tariqbashir
Politcal Worker (100+ posts)
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی پاکستان نے ایک قرارداد تیار کی ہے جسے آپ پارٹی کا پانچ سالہ منصوبہ، انتخابی منشور، یا فرسٹ گول بھی کہ سکتے ہیں۔
1. آئین پاکستان میں تین بنیادی اداروں مقننہ قومی اسمبلی، عدلیہ سپریم کورٹ، انتظامیہ سینٹ کو الگ الگ کیا جائے تا کہ ایک شخص ایک وقت میں صرف ایک ہی ادارہ کا رکن بن سکے۔ہر ادارہ کا دائرہ اختیار وضع کیا جائے اور کسی بھی ادارہ کو ختم نہ کیا جانا یقینی بنایا جائے۔
2. ملک کوبیس انتظامی یونٹ یا اضلاع راولپنڈی ، سرگودھا، فیصل آباد، سیالکوٹ ، لاہور، ملتان، بہاولپور، سکھر، حیدرآباد، کراچی، ژوب، گوادر، کوئٹہ،خضدار، پشاور، خیبر، سوات، ایبٹ آباد، گلگت ، مظفر آباد میں تقسیم کیا جائے۔قومی حلقوں کو تحصیل کا درجہ دیا جائے۔ وفاق کے ماتحت ضلع، ضلع کے ماتحت تحصیل، تحصیل کے ماتحت یونین کونسل بنائی جائے۔ صوبہ او ر ڈویژن کے انتظامی یونٹس کو ختم کر دیا جائے۔
3. جج تحصیل قومی حلقہ عدالت کا چیف جسٹس پانچ سال رہنے کے بعد خودبخود ضلع عدالت کا جج بن جائے ۔ جج ضلع عدالت کا چیف جسٹس پانچ سال رہنے کے بعد خود بخود سپریم کورٹ کا جج بن جائے ۔ ایک چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سنئر ترین جج اس عہدے کا حقدار ہو۔ سپریم کورٹ کے بیس جج ہوں کم از کم ہر ضلع سے ایک۔
4. تمام ملکی آمدنی ، عطیات، ٹیکس وغیرہ متعلقہ تحصیل کے ریوینیو اکاؤنٹ میں جمع ہواور وفاق و ضلع و تحصیل میں سالانہ تقسیم ہو کر انکے منجمد اکاؤنٹ میں جمع ہو جائے۔ سال گزرنے کے بعد منجمد اکاؤنٹ سے کرنٹ اکاؤنٹ میں منتقل ہو جو کہ متعلقہ مقننہ، انتظامیہ و عدلیہ اکاؤنٹ میں ایک سال کے استعمال کیلئے جمع ہو۔ کسی بھی ریوینیو یا منجمد اکاؤنٹ میں سے کوئی بھی حالیہ سال کے درمیان رقم نہیں نکال سکتا اور کرنٹ اکاؤنٹ کی رقم سے ایک سال کے اخراجات پورے کر نا ہونگے۔
5. ملک میں کسی بھی چناؤ کیلئے خفیہ طریقہ کار کے بدلے ظاہری طریقہ کاریعنی اوپن ووٹنگ کو ترجیح دی جائے۔ ملک کی ہر یونین کونسل سے مقننہ کیلئے کم از کم ایک رکن چنا جائے۔ ملک کی ہر تحصیل یا قومی حلقہ سے سینٹ کیلئے کم از کم ایک رکن چنا جائے۔ صدر پاکستان مملکت کا سربراہ اور حکومت کا سربراہ بھی ہو جو براہ راست پاکستان کے عوام کے ظاہری ووٹ سے چنا جائے۔ صدر پاکستان سینٹ میں سے وفاقی وزراء چنے۔ ہر ضلع سے کم از کم ایک، ہر وفاق وزارت کیلئے صرف ایک۔ گورنر ضلع کا سربراہ اور ضلعی حکومت کا سربراہ ہو جو براہ راست اپنے ضلع کے عوام کے ظاہری ووٹ سے چنا جائے۔ گورنر بھی سینٹ میں سے ضلعی وزراء چنے۔ اگر ممکن ہو تو ہر تحصیل سے کم از کم ایک۔
6. حکومتی ادارے دفاع، مالیہ، سائنس ٹیکنالوجی، صنعت و تجارت، خوراک زراعت و مویشی، قدرتی وسائل، صحت، تعلیم، ربط، پولیس و رینجرز، توانائی و سپلائی، اطلاعات ونشریات، ہائی ویز تعمیر و نکاسی آب، داخلہ، خارجہ، انسانی حقوق و انصاف، کھیل و ثقافت، ڈاک و اندراج ، شریعت، کمیشن ٹوٹل بیس ہوں۔
7. وفاق صرف قومی سلامتی کونسل پر مشتمل ہو جس میں بیس وفاقی وزراء،بیس حکومتی اداروں کے سربراہ، بیس ضلعی حکومتوں کے سربراہ اور مملکت و حکومت کا سربراہ شامل ہوں ٹوٹل اکسٹھ۔ایک فردصرف ایک ہی بار پانچ سال کیلئے قومی سلامتی کونسل کا رکن بن سکے۔ تین چوتھائی ظاہری ووٹ سے فیصلہ ہو۔
8. قومی سلامتی کونسل پر مشتمل وفاق پاکستان کی طرز پر دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ یکساں اسلامی سلامتی کونسل پر مشتمل وفاق مملکت اسلامیہ کیلئے چاہے کسی اسلامی ملک کی سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی ہے یا نہیں ملتی لیکن اتحاد قائم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔مزید اقوام متحدہ سے کہا جا ئے کہ سلامتی کونسل سے ویٹو پاور کو ختم کرے اور تین چوتھائی ظاہری ووٹ سے فیصلہ ہو۔تاکہ ترقی پذیر ممالک بھی بین الاقوامی فیصلوں میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
9. پہلے مرحلے میں ملک کے بیس اضلاع میں کم از کم ایک فیکٹری بنائی جائے۔دوسرے مرحلے میں ملک کی ہر تحصیل یا قومی حلقہ میں کم از کم ایک فیکٹری بنائی جائے۔ تیسرے مرحلے میں ملک کی ہر یونین کونسل میں کم از کم ایک فیکٹری بنائی جائے۔مزید ایک یونین کونسل میں تیار یا پیدا ہونے والی اشیاء دوسری یونین کونسل میں بآسانی میسر ہونا یقینی بنایا جائےتا کہ ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو اورلوگوں کو روزگار ملے ۔
10. ملک کے دریاؤں کوآپس میں ایسے ملایا جائے کہ پانی رکے بغیر چلے مگر رفتار آہستہ ہو۔ جس جگہ دو دریا ملیں وہاں پانی سے بجلی پیدا کی جائے۔اور کوشش کی جائے کہ چھوٹے بحری جہاز سیالکوٹ یا لاہور تک پہنچ سکیں۔اس سے ملک کی برآمدات بڑھے گی زر مبادلہ بڑھے گا اور بجلی کے بحران کا بھی سد باب ہو گا۔بجلی کی نجی طور پر پیداوار کی اجازت دی جائے۔دریاؤں کا پانی زراعت کیلئے مہیا کیا جائے۔
11. تمام زرعی اجناس کھانے پینے کی اشیاء اور گھریلو ضروری اشیاء کی قیمتیں ایک سال کیلئے مقرر کی جائيں تا کہ مہنگائی رک سکے۔ مزید ہر تحصیل میں کم از کم تین سال کیلئے اسٹاک کیا جائے۔تین سال کی مقدار سے زائد ہونے پر ہی برآمد کی اجازت دی جائے۔تا کہ خوراک کے بحران کا سد باب ہو سکے۔ خام مال، سکریپ، قیمتی، نایاب اشیاء اور غیر تیار شدہ مال برآمد کرنے پر پابندی ہو۔
12. ملک پر سے قرضوں کا بوجھ کم کیا جائے اور آئندہ عوام کے نام پر قرض لینے سے گریز کیا جائےبلکہ عوام کے نام پر قرض لینا اور دینا ممنوع قرار دیا جائے۔ہر وہ پالیسی جس کی وجہ سے ملک کی رقوم دوسرے ممالک میں بھیجی جاتی ہیں ختم کی جائیں۔ جیسے انشورنس کسی دوسرے ملک سے کروانا، ملک میں تیار ہونے والی اشیاء ومہنگی اور بلا ضرورت اشیاء درآمد کرنا، وغیرہ۔ اسسٹنٹ سیکرٹری ، ایڈیشنل سیکرٹری اورایسے تمام غیر ضروری عہدےتمام اداروں سے ختم کئے جائیں۔آفیسر کم کئے جائیں اور ورکر بڑھائے جائیں تاکہ اخراجات کم ہو ں اور کام زیادہ ہو۔ تمام غیر ضروری بیرونی دورے ممنوع قرار دیئے جائیں، بیرونی دوروں کی بجائے ملکی سفیروں کو ہدایات دے کرکام کرنے کو ترجیح دی جائے ۔ مزید سرکاری و حکومتی و عوامی عہدیداروں کے قرض لینے کےکوٹے ختم کئے جائيں۔
13. تمام حکومتی و آزاد ادارے یکساں مراتب، یکساں مراعات، یکساں وظائف کی بنیاد پر منصفانہ قائم ہوں۔ہر وزارت کا سربراہ اپنے ادارہ کی سرگرمیوں، کارکردگی و اختیارات کا ذمہ دار ہو۔ ہرچھ ماہ بعد کارکردگی کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرے۔اگردو بار دو تہائی ہدف یا ایک بار نصف ہدف مکمل نہ ہو تو سربراہ استعفی دے۔کسی بھی زخمی یا بیمار فرد کا حق ہے اسے طبی امداد دے کر اس کی جان بچائی جائے چاہے وہ مجرم ، گناہگار ، کرپٹ ہو۔ کسی بھی غریب کا حق ہے کہ اسے خوراک کھلا کر، کپڑے پہناکر، تعلیم دلوا کر، رہنے کیلئے مکان مہیا کر کے، اس کی شادی کر کے، اسے روزگار دلوا کے اس کی مدد کی جائے۔ تمام ملکی اداروں کے عہدیدار عوام کے ملازم ہیں اور کسی بھی آفیسر کو کوئی پروٹوکول نہ دیا جائے۔ایک فرد کی رخصتی یا ریٹارئرمنٹ کے بعد سنئر ترین فرد اس کے عہدے کا حقدار ہو۔
14. تعلیم مکمل طور پر مفت مہیا کی جائے پرائمری ، مڈل، میٹرک، انٹرمیڈیٹ، گریجویشن، پوسٹ گریجویشن بلکہ ٹیکنیکل تعلیم بھی مفت ہو۔ تعلیم تین زبانوں میں ہو اردو، انگلش اور عربی۔ کسی بھی کتاب کا سلیبس کافی غوروحوض کرکے پانچ سال کے بعد تبدیل ہو ۔ تعلیم کا سلیبس ملکی اداروں کی بنیاد پر ہو ۔ ہر ملکی ادارے میں ایک مصنف سیکشن ہو جو کہ اس ادارےکے متعلق تمام جماعتوں کیلئے سلیبس کا ذمہ دار ہو۔ میٹرک میں تمام اداروں کے مضامین پڑھائے جائيں تا کہ طالب علم چن سکے کہ کس ادارے کے متعلق اس نے اعلی تعلیم حاصل کرنی ہے یا کام کرنا ہے۔ میٹرک تک تعلیم ہر پاکستانی کیلئے لازمی ہو۔ سردیوں اور گرمیوں کی تین ماہ کی بجائے صرف پندرہ دن کی چھٹیاں ہوں۔تمام تعلیمی اداروں میں اتوار کی بجائے جمعہ کو چھٹی ہو۔سکولوں میں مار نہیں پیار کی پالیسی ختم کی جائے بلکہ ایک حد تک مارنے کی اجازت دی جائے۔صحت و علاج معالجہ ہر کسی کیلئے مفت ہواور ہر کسی کو یکساں قدر دی جائے۔
