سیاسی

سابق وزیراعظم وقائد مسلم لیگ ن میاں نوازشریف 3 دن پہلے 5 روزہ دورے پر چین کے لیے روانہ ہوئے تھے اور پارٹی ذرائع سے بتایا گیا تھا کہ یہ دورہ ذاتی نوعیت ہے جس میں وہ وہاں پر اپنا طبی معائنہ بھی کروائیں گے۔ نوازشریف کے چین میں دورے کے دوران پنجاب میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے چائنیز کمپنیز کے مالکان سے بھی ملاقاتیں طے تھیں۔ نوازشریف کی چین یاترا کے حوالے سے نجی ٹی وی چینل پبلک نیوز کے پروگرام میں سینئر صحافی وتجزیہ کار نصرت جاوید نے نیا انکشاف کر دیا۔ نصرت جاوید نے بتایا کہ نوازشریف کے ساتھ دورہ چین میں ان کے نواسے جنید صفدر ان کے ساتھ ہیں اور ان کے وہاں پہنچنے پر پاکستانی سفارتخانے کا کوئی نچلی سطح کا سفارتکار بھی انہیں ملنے نہیں آیا۔ نوازشریف پاکستان کے ایک شہری کے طور پر وہاں گئے ہیں اور چائنا کی 3 بڑی سٹیل ملز کا دورہ کر چکے ہیں، میرے خیال میں وہ جنید صفدر کی کاروبار کیلئے تربیت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے کوئی پروٹوکول طلب بھی نہیں کیا تھا، مجھے بتانے والوں نے بتایا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آج چائنا کے سرکار یحکام ان کے ساتھ رابطہ کریں لیکن یہ بات یقینی نہیں ہے۔ نوازشریف کے ساتھ چائنہ کے دورے میں آفیشل حکام کے علاوہ مسلم لیگ ن کا بھی کوئی عہدیدار ساتھ نہیں گیا۔ نصرت جاوید نے مزید کہا کہ نوازشریف کو چکما دے کر شہبازشریف کو وطن بلایا کہ آئیں آپ کو وزیراعظم بنانا ہے! اسحاق ڈار نے بتایا کہ نوازشریف نے خود کہا میں پرائیویٹ وزٹ پر چائنا جا رہا ہوں کسی کی دعوت پر نہیں جا رہا۔ اسحاق ڈار کو مشورہ دیا گیا کہ نوازشریف کے چائنا جانے کی بات ہوئی تو انہیں کہا گیا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چائنہ میں انہیں کوئی سرکاری حکام ملنا چاہیں تو آپ ان کے ساتھ چلے جائیں۔ اسحاق ڈار کو یقین تھا کہ جب وہ نوازشریف سے بات کریں گے تو وہ انہیں بھی ساتھ لے جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا انہوں نے کہا کہ میں ذاتی دورے پر جا رہا ہے آپ کی ساتھ ضرورت نہیں ہے۔ ایران کے صدر کے دورے سے قبل سفارتکارانہ زبان میں یہ بات ایرانی سفارتکاروں کو بھی پہنچائی گئی تھی کہ ہو سکتا ہے کہ جب آپ پاکستان میں آئیں تو شاید ہمارے وزیر خارجہ اسحاق ڈار یہاں پر موجود نہ ہوں۔
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے عمران خان کی سزائیں معطل ہورہی ہیں وہ واضح طور پر سہولت کاری ہے۔ جاوید لطیف نے ہم نیوز کے پروگرام"اپ فرنٹ ود مونا عالم" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریاست کو انصاف نہی مل رہا تو میں کہاں کھڑا ہوں؟ ریاست اپنے ریاستی اداروں کو انصاف نہیں دے سکی اور جیل میں موجود قیدی کو چھینک آنے پر بھی نوٹس لے لیا جاتا ہے، عمران خان کی سزائیں جس طرح معطل کی جارہی ہیں وہ سہولت کاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے آج بھی جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے اثرات نظر آتے ہیں، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ جیل میں موجود شخص پاکستان کا دشمن ہے، جب یہ فیصلہ ہوجائے گا تو کسی سے مذاکرات کرنا آسان ہوجائےگا، ہم نے کچھ اسپیس دینی ہے اور کچھ اسپیس لینی بھی ہے، سیاسی جماعتوں کے اکابرین ملک دشمن نہیں ہوتے، یہ اکابرین جیل جاتے ہیں اور جیل بھیجنے والے مذاکرات بھی کرتے ہیں۔ رہنما ن لیگ نے اپنی پارٹی میں اختلافات کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے اختلافات پارٹی کے اندر ہی حل ہونے چاہیے۔
جیوکے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘میں میزبان علینہ فاروق کے سوال نواز شریف کو صحت کی بناء پر لندن بھجوانے میں کردار نہیں، جنرل باجوہ کی صحافی سے گفتگو، کیا جنرل (ر) باجوہ کا بیان درست ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہاکہ جنرل باجوہ نے حکومت سے دوسری ایکسٹینشن مانگی یہاں تک کہ مارشل لاء کی دھمکی دی. جنرل باجوہ اور جنرل فیض پر فوج کے اندر سے دباؤ تھا کہ کچھ عمران خان حکومت کو بھی کرنے دیں،خواجہ آصف آن ریکارڈ ہیں کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے باہر گئے تھے,پروگرام میں تجزیہ کارمحمل سرفراز،ارشاد بھٹی ،سلیم صافی اور عمر چیمہ نے اظہار خیال کیا۔ محمل سرفراز نے کہا نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس پی ٹی آئی کی وزیر یاسمین راشد بتاتی تھیں، فوج میں بھی سوچ تھی کہ نواز شریف کو جیل میں کچھ ہوگیا تو بحران پیدا ہوجائے گا، عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کافیصلہ کیا تو اس وقت کی فوجی قیادت نے اسے مینج کیا۔ انکا کہنا تھا کہ نواز شریف کے گوجرانوالہ جلسہ میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کا نام لینے سے سیاسی دباؤ بھی ہوا، جنرل باجوہ دوسری ایکسٹینشن چاہتے تھے جو شخص دوسری ایکسٹینشن چاہتا ہو کیا پہلی ایکسٹینشن اس کا پلان نہیں ہوگا.جنرل فیض حمید خود ایک میٹنگ میں ایکسٹینشن کی سمری لائے تھے، جنرل باجوہ نے حکومت سے دوسری ایکسٹینشن مانگی یہاں تک کہ مارشل لاء کی دھمکی دی۔ ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ فوج نے اعتماد کے ووٹ کے بعد پی ٹی آئی کوبتادیا تھا ہم تھک گئے ہیں اب اپنے معاملات خود چلائیں، جنرل باجوہ اور جنرل فیض پر فوج کے اندر سے دباؤ تھا کہ کچھ عمران خان حکومت کو بھی کرنے دیں، فوج نیوٹرل ہوئی تو پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم سے رابطے میں لوگ سرگرم ہوئے پھر تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی، جنرل باجوہ دوسری ایکسٹینشن میں دلچسپی رکھتے تھے، عمران خان جنرل باجوہ کو تیسری ایکسٹینشن دینا چاہتے تھے مگر جنرل باجوہ کی دلچسپی نہیں تھی. فوج کے کچھ جنرلز جنرل باجوہ کی ایک سال کیلئے تیسری ایکسٹینشن میں دلچسپی رکھتے تھے تاکہ پھر ان کا نمبر آجائے، یہ ٹھیک ہے کہ جنرل باجوہ کسی اور جنرل کو آرمی چیف بنوانا چاہتے تھے، نواز شریف کے لندن جانے میں فوج کا کردار تھا، خواجہ آصف آن ریکارڈ ہیں کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے باہر گئے تھے۔ سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ مل کر عمران خان کی حکومت گرانے کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں، پی ٹی آئی کی حکومت خود ہی گرگئی، ہمیں گرانے کی ضرورت نہیں تھی,سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے معروف تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی سے گفتگو میں اہم حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ مجیب الرحمان شامی کے مطابق جنرل (ر) باجوہ سے جب باتیں شروع ہوئیں تو انہوں نے جیب سے قرآن مجید نکال لیا اور کہا کہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ نواز شریف کو لندن بجھوانے میں میرا کوئی کردار نہیں تھا,مجیب الرحمان نے وی نیوز کو بتایا کہ جنرل باجوہ نے کہاکہ وہ ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتے تھے، اس حوالے سے پھیلائی جانے والی باتیں غلط ہیں۔ سینیئر صحافی و تجزیہ کار نے کہاکہ جنرل (ر) باجوہ لمبی بات کرنا چاہتے ہیں مگر ہماری وہ ملاقات بار بار موخر ہورہی ہے۔مجیب الرحمان شامی نے کہاکہ جنرل باجوہ بالکل خوش باش نظر آرہے تھے، بلکہ پہلے سے زیادہ فٹ ہیں۔
وفاقی وزیر صنعت وپیداوار وسینئر رہنما مسلم لیگ ن رانا تنویر حسین نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے اپنے ہی پارٹی کے سینئر رہنما میاں جاوید لطیف کے دعوے کی تردید کر دی۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ میری اطلاعات کے مطابق 8 فروری 2024ء کو ہونے والے عام انتخابات بالکل فیئر ہوئے تھے۔ شیخوپورہ میں 100 فیصد انتخابات شفاف ہوئے تھے نہ ہی ایسی کوئی بات سامنے آئی۔ پروگرام کے میزبان حامد میر نے پوچھا تھا کہ میاں جاوید لطیف نے دعویٰ کیا ہے کہ شیخوپورہ کی 5 نشستیں 90 کروڑ روپے میں بک گئیں جبکہ رانا ثناء اللہ نے ان کی دعوے کی تردید کر دی ہے۔ رانا تنویر حسین نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 8 فروری 2024ء کو شیخوپورہ میں 100 فیصد شفاف انتخابات ہوئے، اس میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ میرے حلقے میں پاکستان تحریک انصاف کے جو لوگ میرے مقابلے میں تھے وہ بھی مانتے ہیں کہ انہیں شکست ہوئی اور کسی بھی ری کائونٹنگ کی بھی درخواست نہیں کی۔ ہمارے حلقے میں تحریک انصاف کے لوگوں کی طرف سے اپنی شکست کو تسلیم کیا گیا اور کسی بھی حلقے میں بیلٹ باکسز کھولنے کی درخواست نہیں دی گئی۔ حامد میر نے پوچھا کہ کیا یہ تاثر درست ہے کہ میاں جاوید لطیف کو نوازشریف سپورٹ کرتے ہیں اور وہ ہر بات ان کی طرف سے کرتے ہیں؟ جس پر جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ میاں نوازشریف ہمارے قائد ہیں، ہم ان کے پیروکار ہیں، وہ سب کی عزت کرتے ہیں، میرے خیال میں تو ایسا کچھ نہیں ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے اہم انکشاف کردیا انہوں نے بتایا کہ ان کی لندن میں نواز شریف کے ساتھ بہت سی ملاقاتیں ہوئیں تھیں، وہ وزیراعظم بننے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے,جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں بات چیت کرتے ہوئے عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ نواز شریف اس بار وزیر اعظم بننے پر آمادہ نہیں تھے۔ انہوں نے کہا نواز شریف حکومت کو کابینہ، معیشت کی بحالی اور دیگراہم معاملات میں اپنی رائے دیتے ہیں,پی ڈی ایم کو تباہ حال معیشت ملی تھی، ملک کو ڈیفالٹ سے بچانا وزیراعظم شہبازشریف کا بہت بڑاکارنامہ تھا۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) میں رائے ہے کہ نواز شریف پارٹی کی صدارت سنبھال لیں، ایک دو ماہ میں اس بارے میں فیصلہ ہو جائے گا، امکان ہے نواز شریف مسلم لیگ (ن) کی پارٹی صدارت سنبھالیں گے۔ لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ رائے ہے پارٹی کے سیاسی عہدے حکومتی عہدوں سے علیحدہ کر دیے جائیں جس کے پاس کوئی وزارت ہے وہ اس پر توجہ دے رہا ہے اس وجہ سے جماعت نظر انداز ہو رہی ہے۔ ہائیکورٹ کے ججز کے کیس میں فریق بننے کے حوالے سے عرفان صدیقی نے کہا کہ نواز شریف کی جانب سے ہائیکورٹ کے ججز کیس میں فریق بننے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، وہ اس کیس میں کوئی درخواست دائر نہیں کر رہے۔ عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ نواز شریف کے مقدمات قانونی طور پر اختتام کو پہنچ چکے ہیں، ان کے خلاف مقدمات اخلاقی اور سیاسی طور پر بے نقاب ہو چکے ہیں,جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جج ارشد ملک کی گواہائی کے بعد مقدمات کی حقیقت سب کے سامنے آ چکی ہے، نواز شریف کو کوئی ضرورت نہیں کہ ان مقدمات کو کھنگالا جائے اور اس میں کوئی درخواست لے کر جائیں۔
سینئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف اپنی ذات سے باہر نہیں نکل رہے اور ان کے فیصلے اپنی ہی جماعت کے حکومت کیلئے مشکل کھڑی کررہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ججزکے خط کے معاملے پر فریق بننے سے متعلق نواز شریف کے فیصلے کے حوالے سے سینئر تجزیہ کاروں نے جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں رائے دیتے ہوئے اسے نواز شریف کا اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کیلئے کیا گیا فیصلہ قرار دیا۔ سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ نواز شریف موجودہ حکومت کیلئے مسائل کھڑے کررہے ہیں یہ صرف ججز کے خط کے معاملے میں فریق بننے کے فیصلے کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا بلکہ نواز شریف کیمپ کے ن لیگی رہنماؤں کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات بھی اس کی وجہ ہیں، کیونکہ رانا ثناء اللہ اور میاں جاوید لطیف جیسے لوگ جو بیانات دے رہے ہیں طاقتور حلقے ان بیانات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جارہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کی سیاست کا فائدہ شہباز شریف یا ان کی حکومت کو نہیں پہنچے گا، ایسا لگ رہا ہے کہ نواز شریف صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچ رہے ہیں، انہوں نے خود شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا ، انہوں نے یہ چیلنج خود قبول کیوں نہیں کیا؟میاں نواز شریف کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں ن لیگ کی سیاست کرنی ہے یا اپنی ذات کیلئے سیاست کرنی ہے۔ مظہر عباس نے کہا کہ ججز کے خط کے کیس میں فریق بن کر نواز شریف کون سا ریلیف لینا چاہ رہے ہیں، کیا وہ بھٹو کی سزا کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی طرح یہ چاہ رہے ہیں کہ 2017 کے فیصلے کو غلط قرار دیا جائے؟ کیا وہ گوجرانوالہ کی تقریر والی سیاست کرنا چاہ رہے ہیں یا کوئی نیا بیانیہ دینا چاہ رہے ہیں؟ نواز شریف کی سیاست کو دیکھ کر یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہ صرف اپنی ذات کے حوالے سے سوچ رہے ہیں۔ پروگرام میں شریک سینئر تجزیہ کار اعزاز سید نے کہا کہ نواز شریف 2024 کےبجائے 2016 میں رہ رہے ہیں، نواز شریف اپنے ذاتی معاملات سے باہر نہیں نکلے، وہ ابھی تک اسی بات میں پھنسے ہوئے ہیں کہ انہیں کس طرح نکال دیا گیا، جب تک وہ اپنے معاملات کو موجودہ حالات کے ساتھ نہیں جوڑیں گے وہ آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ اعزاز سید نے مزید کہا کہ 8 فروری کے انتخابات نے ثابت کردیا کہ ن لیگ بطور پارٹی وینٹی لیٹر پر جاچکے ہیں، نواز شریف آؤٹ ڈیٹڈ باتیں جب تک کرتے رہیں گے وہ سیاست میں واپس نہیں آسکیں گے، سیاست میں واپس آنے کیلئے بولڈ فیصلے کرنے ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب بولڈ فیصلے کیے جائیں گے تو مرکز میں نواز شریف کے بھائی کی حکومت اور پنجاب میں بیٹی کی حکومت قربان کرنی پڑے گی، کیا یہ اس وقت اپنی دونوں حکومتیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں؟
اتنی مارا ماری ہوگی کہ ن لیگ نواز شریف کی قیادت میں اگلا الیکشن لڑنے کے قابل نا رہے، حامد میر سینئر تجزیہ کار وصحافی حامد میر نے کہا ہے کہ اس حکومت کا خاتمہ نہیں ہوگا، انہیں باندھ کر ررکھاجائے گا، اتنی گالیاں پڑوائی جائیں گی، اتنی مارا ماری ہوگی کہ اگلا الیکشن شائد ن لیگ نواز شریف کی قیادت میں لڑنے کے قابل نا رہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی وتجزیہ کار حامد میر نے آج نیوز کے پروگرام روبرو میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا جو دل ٹوٹا ہوا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کی سب سے بڑی قوت عوامی طاقت ہوتی ہے، جب سیاستدانوں کو یہ لگے کہ وہ عوامی حمایت جو جیل میں یا بیرون ملک ہونے پر ساتھ اب نہیں ہے تو دل ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ حکومت چلی جائے گی؟ کے سوال کے جواب میں حامد میر نے کہا کہ اگر حکومت چلی گئی فیر تے تسی مظلوم بن جانا ہے،انہوں نے آپ کو بندھ کررکھنا ہے کہ آپ کا گالیاں پڑوائیں، پالیسی کسی اور کی چلے اور الزام آپ پر لگے، پارٹی میں شدید ٹوٹ پھوٹ ہو کہ ن یہ نواز شریف کی قیادت میں اگلا الیکشن لڑنے کے قابل ہی نارہیں،ماضی میں عمران خان بھی ڈکٹیشن لے رہے تھے اور اس وجہ سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوا، ابھی بھی کچھ لوگ ڈکٹیشن لے رہے ہیں تو اس کی وجہ سے بھی استحکام نہیں آئے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواجہ سعد رفیق کو انتخابات سے قبل ہی ان حالات کا اندازہ تھا اسی لیے وہ الیکشن لڑنے کیلئے تیار نہیں تھے، میں نے جب اس بارے میں خواجہ سعد رفیق سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ دیوار پر لکھا نظر آرہا ہے کہ ہماری حکومت آجائے گی مگر ہمیں ذلیل بہت کیا جائے گا۔ حامد میر نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق نے حلقہ بندیوں کو انتخابات نا لڑنے کی وجہ قرار دی اور کہا کہ حلقوں کو اس طریقے سے کاٹا اور چھانٹا گیا ہے کسی نے بہت سوچ سمجھ کر یہ کوشش کی ہے میں اس حلقے سے جیت نا سکوں ایسا صرف میرے ساتھ نہیں ہوا اور بھی حلقوں میں ہوا ہے، مھے ان حلقہ بندیوں میں صاف اپنے خلاف سازش اور یہ نظر آرہا تھا کہ ہماری پارٹی کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ حامد میر نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق نے مجھے کہا کہ ہمیں لاڈلا کہا جاتا ہے مگر حقیقت میں ہماری حالت یہ ہے کہ ہم پٹ پٹ کر، چیخ چیخ کر مرگئے ہیں، ہمارے حلقوں کی حلقہ بندیاں ہماری مرضی کے خلاف ہیں، مجھے یہ نظر آرہا ہے کہ آپ کو حکومت دی جائے گی مگر آپ کو اکثریت نہیں ملے گی، اسی لیے میں الیکشن لڑنا نہیں چاہتا تھا مگر نواز شریف نے میرے بھائی سلمان رفیق کے ذریعے مجھ پر دباؤ ڈالا تو میں نے الیکشن لڑا مگر میں نے تب بھی یہ کہہ دیا تھا کہ آپ کے ساتھ اچھا نہیں ہونا۔
سابق وزیر داخلہ وسینئر رہنما مسلم لیگ ن رانا ثناء اللہ نے نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کے پروگرام فیصلہ آپ کا میں گفتگو میں کہا کہ 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات کو مینج کر کے بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو وزیراعظم بنایا گیا تھا۔ رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ عمران خان پراجیکٹ مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہنے کے ساتھ ساتھ لانے والے ہی کے گلے پڑ گیا۔ عمران خان کو الیکشن مینج کرنے کے بعد ناکامی پر گرانے کا پراجیکٹ شروع کیا گیا، عمران خان کے مقدمات جس انداز میں چلائے گئے وہ انتہائی غلط تھا۔ انہوں نے کہا کہ 2011-12ء میں پراجیکٹ عمران خان کا آغاز ہوا جسے 2014ء میں اسے لانچ کر کے دھرنوں سے آغاز کیا گیا تھا اور 2017-18ء میں سٹیبلشمنٹ اور جوڈیشری کی مدد سے اس وقت کی حکومت کو ڈی سٹیبلائز کیا گیا جس کے بعد عمران خان کو وزیراعظم بنوایا گیا۔ پہلے پراجیکٹ عمران خان کو کامیاب کرنے کیلئے ملک اور اداروں کا بٹھا بٹھایا گیا اور پھر اسے گرانے کیلئے پاپڑ پیلنے پڑے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ہمیں انتخابات میں ہروانے کے لیے ایک ہفتے کے اندر اندر عمران خان کو 3 مقدمات میں سزائیں دی گئی تھیں، یہ کیسز بھی جب کسی جج کے پاس جائیں گے تو وہ عمران خان کو تمام کیسز میں بری کر دے گا۔ بشریٰ بی بی کے کھانے میں زہر ملانے کے معاملے پر کہا کہ ہم نے اس حوالے سے تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
سینئر صحافی وتجزیہ کار ریما عمر نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خط لکھنے والے 6 ججز پر ہونے والی تنقید بالکل بے بنیاد ہے، تنقید کرنے والے تب کہاں تھے جب جسٹس شوکت صدیقی نے الزامات لگائے تو ان کو کسی نے سپورٹ نہیں کیا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کیس 2018ء کا ہے یہ تب اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز ہی نہیں تھے تو کیسے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اس وقت آواز اٹھاتے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خط لکھا کرتے تھے تو بہت سے لوگوں کی طرف سے تنقید کی جاتی تھی کہ کیوں پبلک یا پولیٹیکل سٹنٹ کر رہے ہیں، اپنے اندرونی معاملات ان کو خود حل کریں۔ اب وہی لوگ خط کو سپورٹ کر رہے ہیں اور جو پہلے سپورٹ کر رہے تھے اب کہہ رہے ہیں کہ یہ پبلک یا پولیٹیکل سٹنٹ ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ان عدالتوں یا بند کمروں میں کیا ہو رہا ہے؟ اور یہ معاملہ عرصے سے چل رہا ہے اور اچھا ہے کہ اب معلومات ہم تک پہنچ رہی ہیں، اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ پہلے یہ بھی کہا جاتا تھا کہ سپریم کورٹ تک خط پہنچنے سے پبلک ہو جاتا ہے۔ اب یہ تنقید بھی ہو رہی ہے کہ ایک جج کو بچانے کے خلاف تمام ججز اکٹھے ہو گئے ہیں، اس کی مثال پاکستان میں کم ہی ملتی ہے، اس سے پہلے 1 یا 2 ججز اس سے پہلے پبلک جا چکے ہیں۔ یہ 6 ججز کا معاملہ ہے، کیا ان سب پر الزام لگایا جائیگا کہ یہ ایک دوسرے کی حفاظت کرنے کیلئے ایسا کر رہے ہیں، یہ بے بنیاد الزامات ہیں۔ ایک منظم طریقے سے ان ججز اور ان کے خط کو ڈس کریڈٹ کرنے کی کمپین کی جا رہی ہے جس کی میں مذمت کرتی ہوں، عدلیہ ہمارا وہ ادارہ ہے جس نے ہمارے حقوق کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ عدلیہ کے اندر یا باہر سے کوئی بھی غیرقانونی مداخلت ہو رہی ہے تو اس کا ہمیں پتہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں یہ کہنا بہت آسان ہے کہ پہلے کیوں نہیں کیاگیا ؟ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت پر لوگوں میں بہت تشویش پائی جاتی ہے۔ معاملے پر کیا ردعمل آئیگا یہ ہمارے کنٹرول میں نہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے اختیارات بارے اس خط میں اہم بات ہے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے وقت آیا تو پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کی حد تک قانون سازی کی، جو لوگ اس کی حمایت کر رہے تھے اب مخالف کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس یہ اختیارات کیوں ہیں؟ سپریم کورٹ میں اس تبدیلی کے بعد ہائیکورٹس میں بھی ہونی چاہیے کیونکہ چیف جسٹسز ہائیکورٹ میں بھی اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
ہائیکورٹ کے 6 ججوں کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط، سابق جج شوکت صدیقی نے لب کھول لئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کہتے ہیں ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکنھے کی سمجھ نہیں آئی,نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہائیکورٹ کے ججوں نے اپنے خط میں مداخلت کا لکھا ہے مگر خط کا حوالہ نہیں دیا۔شوکت عزیز صدیقی نے کہاکہ میں نے اکیلے جنگ لڑی تھی آج حمایت میں 6 ججز بھی شامل ہو گئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سرخرو کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر کہا گیا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے عدالتی معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے، اس لیے جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔ شوکت صدیقی نے نومبر 2018 میں راولپنڈی بار سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ آئی ایس آئی کے اہلکار نہ صرف عدالتی معاملات پر اثرانداز ہوتے ہیں بلکہ اپنی پسند کے بینچ بنوا کر اپنی مرضی کے فیصلے لیتے ہیں,شوکت صدیقی کے ان الزامات پر فوجی ترجمان نے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ وزارت دفاع نے ایک شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی جس کی بنیاد پر ان کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی گئی تھی اور اکتوبر 2018 میں اس وقت کے صدر مملکت عارف علوی نے شوکت صدیقی کو برطرف کر دیا تھا, چند روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ان کی مراعات بحال کر دی ہیں۔ سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن رضوی اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے شوکت صدیقی کی آئینی درخواستوں پر سماعت 23 جنوری 2024 کو مکمل کی تھی,عدالت نے اب کیس کا 22 صفحات کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا جو چیف جسٹس پاکستان نے تحریر کیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا ہےکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے جب کہ 11 اکتوبر 2018 کو وزیراعظم کی سفارش پر صدر نے ان کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری کیا اسے بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بحال نہیں کیا جاسکتا، انہیں ریٹائرڈ جج تصور کیا جائے، وہ بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ ریٹائرڈ اور تمام مراعات وپینشن کے حقدارہوں گے، انہیں پینشن سمیت تمام مراعات ملیں گی۔
کراچی میں ڈاکو راج نے شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں, سرجانی ٹاؤن میں ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران ایک اور نوجوان کی جان لے لی, سرجانی ٹاؤن کے علاقے سیکٹر 4D عبداللہ موڑ کے قریب موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے ڈکیتی مزاحمت پر 32 سالہ زوہیب کو فائرنگ کرکے قتل کردیا اور موقع سے فرار ہوگئے۔ مقتول کی لاش عباسی شہید اسپتال لے جائی گئی جبکہ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی مقتول کے اہلخانہ بھی اسپتال پہنچ گئے جہاں رقت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے، مقتول کے والدین، رشتے داروں اور دوست احباب نے واقعہ پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ مقتول کے لواحقین نے بتایا کہ زوہیب لیاقت آباد کا رہائشی ہے جو اپنے ماموں کے گھر روزہ افطار کرنے سرجانی ٹاؤن گیا تھا، وہ واپس اپنے گھر جا رہا تھا کہ ڈاکوؤں نے اسے لوٹ مار کی غرض سے روکا اور مزاحمت پر گولی مار کر فرار ہوگئے۔ مقتول غیر شادی شدہ اور موٹر سائیکل بنانے والی کمپنی میں ملازمت کرتا تھا، گولی مقتول کی جیب میں رکھے ہوئے موبائل فون سے پار ہوتی ہوئی سینے پر جا لگی جو جان لیوا ثابت ہوئی، پولیس کو جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم پستول کا ایک خول ملا ہے۔ مقتول کے والدین کا کہنا تھا کہ ظالموں نے ہم سے ہمارا بچہ چھین لیا، شہر کو لٹیروں کے حوالے کیا ہوا ہے، گھر کا کمانے والا چلا گیا اب ہمارا گزر بسر کیسے ہوگا۔ ایک روز قبل بھی ویسٹ زون کے علاقے ڈسٹرکٹ سینٹرل نیو کراچی بلال کالونی تھانے کی حدود میں دکان پر کام کرنے والے عبدالرحمٰن کو ڈاکوؤں نے مزاحمت پر فائرنگ کر کے قتل کیا تھا جو سرجانی ٹاؤن کا رہائشی تھا,وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے سرجانی ٹاؤن کے علاقے میں ڈکیتی مزاحمت پر نوجوان کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر ایس ایچ او سرجانی انسپکٹر راؤ ناظم کو معطل کرنے کا حکم جاری کردیا,ایس ایس پی ویسٹ سے معطل کیے جانے والے ایس ایچ او کا سابقہ اور حالیہ ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔ اس سے قبل کورنگی اللہ والاٹاؤن کے قریب ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ سے نجی یونیورسٹی کا ایک 22 سالہ طالب علم چل بسا تھا، جس کی شناخت محمد لاریب کے نام سے ہوئی,پولیس کے مطابق مقتول کے پاس سے ان کا موبائل فون نہیں ملا، جس کے حوالے سے شبہ ہے کہ اسے ڈاکو اپنے ساتھ لے گئے جبکہ واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ مقتول کے والد محمد حسین نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ان کا بیٹا گھر سے جم جانے کے لیے نکلا تھا کہ یہ واقعہ پیش آیا,والد کے مطابق مقتول لاریب بیچلرز آف بزنس ایڈمنسٹریشن (بی بی اے) کا طالب علم تھا اور بیسک اکاؤنٹنگ کی کتاب بھی لکھ رہا تھا، جس کی رونمائی چھ مارچ کو ہونا تھی, ملزمان نے مقتول سے موبائل فون چھیننے کی کوشش کی، جس میں لاریب کی کتاب کا ڈیٹا تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے مزاحمت کی۔
