عون چوہدری نے لاہور کے حلقوں این اے 124، 127 اور 128 جبکہ علیم خان نے لاہور کے حلقوں این اے 117 شاہدرہ، این اے 119 گڑھی شاہو سے کاغذات جمع کروائے۔ راجہ عامر کیانی نے اپنے پرانے حلقہ انتخابات راولپنڈی کی بجائے این اے 47 اسلام آباد سے کاغذات جمع کروا دیے۔غلام سرور خان نے راولپنڈی کے حلقوں این اے 53، 54 سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے، فردوس عاشق اعوان نے این اے 70 سیالکوٹ سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے جبکہ سالکوٹ سے کسی اور قابل ذکر رہنما نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔فردوس عاشق اعوان کے مقابلے میں ارمغان سبحانی اور سعید بھلی زیادہ مضبوط امیدوار سمجھے جارہے ہیں۔ فرخ حبیب نے این اے 101 فیصل آباد اور ہمایوں اختر نے لاہور کی بجائے استحکام پاکستان پارٹی کی طرف سے این اے 97 تاندلیانوالہ فیصل آباد سے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے۔فرخ حبیب کی جیت کے امکانات بھی انتہائی کم ہیں کیونکہ 2018 میں انہیں جتوانے میں پی ٹی آئی کا ووٹ بنک مددگارثابت ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی نے پی ٹی آئی کے سینکڑوں رہنماؤں کو توڑا مگر کاغذات نامزدگی ڈیڑھ درجن جمع کرائے ۔ لاہور سے پی ٹی آئی اور ن لیگ کا ون ٹو ون مقابلہ متوقع ہے جبکہ عون چوہدری اور علیم خان کا اس میں چانس نظر نہیں آرہا۔مرادراس قومی اسمبلی کی بجائے صوبائی اسمبلی کے حلقے سے اترنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ غلام سرور خان الیکشن 2018 میں دونوں سیٹیں جیت گئے تھے لیکن اس بار غلام سرور خان کا جوڑ آزادامیدوار چوہدری نثار اور پی ٹی آئی کے کرنل اجمل صابر راجہ سے پڑے گا۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آئی پی پی جہانگیرترین، غلام سرور خان کی سیٹیں شاید جیت پائے اور شاید 2 سے 3 سیٹوں تک محدود رہے۔
اپنے پروگرام میں تجزیہ کرتے ہوئے عامرمتین نے سوال اٹھایا کہ عثمان ڈار کی ماں سے شروع ہونے والا ظلم کہا ں رکے گا۔ جب ماں،بہن کا تقدس بھی نہ رہے تو پھر سیاست کس بات کی۔ میاں شفیق آرائیں کے سیاست سے دستبرداری پر عامرمتین نے کہا کہ تیس سال سے سیاست میں رہنے کے باوجود میاں شفیق ارائیں نے عزت بچا کر رکھی تھی۔ اب جہانگیر ترین کو جتوانے کے لیے ان کی بھتیجے کو اٹھا لیا گیا۔ اک جیتے ہوئے ممبر کو مجبور کیا کہ وہ دستبردار ہو جائے۔ اگلا سلوک کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ شریف آدمی نے سیاست کو خیر آباد کہہ کے عزت بچا لی۔ مگر یہ نظام کس طرف چل پڑا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ طاقت میں مخمور سیٹھ اپنے بچوں کے لیے کیا سبق چھوڑنا چاہتے ہیں۔ کیا لودھراں کے لوگ بھیڑ بکریاں ہے جو کہ تھانے کے زریعے ہانکے جائیں گیں۔ یہ سفر کہاں رکے گا۔ کون جیتے گا اور کون ہارے گا۔ عامرمتین نے جہانگیرترین پر طنز کیا کہ جہانگیر ترین نے بچپن میں خواب دیکھا تھا کہ وہ بڑے ہو کر لودھراں سے ایم این اے ضرور بنیں گے۔ حسن اتفاق 2015 کے ضمنی انتخابات میں وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا ہی تھا کہ نااہلی کی تلوارپہنچ گئی۔ عامرمتین کا کہنا ھا کہ مجھے علی ترین سے ہمدردی ہے۔ وہ اک خوبصورت اور قابل نوجوان ہے۔ میں اس کے کرکٹ کے علاوہ انسانیت کے حوالے سے کئ اچھے واقعات کا گواہ ہوں۔ مگر بلاول کی طرح وہ بھی اپنے باپ کا محصور ہے۔ وہ بیچارہ میاں شفیق جیسے لوگوں کے ساتھ نا انصافی کا حساب ساری عمر دیتا رہے گا۔ عامرمتین نے مزید کہا کہ آپ باعزت لوگوں کے بچے اٹھا کے، ان کو تھانہ کچہری کے زریعے مجبور کر کے تسخیر کر لیں گیں مگر لوگ بے عزتی بھولتے نہی۔ ایجنسیاں چلی جاتیں ہیں مقامی لوگ وہیں رہتے ہیں۔ ترین صاحب اتنا ظلم کریں جتنا سنبھال سکیں اور اپنے بچے کے لیے اک با عزت راستہ چھوڑ کر جائیں۔
الیکشن کااعلان ہوتے ہی تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی آگئی۔۔پولیس کے پی ٹی آئی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے الیکشن کااعلان ہوتے ہی تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی آگئی ہے۔ گزشتہ روز عثمان ڈار کی والدہ کے گھر پولیس نے چھاپہ مارا اور عثمان ڈار کی والدہ کے کپڑے پھاڑدئیے، عثمان ڈار کی والدہ نے خواجہ آصف کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ روز ہی میاں عباد فاروق کے گھر بھی پولیس پہنچی، میاں عباد فاروق کی اہلیہ اور بھائی نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کااعلان کیا تھا۔ صرف یہی نہیں گزشتہ روز ہی لودھراں سے پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے میاں شفیق آرائیں نے بھی الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کیا اور گجرات سے افتخارگوندل نے بھی الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا۔ پی ٹی ائی کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی، آدھی رات کو ضلعی صدر قصور مہر سلیم کے گھر پر پولیس کا دھاوا۔۔ پولیس اور انتظامیہ کو مہر سلیم کی جانب سے الکشن لڑنے کا خدشہ ہے بہاولپور سے سابقہ صوبائی وزیر سمیع اللہ چوہدری کے گھر ہاشمی گارڈن پر پولیس کا چھاپہ۔۔ سمیع اللہ چوہدری نے تحریک انصاف نہ چھوڑنے کااعلان کیا تھا جس کی پاداش میں انکے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن کیا ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تحریک انصاف کے مضبوط امیدوار اسامہ حمزہ کو بھی پولیس نے رات کے اندھیرے میں اٹھالیا۔۔ اسامہ حمزہ نے تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ تحریک انصاف آفیشل کے مطابق صبح کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا پہلا دن ہے اور پنجاب میں اٹک سے لے کر رحیم یار خان تک تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ممکنہ امیدواران کے گھروں پر آدھی رات کو چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ یہ سب ایک غیرمقبول ٹولے کو ملک پر مسلط کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے اور ضلعی و نگران انتظامیہ اس پلان کا حصہ ہے۔ پی ٹی آئی آفیشل کا مزید کہنا تھا کہ پورا ملک اس وقت چیف جسٹس کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ کب "اغوا برائے بیان" پر اعتزاز احسن کی پٹیشن سنیں گے اور اس پری پول رگنگ کا نوٹس لیں گے؟ فیصل آباد سے پی ٹی ائی امیدوار ملک عمر فاروق کے گھر پولیس کا چھاپہ۔۔ میاں عمرفاروق نے این اے 99 اور پی پی 107 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا اور کاغذات نامزدگی حاصل کئے تھے۔ اس پر میاں عمر فاروق کا کہنا تھا کہ وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا اور جو اللہ نے لکھ دیا ہے اس کو کوئی ختم نہیں کر سکتا ہوں نہ کو ئی اور جناب وزیراعلی پنجاب ائی جی پنجاب صاحب اج میں نے حلقہ این اے 99 اور پی پی 107کے لیے نومینیشن پیپر حاصل کیے اور اج ہی پولیس نے چھاپوں کا اغاز کر دیا کیا میں پاکستانی نہیں ہوں کیا میرا حق نہیں ہے کوئی بات نہیں میں ہر ظلم سہوں گا لیکن انشاءاللہ الیکشن ضرور لڑوں گا انہوں نے مزید کہا کہ آپ سب کا شکریہ مجھے ہر دن مظبوط بنا رہے ہیں مسلم لیگ نون والے میدان میں مقابلہ کریں اگر ایسے ہی ڈرا کر جیتنا چاہتے ہیں تو دیکھتے ہیں آپ اور کتنا ظلم کرتے ہیں تھوڑے دن بعد عوامی عدالت میں حاضری دیتا ہو ں میں سہوں گا آپ ظلم کریے گا دیکھیں کون جیتتا ہے آپ کا ظلم یا میرا صبر شکریہ امید کرتا ہوں سچ بولنے پر غصہ نہ کریں گے۔ الیکشن کی تاریخ کے اعلان کیساتھ ہی گجرات سے تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق ایم این اے سید فیض الحسن شاہ اور ایم پی اے چوہدری ارشدنے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔دونوں رہنماؤں کو کچھ دن پہلے گھروں سے اٹھایا گیا تھا۔ان دونوں کے جانے کے بعد قمرزمان کائرہ اور ن لیگی امیدوار کا راستہ صاف ہوگیا ہے اسی طرح پولیس نے سوات سے تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے فضل مولا کو بھی گرفتار کرلیا جن کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ وہ محمود خان کے مقابلے میں الیکشن لڑیں گے۔
آن لائن اخبار کے صحافی عارف ملک نے دعویٰ کیا ہے کہ نوازشریف نے سابق ایم پی اے اشرف انصاری کو پارٹی امیدواروان کے انٹرویو کے دوران گارڈز کے ذریعے پارٹی میٹنگ سے نکلوادیا۔ صحافی عارف ملک کے مطابق نواشریف امیدواروں کے کے انٹرویوز کررہے تھے جہاں سابق لیگی ایم پی اے اشرف انصاری بھی موجود تھے توانہوں نے اپنی پارٹی سے وابستگی سے متعلق بتایا ۔ رانا ثناء اللہ نے انہیں بٹھانے کی کوشش کی لیکن نہ بیٹھے اسکے بعد مریم نواز نے بھی ٹوکا تو نہ بیٹھے ۔ اس پر اشرف انصاری غصے میں آگئے اور کہا کہ اگر آپ ہماری بات نہیں سننا چاہتے تو ہمیں بلایا کیوں ہے، میں نے درخواست دی ہے اور پیسے بھی جمع کروائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب حمزہ شہبازکوووٹ چاہئے تھا تو ہم پارٹی کیساتھ کھڑے تھے مجھے سے وعدہ کیا گیا کہ آپکو ٹکٹ دیں گے جس پر نوازشریف نے کہا کہ آپ تو وہی نہیں جو پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف کی حمایت کر رہے تھے لہذا آپ یہاں سے چلے جائیں۔ اشرف انصاری نے جانے سے انکار کیا تو نوازشریف نے گارڈز کو کہا کہ اسے باہر نکالو جس پر اشرف انصاری کو دھکے مار کر کمرے سےنکال دیا گیا۔ اس موقع پر نوازشریف نے کہا کہ ایک تو یہ شخص ہمارا وفادار نہیں اور دوسرا بد نظمی پھیلا رہا تھا، جس کی وجہ سے یہ قدم اٹھانا پڑا۔ جب ن لیگ پر مشکل وقت تھا تو اس شخص نے فارورڈ گروپ بنایا یادرہے کہ 2018 کے بعد جب پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت تھی تو گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے اشرف انصاری نے فارورڈ بلاک بنایا جس میں ناروال سے مولانا غیاث دین ، خانیوال سے نشاط ڈاہا اور فیصل نیازی اور شیخوپورہ سے جلیل شرقپوری تھے۔ حمزہ شہباز جب وزارت اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے تو اشرف انصاری، مولانا غیاث الدین اور جلیل شرقپوری نے اپنا ووٹ حمزہ شہباز کو دیا ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اشرف انصاری اور مولانا غیاث اب ن لیگ کا ٹکٹ مانگ رہے ہیں، جلیل شرقپوری عمران خان ساتھ چھوڑچکے ہیں جبکہ فیصل نیازی تحریک انصاف کیساتھ کھڑے ہیں، نشاط ڈاہا انتقال کرگئے ہیں جبکہ انکی اہلیہ تحریک انصاف کیساتھ کھڑی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے ڈان لیکس اور راحیل شریف کی جانب سے مدت ملازمت میں توسیع مانگنے سے متعلق ہوشربا انکشافات کردیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے سماء ٹی وی کے پروگرام دو ٹوک میں اینکر کرن ناز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے متعدد انکشافات کیے ہیں، انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کو راحیل شریف سے کوئی شکایت نہیں ہے، تاہم جنرل (ر) راحیل شریف کو میاں نواز شریف سے کچھ شکایات تھیں جن کی وجہ سے تلخی بڑھتی چلی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک بات جنرل پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کی تھی جس پر جنرل راحیل شریف ناراض تھے، یہاں سے دونوں کے درمیان تلخی پیدا ہونا شروع ہوئی، اس کے بعد جنرل راحیل شریف مدت ملازمت میں توسیع چاہتے تھے، انہوں نے خو د براہ راست میاں نواز شریف سے اس بارے میں بات کی مگر میاں صاحب نہیں مانے، جس کے بعد پانامہ کا معاملہ اٹھایا گیا، ڈان لیکس سامنے آئیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ آج تک سرل المیڈا کی اس خبر کے درست یا جھوٹ ہونے پر کوئی کمیٹی نہیں بیٹھی، کسی نے تحقیق نہیں کی ، کیونکہ جو باتیں خبر میں کہی گئیں وہ بالکل ٹھیک تھیں، یہ کوئی معاملہ نہیں تھا بلکہ چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیا گیا تھا صرف اس وقت کے وزیراعظم کو پریشرائز کرنے کیلئے، تاکہ جو کہا جائے وہ ہوجائے۔ ایک سوال کے جواب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ڈان لیکس میں کابینہ ارکان کو اس لیے ہٹایا گیا کہ میاں نواز شریف تصادم نہیں چاہتے تھے، انہوں نےپرویز رشید کی قربانی دی کہ معاملہ ٹھیک ہوجائے گا، مگر معاملہ ٹھیک نہیں ہوا، پھرطارق فاطمی کو ہٹایا گیا ، پھر دیگر لوگوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ رہنما ن لیگ نے کہا کہ اس خبر میں ایسا کچھ نہیں تھا، میاں نواز شریف کو تو وہ باتیں کھلے عام بھی کرتے رہتے ہیں جو اس اجلاس میں کی گئیں، یہ ایک اسکینڈل خود بنایا گیا، اس اسکینڈل کے ذریعے کابینہ کے 3،4 لوگوں کو نکالا گیا، میاں نواز شریف نے ان لوگوں کو صرف اس لیے نکالا کہ لڑائی آگے نا بڑھے ، مگر لڑائی آگے بڑھتی چلی گئی۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اس سب کے پیچھے جنرل راحیل شریف کی توسیع حاصل کرنے کی منصوبہ بندی تھی جو وہ وزیراعظم کو پریشر میں لاکر حاصل کرنا چاہتے تھے، ایک کے بعد ایک قربانیاں مانگی گئیں، نوازشریف نے تصادم سےبچنے کیلئے قربانیاں دیں بھی مگر معاملات ٹھیک نہیں ہوئے یہاں تک کہ وزیراعظم کو خود نشانہ بنادیا گیا۔