1. آئین پاکستان میں تین بنیادی اداروں مقننہ قومی اسمبلی، عدلیہ سپریم کورٹ، انتظامیہ سینٹ کو الگ الگ کیا جائے تا کہ ایک شخص ایک وقت میں صرف ایک ہی ادارہ کا رکن بن سکے۔ہر ادارہ کا دائرہ اختیار وضع کیا جائے اور کسی بھی ادارہ کو ختم نہ کیا جانا یقینی بنایا جائے۔
2. ملک کوبیس انتظامی یونٹ یا اضلاع راولپنڈی ، سرگودھا، فیصل آباد، سیالکوٹ ، لاہور، ملتان، بہاولپور، سکھر، حیدرآباد، کراچی، ژوب، گوادر، کوئٹہ،خضدار، پشاور، خیبر، سوات، ایبٹ آباد، گلگت ، مظفر آباد میں تقسیم کیا جائے۔قومی حلقوں کو تحصیل کا درجہ دیا جائے۔ وفاق کے ماتحت ضلع، ضلع کے ماتحت تحصیل، تحصیل کے ماتحت یونین کونسل بنائی جائے۔ صوبہ او ر ڈویژن کے انتظامی یونٹس کو ختم کر دیا جائے۔
3. جج تحصیل قومی حلقہ عدالت کا چیف جسٹس پانچ سال رہنے کے بعد خودبخود ضلع عدالت کا جج بن جائے ۔ جج ضلع عدالت کا چیف جسٹس پانچ سال رہنے کے بعد خود بخود سپریم کورٹ کا جج بن جائے ۔ ایک چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سنئر ترین جج اس عہدے کا حقدار ہو۔ سپریم کورٹ کے بیس جج ہوں کم از کم ہر ضلع سے ایک۔
4. تمام ملکی آمدنی ، عطیات، ٹیکس وغیرہ متعلقہ تحصیل کے ریوینیو اکاؤنٹ میں جمع ہواور وفاق و ضلع و تحصیل میں سالانہ تقسیم ہو کر انکے منجمد اکاؤنٹ میں جمع ہو جائے۔ سال گزرنے کے بعد منجمد اکاؤنٹ سے کرنٹ اکاؤنٹ میں منتقل ہو جو کہ متعلقہ مقننہ، انتظامیہ و عدلیہ اکاؤنٹ میں ایک سال کے استعمال کیلئے جمع ہو۔ کسی بھی ریوینیو یا منجمد اکاؤنٹ میں سے کوئی بھی حالیہ سال کے درمیان رقم نہیں نکال سکتا اور کرنٹ اکاؤنٹ کی رقم سے ایک سال کے اخراجات پورے کر نا ہونگے۔
5. ملک میں کسی بھی چناؤ کیلئے خفیہ طریقہ کار کے بدلے ظاہری طریقہ کاریعنی اوپن ووٹنگ کو ترجیح دی جائے۔ ملک کی ہر یونین کونسل سے مقننہ کیلئے کم از کم ایک رکن چنا جائے۔ ملک کی ہر تحصیل یا قومی حلقہ سے سینٹ کیلئے کم از کم ایک رکن چنا جائے۔ صدر پاکستان مملکت کا سربراہ اور حکومت کا سربراہ بھی ہو جو براہ راست پاکستان کے عوام کے ظاہری ووٹ سے چنا جائے۔ صدر پاکستان سینٹ میں سے وفاقی وزراء چنے۔ ہر ضلع سے کم از کم ایک، ہر وفاق وزارت کیلئے صرف ایک۔ گورنر ضلع کا سربراہ اور ضلعی حکومت کا سربراہ ہو جو براہ راست اپنے ضلع کے عوام کے ظاہری ووٹ سے چنا جائے۔ گورنر بھی سینٹ میں سے ضلعی وزراء چنے۔ اگر ممکن ہو تو ہر تحصیل سے کم از کم ایک۔
6. حکومتی ادارے دفاع، مالیہ، سائنس ٹیکنالوجی، صنعت و تجارت، خوراک زراعت و مویشی، قدرتی وسائل، صحت، تعلیم، ربط، پولیس و رینجرز، توانائی و سپلائی، اطلاعات ونشریات، ہائی ویز تعمیر و نکاسی آب، داخلہ، خارجہ، انسانی حقوق و انصاف، کھیل و ثقافت، ڈاک و اندراج ، شریعت، کمیشن ٹوٹل بیس ہوں۔
7. وفاق صرف قومی سلامتی کونسل پر مشتمل ہو جس میں بیس وفاقی وزراء،بیس حکومتی اداروں کے سربراہ، بیس ضلعی حکومتوں کے سربراہ اور مملکت و حکومت کا سربراہ شامل ہوں ٹوٹل اکسٹھ۔ایک فردصرف ایک ہی بار پانچ سال کیلئے قومی سلامتی کونسل کا رکن بن سکے۔ تین چوتھائی ظاہری ووٹ سے فیصلہ ہو۔
8. قومی سلامتی کونسل پر مشتمل وفاق پاکستان کی طرز پر دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ یکساں اسلامی سلامتی کونسل پر مشتمل وفاق مملکت اسلامیہ کیلئے چاہے کسی اسلامی ملک کی سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی ہے یا نہیں ملتی لیکن اتحاد قائم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔مزید اقوام متحدہ سے کہا جا ئے کہ سلامتی کونسل سے ویٹو پاور کو ختم کرے اور تین چوتھائی ظاہری ووٹ سے فیصلہ ہو۔تاکہ ترقی پذیر ممالک بھی بین الاقوامی فیصلوں میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
9. پہلے مرحلے میں ملک کے بیس اضلاع میں کم از کم ایک فیکٹری بنائی جائے۔دوسرے مرحلے میں ملک کی ہر تحصیل یا قومی حلقہ میں کم از کم ایک فیکٹری بنائی جائے۔ تیسرے مرحلے میں ملک کی ہر یونین کونسل میں کم از کم ایک فیکٹری بنائی جائے۔مزید ایک یونین کونسل میں تیار یا پیدا ہونے والی اشیاء دوسری یونین کونسل میں بآسانی میسر ہونا یقینی بنایا جائےتا کہ ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو اورلوگوں کو روزگار ملے ۔
10. ملک کے دریاؤں کوآپس میں ایسے ملایا جائے کہ پانی رکے بغیر چلے مگر رفتار آہستہ ہو۔ جس جگہ دو دریا ملیں وہاں پانی سے بجلی پیدا کی جائے۔اور کوشش کی جائے کہ چھوٹے بحری جہاز سیالکوٹ یا لاہور تک پہنچ سکیں۔اس سے ملک کی برآمدات بڑھے گی زر مبادلہ بڑھے گا اور بجلی کے بحران کا بھی سد باب ہو گا۔بجلی کی نجی طور پر پیداوار کی اجازت دی جائے۔دریاؤں کا پانی زراعت کیلئے مہیا کیا جائے۔
11. تمام زرعی اجناس کھانے پینے کی اشیاء اور گھریلو ضروری اشیاء کی قیمتیں ایک سال کیلئے مقرر کی جائيں تا کہ مہنگائی رک سکے۔ مزید ہر تحصیل میں کم از کم تین سال کیلئے اسٹاک کیا جائے۔تین سال کی مقدار سے زائد ہونے پر ہی برآمد کی اجازت دی جائے۔تا کہ خوراک کے بحران کا سد باب ہو سکے۔ خام مال، سکریپ، قیمتی، نایاب اشیاء اور غیر تیار شدہ مال برآمد کرنے پر پابندی ہو۔
12. ملک پر سے قرضوں کا بوجھ کم کیا جائے اور آئندہ عوام کے نام پر قرض لینے سے گریز کیا جائےبلکہ عوام کے نام پر قرض لینا اور دینا ممنوع قرار دیا جائے۔ہر وہ پالیسی جس کی وجہ سے ملک کی رقوم دوسرے ممالک میں بھیجی جاتی ہیں ختم کی جائیں۔ جیسے انشورنس کسی دوسرے ملک سے کروانا، ملک میں تیار ہونے والی اشیاء ومہنگی اور بلا ضرورت اشیاء درآمد کرنا، وغیرہ۔ اسسٹنٹ سیکرٹری ، ایڈیشنل سیکرٹری اورایسے تمام غیر ضروری عہدےتمام اداروں سے ختم کئے جائیں۔آفیسر کم کئے جائیں اور ورکر بڑھائے جائیں تاکہ اخراجات کم ہو ں اور کام زیادہ ہو۔ تمام غیر ضروری بیرونی دورے ممنوع قرار دیئے جائیں، بیرونی دوروں کی بجائے ملکی سفیروں کو ہدایات دے کرکام کرنے کو ترجیح دی جائے ۔ مزید سرکاری و حکومتی و عوامی عہدیداروں کے قرض لینے کےکوٹے ختم کئے جائيں۔
13. تمام حکومتی و آزاد ادارے یکساں مراتب، یکساں مراعات، یکساں وظائف کی بنیاد پر منصفانہ قائم ہوں۔ہر وزارت کا سربراہ اپنے ادارہ کی سرگرمیوں، کارکردگی و اختیارات کا ذمہ دار ہو۔ ہرچھ ماہ بعد کارکردگی کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرے۔اگردو بار دو تہائی ہدف یا ایک بار نصف ہدف مکمل نہ ہو تو سربراہ استعفی دے۔کسی بھی زخمی یا بیمار فرد کا حق ہے اسے طبی امداد دے کر اس کی جان بچائی جائے چاہے وہ مجرم ، گناہگار ، کرپٹ ہو۔ کسی بھی غریب کا حق ہے کہ اسے خوراک کھلا کر، کپڑے پہناکر، تعلیم دلوا کر، رہنے کیلئے مکان مہیا کر کے، اس کی شادی کر کے، اسے روزگار دلوا کے اس کی مدد کی جائے۔ تمام ملکی اداروں کے عہدیدار عوام کے ملازم ہیں اور کسی بھی آفیسر کو کوئی پروٹوکول نہ دیا جائے۔ایک فرد کی رخصتی یا ریٹارئرمنٹ کے بعد سنئر ترین فرد اس کے عہدے کا حقدار ہو۔
14. تعلیم مکمل طور پر مفت مہیا کی جائے پرائمری ، مڈل، میٹرک، انٹرمیڈیٹ، گریجویشن، پوسٹ گریجویشن بلکہ ٹیکنیکل تعلیم بھی مفت ہو۔ تعلیم تین زبانوں میں ہو اردو، انگلش اور عربی۔ کسی بھی کتاب کا سلیبس کافی غوروحوض کرکے پانچ سال کے بعد تبدیل ہو ۔ تعلیم کا سلیبس ملکی اداروں کی بنیاد پر ہو ۔ ہر ملکی ادارے میں ایک مصنف سیکشن ہو جو کہ اس ادارےکے متعلق تمام جماعتوں کیلئے سلیبس کا ذمہ دار ہو۔ میٹرک میں تمام اداروں کے مضامین پڑھائے جائيں تا کہ طالب علم چن سکے کہ کس ادارے کے متعلق اس نے اعلی تعلیم حاصل کرنی ہے یا کام کرنا ہے۔ میٹرک تک تعلیم ہر پاکستانی کیلئے لازمی ہو۔ سردیوں اور گرمیوں کی تین ماہ کی بجائے صرف پندرہ دن کی چھٹیاں ہوں۔تمام تعلیمی اداروں میں اتوار کی بجائے جمعہ کو چھٹی ہو۔سکولوں میں مار نہیں پیار کی پالیسی ختم کی جائے بلکہ ایک حد تک مارنے کی اجازت دی جائے۔صحت و علاج معالجہ ہر کسی کیلئے مفت ہواور ہر کسی کو یکساں قدر دی جائے۔