لاہور ہائیکورٹ کا اہم فیصلہ: پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں گواہوں کے بیانات اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں تحریر کرنے کا حکم
لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب بھر کی ماتحت عدالتوں کو ہدایت دی ہے کہ آئندہ گواہوں کے بیانات انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی تحریر کیے جائیں۔ یہ حکم جسٹس طارق ندیم نے ایک اہم فیصلے میں جاری کیا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ اردو زبان کے استعمال سے متعلق 1973 کا نوٹیفکیشن آج بھی موجود ہے، لیکن بدقسمتی سے اس پر آج تک مکمل عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ فیصلے میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں اب بھی گواہوں کے بیانات صرف انگریزی میں ریکارڈ کیے جاتے ہیں، جس سے انصاف کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، خاص طور پر جب گواہ کی غیر موجودگی میں ترجمہ کیا جائے۔
یہ فیصلہ محمد عرفان عرف پومی کی اپیل پر سنایا گیا، جسے شہری عبد الناصر کے قتل کے مقدمے میں سزائے موت دی گئی تھی۔ عدالت نے شواہد کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اس کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ موقع پر موجود دو چشم دید گواہوں کے بیانات میں تضاد سامنے آیا، جو غالباً انگریزی ٹائپنگ کی غلطی کا نتیجہ تھا۔ جسٹس طارق ندیم نے قرار دیا کہ قانون کے مطابق گواہوں کے بیانات ان کی مادری زبان میں تحریر کیے جانے چاہئیں اور یہ عمل ملزم یا اس کے نمائندے کی موجودگی میں مکمل ہونا چاہیے۔
عدالت نے تسلیم کیا کہ چشمدید گواہوں، میڈیکل رپورٹس اور دیگر شواہد کی بنیاد پر استغاثہ نے مقدمہ ثابت کر دیا، تاہم ترجمے کی غلطیوں اور بیانات میں تضادات کی وجہ سے سزا میں نرمی کی گئی۔
لاہور ہائیکورٹ نے رجسٹرار کو ہدایت دی کہ یہ فیصلہ تمام سیشن ججز، سپیشل ججز اور وزارتِ قانون و انصاف کو بھیجا جائے۔ مزید یہ کہ عدالتی افسران اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئندہ گواہوں کے بیانات انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی تحریر کیے جائیں اور یہ عمل گواہوں اور فریقین کی موجودگی میں ہو۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ پہلے ہی اردو زبان کو سرکاری سطح پر نافذ کرنے کا حکم دے چکی ہے، لیکن تاحال اس پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
Last edited by a moderator: