متعدد سرکاری ادارے آڈٹ کروانے سے انکاری، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں انکشاف

screenshot_1746560283565.png



اسلام آباد: پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈیٹر جنرل نے انکشاف کیا کہ اس وقت 7 سے 8 سرکاری ادارے آڈٹ کرانے سے انکاری ہیں، جو سرکاری خزانے کی نگرانی میں ایک بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اجلاس کی صدارت چیئرمین جنید اکبر خان نے کی۔


اجلاس کے دوران پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی میں 5 ارب روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں، جس پر کمیٹی کے رکن نوید قمر نے کہا کہ یہ اتھارٹی وفاقی حکومت کے تحت نہیں آتی اور خود کو وفاقی ادارہ نہیں سمجھتی۔ اس حوالے سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کو ایک ماہ کے اندر اپنے مالیاتی قواعد بنانے کی ہدایت کی ہے۔


آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ کئی سرکاری ادارے آڈٹ کرانے سے انکار کر رہے ہیں، جس پر کمیٹی نے ہدایت کی کہ ایسے تمام اداروں کے سربراہوں کو فوری طور پر طلب کیا جائے اور ان سے وضاحت طلب کی جائے۔


دوران اجلاس سیکرٹری توانائی نے بتایا کہ 2020 میں کابینہ کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ مظفر گڑھ کے پانچ پاور ہاؤسز کو فروخت کیا جائے گا کیونکہ ملک میں بجلی کی اوور کپیسٹی موجود ہے۔ تاہم کمیٹی کے چیئرمین نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ جب ملک میں بجلی کی کمی کا سامنا ہے، تو کس طرح اوورکپیسٹی کی بات کی جا رہی ہے۔


سیکرٹری توانائی نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ زیادہ تر لائن لاسز والے علاقوں میں ہو رہی ہے اور پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پاور پلانٹس کی نجکاری ممکن نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ گدو اور نندی پور کمبائنڈ سائیکل پاور پلانٹس کو نجی شعبے میں منتقل کیا جائے گا، لیکن ان پلانٹس کی مشینری فروخت کی جائے گی، اراضی فروخت نہیں کی جائے گی۔


کمیٹی نے ہدایت کی کہ فروخت کیے جانے والے تمام پرانے پاور پلانٹس کی تفصیلات فراہم کی جائیں اور ان پلانٹس کا اسپیشل آڈٹ بھی کیا جائے۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ وہ صرف ان پلانٹس کا آڈٹ کر سکتے ہیں جن کی فروخت مکمل ہوچکی ہے۔


یہ اجلاس حکومت کے مالیاتی نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لیے ایک اہم قدم تھا، جس میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سرکاری اداروں کی مالیاتی نگرانی کو مزید مؤثر بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔
 

Back
Top