عمران سنجرانی کی یہ منطق سمجھ سے بالا تر ہے۔ وہ اپنے ایک بیان میں یہ کہتے ہوئے پائے گئے تھے کہ میرے پاس سب کچھ ہے، پیسہ ہے، شہرت ہے۔ مجھے کسی چیز کی طلب نہیں، مگر مجھ پر لازم ہے کہ میں اپنے ملک کی بہتری کے لیے کام کروں، اور اسی لیے سیاست میں آیا ہوں۔ خواتین و حضرات، آپ ہی بتائیے، آپ نے کسی ایسے سیاست دان کا دیدار کیا ہے جو یہ کہتا ہو کہ میں سیاست میں اس لیے آیا تاکہ جھنڈے والی گاڑی میں بیٹھ سکوں، تاکہ میرے دائیں بائیں خدمت گزاروں کی فوج ظفر موج ہو، مجھے گارڈ آف آنر پیش کیا جائے، اربوں کھربوں کماؤں، سوئس بینک اکاؤنٹس میں چھپاؤں، آف شور کمپنیاں بناؤں، دنیا بھر میں جائیدادیں بناؤں؟
سب ہی پارسا اور انسان دوست بنتے ہیں۔ عمران خان بھی بن گئے۔ ان کو گولڈاسمتھ استادوں نے یہی جملے رٹوائے تھے، کہ جب لوگ پوچھیں کہ یہ اچانک کیا ہوا، سیاست میں کیسے آگئے، تو بس یہی جملے بول دینا اور داد و تحسین وصول کر لینا۔ سامعین اور حاضرین کی اکثریت بے شک یہ سمجھے کہ تم جھوٹے ہو اور بے وقوف بنارہے ہو، مگر تالیاں وہ ضرور بجائیں گے، اور تمہارے ایسے بیانات تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔
عمران خان کا خاندانی پس منظر دیکھیں تو ان کے والد بزرگوار نے کوئی خیراتی ادارہ، کوئی پانی کی سبیل، کوئی مسجد، کوئی یتیم خانہ کچھ بھی تعمیر نہیں کروایا۔ بہ الفاظ دیگر عمران خان کو ایسی تربیت نہیں دی گئی کہ اپنے پیسوں سے، جی ہاں اپنے کمائے ہوئے پیسوں سے فلاح انسانیت کا کوئی کام کیا جائے۔
چناں چہ عمران خان نے اپنی شہرت کا فائدہ اٹھا کر لوگوں سے مال بٹورنا شروع کیا، جس طرح الطاف حسین اپنی شہرت اور طاقت کے ذریعے کراچی اور حیدرآباد کے عوام سے زبردستی فطرہ زکوٰۃ لیتے تھے اور قربانی کی کھالیں چھینتے تھے، عمران خان کا طریقہ واردات قدرے مختلف تھا۔ عمران خان نے اپنی ماں کا نام استعمال کیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے مسجدوں کے باہر اور گلیوں بازاروں میں لوگ اپنی بوڑھی ماں اور بچوں کے نام پر بھیک وصول کرتے ہیں۔
نواز شریف کو بے وقوف بنا کر شوکت خانم ہسپتال کی زمین ہتھیائی، 50 کروڑ روپے حاصل کیے۔ ہسپتال کی تعمیر کے لیے دنیا بھر سے، اور یہودی سسرالیوں سے پیسہ لیا۔ ہسپتال بن گیا تو اگلے ہی برس بجائے اس کے کہ پاکستان کے باقی شہروں میں ہسپتال کی شاخیں بناتے، یا صرف کینسر سے ہٹ کر عام بیماریوں کے ہسپتال بناتے۔ عبد الستار ایدھی اور ڈاکٹر ادیب رضوی کے نقش قدم پر چلتے۔۔۔ اگلے ہی برس سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیے۔
لوگوں کو اب سمجھ آیا کہ ہسپتال بنوانے کا مقصد کچھ اور تھا۔ والدہ کی محبت بس ایک دکھاوا اور بہانہ تھی۔ اصل مقصد سیاست میں آنے سے پہلے اپنے اوپر لگی جنسیت پرستی اور گوری اور دولت مند دوشیزاؤں کے ساتھ چکر چلانے کی چھاپ ہٹانا تھا۔ کینسر ہسپتال، ماں کی موت، یتیمی کا دکھ، رحم دل عورتوں اور مردوں کا دل موہ لینے کے لیے کافی تھا۔
تحریک انصاف بنی، وزارت عظمیٰ یعنی شہنشاہ پاکستان کے خواب بننا شروع کیے۔ 22 سال جدوجہد کی۔ لوگوں پر لعن طعن کی، فوج کو برابھلا کہا، سیاست دانوں پر انگلی اٹھائی، لوگوں کی ذات پر کیچڑ اچھالی، سب کچھ کیا، بس انسانی خدمت کے کام نہیں کیے۔ کیوں کہ حضرت عمران سنجرانی کے دماغ میں جانے کس نے یہ خناس سمو دیا ہے کہ خدمت انسانیت کے لیے وزیراعظم بننا لازم ہے۔ مدر ٹریسا، ڈاکٹر روتھ فاؤ، عبدالستار ایدھی سب بے وقوف اور پاگل تھے، کیوں کہ ان میں سےکسی نے بھی وزیراعظم بننے کے لیے 22 سال جدوجہد نہیں کی۔
سب ہی پارسا اور انسان دوست بنتے ہیں۔ عمران خان بھی بن گئے۔ ان کو گولڈاسمتھ استادوں نے یہی جملے رٹوائے تھے، کہ جب لوگ پوچھیں کہ یہ اچانک کیا ہوا، سیاست میں کیسے آگئے، تو بس یہی جملے بول دینا اور داد و تحسین وصول کر لینا۔ سامعین اور حاضرین کی اکثریت بے شک یہ سمجھے کہ تم جھوٹے ہو اور بے وقوف بنارہے ہو، مگر تالیاں وہ ضرور بجائیں گے، اور تمہارے ایسے بیانات تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔
عمران خان کا خاندانی پس منظر دیکھیں تو ان کے والد بزرگوار نے کوئی خیراتی ادارہ، کوئی پانی کی سبیل، کوئی مسجد، کوئی یتیم خانہ کچھ بھی تعمیر نہیں کروایا۔ بہ الفاظ دیگر عمران خان کو ایسی تربیت نہیں دی گئی کہ اپنے پیسوں سے، جی ہاں اپنے کمائے ہوئے پیسوں سے فلاح انسانیت کا کوئی کام کیا جائے۔
چناں چہ عمران خان نے اپنی شہرت کا فائدہ اٹھا کر لوگوں سے مال بٹورنا شروع کیا، جس طرح الطاف حسین اپنی شہرت اور طاقت کے ذریعے کراچی اور حیدرآباد کے عوام سے زبردستی فطرہ زکوٰۃ لیتے تھے اور قربانی کی کھالیں چھینتے تھے، عمران خان کا طریقہ واردات قدرے مختلف تھا۔ عمران خان نے اپنی ماں کا نام استعمال کیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے مسجدوں کے باہر اور گلیوں بازاروں میں لوگ اپنی بوڑھی ماں اور بچوں کے نام پر بھیک وصول کرتے ہیں۔
نواز شریف کو بے وقوف بنا کر شوکت خانم ہسپتال کی زمین ہتھیائی، 50 کروڑ روپے حاصل کیے۔ ہسپتال کی تعمیر کے لیے دنیا بھر سے، اور یہودی سسرالیوں سے پیسہ لیا۔ ہسپتال بن گیا تو اگلے ہی برس بجائے اس کے کہ پاکستان کے باقی شہروں میں ہسپتال کی شاخیں بناتے، یا صرف کینسر سے ہٹ کر عام بیماریوں کے ہسپتال بناتے۔ عبد الستار ایدھی اور ڈاکٹر ادیب رضوی کے نقش قدم پر چلتے۔۔۔ اگلے ہی برس سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیے۔
لوگوں کو اب سمجھ آیا کہ ہسپتال بنوانے کا مقصد کچھ اور تھا۔ والدہ کی محبت بس ایک دکھاوا اور بہانہ تھی۔ اصل مقصد سیاست میں آنے سے پہلے اپنے اوپر لگی جنسیت پرستی اور گوری اور دولت مند دوشیزاؤں کے ساتھ چکر چلانے کی چھاپ ہٹانا تھا۔ کینسر ہسپتال، ماں کی موت، یتیمی کا دکھ، رحم دل عورتوں اور مردوں کا دل موہ لینے کے لیے کافی تھا۔
تحریک انصاف بنی، وزارت عظمیٰ یعنی شہنشاہ پاکستان کے خواب بننا شروع کیے۔ 22 سال جدوجہد کی۔ لوگوں پر لعن طعن کی، فوج کو برابھلا کہا، سیاست دانوں پر انگلی اٹھائی، لوگوں کی ذات پر کیچڑ اچھالی، سب کچھ کیا، بس انسانی خدمت کے کام نہیں کیے۔ کیوں کہ حضرت عمران سنجرانی کے دماغ میں جانے کس نے یہ خناس سمو دیا ہے کہ خدمت انسانیت کے لیے وزیراعظم بننا لازم ہے۔ مدر ٹریسا، ڈاکٹر روتھ فاؤ، عبدالستار ایدھی سب بے وقوف اور پاگل تھے، کیوں کہ ان میں سےکسی نے بھی وزیراعظم بننے کے لیے 22 سال جدوجہد نہیں کی۔
- Featured Thumbs
- https://i.dawn.com/primary/2017/09/59c8b864970c2.jpg
Last edited: