پاکستان:ایک بھی طبی نسخہ معیاری نہیں

uetian

Senator (1k+ posts)
پاکستان:ایک بھی طبی نسخہ معیاری نہیں


Source: http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2014/04/140407_pakistan_prescription_habits_zis.shtml

تحقیق کے مطابق 90 فیصد ڈاکٹری نسخوں میں مہنگی برانڈڈ ادویات لکھی ہوتی ہیں، حالانکہ ان میں بہت سے ادویات کے سستے متبادل موجود ہیں


پاکستان میں ڈاکٹروں کا لکھا ہوا کوئی ایک نسخہ بھی بین الاقوامی طبی معیار کے تقاضے پورے نہیں کرتا، ڈاکٹر ضرورت سے زیادہ ادویات تجویز کرتے ہیں اور مریضوں کو زیادہ تر مہنگی ادویات لکھ کر دیتے ہیں۔


یہ تحقیق ممتاز طبی جریدے پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنس کے حالیہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔


اگرچہ اس تحقیق میں پشاور کے چھ بڑے ہسپتالوں اور میڈیکل سٹوروں کا جائزہ لیا گیا، لیکن اس کے نتائج کو پورے ملک پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔


تحقیق سے معلوم ہوا کہ طبی قواعد کے برعکس جنرل پریکٹیشنر (جی پی) ڈاکٹر 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے، 78 فیصد نسخوں پر مرض کی کوئی تشخیص نہیں لکھی ہوتی جب کہ 58 فیصد نسخے اتنے بدخط ہوتے ہیں کہ انھیں پڑھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔


اور تو اور، تحقیق کے دوران دریافت ہوا کہ 63 فیصد نسخوں پر دوا کی مقدار، جب کہ 55 فیصد پر دوا لینے کا دورانیہ درج نہیں کیا جاتا۔


تحقیق کے مرکزی مصنف اور پشاور میڈیکل کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عثمان احمد رضا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا: اگرچہ مختلف نسخوں میں یہ مختلف چیزیں مختلف شرح کے ساتھ موجود تھیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی ایک نسخے میں بھی یہ ساری چیزیں اکٹھی موجود نہیں تھیں۔


تاہم انھوں نے اس مسئلے کی ذمےداری کسی ایک ادارے پر ڈالنے سے اجتناب کیا:


کسی ایک ادارے، کسی ایک شخص، یا کسی ایک پروفیشن کو اس کا ذمےدار ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہو گا، کیوں کہ یہ بہت سے اداروں کا کردار اور یہ پورے نظام کا مسئلہ ہے، جس میں میڈیکل طلبہ کی تربیت، ڈاکٹروں کی بار بار ازسرِ نو تربیت، انضباطی اداروں کا کردار اور دوسری چیزیں شامل ہیں۔


یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ جلدی اور لاپروائی سے لکھے جانے والا نامکمل نسخہ مریض کے لیے کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ ملک میں ایسے میڈیکل سٹوروں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جہاں کوالیفائیڈ فارماسسٹ موجود ہوتا ہے جو ڈاکٹر کی غلطی پکڑ سکے۔



ڈاکٹر کا رجسٹریشن نمبر نہیں: 98.2 فیصد
ڈاکٹر کا نام نہیں: 89 فیصد
تشخیص نہیں: 78 فیصد
دوا کی خوراک نہیں: 63.8 فیصد
نسخہ بدخط ہے: 58.5 فیصد
دوا لینے کا دورانیہ نہیں: 55.4 فیصد
فی نسخہ ادویات کی تعداد: 3.32
برانڈڈ ادویات کی شرح: 90 فیصد





وزارتِ صحت کے خاتمے کے بعد ملک میں ایک سرکاری ادارہ ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان بنایا گیا ہے۔ اس ادارے کے چیف ایگزیکیٹیو افسر ارشاد خان سے بات کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ ان کا ادارہ اس سلسلے میں ڈاکٹروں کی استعدادِ کار بڑھانے کے لیے پروگرام شروع کر رہا ہے:


سابقہ وزارتِ صحت نے بھی اس سلسلے میں سیمینار منعقد کروائے تھے اور اب ہمارا ڈائریکٹوریٹ آف فارمیسی سروسز اس کام کو آگے لے کر چلے گا۔


انھوں نے اس سلسلے میں میڈیکل کالجوں کے کردار کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ ان کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ڈاکٹروں کو وقتاً فوقتاً ریفریشر کورس کرواتے رہیں۔


جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر فی نسخہ 3.32 ادویات لکھ کر دیتے ہیں، حالانکہ عالمی ادارۂ صحت کی سفارشات کے مطابق فی نسخہ ادویات کی زیادہ سے زیادہ مناسب تعداد صرف دو ادویات ہونی چاہیے۔


اگر اس شرح کا تقابل بنگلہ دیش اور یمن جیسے ترقی پذیر ممالک سے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہاں فی نسخہ پاکستان سے نصف سے کم ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔


ارشاد خان نے اس بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا: ایک ہی نسخے میں اکثر اوقات غیر ضروری ادویات شامل کر دی جاتی ہیں، جن میں غیر ضروری اینٹی بایوٹک، ملٹی وٹامن، دردکش ادویات وغیرہ لکھ دی جاتی ہیں۔ اس رجحان کو بھی پروفیشنل پہلو سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔


ایک بات یہ سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں پائی جانے والی غربت کے باوجود جی پی ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ادویات میں سے 90 فیصد مہنگی برانڈڈ ادویات تھیں، حالانکہ ان میں سے اکثر ادویات کے سستی متبادل مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔


ڈاکٹر عثمان کے مطابق اس کے مقابلے پر امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں برانڈ نام سے سرے سے ادویات لکھی ہی نہیں جاتیں، بلکہ صرف دوا کا کیمیائی نام لکھا جاتا ہے۔


تحقیق میں جن نسخوں کا جائزہ لیا گیا ان میں سب سے زیادہ دردکش ادویات تجویز کی گئیں، جب کہ دوسرے نمبر پر جراثیم کش ادویات اور تیسرے نمبر پر ملٹی وٹامن دیے گئے۔


امریکی سرکاری ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر سال تقریباً سات ہزار افراد غلط ادویات کے استعمال کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں، جب کہ کئی لاکھ شدید ضمنی اثرات کا شکار ہو جاتے ہیں۔


پاکستان میں اس قسم کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے لیکن مندرجہ بالا تحقیق کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں نامکمل نسخوں کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد اور بیماریوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو گی۔
 

Bangash

Chief Minister (5k+ posts)
پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں بیماری کی تشخص یا نام ڈیاگنوس نہیں لکھا ہوتا دوائی کا پرچہ حات میں عام ڈاکٹر تھما دیتے ہیں اور ہر ڈاکٹر اپنی سوچھ کے مطابق میں سوچتا ہے کہ کیا مرض ہے اور دوائی بھی اپنے فائدے کے لئے لکھی جاتی ہے- علاوہ ضرورت سے زیادہ ادویات تجویز کرتے ہیں اور مریضوں کو زیادہ تر مہنگی ادویات لکھ کر دیتے ہیں۔ اگر حکومت ہر ڈاکٹر کو ہسٹری رکھنے پر مجبور کرے جس میں ڈیاگنوس اور تجویز شدہ ادویات ہوں اور مریضوں کو بھی ایک کاپی پراپر ڈیاگنوس اور ادویات کی دیا کریں تو بعد میں چیکنگ بھی کی جاسکتی ہے اور ڈاکٹر تبدیل کرنے پر نئے ڈاکٹر کو بھی معلومات فراہم ہوسکتی ہے بہت سے فائدے ہیں اسطرح سے خاص طور پر ادوایات کی قوالٹی چیکنگ بھی ممکن ہوسکتی ہے
 

cheetah

Chief Minister (5k+ posts)
They are comparing it with America where there is strict quality control while in Pakistan such system is almost non existent that is why branded medicines are prescribed to achieve some quality. It is something like you are comparing Chinese cell phone to branded phones. Lack of quality control is the basic problem that is why multinationals thrive. Local companies instead of improving their standard keep on harping generic names. Overall conditions are really pathetic in health care at all ends whether doctor, drugs, diagnostics or even patients. Many patients feel satisfaction when given expensive medicines, Drips. Above all such many studies are commercially oriented.
 

uetian

Senator (1k+ posts)
They are comparing it with America where there is strict quality control while in Pakistan such system is almost non existent that is why branded medicines are prescribed to achieve some quality. It is something like you are comparing Chinese cell phone to branded phones. Lack of quality control is the basic problem that is why multinationals thrive. Local companies instead of improving their standard keep on harping generic names. Overall conditions are really pathetic in health care at all ends whether doctor, drugs, diagnostics or even patients. Many patients feel satisfaction when given expensive medicines, Drips. Above all such many studies are commercially oriented.

