ٹی وی چینلز پر پی ٹی آئی کا مؤقف نظر انداز، سوشل میڈیا پر انحصار

bananahaaiai.jpg


نو مئی کے واقعات کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر میڈیا پر دکھانے پر پابندی کے بعد سوشل میڈیا کا سہارا لیا جارہاہے، بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق عمران خان اور ان کی جماعت کی طرف سے 9 مئی کے واقعات کے بعد سوشل میڈیا پر زیادہ انحصار کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا مؤقف زیادہ تر مقامی ٹی وی چینلز پر نظر نہیں آ رہا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انتظامیہ کی طرف سے مقامی ٹی وی چینلز کو باضابطہ طور پر کوئی ایسی ہدایات نہیں دی گئیں کہ عمران خان یا ان کی جماعت کی خبر نشر کرنے پر پابندی ہو گی تاہم 31 مئی کو پیمرا نے پاکستانی نیوز چینلز کے لیے ایک ہدایت نامہ جاری کیا،جس میں کہا گیا تھا کہ وہ نفرت انگیز بیانیے کو ترویج دینے والوں کو وقت دینے سے گریز کریں۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس صورت میں سوال یہ ہے کیا ایسی کوئی خفیہ ہدایات موجود ہیں کہ عمران خان کا نام نشر نہ کیا جائے،پاکستانی ٹی وی چینلز میں کام کرنے والے متعدد رپورٹرز اور بیورو چیفس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آن ریکارڈ اس بات کی تصدیق یا تردید کرنے سے گریز کیا۔

دو چینلز کے عہدیداران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ان کے مالکان کو متنبہ کیا گیا عمران خان کا نام یا تصویر نشر نہ کی جائے اور اگر ضروری ہو تو انھیں تحریکِ انصاف کا سربراہ کہا جائے،اس کی مثال اے آر وائی کے ایک پروگرام کے دوران دیکھنے کو ملی جب اینکر کاشف عباسی نے عمران خان کا نام لیا اور پھر وہ فوراً ہی معذرت کرتے اور انھیں تحریکِ انصاف کے سربراہ کہتے دکھائی دیے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والی نجی ٹی وی چینل آج نیوز کی بیورو چیف فرزانہ علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کسی بھی جمہوری نظام میں کسی سیاستدان کی آواز کو دبانا خوش آئند نہیں ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

فرزانہ علی کے نزدیک اگر ایسا ہو رہا ہے تو اس کے ذمہ دار بھی پاکستان میں سیاستدان اور سیاسی جماعتیں خود ہیں، ہم نے دیکھا کہ جب سابق وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت تھی تو اس میں ن لیگ کی آواز کو دبایا گیا، اب اگر عمران خان کے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے تو اس میں زیادہ تر قصور سیاستدانوں ہی کا ہے، ایسا کرنے سے ملک میں جمہوری نظام کا فائدہ نہیں ہو رہا۔

شاہ زیب جیلانی کہتے ہیں حال ہی میں 9 مئی کے واقعات کے بعد ماحول تیزی سے بدل رہا ہے،مثال کے طور پر ہم سے یہ ایک فرمائش کی گئی آپ عمران خان کا نام نہیں لیں گے، تو ہم اس کے بہانے تلاش کرتے ہیں پھر یہ کیسے کیا جائے۔ کیا ان کو سابق وزیراعظم کہیں، قاسم کے ابا کہیں یا سابق کرکٹر کہیں، آخر کار وہ سابق وزیراعظم ہیں ان کے نام کے بغیر سیاست پر بحث کیسے ممکن ہے،اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے حوالے سے کوئی پراجیکٹ بنا رکھا ہے تو وہ اس کے لیے میڈیا پر بھی دباؤ بڑھائیں گے۔
 

Will_Bite

Prime Minister (20k+ posts)
More people are watching IKs once a week speech on social media than all talk shows on all channels combined. Our mainstream media is dead. All anchors are seemingly tied to some political setup, and have no voice of their own
 

Back
Top