atensari
(50k+ posts) بابائے فورم
علی محمد خان کی ٹویٹ پر عوامی ردِ عمل: ’ان لوگوں نے 22 کروڑ عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے‘
پارلیمنٹ ہاؤس کے کیفی ٹیریا میں یہ کوئی غیر معمولی نظارہ نہیں کہ اب سے کچھ دیر پہلے فلور آف دی ہاؤس پر تقریباً ایک دوسرے کے گریبان کو آتے سیاستدان اب کھانے کی میز پر اکٹھے بیٹھے خوش گپیوں میں مگن ہوں۔
اگر ان سے پوچھا جائے (جو کہ پوچھا جاتا ہے) کہ جناب کیا صلح ہو گئی ہے، تو ان کا جواب کم و بیش وہی ہو گا جو گذشتہ روز پی ٹی آئی کے علی محمد خان کی ٹویٹ میں درج تھا۔
علی محمد خان نے گذشتہ روز اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ اور مسلم لیگ نواز کے رہنما احسن اقبال مری میں برفباری کے دوران خوشگوار موڈ میں نظر آ رہے ہیں۔
اس تصویر کے ساتھ انھوں نے لکھا 'سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن آخر میں ہم سب پاکستانی ہیں اور یہی وہ رشتہ ہے جو ہم سب کو جوڑتا ہے۔‘
اس تصویر کے سامنے آنے کے بعد بیشتر ٹوئٹر صارفین نے ان دو مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کو ایک ساتھ دیکھ کر خاصی تنقید کی۔
ایک صارف ندیم ملک، جو اپنے پروفائل سے پی ٹی آئی کے کارکن لگتے ہیں، کہتے ہیں 'انتہائی افسوس ہوا، ہم نے اپنی دوستیاں اور دشمنیاں بھی تحریک انصاف کی وجہ سے بنائیں اور آپ اس مافیا سے شیر و شکر ہو گئے ہیں، یہ ناقابل برداشت ہے۔‘
ایک اور ٹوئٹر صارف اسد رضا نے لکھا 'پاکستانی تو نواز شریف بھی ہیں، شہباز، حمزہ، مریم، زرداری، بہت سے اور بھی ۔ ۔ ۔ ان سب کے ساتھ بھی رشتہ جوڑ لیا جائے؟ تصاویر بنا لی جائیں؟ فخر سے ٹویٹ کی جائیں؟ آپ کی اس ٹویٹ سے مایوسی ہوئی۔‘
کیا سیاست دان اپنی روز مرہ زندگی میں بھی ایک دوسرے سے اسی طرح اختلاف کا اظہار کرتے ہیں جیسا کہ وہ رات کو کسی ٹی وی کے مشہور ٹاک شو میں کرتے ہیں؟ تو اس کا جواب ہے 'ہرگز نہیں'۔
کچھ سال قبل اپنی صحافت کے ابتدائی دنوں میں جب میں نے پارلیمان ہاؤس جانا شروع کیا تو کئی دن تک اس حیرت میں وقت گزرا کہ یہ نواز لیگ کے فلاں رہنما تو پیپلز پارٹی کے فلاں لیڈر سے اس قدر اختلاف رکھتے ہیں کہ ابھی چند گھنٹے پہلے یہ ایک ٹی وی پروگرام میں لڑ رہے تھے، یا ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک دوسرے پر کرپشن کے الزام عائد کر رہے تھے یا کردار کشی کر رہے تھے، تو اب یہاں کیمرے کی آنکھ سے دور تو یہ سب دوست ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
یہ حیرانی بہرحال کچھ دنوں میں ختم بھی ہو گئی اور یہ سمجھ آ گئی کہ ان میں سے اکثریت کے اختلافات پارٹی اجلاسوں، ٹی وی کے پروگراموں اور پریس کانفرنسوں کی حد تک ہوتے ہیں۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ سوشل میڈیا پر ان دو مخالف رہنماؤں کی تصاویر خوشگوار موڈ میں سامنے آئی ہوں جن کے بارے میں عوامی تاثر یہی ہے کہ ان کے سیاسی اختلافات اس قدر زیادہ ہیں کہ شاید یہ ایک دوسرے کو دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے ہوں۔
اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ اور چند دیگر ریستوران تو اِس حوالے سے مشہور بھی ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے صحافتی، سفارتی اور سرکاری حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ کوہسار مارکیٹ محض ایک مارکیٹ نہیں، یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں شدید اختلاف رکھنے والے بھی چائے کافی پر ملاقات کرتے ہیں۔
گذشتہ سال کے عام انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے ملک کے موجودہ وزیراعظم عمران خان اور اس وقت مسلم لیگ نواز کے سرکردہ رہنما چودھری نثار علی خان کے درمیان اسی مارکیٹ میں ملاقات کی افواہیں بھی گردش میں رہی تھیں۔
