تجزیہ کار حبیب اکرم نے خیبرپختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے سےتعلق تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ نتائج کچھ بھی رہے ہوں، اصل بات یہ ہے کہ ان کے نتیجے میں پاکستان میں بنیادی تبدیلیوں کے راستے ہموار ہوگئے ہیں۔ سب سے پہلی تبدیلی تو یہ آئی کہ خان صاحب نے اس الیکشن میں تحریک انصاف کی شکست قبول کرکے پاکستان میں ایک نئے سیاسی کلچر کی ابتدا کی ہے۔
حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ بے شک یہ وہی عمران خان ہیں جنہوں نے 2013 کے عام انتخابات میں اپنی شکست قبول کرنے کے بجائے مفروضہ دھاندلی پر 126 دن کا دھرنا دیا اور ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کیے رکھا تھا۔ اگر آج وہ الیکشن میں اپنی شکست تسلیم کر رہے ہیں تو پاکستان جیسے ملک میں یہ جمہوریت کیلئے نیک شگون ہے۔
انہوں نے کہا ہماری تو روایت یہ ہے کہ سیاسی رہنما اپنی شکست قبول کرنے کے بجائے دھاندلی کا بے سرا راگ الاپ الاپ کر دنیا بھر میں اپنے ملک کی بے عزتی کا باعث بنتے ہیں۔ 1977 اور 2002 کے الیکشنوں کو چھوڑ کر دیگر عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر دعوے اور بیانات تو بے شمار مل جائیں گے، ثبوت شاید ہی مل سکے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اس پس منظر میں اگر کوئی حکمران اپنی سیاسی طاقت کے گڑھ میں ہار جائے اور پھر اسے اپنی ہی غلطیوں کا نتیجہ کہے تواسے ایک نئے دور کا آغاز ہی سمجھنا چاہیے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کے طور پر ان کے پاس اس شکست کو مان لینے کے سوا چارہ ہی نہیں تھا، اگروہ دھاندلی کا الزام لگاتے تویہ انہی پرلوٹ آتا۔
مگر وزیراعظم کے پاس یہ راستہ پھر بھی موجود تھا کہ وہ ذومعنی باتیں کرکے اپنی شکست کو کچھ غیر مرئی عناصر کے کھاتے میں ڈال دیتے لیکن انہوں نے کھلے دل سے اپنی غلطی مان کر واقعی بڑے پن کا ثبوت دیا ہے۔
حبیب اکرم نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ان اداروں کے سربراہ عام آدمی کے ووٹ سے منتخب ہوئے ہیں۔ اس تبدیلی کا مطلب ہے کہ پاکستان میں چارسدہ کے تحصیل چیئرمین کو لندن کے میئر جتنی وقعت اور اختیار مل گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو چھوڑ کر تحریک انصاف سے پہلے یہ توفیق یا ہمت کسی حکومت کو نہیں ہوئی کہ وہ میئر یا چیئرمین کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے ممکن بنائے۔
جنرل مشرف کو بھی بلدیاتی اداروں کے براہ راست انتخاب سے اپنی حلیف مسلم لیگ ق کی وجہ سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا جو آج پنجاب میں تحریک انصاف کی حلیف ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کو اس وقت کے نظام کے تحت طاقتور ضلع ناظم سے جیسے چڑ تھی۔ انہوں نے حکومت سنبھالتے ہی اس نظام کی طاقت پر کلہاڑا چلا دیا۔
حبیب اکرم نے کہا کہ اب بھی پنجاب کے مجوزہ بلدیاتی نظام میں جتنی الجھنیں پائی جاتی ہیں دراصل انہی کی پیدا کردہ ہیں۔ پیپلز پارٹی نے تو خیر کبھی بلدیاتی نظام کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ اس نے اپنی 50 سالہ سیاسی زندگی میں پہلی بار سندھ میں بلدیاتی انتخابات اسی وقت کرائے جب عدالت کا حکم آیا۔ اب پھر ایک بے معنی سا بلدیاتی نظام سندھ میں رائج کرکے عوام اور عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتی ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کا ریکارڈ بلدیاتی اداروں کے حوالے سے اس حد تک بہتر ہے کہ اس نے موقع ملنے پر الیکشن کرائے مگر کبھی ان اداروں کو طاقتور بنایا نہ ان کی سربراہی مضبوط ہاتھوں میں جانے دی۔ 2015 میں تو مذاق کی حد تک مفلوج ادارے بنائے۔ جب ان کے سربراہوں کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو اُن لوگوں کو بڑے بڑے شہروں کی ذمہ داریاں سونپ دیں جو پانچ مرلے کا گھر تک ٹھیک سے نہیں بنا سکتے تھے۔
تحریک انصاف نے عوام کے ووٹوں سے براہ راست ان سربراہوں کے انتخاب کا آغاز کرکے پاکستان کے سیاسی نظام کی وہ بنیاد ٹھیک کردی ہے جو گزشتہ 75 سال سے ٹیڑھی تھی۔ جب سے عمران خان ملک کے وزیراعظم بنے ہیں، ان کی حکومت مخالفین کے حملوں کی زد میں رہی ہے۔ ان حملوں کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سوائے پیپلزپارٹی کے اپوزیشن کی کسی بھی جماعت کے پاس ووٹ ہونے کے باوجود کوئی اختیار نہیں تھا۔
حبیب اکرم نے تجزیے میں کہا کہ عمران خان نے حکومت میں رہتے ہوئے گزشتہ سوا 3 سالوں میں چاہے کچھ نہیں کیا لیکن ایک طاقتور اور عوام کے ووٹوں سے براہ راست تشکیل پانے والا بلدیاتی نظام متعارف کرا کے پاکستان کے سیاسی کلچر میں تبدیلی کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے۔ انہوں نے ووٹ کو وہ عزت دلا دی ہے جس کا وہ مستحق ہے۔
اب وزیراعظم سے لے کر میئر تک اور قومی اسمبلی کے رکن سے لے کر محلے کے کونسلر تک، ہر شخص ووٹ کے زور پرہی اپنے عہدے پرآئے۔ ووٹ ہی اس کا احتساب کرے اور ووٹ ہی انتخاب۔ ہمارے تمام مسائل چاہے وہ معاشی ہوں یا سماجی دراصل ہمارے سیاسی نظام کی بے معنویت سے پیدا ہوتے ہیں۔
حبیب اکرم کے مطابق عمران خان نے سیاسی نظام کے کھوکھلے پن کو ختم کرکے پاکستان میں مسائل کے حل کی راہ ہموار کردی ہے۔ چاہے وہ خیبرپختونخوا کا الیکشن ہار گئے ہیں لیکن انہوں نے تاریخ میں جیت ہمیشہ کے لیے اپنے نام کرلی ہے۔ اگر یہ نظام چلتا رہتا ہے تو پاکستان میں آنے والے سیاسی استحکام کا سہرا بھی عمران خان کے سر ہی سجے گا۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/habib-kpk11.jpg