سیاسی

پاکستان تحریک انصاف اور پارٹی کے بانی عمران خان کی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں, جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر اینکر پرسن و تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات بنانے کی پوری کوشش کی مگر بات نہیں بنی۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سوا تمام جماعتوں کی امیدیں خلائی مخلوق سے وابستہ ہیں، خیبرپختونخوا کے کچھ حلقوں میں پیپلزپارٹی نے پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی ہے، پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے اپنے امیدواروں سے کہہ دیا ہے کہ اگر آپ نے وفاداری تبدیل کی تو کارکن آپ کا احتساب کریں گے۔ حامد میر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کچھ امیدوار اگر کامیابی کے بعد پارٹی تبدیل کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا ان سے زور زبردستی سے وفاداری تبدیل کروائی گئی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس حوالے سے الیکشن سے پہلے کوئی کردار ادا کرنا چاہئے۔ حامد میر نے مزید کہا کہ استحکام پاکستان پارٹی کے لوگ نجی گفتگو میں کہہ رہے ہیں ہماری اوپر بات ہوگئی ہے وزیراعلیٰ پنجاب ہمارا ہوگا، نواز شریف کے انتخابی مہم میں فعال نہ ہونے کی بڑی وجہ سیکیورٹی ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ تحریک انصاف کا ہر آزاد امیدوار ڈیل کرنے کی کوشش میں ہے کہ اسے جیتنے دیا جائے پھر پارٹی چھوڑ دے گا۔ سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ججز، حکومت اور سپریم کورٹ بار ایک پیج پر ہیں۔ سینئر اینکر پرسن و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ تحریک انصاف کے کارکن اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے چلارہے ہیں، پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سپورٹرز اپنے امیدواروں کے انتخابی نشانات کی پبلسٹی کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا بہت مشکل ہوگا کہ پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار پکے ہوئے پھل کی طرح کسی دوسری جماعت کی جھولی میں جاگریں گے، اگر کوئی بھی کامیاب امیدوار ایسا کرتا ہے تو اسے حلقے میں کارکنوں کے شدید ردعمل کا سامنا ہوگا، پی ٹی آئی کے کامیاب امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کیلئے انہیں اٹھانا پڑے گا، پھینٹی لگانی پڑے گی۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں الیکشن مہم چلانے کی اجازت تک نہیں دی جا رہی، الیکشن سے 3دن قبل مجھے چھوڑیںاور صرف ایک جلسہ کرنے کی اجازت دے دیں سب کو لگ پتہ جائے گا،نئے انٹرا پارٹی انتخابات ہوں گے یا نہیں اس بارے ابھی نہیںپتہ ،پی ٹی آئی چھوڑنے والا اپنا سیاسی مستقبل ختم کر لے گا، انہوں نے کہا ملک میں قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی مگر ہم آخری گیند تک لڑیں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق اڈیالہ جیل میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ توشہ خانہ میں تمام تحائف کا تخمینہ دبئی میں بھارتی شہری کی چھوٹی سی دکان سے لگوایا گیا عمران خان نے کہا سارا کیس اسی گواہ پر تھا جس پر آج جرح کی نہیں گئی, ایک کروڑ 80 لاکھ روپے کی جیولری کو 300 کروڑ روپے تک پہنچا دیا گیا، تحائف کی قیمت میں اضافہ صاحب کو خوش کرنے کےلئے کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نااہل کیا گیا جبکہ عدالت کا فیصلہ معطل ہو چکا ہے دوسری جانب ،سزا یافتہ نواز شریف کو کلیئر کر دیاگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری نااہلی کے خلاف اپیل اور انسانی حقوق کےلئے دائر پٹیشن کو نہیں سنا جا رہا، یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں ہمارے امیدواروں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کی مستردگی کےخلاف لاہور ہائی کورٹ فیصلہ کے باوجود 4 روز سے تحریری آرڈر جاری نہیں کر رہا، جس طرح کا الیکشن کروایا جا رہا ہے اس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا ملک کابیڑا غرق ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی لیکن ہم آخری گیند تک لڑیں گے، 5اگست کے بعد نریندر مودی سے کبھی رابطہ نہیں کیا، ابھی نندن کے معاملہ پر بھی مودی سے رابطہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی یہ سب جھوٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ جو پی ٹی آئی چھوڑے گا وہ اپنا سیاسی مستقبل ختم کر لے گا، پی ٹی آئی کے پاس ووٹ بینک ہے اسی لئے یہ پارٹی نہیں ٹوٹ رہی، الیکشن ختم ہوتے ہی لوگ پی ٹی آئی کی طرف آئیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ میں سیاست دان ہوں سیاست کروں گا بندوق ہاتھ میں نہیں پکڑوں گا، عزت ،ذلت ،زندگی ،موت ،رزق ،اقتدار سب اللہ دیتا ہے، الیکشن کمیشن کا میچ پہلے سے فکس تھا اسی لئے ہمارے انٹرا پارٹی انتخابات کے معاملے کو التوا دیا جاتا رہا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات پر سوال نہیں اٹھا سکتا، نئے انٹرا پارٹی انتخابات ہوں گے یا نہیں اس بارے ابھی کوئی پتہ نہیں، صدر مملکت نے معاملات سلجھانے کی بہت کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ سنا ہے نواز شریف نے لیہ کا جلسہ کینسل کر دیا ان کے جلسے نہیں جلسیاں ہو رہی ہیں، میں کہتا ہوں الیکشن سے تین دن قبل مجھے چھوڑ دیں اور صرف ایک جلسہ کرنے کی اجازت دے دیں ان کو لگ پتہ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ایک پلان اللہ بناتا ہے اور ایک پلان بندہ بناتا ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو اللہ کا پلان ہوتا ہے، پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کروں گا، یہ سب صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ عمران خان دوبارہ اقتدار میں نہ آ جائے۔
تحریک انصاف کو مختلف حلقوں سے بڑی بڑی کامیابیاں ملنے لگیں۔ قصور، جھنگ، ننکانہ صاحب، راولپنڈی میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی پوزیشن مستحکم۔۔ پی پی 125 جھنگ سردار افتخار احمد خان بلوچ سے پی ٹی آئی امیدوار سردار غلام احمد خان گاڈی کی سردار حاجی مختار خان بلوچ ،سرادر ظفر خان بلوچ کے ہمراہ ملاقات سرادر افتخار احمد خان بلوچ نے غلام احمد گاڈی کی ہمایت کا اعلان کر دیا جو انتخابی نشان چارپائی پر الیکشن لڑرہے ہیں۔ ننکانہ صاحب سے 2018 میں 69 ہزار کے قریب ووٹ لینے والے آزاد امیدوار طارق محمودباجوہ نے تحریک انصاف کے ارشد ساہی کی حمایت کااعلان کردیا۔۔ طارق محمودباجوہ نے نومئی کے واقعات پر تحریک انصاف چھوڑدی تھی۔ این اے 53 سے 2018 کے آزادامیدوار پیر نصیر الحسنین شاہ نے تحریک انصاف کے کرنل (ر) اجمل صابر راجہ اور صوبائی امیدوار امیر افضل کی حمایت کا اعلان کردیا۔ پیر نصیر الحسنین شاہ نے 2018 میں صوبائی نشست پر 22000 سے زائد ووٹ لئے تھے۔ این اے 97 سے تاندلیانوالہ سے عائشہ رجب بلوچ اور انکے بیٹے روشن رجب بلوچ نے تحریک انصاف کے امیدوار سعداللہ بلوچ کی حمایت کا اعلان کردیا لودھراں پی پی 225 سے حاجی عبداللہ تھیم ،ملک مشتاق تھیم نے تحریک انصاف کی امیدوار شازیہ حیات اللہ خان ترین کی حمایت کا اعلان کر دیا قصور کے حلقہ این اے 133 سے سابق وزیر سردار آصف نکئی نے تحریک انصاف کے امیدوار عظیم الدین کی حمایت کااعلان کردیا۔۔ سردار آصف نکئی تحریک انصاف کے سابق وزیر رہ چکے ہیں۔
تحریک انصاف سے بلا چھینے جانے کے بعد پیپلزپارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی کی نظریں تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں پر۔۔ بلاول کا آزاد امیدواروں کو ساتھ لیکر وزیراعظم بننے کا عزم۔۔ دوسری جانب فیاض الحسن چوہان بھی پیچھے نہ رہے اور کہا کہ جو بھی آزاد امیدوار جیتے گا وہ ہماری پارٹی میں آئے گا، انہیں اسی یقین دہانی پر جتوایا جائے گا کہ وہ ہماری پارٹی میں شامل ہونگے گزشتہ روز بلاول بھٹو نے صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ آزاد ارکان کے ساتھ ملکر پیپلز پارٹی کی حکومت بنائیں گے اور اگلی حکومت میں نواز شریف اپوزیشن لیڈر ہوں گے صرف یہی نہیں ایک نجی چینل کے شو میں بھی بلاول نے کہا کہ یہ جو الیکشن ہو رہے ہیں ان میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں سمیت آزاد امیدوار بڑی تعداد میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہم بالکل بہت سارے آزاد امیدواروں کیساتھ رابطے میں ہیں دوسری جانب فیاض الحسن چوہان نے بھی بڑے بڑے دعوے کردئیے اور کہا کہ تحریک انصاف کے صرف وہی لوگ الیکشن جیتیں گے جوکمٹمنٹ کریں گے کہ وہ بعد میں پارٹی چھوڑ دیں گے۔۔ ان جیتنے والوں کی بڑی تعداد استحکام پارٹی جوائن کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یاسمین راشد سمیت کچھ اہم رہنماوں کے خلاف الیکشن سے کچھ دن پہلے یا بعد ،فیصلے آسکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ نا اہل ہو جائیں گے فیاض چوہان کا کہنا تھا کہ میرے الیکشن لڑنے سے حلقے کا ووٹ بینک تقسیم ہوگا جسکا براہ راست فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا اسلیے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے
سینئر صحافی وتجزیہ کار شہزاد اقبال نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات سے بظاہر شکوہ شکایت پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو ہے لیکن اصل شکایت مسلم لیگ کو ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے پاس نہ تو بیانیہ ہے نہ ہی وکٹم کارڈ تاہم تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے اس کے پاس بیانیہ بھی ہے اور وکٹم کارڈ بھی ہے۔ شاہ محمود قریشی کے ساتھ جو کچھ آج ہوا ہے وہ اس کی مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے لیکن انتخابات کے موقع پر یہ سب کچھ کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں جائے گا، اس لیے ن لیگ کو فکرمند ہونا چاہیے۔ کبھی کسی کے کاغذات نامزدگی چھین لیے جاتے ہیں، کوئی آر او کسی کو اپنے دفتر میں گھسنے نہیں دیتا جسے تحریک انصاف سوشل میڈیا پر اپنی طاقت کے ذریعے اسے اپنا بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کو وکٹم کارڈ دے کر ان کو سیاسی فائدہ دیا جا رہا ہے، تحریک انصاف بلے کا نشان واپس مل گیا، سائفر کیس اڑا دیا گیا۔ لوگ 2017ء کی بات سننے کے بجائے 2023ء کی بات سنیں گے اس لیے تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ن لیگ کو نقصان ہو رہا ہےاس لیے انہیں فکرمند ہونا چاہیے۔ سینئر تجزیہ نگار حفیظ اللہ نیازی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے حالات دیکھ کر دل دہل رہا ہے، شاہ محمود قریشی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مذمت کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ کچھ چیزیں جان بوجھ کر کرائی جا رہی ہیں، یا تو اس دہشت پھیلانا چاہتے ہیں یا کچھ ایسا ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آرہا۔ بلاول بھٹو سے اچھا منشور عمران خان نے دیا تھا جس میں 50 کروڑ نوکریاں اور پتا نہیں کیا کیا شامل تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ کے منشور کا کیا بنا؟ ق لیگ اور پرویز الٰہی کی حکومت نے کوئی وعدہ نہیں کیا لیکن ان کا دور حکومت بہت اچھا تھا لیکن 2008ء میں ق لیگ کہیں نظر آئی؟ میری پاکستانی سیاست پر ایک ہی رائے ہے کہ یہاں ایک ہی نعرہ چلتا ہے۔ حال ہی میں نوازشریف اور عمران خان نے اینٹی سٹیبلشمنٹ بیانیہ دیا تو ان کی شہرت ساتویں آسمان پر پہنچ گئی جبکہ پرویز الٰہی پرو سٹیبلشمنٹ تھے اس لیے سیاست سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں نے بہت مدبرانہ سیاست کی۔ 2013ء میں نوازشریف عمران خان کی قیادت کرنے شوکت خانم ہسپتال گئے، مارچ 2018ء میں بنی گالہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ 2014ء میں سٹیبلشمنٹ کے کہنے پر سیاست نہیں ریاست بچائو کے نام پر عمران خان نے سیاست سے کھلواڑ کیا۔ 2018ء میں عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا ، نوازشریف نے 20 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا میرا جھگڑا عمران خان سے نہیں، جنرل باجوہ اور جنرل فیض سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تب ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم باجوہ کا نام لے رہے ہو، تمہاری جرات کیسے ہوئی۔ عمران خان سٹیبلشمنٹ کو گالم گلوچ نکالنے کے ساتھ ساتھ مفاہمت بھی کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے مابین تصادم کی ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے جو آج بھی سیاسی جماعتوں کے بجائے سٹیبلشمنٹ سے معاملہ فہمی کرنا چاہتے ہیں۔
تحریک انصاف میں توڑ پھوڑ اور بڑے بڑے نام شامل کرنے کے بعد بھی آئی پی پی کے امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 18 اور صوبائی اسمبلی کی 40 نشستوں پر کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن انچیف جہانگیر ترین، ملتان اور لودھراں، علیم خان، عون چوہدری لاہور سے الیکشن لڑیں گے۔جہانگیر ترین نے این اے 155 لودھراں اور این اے 149 ملتان سے کاغذات جمع کروا دیے۔ عون چوہدری نے لاہور کے حلقوں این اے 124، 127 اور 128 جبکہ علیم خان نے لاہور کے حلقوں این اے 117 شاہدرہ، این اے 119 گڑھی شاہو سے کاغذات جمع کروائے۔ راجہ عامر کیانی نے اپنے پرانے حلقہ انتخابات راولپنڈی کی بجائے این اے 47 اسلام آباد سے کاغذات جمع کروا دیے۔غلام سرور خان نے راولپنڈی کے حلقوں این اے 53، 54 سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے، فردوس عاشق اعوان نے این اے 70 سیالکوٹ سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے جبکہ سالکوٹ سے کسی اور قابل ذکر رہنما نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔فردوس عاشق اعوان کے مقابلے میں ارمغان سبحانی اور سعید بھلی زیادہ مضبوط امیدوار سمجھے جارہے ہیں۔ فرخ حبیب نے این اے 101 فیصل آباد اور ہمایوں اختر نے لاہور کی بجائے استحکام پاکستان پارٹی کی طرف سے این اے 97 تاندلیانوالہ فیصل آباد سے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے۔فرخ حبیب کی جیت کے امکانات بھی انتہائی کم ہیں کیونکہ 2018 میں انہیں جتوانے میں پی ٹی آئی کا ووٹ بنک مددگارثابت ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی نے پی ٹی آئی کے سینکڑوں رہنماؤں کو توڑا مگر کاغذات نامزدگی ڈیڑھ درجن جمع کرائے ۔ لاہور سے پی ٹی آئی اور ن لیگ کا ون ٹو ون مقابلہ متوقع ہے جبکہ عون چوہدری اور علیم خان کا اس میں چانس نظر نہیں آرہا۔مرادراس قومی اسمبلی کی بجائے صوبائی اسمبلی کے حلقے سے اترنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ غلام سرور خان الیکشن 2018 میں دونوں سیٹیں جیت گئے تھے لیکن اس بار غلام سرور خان کا جوڑ آزادامیدوار چوہدری نثار اور پی ٹی آئی کے کرنل اجمل صابر راجہ سے پڑے گا۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آئی پی پی جہانگیرترین، غلام سرور خان کی سیٹیں شاید جیت پائے اور شاید 2 سے 3 سیٹوں تک محدود رہے۔
اپنے پروگرام میں تجزیہ کرتے ہوئے عامرمتین نے سوال اٹھایا کہ عثمان ڈار کی ماں سے شروع ہونے والا ظلم کہا ں رکے گا۔ جب ماں،بہن کا تقدس بھی نہ رہے تو پھر سیاست کس بات کی۔ میاں شفیق آرائیں کے سیاست سے دستبرداری پر عامرمتین نے کہا کہ تیس سال سے سیاست میں رہنے کے باوجود میاں شفیق ارائیں نے عزت بچا کر رکھی تھی۔ اب جہانگیر ترین کو جتوانے کے لیے ان کی بھتیجے کو اٹھا لیا گیا۔ اک جیتے ہوئے ممبر کو مجبور کیا کہ وہ دستبردار ہو جائے۔ اگلا سلوک کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ شریف آدمی نے سیاست کو خیر آباد کہہ کے عزت بچا لی۔ مگر یہ نظام کس طرف چل پڑا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ طاقت میں مخمور سیٹھ اپنے بچوں کے لیے کیا سبق چھوڑنا چاہتے ہیں۔ کیا لودھراں کے لوگ بھیڑ بکریاں ہے جو کہ تھانے کے زریعے ہانکے جائیں گیں۔ یہ سفر کہاں رکے گا۔ کون جیتے گا اور کون ہارے گا۔ عامرمتین نے جہانگیرترین پر طنز کیا کہ جہانگیر ترین نے بچپن میں خواب دیکھا تھا کہ وہ بڑے ہو کر لودھراں سے ایم این اے ضرور بنیں گے۔ حسن اتفاق 2015 کے ضمنی انتخابات میں وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا ہی تھا کہ نااہلی کی تلوارپہنچ گئی۔ عامرمتین کا کہنا ھا کہ مجھے علی ترین سے ہمدردی ہے۔ وہ اک خوبصورت اور قابل نوجوان ہے۔ میں اس کے کرکٹ کے علاوہ انسانیت کے حوالے سے کئ اچھے واقعات کا گواہ ہوں۔ مگر بلاول کی طرح وہ بھی اپنے باپ کا محصور ہے۔ وہ بیچارہ میاں شفیق جیسے لوگوں کے ساتھ نا انصافی کا حساب ساری عمر دیتا رہے گا۔ عامرمتین نے مزید کہا کہ آپ باعزت لوگوں کے بچے اٹھا کے، ان کو تھانہ کچہری کے زریعے مجبور کر کے تسخیر کر لیں گیں مگر لوگ بے عزتی بھولتے نہی۔ ایجنسیاں چلی جاتیں ہیں مقامی لوگ وہیں رہتے ہیں۔ ترین صاحب اتنا ظلم کریں جتنا سنبھال سکیں اور اپنے بچے کے لیے اک با عزت راستہ چھوڑ کر جائیں۔
الیکشن کااعلان ہوتے ہی تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی آگئی۔۔پولیس کے پی ٹی آئی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے الیکشن کااعلان ہوتے ہی تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی آگئی ہے۔ گزشتہ روز عثمان ڈار کی والدہ کے گھر پولیس نے چھاپہ مارا اور عثمان ڈار کی والدہ کے کپڑے پھاڑدئیے، عثمان ڈار کی والدہ نے خواجہ آصف کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ روز ہی میاں عباد فاروق کے گھر بھی پولیس پہنچی، میاں عباد فاروق کی اہلیہ اور بھائی نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کااعلان کیا تھا۔ صرف یہی نہیں گزشتہ روز ہی لودھراں سے پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے میاں شفیق آرائیں نے بھی الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کیا اور گجرات سے افتخارگوندل نے بھی الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا۔ پی ٹی ائی کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی، آدھی رات کو ضلعی صدر قصور مہر سلیم کے گھر پر پولیس کا دھاوا۔۔ پولیس اور انتظامیہ کو مہر سلیم کی جانب سے الکشن لڑنے کا خدشہ ہے بہاولپور سے سابقہ صوبائی وزیر سمیع اللہ چوہدری کے گھر ہاشمی گارڈن پر پولیس کا چھاپہ۔۔ سمیع اللہ چوہدری نے تحریک انصاف نہ چھوڑنے کااعلان کیا تھا جس کی پاداش میں انکے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن کیا ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تحریک انصاف کے مضبوط امیدوار اسامہ حمزہ کو بھی پولیس نے رات کے اندھیرے میں اٹھالیا۔۔ اسامہ حمزہ نے تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ تحریک انصاف آفیشل کے مطابق صبح کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا پہلا دن ہے اور پنجاب میں اٹک سے لے کر رحیم یار خان تک تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ممکنہ امیدواران کے گھروں پر آدھی رات کو چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ یہ سب ایک غیرمقبول ٹولے کو ملک پر مسلط کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے اور ضلعی و نگران انتظامیہ اس پلان کا حصہ ہے۔ پی ٹی آئی آفیشل کا مزید کہنا تھا کہ پورا ملک اس وقت چیف جسٹس کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ کب "اغوا برائے بیان" پر اعتزاز احسن کی پٹیشن سنیں گے اور اس پری پول رگنگ کا نوٹس لیں گے؟ فیصل آباد سے پی ٹی ائی امیدوار ملک عمر فاروق کے گھر پولیس کا چھاپہ۔۔ میاں عمرفاروق نے این اے 99 اور پی پی 107 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا اور کاغذات نامزدگی حاصل کئے تھے۔ اس پر میاں عمر فاروق کا کہنا تھا کہ وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا اور جو اللہ نے لکھ دیا ہے اس کو کوئی ختم نہیں کر سکتا ہوں نہ کو ئی اور جناب وزیراعلی پنجاب ائی جی پنجاب صاحب اج میں نے حلقہ این اے 99 اور پی پی 107کے لیے نومینیشن پیپر حاصل کیے اور اج ہی پولیس نے چھاپوں کا اغاز کر دیا کیا میں پاکستانی نہیں ہوں کیا میرا حق نہیں ہے کوئی بات نہیں میں ہر ظلم سہوں گا لیکن انشاءاللہ الیکشن ضرور لڑوں گا انہوں نے مزید کہا کہ آپ سب کا شکریہ مجھے ہر دن مظبوط بنا رہے ہیں مسلم لیگ نون والے میدان میں مقابلہ کریں اگر ایسے ہی ڈرا کر جیتنا چاہتے ہیں تو دیکھتے ہیں آپ اور کتنا ظلم کرتے ہیں تھوڑے دن بعد عوامی عدالت میں حاضری دیتا ہو ں میں سہوں گا آپ ظلم کریے گا دیکھیں کون جیتتا ہے آپ کا ظلم یا میرا صبر شکریہ امید کرتا ہوں سچ بولنے پر غصہ نہ کریں گے۔ الیکشن کی تاریخ کے اعلان کیساتھ ہی گجرات سے تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق ایم این اے سید فیض الحسن شاہ اور ایم پی اے چوہدری ارشدنے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔دونوں رہنماؤں کو کچھ دن پہلے گھروں سے اٹھایا گیا تھا۔ان دونوں کے جانے کے بعد قمرزمان کائرہ اور ن لیگی امیدوار کا راستہ صاف ہوگیا ہے اسی طرح پولیس نے سوات سے تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے فضل مولا کو بھی گرفتار کرلیا جن کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ وہ محمود خان کے مقابلے میں الیکشن لڑیں گے۔
آن لائن اخبار کے صحافی عارف ملک نے دعویٰ کیا ہے کہ نوازشریف نے سابق ایم پی اے اشرف انصاری کو پارٹی امیدواروان کے انٹرویو کے دوران گارڈز کے ذریعے پارٹی میٹنگ سے نکلوادیا۔ صحافی عارف ملک کے مطابق نواشریف امیدواروں کے کے انٹرویوز کررہے تھے جہاں سابق لیگی ایم پی اے اشرف انصاری بھی موجود تھے توانہوں نے اپنی پارٹی سے وابستگی سے متعلق بتایا ۔ رانا ثناء اللہ نے انہیں بٹھانے کی کوشش کی لیکن نہ بیٹھے اسکے بعد مریم نواز نے بھی ٹوکا تو نہ بیٹھے ۔ اس پر اشرف انصاری غصے میں آگئے اور کہا کہ اگر آپ ہماری بات نہیں سننا چاہتے تو ہمیں بلایا کیوں ہے، میں نے درخواست دی ہے اور پیسے بھی جمع کروائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب حمزہ شہبازکوووٹ چاہئے تھا تو ہم پارٹی کیساتھ کھڑے تھے مجھے سے وعدہ کیا گیا کہ آپکو ٹکٹ دیں گے جس پر نوازشریف نے کہا کہ آپ تو وہی نہیں جو پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف کی حمایت کر رہے تھے لہذا آپ یہاں سے چلے جائیں۔ اشرف انصاری نے جانے سے انکار کیا تو نوازشریف نے گارڈز کو کہا کہ اسے باہر نکالو جس پر اشرف انصاری کو دھکے مار کر کمرے سےنکال دیا گیا۔ اس موقع پر نوازشریف نے کہا کہ ایک تو یہ شخص ہمارا وفادار نہیں اور دوسرا بد نظمی پھیلا رہا تھا، جس کی وجہ سے یہ قدم اٹھانا پڑا۔ جب ن لیگ پر مشکل وقت تھا تو اس شخص نے فارورڈ گروپ بنایا یادرہے کہ 2018 کے بعد جب پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت تھی تو گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے اشرف انصاری نے فارورڈ بلاک بنایا جس میں ناروال سے مولانا غیاث دین ، خانیوال سے نشاط ڈاہا اور فیصل نیازی اور شیخوپورہ سے جلیل شرقپوری تھے۔ حمزہ شہباز جب وزارت اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے تو اشرف انصاری، مولانا غیاث الدین اور جلیل شرقپوری نے اپنا ووٹ حمزہ شہباز کو دیا ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اشرف انصاری اور مولانا غیاث اب ن لیگ کا ٹکٹ مانگ رہے ہیں، جلیل شرقپوری عمران خان ساتھ چھوڑچکے ہیں جبکہ فیصل نیازی تحریک انصاف کیساتھ کھڑے ہیں، نشاط ڈاہا انتقال کرگئے ہیں جبکہ انکی اہلیہ تحریک انصاف کیساتھ کھڑی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے ڈان لیکس اور راحیل شریف کی جانب سے مدت ملازمت میں توسیع مانگنے سے متعلق ہوشربا انکشافات کردیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے سماء ٹی وی کے پروگرام دو ٹوک میں اینکر کرن ناز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے متعدد انکشافات کیے ہیں، انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کو راحیل شریف سے کوئی شکایت نہیں ہے، تاہم جنرل (ر) راحیل شریف کو میاں نواز شریف سے کچھ شکایات تھیں جن کی وجہ سے تلخی بڑھتی چلی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک بات جنرل پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کی تھی جس پر جنرل راحیل شریف ناراض تھے، یہاں سے دونوں کے درمیان تلخی پیدا ہونا شروع ہوئی، اس کے بعد جنرل راحیل شریف مدت ملازمت میں توسیع چاہتے تھے، انہوں نے خو د براہ راست میاں نواز شریف سے اس بارے میں بات کی مگر میاں صاحب نہیں مانے، جس کے بعد پانامہ کا معاملہ اٹھایا گیا، ڈان لیکس سامنے آئیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ آج تک سرل المیڈا کی اس خبر کے درست یا جھوٹ ہونے پر کوئی کمیٹی نہیں بیٹھی، کسی نے تحقیق نہیں کی ، کیونکہ جو باتیں خبر میں کہی گئیں وہ بالکل ٹھیک تھیں، یہ کوئی معاملہ نہیں تھا بلکہ چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیا گیا تھا صرف اس وقت کے وزیراعظم کو پریشرائز کرنے کیلئے، تاکہ جو کہا جائے وہ ہوجائے۔ ایک سوال کے جواب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ڈان لیکس میں کابینہ ارکان کو اس لیے ہٹایا گیا کہ میاں نواز شریف تصادم نہیں چاہتے تھے، انہوں نےپرویز رشید کی قربانی دی کہ معاملہ ٹھیک ہوجائے گا، مگر معاملہ ٹھیک نہیں ہوا، پھرطارق فاطمی کو ہٹایا گیا ، پھر دیگر لوگوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ رہنما ن لیگ نے کہا کہ اس خبر میں ایسا کچھ نہیں تھا، میاں نواز شریف کو تو وہ باتیں کھلے عام بھی کرتے رہتے ہیں جو اس اجلاس میں کی گئیں، یہ ایک اسکینڈل خود بنایا گیا، اس اسکینڈل کے ذریعے کابینہ کے 3،4 لوگوں کو نکالا گیا، میاں نواز شریف نے ان لوگوں کو صرف اس لیے نکالا کہ لڑائی آگے نا بڑھے ، مگر لڑائی آگے بڑھتی چلی گئی۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اس سب کے پیچھے جنرل راحیل شریف کی توسیع حاصل کرنے کی منصوبہ بندی تھی جو وہ وزیراعظم کو پریشر میں لاکر حاصل کرنا چاہتے تھے، ایک کے بعد ایک قربانیاں مانگی گئیں، نوازشریف نے تصادم سےبچنے کیلئے قربانیاں دیں بھی مگر معاملات ٹھیک نہیں ہوئے یہاں تک کہ وزیراعظم کو خود نشانہ بنادیا گیا۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ نواز شریف پرانی مقتدرہ پر تنقید کرتے ہیں نئی مقتدرہ کے ساتھ چل رہے ہیں، اسی طرح پرانی عدلیہ نے ان کے خلاف فیصلے دیئے لیکن آج کی عدلیہ انہیں ریلیف دے رہی ہے۔ جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایسی صورتحال سامنے آئی جس میں عدالت عظمیٰ کے چھ رکنی بنچ نے اپنے ہی پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ معطل کردیا ہے، تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی اسے معطل کردیا گیا ہے، اس فیصلے کے بعد ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے سوالات اٹھ گئے ہیں۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ نواز شریف کو پرانی مقتدرہ یعنی جنرل باجوہ اور جنرل فیض سے بڑے حقیقی گلے ہیں، ان دونوں نے نواز شریف کے ساتھ بہت زیادتیاں کی تھیں، نئی مقتدرہ نواز شریف کو سپورٹ کررہی ہے اس لیے بیانیہ میں بڑا تضاد آگیا ہے۔ نواز شریف پرانی مقتدرہ پر تنقید کرتے ہیں نئی مقتدرہ کے ساتھ چل رہے ہیں، اسی طرح پرانی عدلیہ نے ان کے خلاف فیصلے دیئے لیکن آج کی عدلیہ انہیں ریلیف دے رہی ہے، نواز شریف نے اس تضاد سے نکلنے کیلئے انتقام نہیں حساب کا بیانیہ اپنالیا ہے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ میری رائے میں جن لوگوں نے اس وقت غلط کیا انہیں بھگتنا چاہیے، جسٹس منیر سے لے کر آج تک جن ججوں نے اور جن جرنیلوں نے مارشل لاء لگائے ہیں ان کے خلاف کم از کم علامتی فیصلے تو آنے چاہئیں، پاکستان میں مظلوم کا ووٹ بینک توڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی پارٹی کے ساتھ ظلم ہوتا ہے تو اس کا ووٹ بینک تادیر قائم رہتا ہے، یہ بات درست ہے نواز شریف اس وقت اکیلے لڑرہے ہیں ان کے مخالف کوئی نہیں ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ شہری حلقوں میں بظاہر پی ٹی آئی اکثریت میں نظر آرہی ہے، پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی تو شہروں میں جیت جائے گی، پی ٹی آئی کو الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے، فی الحال لگتا ہے عمران خان کو نااہل قرار دیدیا جائے گا، پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ملٹری ٹرائل ہوں گے، اس طرح مزید خوف اور ناامیدی پھیلائی جائے گی جس سے پی ٹی آئی کا ووٹر باہر نہیں نکلے گا۔ مریم نواز نے کہا کہ سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف سماعت میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وکلاء لطیف کھوسہ، سلمان اکرم راجہ اور اعتزاز احسن تمام وقت روسٹرم پر موجود رہے، ججوں کے ساتھ گفتگو سے زیادہ وکلاء کی آپس میں بحث ہوتی رہی۔ اٹارنی جنرل بھی اپنے عمومی رویے کے خلاف غصہ میں نظر آئے، ججوں سے بھی یہ صورتحال کنٹرول نہیں ہورہی تھی، جسٹس طارق مسعود نے بار بار وکلاء سے نشستوں پر بیٹھنے کیلئے کہا مگر وہ کھڑے رہے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایسی صورتحال سامنے آئی جس میں عدالت عظمیٰ کے چھ رکنی بنچ نے اپنے ہی پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ معطل کردیا ہے، تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی اسے معطل کردیا گیا ہے، اس فیصلے کے بعد ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے سوالات اٹھ گئے ہیں۔ جسٹس طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چھ رکنی بنچ نے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کا وہ فیصلہ معطل کردیا ہے جس میں سویلینز کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا، سپریم کورٹ نے سویلینز کا ملٹری ٹرائل جاری رکھنے کی ہدایت تو کردی مگر اس حوالے سے حتمی فیصلہ جاری نہ کرنے کے احکامات بھی دیدیئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ انتقام نہیں چاہتا، حساب لینا تو بنتا ہے۔مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ آج جھوٹ ہوا میں اڑ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے خلاف مقدمات میں جان نہیں تھی، سزا مجھے نہیں 25 کروڑ عوام کو ملی۔ نواز شریف نے کہا کہ جو دکھ ہمیں دیے گئے ان کا کوئی مداوا ہے؟ ہم نے جنرل باجوہ یا جنرل راحیل کے خلاف کبھی کوئی سازش نہیں کی,کبھی کسی کے خلاف سازش نہیں کی، دفاع کو مضبوط کیا، جے ایف 17 کے معاہدے پر میرے دستخط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو دکھ ہمیں دیئے گئے ہیں اس کا کوئی مداوا ہے؟ میری اہلیہ آخری سانسیں لے رہی تھیں میں نے مریم سے کہا اللہ انہیں شفا عطا فرمائیں ، ہم چلتے ہیں پاکستان، جعلی مقدمہ ہے سزا بھگتیں گے، یہ نہیں کرسکتے کہ سزا سننے کے بعد ہم یہاں بیٹھے رہیں۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو میرے بے قصور ہونے کا یقین تھا، ایسا فیصلہ سنایا گیا جو دنیا میں مذاق بنا، جو دکھ ملے کیا ان کا کوئی مداوا ہے؟ انتقام لینا نہیں چاہتا لیکن احتساب ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 21 اکتوبر کو میں نے لاہور آکر یہ کہا تھا کہ میں کسی انتقامی جذبے سے یہاں نہیں آیا لیکن یہ تو پوچھنا چاہیے کہ اس ملک کیساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ 8 فروری کو سب سے بڑی عدالت بنے گی، عوامی جے آئی ٹی بنے گی، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ڈالر کو چار سال باندھ کر رکھا، ہم نے آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہا، کیا ججز کبھی سسلین مافیا، گاڈ فادر جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں، میری دشمنی میں کیے گئے اقدام نے عوام کو نقصان پہنچایا۔ نواز شریف نے کہا کہ سازشی عناصر روز شام میں دکانداری چمکاتے تھے، ہمارے وقت میں آٹا، چینی، گوشت اور سب اشیا سستی تھیں، میں نے کیا بگاڑا تھا اس بینچ کا جس نے مجھے سسیلین مافیا کہا، مجھے بطور فرد سزا ملی، اصل سزا 25 کروڑ عوام کو ملی۔ قائد مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ مجھے پیغام بھیجا گیا کہ نوازشریف کو پتا ہونا چاہیے کہ اڈیالہ جیل میں بڑی جگہ ہے، اس مائنڈ سیٹ سے لوگ آئیں گے تو یہی ہوتا رہے گا، مجھے انتقام سے کوئی غرض نہیں، میرے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا حساب ہونا چاہیے، جنھوں نے قوم کے ساتھ زیادتی کی میں انھیں معاف نہیں کرسکتا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ اللہ نے مجھے جھوٹے مقدمات سے بری فرمایا ہے، دنیا بھی کہہ رہی ہے کہ سازش کے تحت مقدمات بنائے گئے۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور اس کے 25 کروڑ عوام کے خلاف یہ سازش ہوئی ہے اور 25 کروڑ عوام کو اس کا نوٹس لینا چاہیے وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے یہ کام کیا اور کیوں کیا؟ میں نے تو کسی کے خلاف کوئی سازش نہیں کی ہم نے تو اپنا کام کیا سڑکیں بنائیں , موٹرویز بنائیں ,لوڈشیڈنگ ختم کی , ایٹمی دھماکے کیے دفاع کو مضبوط کیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی (پی) پرویز خٹک الیکشن سے بھاگنے سے متعلق سوال کے جواب میں اپنا بیان بدلنے پر مجبور ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق جیونیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں میزبان شہزاد اقبال نے پی ٹی آئی (پی) کے چیئرمین پرویز خٹک کو 23 مارچ 2023 کو دیئے گئے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ پی ٹی آئی رہتے میں آپ ن لیگ اور پیپلزپارٹی پر الزام لگارہے تھے کہ وہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں، آج آپ یہی الزام پی ٹی آئی پر لگارہے ہیں؟ چیئرمین پی ٹی آئی (پی) پرویز خٹک نے کہا کہ انتخابات سے دونوں بھاگ رہے ہیں، عمران خان اس لیے الیکشن سے نہیں بھاگ رہے تھے کہ وہ ہار جائیں گے، بلکہ عمران خان الیکشن سے اس لیے بھاگ رہے تھے کیونکہ وہ ملک میں انتشار پھیلانا ،عوامی طاقت پر قبضہ کرنا اور صدارتی نظام لانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر جب مشاورت ہوئی تو میں نے اس کی مخالفت کی ، جب حکومت چلی گئی تو عمران خان نے اپنا پورا ذہن بنالیا تھا کہ انہوں نے عوامی طاقت کی بنیاد پر واپس اقتدار میں آنا ہے، فوج کو کمزور کرنا ہے، صدارتی نظام لاؤں گا کہ میرے مقابلے میں کون کھڑا ہوسکتا ہے۔ ماضی میں عمران حکومت کے خلاف امریکی سازش کا معاملہ ہر فورم پر اٹھانے سے متعلق سوال کے جواب میں پرویز خٹک نے کہا کہ جو میں باتیں ماضی میں کررہا تھا وہ اس بریفنگ کی بنیاد پر تھیں جو ہمیں پارٹی کی طرف سے دی گئی تھی، لیڈر کی بات کو عوام کے سامنے بیان کرنا پڑتا ہے، ہم اکیلے میں اس پر بحث بھی کرلیتے تھے مگر لیڈر کی بات کو ردکرنا آسان نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خفیہ دستاویزات عمران خان کے پاس آئی تھیں، اس کو پبلک کرکے عمران خان نے حلف کی خلاف ورزی کی، ہم نے تو وہ باتیں عوام میں جاکر کیں جو ہمیں عمران خان نے بتائیں، ہم نے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی۔
مسلم لیگ ن اور ق لیگ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ گھمبیر ہونے لگا۔۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن ق لیگ کو 2 قومی اور 3 صوبائی اسمبلی کی سیٹیں دینے کو تیار ہے لیکن دوسری طرف چوہدری شجاعت کے بھتیجے حسین الٰہی کی سیٹ پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا جس سے 9 مئی کے واقعات کو جواز بناکر تحریک انصاف چھڑوائی گئی تھی۔ مسلم لیگ ق 4 سیٹیں چاہتی ہے جن میں حسین الٰہی کیلئے اور ایک حلقہ چوہدری سرور کیلئے بھی چاہتی ہے جبکہ ن لیگ گجرات کے نوابزدگان اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے جنیدانورچوہدری کی قربانی نہیں دے سکتی، اسی طرح چوہدری سرور کو لاہور کے شاہدرہ حلقہ سے ٹکٹ ملنا مشکل ہے کیونکہ وہاں ملک ریاض اور عظمیٰ بخاری کے سمیع اللہ خان شوہر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں۔ اگرچہ حسین چوہدری سالک کو قومی اسمبلی اور چوہدری شافع کو صوبائی اسمبلی کی سیٹ آفر کی گئی ہے لیکن چوہدری سالک اور چوہدری شافع کیلئے بڑا مسئلہ پرویزالٰہی اور تحریک انصاف کی مقبولیت بنے ہوئے ہیں۔اس سے نہ صرف ووٹ بنک تقسیم ہوگا بلکہ عابدرضاکوٹلہ کی وجہ سے ن لیگ کا ووٹ نہ پڑنے کا بھی خدشہ ہے۔ اگرچہ طارق بشیر چیمہ کی قومی اسمبلی کی سیٹ پر اتفاق ہوگیا ہے لیکن اسکے باوجود اسکےحلقے پر بھی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے کیونکہ طارق بشیرچیمہ اپنا پینل لاکر لڑوانا چاہتا ہے لیکن ن لیگ اپنے ایم پی ایز کو ٹکٹ دینا چاہتی ہے۔ طارق بشیر چیمہ کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں وہ نوازشریف کیساتھ بیٹھے کافی پریشان نظرآرہے ہیں جس کی وجہ غالبا سعود مجید اور اسکا پینل ہے یہاں سےصوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر خالد محمود ججا ایک ہزار ووٹ سے جبکہ دوسری سیٹ سے سعد مسعود3500 ووٹوں سے ہارا تھا۔ یہاں سے طارق بشیرچیمہ کے نیچے دونوں ایم پی ایز تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے لیکن ان سے بھی 9 مئی واقعات کو جواز بناکر پارٹی چھڑوائی گئی۔ اسکے باوجود تحریک انصاف کا حلقے میں ذاتی ووٹ بنک ن لیگ کیلئے پریشان کن ہے اور خدشہ ہے کہ کہیں تحریک انصاف جاٹ، آرائیں اور راجپوت برادری پر مشتمل پینل بناکر میدان میں نہ آجائے ۔ صحافی محمد عمیر کے مطابق نون لیگ اور ق لیگ کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے مطابق طارق بشیر چیمہ کے نیچے دونوں امیدوار ن لیگ کے ہونگے۔ یزمان کا یہ حلقہ جٹ آرائیں کی لڑائی ہے۔طارق بشیر چیمہ کے نیچے دونوں ایم پی اے آرائیں ہیں اور یہ دونوں 2018 میں جیتے تھے اور یہ اسوقت پرویز الہی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ن لیگ کی جانب سے سعود مجید آرائیں ہیں وہ الیکشن نہیں لڑیں گے تو کیا سعود مجید اپنا بیٹے چیمے کے نیچے لڑوائے گا؟ انہوں نے مزید کہا کہ آرائیں چوہدری مجید اور جٹ چوہدری بشیر کی اس حلقہ کی لڑائی قیام پاکستان سے چل رہی ہے۔ ن لیگ کے یہاں سے ایک مضبوط ایم پی اے کے امیدوار جٹ ہیں،اگر اوپر نیچے جٹ امیدوار ہونگے تو آرائیوں کا ووٹ اکٹھا ہوجائے گا۔یزمان ون وے ٹریفک مشکل چلے گی۔ انکا کہنا تھا کہ تحریک انصاف یہاں بہتر پینل دینے کی پوزیشن میں ہیں کہ جیتے ہوئے دونوں امیدوار اب بھی پرویز الہی کے ساتھ ہیں اور ان کا وہاں اپنا ووٹ بینک ہے۔ 2018 میں تحریک انصاف نے یہاں ایم این اے اور ایم پی اے کے امیدوار نہیں دئیے تھے۔
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے سابق وزیراعظم وقائد ن لیگ میاں نوازشریف پر شدید تنقید کے باوجود چیف آرگنائزر ن لیگ مریم نوازشریف نے اپنی توپوں کا رخ سابق وزیراعظم وچیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی طرف رکھا ہوا ہے۔ پنجاب کے شہر جلالپور جٹاں میں ن لیگ کے یوتھ کنونشن سے خطاب میں کہا کہ ہمارے جن مخالفین نے کہا کہ نوازشریف کی سیاست اب ختم ہو چکی ہے وہ سب اپنے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے عمران خان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میاں نوازشریف کو ماضی میں چور کہنے والا آج خود سے جیل میں بیتھا ہوا ہے۔ نوازشریف پر جلسوں میں چوری کا الزام لگانے والے کبھی بھی معاملہ عدالت لے کر نہیں گیا۔ ایک بار وزیراعظم رہنے والے شخص کی چوری کے چرچے ہیں لیکن نوازشریف پر آج تک کرپشن پر کوئی الزام نہیں لگا، اس شخص سے چوری کا حساب مانگا گیا تو ٹانگ پر پلستر چڑھا لیا۔ انہوں نے کہا کہ 60 ارب روپے کی ڈکیتی مارنے والا شخص جیل میں بیٹھ کر کبھی دیسی مرغی تو کبھی ایکسائز مشین کا مطالبہ کر رہا ہے، اگر جیل میں اسے سہولت دینی ہے تو تمام قیدیوں کو یہ سہولت دی جائے۔ جیل میں اپنے اعمالوں کی سزا بھگتنے والے کا نام بھی نہیں لینا چاہتی، ایک بار اقتدار ملنے پر اس شخص پر ملکی تاریخ میں کرپشن کا سب سے بڑا کیس بنا۔ انہوں نے کہا کہ میاں نوازشریف کو تین دفعہ ملک کا اقتدار ملا لیکن اس پر کوئی چوری کا الزام نہیں لگا سکا، اس شخص نے بہت جھوٹ بولے، نوازشریف کے بجائے اس کے اعمال نے ہی اس سے انتقام لے لیا۔ کہا گیا کہ نوازشریف تاریخ کا حصہ بن گیا، کبھی واپس نہیں آئے گا لیکن سازش کرنے والوں نے دیکھا کہ میاں نوازشریف کس عزت کے ساتھ اپنے وطن واپس آیا۔ انہوں نے کہا کہ میاں نوازشریف کا استقبال کرنے کے لیے 21 اکتوبر کو پورا ملک سڑکوں پر امڈ آیا تھا اور سڑکیں چھوٹی پڑ گئی تھیں۔ نوازشریف اب بھی عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں، وہ لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف کو عدالتوں سے فیور مل رہی ہے، انہیں شرم آنی چاہیے۔ نوازشریف کو انصاف رینگ رینگ کا مل رہا ہے، ان کے خلاف پانامہ کے نام پر جھوٹ پہ جھوٹ بولا گیا۔
سابق وزیر دفاع وصدر پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز پرویز خٹک نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایک نیا انکشاف کر دیا ہے۔ پرویز خٹک نے نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو ان کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کی آفر کی گئی تھی لیکن غیرمعینہ مدت تک توسیع کی آفر والی بات جھوٹی ہے۔ جنرل باجوہ کو ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی آفر کرنے تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تک پانی سر سے اونچا جا چکا تھا، انہیں غیرمعینہ مدت کیلئے آرمی چیف بننے کی آفر کی بات غلط ہے۔ عمران خان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے ان کو وزارت داخلہ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن پھر مکر گئے، وہ جھوٹے شخص ہیں۔ مجھے صدر پاکستان بنانے کی آفر بھی کی گئی تھی جسے میں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ کیا میری سیاست ختم کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے کہنے پر میں خود 2 دفعہ سابق آرمی چیف کے پاس گیا تھا اور انہیں عہدے میں توسیع کی آفر کی لیکن غیرمعینہ مدت تک توسیع والی بات کوئی جاہل ہی کر سکتا ہے کیونکہ ملک کے قانون میں ایسا کچھ ہے ہی نہیں۔ جنرل باجوہ کی مدت میں 1 سال باقی تھا جب انہیں مدت ملازمت میں توسیع کی آفر کرنے کیلئے عمران خان نے مجھے بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پہلے صدر پاکستان کیلئے مجھے آفر کی، پھر اسد قیصر کو بھی آفر کی گئی لیکن وہ انکاری ہو گئے جس کے بعد ڈاکٹر عارف علوی کو صدر بنایا گیا۔ عمران خان نے جب مجھے وزیر دفاع لگانے کا فیصلہ کیا تو مجھے پتہ لگ گیا کہ اس نے مجھے کھڈے لائن لگانا ہے لیکن اللہ نے میرے لیے بہتر کیا کہ میں آرمڈ فورسز کے ساتھ تعلقات اچھے ہو گئے۔ انہوں نے نوشہرہ کے حلقے سے اپنے رشتے داروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے بارے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹکٹ صرف اسے جاری کیا جائے گا جو پارٹی کو سیٹ پر جیت دلوا سکتا ہے، چاہے وہ امیدوار میرے اپنے گھر سے ہی کیوں نہ ہو۔ واضح رہے کہ پرویز خٹک نے نوشہرہ کے حلقے میں 7 نشستیں اپنے رشتے داروں کو دینے کی تردید نہیں کی۔
مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان پارٹی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کمیٹی قائم کر دی گئی۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ کی طرف سے رانا ثناء اللّٰہ، ایاز صادق اور سعد رفیق جبکہ آئی پی پی کی طرف سے عون چوہدری، اسحاق خاکوانی اور نعمان لنگڑیال کمیٹی میں ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ لاہور میں قومی اسمبلی کی نشست پر علیم خان کو سپورٹ کرے گی، ن لیگ عون چوہدری،اسحاق خاکوانی،نعمان لنگڑیال کے مقابلے میں امیدوار کھڑا نہیں کرے گی، لودھراں میں ایک قومی اور ایک صوبائی نشست پر آئی پی پی کی حمایت کرے گی ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین یا ان کے بیٹے علی ترین لودھراں سے رکنِ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔اگر ن لیگ جہانگیرترین یا انکے بیٹے کی حمایت کرتی ہے تو ن لیگ کو صدیق بلوچ کی قربانی دینا پڑے گی اور اس صورت میں صدیق بلوچ کی جانب سے آزاد حیثیت میں الیکشن متوقع ہے۔ آئی پی پی کے صدر علیم خان اور عون چوہدری لاہور سے قومی اسمبلی کا ایکشن لڑیں گے۔علیم خان کا حلقہ وہی ہے جو یازصادق کا حلقہ ہے جبکہ علیم خان کو این اے 127 لاہور جہاں سے شائستہ پرویز ملک اور انکے شوہر پرویز ملک مرحوم این این اے رہے ہیں، سے بھی الیکشن متوقع ہے۔ یادرہے کہ علیم خان 2002 اور 2008 میں ق لیگ کے ٹکٹ پر اس حلقے سے الیکشن لڑچکے ہیں۔ 2002 میں وہ طاہرالقادری سے ہارگئے تھے جبکہ 2008 میں نصیربھٹہ کے ہاتھوں انکی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔ عون چوہدری این اے 128 سے خود کو امیدوار تصور کرتے ہیں جو رانا مبشراقبال کا حلقہ ہے اور عون چوہدری کے بھائی چوہدری امین یہاں سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایم پی اے بنے تھے او ربعدازاں منحرف ہونے کے بعد ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تو ہارگئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسحاق خاکوانی وہاڑی سے اور نعمان لنگڑیال ساہیوال سے الیکشن لڑیں گے جبکہ دونوں پارٹیوں میں سے ایک مضبوط امیدوار کو حلقے میں سامنے لایا جائے گا اور مضبوط امیدوار کے لیے غیر جانبدار سروے بھی کرایا جا سکتا ہے۔ نعمان لنگڑیال کی صورت میں ن لیگ کو چوہدری زاہداقبال اور اسحاق خاکوانی کی صورت میں تہمینہ دولتانہ اور انکے بیٹے کی سیٹ کی قربانی دینا ہوگی جبکہ اس حلقے سے عائشہ نذیر جٹ ایک مضبوط امیدوار تصور کی جاتی ہیں۔ عون چوہدری کا کہنا ہے کہ ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر آئندہ دو تین روز میں میٹنگ ہو گی۔ ذرائع کے مطابق دونوں پارٹیاں اپنے اپنے امیدواروں کے نام سامنے رکھیں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی فردوس عاشق اعوان، فرخ حبیب، غلام محمدلالی، غلام سرور خان، ذوالفقاردُلہ کیلئے بھی سیٹ چاہتی ہے لیکن ماسوائے کسی اور کو دینے کو تیار نہیں نظرآتی جبکہ غلام سرور خان کے نام پر ن لیگ غور کرسکتی ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے سیکرٹری جنرل سینیٹر عبدالغفور حیدری نےبھی رجیم چینج کا راز کھول دیا۔اور انکشاف کیا کہ جنرل باجوہ نے جب دیکھا کہ عمران خان سے حکومت نہیں چل رہی تو ہاتھ کھینچ لیااوراسکا مطلب تھا اپوزیشن کچھ کرلے اور ہم خان کو بند گلی میں لےگئے۔ انہوں نے مزید کہاکہ استحکام پاکستان پارٹی اور پرویز خٹک کو بنایاگیاہے تو انہیں سیٹیں بھی دی جائیں گی۔ مولانا غفور حیدری نے مزید کہا کہ بلاول نےمیاں صاحب پرلاڈلےکاالزام لگایاتو ثابت بھی کرناہوگا۔اگر2018کی تاریخ کسی کےلیےبھی دوہرائی گئی تومزاحمت کریں گے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا کہ الیکشن کمیشن مضبوط اعصاب کامظاہرہ کرے۔شیڈول نہ آنےپرشکوک پیداہوتے ہیں۔نیشنل حکومت کمزور ہوتی ہےچوں چوں کامربہ ٹھیک نہیں 2تین جماعتوں کی حکومت بہترکامکرسکتی ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کو چھیڑ نےکےخلاف ہیں کسی نے ایساکیاتو اسکاساتھ نہیں دیں گے صوبوں کومزید اختیارات ملنے چاہیے۔بلوچستان میں پیپلزپارٹی سےبھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پربات ہوئی۔ثناء اللہ زہری سے ملاقات بھی ہوئی۔ مولانا فضل الرحمان کے صدر پاکستان بننے سے متعلق سوال پر انکا کہنا تھا کہ جب دوسروں کووزیراعظم صدر بناتے ہیں توپھرمولانا فضل الرحمان کوصدر بنانےکاحق رکھتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں مسلم لیگ ن کے پسندیدہ ہونے اور نواز شریف کے لاڈلا کا تاثر انتخابات کو پہلے سے متنازعہ بنا رہا ہے،فوج، عدلیہ اور سیاست دان الیکشن سے قبل راستے کا تعین کریں ورنہ الیکشن کے بعد بھی استحکام نہیں آئے گا ،عمران خان کو سزا حقائق کی بنیاد پر ہوتی ہے تو اسے قبول کیا جائے گا اور اگر الٹے سیدھے مقدمات میں ہوئی تو نہ تاریخ اسے قبول کرے گی نہ ہی عوام مانیں گے۔ غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو میں انہوں نے کہا مسلم لیگ ن کے پسندیدہ ہونے اور نواز شریف کے لاڈلا کا تاثر انتخابات کو پہلے سے متنازعہ بنا رہا ہے، نواز شریف کو خاموشی ترک کرکے عوام کو اپنی سوچ کے متعلق بتانا چاہیے کہ وہ ملک و سیاست کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا فوج، عدلیہ اور سیاست دان الیکشن سے قبل راستے کا تعین کریں ورنہ الیکشن کے بعد بھی استحکام نہیں آئے گا اور انتخابات میں تاخیر ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں شاہ خاقان نے کہا عمران خان کو عدالتوں سے زبردستی نااہل کروایا گیا تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، عمران خان کو سزا حقائق کی بنیاد پر ہوتی ہے تو اسے قبول کیا جائے گا اور اگر الٹے سیدھے مقدمات بنائے گئے تو نہ تاریخ اسے قبول کرے گی نہ ہی عوام مانیں گے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ مریم نواز سے اختلاف ہے نہ ناراضی، جو سوچ میری جماعت نے اپنائی ہے اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ملک کی سمت کا تعین کرنا سب سے زیادہ نواز شریف کی ذمے داری ہے، سمت نہیں طے کی تو حکومت چلانا مشکل ہوگا۔ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے عوام کی تکلیفیں بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کیا، اگر پہلے سے تاثر ہو کہ کون فیورٹ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ الیکشن فیئر نہیں ہوں گے، الیکشن کے بعد پیدا ہونے والی ممکنہ خرابی کا حصہ نہیں بننا چاہتا، اس لیے انتخابات میں حصہ نہیں لوں گا۔ سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگاتی ہیں کہ وہ فیورٹ ہوگئی ہے، شاید سب کو فیورٹ بننے کا شوق ہوتا ہے، اس سے ملک کا نقصان ہوتا ہے، جو اتحاد ہو رہے ہیں اس سے مقامی طور پر الیکشن میں فائدہ ملنے کے امکانات کم ہیں، جہاں ایم کیو ایم ہے وہاں ن لیگ کے اتنے ووٹر نہیں کہ ایم کیو ایم کو فائدہ پہنچے۔ شاہد خاقان نے یہ بھی کہا کہ ووٹ کو عزت دینے کا مطلب ملک آئین کے مطابق چلے گا، کسی غیر آئینی معاملے کا حصہ بنیں گے تو خرابی پیدا ہوگی، نواز شریف عوام کو بتائیں ان کی کیا سوچ ہے؟ جہاں آج ملک کھڑا ہے جولائی 2017 کے فیصلے کا اس میں اثر ہے، جو نا انصافی ہوئی اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔
بیرسٹر گوہر خان چیئرمین پی ٹی آئی منتخب ہوئے تو پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی, جس پرچیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی کہتے ہیں کہ پارٹی الیکشن کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا وقت یکم دسمبر دوپہر 3 بجے تک تھا، صرف گوہر خان پینل کے کاغذات ملے، اکبر بابر شام 5 بجے آئے، کوئی مسئلہ تھا تو رابطہ کرتے، میں ضرور حل کرتا، قانون کے مطابق الیکشن ہوئے، بلے کا نشان ملے گا، پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے بنائے گئے چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے رولز کے تحت الیکشن کروا دیے، پارٹی بلے کے نشان پر ہی الیکشن لڑے گی۔ جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے نیاز اللہ نیازی کا کہنا تھا ہمیں 20 دن دیے گئے کہ دوسرا الیکشن کریں، ہم نے رولز کے تحت الیکشن کروا دیے، پوری امید ہے کہ پی ٹی آئی بلے کے نشان پر ہی عام انتخابات میں حصہ لے گی۔ ان کا کہنا تھا رولز کے مطابق ریٹرننگ افسر نے مجھے ون پینل لسٹیں دیں، پارٹی نے کسی کو منع نہیں کیا تھا کہ الیکشن میں حصہ نہیں لینا، ہمارے پاس ان نشستوں کے لیے کسی اورامیدوار نے کاغذات نہیں جمع کیے۔ ان کا کہنا تھا اکبر ایس بابر نے ایسے ہی ہائپ بنائی کہ ایسے انٹرا پارٹی انتخابات ہو رہے ہیں، ان کے بیان کو مسترد کرتا ہوں، میں الیکشن کمشنر تھا میرے پاس آتے تو یقین کریں میں ان کا فیصلہ کرتا۔ نیاز اللہ نیازی کا مزید کہنا تھا اگلے ہفتے میں عام انتخابات کے لیے شیڈول آرہا ہے، تحریک انصاف کو کسی نہ کسی طریقے سے ان مراحل سے آؤٹ کیا جا رہا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ مجھے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر تنقید کرنے والوں پر حیرت ہو رہی ہے، وہ سیاسی جماعتیں تنقید کر رہی ہیں جو انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کراتیں۔ یہ جماعتیں عام انتخابات میں بھی دھاندلی کرتی ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر تنقید کرنے والی سیاسی جماعتوں نے کیا خود کبھی جماعت میں انتخابات کرائے ہیں؟ پی ٹی آئی نے ہر دفعہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے ہیں، پیپلز پارٹی کو بھی خود اپنے الیکشن دیکھنے چاہیں۔ چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی نے مزید کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق20 دنوں کے اندر الیکشن کرائے ، آئین اور قانون کے مطابق ہی انٹر ا پارٹی انتخابات کرائے ہیں، کل ہم انتخابات کا نوٹیفیکیشن کر کے سوموار کو الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ تکنیکی طور پر سیاسی میدان سے باہر کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔ بانی رہنما پی ٹی آئی اکبر ایس بابرکی تنقید سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئےنیاز اللہ نیازی نے کہا کہ اکبر ایس بابر پارٹی سے ڈس کوالیفائی ہو چکے ہیں، انہیں پارٹی سے نکال دیا تھا، اس لیے انہیں تو انٹرا پارٹی انتخابات پر تنقید کرنی ہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ روز انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا جس میں پشاور سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر گوہر علی خان کو عمران خان کی جگہ پارٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا جبکہ عمر ایوب مرکزی جنرل سیکرٹری ہوں گے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن الیکشن کمیشن اور پارٹی کے آئین کے بھی خلاف ہیں۔
عدت میں نکاح کے کیس کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست کی کہانی جسے بار بار مقرر کیا گیا لیکن ڈیڑھ ماہ میں اسکی سماعت نہ ہوسکی۔ صحافی احتشام عباسی کے مطابق اپنی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ یہ بھی ہے کہ عمران خان نے دوران عدت نکاح کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے سیشن عدالت کے فیصلے کے خلاف 12 اکتوبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جو چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں سماعت کیلئے مقرر ہوئی لیکن اُس پر ڈیڑھ ماہ میں کوئی سماعت نہیں ہو سکی. عمران خان کی درخواست پہلی بار 17 اکتوبر کو سماعت کیلئے مقرر ہوئی لیکن کیس اُس دن کی کازلسٹ سے منسوخ کر دیا گیا پھر یکم نومبر کیلئے مقرر ہوا لیکن اُس دن کی کازلسٹ سے بھی نکال دیا گیا. تیسری بار 30 نومبر کو مقرر ہونے کی کازلسٹ جاری ہوئی لیکن ساتھ ہی اُس سے بھی نکال کر 18 دسمبر کیلئے مقرر کر دیا گیا ہے. اب بظاہر صورتحال یہ نظر آ رہی ہے کہ محمد حنیف کے وہ درخواست تو سول عدالت سے واپس لینے کی بنیاد پر عمران خان کی ہائیکورٹ میں زیرالتواء درخواست غیرموثر ہو گئی لیکن اگر وہ خاور مانیکا کی سول عدالت میں دائر درخواست قابلِ سماعت قرار دینے کا دو دن پہلے کا فیصلہ چیلنج کرتے ہیں تو اُس پر رجسٹرار آفس کا اعتراض آ جائے گا کہ آپکی ایسی ہی درخواست تو پہلے ہی زیرالتواء پڑی ہے نئی کیسے دائر کر سکتے ہیں؟
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی بقا کی ایک اور وجہ وہاں پر دیگر سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی یا ابتر صورت حال ہے ۔سلیم صافی اپنے کالم میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور پختونخوا: پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ فائدہ اس بات کا پہنچ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی، نون لیگ، پرویز خٹک ، اے این پی اور وزارت اعلیٰ اور لاڈلا بننے کی خواہش میں آپس میں لڑپڑے ہیں۔ مثلا اگر جے یو آئی اوراے این پی کے رہنماؤں کی تقریریں سنی جائیں تو ان کا نشانہ پی ٹی آئی نہیں بلکہ پرویز خٹک ہوتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کا نشانہ پی ٹی آئی سے زیادہ مسلم لیگ(ن) ہے۔ سلیم صافی کے مطابق مسلم لیگ(ن) کی طرف سے امیرمقام اپنے تئیں محنت کررہے ہیں لیکن میاں صاحب کو مری کی سیر سے فرصت نہیں۔ اب آپ اندازہ لگالیجئے کہ پی ٹی آئی کو اس سے بہتر سازگار ماحول اور کہاں مل سکتا ہے جو یہاں اسے ملا ہوا ہے۔ احمد وڑائچ نے کہا کہ سلیم صافی نے کالم میں لکھا "خیبر پختون خوا میں نہ پی ٹی آئی کے سامنے کوئی متبادل قوت تھی اور نہ آج کل ہے". ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، اے این پی ، جماعت اسلامی کو ہاتھ ملانے کا مشورہ دیا، محسن نقوی کی تعریف کی کہ بہادر ہے، نگران وزیراعلی خیبرپختونخوا کو سیکھنے کا مشورہ دیا۔ تقریباً رو دیے فرمان خان نے تبصرہ کیا کہ سلیم صافی کے پورے کالم کا نچوڑ یہ کے وہ پختون خواہ میں پی ٹی آئی کے مقبولیت سے شدید تکلیف میں مبتلا ہے