اسلام آباد ہائیکورٹ نے اعلیٰ عدلیہ میں ’’مداخلت ‘‘ پر بطور ادارہ بھرپور رد عمل دینے کا فیصلہ کرلیا,چیف جسٹس عامر فاروق کی زیر صدارت اسلام آباد ہائیکورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ،جسٹس طارق محمود جہانگیری ،جسٹس بابر ستار ، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز سمیت تمام ججز نے شرکت کی۔
اجلاس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت روکنے کیلئے مختلف اقدامات کرنے سے متعلق تجاویز پر غور کیا گیا۔اجلاس میں تمام ججز نے اپنی تجاویز پیش کیں جن کو ڈرافٹ کی شکل دے کر مقررہ وقت سے پہلے سپریم کورٹ میں جمع کرایا جائے گا۔ذرائع کے مطابق فل کورٹ اجلاس میں کسی بھی جج کی تجویز پر کوئی اختلاف سامنے نہیں آیا۔
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ فل کورٹ اجلاس میں ججز کی جانب سے عدلیہ میں مداخلت روکنے کے لئے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ تمام ججز اس بات پر متفق ہوئے کہ عدالتی امور میں کسی بھی مداخلت پر ادارہ جاتی ریسپانس دیا جائے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے والے 6 ججز بھی اجلاس میں شریک تھے، جن میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل تھے۔اسی طرح خط پر دستخط نا کرنے والے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بھی اجلاس میں شریک تھے، فل کورٹ اجلاس تقریبا ڈھائی گھنٹے جاری رہا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ فل کورٹ اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیاکہ ہائیکورٹ ججز کے خط کے حوالہ سے سپریم کورٹ از خود کیس کے دوران ہائیکورٹ کا متفقہ مؤقف پیش کیا جائے گا,3 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر فل کورٹ تشکیل دے دیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا,25 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔
خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔
ججز کے خط پر سپریم کورٹ نے دو فل کورٹ اجلاس منعقد کیے جن میں اس معاملے پر غور کیا گیا، بعد میں چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔اس ملاقات کے بعد 30 مارچ کو ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ اجلاس نے 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 معزز جج صاحبان کی جانب سے لکھے گئے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا۔
اجلاس کو بتایاگیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ اعلامیے کے مطابق عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی وزیر اعظم سے ملاقات میں انکوائری کمیشن کی تشکیل تجویز ہوئی تھی۔
تاہم بعد میں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