Bhai, now the fake medicine mafia focuses only the Branded Medicines (as they are expensive, so profit margin is very high), and has flooded the markets with fake medicines holding those brand names (e.g. Augmentin of Galxo, and Ciprofloxacin of Bayer, it is almost impossible to find genuine Augmentin/Cipro.)
Local medicine ki quality nahi, genuine Branded medicine ki jagah markets fake medicine say bhri hui haen ...
:(:(:(
 
Last edited:

Shah Brahman

Senator (1k+ posts)
پاکستان:ایک بھی طبی نسخہ معیاری نہیں

پاکستان:’ایک بھی طبی نسخہ معیاری نہیں


ظفر سید
بی بی سی اْردو ڈاٹ کام، اسلام آباد



130723121543_medicine_drug_pharmacy_1_304x171_mehr.jpg
تحقیق کے مطابق 90 فیصد ڈاکٹری نسخوں میں مہنگی برانڈڈ ادویات لکھی ہوتی ہیں، حالانکہ ان میں بہت سے ادویات کے سستے متبادل موجود ہیں

پاکستان میں ڈاکٹروں کا لکھا ہوا کوئی ایک نسخہ بھی بین الاقوامی طبی معیار کے تقاضے پورے نہیں کرتا، ڈاکٹر ضرورت سے زیادہ ادویات تجویز کرتے ہیں اور مریضوں کو زیادہ تر مہنگی ادویات لکھ کر دیتے ہیں۔
یہ تحقیق ممتاز طبی جریدے پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنس کے حالیہ شمارے میں شائع ہوئی
ہے۔

اگرچہ اس تحقیق میں پشاور کے چھ بڑے ہسپتالوں اور میڈیکل سٹوروں کا جائزہ لیا گیا، لیکن اس کے نتائج کو پورے ملک پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ طبی قواعد کے برعکس جنرل پریکٹیشنر (جی پی) ڈاکٹر 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے، 78 فیصد نسخوں پر مرض کی کوئی تشخیص نہیں لکھی ہوتی جب کہ 58 فیصد نسخے اتنے بدخط ہوتے ہیں کہ انھیں پڑھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
اور تو اور، تحقیق کے دوران دریافت ہوا کہ 63 فیصد نسخوں پر دوا کی مقدار، جب کہ 55 فیصد پر دوا لینے کا دورانیہ درج نہیں کیا جاتا۔
تحقیق کے مرکزی مصنف اور پشاور میڈیکل کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عثمان احمد رضا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’اگرچہ مختلف نسخوں میں یہ مختلف چیزیں مختلف شرح کے ساتھ موجود تھیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی ایک نسخے میں بھی یہ ساری چیزیں اکٹھی موجود نہیں تھیں۔‘


"کسی ایک ادارے، کسی ایک شخص، یا کسی ایک پروفیشن کو اس کا ذمےدار ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہو گا، کیوں کہ یہ بہت سے اداروں کا کردار اور یہ پورے نظام کا مسئلہ ہے، جس میں میڈیکل طلبہ کی تربیت، ڈاکٹروں کی بار بار ازسرِ نو تربیت، انظباطی اداروں کا کردار اور دوسری چیزیں شامل ہیں۔"

تحقیق کے مرکزی مصنف اور پشاور میڈیکل کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عثمان احمد رضا


تاہم انھوں نے اس مسئلے کی ذمےداری کسی ایک ادارے پر ڈالنے سے اجتناب کیا:
’کسی ایک ادارے، کسی ایک شخص، یا کسی ایک پروفیشن کو اس کا ذمےدار ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہو گا، کیوں کہ یہ بہت سے اداروں کا کردار اور یہ پورے نظام کا مسئلہ ہے، جس میں میڈیکل طلبہ کی تربیت، ڈاکٹروں کی بار بار ازسرِ نو تربیت، انضباطی اداروں کا کردار اور دوسری چیزیں شامل ہیں۔‘
یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ جلدی اور لاپروائی سے لکھے جانے والا نامکمل نسخہ مریض کے لیے کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ ملک میں ایسے میڈیکل سٹوروں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جہاں کوالیفائیڈ فارماسسٹ موجود ہوتا ہے جو ڈاکٹر کی غلطی پکڑ سکے۔
وزارتِ صحت کے خاتمے کے بعد ملک میں ایک سرکاری ادارہ ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان بنایا گیا ہے۔ اس ادارے کے چیف ایگزیکیٹیو افسر ارشاد خان سے بات کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ ان کا ادارہ اس سلسلے میں ڈاکٹروں کی استعدادِ کار بڑھانے کے لیے پروگرام شروع کر رہا ہے:
’سابقہ وزارتِ صحت نے بھی اس سلسلے میں سیمینار منعقد کروائے تھے اور اب ہمارا ڈائریکٹوریٹ آف فارمیسی سروسز اس کام کو آگے لے کر چلے گا۔‘

تحقیق کا خلاصہ


130801165507_us_economy_prescriptions_304x171_spl.jpg

  • ڈاکٹر کا رجسٹریشن نمبر نہیں: 98.2 فیصد
  • ڈاکٹر کا نام نہیں: 89 فیصد
  • تشخیص نہیں: 78 فیصد
  • دوا کی خوراک نہیں: 63.8 فیصد
  • نسخہ بدخط ہے: 58.5 فیصد
  • دوا لینے کا دورانیہ نہیں: 55.4 فیصد
  • فی نسخہ ادویات کی تعداد: 3.32
  • برانڈڈ ادویات کی شرح: 90 فیصد


انھوں نے اس سلسلے میں میڈیکل کالجوں کے کردار کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ ان کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ڈاکٹروں کو وقتاً فوقتاً ریفریشر کورس کرواتے رہیں۔
جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر فی نسخہ 3.32 ادویات لکھ کر دیتے ہیں، حالانکہ عالمی ادارۂ صحت کی سفارشات کے مطابق فی نسخہ ادویات کی زیادہ سے زیادہ مناسب تعداد صرف دو ادویات ہونی چاہیے۔
اگر اس شرح کا تقابل بنگلہ دیش اور یمن جیسے ترقی پذیر ممالک سے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہاں فی نسخہ پاکستان سے نصف سے کم ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔
ارشاد خان نے اس بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا: ’ایک ہی نسخے میں اکثر اوقات غیر ضروری ادویات شامل کر دی جاتی ہیں، جن میں غیر ضروری اینٹی بایوٹک، ملٹی وٹامن، دردکش ادویات وغیرہ لکھ دی جاتی ہیں۔ اس رجحان کو بھی پروفیشنل پہلو سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
ایک بات یہ سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں پائی جانے والی غربت کے باوجود جی پی ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ادویات میں سے 90 فیصد مہنگی برانڈڈ ادویات تھیں، حالانکہ ان میں سے اکثر ادویات کے سستی متبادل مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔

"ایک ہی نسخے میں اکثر اوقات غیر ضروری ادویات شامل کر دی جاتی ہیں، جن میں غیر ضروری اینٹی بایاٹک، ملٹی وٹامن، دردکش ادویات وغیرہ لکھ دی جاتی ہیں۔ اس رجحان کو بھی پروفیشنل پہلو سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔"

ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر ارشاد خان

ڈاکٹر عثمان کے مطابق اس کے مقابلے پر امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں برانڈ نام سے سرے سے ادویات لکھی ہی نہیں جاتیں، بلکہ صرف دوا کا کیمیائی نام لکھا جاتا ہے۔
تحقیق میں جن نسخوں کا جائزہ لیا گیا ان میں سب سے زیادہ دردکش ادویات تجویز کی گئیں، جب کہ دوسرے نمبر پر جراثیم کش ادویات اور تیسرے نمبر پر ملٹی وٹامن دیے گئے۔
امریکی سرکاری ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر سال تقریباً سات ہزار افراد غلط ادویات کے استعمال کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں، جب کہ کئی لاکھ شدید ضمنی اثرات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں اس قسم کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے لیکن مندرجہ بالا تحقیق کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں نامکمل نسخوں کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد اور بیماریوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو گی۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2014/04/140407_pakistan_prescription_habits_zis.shtml

کیا کسی کو اس پر کوئی حیرت ہے . پاکستان میں طبی پیشے میں اور قصائیوں کے پیشے میں کوئی خاص فرق باقی نہیں رہ گیا

برہمن
 
Last edited:

monh zorr

Minister (2k+ posts)
دیگر نفع کمانے والے پیشوں کی طرح، ترقی پذیر ملکوں میں ،،طب، بھی ایک منافع بخش پیشہ کے طور پر اپنایا گیا ہے، پاکستان ان ممالک میں شامل ہے،اور یہ ہمیں پتہ ہی ہے کہ جب نفع کمانے کی دوڑ لگ جائے، اور کسی قسم کی روک ٹوک نہ ہو تو ہر قسم کی خرابیاں شامل ہوجاتی ہیں
قانون پر سختی سے پابندی بہت سے مسائل کا حل ہوسکتی ہے،
مگر اس سے بھی پہلے، ہماری نئی نسل کو معاشرے میں پھیلی اس قسم کی خرابیوں کے خلاف پر امن گروپ بناکرمسلسل زبانی اور تحریری جہاد کرنا ہوگا،
ترقی یافتہ ملک،اپنے ان ہی سماجی گروپس کی وجہ سے آج دنیا میں اعلیٰ مقام کے حامل ہیں اور انکی قومیں، سکون اور آسائش کی زندگیا ں گذار رہی ہیں
بہت اچھی پوسٹ ہے، ہمارے فورم کے ممبران کو اس قسم کے مراسلہ لکھنے چاہئیں، تاکہ کرتا دھرتا لوگ توجہ دینے پر مجبور ہوں،،
 

cheetah

Chief Minister (5k+ posts)
Now you can well imagine the state of affairs, where even branded medicines are not trust worthy then what to talk about the medicine when you are purchasing medicines with generic names, totally at the mercy of chemist who will give obviously those on which margin of profit is higher. Basic flaw is rotten system and this is not present only in health care but encompasses every domain
Bhai, now the fake medicine mafia focuses only the Branded Medicines (as they are expensive, so profit margin is very high), and has flooded the markets with fake medicines holding those brand names (e.g. Augmentin of Galxo, and Ciprofloxacin of Bayer, it is almost impossible to find genuine Augmention/Cipro.)
Local medicine ki quality nahi, genuine Branded medicine ki jagah markets fake medicine say bhri hui haen ...
:(:(:(
 

Shah Brahman

Senator (1k+ posts)

ڈیڑھ دو سال پہلے کی بات ہے میں پاکستان میں تھا اور مجھے سردی لگ گئی اور میں نے اپنے بھائی کو کہا کہ کسی اچھے سے ڈاکٹر کے پاس لیکر چلو جو کہ اپنے شعبے کا ماہر ہو

اس نے مجھے کہا کہ ڈاکر کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے میں تمھیں اپنے ایک فارماسسٹ دوست کے پاس لیکر جاتا ہوں وہ زیادہ اچھی دوائی دے دے گا . میں نے کہا کہ نہیں کہ ڈاکٹر کے پاس جانا ہے . اسپر وہ مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس لیکر گیا . ڈاکٹر جو کہ نزلہ زکام اور پھیپھڑوں کے انفیکشن کا سو کالڈ ماھر تھا ، نے سرسری سا معائنہ کیا اور کاغذ پر کچھ لکھ کر کہا کہ ڈسپنسر سے دوائی لے لو . میں نے پوچھا بھی کہ کیا مسئلہ ہے تو مجھے ایسے دیکھا کہ ڈاکٹر تم ہو یا میں ، اور کہا کہ نسخہ کے مطابق دوائی لے لو .

میرا تو پارہ چڑھنے لگا لیکن بھائی نے کہا کہ صبر کرو یہ پاکستان ہے . خیر ڈسپنسر کو نسخہ دیا ، تو میری نظر ڈسپنسری میں پڑی کہ انتہائی گندی تھی اور جگہ جگہ ٹوٹی ہوئی سرنجیں پڑی ہوئی اور بالکل بھی صفائی نہیں تھی . میں حیران و پریشان کہ یہ جگہ تو انتہائی صف ستھری ہونی چاہئے کہ مرض ایک بندے سے دوسرے کو منتقل نا ہو . ڈسپنسر نے مجھے ادویات دیں اور ان کو پیکٹ سے نکال کر ایک چھوٹے سے لفافے میں ڈال دیا . میں نے اس سے پوچھا کہ پیکٹ سے کیوں نکالی ہیں تو بولا کہ ہم ایسے ہی دیتے ہیں . میں نے کہا ابے او ڈھکن کی اولاد اگر مجھے کوئی الرجک ردعمل ہو جائے تو ہسپتال والے کیسے جانیں گے کہ کونسی سے دوائی کھائی ہے . مجھے نسخہ دکھاؤ ، جب نسخہ دیکھا تو سر پیٹ لیا کہ اسپر دوائی کے نام کی بجائے ہندسوں کے کوڈ ورڈ لکھے ہوے تھے .، میرا غصہ عروج پر پہنچ گیا کہ تم نے یہ دوائی مجھے کس حثیت میں دی ہے ، کیا تم ایک کوالیفائد فارماسسٹ ہو ، اسپر وہ گھبرا کر بولا کہ آپ ڈاکٹر صاحب سے پوچھ لیں . مجھے شدید غصہ تھا اور میں دوسرے مریض کی پرواہ کیے بغیر ڈاکٹر میں کمرے میں گھس گیا اور اس سے سختی سے کہا کہ آپ نے مجھے کونسی دوائی لکھ کر دی ہے کہ ڈسپنسر بھی نہیں بتا سکتا . میرا غصہ اسوقت انتہائی یاس اور بے بسی میں بدل گیا جب ڈاکٹر نے انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ کہا کہ اگر آپ کو میری دوائی پسند نہیں ہے تو کسی اور ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں. دل تو کیا کہ اس بد بخت قصائی کی وہیں دھنائی شروع کردوں لیکن بھائی نے مجھے قابو کیا اور کہا لعنت بھیجو اسپر اور باقیوں پر بھی کہ اکثریت ایسے ہی ہیں

میرا بھائی مجھے اپنے فارماسسٹ دوست کے پاس لے گیا اور اسنے مجھے دیکھ کر ایک دو دوائیاں دے دیں اور اللہ کے فضل سے دو تین دن میں ، میں ٹھیک ہو گیا

میں سارے ڈاکٹر کو ایسا نہیں سمجھتا کہ میرے برادر نسبتی اور ان کی بیگم بھی ڈاکٹر ہیں اور وہ بیرون ملک پندرہ سال کام کرنے کے بعد بہت اچھی نوکریاں چھوڑ کر پاکستان میں خدمت کے جذبے سے آئے اور اسوقت ایک گاؤں میں سرکاری نوکری کر رہے ہیں اور نجی کلینک میں کام نہیں کرتے بلکہ شام کے اوقات میں ایک خیراتی ہسپتال میں اپنا وقت دیتے ہیں . شائد ان جیسے ڈاکٹرز ہی ہیں جن کی وجہ سے طب کے مقدس پیشے کی کچھ عزت بچی ہوئی ہے

برہمن
 

drkjke

Chief Minister (5k+ posts)
in pakistan our "respected" elders nay pichlay 50 saal main asiee anni machaaii hai corruption ki ke Allah ki panaah!
our "respected" elders broke the record of rishwat safarish napotism favoritism etc etc.even satan takes panaah from pakistan when he sees injustice here.
so once many years ago we were discussing the same thing.that incompetent safarishis in sensitive posts like army,police,medicine,judiciary are such a threat to our society that by decade or two our society will implode from within with big blast.and its happening now.

my rajput neighbours son was very laadla.as rajputs are very strong in army and politics this neighbour used his safarish to further his sons career at every stage.his son was below average IQ.if he was in usa or uk he could not have gone beyond taxi driving or working at macdonalds.but bless our pakistan (injustistan ) that he used his strong safarish to first make him get 80 percent marks in fsc and than get admission in pakistans number one medical collage of that time.there he had no idea wahar was being taught and he would beg me to teach him few things.but before each exam his father would do a call from general or minsiter and his son would pass.his son got mbbs though he knew about medicine less than a nurse.than his son did zidd that he wants to specialise in surgey also!and get fcps from collage of physicians and surgeons pakistan.i laughingly told him that your pawa days end here and cpsp wont pass you atleast!but i was so wrong!he used his safarish and pawa in cpsps as well and he is now fcps orthopedic surgery and he has no idea what is medicine.lol.
and this guy cant even write a coherent sentence!
anyway
so with such kind of safarish and injustice (that causes a low IQ guy to become doctor of surgery and cosultant in pakistan ) where you think this nation is heading?so many wroned peoples bud duas follow this society.so many peoples life was destroyed by this unust society.so its may be pay back time.you cant do anything to stop it.just sit back and watch
 

uetian

Senator (1k+ posts)

ڈیڑھ دو سال پہلے کی بات ہے میں پاکستان میں تھا اور مجھے سردی لگ گئی اور میں نے اپنے بھائی کو کہا کہ کسی اچھے سے ڈاکٹر کے پاس لیکر چلو جو کہ اپنے شعبے کا ماہر ہو

اس نے مجھے کہا کہ ڈاکر کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے میں تمھیں اپنے ایک فارماسسٹ دوست کے پاس لیکر جاتا ہوں وہ زیادہ اچھی دوائی دے دے گا . میں نے کہا کہ نہیں کہ ڈاکٹر کے پاس جانا ہے . اسپر وہ مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس لیکر گیا . ڈاکٹر جو کہ نزلہ زکام اور پھیپھڑوں کے انفیکشن کا سو کالڈ ماھر تھا ، نے سرسری سا معائنہ کیا اور کاغذ پر کچھ لکھ کر کہا کہ ڈسپنسر سے دوائی لے لو . میں نے پوچھا بھی کہ کیا مسئلہ ہے تو مجھے ایسے دیکھا کہ ڈاکٹر تم ہو یا میں ، اور کہا کہ نسخہ کے مطابق دوائی لے لو .
..
..
میرا بھائی مجھے اپنے فارماسسٹ دوست کے پاس لے گیا اور اسنے مجھے دیکھ کر ایک دو دوائیاں دے دیں اور اللہ کے فضل سے دو تین دن میں ، میں ٹھیک ہو گیا

میں سارے ڈاکٹر کو ایسا نہیں سمجھتا کہ میرے برادر نسبتی اور ان کی بیگم بھی ڈاکٹر ہیں اور وہ بیرون ملک پندرہ سال کام کرنے کے بعد بہت اچھی نوکریاں چھوڑ کر پاکستان میں خدمت کے جذبے سے آئے اور اسوقت ایک گاؤں میں سرکاری نوکری کر رہے ہیں اور نجی کلینک میں کام نہیں کرتے بلکہ شام کے اوقات میں ایک خیراتی ہسپتال میں اپنا وقت دیتے ہیں . شائد ان جیسے ڈاکٹرز ہی ہیں جن کی وجہ سے طب کے مقدس پیشے کی کچھ عزت بچی ہوئی ہے

برہمن

بھائی ، اللہ کا شکر ادا کریں کہ اصلی دوائی مل گئی ، مجھے تو دوائیاں کھانے کے بعد سرطان/کینسر ہو گیا تھا
 

uetian

Senator (1k+ posts)
in pakistan our "respected" elders nay pichlay 50 saal main asiee anni machaaii hai corruption ki ke Allah ki panaah!
our "respected" elders broke the record of rishwat safarish napotism favoritism etc etc.even satan takes panaah from pakistan when he sees injustice here.
انہوں نے جو کیا سو کیا ،
اب زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیا چھوڑ کر جاتے ہیں
زیادہ بہتر پاکستان یا پھر .... عذاب زدہ ملک
 

Shah Brahman

Senator (1k+ posts)
بھائی ، اللہ کا شکر ادا کریں کہ اصلی دوائی مل گئی ، مجھے تو دوائیاں کھانے کے بعد سرطان/کینسر ہو گیا تھا


اللہ تعالیٰ آپکو شفائے کاملہ و عاجلہ سے نوازے .

کیا آپ اب ٹھیک ہیں

برہمن
 

uetian

Senator (1k+ posts)

اللہ تعالیٰ آپکو شفائے کاملہ و عاجلہ سے نوازے .

کیا آپ اب ٹھیک ہیں

برہمن
دعا کے لیے :jazak:

اللہ کے نیک بندے ہیں جنھوں نے انتہائی محنت سے علاج کیا
والدین کی بے پناہ دعاؤں نے ناممکن کو ممکن بنایا
دوستوں نے حقیقتا" خون حاضر کر دیا ، جب ١ بیگ خون کی ضرورت ہوئی انہوں نے اپنے خون کے ٤ بیگ دیے ، جہاں ٤ کی ضرورت ہوئی انہوں نے٤٠ بیگ خون حاضر کردیا
 
Last edited:

Sadia Hashmi

Senator (1k+ posts)
Re: پاکستان:ایک بھی طبی نسخہ معیاری نہیں

پاکستان:’ایک بھی طبی نسخہ معیاری نہیں


کیا کسی کو اس پر کوئی حیرت ہے . پاکستان میں طبی پیشے میں اور قصائیوں کے پیشے میں کوئی خاص فرق باقی نہیں رہ گیا

برہمن

herat es baat pay hy k dono aik he kaam karty hen magar drs ka status zeada acha q?

kea قصائیوں ko strike nae karni chahey?

kea ye kuhla tazad nae?
 

Sadia Hashmi

Senator (1k+ posts)
بھائی ، اللہ کا شکر ادا کریں کہ اصلی دوائی مل گئی ، مجھے تو دوائیاں کھانے کے بعد سرطان/کینسر ہو گیا تھا

which carcinoma? at which stage? how did u treat with it? may GOD bless u.
 

kwan225

Minister (2k+ posts)
Allah app ko apni hifz-o-zman may rakhay.. khush rahain aabaad rahain..

By the way app nay kia khoon peena shuru ker deaa tha... :P just kidding. :biggthumpup:

جہاں ٤ کی ضرورت ہوئی انہوں نے٤٠ بیگ خون حاضر کردیا
 

Will_Bite

Prime Minister (20k+ posts)
There is a valid reason for doctors not writing the diagnosis on the prescription sheet. If they do that, patients (and pharmacy salesmen) tend to use that to prescribe the same medicine to whoever shows those symptoms. We all know that any medicine can be bought from pharmacies with or without a prescription.
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
پاکستان میں ایک بھی طبی نسخہ معیاری نہیں

پاکستان میں ڈاکٹروں کا لکھا ہوا کوئی ایک نسخہ بھی بین الاقوامی طبی معیار کے تقاضے پورے نہیں کرتا، ڈاکٹر ضرورت سے زیادہ ادویات تجویز کرتے ہیں اور مریضوں کو زیادہ تر مہنگی ادویات لکھ کر دیتے ہیں۔
پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنس


130723121543_medicine_drug_pharmacy_1_304x171_mehr.jpg

تحقیق سے معلوم ہوا کہ طبی قواعد کے برعکس جنرل پریکٹیشنر (جی پی) ڈاکٹر 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے، 78 فیصد نسخوں پر مرض کی کوئی تشخیص نہیں لکھی ہوتی جب کہ 58 فیصد نسخے اتنے بدخط ہوتے ہیں کہ انھیں پڑھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

اور تو اور، تحقیق کے دوران دریافت ہوا کہ 63 فیصد نسخوں پر دوا کی مقدار، جب کہ 55 فیصد پر دوا لینے کا دورانیہ درج نہیں کیا جاتا۔

تحقیق کے مرکزی مصنف اور پشاور میڈیکل کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عثمان احمد رضا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا: اگرچہ مختلف نسخوں میں یہ مختلف چیزیں مختلف شرح کے ساتھ موجود تھیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی ایک نسخے میں بھی یہ ساری چیزیں اکٹھی موجود نہیں تھیں۔

تاہم انھوں نے اس مسئلے کی ذمےداری کسی ایک ادارے پر ڈالنے سے اجتناب کیا:

کسی ایک ادارے، کسی ایک شخص، یا کسی ایک پروفیشن کو اس کا ذمےدار ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہو گا، کیوں کہ یہ بہت سے اداروں کا کردار اور یہ پورے نظام کا مسئلہ ہے، جس میں میڈیکل طلبہ کی تربیت، ڈاکٹروں کی بار بار ازسرِ نو تربیت، انضباطی اداروں کا کردار اور دوسری چیزیں شامل ہیں۔

یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ جلدی اور لاپروائی سے لکھے جانے والا نامکمل نسخہ مریض کے لیے کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ ملک میں ایسے میڈیکل سٹوروں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جہاں کوالیفائیڈ فارماسسٹ موجود ہوتا ہے جو ڈاکٹر کی غلطی پکڑ سکے۔

وزارتِ صحت کے خاتمے کے بعد ملک میں ایک سرکاری ادارہ ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان بنایا گیا ہے۔ اس ادارے کے چیف ایگزیکیٹیو افسر ارشاد خان سے بات کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ ان کا ادارہ اس سلسلے میں ڈاکٹروں کی استعدادِ کار بڑھانے کے لیے پروگرام شروع کر رہا ہے:

سابقہ وزارتِ صحت نے بھی اس سلسلے میں سیمینار منعقد کروائے تھے اور اب ہمارا ڈائریکٹوریٹ آف فارمیسی سروسز اس کام کو آگے لے کر چلے گا۔



تحقیق کا خلاصہ
  1. ڈاکٹر کا رجسٹریشن نمبر نہیں: 98.2 فیصد
  2. ڈاکٹر کا نام نہیں: 89 فیصد
  3. تشخیص نہیں: 78 فیصد
  4. دوا کی خوراک نہیں: 63.8 فیصد
  5. نسخہ بدخط ہے: 58.5 فیصد
  6. دوا لینے کا دورانیہ نہیں: 55.4 فیصد
  7. فی نسخہ ادویات کی تعداد: 3.32
  8. برانڈڈ ادویات کی شرح: 90 فیصد


Must read : http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2014/04/140407_pakistan_prescription_habits_zis.shtml?print=1
 

uetian

Senator (1k+ posts)
which carcinoma? at which stage? how did u treat with it? may GOD bless u.

It was Acute Lymphoblastic Leukemia, treated by oncologists from Jinnah Hospital Lahore.
I don't remember the stage, however the blast cells were about 84% at the time when treatment was started, and it took about 2 years.
 

Back
Top