چمگادڑ کھانے پر پابندی

uetian

Senator (1k+ posts)


ایبولا سے بچاؤ کے لیے چمگادڑ کھانے پر پابندی


http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2014/03/140326_ebola_bat_ban_guinea_zs.shtml : لنک



افریقی ملک گنی میں مہلک ترین وائرس ایبولا کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے چمگادڑوں کی خریدو فروخت اور انھیں کھانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
گنی کے وزیرِ صحت رینی لماہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ چمگادڑ گنی میں ایک مرغوب غذا ہے لیکن ملک کے جنوبی علاقوں میں ایبولا کے پھیلاؤ میں ان کا مرکزی کردار رہا ہے۔


یہ پہلا موقع ہے کہ گنی میں ایبولا کے مریض سامنے آئے ہیں۔


تاحال صرف گنی میں اس وائرس سے 62 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس کے ہمسایہ ممالک لائبریا اور سیرالیون میں بھی اس وائرس کے مشتبہ مریض سامنے آنے کی اطلاعات ہیں۔
ایبولا وائرس قریبی میل جول سے پھیلتا ہے اور تاحال اس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے۔


عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اس وائرس سے ہلاکت کی شرح 25 سے 90 فیصد کے درمیان ہے اور اس کا تعلق وائرس کی شدت سے ہے۔
ایبولا سے متاثر ہونے کی علامات میں خون کا اخراج، اسہال اور قے شامل ہیں۔


گنی کے دارالحکومت کوناکری میں بی بی سی کے نامہ نگار کا کہا ہے کہ وزیرِ صحت نے چمگادڑوں کی فروخت اور انھیں بطور غذا استعمال کرنے پر پابندی کا اعلان ملک کے جنگلات کے دورے کے موقع پر کیا جو کہ اس وبا کا مرکز ہیں۔


نامہ نگار کا کہنا ہے کہ جو لوگ چمگادڑ کھاتے ہیں وہ انھیں اکثر ایک مصالحہ دار سوپ میں ابالتے ہیں جو کہ دیہات میں ان دکانوں میں فروخت ہوتا ہے جہاں لوگ الکحل خریدنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔


مغربی اور وسطی افریقہ میں پائی جانے والی چمگادڑوں کی کچھ اقسام ایبولا وائرس کی قدرتی کیریئر ہوتی ہیں تاہم خود ان میں اس وائرس کی نشانیاں ظاہر نہیں ہوتیں۔

palau_delicacies2.jpg




ایبولا وائرس، مغربی افریقی ممالک ہائی الرٹ


www.dw.de/urdu لنک
مغربی افریقی ممالک ایبولا نامی انتہائی مہلک وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم اس کے باوجود گنی میں مبینہ طور پر اسی وائرس کے باعث انسٹھ افراد کی ہلاکت کو رپورٹ کیا گیا ہے۔


خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ ایبولا وائرس میں مبتلا ہونے کے شبے میں گنی کے ہمسایہ ممالک سیرا لیون اور لائبیریا میں بھی متعدد افراد کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔ مغربی افریقی ممالک میں اس وائرس کے پھیلاؤ کو انتہائی خطرناک قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ وہاں بنیادی صحت عامہ کا شعبہ پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے۔
گنی میں ایبولا وائرس میں مبتلا ہونے والے تمام تر افراد کا تعلق جنوب مغربی علاقوں سے ہے، جہاں لوگ اب احتیاطی تدابیر کے تحت اجتماعات سے کترا رہے ہیں جبکہ اب علاقوں میں ٹرانسپورٹرز نے بھی جانے سے انکار کر دیا ہے، جس کے باعث وہاں اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔


گنی کے ہمسایہ ملک لائبیریا کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ اُن کے ہاں ممکنہ طور پر ایبولا وائراس کے9 کیس درج کیے گئے ہیں۔ ان میں سے پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ چار کا علاج جاری ہے۔ طبی حکام کے مطابق ہلاک ہونے والوں کے جسموں سے نمونے لیے گئے ہیں تاکہ اس بات کی تحقیقات کی جا سکیں کہ آیا وہ ایبولا وائرس کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئے ہیں یا ان کے موت کا سبب کچھ اور بنا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر افراد نے گنی کا سفر کیا تھا۔




عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی تصدیق کی ہے کہ جنوب مغربی گنی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں 86 افراد ممکنہ طور پر ایبولا وائراس میں مبتلا پائے گئے ہیں، جن میں سے 59 ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد تیرہ افراد کی ہلاکتوں کا سبب اسی مہلک وائرس کو قرار دیا گیا ہے جبکہ ہلاک ہونے والے یا بیمار دیگر افراد کے طبی ٹٰیسٹوں کا سلسلہ جاری ہے۔


گنی کے علاقے Guekedou میں امدادی ادارے پلان انٹرنیشنل سے وابستہ جوزف گباکا کا اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا، لوگ خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو ایک یا دو دنوں کے دوران ہی مرتے دیکھا ہے۔ وہ مسلسل اس اندیشے میں مبتلا ہیں کہ اگلا مرنے والا کون ہو گا۔

ایبولا 1976ء میں پہلی مرتبہ ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو میں دریافت کیا گیا تھا۔ اس وائرس میں مبتلا ہونے والے افراد کو اسہال کی شکایت ہوتی ہے، اس کے علاوہ اُن کے جسم کے اندرونی اور بیرونی اعضاء سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس مرض کی ابتدائی علامات میں سر درد، بخار، مساموں میں درد، کمزروی اور سینے کی جکڑ شامل ہے۔ اس بیماری میں مبتلا مریض کے ساتھ قریبی رابطے سے یہ وائرس منتقل ہو سکتا ہے۔


اس مرض کی آخری وبا 2007ء میں کانگو سے پھیلی تھی، جس کے نتیجے میں 187 افراد مارے گئے تھے۔ سائنسدان ابھی تک اس بارے میں لاعلم ہیں کہ یہ مہلک وائرس کیا ہے اور پہلی مرتبہ کس طرح ایک وبا کی صورت میں پھیلا تھا۔


edeee060-d6bb-40eb-a5c4-51555a3ae6c6-444x333.jpg


http://www.trturdu.com/trtworld/ur/newsDetail.aspx?HaberKodu=fb188a89-310e-487d-8c23-5df0f870db72
ایبولا وائرس : ہلاک شدگان کی تعداد ایک سو چالیس سے تجاوز کر گئی
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ، مغربی افریقہ میں پھوٹ پڑنے والی ایبولا وائرس کی وبا سے اب تک ۱٤۰ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں

 
Last edited:

uetian

Senator (1k+ posts)
پورانی خبر نہیں یہ تو ؟؟

میرے خیال سے دو تین مہینے پھیلے لگی تھی پابندی

جی ہاں، آپ نے درست لکھا،؛
پہلی خبر مارچ کی ہے، دوسری اور تیسری خبریں کل چھبیس مئی کی ہیں
 

uetian

Senator (1k+ posts)

;) باز نہیں اہے کیا وہ ابھی تک ؟؟

اب یہ وائرس آہستہ آہستہ اس پاس کے ممالک میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا ہے، مارچ تک ساٹھ ستر اموات ہوئی تھیں، اب ایک سو چالیس تک ہو گئی ہیں.... اسی لیے زیادہ تشویش ہونی شروع ہو گئی ہے دنیا کو
پہلے چمپنزی سے ایڈز لے آئے یہ لوگ ، اب چمگادڑوں سے ایبولا لے آئے ہیں
:( پاکستان پر پولیو کی وجہ سے پابندی لگ گئی لیکن ان پر کبھی ایسی پابندی لگی ہو ،..، سنا نہیں
 

Back
Top