
برطانیہ میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں لیبر پارٹی کو درپیش سیاسی دباؤ کے بعد، حکومت نے امیگریشن سے متعلق سخت اقدامات کی تیاری شروع کر دی ہے، جس کے تحت پاکستان سمیت بعض ممالک کے طلبہ پر ویزا پابندیاں عائد کیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق، برطانوی حکام کا ماننا ہے کہ بعض غیر ملکی طلبہ برطانیہ پہنچنے کے بعد سیاسی پناہ کی درخواست دائر کرتے ہیں، جس کے پیش نظر حکومت ایسی درخواستوں کو روکنے کے لیے نئے قوانین متعارف کروانے پر غور کر رہی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے ہفتے اس حوالے سے ایک باضابطہ پالیسی دستاویز (وائٹ پیپر) شائع کی جائے گی، جس میں خالص نقل مکانی کو کم کرنے کے لیے حکومتی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا۔
برطانوی وزارت داخلہ کے مطابق یہ امیگریشن وائٹ پیپر "ہمارے ٹوٹے ہوئے امیگریشن سسٹم میں نظم و ضبط بحال کرنے" کے لیے ایک جامع منصوبے پر مشتمل ہوگا۔ اعداد و شمار کے مطابق جون 2024 تک برطانیہ میں خالص نقل مکانی کی تعداد 7 لاکھ 28 ہزار تک پہنچ چکی ہے، جس نے سیاسی و عوامی حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔
گزشتہ سال ایک لاکھ آٹھ ہزار سے زائد افراد نے برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دی، جن میں سے 16 ہزار کے پاس اسٹوڈنٹ ویزا تھا۔ اگرچہ حکومتی ریکارڈ میں ان درخواست دہندگان کی قومیت ظاہر نہیں کی گئی، تاہم برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان، نائجیریا اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے افراد کے ایسے اقدامات کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔
برطانیہ میں امیگریشن طویل عرصے سے ایک حساس سیاسی مسئلہ رہا ہے اور 2016 میں بریگزٹ ریفرنڈم کی مہم میں بھی مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں لیبر پارٹی کو کم نشستیں ملنے کے بعد پارٹی کے بعض ارکان نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ امیگریشن کے معاملے پر سخت اور واضح مؤقف اپنائے۔
"ریڈ وال" کے نام سے پہچانے جانے والے لیبر پارٹی کے قانون سازوں کے ایک گروپ نے خبردار کیا ہے کہ حکومت کو عوامی غصے کو سنجیدہ لینا ہوگا اور پالیسی سطح پر مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے، نہ کہ صرف باتوں میں وقت گزارنا۔
اگر یہ نئی پالیسی لاگو ہوئی تو پاکستانی طلبہ کو برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع حاصل کرنے میں سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے نہ صرف ان کے تعلیمی مستقبل بلکہ دوطرفہ تعلیمی روابط بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