خبریں

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپورکیخلاف آڈیولیکس کیس کی سماعت ہوئی۔ وزیر اعلیٰ عدالت میں پیش ہوئے جس کے بعد سیشن کورٹ نے علی امین گنڈا پور کو حاضری لگا کر جانے کی اجازت دی۔ وزیراعلی کےپی علی امین گنڈا پورکا کہنا ہےکہ پی ڈی ایم ٹو کا تجربہ کامیاب نہیں ہوگا،اس سے شریف فیملی کی معیشت توٹھیک ہو جائےگی لیکن پاکستان کی نہیں,ڈسٹرکٹ کمپلیکس میں وزیراعلی علی امین گنڈا پور نے میڈیا سے گفتگو کی ہے،اس دوران صحافی نے سوال کیا،کہاجاتا ہےکہ محسن نقوی اور شہباز شریف کے درمیان اختلاف ہے؟جس کے جواب میں انہوں نےکہا یہ بات محسن نقوی اورشہباز شریف سے پوچھیں کہ ان کا اختلاف ہے یا نہیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم ٹو کے تجربے سے شریف فیملی کی معیشت ٹھیک ہوگی، ملک کی نہیں, عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈا پور نے کہا کہ پی ڈی ایم ٹو کا تجربہ کامیاب نہیں ہوگا، شریف فیملی کی معیشت تو ٹھیک ہوجائے گی لیکن پاکستان کی معیشت ٹھیک نہیں ہو گی۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں علی امین گنڈاپور کے خلاف آڈیو لیکس کیس کی سماعت 25 مئی تک ملتوی کردی گئی،ایڈیشنل سیشن جج عبدالغفورکاکڑ نےفرد جرم آئندہ تاریخ تک مؤخرکرتے ہوئے،وزیراعلی کےپی کوحاضری لگا کر جانے کی اجازت دے دی,وزیراعلیٰ خیبرپختونخواعلی امین گنڈاپور کےخلاف تھانہ گولڑہ میں مقدمہ درج ہے۔ وکیل کے مطابق آج فرد جرم عائد ہونا تھی تاہم عدالت نے فرد جرم آئندہ تاریخ 25 مئی تک مؤخر کردی,وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کیخلاف تھانہ گولڑہ میں مقدمہ درج ہے۔
پنجاب میں گندم کی خریداری سرکاری نرخ سے بھی کم پنجاب کے کسانوں کیلئے خطیر لاگت سے اگائی گئی گندم بیچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگیا,پنجاب میں گندم کی سرکاری خریداری کم ہونے کی وجہ سے اناج منڈیوں میں فی من قیمت تین ہزار روپے من تک گر گئی,پنجاب حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 3900 روپے من مقرر کی تھی جبکہ محکمہ خوراک کی جانب سے باردانہ کی تقسیم بھی سست روی کا شکار ہے۔ پی ڈی ایم اے کی جانب سے پنجاب میں طوفانی بارشوں کا الرٹ جاری کیاگیا جس کے باعث کسانوں کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا,راجن پور اور دیگر اضلاع میں سرکاری سطح میں گندم کی خریداری شروع نہ ہونے پر کسانوں کی گندم کھلے آسمان تلے پڑی ہے جس پر کسانوں کی مشکلات بڑھ گئیں ہیں۔ دوسری جانب پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان نے کہا ہے کہ گندم 3200 روپے بوری فروخت ہورہی ہے اور 3900 کی قیمت کسان کونہیں ملی۔ انہوں نے کہا کہ کاشتکار کے اربوں روپے مڈل مین کے پاس پڑے ہوئے ہیں، مل پابند ہے کہ کاشتکار کو ادائیگیاں کرے,ان کا کہنا تھاکہ جتنی گندم کی فصل آگئی ہے اتنی تو محکمہ خوراک کے پاس رکھنے کی گنجائش بھی نہیں، گندم بھاری مقدار میں امپورٹ کی گئی، پرانی گندم بھی گوداموں میں موجود ہے,کسان تنظیموں کا مؤقف ہے کہ اگر حکومت نے ان کے مسائل پر توجہ نہ دی تو وہ آئندہ سال گندم کی کاشت کم کردیں گے۔ زمیندار راؤ حامد علی خان کہتے ہیں کہ بوائی کے وقت گندم کے نرخ 5000 سے 5500 سو روپے فی من تک تھے۔ اس کی کاشت پر آنے والی لاگت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے جب کہ کسان کو اِس کی سرکاری قیمت 3900 سو روپے فی من بھی نہیں مل رہی,جب گندم کی فصل بوئی تھی تو اُس وقت ڈی اے پی کھاد کی فی بوری کی قیمت 13 ہزار روپے اور یوریا کھاد کی قیمت کم از کم پانچ ہزار روپے تھی۔ انہوں نے بتایا کہ گندم کی فصل کو چار پانی لگائے جاتے ہیں اور ایک پانی کا فی ایکٹر خرچہ چار سے پانچ ہزار روپے ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ زمین کی تیاری پر 15 سے 20 ہزار روپے فی ایکڑ اخراجات آتے ہیں,کاشت کار زاہد نذیر نے الزام لگایا کہ اُن کے ضلع میں محکمۂ خوراک اور محکمۂ پاسکو کی ملی بھگت سے کچھ لوگ پاسکو سے گندم کی خالی بوری پانچ روپے میں خریدتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ منڈی سے 3200 روپے فی من کے حساب سے گندم خرید کر اسی بوری کو پاسکو کو 3900 روپے میں فروخت کر دیتے ہیں۔ حامد علی نے بتایا کہ وہ دیگر اضلاع کے کسانوں سے بھی رابطے میں رہتے ہیں۔ لیکن کسی بھی جگہ سے سرکاری طور پر گندم کی خریداری کے بارے میں نہیں سنا۔ محکمۂ خوراک کے مطابق ملک بھر میں ہر سال تقریباً 10 فی صد تک گندم منڈیوں میں ترسیل کے باعث ضائع ہو جاتی ہے, پنجاب کے وزیرِ خوراک بلال یاسین کہتے ہیں کہ حکومت چند وجوہ کی بنیاد پر سرکاری سطح پر گندم کی خریداری تاحال شروع نہیں کر سکی ہے,ان کا کہنا تھا کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کے پاس پہلے سے گندم کے وافر مقدار میں ذخائر موجود ہیں۔
حفیظ اللہ نیازی کا بڑا بیان سامنے آگیا, اجمل جامی کے آفیشل یوٹیوب چینل پر انٹرویو میں کہا جنرل باجوہ پلانٹڈ تھا امریکا اور سی آئی اے کا آدمی تھا پاکستان کو تباہ کرکے گیا ہے پانچ اگست 2019 کو کشمیر بھارت کے حوالے کردیا. اس سے قبل معروف کالم نویس حفیظ اللہ نیازی نے کہا تھا کہ انتقام کی خواہش نہیں ، بے رحم طریقہ سے مملکت کو معاشی بحران میں دھکیلنے اور قومی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والے کردار جنرل باجوہ، جنرل فیض، جسٹس ثاقب، جسٹس کھوسہ قومی مجرم ہیں۔ انہوں نے قتل سے بڑا جُرم کیا ہے۔ ان کرداروں کو کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا‘‘ شکریہ نواز شریف، پوری قوم آپ سے متفق ہے۔ یادرہے کہ اس سے قبل سابق وزیرداخلہ رانا ثنا ء اللہ بھی دو سابق عسکری عہدیداروں کو قومی مجرم قرار دے چکے ہیں۔ دو روز قبل حفیظ اللہ نیازی الحمدُ للہ نے بتایا تھا کہ کپ میری حسان نیازی سےملاقات ہو گئی ہے۔ وہ بخیریت ہے۔ ماشاءاللہ بہت اچھی صحت اور ہشاش بشاش نظر آیا۔تفیم القران کی پہلی جلدختم کرنے کےقریب ہے۔ حراست کے بعد بیس سورتیں یادکرچکا ہے۔سیرت پر3کتابیں اور درجنوں دوسری کتابوں کا مطالعہ بھی کر چکا ہے۔اج تمامفیملی کو مل کربہت خوش تھا
عرفان قادر نے چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع سمیت جوڈیشل پیکج کے حوالے سے خبروں کی تصدیق کردی سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت میں توسیع سمیت جوڈیشل پیکج کے حوالے سے خبروں کی تصدیق کردی ہے۔ نجی خبررساں ادارے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل و معروف قانون دان عرفان قادر نے کہا کہ اگر مجھ سے یہ سوالات پوچھے جائیں کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع ہونی چاہیے، ہوسکتی ہے؟ اور کیا ایسا ہونے والا ہے ؟ تو ان تینوں سوالوں کا جواب "ہاں " میں ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس وقت ساری قوم اور ملک کی ضرورت ہے، میثاق ادارہ جات میں ہر ادارے بشمول عدلیہ کو بھی اپنی حدود میں رہنا پڑے گا،عدالت اب یہ کوشش کررہی ہے کہ اختیارات کی حدود میں خود کو سمیٹ لے کیونکہ اس سے قبل عدالت اپنی حدود سے بہت باہر نکل کر معاملات کو دیکھ رہی تھی۔ سینئر صحافی و کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر نے اس معاملے پرردعمل دیتے ہوئے کہا اسی لیے ان خبروں پر دوسری طرف سے خاموشی ہے، کیونکہ ہر معاملے پر تردید آجاتی ہے مگر اس معاملے میں خاموشی سوالات اٹھارہی ہے، تاہم ایک بات طے ہے کہ توسیع لینے سے پلے کچھ نہیں رہے گا، کیونکہ پھر گریٹ گیم کا سوال بھی اٹھ کھڑا ہوگا۔ سینئر قانون دان اظہر صدیق نے کہا کہ یہ بعد میں پتا چلتا ہے کہ خود غرضی انسان کو کتنا نقصان پہنچاتی ہے۔
وزارت داخلہ نے وفاقی پولیس کو اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کے اختیارات دے دیے، اختیارات کسٹم ایکٹ کے تحت دیے گئے جبکہ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا,اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے وزرات داخلہ نے بڑا فیصلہ کر لیا، وفاقی پولیس کو اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کے اختیارات دے دیے گئے۔وزرات داخلہ کی جانب سے اختیارات کسٹم ایکٹ کے تحت دیے گئے ہیں، اس سلسلے میں چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ رینجرز اور کوسٹ گارڈ اور ایف سی کے پاس پہلے ہی اختیارات ہیں، وزیراعظم شہباز ریف نے بھی اسمگلنگ کے خلاف ایکشن کی ہدایت کی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی پولیس اینٹی سمگلنگ مہم چلائے گی جبکہ ذرائع کے مطابق وفاقی پولیس کو اب نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پکڑنے کا بھی اختیار مل گیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک سے اسمگلنگ کے جڑ سے خاتمے کے پختہ عزم کا اظہار کرتے ہوئے اسمگلنگ کے خلاف ملک گیر مہم تیز کرنے کی ہدایت کر رکھی ہےچوزیر اعظم نے کہا کہ ملک و قوم کا پیسہ لوٹنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کو کسی بھی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے سرحدی علاقوں میں اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے نوجوانوں کو متبادل روزگار کے مواقع اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ شہباز شریف نے کہا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی اشیا کی پاکستان میں فروخت اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے مانیٹرنگ کو مؤثر بنایا جائے,جمعہ کو وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت ملک میں اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزیرِ اعظم کو اسمگلنگ، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال، منشیات، اشیائے خورونوش بشمول چینی، گندم، کھاد، پیٹرلیم مصنوعات، غیر قانونی اسلحے کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں افغان ٹرنزٹ ٹریڈ کے حوالے سے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ بھی پیش کی گئی، وزیر اعظم کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد قومی انسدادِ اسمگلنگ اسٹریٹجی حتمی مراحل میں ہے جس کو منظوری کے لیے جلد پیش کیا جائے گا۔ بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2 روز قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کسٹمز کی مشترکہ کاروائی میں مستونگ میں اسمگلنگ کے گودام پر چھاپا مارا گیا ہے جس میں ضبط شدہ اسمگل اشیا کی مالیت تقریباً 10 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ وزیرِ اعظم نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ناجائز استعمال اور اس کی آڑ میں اسمگلنگ کرنے والے عناصر اور ان کے سہولت کار افسروں کی نشاندہی پر اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں کمیٹی کی رپورٹ کی تعریف کی,وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ اسمگلروں، ذخیرہ اندوزوں اور ان کے سہولت کار سرکاری افسران کی فہرست تیار کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبوں کو فراہم کر دی گئی ہے۔ وزیرِ اعظم نے نشاندہی شدہ افسران کو عہدے سے فوراً ہٹانے اور محکمانہ کارروائی کی ہدایت کی اور کہا کہ تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلیجنس ادارے اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کریں۔ وزیرِ اعظم کی اسمگلروں اور منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کو قرار واقعی اور مثالی سزا دلوانے کی بھی ہدایت کی اور کہا کہ وزرات قانون و انصاف اس حوالے سے فوری طور پر ضروری قانون سازی کرے۔ وزیرِ اعظم نے اجلاس کے دوران کسٹم حکام کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو مانیٹر کرنے والے سسٹم کے تھرڈ پارٹی آڈٹ کی بھی ہدایت کی اور کہا کہ قومی سطح پر منشیات کے استعمال کی جانچ کے لیے سروے کے لیے فوری طور پر فنڈز جاری کیے جائیں۔
مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے اپنے سے منسوب خبر کی تردید کردی ہے، نجی چینل جیو نیوز نے ان سے متعلق دعویٰ کیا کہ مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں صحت کارڈ سے علاج پر 55 فیصد رقم ڈاکٹرز لے رہے ہیں,سرکاری اسپتالوں میں صحت کارڈ یا ڈاکٹرز کی پرسنٹیج ختم کریں گے، اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کے لئے ہیلتھ الاؤنسز ختم کررہے ہیں اس پر مزمل اسلم کا جواب سامنے آگیا اور اپنے سے منسوب اس خبر کو بے بنیاد قرار دیدیا دوسری جانب لیڈی ریڈنگ اسپتال میں صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے پر معطل کیے گئے 15 ڈاکٹرز کو بحال کردیا گیا,اسپتال اعلامیے کے مطابق 4 ایسوسی ایٹ پروفیسرز سمیت 15 ٹرینی ڈاکٹرز کو صحت کارڈ کے مریضوں کے ساتھ نامناسب سلوک پر انکوائری کے نتیجے میں معطل کیا گیا تھا، تاہم الزامات ثابت نہ ہونے پر معطل کیے جانے والے 15 ڈاکٹرز کو بحال کیا گیا۔ انکوائری کمیٹی میں غلط بیانی پر گائنی انچارج ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سائدہ ابرار کو معطل کرکے انکوائری مقرر کردی گئی ہے۔ اس حوالے سے بنائی گئی 3 رکنی کمیٹی میں ڈاکٹر فضل ربانی، ڈاکٹر شاہدہ تسنیم، ڈاکٹر نزہت راحیل شامل ہیں۔ کمیٹی آئندہ 3 روز میں اپنی رپورٹ حکومت کو جمع کرائے گی۔ اعلامیے میں کہا گیا صحت کارڈ پر علاج کے لیے داخل مریض کو بازار سے ادویات تجویز کرنے پر سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل پر انکوائری مقرر گئی ہے ۔ معطل کیے جانے والی ڈاکٹرز واقعے کے وقت ڈیوٹی پر موجود نہیں تھی، لیکن گائنی قائم مقام چیئرپرسن کے بیان کی روشنی پر ان ڈاکٹروں کو معطل کیا گیا تھا۔
پاکستان سے رشتہ مزید مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے، امریکہ امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے واضح کردیا کہ پاکستان ہمارا اہم شراکت دار ہے۔ پاکستان سے رشتہ مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے,امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے پریس بریفنگ میں کہا کہ پاکستان سے سیکیورٹی اور تجارتی شعبے میں خاص شراکت داری ہے۔ پاکستان خطے میں ہمارے اہم ترین شراکت داروں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارا سیکیورٹی اور تجارت کے شعبوں میں تعاون جاری ہے۔ پاکستان سے ہمارا مضبوط رشتہ ہے اور اسے مزید مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے۔ ویدانت پٹیل نے کہا کہ پاکستانی وزیر خزانہ دورے کے دوران محکمہ خارجہ کے ارکان سے مشاورت کے لیے مل چکے ہیں,انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں ایک آزاد پریس کا لازمی کردار ہے اور ہم باقاعدگی سے پریس کے سوالات کا سامنا کرتے ہیں۔ ایک طرف شراکت داری کی باتیں دوسری جانب امریکا نے پاکستان اور ایران کو اشراکِ عمل کے نئے معاہدوں میں پیش رفت کی صورت میں نئی پابندیوں سے خبردار کردیا,امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے پریس بریفنگ میں کہا تھا پاکستان اور امریکا نے باہمی معاہدوں میں پیش رفت کی تو انہیں نئی پابندیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایران سے تعلقات اپنی خارجہ پالیسی کے تحت دیکھنے چاہئیں,ایرانی صدر کے تین روزہ دورہ پاکستان کے موقع پر جاری کیا جانے والا یہ امریکی انتباہ غیر معمولی نسبتی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان اور ایران ایک گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں تاہم امریکی انتباہ کے باعث کام رکا ہوا ہے اور ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے موقع پر دونوں حکومتوں نے اس منصوبے کے حوالے سے خاموش رہنے کو ترجیح دی ہے۔ ویدانت پٹیل نے کہا کہ دنیا بھر میں جہاں بھی وسیع تر تباہی کے ہتھیاروں کے پروگرامز پر کام ہوگا، امریکا کی طرف سے اقدامات یقینی بنائے جائیں گے۔ جو بھی ایران سے لین دین کرے اُسے ہم ممکنہ نتائج سے خبردار کرتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کو جو کچھ بھی کرنا ہے اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف کا حصول یقینی بنانے کی خاطر کرنا ہے۔
سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ گندم کی قیمتوں میں کمی کی بڑی وجہ نجی شعبے کی وجہ سے گندم کی امپورٹ ہے۔ تفصیلات کے مطابق ماہر معاشیات اور سابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل نے ہم نیوز کے پروگرام"فیصلہ آپ کا" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال 120 سے 130 روپے میں فروخت ہونے والی گندم جب امپورٹ ہوئی تو 85 روپے میں پڑی، پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران ملک میں مہنگی گندم فروخت ہورہی تھی، نگراں حکومت نے آکر نجی شعبے کو گندم کی امپورٹ کی اجازت دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ گندم امپورٹ ہوئی تو قیمتوں میں کمی آگئی، مہنگا فروخت ہونے والا آٹا بھی گندم کی امپورٹ کے باعث سستا ہوگیا، گندم کے حوالے سے کوئی نیا اسکینڈل سامنے نہیں آیا، وفاق اور صوبے ہر سال گندم کی خریداری کرتے ہیں تاہم اس بار یہ خریداری نہیں ہورہی۔ مفتاح اسماعیل نے گزشتہ چار ماہ کو بہتر قرار دیتے ہوئے کہا کہ مہنگائی میں کمی ہوئی ہے، آئی ایم ایف پروگرام کے باعث کچھ مشکلات آئیں گی، اگر آئی ایم ایف کی مشکلات غریب پر ڈالی گئی تو یہ زیادتی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا اس حکومت میں اتنا ویژن ہے کہ یہ اشرافیہ پر دباؤ ڈال سکیں، کیا حکومت ٹریڈرز، پراپرٹیز اور ریئل اسٹیٹ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کرے گی؟یہ مشکل کام ہے مگر پاکستان کے حق میں بہتر ہے، اگر بجٹ خسارہ کم نہیں ہوگا تو کسی عمل کا کوئی فائدہ نہیں، آئندہ سال میں مزید ایک کروڑ پاکستانی سطح غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔
اسلام آباد پولیس نے طالبات کا بھی خیال نہ کیا ڈرائیور کی لاپرواہی پر میڈیکل کالج کی طالبات سے بھری وین کو اسلام آباد پولیس تھانے لے گئی,ڈرائیور کی جانب سے کاغذات نہ دکھانے پر پولیس نے طالبات سے بھری وین کو تھانے منتقل کر دیا جس سے طالبات اور والدین نے تشویش کا اظہار کیا۔ ڈرائیور اور کنڈکٹر نے کہا کہ بچیوں کو ان کے گھروں میں ڈراپ کرنا ہے، ان کے والدین گھروں میں انتظار کر رہے ہوں گے۔ بچیاں وقت پر نہ پہنچیں تو ان کے والدین پریشان ہوں گی۔اس پر پولیس اہلکار نے کہا کہ تم گاڑی تھانے لے کر چلو۔ بچیاں ہماری نہیں تمہاری ذمہ داری ہیں۔ پولیس اہلکار زبردستی گاڑی کو تھانہ رمنا لے گیا۔ اسلام آباد میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج بارہ کہو کی نو طالبات کو تھانے کے سامنے والی سڑک پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا جن بچیوں کے پاس فون تھے انہوں نے گھروں سے رابطہ کیا,دو تین بچیوں کی گاڑیاں آگئیں جنہوں نے باقی کو بھی اپنے اپنے گھروں تک چھوڑا۔ کچھ والدین نے سینیٹر عرفان صدیقی سے رابطہ کر کے اس واقعے کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ معاملہ حکام بالا کے علم میں لایا جائے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے وزیرداخلہ سے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ آج شام طالبات سے بھری وین کو پرانی ہائیکورٹ کے چوراہے پر روکا گیا وین ڈرائیور کے پاس کاغذات نہ ہونے پر طالبات کو بھی یرغمال بنا لیا گیا۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ کاغذات نہ دکھانے پر ایک اہلکار نے ڈرائیور کو گاڑی تھانے لےجانےکا حکم دیا اور پولیس وین کو تھانے لے آئی,ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے اس رویے پر معاملہ سینیٹ میں بھی اٹھایا جائےگا پولیس کایہ رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔
پیپلزپارٹی کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے نگراں دور حکومت میں گندم کی امپورٹ کرنے کے معاملے پر شازیہ مری نے تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے نگراں دور حکومت میں گندم کی امپورٹ کے حوالے سے اہم نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ جنوری کے مہینے میں کتنی گندم امپورٹ کی گئی اور اس پر کتنے پیسے خرچ ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں تو کہا جاتا ہے کہ ملک میں ہر قسم کی امپورٹ بند ہے، ایسے میں جب صوبوں کے پاس اضافی گندم موجود تھی تب نگراں حکومت نے کچھ منافع خور عناصر کے ذریعے گندم امپورٹ کی، یہ ایک بہت بڑا فراڈ ہے جس پر ہم صرف دامن جھاڑ کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ رہنما پیپلزپارٹی نے کہا کہ اس معاملےپر باقاعدہ انکوائری کی جائے، موجودہ حکومت کو اس پر تحقیقات کرنی ہوگی، متعلقہ وزیر کو اس معاملے پر سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے، یہ کہہ دینا کہ پاسکو گندم کی خریداری نہیں کرے گی، اس سے حکومت اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ شازیہ مری نے کہا کہ ہمیں ان سوالات کے جواب ملنے چاہیے، نگراں حکومت میں گندم امپورٹ کیوں ہوئی، حالانکہ نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے تحریری طور پر وفاقی حکومت کو خط ارسال کرکے اس امپورٹ کو روکنے کا کہا تھا۔
وزیراعظم کی رانا ثناء اللہ و خواجہ سعد رفیق کو حکومت میں آنے کی دوبارہ پیشکش، دونوں نے انکار کردیا وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما راناثناء اللہ اور خواجہ آصف کو ایک بار پھر حکومت میں شمولیت کی دعوت دیدی ہے، مگر یہ دونوں رہنما اس پیشکش کو منظور کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر خارجہ اسحا ق ڈار نے اپنی جماعت کے کلیدی رہنما رانا ثناء اللہ اور خواجہ آصف کو ایک بار پھر حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہے تاہم رانا ثناء اللہ نے اس پیشکش پر انکار کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ حکومت سے باہر رہ پر سیاسی بیانیہ بنانے کی اجازت دی جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے رانا ثناء اللہ کے اس جواب پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آپ حکومت میں رہ کر سیاسی بیانیہ بنائیں ، کیونکہ حکومت سے باہر رہ کر بات کرنے سے حکومت کی مخالفت کاتاثر جاتا ہے۔ دوسری جانب جب خواجہ سعد رفیق کو یہ پیشکش کی گئی تو ان کا جواب بھی رانا ثناء اللہ کے موقف کےقریب ترین تھا۔ دونوں رہنماؤں نے وزیراعظم کو جواب دیا کہ حکومت کے باہر رہ کر مستقبل پر نظر رکھ کر وہ بیانیہ بنائیں گے جس کو عوام پسند کرے گی۔ وزیراعظم اور ن لیگی رہنماؤں کے درمیان یہ معاملہ نا ہونے کی وجہ سے فیصلہ نواز شریف پر چھوڑ دیا گیا ،رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف کہیں گے تو وہ حکومت میں شامل ہوجائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف ان دنوں چین میں موجود ہیں، دورہ چین سے واپسی کے بعد وہ اس معاملے پر فیصلہ کریں گے۔ خیال رہے کہ مسلم لیگ ن کے یہ دونوں رہنما 2024 کے عام انتخابات میں اپنے اپنے حلقےسے شکست کھابیٹھے تھے جس کے بعد ان دونوں نے حکومت میں عہدہ لینے سے انکار کردیا تھا۔
سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کو جیم خانہ کی عمارت کا تحفظ یقینی بنانے کا حکم دیے دیا,انہوں کہا کہ ہندو جیم خانہ کیس کے فریقین ایک ماہ میں اپنی تجاویز دے سکتے ہیں، جس کی روشنی میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما رمیش کمار سے کہا کہ آپ قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم نہیں کرنے دیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بینچ کے روبرو ہندو جیم خانہ کی ملکیت سے متعلق سماعت ہوئی۔ درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف دیا کہ کمشنر کراچی کو ناپا کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کو کیس چلانا ہے تو اپنا کیس چلائیں ناپا کو چھوڑیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ ہندو جیم خانہ ہندو برادری کی ملکیت ہے، سرکاری وکیل نے مؤقف دیا کہ حکومت سندھ نے ناپا کو مختلف متبادل آپشنز دیئے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کمیونٹی کا تعین کیسے کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ کمشنر صاحب سے زمین کے رقبے کے حوالے سے تفصیل طلب کی جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی سرکاری افسر کے ساتھ صاحب کا لفظ نہیں لگا سکتے، آپ کوئی ایک کتاب بتا دیں جہاں کمشنر صاحب لکھا ہو، کمشنر کمشنر ہے بس، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ ایم پی اے صاحب نہیں ہوسکتے، رمیش صاحب ہوسکتے ہیں۔ زمین حکومت سندھ کے حوالے سے کردیں، رمیش کمار نے کہا آپ زمین حکومت سندھ کے حوالے کردیں، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ شہر میں کوئی ایسی عمارت بتا دیں جو حکومت سندھ نے محفوظ رکھی ہو، رمیشن کمار نے جواب دیا کہ گورنر ہاؤس اور سی ایم ہاؤس ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہاں عوام نہیں جاتے، اس لیے صاف ہیں، جو عوامی مقامات ہیں وہ بتائیں کسی کو صاف رکھا ہو، آپ گورنر ہاؤس کے باہر احاطہ دیکھ لیں جاکر کیا حال ہے، دنیا کا کوئی ایک ملک بتا دیں جہاں گورنر ہاؤس اور وزیر اعلی ہاؤس کے باہر کنٹینر لگے ہوں، رمیش کمار نے کہا کہ پاکستان ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ وہ وقت بھی آئے گا، جب حکمرانوں کو اپنے بجائے لوگوں کی فکر ہوگی، ہمیں آپ سے زیادہ ہندو برادرہ کی فکر ہے، آپ قبضہ کرنا چاہتے ہیں ہم نہیں کرنے دیں گے۔ چیف جسٹس نے رمیش کمار کے ساتھ مکالمے کے دوران کہا کہ آج کل آپ کی پارٹی کون سی ہے، بدلتی رہتی ہے یا وہی ہے، رمیش کمار نے کہا کہ میں پیپلز پارٹی میں ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پارٹی بدلتے رہتے ہیں، جہاں بھی ہوں ایک پارٹی میں رہیں، آپ کو تو یہ جگہ نہیں دیں گے آپ اس کو کل کچھ اور بنادیں گے,چیف جسٹس نے خوش گوار موڈ میں مکالمے میں کہا کہ آج کل بڑا مسلہ ہوتا ہے، ہمارے ہر کمنٹس چھاپ دیتے ہیں، آج کل ہر چیز خبر بن جاتی ہے، ہمارے لائٹ کمنٹس بھی چھاپ دیتے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے تیاری کے لیے ایک ماہ کی مانگ لی تو چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ آپ کبھی ایرانی ہوٹل گئے ہیں، اس میں کوئی معیوب بات نہیں، میں بھی جاتا تھا وہاں، ایرانی ہوٹل میں لکھا ہوتا تھا ادھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں، آپ بھی التوا مانگ کر ہمیں شرمندہ نہ کریں۔ جیم خانہ کی عمارت سیٹھ رام گوپال داس نے 1925 میں تعمیر کی، وکیل درخواست گزار چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ کیس چلائیں بتائیں یہ جگہ کس کی ہے، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ بلڈنگ سیٹھ رام گوپال داس نے 1925 میں تعمیر کی تھی، تقسیم کے بعد 1958 میں عمارت کو حکومت نے اپنی تحویل میں لیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تو مذہبی جگہ ہے عبادت گاہ ہے یا کیا ہے، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ گل رل عمارت ہے، سرسید یونیورسٹی بھی ہے اور ناپا بھی ہے,رمیش کمار نے کہا کہ یہ ملکیت ہندوؤں کی ہے، ہمیں یہاں اپنی رسومات ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، یہاں مندر بھی موجود ہے، اوم کے نشانات موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سپریم کورٹ جائیں، وہاں بسم اللہ لکھا ہوا ہے تو وہ مسجد تو نہیں ہوجائے گی، آپ تو پارلیمنٹیرین ہیں ایوان میں اوپر کیا لکھا ہے، رمیش کمار نے کہا کہ وہاں کلمہ لکھا ہوا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تو کیا وہ مسجد کہلائے گی، ایسے دلائل مت دیں جس کی کوئی بنیاد ہی نہ ہو۔ رمیش کمار نے کہا کہ یہاں 15 لاکھ ہندو رہتے ہیں، یہ ہندوؤں کی تقریبات اور رسومات ادا کرنے کی جگہ ہونی چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بھی اپنی تقریبات کریں، یہ تو اچھا ہے جگہ محفوظ ہے، آپ 2002 سے پارلیمنٹیرین ہیں، یہ جگہ پولیس کے پاس گئی، آپ کو اعتراض نہیں تھا، فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے پاس گئی تو، آپ کو اعتراض نہیں تھا، نجی ملکیت میں گئی تو آپ کو اعتراض نہیں تھا۔ پی پی پی رہنما نے کہا کہ ہمارا دعویٰ 39 ہزار مربع گز زمین کا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ فریق بن کر ہمارے سامنے ہیں ہی نہیں،جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ ویسے کچھ بھی ہوں گے، مگر اس کیس میں آپ نہیں ہیں، آپ کا ذکر ہی نہیں کہیں,رمیش کمال نے کہا کہ ہمیں کسٹوڈین بنایا جائے تاکہ ہندو برادری اپنی سوشل سرگرمیاں کرسکے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ ہندو برادری کو الگ کیوں کرنا چاہتے ہیں، آپ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہیریٹیج بلڈنگ کے تحفظ کے لیے لوگوں کے نام بتائیں جو کام کرسکیں، آپ لوگ ماہرین کے نام دیں تاکہ چند لوگوں کو ذمہ داری دی جائے، جس پر وکلا نے ماروی مظہر، عارف حسن، جاوید جبار، یاسمین لاری اور دیگر نام تجویز کردیے، رمیش کمار نے کہا کہ مجھے اور دیگر لوگوں کے ساتھ انسپیکشن کی اجازت دی جائے,چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اس سے الگ رکھیں گے، آپ کے پاس پارلیمنٹ میں بہت کام ہے، حکومت سندھ نے ایک کام صرف اچھا کیا ہے، جیم خانہ کا تحفظ یقینی بنایا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے لیے محکمہ ثقافت کی کمیٹی موجود ہے,سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کو عمارت کا تحفظ یقینی ننانے کا حکم دیا اور ریمارکس دیے کہ فریقین چاہیں تو ایک ماہ میں اپنی تجاویز دے سکتے ہیں، فریقین کی تجاویز کی روشنی میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
ملک بھر میں ایک بار پھر جان بچانے والی ادویات نایاب ہوگئیں, انسولین سمیت 27 اہم ادویات میڈیکل اسٹورز پر دستیاب نہیں ڈرگ انسپکٹر سندھ کا کہنا ہے کراچی میں انسولین سمیت 27 اہم ادویات میڈیکل اسٹورز پر دستیاب نہیں ہیں اور سیکرٹری صوبائی ڈرگ کوالٹی کنٹرول بورڈ سندھ سید عدنان رضوی نے خط لکھ کر پورے صوبے کے ڈرگ انسپکٹرزکو عدم دستیاب ادویات کا سروے کرنے کا حکم دیا ہے۔ حکام کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور گرد و نواح میں بھی 30 اہم ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں,حکام کا کہنا ہے کہ عدم دستیاب ادویات میں اینٹی بائیوٹکس، نفسیاتی و دماغی امراض اور دمے کی ادویات شامل ہیں جبکہ ٹیٹنس کے انجیکشن اور مختلف اقسام کے انہیلرز کی بھی شدید قلت ہے۔ دوسری جانب ڈریپ حکام نے دعویٰ کیا ملک میں ادویات کی کوئی بڑی قلت نہیں، سپلائی چین کے مسائل ہو سکتے ہیں ڈریپ حکام کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ہفتہ وار بنیاد پر ادویات کی موجودگی کا سروے کراتے ہیں، انسولین وافر مقدار میں موجود ہے اور مریضوں کو دستیاب بھی ہے، انسولین کی قلت کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں,ڈریپ حکام کےمطابق ملک بھر میں ہفتہ وار بنیاد پر ادویات کی موجودگی کا سروے کرواتے ہیں۔
شہباز شریف حکومت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا, مختلف وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز میں اہم تعیناتیوں اور آسامیوں کی تخلیق میں وزیراعظم کا اختیار ختم کردیا گیا,وزیراعظم کا اختیار وزیروں، مشیروں، وزراء مملکت اور سیکریٹریز کے سپرد کردیا گیا- بطور وزیراعظم عمران خان نے یہ اختیار اپنے پاس رکھا تھا- وزیراعظم شہباز شریف کی اجازت سے وفاقی کابینہ سے سرکولیشن سمری پر سفارشات کی منظوری لی گئی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق مختلف وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز میں ماہرین اور پروفیشنلز تعینات کرنے کا پلان ہے اور اس حوالے سے وفاقی حکومت نے اہم فیصلہ کیا ہے- ذرائع کے مطابق وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز میں ماہرین اور پروفیشنلز کی آسامیاں تخلیق کرنے کے لیے وزیراعظم کا اختیار ختم ہوگیا ہے- اب ماہرین اور پروفیشنلز کی آسامی وزارت خزانہ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی مشاورت سے تخلیق کرے گی- ذرائع کے مطابق وزارتوں اور ڈویژنز میں کنسلٹنٹس کی تعیناتیاں متعلقہ وفاقی وزیر، وزیر مملکت یا مشیر جبکہ ریسرچ ایسوسی ایٹس اورینگ پروفیشنلز کی تعیناتی متعلقہ سیکریٹری کی منظوری سے ہوگی تاہم ٹیکنیکل ایڈوائزرز کی تعیناتی کے لیے وزیر اعظم کی منظوری ضروری قرار دی گئی تعیناتیوں کاعمل مسابقتی عمل اور اسپیشل سلیکشن بورڈ کے ذریعے مکمل کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف وزارتوں اور ڈویژنز میں ماہرین اور پروفیشنلز تعینات کرنے کا منصوبہ ہے اور اب ان آسامیوں کی تخلیق وزارت خزانہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی مشاورت سے کی جائے گی جب کہ کنسلٹنٹس کی تعیناتیاں متعلقہ وزیر، وزیر مملکت یا مشیرکی منظوری سے ہوں گی۔ ذرائع کے مطابق ریسرچ ایسوسی ایٹس، ینگ پروفیشنلز کی تعیناتی متعلقہ سیکرٹری کی منظوری سے ہو گی تاہم ٹیکنیکل ایڈوائزرز کی تعیناتی کے لیے وزیراعظم کی منظوری ضروری ہو گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تعیناتیوں کا عمل مسابقتی عمل اور اسپیشل سلیکشن بورڈ کے ذریعے مکمل کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے خاتون کے حق ہے نیا اقدام اٹھالیا, نکاح نامے میں شرائط و ضوابط طے کرنے سے قبل دلہن کو رضامندی ظاہر کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے اگر نکاح نامے کی شرائط و ضوابط یا کسی کالم میں ابہام یا شک ہوا تو اس کا فائدہ بیوی کو دیا جائے گا۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے دس صفحات پر مشتمل ایک کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جسے جسٹس اطہر من اللہ نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ معاہدے میں کوئی ابہام ہو تو اسے فریقین کے اصل ارادے سے جانچا جاتا ہے، عدالتوں کو نکاح نامے کی شرائط و ضوابط کی تشریح کرنے سے قبل اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ کیا نکاح نامے میں شرائط و ضوابط طے کرنے سے قبل دلہن کو رضامندی ظاہر کرنے کی مکمل آزادی تھی؟ فیصلے میں کہا گیا کہ اگر نکاح نامے کی شرائط و ضوابط یا کسی انٹری یا کالم میں ابہام یا شک ہو تو اس کا فائدہ بیوی کو ملے گا، اگر دلہن کی بامعنی مشاورت کے بغیر نکاح نامے کے کالمز کوئی اور پُر کرے تو اسے دلہن کے مفاد کے خلاف یا اُس کے حقوق کے خلاف استعمال نہیں کیا, فیصلے میں قرار دیا ہے کہ کسی ابہام کو اُس وقت تک اہلیہ کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا جب تک امکانات کے توازن کے اس اصول پر جانچا نہ جائے۔ 2022 میں لاہور ہائیکورٹ نے ہما سعید نامی خاتون کے حق میں فیصلہ دیا تھا، جس نے مئی 2014 میں محمد یوسف سے شادی کی تھی۔ محمد یوسف نے اکتوبر 2014 میں اپنی اہلیہ ہما سعید کو طلاق دے دی تھی، بعدازاں انہوں نے سپریم کورٹ میں فیصلے کو اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ نکاح نامہ کے کالم نمبر 17 میں مذکورہ پلاٹ کو مہر یا تحفہ کے طور پر نہیں دیا جاسکتا ہے۔ درخواست گزار نے استدعا کی کہ کالم نمبر 17 کا عنوان ’خصوصی شرائط‘ دوسرے کالموں سے الگ ہے، جو خاص طور پر جہیز کی شرائط کو طے کرنے کے مقاصد کے لیے فراہم کیے گئے ہیں,سپریم کورٹ میں اپنے تحریری بیان میں محمد یوسف نے استدعا کی کہپلاٹ ایک گھر کی تعمیر کے لیے تھا اور ان کی اہلیہ کو ان کی شادی کی مدت تک وہاں رہنا تھا۔
