شرم ان ملاؤں کو مگر نہیں آتی. پاکتان میں امریکی پٹھوں کا دفاع.
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
’مشرق وسطیٰ میں موجود سیاسی ہلچل اور سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی سے پاکستان میں فرقہ واریت میں مزید اضافہ ہوگا‘
سعودی عرب میں سعود خاندان کے خلاف عوام کے احتجاج کے بعد پاکستان میں دیوبند مکتبِ فکر کی مذہبی جماعتیں اور علماء سعودی شاہی خاندان کے دفاع کے لیے میدان میں آگئے ہیں۔
ادھر کراچی شہر میں بعض مذہبی جماعتوں کی جانب سے بحرین اور سعودی عرب کے عوام کے حق میں وال چاکنگ بھی کی گئی ہے۔
کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر یہ وال چاکنگ نمایاں نظر آتی ہے جس میں سعود خاندان اور عرب افواج پر تنقید بھی کی گئی ہے اور لوگوں پر ’ظلم بند‘ کرنے کو کہا گیا ہے۔
اس سے قبل شیعہ علماء کونسل کی جانب سے بحرین، لیبیا، یمن اور مشرق وسطیٰ کی عوام سے یکہجتی کے اظہار کے لیے ریلی بھی نکالی گئی تھی۔
تین روز قبل شہر کے بڑے مدررسوں جامعہ بنوریہ، جامعہ فاروقیہ، جامعہ رشیدیہ، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان، اور جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کے ایک مشترکہ اجلاس میں سعودی حکمرانوں کے خلاف چاکنگ پر ناراضی کا اظہار کیا اور سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو بھی اس سے آگاہ کیا گیا۔
شہر کی بعض مساجد میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں سعودی عرب کے شاہی خاندان سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مفتی نعیم نے خطیبوں سے اپیل کی تھی کہ وہ خطبوں میں سعودی حکومت کی جانب سے دنیا بھر کے حجاج وعمرہ زائرین کی خدمات اوران کی سہولت کے لیے کی جانے والی کوششوں کو موضوع بنائیں اور تحفظ حرمین شریفین کےلیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔
مفتی نعیم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک سعودی حکمران ہی ہیں جنہوں نے ہرمشکل وقت میں پاکستانی عوام کاساتھ دیا لیکن اب تیونس، مصر، لیبیا، یمن، بحرین ودیگراسلامی ممالک کے حالات سے فائدہ اٹھاکر مغرب کے پیروکار اسلام کے روحانی مرکز کے خلاف بھی سازشوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔
پاکستانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب میں ملازمت کرتی ہے اور ہر ماہ وہاں سے ایک خطیر رقم پاکستان منتقل ہوتی ہے۔ مفتی نعیم کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت اس معاملے کو جواز بنا کر جو پاکستانی شہری وہاں کام کرتے ہیں انہیں بے دخل کرسکتی ہے۔
گزشتہ ماہ امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں سعودی عرب کا کردار بھی زیر بحث آیا تھا۔ مسلم لیگ نون کا کہنا تھا کہ اس رہائی میں سعودی عرب نے کردار ادا کیا مگر مذہبی جماعتیں اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے رہنما قاری عثمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں جو معاملات چل رہے ہیں وہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ ’تمام جماعتوں کو جمع ہوکر یہ طے کرنا چاہیے کہ وہ بیرونی مداخلت کے بجائے اپنے شہر اور ملک کے مسائل پر بات کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریباں نہ ہوں۔’ اس عمل سے کسی اور کی خدمت ہوسکتی ہے مگر اسے اسلام کی خدمت نہیں کہا جاسکتا۔‘
’اگر یورپ اور امریکہ کے ایما پر سعودی عرب میں کوئی تحریک چلتی ہے تو اس کا خاتمہ ہونا چاہیے‘
کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ بھی سعودی حکمرانوں سے یکہجتی کے لیے ہر کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ ’تنظیم کے رہنما مولانا محمودالحسن کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت دوسرے اسلامی ممالک سے مخلتف ہے۔ وہاں اسلامی نظام نافذ ہے اور اسی کے تحت فیصلے ہوتے ہیں۔‘
’سعوی عرب کے حکمرانوں کے خلاف اگر کوئی بینر اور وال چاکنگ کر ہے ہیں تو یہ وہ ہی عناصر ہیں جن کو سعودی عرب کے اندر سکون اور امن گوارہ نہیں۔ حکومت اور عوام سعودی عرب کا ہر اعتبار سے ساتھ دے۔ اگر یورپ اور امریکہ کے ایما پر وہاں کوئی تحریک کھڑی ہوتی ہے تو اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔‘
مولانا محمودالحسن کا کہنا ہے کہ یہ ان لوگوں کی سازش ہے جنہیں سعودی عرب میں پلنے بڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ وہاں شرک کے اڈے اور مزار بنانے نہیں دیے جاتے ۔ صرف ان لوگوں کو ہی زیادہ تکلیف ہے ۔اب یہ چاہتے ہیں موقعہ آگیا ہے کہ وہ غصہ نکالیں مگر جماعت الدعوہ ہر لحاظ سے سعودی عرب کے ساتھ ہے اگر ضرورت پڑی تو ریلیاں اور جلوس بھی نکالیں گے۔
پاکستان میں مدارس کی ایک بڑی تعداد کو سعودی عرب حکومت کی جانب سے عطیات دیے جاتے ہیں، جن سے طلبہ کو مفت تعلیم اور کھانے پینے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
تجزیہ نگار اور صحافی خالد احمد کا کہنا ہے کہ کراچی میں دو جماعتیں ہیں ایک دیوبندی حضرات جو عربوں سے کافی مدد لیتے ہیں اور تمام ہی مدرسوں کو وہاں سے پیسے بھی آتے رہے ہیں دوسرے شیعہ مسلمان جن کی سرگرمیاں مخفی ہیں۔
ان کے مطابق جب ایران میں خامنہ ای اقتدار میں آئے تو سعودی عرب خوفزدہ ہوا یہ سلسلہ وہاں سے شروع ہوا۔ انیس سو اسی میں جنرل ضیاالحق نے سعودی عرب کے کہنے پر زکوۃ و عشر کا نظام نافذ کیا جس پر شیعہ مسلمانوں نے بغاوت کی۔
خالد احمد کا کہنا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کی نظریاتی لڑائی پاکستان میں بھی پھیلی ہوئی ہے جس کے لیے دونوں ملکوں سے پیسہ آرہا ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں موجود سیاسی ہلچل اور سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی سے پاکستان میں فرقہ واریت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2011/04/110408_saudi_support_rza.shtml
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

سعودی عرب میں سعود خاندان کے خلاف عوام کے احتجاج کے بعد پاکستان میں دیوبند مکتبِ فکر کی مذہبی جماعتیں اور علماء سعودی شاہی خاندان کے دفاع کے لیے میدان میں آگئے ہیں۔
ادھر کراچی شہر میں بعض مذہبی جماعتوں کی جانب سے بحرین اور سعودی عرب کے عوام کے حق میں وال چاکنگ بھی کی گئی ہے۔
کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر یہ وال چاکنگ نمایاں نظر آتی ہے جس میں سعود خاندان اور عرب افواج پر تنقید بھی کی گئی ہے اور لوگوں پر ’ظلم بند‘ کرنے کو کہا گیا ہے۔
اس سے قبل شیعہ علماء کونسل کی جانب سے بحرین، لیبیا، یمن اور مشرق وسطیٰ کی عوام سے یکہجتی کے اظہار کے لیے ریلی بھی نکالی گئی تھی۔
تین روز قبل شہر کے بڑے مدررسوں جامعہ بنوریہ، جامعہ فاروقیہ، جامعہ رشیدیہ، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان، اور جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کے ایک مشترکہ اجلاس میں سعودی حکمرانوں کے خلاف چاکنگ پر ناراضی کا اظہار کیا اور سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو بھی اس سے آگاہ کیا گیا۔
ایران اور سعودی عرب کی نظریاتی لڑائی پاکستان میں بھی پھیلی ہوئی ہے جس کے لیے دونوں ملکوں سے پیسہ آرہا ہے
صحافی خالد احمد
شہر کی بعض مساجد میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں سعودی عرب کے شاہی خاندان سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مفتی نعیم نے خطیبوں سے اپیل کی تھی کہ وہ خطبوں میں سعودی حکومت کی جانب سے دنیا بھر کے حجاج وعمرہ زائرین کی خدمات اوران کی سہولت کے لیے کی جانے والی کوششوں کو موضوع بنائیں اور تحفظ حرمین شریفین کےلیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔
مفتی نعیم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک سعودی حکمران ہی ہیں جنہوں نے ہرمشکل وقت میں پاکستانی عوام کاساتھ دیا لیکن اب تیونس، مصر، لیبیا، یمن، بحرین ودیگراسلامی ممالک کے حالات سے فائدہ اٹھاکر مغرب کے پیروکار اسلام کے روحانی مرکز کے خلاف بھی سازشوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔
پاکستانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب میں ملازمت کرتی ہے اور ہر ماہ وہاں سے ایک خطیر رقم پاکستان منتقل ہوتی ہے۔ مفتی نعیم کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت اس معاملے کو جواز بنا کر جو پاکستانی شہری وہاں کام کرتے ہیں انہیں بے دخل کرسکتی ہے۔
گزشتہ ماہ امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں سعودی عرب کا کردار بھی زیر بحث آیا تھا۔ مسلم لیگ نون کا کہنا تھا کہ اس رہائی میں سعودی عرب نے کردار ادا کیا مگر مذہبی جماعتیں اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے رہنما قاری عثمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں جو معاملات چل رہے ہیں وہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ ’تمام جماعتوں کو جمع ہوکر یہ طے کرنا چاہیے کہ وہ بیرونی مداخلت کے بجائے اپنے شہر اور ملک کے مسائل پر بات کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریباں نہ ہوں۔’ اس عمل سے کسی اور کی خدمت ہوسکتی ہے مگر اسے اسلام کی خدمت نہیں کہا جاسکتا۔‘

کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ بھی سعودی حکمرانوں سے یکہجتی کے لیے ہر کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ ’تنظیم کے رہنما مولانا محمودالحسن کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت دوسرے اسلامی ممالک سے مخلتف ہے۔ وہاں اسلامی نظام نافذ ہے اور اسی کے تحت فیصلے ہوتے ہیں۔‘
’سعوی عرب کے حکمرانوں کے خلاف اگر کوئی بینر اور وال چاکنگ کر ہے ہیں تو یہ وہ ہی عناصر ہیں جن کو سعودی عرب کے اندر سکون اور امن گوارہ نہیں۔ حکومت اور عوام سعودی عرب کا ہر اعتبار سے ساتھ دے۔ اگر یورپ اور امریکہ کے ایما پر وہاں کوئی تحریک کھڑی ہوتی ہے تو اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔‘
مولانا محمودالحسن کا کہنا ہے کہ یہ ان لوگوں کی سازش ہے جنہیں سعودی عرب میں پلنے بڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ وہاں شرک کے اڈے اور مزار بنانے نہیں دیے جاتے ۔ صرف ان لوگوں کو ہی زیادہ تکلیف ہے ۔اب یہ چاہتے ہیں موقعہ آگیا ہے کہ وہ غصہ نکالیں مگر جماعت الدعوہ ہر لحاظ سے سعودی عرب کے ساتھ ہے اگر ضرورت پڑی تو ریلیاں اور جلوس بھی نکالیں گے۔
پاکستان میں مدارس کی ایک بڑی تعداد کو سعودی عرب حکومت کی جانب سے عطیات دیے جاتے ہیں، جن سے طلبہ کو مفت تعلیم اور کھانے پینے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
سعوی عرب کے حکمرانوں کے خلاف اگر کوئی بینر اور وال چاکنگ کر ہے ہیں تو یہ وہ ہی عناصر ہیں جن کو سعودی عرب کے اندر سکون اور امن گوارہ نہیں۔ حکومت اور عوام سعودی عرب کا ہر اعتبار سے ساتھ دے۔ اگر یورپ اور امریکہ کے ایما پر وہاں کوئی تحریک کھڑی ہوتی ہے تو اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
جماعت الدعوۃ
تجزیہ نگار اور صحافی خالد احمد کا کہنا ہے کہ کراچی میں دو جماعتیں ہیں ایک دیوبندی حضرات جو عربوں سے کافی مدد لیتے ہیں اور تمام ہی مدرسوں کو وہاں سے پیسے بھی آتے رہے ہیں دوسرے شیعہ مسلمان جن کی سرگرمیاں مخفی ہیں۔
ان کے مطابق جب ایران میں خامنہ ای اقتدار میں آئے تو سعودی عرب خوفزدہ ہوا یہ سلسلہ وہاں سے شروع ہوا۔ انیس سو اسی میں جنرل ضیاالحق نے سعودی عرب کے کہنے پر زکوۃ و عشر کا نظام نافذ کیا جس پر شیعہ مسلمانوں نے بغاوت کی۔
خالد احمد کا کہنا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کی نظریاتی لڑائی پاکستان میں بھی پھیلی ہوئی ہے جس کے لیے دونوں ملکوں سے پیسہ آرہا ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں موجود سیاسی ہلچل اور سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی سے پاکستان میں فرقہ واریت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2011/04/110408_saudi_support_rza.shtml
Last edited: