صحیح مسلم حدیث

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
اس تھریڈ میں صحیح مسلم سے ایک حدیث بتا دی گئی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
محترم حسن الله یاری صاحب کے مناظرے یو ٹیوب پر وائرل ہو چکے ہیں . انجنیئر محمد علی صاحب کے شاگرد بھی ان سے سوالات کر رہے ہیں

الحمد الله
 

Halta

Politcal Worker (100+ posts)
عمران خائن نے پہلے انت مچائی ہوئی ہے
اوپر سے

شیعے بھی اپنا کت خانہ تلنے آ گئے

سپاہ صحابہ والے اسی لیے انہیں کافر کہتے ہیں

 

Punch77

Voter (50+ posts)

حضرت علی کن کو گناہگار ، جھوٹا ، چور اور دغا باز سمجھتے تھے ؟؟؟
چار ،منٹ کی اس ویڈیو میں جانے صحیح مسلم کی حدیث سے
Is there any need for a religious thread here? apart from create doubts in other minds and divide them.
 

bilal6516

Senator (1k+ posts)
عمران خائن نے پہلے انت مچائی ہوئی ہے
اوپر سے

شیعے بھی اپنا کت خانہ تلنے آ گئے

سپاہ صحابہ والے اسی لیے انہیں کافر کہتے ہیں

Imran Khan kya kia hai. Government ke paas Imran Khan pe FIR Karney ke elewa koi kaam nahin..
 

Citizen X

President (40k+ posts)
Lagay raho apnay fazool haditheesi firqawariyat kutt khanay mein. Meri hadees, teri hadees. In duniyawi kitabon ke chakar mein ek doosray ki chitrol kerte raho. Jo ek asal kitab hai us ko koi nahi pooch tha.


25_30.png


The Prophet said "Oh my Lord my people have taken the Quran as something unjust/forsaken"
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)

حضرت علی کن کو گناہگار ، جھوٹا ، چور اور دغا باز سمجھتے تھے ؟؟؟
چار ،منٹ کی اس ویڈیو میں جانے صحیح مسلم کی حدیث سے


اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو شیعہ کے فتنے سے بچاے (آمین ) کہاں کی بات کہاں جا کر ملائی ہے -یہ حدیث الٹا شیعہ کے باطل الزام کی نفی کرتی جو کہ وہ عظیم صحابہ کرام رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا پر لگاتے چلے آۓ ہیں- اس حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی اور حضرت عبّاس دونوں کو رسول اللہ کی اس حدیث سے کہ "ہمارا کوئی وارث نہیں بنے گا ، ہم جو چھوڑیں گے وہ صدقہ ہو گا" سے بلکل واقف تھے اور اس بات سے کوئی اختلاف نہ رکھتے تھے- بلکہ اختلاف تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبّاس رضی اللہ عنہ میں زمینوں کی پیداوار کا انتظام چلانے پر ہوا - حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر وہ اس خیراتی زمین کا انتظام نہیں چلا سکتے تو پھر واپس کر دیں۔ حدیث کے الفاظ ہیں:

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ پھر انہوں نے عباس اور علی رضی اللہ عنہما کو وہی قسم دی جو باقی لوگوں کو دی تھی ( اور کہا ) : کیا تم دونوں یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ۔

اس واقعہ کے سیاق و سباق کو سمجھنا ضروری ہے:

اس واقعے کا ایک سیاق و سباق ہے ، اور شیعہ کے باطل الزام کو سمجھنے کے لئے ، ہمیں واقعے کے مکمل سیاق و سباق کا جائزہ لینا کی ضرورت ہے ، تب ہی ہم یہ سمجھنے کے اہل ہوں گے کہ واقعتا کیا ہوا ہے اور ایسے الفاظ کیوں استعمال کیے گئے تھے۔ اس واقعے کا منظر یہ ہے کہ عباس اور علی دونوں نے اس حدیث کو قبول کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وراثت کو نہیں چھوڑتے ہیں ، اور زمین کی پیداوار خیرات میں جاتی ہے ، لیکن ان کا خیال تھا ، وہ اب بھی اس کا انتظام کرسکتے ہیں اور اس سے کھا سکتے ہیں۔ ، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "محمد کا گھرانہ اس میں سے کھا سکتا ہے۔" ان کے نزدیک اس وقف کے قابو میں ہونا پیشن گوئی کے بیان سے کوئی تضاد نہیں تھا۔

یہ واقعہ صحیح مسلم کتاب' islam360 حدیث نمبر ٤٥٧٧ میں بیان کیا گیا ہے، قائرین کی سہولت کے لیے مکلمل اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے


امام مالک نے زہری سے روایت کی کہ انہیں مالک بن اوس نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے میری طرف قاصد بھیجا ، دن چڑھ چکا تھا کہ میں ان کے پاس پہنچا ۔ کہا : میں نے ان کو ان کے گھر میں اپنی چارپائی پر بیٹھے ہوئے پایا ، انہوں نے اپنا جسم کھجور سے بنے ہوئے بان کے ساتھ لگایا ہوا تھا اور چمڑے کے تکیے سے ٹیک لگائی ہوئی تھی ، تو انہوں نے مجھ سے کہا : اے مال ( مالک ) ! تمہاری قوم میں سے کچھ خاندان لپکتے ہوئے آئے تھے تو میں نے ان کے لیے تھوڑا سا عطیہ دینے کا حکم دیا ہے ، اسے لو اور ان میں تقسیم کر دو ۔ کہا : میں نے کہا : اگر آپ میرے سوا کسی اور کو اس کا حکم دے دیں ( تو کیسا رہے؟ ) انہوں نے کہا : اے مال! تم لے لو ۔ کہا : ( اتنے میں ان کے مولیٰ ) یرفا ان کے پاس آئے اور کہنے لگے : امیر المومنین! کیا آپ کو عثمان ، عبدالرحمان بن عوف ، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم ( کے ساتھ ملنے ) میں دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ تو اس نے ان کو اجازت دی ۔ وہ اندر آ گئے ، وہ پھر آیا اور کہنے لگا : کیا آپ کو عباس اور علی رضی اللہ عنہما ( کے ساتھ ملنے ) میں دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ تو اس نے ان دونوں کو بھی اجازت دے دی ۔ تو
عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : امیر المومنین! میرے اور اس جھوٹے ، گناہ گار ، عہد شکن اور خائن کے درمیان فیصلہ کر دیں ۔ کہا : اس پر ان لوگوں نے کہا : ہاں ، امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر کے ان کو ( جھگڑے کے عذاب سے ) راحت دلا دیں ۔ ۔ مالک بن اوس نے کہا : میرا خیال ہے کہ انہوں نے ان لوگوں کو اسی غرض سے اپنے آگے بھیجا تھا ۔ ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : تم دونوں رکو ، میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ہمارا کوئی وارث نہیں بنے گا ، ہم جو چھوڑیں گے وہ صدقہ ہو گا ؟ ان سب نے کہا : ہاں ۔ پھر وہ حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : میں تم دونوں کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : تمہارا کوئی وارث نہیں ہو گا ، ہم جو کچھ چھوڑیں گے ، صدقہ ہو گا ؟ ان دونوں نے کہا : ہاں ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص چیز عطا کی تھی جو اس نے آپ کے علاوہ کسی کے لیے مخصوص نہیں کی تھی ، اس نے فرمایا ہے : جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں کی طرف سے اپنے رسول پر لوٹایا وہ اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ۔ ۔ مجھے پتہ نہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے والی آیت بھی پڑھی یا نہیں ۔ ۔ انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے اموال تم سب میں تقسیم کر دیے ، اللہ کی قسم! آپ نے ( اپنی ذات کو ) تم پر ترجیح نہیں دی اور نہ تمہیں چھوڑ کر وہ مال لیا ، حتی کہ یہ مال باقی بچ گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنے سال بھر کا خرچ لیتے ، پھر جو باقی بچ جاتا اسے ( بیت المال کے ) مال کے مطابق ( عام لوگوں کے فائدے کے لیے ) استعمال کرتے ۔ انہوں نے پھر کہا : میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ پھر انہوں نے عباس اور علی رضی اللہ عنہما کو وہی قسم دی جو باقی لوگوں کو دی تھی ( اور کہا ) : کیا تم دونوں یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ۔ پھر کہا : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشیں ہوں تو آپ دونوں آئے ، آپ اپنے بھتیجے کی وراثت مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی کی ان کے والد کی طرف سے وراثت مانگ رہے تھے ۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا ، ہم جو چھوڑیں گے ، صدقہ ہے ۔ تو تم نے انہیں جھوٹا ، گناہ گار ، عہد شکن اور خائن خیال کیا تھا اور اللہ جانتا ہے وہ سچے ، نیکوکار ، راست رَو اور حق کے پیروکار تھے ۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جانشیں بنا تو تم نے مجھے جھوٹا ، گناہ گار ، عہد شکن اور خائن خیال کیا اور اللہ جانتا ہے کہ میں سچا ، نیکوکار ، راست رَو اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں ، میں اس کا منتظم بنا ، پھر تم اور یہ میرے پاس آئے ، تم دونوں اکٹھے ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے ۔ تم نے کہا : یہ ( اموال ) ہمارے سپرد کر دو ۔ میں نے کہا : اگر تم چاہو تو میں اس شرط پر یہ تم دونوں کے حوالے کر دیتا ہوں کہ تم دونوں پر اللہ کے عہد کی پاسداری لازمی ہو گی ، تم بھی اس میں وہی کرو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے تو تم نے اس شرط پر اسے لے لیا ۔ انہوں نے پوچھا : کیا ایسا ہی ہے؟ ان دونوں نے جواب دیا ۔ ہاں ۔ انہوں نے کہا : پھر تم ( اب ) دونوں میرے پاس آئے ہو کہ میں تم دونوں کے درمیان فیصلہ کروں ۔ نہیں ، اللہ کی قسم! میں قیامت کے قائم ہونے تک تمہارے درمیان اس کے سوا اور فیصلہ نہیں کروں گا ۔ اگر تم اس کے انتظام سے عاجز ہو تو وہ مال مجھے واپس کر دو۔

:خلاصہ
اس واقعے کا منظر یہ ہے کہ ، اگرچہ عباس اور علی دونوں نے اس حدیث کو قبول کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ملکیت وراثت کے لئے نہیں چھوڑی تھی ، اور زمین کی پیداوار خیرات ہو گی، لیکن ان کا خیال تھا کہ ، وہ اب بھی اس کا انتظام کرسکتے ہیں اور کھا سکتے ہیں۔ اس بنیاد پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : "محمد کا گھرانہ اس میں سے کھا سکتا ہے۔" ان کے نزدیک اس وقف کا ان کے انتظام میں ہونا رسول اللہ کی حدیث کے خلاف نہیں تھا۔

چنانچہ ان دونوں نے عمر رضي الله عنه سے درخواست کی کہ وہ ان کو خیراتی زمین سے پیداوار کا انتظام سونپ دیں۔ عمر بن الخطاب نے ان کی طرف نیک نیتی کی بناء پر دونوں افراد کو مدینہ کی زمین کا انتظام سونپ دیا کیونکہ وہ دونوں اہل بیت کے سربراہ تھے ، عمر رضي الله عنه نے انہیں کبھی بھی وراثت کے طور پر نہیں دیا ، بلکہ صرف زمینوں کی پیداوار کا انتظام اس طریقے پر چلانے کی اجازت دی تھی جیسا کا رسول اللہ کے زمانے میں ہوا کرتا تھا. لیکن دونوں (عباس اور علی) نے اس پر ایک دوسرے سے اختلاف کیا کہ وہ کیسے اس زمین کے ناظم اور کیسے اس کی پیداوار کو تقسیم کریں گے۔ چنانچہ وہ دونوں عمر کے پاس گئے اور ان سے اس کے درمیان فیصلہ کرنے کی درخواست کی ، کیونکہ وہ عمر کو کسی ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں ، جو ان کے مابین تنازعہ کو حل کرنے کے قابل اور قابل تھا۔

حضرت عباس رضي الله عنه نے حضرت عمر رضي الله عنه سے تعظیم کرتے ہوئے انہیں "امیر المومنین" کے لقب سے مخاطب ہوۓ ۔ لیکن چونکہ حضرت عباس رضي الله عنه اور حضرت علی رضي الله عنه نے اپنے سپرد کردہ صدقہ کو منظم کرنے اور تقسیم کرنے میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا تھا ، جس کے بعد حضرت عباس رضي الله عنه کا موقف تھا کہ حضرت علی رضي الله عنه نے ان کے ساتھ ناانصافی ہے ، اس لئے انہوں نے حضرت علی رضي الله عنه کو جھوٹے ، غدار ، گناہ اور بے ایمانی جیسے انتہائی سخت الفاظ میں بیان کیا۔

چنانچہ ، ان کے تنازعہ کو حل کرنے کے لئے ، حضرت عمر رضي الله عنه نے اس پر ردعمل کا اظہار کیا ، حضرت عباس رضي الله عنه نے حضرت علی رضي الله عنه کے خلاف وہی الفاظ استعمال کیے تھے۔ حضرت عمر رضي الله عنه یہ تاکید کر رہے تھے کہ اگر حضرت عباس رضي الله عنه کی حضرت علی رضي الله عنه کے بارے میں بیانات درست ہیں تو حضرت ابوبکر رضي الله عنه اور حضرت عمر رضي الله عنه کو اس طرح بیان کرنا چاہئے ، کیونکہ حضرت ابوبکر رضي الله عنه اور حضرت عمر رضي الله عنه نے انہیں یہ جائیداد کبھی بھی مراعات نہیں دی بلکہ حضرت عمر رضي الله عنه نے صرف انھیں اس کی ذمہ داری سونپی تھی ، اس شرط پر اس کا انتظام اسی طرح کرنا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا انتظام کرتے تھے۔ اور علی اور حضرت عباس رضي الله عنه دونوں اس شرط پر متفق ہوگئے تھے۔ چنانچہ حضرت عمر رضي الله عنه ان دونوں کو یہ سمجھا نے کی کوشش کر رہے تھے کہ انہیں اس پر لڑائی نہیں لڑنی چاہئے اور نہ ہی اس کی تقسیم کا مطالبہ کرنا چاہئے کیونکہ یہ ان کی ملکیت یا وراثت نہیں ہے۔

شیعہ برادری کے لوگ یہ سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں ، حضرت عباس رضي الله عنه نے حضرت عمر رضي الله عنه کو "امیر المومنین" کے لقب سے مخاطب کیا ، اور حضرت عباس رضي الله عنه اور حضرت علی رضي الله عنه دونوں نے عمر کے پاس فیصلہ کے لئے پہنچے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں۔ اگر وہ حضرت عمر رضي الله عنه کو غدار یا بے ایمان شخص سمجھتے تو وہ ایسا نہ کرتے۔ نیز ، اس بات سے ایک اور چیز ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عمر رضي الله عنه نے عین وہی الفاظ استعمال کیے جو حضرت عباس رضي الله عنه نے حضرت علی رضي الله عنه کے لئے استعمال کیے تھے ، کیا حضرت عمر رضي الله عنه نے کہا ، "تم دونوں مجھے سمجھتے ہو ..." ، حضرت عمر رضي الله عنه نے یہ بھی نہیں کہا ، "تم دونوں میرے بارے میں کہتے ہو..… یا نہ ہی یہ کہا کہ آپ دونوں نے مجھ پر الزام لگایا کہ … “، اس سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضي الله عنه نے صرف حضرت عباس رضي الله عنه کے الفاظ کو دہرانے کے انداز میں استعمال کرتے ہوئے ایک بات کی ہے۔
 
Last edited:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

، کیا حضرت عمر رضي الله عنه نے کہا ، "تم دونوں مجھے سمجھتے ہو ..." ، حضرت عمر رضي الله عنه نے یہ بھی نہیں کہا ، "تم دونوں میرے بارے میں کہتے ہو..… یا نہ ہی یہ کہا کہ آپ دونوں نے مجھ پر الزام لگایا کہ … “

۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جانشیں بنا تو تم نے مجھے جھوٹا ، گناہ گار ، عہد شکن اور خائن خیال کیا اور اللہ جانتا ہے کہ میں سچا ، نیکوکار ، راست رَو اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں ، میں اس کا منتظم بنا ، پھر تم اور یہ میرے پاس آئے ، تم دونوں اکٹھے ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے ۔
. . . . . . ..

سبحان الله

ابوبکر کی موت کے بعد جو جانشین بنا تھا یہ الفاظ اسی کے بارے میں ہیں غور سے پڑھیے
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)

۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جانشیں بنا تو تم نے مجھے جھوٹا ، گناہ گار ، عہد شکن اور خائن خیال کیا اور اللہ جانتا ہے کہ میں سچا ، نیکوکار ، راست رَو اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں ، میں اس کا منتظم بنا ، پھر تم اور یہ میرے پاس آئے ، تم دونوں اکٹھے ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے ۔
. . . . . . ..

سبحان الله

ابوبکر کی موت کے بعد جو جانشین بنا تھا یہ الفاظ اسی کے بارے میں ہیں غور سے پڑھیے
اس واقعے کا منظر یہ ہے کہ ، اگرچہ عباس اور علی دونوں نے اس حدیث کو قبول کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ملکیت وراثت کے لئے نہیں چھوڑی تھی ، اور زمین کی پیداوار خیرات ہو گی، لیکن ان کا خیال تھا کہ ، وہ اب بھی اس کا انتظام کرسکتے ہیں اور کھا سکتے ہیں۔ اس بنیاد پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : "محمد کا گھرانہ اس میں سے کھا سکتا ہے۔" ان کے نزدیک اس وقف کا ان کے انتظام میں ہونا رسول اللہ کی حدیث کے خلاف نہیں تھا۔

چنانچہ ان دونوں نے عمر رضي الله عنه سے درخواست کی کہ وہ ان کو خیراتی زمین سے پیداوار کا انتظام سونپ دیں۔ عمر بن الخطاب نے ان کی طرف نیک نیتی کی بناء پر دونوں افراد کو مدینہ کی زمین کا انتظام سونپ دیا کیونکہ وہ دونوں اہل بیت کے سربراہ تھے ، عمر رضي الله عنه نے انہیں کبھی بھی وراثت کے طور پر نہیں دیا ، بلکہ صرف زمینوں کی پیداوار کا انتظام اس طریقے پر چلانے کی اجازت دی تھی جیسا کا رسول اللہ کے زمانے میں ہوا کرتا تھا. لیکن دونوں (عباس اور علی) نے اس پر ایک دوسرے سے اختلاف کیا کہ وہ کیسے اس زمین کے ناظم اور کیسے اس کی پیداوار کو تقسیم کریں گے۔ چنانچہ وہ دونوں عمر کے پاس گئے اور ان سے اس کے درمیان فیصلہ کرنے کی درخواست کی ، کیونکہ وہ عمر کو کسی ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں ، جو ان کے مابین تنازعہ کو حل کرنے کے قابل اور قابل تھا۔

حضرت عباس رضي الله عنه نے حضرت عمر رضي الله عنه سے تعظیم کرتے ہوئے انہیں "امیر المومنین" کے لقب سے مخاطب ہوۓ ۔ لیکن چونکہ حضرت عباس رضي الله عنه اور حضرت علی رضي الله عنه نے اپنے سپرد کردہ صدقہ کو منظم کرنے اور تقسیم کرنے میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا تھا ، جس کے بعد حضرت عباس رضي الله عنه کا موقف تھا کہ حضرت علی رضي الله عنه نے ان کے ساتھ ناانصافی ہے ، اس لئے انہوں نے حضرت علی رضي الله عنه کو جھوٹے ، غدار ، گناہ اور بے ایمانی جیسے انتہائی سخت الفاظ میں بیان کیا۔

چنانچہ ، ان کے تنازعہ کو حل کرنے کے لئے ، حضرت عمر رضي الله عنه نے اس پر ردعمل کا اظہار کیا ، حضرت عباس رضي الله عنه نے حضرت علی رضي الله عنه کے خلاف وہی الفاظ استعمال کیے تھے۔ حضرت عمر رضي الله عنه یہ تاکید کر رہے تھے کہ اگر حضرت عباس رضي الله عنه کی حضرت علی رضي الله عنه کے بارے میں بیانات درست ہیں تو حضرت ابوبکر رضي الله عنه اور حضرت عمر رضي الله عنه کو اس طرح بیان کرنا چاہئے ، کیونکہ حضرت ابوبکر رضي الله عنه اور حضرت عمر رضي الله عنه نے انہیں یہ جائیداد کبھی بھی مراعات نہیں دی بلکہ حضرت عمر رضي الله عنه نے صرف انھیں اس کی ذمہ داری سونپی تھی ، اس شرط پر اس کا انتظام اسی طرح کرنا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا انتظام کرتے تھے۔ اور علی اور حضرت عباس رضي الله عنه دونوں اس شرط پر متفق ہوگئے تھے۔ چنانچہ حضرت عمر رضي الله عنه ان دونوں کو یہ سمجھا نے کی کوشش کر رہے تھے کہ انہیں اس پر لڑائی نہیں لڑنی چاہئے اور نہ ہی اس کی تقسیم کا مطالبہ کرنا چاہئے کیونکہ یہ ان کی ملکیت یا وراثت نہیں ہے