بہاولپور پولیس نے سی آئی اے پولیس کے مبینہ تشدد کا شکار ہونے والی بہاولپور کے محکمہ صحت کی ملازم مہتاب کنول کی پریس کانفرنس پر نوٹس لے لیا بہاولپور پولیس کے ترجمان نے کہا کہ مہتاب کنول نے ڈی پی او بہاولپور آفس میں درخواست جمع کرائی جس پر ڈی پی او سرفراز خان نے شفاف انکوائری کے احکامات دیدئیے ہیں پولیس کے مطابق متعلقہ پولیس اہلکاروں کو بھی شامل تفتیش کیا ہے،پولیس ترجمان کے مطابق مہتاب کنول نے انکوائری پر اطمینان کا اظہار کیا ہے ،قانون سب کیلئے برابر ہے اور کوئی قانون سے بالاتر نہیں پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ عبداللہ نامی ایک شخص پر اغوا،بھتہ خوری،تشدد کے الزامات ثابت ہونے پر اسے گرفتارکرلیا گیا ہے جبکہ سب انسپکٹر محمدورک کو معطل کرکے اسکے خلاف محکمانہ انکوائری کی جارہی ہے اور ڈی ایس پی جمشید کے خلاف آئی جی پنجاب کو تحریری طور پر خط لکھ دیا گیا ہے۔ یادرہے کہ کچھ روز قبل سی آئی اے پولیس کے مبینہ تشدد کا شکار ہونے والی بہاولپور کے محکمہ صحت کی ملازم مہتاب کنول نامی خاتون کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی۔ مہتاب کنول نامی متاثرہ خاتون نے بہاولپور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سی آئی اے پولیس کے بندوں اور عبداللہ نامی ایک شخص نے مجھ پر تشدد کیا۔ خاتون کا کہنا تھا کہ مجھے الٹا لٹا کر مجھے جوتوں سے مارا گیا اور الیکٹریشن مشین سینے اور دماغ پر لگا کر مجھ پر تشدد کرتے رہے۔ خاتون نے بتایا کہ مجھ پر اتنا تشدد کیا گیا کہ میں اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھی تھی، ریسکیو والا کو بتایا گیا تو انہوں نے کہا انہیں ہسپتال میں داخل کروائیں لیکن ایسا نہیں کروایا گیا اور جو کچھ میں نہیں بھی جانتی وہ بھی مجھ سے پوچھ کر مارتے تھے۔ مجھے نہیں پتہ کہ سب کیوں کیا جا رہا تھا یا یہ وہ کس کی فرمائش پر کر رہے تھے؟ مہتاب کنول کا کہنا تھا کہ وہ محکمہ صحت میں بطور کمپیوٹر آپریٹر کام کر رہی تھی جبکہ اس کے شوہر کی کاٹن کی فیکٹری ہے، مجھے منشیات کے مقدمہ کے بعد اپنے ہی گھر سے نکال دیا گیا۔ میرے شوہر پر بھی 9b کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کر کے ان سے پیسے وصول کیے، ان کا مقدمہ اب تک چل رہا ہے۔ مہتاب کنول کا کہنا تھا کہ مجھ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا جس سے بری ہو چکی ہوں ، مجھ سے پوچھا جاتا تھا کہ ہمیں ڈیلرز کا بتائو حالانکہ ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا۔ پولیس کے تشدد سے میرا حمل بھی ضائع ہو گیا، میری سرکاری ملازمت بھی چلی گئی ہے،مجھے انصاف فراہم کیا جائے ورنہ میں خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائوں گی۔
پنجاب پولیس کے جوانوں کی زندگیوں پر مبنی خصوصی فلم یوٹیوب پر بھی ریلیز کردی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب پولیس اور ندیم چیمہ فلمز کی مشترکہ کاوشوں سے تیار کردہ پاکستانی فلم "حلف" عید الفطر پر ملک بھر میں ریلیز کی گئی ہے۔ فلم کو ملنے والی بھرپور پزیرائی کے بعد پنجاب پولیس نے اس فلم کو یوٹیوب پر بھی ریلیز کردیا ہے، فلم یوٹیوب پر نشر کرتے ہوئے پنجاب پولیس نے اس کا لنک سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے شیئر بھی کیا ہے۔ خیال رہےکہ پنجاب پولیس کے تعاون سے تیار کردہ شارٹ فلم "حلف" کا پریمیئر لاہور کے الحمرا ہال میں 9 مارچ کو پنجاب پولیس کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا، یہ فلم ایک پولیس افسر کی نجی و پیشہ ورانہ زندگی کا احاطہ کرتی ہے، پریمیئر میں مرکزی کردار فلمسٹار معمر رانا ، سینئر فنکار راشد محمود اور لالی ووڈ کے متعدد اداکاروں نے شرکت کی۔
پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان سامنے آگیا,نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا نے ایران سے تجارتی معاہدے کرنے والے ممالک کو خبردار کردیا,امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا نے ایران سے تجارتی معاہدے کرنے والے ممالک کو پابندیوں سے متعلق خبردار کردیا ہے۔ نمائندہ اے آر وائی نیوز جہانزیب علی نے ایرانی صدر کے دورہ پاکستان سے متعلق سوال کیا کہ پاکستان اور ایران نے کئی معاہدوں پردستخط کیے ہیں، اس پر امریکا کا کیا مؤقف ہے؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایران سے تجارتی معاہدوں پرغور کرنے والوں کو ممکنہ پابندیوں سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس سوال پر کہ پاکستان کہتا ہے کہ اسے ایران گیس پائپ لائن پر امریکی پابندیوں کی چھوٹ کی ضرورت نہیں، کے جواب میں ویدانت پٹیل نے کہا کہ حکومت پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے حصول پر خود بات کرسکتی ہے۔ پاکستان کو میزائل آلات فراہم کرنے والی کمپنیوں پر امریکی پابندیوں سے متعلق سوال کے جواب میں نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے پابندیاں اس لیے لگائیں کہ یہ ادارے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور اس کی ترسیل کے ذرائع تھے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ چین اور بیلاروس میں مقیم ادارے تھے، ہم نے پاکستانی بیلسٹک میزائل پروگرام کیلئے آلات، قابل اطلاق اشیاء فراہمی کا مشاہدہ کیا ہے,ان کا مزید کہنا تھا کہ بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے نیٹ ورکس کیخلاف کارروائی جاری رکھیں گے، تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی خریداری جہاں بھی ہو ان کیخلاف کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ پاکستان کی ایران سےدرآمدات پرانحصار میں اضافہ نئی حکومت کے پہلے ماہ ایران سے سالانہ بنیادوں پردرآمدات میں25 فیصدکابڑااضافہ ہوا۔رواں مالی سال کے پہلے9 ماہ میں ایران سے درآمدات 16 فیصد بڑھ گئیں۔ مارچ 2024 میں ایران سے درآمدات کاحجم 9 کروڑ 56 لاکھ ڈالرز رہا۔ مارچ 2023 میں ایران سے درآمدات 7کروڑ 64 لاکھ ڈالرز تھیں۔ فروری 2024میں ایران سے درآمدات کا حجم 8 کروڑ 61 لاکھ ڈالرز تھا۔ جولائی تا مارچ ایران سے درآمدات 77 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز ریکارڈ کی گئیں۔
نئے مالی سال 2024 25 میں وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی پینشن سمیت مختلف مد میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کی تیاری شروع کر دی۔ کابینہ ڈویژن کے ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ وزیراعظم کی قائم کردہ ایک 7 رکنی کمیٹی نے اپنی سفارشات پیش کر دیں جن میں بے نظیر انکم پروگرام کے اخراجات صوبوں کے ساتھ بانٹنے اور صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں میں وفاق کا حصہ کم کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ کمیٹی نے یہ تجویز بھی دی کہ مستقبل میں ایچ ای سی کے تحت کوئی سرکاری یونیورسٹی نہ کھولی جائے جبکہ دیگر جامعات کے اخراجات میں بھی صوبے اپنا حصہ ڈالیں,پینشن کے حوالے سے کہا گیا کہ فوج، سول آرمڈ فورسز اور پولیس کے علاوہ دیگر تمام شعبوں میں جولائی 2024 نئی بھرتیاں کنٹریبیوٹری پینشن سسٹم کے تحت کی جائیں۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ پینشن کا نظام ختم کرے جس سے قومی خزانے پر کافی بوجھ پڑتا ہے,کمیٹی نے تجویز دی کہ بے نظیر انکم پروگرام سمیت سماجی تحفظ کے پروگراموں کا مالی بوجھ صوبوں کے ساتھ بانٹا جائے اور اس سلسلے میں مرحلہ وار اقدامات کیے جائیں پہلے مرحلے میں صوبوں کو 25 فیصد حصہ دینے پر امادہ کیا جائے,کمیٹی نے صوبوں کے ترقیاتی پروگراموں میں بھی وفاق کا حصہ کم کرنے کی سفارش کی, تاہم یہ کہا ہے کہ پسماندہ علاقوں جیسے بلوچستان کے کچھ اضلاع اور خیبر پختون خواہ کے ضم شدہ اضلاع کو اس سے مستثنی رکھا جائے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کے لیے قرض کی تیسری قسط 1.1 ارب ڈالر کے اجرا کی تاحال تاریخ نہیں دی,آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض کی تیسری قسط 1.1 ارب ڈالر کے اجرا کی تاحال تاریخ نہیں دی,ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ شیڈول میں ایک بار پھر پاکستان شامل نہیں تاہم اسے ایگزیکٹو بورڈ 29 اپریل سے 3 مئی تک شیڈول میں شامل کر سکتا ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کے لیے 1.1 ارب ڈالر کے اجرا میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے جب کہ نئے قرض پروگرام کیلیے آئی ایم ایف وفد آئندہ ماہ کے وسط میں پاکستان آئے گا, وزیر خزانہ اورنگزیب خان گزشتہ دنوں واشنگٹن کے دورے پر گئے تھے جہاں انہوں نے آئی ایم ایف حکام سے قرض کی قسط سمیت نئے قرض پروگرام کے لیے مذاکرات کیے,وزیر خزانہ گزشتہ شب ہی پاکستان واپس پہنچے تھے اور آج انہوں نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں قوم کو خوشخبری سنائی تھی کہ آئی ایم ایف 1.1 ارب ڈالر قرض کی قسط رواں ماہ کے آخر تک جاری کر دے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اعلیٰ عدلیہ میں ’’مداخلت ‘‘ پر بطور ادارہ بھرپور رد عمل دینے کا فیصلہ کرلیا,چیف جسٹس عامر فاروق کی زیر صدارت اسلام آباد ہائیکورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ،جسٹس طارق محمود جہانگیری ،جسٹس بابر ستار ، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز سمیت تمام ججز نے شرکت کی۔ اجلاس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت روکنے کیلئے مختلف اقدامات کرنے سے متعلق تجاویز پر غور کیا گیا۔اجلاس میں تمام ججز نے اپنی تجاویز پیش کیں جن کو ڈرافٹ کی شکل دے کر مقررہ وقت سے پہلے سپریم کورٹ میں جمع کرایا جائے گا۔ذرائع کے مطابق فل کورٹ اجلاس میں کسی بھی جج کی تجویز پر کوئی اختلاف سامنے نہیں آیا۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ فل کورٹ اجلاس میں ججز کی جانب سے عدلیہ میں مداخلت روکنے کے لئے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ تمام ججز اس بات پر متفق ہوئے کہ عدالتی امور میں کسی بھی مداخلت پر ادارہ جاتی ریسپانس دیا جائے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے والے 6 ججز بھی اجلاس میں شریک تھے، جن میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل تھے۔اسی طرح خط پر دستخط نا کرنے والے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بھی اجلاس میں شریک تھے، فل کورٹ اجلاس تقریبا ڈھائی گھنٹے جاری رہا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ فل کورٹ اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیاکہ ہائیکورٹ ججز کے خط کے حوالہ سے سپریم کورٹ از خود کیس کے دوران ہائیکورٹ کا متفقہ مؤقف پیش کیا جائے گا,3 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر فل کورٹ تشکیل دے دیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا,25 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔ ججز کے خط پر سپریم کورٹ نے دو فل کورٹ اجلاس منعقد کیے جن میں اس معاملے پر غور کیا گیا، بعد میں چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔اس ملاقات کے بعد 30 مارچ کو ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ اجلاس نے 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 معزز جج صاحبان کی جانب سے لکھے گئے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا۔ اجلاس کو بتایاگیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ اعلامیے کے مطابق عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی وزیر اعظم سے ملاقات میں انکوائری کمیشن کی تشکیل تجویز ہوئی تھی۔ تاہم بعد میں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