پاکستان پر ایک مرتبہ پھر ایک ٹرائیکا حکومت کر رہی ہے جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر شامل ہیں,آخری مرتبہ ملک پر 90کی دہائی میں ٹرائیکا کی حکمرانی تھی جب صدر مملکت کے پاس حکومت کو ہٹانے اور قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار تھا۔ یہ صدارتی اختیارات 90ء کی دہائی کے آخر میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے واپس لے لیے گئے تھے، جس کے نتیجے میں صدر کا عہدہ بے اختیار ہوگیا۔ انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق آئینی اور قانونی لحاظ سے وزیراعظم اگرچہ طاقتور بن گئے لیکن آرمی چیف کے روایتی اثر پر فرق نہیں پڑا جس کا مشاہدہ گزشتہ فوجی حکمرانی کے بعد کیا جا سکتا ہے۔ کچھ وقت کیلئے، چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ بھی ٹرائیکا کے ممبر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا تھا۔ 8فروری کے الیکشن کے نتیجے میں مینڈیٹ تقسیم ہوگیا، پاکستان پیپلز پارٹی کی اسٹریٹجک لحاظ سے جیتی گئی قومی اسمبلی کی اہم نشستوں اور آصف علی زرداری کے ریاست کے سربراہ کے طور پر انتخاب نے ایک بار پھر موجودہ صدر کو حکمران ٹرائیکا کا رکن بنا دیا ہے۔ صدر زرداری کے پاس کوئی آئینی اور قانونی اختیار نہیں کہ وہ تین چار دہائیاں پہلے کی باتوں کو دہرائیں لیکن قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد کی وجہ سے ایوان صدر شہباز شریف کی قیادت والی حکومت کو طاقت دینے یا جھٹکا دینے کیلئے واقعی موزوں ہے۔ اس وقت حکمران ٹرائیکا کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور ملک کو موجودہ معاشی مشکلات سے نکالنے کیلئے مل کر کام کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ اقتصادی محاذ پر سب سے طاقتور اسپیشل انویسٹمنٹ فنانس کونسل کا کردار بہت اہم ہے، جو وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم باجوہ کی اختراع ہے۔ ایس آئی ایف سی پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت میں قائم ہوئی تھی، صدر آصف علی زرداری شہباز حکومت کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور پاکستان کے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ایس آئی ایف سی کی حمایت کیلئے پرعزم ہیں,اسلام آباد میں 23 مارچ کی پریڈ کے موقع پر اپنے خطاب میں صدر زرداری نے کہا کہ عام انتخابات کے بعد ایک جمہوری حکومت قائم ہے اور اب یہ ذمہ داری ’’ہم سب پر عائد ہوتی ہے کہ ہم مل کر چیلنجز سے نمٹیں، ہمارے لوگ محنتی اور ذہین ہیں، بے پناہ صلاحیتوں سے آراستہ نوجوان ملک کی ترقی کے امین ہیں۔ صدر نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کا قیام ملکی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اس پلیٹ فارم کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاری زراعت، لائیو اسٹاک، معدنیات اور کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں کو ترقی ملے گی, تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی سلامتی اور خوشحالی کی خاطر مل کر کام کریں۔ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر کے درمیان افہام و تفہیم اور ورکنگ ریلیشن شپ قابل ذکر رہی۔ 8؍ فروری کے عام انتخابات کے بعد آرمی چیف کی زیرقیادت کور کمانڈرز کانفرنس نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے اور ملک میں سماجی اقتصادی ترقی کو بلند کرنے کیلئے حکومت کو مکمل تعاون فراہم کرنا جاری رکھا جائیگا جس میں اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، بجلی کی چوری سمیت تمام غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے بھرپور مدد کی جائے گی۔ ایک دستاویزی نظام کا نفاذ اور غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی باعزت اور محفوظ وطن واپسی کو یقینی بنایا جائے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف بھی ایس آئی ایف سی کے قیام اور حکومت کو معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں مدد دینے پر آرمی چیف کی تعریف کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ اس وقت ٹرائیکا کے تینوں رکن اس بات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کہ قوم کو ان سے کیا توقع ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود کابینہ کا حصہ نہیں اور یہ ایک کمزور کڑی ہے اور ممکن ہے وہ چند ماہ میں حکومت سے الگ ہوجائے۔ تاہم، کچھ کا اصرار ہے کہ زرداری ایسا نہیں کریں گے جبکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی ملک کو موجودہ معاشی دلدل سے نکالنے کیلئے سب کو ساتھ رکھنے کی کوشش کرے گی۔
وفاقی وزیر اقتصادی امور احد چیمہ کہتے ہیں ایچ سن کالج کے تنازع میں سے مجھے نکال دیں تو گورنر کے احکامات میں کیا غلط ہے، کیا گورنر کے احکامات قانون اور انصاف کے مطابق نہیں ہیں‘میرے بچوں کیلئے کوئی خصوصی رویہ نہیں رکھا گیا پالیسی فیصلہ کیا گیا ہے۔ جیونیوز کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے احد چیمہ کا کہنا تھاکہ گورنر پنجاب نے سب کیلئے ایک عمومی پالیسی بنائی ہے اس میں کیا حرج ہے، یہ صرف تاثر ہے کہ گورنر کے فیصلے کی وجہ میں ہوں، میری اہلیہ سرکار ی ملاز م ہیں. انہوں نے 2022ء میں پرنسپل کو درخواست دی کہ میرا ٹرانسفر ہوگیا ہے مجھے بچے شفٹ کرنے ہیں اس لیے لیو دیں، پرنسپل نے کہا کہ ہم چھٹی دیں گے مگر آپ کو پوری فیس دینا ہوگی، میری اہلیہ نے کہا کہ دونوں جگہ پر پوری فیس دینا مشکل کام ہے آپ اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں ، پرنسپل نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا یہ ان کی مرضی ہے، میری اہلیہ نے گورنر کو درخواست دی تو انہوں نے معاملہ بورڈ کو بھیج دیا. اس بور ڈ نے 2023ء میں فیس معاف کرنے کی درخواست کو سپورٹ کیا، اس بورڈ پر اگر میرا اثر و رسوخ کسی کے علم میں ہے تو مجھے بتادے، پرنسپل نے بورڈ کے فیصلے کے باوجود ہمارے بچوں کے داخلے منسوخ کردیئے، ہم نے دوبارہ درخواست دی تو پرنسپل نے گورنر کو ریکارڈ فراہم کرنے سے منع کردیا۔ احد چیمہ کے بیٹے کی فیس معافی اور ایچی سن کالج کے پرنسپل کے استعفے کے معاملے پر گورنر پنجاب کا ردعمل سامنے آگیا,گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کا کہنا ہے کہ احد چیمہ ملازمت کی وجہ سے ایک سال سے اسلام آباد میں تعینات تھے، احد چیمہ کے بچے ایچی سن میں نہیں جا پارہے تھے۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ جو کلاسز ان بچوں نے نہیں لی تھیں ان کی فیس معاف کرانےکی درخواست دی تھی۔ ایچی سن کالج کے پرنسپل کے استعفےکے معاملے پرگورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ اگست 2024 میں پرنسپل کا استعفیٰ قابل عمل ہو جانا تھا۔ پرنسپل ایچی سن کالج 40 لاکھ روپے تنخواہ وصول کر رہے تھے۔ گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ 40 لاکھ روپے تنخواہ وصول کرنے کا آڈٹ شروع کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ پرنسپل ایچی سن کالج ایک سال میں 100 سے زائد چھٹیاں کرتے تھے۔ انکوائریوں سے بچنے کے لیے پرنسپل ایچی سن کالج نے یہ حربہ اپنایا ہے۔
احد چیمہ کے اثاثوں کی مختصر تفصیلات احد چیمہ کے پاس 1 کروڑ مالیت کی ایک عدد غیر رجسٹرڈ پراڈو، 2 ہنڈا سوک اور 2 ہنڈا سٹی گاڑیاں،،موضع کرباٹھ میں زرعی اراضی اور بیرون ملک پولٹری فارم اور امریکا کی میری لینڈ سٹیٹ میں احد چیمہ6 ایکڑ اراضی کے مالک ہیں۔ احد چیمہ نے اپنے بھائی احمد سعود چیمہ کے نام پر 2 لاکھ ڈالر امریکا بھجوائے۔ عارف والہ میں رانا احسان کے نام پر رجسٹرڈ کولڈ سٹوریج بھی احد چیمہ کی ملکیت ہے۔ احد چیمہ کی جانب سے سرگودھا میں بھی کرشنگ کا کاروبار بھی کیا جا رہا ہے۔ڈیرہ غازی خان میں پنجاب کالج کی برانچ میں 4 کروڑ کی سرمایہ کاری احد چیمہ نے کی۔ بیدیاں روڈ پر 15 کنال 5مرلہ اراضی کے مالک بھی احد چیمہ ہیں۔40 لاکھ مالیت کے 2 آئل ٹینکر احد چیمہ کی جائیداد میں شامل ہیں، جائیداد میں 2 کروڑ 40 لاکھ مالیت کی شہر میں اراضی بھی احد چیمہ کے نام پر موجود ہیں۔ میزان بنک میں 30 لاکھ روپے انوسٹمنٹ بھی کر رکھی ہے۔ احد چیمہ نے سال 2017ء کی انکم ٹیکس ریٹرن میں ایف بی آر کے روبرو خود کواندرون ملک اربوں روپے مالیت کی 21 جائیدادیں جائیدادوں کا مالک بتایا ہے۔ ریٹرن کے مطابق احد چیمہ، کوٹ مومن میں 20 کنال زرعی اراضی، بھیک احمد یار حافظ آباد میں 134 کنال 12 مرلہ اور 113 کنال 19 مرلے زرعی اراضی، لاہور کے کرباٹھ گائوں تحصیل کینٹ میں 2 کروڑ روہے سے زائد مالیت کے 3 کنال کے پلاٹ، لاہور کینٹ میں 4 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے 8 کنال کے پلاٹ، موضع کرباٹھ لاہور کینٹ میں ہی کروڑوں روپے مالیت کی 28 کنال 28 مرلے زرعی اراضی، موضع کرباٹھ میں ڈیرھ کروڑ روپے سے زائد مالیت کے 3 کنال کے پلاٹ، موضع جھلکے تحصیل ماڈ ل ٹائون لاہور میں 10 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی 16کنال اراضی ہے۔ ایل ڈی اے ایونیو ون میں ایک کروڑ روپے سے زائد مالیت کے پلاٹ نمبر D 70۔1 کوآپریٹو سوسائٹی اسلام آباد کے بلاک ای میں 50 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے پلاٹ نمبر 71، بنک الفلاح ایمپلائز ہاوسنگ سوسائٹی بیدیاں روڈ لاہو ر میں ایک کروڑ روپے سے زائد مالیت کے 2پلاٹ، سی ڈی اے اسلام آباد کے بلاک 143میں 50 لاکھ روپے زائد مالیت کے فلیٹ A1، 50 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے ہل لاک ویواسلام آباد میں فلیٹ نمبر1004ڈی، ایف آئی اے ایمپلائز ہائوسنگ سکیم اسلام آباد میں لاکھوں روپے مالیت کے پلاٹ، فیدڑل گورنمنٹ ایمپلائز ہاوسنگ فائونڈیشن (پی ایچ ایف) میں 50 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے پلاٹ، ایف آئی اے ایمپلائز ہاوسنگ سوسائٹی اسکام آباد میں قسطوں پرلئے گئے پلاٹ، ایف جی ای ایچ ایف جی، 13 میں بھی قسطوں پر لیے گئے۔
کیا عدالتوں کا ماحول بدل رہا ہے اور آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کو ریلیف ملنے کی اُمید ہے؟ سپریم کورٹ کے سینئر صحافی حسنات ملک کے انکشافات نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے حسنات مل کا کہنا تھا کہ بظاہر نظر آرہا ہے کہ عدلیہ پر 8 فروری کے نتائج کا اثر ہوا ہے،اداروں کے سربراہان کا بہت اثر ہوتا ہے لیکن نیچے بہت تبدیلیاں ہیں،بہت فرق آ چکا ہے،ججز نے سوالات اٹھانا شروع کردیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیبلیشمنٹ کو اصل میں جن چیزوں پر کنسرن ہے،ان پر قاضی فائز عیسیٰ مکمل خاموش ہیں،باوجود اس کے کہ عمران خان نے ان کو لیٹر بھی لکھا۔ انکے مطابق ایک خیال یہ بھی ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ پی ٹی آئی کی اندرونی لڑائیوں کے بعد مطمئن ہے کہ ان کو عدالتوں سے چھوٹا موٹا ریلیف مل بھی جائے تو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ پی ٹی آئی اندرونی طور پر اتنی الجھ چکی ہے کہ اب یہ کوئی موثر تحریک نہیں چلا سکتے۔ حسنات ملک نے انکشاف کیا کہ ججز کی توہین کے نام پر صحافیوں کو جاری ہونے والے نوٹسز پر سپریم کورٹ کے ججز نے سوالات اٹھائے اور اعتراض کیا کہ ہمارے نام پر ایسا کیوں کیا گیا؟ حسنات ملک کے مطابق بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ شاید قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے ڈی ایچ اے اور شہدا کے حوالے سے ریمارکس پر اسٹیبلیشمنٹ ناراض ہو،لیکن میرا نہیں خیال کہ اسٹیبلیشمنٹ ان ریمارکس پر ناراض ہو ،کیونکہ اسٹیبلیشمنٹ کا مین کنسرن ہے پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کے معاملے میں قاضی فائز عیسیٰ نے ریاستی بیانیے اور عمل کو کسی طرح سے متاثر نہیں کیا،پی ٹی آئی کو جو ریلیف عمر عطا بندیال صاحب کے دور میں مل رہا تھا،وہ قاضی صاحب کے آتے ہی بند ہو گیا۔ انکا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ فل کورٹ میٹنگ میں ایک جج نے سوال اٹھایا کہ پی ٹی آئی کی خواتین قیدیوں کو ضمانتیں کیوں نہیں دی جارہیں؟کچھ ججز نے ان کے اس موقف کو سپورٹ کیا اور کچھ نے مخالفت کی،عدلیہ کے اندر ایک بحث شروع ہو چکی ہے کہ بس بہت ہو چکا،ہمیں اپنی کھوئی ہوئی اسپیس واپس لینی ہو گی انکے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز میں بھی کیسز کی تقسیم پر بحث ہو رہی ہے،اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایک طرف ہیں اور باقی سات ججز دوسری طرف ہیں،عدلیہ کے اندر سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ ہمیں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا ہوگی
مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ہم نے دو سال میں ملک کو دلدل سے نکالنے کا وعدہ کیا مگر میں تسلیم کرتا ہوں کہ عوام نے ہمارے بیانیے کو نہیں سراہا ، اسی لیے نواز شریف نے خود کو پیچھے کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیر داخلہ راناثناء اللہ نے آج نیوز کے پروگرام"اسپاٹ لائٹ" میں خصوصی گفتگو کی اور ملکی سیاسی صورتحال و ن لیگ کی پالیسیوں کے حوالے سے بات کی، اس موقع پر انہوں نے نواز شریف کی خاموشی سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ عوام نے ن لیگ کو اکثریت سے کامیاب نہیں کیا، نواز شریف ملک کو دلدل سے نکال سکتے تھے، نواز شریف ہمارے پارٹی لیڈر ہیں ان کو کوئی ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی نے نواز شریف کے وزیراعظم نا بننے کے فیصلے کی تائید کی اور شہباز شریف کا نام دیا جنہیں مخلوط حکومت کا تجربہ بھی ہے، نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے، وہ عمرے کیلئے جانے یا کسی سے ملنے کیلئے آزاد ہیں، انہیں عمرے کیلئے یا لندن جانا ہوا تو وہ ضرور جائیں گے،تاہم وہ واپس ضرور آئیں گے اور وفاق و پنجاب حکومت کو سپورٹ کریں گے۔ حکومتی ٹیم کا حصہ نا بننے کا فیصلہ کرنے والے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ میری پارٹی سے کوئی ناراضگی نہیں، میرا خیال ہے کہ جو وگ منتخب ہوئے ذمہ داریاں بھی اب انہیں ہی نبھانی چاہیے، ہم ن لیگ کے ٹکٹ پر ہی الیکشن لڑتے تھے ایک بار ٹکٹ نہیں ملا تو ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ سابق آرمی افسران کو پارلیمنٹ میں بلانے کی بات کرنے پر خواجہ آصف کو دھمکی آمیز فون کالز موصول ہونےسے متعلق سوال کے جواب میں لیگی رہنما نے کہا کہ خواجہ آصف سے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ انہیں کس نے دھمکی دی، کیونکہ اگر انہوں نے ایسی بات کی ہے تو اس کے پیچھے ضرور کوئی بات ہوگی، انہوں نے بلاوجہ یہ نہیں کی ہوگی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شیرافضل مرورت کو یوٹیوبر نادر علی کی کامیڈی نہ صرف پسند ہے بلکہ ان کی کامیڈی نے ان کی جان بھی بچائی ہے,شیر افضل مروت نادر علی کے بڑے مداح ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ نادر علی کی مزاحیہ ویڈیوز نے میری جان بچائی ہے، میں آج بھی ان کا بڑا مداح ہوں، اگر زندگی میں کسی ایک شخص کا فین ہوں تو وہ نادر علی ہے۔ سوشل میڈیا پر شیر افضل مروت کی وائرل ویڈیو میں انہیں خاتون کو انٹرویو دیتے دیکھا جا سکتا ہے جس میں وہ اپنی زندگی کی مشکلات اور اس میں یوٹیوبر نادر علی کے مثبت کردار کا ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زندگی میں ایک ایسا وقت آیا تھا کہ میں بہت مسائل کا شکار تھا، مجھے ایسا لگتا تھا کہ مجھے اپنے پرائے تنگ کرتے ہیں اور بہت زیادہ ذہنی تناؤ تھا جو ایک سے ڈیڑھ سال کا عرصہ تھا جو میں نے بہت تکلیف میں گزارہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ دور تھا جب ہمارے علاقے میں امن و امان کے مسئلے تھے، میرے والد کا قتل کردیا گیا تھا، خود میں بھی حملوں کی زد میں رہا تو میں سوچا کرتا تھا کہ یہ زندگی اتنی بھاری کیوں ہے، ساری تکلیف سے یکمشت ہی نجات حاصل کر لیں تو کبھی کبھار زندگی میں بڑے عجیب و غریب خیال آیا کرتے تھے لیکن پھر اللہ نے استقامت دی۔ اس موقع پر انہوں نے پرینکسٹر اور یوٹیوبر نادر علی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ نادر علی کے پرینک نے میری جان بچائی ہے، میں ان کی ایک ایک ویڈیو کو 50 سے 100 بار دیکھا کرتا تھا,میں آج بھی نادر علی کا بڑا مداح ہوں، میں کراچی گیا تھا لیکن ان سے ملاقات کا موقع نہیں ملا اور اگر زندگی میں کسی ایک شخص کا فین ہوں تو وہ نادر علی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نادر علی کو بہت پسند کرتا ہوں، ان کی ایک ایک ویڈیو کا مجھے شدت سے انتظار رہتا ہے اور میں نے ان سے رابطے کی بھی بہت کوشش کی,ان کی یوٹیوب پر ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہو رہی ہے جس میں جب ان سے سوال پوچھا جاتا ہے کہ آپ کس ایک شخص سے دوستی کرنا چاہتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ میں نادر علی سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔ شیر افضل مروت کی جانب سے نادر علی کی پرینک ویڈیو کو اپنی زندگی بچنے کی وجہ قرار دینے کے بعد یوٹیوبر کا بھی ردِ عمل سامنے آگیا, انسٹاگرام پر شیر افضل مروت کی ایک اور ویڈیو شیئر کر کے نادر علی نے لکھا کہ 'زندگی میں ان کا احسان لے کر اس دنیا سے جانا پسند کروں گا'۔ پی ٹی آئی رہنما نے مزید بتایا کہ گزشتہ رات انہیں اچانک ایک نمبر سے کال آئی، عموماً وہ ان نمبرز سے کال نہیں اٹھاتے جنہیں وہ جانتے نہیں، لیکن اس کال کو اٹینڈ کیا تو نادر علی بول رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہوئی، مزا آگیا، اب میں کراچی جارہا ہوں اور 2 دن صرف نادر علی کے ساتھ وقت گزاروں گا۔ شیر افضل کا کہنا تھا کہ انہوں نے یوٹیوبر سے درخواست کی تھی کہ آپ مجھے ٹائم دیں، ہم جائیں گے ڈنر کریں گے، یہ آدمی اثاثہ ہے اس ملک و قوم کا, ان جیسے اور بھی پرینکسٹرز ہیں جو بہت اچھا کام کررہے ہیں لیکن نادر علی کے معیار کا کوئی نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر شیر افضل خان مروت نے بڑا دعوی کردیا انہوں نے کہا وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی وزیراعظم شہباز شریف سے ہونے والی ملاقات سے بانی پی ٹی آئی عمران خان لاعلم تھے۔ ڈان نیوز کے پروگرام ’خبر سے خبر وِد نادیہ مرزا‘ میں گفتگو کرتے ہوئے شیرافضل مروت نے کہا علی امین گنڈا پور کا وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کا فیصلہ اپنا تھا اور عمران خان کو بعد میں اس ملاقات سے آگاہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور نے عمران خان کو ان عوامل کے بارے میں آگاہ کیا جس کے باعث انہیں وزیراعظم کے پاس ملاقات کے لیے جانا پڑا۔ سنی اتحاد کونسل سے قبل پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر شیر افضل مروت نے کہا خیبرپختونخوا کے لوگ پرویز خٹک سے نفرت کرتے ہیں اور وہ صوبے میں نفرت کی علامت ہیں۔ شیر افضل مروت نے مزید دعویٰ کیا پرویز خٹک نے کہا تھا کہ عمران خان سے میری ملاقات کرا دو تو میں پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیل کرا دوں گا لیکن ہم نے پرویز خٹک کی یہ آفر مسترد کر دی,پی ٹی آئی کے وکلا کے ہاتھوں ہائی جیک ہونے سے متعلق سوال پر شیر افضل مروت نے کہا کہ عمران خان ہی وکلا کو سامنے لائے ہیں اور وکلا نے پارٹی کو ایسے وقت میں سنبھالا جب پی ٹی آئی شدید مشکلات سے دوچار تھی, وکلا نے ایسے موقع پر تحریک انصاف کو سنبھالا جب احتجاج تو دور کی بات، کسی کو پارٹی پرچم تک اٹھانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی، ایسے میں وکلا ہی منظرعام پر تھے جنہوں نے پارٹی کو اوپر اٹھایا اور یہ صرف عمران خان کی ہدایات پر ہوا ہے۔ شیر افضل مروت نے کہا کہ پارٹی میں جو شخص جتنا کام کرے گا اسے اتنی عزت ملے گی، کوئی بھی شخص پرانا نام ہونے کے سبب لیڈر نہیں بن سکتا۔ شیر افضل مروت نے سوشل میڈیا پر چلائی جا رہی مہم پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے لبادے میں میرے خلاف سوشل میڈیا مہم چلائی جا رہی ہے,کچھ ٹی وی اینکرز کے پروگراموں میں نہ جانے کا نوٹیفکیشن بھی سوشل میڈیا ٹیم نے جاری کیا جسے میں نہیں مانتا کیونکہ ان کی کوئی اوقات نہیں ہے، میرے باس عمران خان ہیں اور میں صرف انہیں جواب دہ ہوں۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایندھن کی درآمدی لاگت کم کرنے اور ترقی پر زیادہ خرچ کرنے کی غرض سے ٹرانسپورٹ سسٹم کو بجلی کے ذریعے چلانے پر کام کر رہا ہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد چینی نیوز ایجنسی شنہوا کو دیے اپنے پہلے انٹرویو میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان چین اور دیگر ممالک سے صاف توانائی کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا بھی منصوبہ رکھتا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان چین کے ترقی اور خوشحالی کے ماڈل سے غربت کے خاتمے، نوجوانوں کے روزگار کو فروغ دینے اور شہری اور دیہی علاقوں میں زرعی، صنعتی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد کی حوصلہ افزائی کے لیے سیکھ سکتا ہے, چینی جدیدیت نے ترقی کے مراکز اور شعبوں کو عالمی منڈی میں مسابقانہ بنایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’حالیہ سالوں میں چیلنجوں کے باوجود چین کی ترقی اب بھی دوسرے ممالک کے مقابلے میں بتدریج آگے بڑھ رہی ہے، جو ایک قابل ذکر کامیابی ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد جی ڈی آئی اور گلوبل سکیورٹی انیشیٹو کی مکمل اور مضبوطی سے حمایت کرتا ہے اور اس طرح کے اقدامات سے عالمی برادریوں کے درمیان تعلقات مضبوط ہوتے ہیں,وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے درمیان بدھ کی شام ملاقات ہوئی ہے جسے علی امین گنڈا پور نے ’مثبت‘ قرار دیا,اسلام آباد میں ملاقات کے بعد خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال اور امیر مقام کے ہمراہ صحافیوں سے بات کی۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملاقات میں وزیر اعظم سے کہا ہے کہ انہیں سینیٹ الیکشن سے متعلق مشاورت کے لیے عمران خان سے ملاقات کرنی ہے جس پر فی الحال پابندی عائد کی گئی ہے۔علی امین گنڈا پور نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ان سے کہا ہے کہ وہ عمران خان سے ان کی جلد ملاقات کو ممکن بنائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ دو اپریل کو ہونے والے والے سینیٹ الیکشن کے تناظر میں ان کی عمران خان سے ملاقات ضروری ہے۔علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے ساتھ ان کی ملاقات بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی اور شہباز شریف نے خیبر پختونخوا کے تمام مسائل بشمول بجلی کے بقایاجات کے حل میں مدد کی پوری یقین دہانی کروائی ہے۔
سینئر صحافی اسد طور کی والدہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں چیف جسٹس سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرا بیٹا اڈیالہ جیل میں ہے ملاقات نہیں کروائی جارہی۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی اسد طور کی والدہ کا ایک ویڈیو بیان سامنے آیا ہےجس میں انہوں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں اسد طور کی والدہ ہوں، میرا بیٹا دس دن ایف آئی اے کی تحویل میں رہا اور اب سات دن سے وہ اڈیالہ جیل میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نہیں جانتی میرا بیٹا کس حال میں ہے، ہماری ملاقات نہیں کروائی جارہی، ہم ہائی کورٹ سے آرڈر بھی لے کر گئے مگر اڈیالہ جیل انتظامیہ نے ہماری ملاقات نہیں کروائی، جناب چیف جسٹس صاحب آپ اس معاملے کو دیکھیں۔ اسد طور کی والدہ نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب آپ نے ہی کہا تھا کہ اسد پر یہ کیس بنتا ہی نہیں ہے ، یہ کیس کیوں بنایا گیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس ایف آئی آر کو خارج کرکے میرے بیٹے کو رہا کردیا جائے، یہ ایک ماں کی پرزور پردرد اپیل ہے، چیف جسٹس صاحب قانونی دائرہ کار میں رہتےہوئے ہماری مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ 16 دن ہوگئے ہیں میں نے اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا، مجھے نہیں پتا وہ کس حال میں ہے، ہماری کوئی ملاقات نہیں ہے ، کوئی چیز نہیں جانے دی گئی۔
وفاقی کابینہ کی تشکیل کےبعد بھی متعدد اہم وزارتیں اور ڈویژنز وفاقی وزراء سے محروم ہیں- 19 رکنی کابینہ کے حلف اٹھانے کے باوجود کئی اہم وزارتیں خالی ہیں تفصیلات کے مطابق 19 رکنی کابینہ نے حلف اٹھالیا ہے مگر ایک درجن سے زائد وزراتیں خالی ہیں جن کا قلمدان وزیراعظم شبہاز شریف نے اپنے پاس رکھ لیا- کئی اہم وزارتوں اورڈویژنز کاقلمدان تاحال کسی کونہیں دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کی جانب سے تمام وزراء کو ایک یا ایک سے زائد وزارت یا ڈویژن کے قلمدان تفویض کئے گئے- اب بھی کل 33وفاقی وزارتوں اور 40 ڈویژنز میں سے ایک درجن سے زائد وزارتوں اور ڈویژن کے قلمدان تاحال کسی کو نہیں سونپے گئے- جو وزارتیں تاحال خالی ہیں، ان میں موسمیاتی تبدیلی، آئی ٹی، مواصلات،بین الصوبائی رابطہ،پارلیمانی امور,صحت اورنیشنل فوڈ سیکیورٹی کاقلمدان شامل ہیں جبکہ وزیراعظم شہبازشریف مذہبی امور،آبی وسائل،امورکشمیر وگلگت بلتستان،نیشنل سیکیورٹی اورتخفیف غربت وسماجی تحفظ ڈویژن کےانچارج وزیربھی خود ہیں۔ ان وزارتوں کو خالی رکھنے کا مقصد فی الحال سامنے نہیں آسکا مگر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ وزارتیں مستقبل میں پیپلزپارٹی کو دی جاسکتی ہیں جبکہ ایک آدھ ایم کیوایم کے حصے میں بھی جاسکتی ہے۔ یادرہے کہ گزشتہ دور حکومت میں شیری رحمان موسمیاتی تبدیلی کی وزیر تھیں، ایم کیوایم کے امین الحق آئی ٹی منسٹر تھے، مواصلات کی وزارت مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے کے پاس تھی۔ وزارت صحت پیپلزپارٹی کے عبدالقادر پٹیل کےپاس تھی۔ وزارت مذہبی امور جے یو آئی ف کے مولانا شکور مرحوم اور بعدازاں سنینٹر طلحہ محمود کے پاس تھی ۔ جبکہ 2008 میں پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ بھی وزیر مذہبی امور رہے ہیں۔ نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی وزارت ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ کے پاس تھی ۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ جو وزارتیں خالی ہیں وہ بڑی تعداد میں پیپلزپارٹی کے حصے میں جاسکتی ہیں۔جبکہ ایک وزارت ق لیگ اور ایک ایم کیوایم کو مل سکتی ہے۔