اسی طرح حال ہی میں صحافی حامد میر کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں فواد چودھری اور رانا ثنا اللہ کی ملاقات کی ویڈیو بھی خاصی وائرل ہوئی۔ اسی ویڈیو پر رائے دیتے ہوئے ایک شہری نصراللہ خان نے لکھا 'یہ سب ایک ہیں ان لوگوں نے 22 کروڑ عوام کو ٹرک کی بتی کے پھچھے لگایا ہوا ہے'۔
حال ہی میں اس وقت ایک تصویر سوشل میڈیا پر آئی جس میں پی ٹی آئی کے فواد چودھری اور مسلم لیگ نواز کی مائزہ حمید اور مفتاح اسماعیل دیگر ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے تھے، یہ اس وقت کی بات ہے جب سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو جیل بھیجا گیا تھا۔
عوام ٹاک شوز، اخبارات اور سوشل میڈیا ٹویٹس کو اتنا سنجیدہ لے لیتے ہیں کہ انھیں لگتا ہے کہ یہ سب سیاستدان اصل زندگی میں بھی ایسے ہی ہیں لیکن کئی ایسے بھی ہیں جو بات چیت کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ مثلا صحافی فریحہ ادریس نے کہا: 'اتنی سردی میں اچھے اخلاق کی ٹھنڈک۔۔۔ خوبصورت تصویر۔۔۔ خدا آپ کا حامی ہو'۔
ڈاکٹر منصور کلاسرہ کہتے ہیں: 'جنهوں نے اس ملک کو لوٹا، مقروض کیا، معیشت کو برباد کیا، غربت جہالت کا راج کیا، آپ ان کے ساتھ کانفرنس میں ہیں، تصویر بنوا رہے ہیں، کمال ہے سر ویسے'۔
عوامی حلقوں سے دور اس میل جول اور باہمی دوستی کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں خاندانی سیاست کا راج بھی ہے۔
پارلیمان میں موجود نصف سے زیاد سیاستدان ایسے ہیں جو کئی دہائیوں سے سیاست سے وابستہ ہیں اور ان میں سے بیشتر ایک دوسرے کے رشتہ دار بھی ہیں۔ یہاں ایک ہی چھت تلے رہنے والے مگر مختلف سیاسی نظریات کی وجہ سے کئی لوگ مختلف سیاسی جماعتوں سے منسلک رہے ہیں۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے رہنما طلال چودھری کہتے ہیں کہ تمام سیاستدان ذاتی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ بہت دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں۔
'ٹی وی پر سیاستدان اپنے لیڈر اور پارٹی کی نمائندگی کررہا ہوتا ہے، اس لیے ان کی پالیسی کا دفاع کرتا ہے۔ البتہ جب کوئی ذاتی زندگی یا اہلخانہ کو نشانہ بنائے تو پھر یہ دوستی نہیں رہتی اور اس کا جواب دینا ضروری ہوتا ہے۔‘
اس سوال پر کہ یہ دوستی کیا سیاسی نظریات پر سمجھوتے کا باعث بھی بنتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن ہے کہ ایک سیاستدان اس لیے اپنے رویے اور بیان میں نرمی لے آئے کہ اس کے پارٹی مخالف شخص سے ذاتی تعلق قریبی نوعیت کا ہے۔
'ایک وقت تھا جب مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی میں اختلافات عوامی سطح پر اس قدر بڑھ چکے تھے کہ عام لوگ آپس میں ایک دوسرے کی خوشی غمی پر نہیں جاتے تھے۔
عوامی رائے متوازن ہونے میں خاصا وقت لگا لیکن پی ٹی آئی کے پڑھے لکھے لوگوں نے سیاسی انتہا پسندی کو عوام میں ایک نئی نہج پر پہنچا دیا ہے۔
عوام میں ایسی رائے قائم کرنے والے اگر سیاسی مخالفین کے ساتھ ایسی تصاویر شیئر کرتے ہیں تو پھر انھیں اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو قائل بھی کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس کو منافقت ہی سمجھیں گے'۔
لیکن یہ صرف سیاستدانوں تک ہی محدود نہیں۔ آپ نے پاکستان کے انٹیلیجنس ادارے آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ احسان الحق کی انڈین خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت کے ساتھ ایک مشہور تصویر تو یقیناً دیکھی ہی ہو گی جس میں دونوں سربراہان گلے مل رہے ہیں۔
تو ایک ٹوئٹر صارف فرخ خان درانی نے ایسی ہی ایک تصویر کے نیچے رائے دی اور لکھا 'مجھے لگتا ہے شاید عوام ہی پاگل ہے۔‘
پارلیمنٹ ہاؤس کے کیفی ٹیریا میں یہ کوئی غیر معمولی نظارہ نہیں کہ اب سے کچھ دیر پہلے فلور آف دی ہاؤس پر تقریباً ایک دوسرے کے گریبان کو آتے سیاستدان اب کھانے کی میز پر اکٹھے بیٹھے خوش گپیوں میں مگن ہوں۔
اگر ان سے پوچھا جائے (جو کہ پوچھا جاتا ہے) کہ جناب کیا صلح ہو گئی ہے، تو ان کا جواب کم و بیش وہی ہو گا جو گذشتہ روز پی ٹی آئی کے علی محمد خان کی ٹویٹ میں درج تھا۔
علی محمد خان نے گذشتہ روز اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ اور مسلم لیگ نواز کے رہنما احسن اقبال مری میں برفباری کے دوران خوشگوار موڈ میں نظر آ رہے ہیں۔


اس تصویر کے ساتھ انھوں نے لکھا 'سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن آخر میں ہم سب پاکستانی ہیں اور یہی وہ رشتہ ہے جو ہم سب کو جوڑتا ہے۔‘
اس تصویر کے سامنے آنے کے بعد بیشتر ٹوئٹر صارفین نے ان دو مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کو ایک ساتھ دیکھ کر خاصی تنقید کی۔
ایک صارف ندیم ملک، جو اپنے پروفائل سے پی ٹی آئی کے کارکن لگتے ہیں، کہتے ہیں 'انتہائی افسوس ہوا، ہم نے اپنی دوستیاں اور دشمنیاں بھی تحریک انصاف کی وجہ سے بنائیں اور آپ اس مافیا سے شیر و شکر ہو گئے ہیں، یہ ناقابل برداشت ہے۔‘
ایک اور ٹوئٹر صارف اسد رضا نے لکھا 'پاکستانی تو نواز شریف بھی ہیں، شہباز، حمزہ، مریم، زرداری، بہت سے اور بھی ۔ ۔ ۔ ان سب کے ساتھ بھی رشتہ جوڑ لیا جائے؟ تصاویر بنا لی جائیں؟ فخر سے ٹویٹ کی جائیں؟ آپ کی اس ٹویٹ سے مایوسی ہوئی۔‘
کیا سیاست دان اپنی روز مرہ زندگی میں بھی ایک دوسرے سے اسی طرح اختلاف کا اظہار کرتے ہیں جیسا کہ وہ رات کو کسی ٹی وی کے مشہور ٹاک شو میں کرتے ہیں؟ تو اس کا جواب ہے 'ہرگز نہیں'۔
کچھ سال قبل اپنی صحافت کے ابتدائی دنوں میں جب میں نے پارلیمان ہاؤس جانا شروع کیا تو کئی دن تک اس حیرت میں وقت گزرا کہ یہ نواز لیگ کے فلاں رہنما تو پیپلز پارٹی کے فلاں لیڈر سے اس قدر اختلاف رکھتے ہیں کہ ابھی چند گھنٹے پہلے یہ ایک ٹی وی پروگرام میں لڑ رہے تھے، یا ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک دوسرے پر کرپشن کے الزام عائد کر رہے تھے یا کردار کشی کر رہے تھے، تو اب یہاں کیمرے کی آنکھ سے دور تو یہ سب دوست ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
یہ حیرانی بہرحال کچھ دنوں میں ختم بھی ہو گئی اور یہ سمجھ آ گئی کہ ان میں سے اکثریت کے اختلافات پارٹی اجلاسوں، ٹی وی کے پروگراموں اور پریس کانفرنسوں کی حد تک ہوتے ہیں۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ سوشل میڈیا پر ان دو مخالف رہنماؤں کی تصاویر خوشگوار موڈ میں سامنے آئی ہوں جن کے بارے میں عوامی تاثر یہی ہے کہ ان کے سیاسی اختلافات اس قدر زیادہ ہیں کہ شاید یہ ایک دوسرے کو دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے ہوں۔
اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ اور چند دیگر ریستوران تو اِس حوالے سے مشہور بھی ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے صحافتی، سفارتی اور سرکاری حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ کوہسار مارکیٹ محض ایک مارکیٹ نہیں، یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں شدید اختلاف رکھنے والے بھی چائے کافی پر ملاقات کرتے ہیں۔
گذشتہ سال کے عام انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے ملک کے موجودہ وزیراعظم عمران خان اور اس وقت مسلم لیگ نواز کے سرکردہ رہنما چودھری نثار علی خان کے درمیان اسی مارکیٹ میں ملاقات کی افواہیں بھی گردش میں رہی تھیں۔
اسی طرح حال ہی میں صحافی حامد میر کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں فواد چودھری اور رانا ثنا اللہ کی ملاقات کی ویڈیو بھی خاصی وائرل ہوئی۔ اسی ویڈیو پر رائے دیتے ہوئے ایک شہری نصراللہ خان نے لکھا 'یہ سب ایک ہیں ان لوگوں نے 22 کروڑ عوام کو ٹرک کی بتی کے پھچھے لگایا ہوا ہے'۔
حال ہی میں اس وقت ایک تصویر سوشل میڈیا پر آئی جس میں پی ٹی آئی کے فواد چودھری اور مسلم لیگ نواز کی مائزہ حمید اور مفتاح اسماعیل دیگر ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے تھے، یہ اس وقت کی بات ہے جب سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو جیل بھیجا گیا تھا۔
عوام ٹاک شوز، اخبارات اور سوشل میڈیا ٹویٹس کو اتنا سنجیدہ لے لیتے ہیں کہ انھیں لگتا ہے کہ یہ سب سیاستدان اصل زندگی میں بھی ایسے ہی ہیں لیکن کئی ایسے بھی ہیں جو بات چیت کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ مثلا صحافی فریحہ ادریس نے کہا: 'اتنی سردی میں اچھے اخلاق کی ٹھنڈک۔۔۔ خوبصورت تصویر۔۔۔ خدا آپ کا حامی ہو'۔
ڈاکٹر منصور کلاسرہ کہتے ہیں: 'جنهوں نے اس ملک کو لوٹا، مقروض کیا، معیشت کو برباد کیا، غربت جہالت کا راج کیا، آپ ان کے ساتھ کانفرنس میں ہیں، تصویر بنوا رہے ہیں، کمال ہے سر ویسے'۔
عوامی حلقوں سے دور اس میل جول اور باہمی دوستی کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں خاندانی سیاست کا راج بھی ہے۔
پارلیمان میں موجود نصف سے زیاد سیاستدان ایسے ہیں جو کئی دہائیوں سے سیاست سے وابستہ ہیں اور ان میں سے بیشتر ایک دوسرے کے رشتہ دار بھی ہیں۔ یہاں ایک ہی چھت تلے رہنے والے مگر مختلف سیاسی نظریات کی وجہ سے کئی لوگ مختلف سیاسی جماعتوں سے منسلک رہے ہیں۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے رہنما طلال چودھری کہتے ہیں کہ تمام سیاستدان ذاتی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ بہت دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں۔
'ٹی وی پر سیاستدان اپنے لیڈر اور پارٹی کی نمائندگی کررہا ہوتا ہے، اس لیے ان کی پالیسی کا دفاع کرتا ہے۔ البتہ جب کوئی ذاتی زندگی یا اہلخانہ کو نشانہ بنائے تو پھر یہ دوستی نہیں رہتی اور اس کا جواب دینا ضروری ہوتا ہے۔‘
اس سوال پر کہ یہ دوستی کیا سیاسی نظریات پر سمجھوتے کا باعث بھی بنتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن ہے کہ ایک سیاستدان اس لیے اپنے رویے اور بیان میں نرمی لے آئے کہ اس کے پارٹی مخالف شخص سے ذاتی تعلق قریبی نوعیت کا ہے۔
'ایک وقت تھا جب مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی میں اختلافات عوامی سطح پر اس قدر بڑھ چکے تھے کہ عام لوگ آپس میں ایک دوسرے کی خوشی غمی پر نہیں جاتے تھے۔
عوامی رائے متوازن ہونے میں خاصا وقت لگا لیکن پی ٹی آئی کے پڑھے لکھے لوگوں نے سیاسی انتہا پسندی کو عوام میں ایک نئی نہج پر پہنچا دیا ہے۔
عوام میں ایسی رائے قائم کرنے والے اگر سیاسی مخالفین کے ساتھ ایسی تصاویر شیئر کرتے ہیں تو پھر انھیں اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو قائل بھی کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس کو منافقت ہی سمجھیں گے'۔
لیکن یہ صرف سیاستدانوں تک ہی محدود نہیں۔ آپ نے پاکستان کے انٹیلیجنس ادارے آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ احسان الحق کی انڈین خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت کے ساتھ ایک مشہور تصویر تو یقیناً دیکھی ہی ہو گی جس میں دونوں سربراہان گلے مل رہے ہیں۔
تو ایک ٹوئٹر صارف فرخ خان درانی نے ایسی ہی ایک تصویر کے نیچے رائے دی اور لکھا 'مجھے لگتا ہے شاید عوام ہی پاگل ہے۔‘
سورس
Last edited: