SardarSajidArif
Politcal Worker (100+ posts)
جب بھی کسی محفل یا مجلس میں کسی ملنگ کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوتی ھے. جب وہ ایک سو گیارہ مرتبہ موٹر وے کا ورد مکمل کرتے کرتے نیم مدہوشی کی کیفیت میں جایا ہی چاہتا ھے. جب ایٹمی دھماکے کا ذکر کرتے کرتے اس کی رنگت چاغی کے پہاڑوں جیسی ہونا شروع ہو جاۓ. جب پیلی ٹیکسی کا وظیفہ جاپتے جاپتے وہ نیلا پیلا ہونے لگے. جب حواس باختہ ہو کر میاں منڈیلا اور نیلسن شریف میں مکسنگ شروع کر دے
جب بھی ، جہاں بھی زرداریت کا پیروکار کوئی مجاور مجھے بھٹو خاندان کا فلسفہ شہادت سمجھا چکتا ھے. جب جمہوریت کا انتقام نامی بلاک بسٹر فلم کی مکمل کہانی ڈائیلاگز سمیت میرے کانوں میں ٹھونسی جا چکی ہوتی ھے . جب این آر او کی بریانی اور مفاہمت کی چٹنی کھلانے کے بعد وسیع تر مفاد کا چورن مجھے پیش کیا جا چکتا ھے. جب اور جس وقت جیالے پر جلالی کیفیت طاری ہونا شروع ہو جاۓ
جب مجھے کیوں نکالا کی تال پر دھمال, اور زندہ ہے بھٹو کے قال پر حال پڑنا شروع ہوجائے. جب وہ دونوں اصحاب مجھے گھیرے میں لے کر نیازی نیازی کی گردان شروع کر دیں. جب ان کے نتھنوں سے دھواں نکلنے لگے اور وہ ہانپتے ہانپتے کانپنا اور کانپتے کانپتے ہانپنا شروع ہوجائیں. اور جب بوریت کی وجہ سے سے مجھے جمائیاں آنا شروع ہو جائیں تو میں ہاتھوں میں دبے سیگرٹ کا آخری کش لینے کے بعد اسے پاؤں تلے مسلتے ھوے سرگوشی کے انداز میں یہ سوال کر کے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت سمجھتا ہوں. کیونکہ یہ سوال سننے کے بعد وہ ڈرامہ ارطغرل کے کردار الو کی طرح کسی جناتی زبان میں ہرہر اور پھر پھر پکارتے رقص فرمانے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے
بلاول ، بختاور اور حمزہ ، مریم کی بادشاہان سلامت سے رشتہ داری کے علاوہ اور کون سی صلاحیت ھے کہ جو ایک عام کارکن میں نہیں. پھر جو مقام معرفت انہیں نصیب ہوا وہ عام مریدوں کو کیوں نہیں. حالانکہ بادشاہت میں بھی قطب الدین ایبک اور ایاز بننے کی گنجائش نکل ہی آتی ھے
- Featured Thumbs
- https://i.dawn.com/primary/2015/12/5660329a4a0db.jpg
Last edited by a moderator: