
اب بتائیے یہاں یہ مثال دی تو کتنوں نے کہنا ہے سخت الٖفاظ بول دیے لیکن اس کو سمجھ نہیں آ رہی اس کو سوئی وہاں وہاں کی اڑی ہوئی ہے اوئے تو کہیں اپنی دھوتی کو آگ لگا کر عمران خان پر ڈال دے ذلیل ہو گئے کسی اور نہیں اپنوں کے ہاتھوں اسی بات پر اور یہ ڈرامے باز وہاں کا وہاں آڑا ہوا ہے اسے کہتے ہیں کہ ذلیل ہونے کی عادت ہی نہیں لت پر گئی کہ مجھے میرے غیر تو غیر اپنے گالیاں نکالیں مجھے پھر سکون ملتا ہے فضل الرحمن سیاست میں ایک بدنام زمانہ کردار ہے اس کا انداز انتہائی منافقا نہ ۔۔۔۔۔۔ اس پر اگر کوئی جملہ کسا جائے اس کو فورا عوام میں پزیرائی ملتی ہے لوگ اس کے طرز سیاست کو انتہائی نفرت سے دیکھتے ہیں یہ اپنے آپ کو ایک مذہبی رہنماء کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن اس میں مذہب نام کی کوئی چیز نہیں ہے سب سےپہلے اسے ڈیزل کے پرمٹ پر سیاست کرنے والا اس کے اتحادیوں نے بولا اور آج تک اس کی جائیداد ڈیزل پرمٹ کو لے کر کئ باتیں ہو چکی ہیں جس کو آج تک یہ کلیر نہیں کرسکا اس کے اتحادی طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہیں لیکن یہ ان کا ہم نوالہ ہم پیالہ ہے بس یہ اقتدار کا بھوکا شخص ہے جہاں سے مرضی ملے اور وہ جو مرضی کرے چاہے دین کے خلاف قانون سازی ہی کیوں نہ ہو اب اسے اقتدار سے باہر رہنا ہضم نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے یہ ماہی بے آب کی طرح ترپ رہا ہے اور اب کرپشن پکڑے جانے کا خوف تو اسے رات دن بے چین کیے ہوئے ہے کیوں اس کے بعد اس کا جیل جانا پکا نظر آرہا ہے اور بدنامی علیحدہ ہے عورت کی حکمرانی کو حرام کہہ کر تحریک چلانے والا یہ نام نہاد عالم پھر بے نظیر کے پیروں میں بیٹھ کر ڈیزل کے پرمٹ پر بک جانے والا یہ نام نہاد خواہ خاہ لیڈر اب مریم بلاول کے آگے پیچھے پھر رہا ہے اور اس کے پیروکار اسے سیاسی بصیرت کہہ کر بات ٹال دیتے ہیں جہالت کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
لعنت اس کے دینی رہنما ہونے پر آج تک اس طرح کسی پاکستانی دینی رہنما نے اس طرح کی بے حیا سزا یافتہ نااہل عورت کے ساتھ پریس کانفرنس نہیں کی ہو گیں جس بے باکی کے ساتھ یہ کھڑا ہوتا ہے آج اس سے منسلک مزہبی لوگوں کا چہرہ شرم سے جھک جانا چاہیے یا اسکی پر زورمخالفت کرنی چاہیے اور اس نام نہاد دینی رہنما سے برات کا اعلان کرنا چاہیے
اس نے تو مذہبی لوگوں کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے بلکہ ان کی واٹ لگا دی ہے ان کے پلے ککھ نہیں رہنے دیا کس طرح آج کل جلسوں میں میوزک بج رہا ہوتا ہے مریم سمیت کئی بے پردہ ننگیں منہ میک اپ کئے عورتیں سٹیج پر آتی ہیں اور یہ مولانا ڈیزل اور اس کے کارکن اتنی بڑی داڑھیوں کے ساتھ میوزک کی تھاپ پر اس کا استقبال کر رہے ہوتے ہیں ان لوگوں کے سامنے ڈھول کی تھاپ پر مختلف جماعتوں کے کارکن ڈانس کر رہے ہوتے ہیں یہ بے شرم ڈیزل وہاں کھڑا اپنے کارکنوں کے ساتھ تماش بین بنا بیٹھا ہوتا ہے کیا انہوں نے لوگوں کو دین کی تبلیغ کرنی ہے کہ برائیوں سے بچو