سوره تحریم کا بیان اور مختصر تفصیل

Caylu

Politcal Worker (100+ posts)
سورۃ تحریم، مدنی سورۃ ہے۔ اس کے ۲ رکوع اور ۱۲ ایتیں ہیں۔ عام طور پر اس کا زمانہ نزول ۶ ہجری بتایا جاتا ہے لیکن اگے ہم دیکھیں گے سورۃ کے الفاظ اس کا زمانہ نزول خود بتا دیں گے۔


سورۃ کی پیلی ایت ہی کسی واقعہ کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جس کی وجہ سے متعدد واقعات اس سورۃ کی شان نزول میں بیان کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ قران ہدایت کے لیے ہے نا کہ واقعات بتانے کے لیے لیکن ساتھ ہی ساتھ اللہ نے قران کو نہ صرف مبین یعنی روشن بلکہ فرقان یعنی کسوٹی، سچ اور جھوٹ کو پرکھنے والا بھی بیان کیا ہے۔ تو ائیے دیکھتے ہیں قران کی کسوٹی پر یہ واقعات پورا اترتے ہیں۔ اس سے پہلے سورۃ کی پہلی ۲ ایتیوں کا ترجمہ


بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكَ*ۚ تَبۡتَغِىۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِكَ*ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿۱﴾ قَدۡ فَرَضَ اللّٰهُ لَـكُمۡ تَحِلَّةَ اَيۡمَانِكُمۡ*ؕ وَاللّٰهُ مَوۡلٰٮكُمۡ*ۚ وَهُوَ الۡعَلِيۡمُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿۲﴾


اے پیغمبر جو چیز خدا نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو؟ (کیا اس سے) اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو؟ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے ﴿۱﴾ خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے۔ اور خدا ہی تمہارا کارساز ہے۔ اور وہ دانا (اور) حکمت والا ہے ﴿۲﴾


اس سلسلے میں مختلف واقعات اتے ہیں جن کو مختلف تفاسیر میں بیان کیا گیا ہے ان آیات کے شان نزول کے طور پر. ہم ان واقعات کو مختصر طور پر یہاں بیان کریں گے. ان کی تفصیلات مختلف تفاسیر یا حدیث کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں.


پہلا واقعہ حضرت ماریہ سے مطلق ہے. واقعہ یوں ہے کے نبی اکرم کا معمول تھا کہ عصر سے مغرب کے درمیان اپنی بیویوں کی طرف باری باری جاتے تھے. تو ایک دن اپنے روز کے معمول کے مطابق اپنی بیویوں کے وقت کے دوران حضرت حفصہ کی طرف گئے. تو حضرت حفصہ موجود نہیں تھیں اور اتنے میں حضرت ماریہ آ گئیں. اتنے میں حضرت حفصہ بھی واپس ا گئیں تو انھوں نے آپ کو اور حضرت ماریہ کو اپنے بستر پر دیکھ کر سخت ناراضگی کا اظہار کیا. نبی اکرم نے حضرت حفصہ کی دل جوئی کے لئے حضرت حفصہ کو کہا کہ وہ حضرت ماریہ کو اپنے اوپر حرام کرتے ہیں.


اس واقعہ میں ایک نہیں بلکہ کئی سقم ہیں. پہلی بات آیت میں اَزۡوَاجِكَ* کے الفاظ ائے ہیں. جو عربی میں تین یا اس سے زیادہ بیویوں کے لئے استعمال ہوتا ہے. جب کہ واقعہ میں ایک بیوی کا ذکر ہے. تو واقعہ کو کچھ بہتر کرنے کے لئے کچھ لوگوں نے اس واقعہ کا ایک پش منظر ڈالا کہ حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ نبی اکرم سے حضرت ماریہ کو علیحدہ کرنے کے لئے کہتی رہتی تھیں. لیکن پھر بھی دو بیویاں بنتی ہیں جو کہ تین سے کم ہیں.


دوسری بات یہ ہے کہ ایت میں لَـكَ* کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے کہ کوئی چیز جو خاص نبی اکرم کے لئے الله نے حلال کی تھی. لونڈی تو ہر کسی کے لئے حلال ہے اور اس کے حلال کرنے کا ایک طریقہ ہے.


تیسری بات کہ واقعہ میں اتا ہے کہ نبی اکرم نے حضرت ماریہ کو حرام قرار تو دیا لیکن حضرت حفصہ کو کہا کہ کسی کو بتانا نہ. تو اس میں چھپانے کی کیا حکمت تھی؟ اگر حضرت ماریہ کو حرام کرنے میں صرف حضرت حفصہ کی خوشنودی تھی یا تمام بیویوں کی خوشنودی تھی؟ اگر تمام بیویوں کو خوشنودی تھی تو پھر تو چھپانا نہیں چاہیے تھا.


یہ روایت قرآن کے ایک اور حکم سے بھی متصادم ہے. الله نے سوره نور میں بیویوں کے پاس جانے کے افضل اوقات بیان کیے ہیں اور وہ عشا کے بعد، فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت. جب کے روایت صاف کہ رہی ہے کہ عصر کے بعد یہ واقعہ ہوا ہے. تو قرآن کے اس حکم سے بھی یہ واقعہ متصادم ہے.


دوسرا واقعہ جو عام طور پر اس کی شان نزول میں پیش کیا جاتا ہے وہ شہد کا واقعہ ہے. جس میں کچھ طرح بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت زینب کے گھر میں شہد آیا تھا اور جب نبی اکرم ان کے گھر جاتے تو وہ آپ کو شہد پیش کرتیں اور آپ شہد کھانے کی وجہ سے وہاں کچھ زیادہ دیر ٹھہرتے جس کی وجہ سے حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، اور حضرت سودہ نے اپس میں طے کیا کہ نبی اکرم جب ان کی طرف آئیں گے تو وہ نبی کو کہیں گی کہ آپ کے منہ سے بو ا رہی ہے. نبی اکرم کو ہر قسم کی بو ناگوار گزرتی تھی تو جب آپ کو اپ کی باقی بیویوں نے یہ کہا تو آپ نے شہد کو اپنے اوپر حرام قرار دے دیا.


واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ بیویوں کی خواہش شہد کو حرام قرار دینے میں تو نہ تھی بلکہ وہ تو چاہتی تھیں کہ آپ حضرت زینب کی طرف وقت زیادہ نہ گزاریں. تو حضرت زینب شہد کی جگہ کوئی اور نبی اکرم کو محبوب چیز لا کر رکھ دیتیں تو کیا ہوتا؟ تو قرآن کی ایت تو واضح کر رہی کہ آپ نے جو چیز حرام کی وہ بیویوں کو خوشنودی کے لئے کی یعنی نبی اکرم کو بیویوں کی خوشنودی معلوم تھی.
دوسری بات کہ سوره تحریم کی دوسری آیات کہہ رہی ہے کہ "خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے" یعنی اس سے پہلے ہی الله قسموں کے کفارے کے متعلق احکامات نازل کر چکا ہے اور یہ احکامات سوره مائدہ میں ائے ہیں. آیات ٨٩.



لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغۡوِ فِىۡۤ اَيۡمَانِكُمۡ وَلٰـكِنۡ يُّؤَاخِذُكُمۡ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الۡاَيۡمَانَ* ۚ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطۡعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِيۡنَ مِنۡ اَوۡسَطِ مَا تُطۡعِمُوۡنَ اَهۡلِيۡكُمۡ اَوۡ كِسۡوَتُهُمۡ اَوۡ تَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ* ؕ فَمَنۡ لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ* ؕ ذٰ لِكَ كَفَّارَةُ اَيۡمَانِكُمۡ اِذَا حَلَفۡتُمۡ* ؕ وَاحۡفَظُوۡۤا اَيۡمَانَكُمۡ* ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿۸۹﴾
خدا تمہاری بےارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل وعیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو (اور اسے توڑ دو) اور (تم کو) چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو اس طرح خدا تمہارے (سمجھانے کے) لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو ﴿۸۹﴾



لیکن اس آیت سے پہلے آیت ٨٧ اور ٨٨ بھی بہت اہم ہیں.


وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَكَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَاۤ اُولٰٓٮِٕكَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِيۡمِ‏ ﴿۸۶﴾ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَيِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوۡا* ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُعۡتَدِيۡنَ‏ ﴿۸۷﴾ وَكُلُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا* وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِىۡۤ اَنۡـتُمۡ بِهٖ مُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۸۸﴾


مومنو! جو پاکیزہ چیزیں خدا نے تمہارے لیے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ﴿۸۷﴾ اور جو حلال طیّب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ اور خدا سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو ﴿۸۸﴾


آیت ٨٧ کہہ رہی ہے کہ مومنوں پاکیزہ حلال کھانے پینے کی چیزوں کو حرام نہ کرو. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ آیت نازل ہو چکی تھی جو کہ واضح ہے سوره تحریم سے تو پھر صاحب قرآن، مجسم قرآن کیسے ایک حلال پاکیزہ شہد کو حرام کر سکتے تھے؟ کیا آپ نبی سے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ قرآن میں دے گئے احکام کی نافرمانی کریں گے؟


دوسری بات شہد ایک پاک حلال چیز ہے جو کہ تمام مومنوں/مسلمانوں کے لئے حلال ہے نہ کہ صرف نبی اکرم کے لئے. جب کہ سوره تحریم کی آیات کہ رہی ہے کہ آپ اس چیز کو کیوں حرام کر رہے ہیں جو ہم نے آپ کے لئے حلال کی ہے یعنی وہ چیز جو حلال کی گئی ہے وہ صرف نبی کے لئے ہے نہ کہ تمام مسلمانوں کے لئے.


اس کے علاوہ ایک تیسرا واقعہ بھی اتا ہے اور وہ ہے کہ الله نے نبی اکرم کے لئے ہبہ کو حلال قرار دیا تھا. ہبہ یہ ہے کہ کوئی عورت اپنے اپ کو نبی اکرم کی زوجیت میں دے دے. اور نبی اکرم بھی اس کو پسند کر لیں تو وہ عورت اپ کی زوجیت میں ا جائے گی. تو ایسا ہوا کہ عورتیں امہات المومنین کے گھر میں آ کر اپنے آپ کو ہبہ کے لئے پیش کرتی تھیں. جس سے ایک انسانی فطرت کے تحت امہات المومنین کو پسند نہیں آتا تھا. تو نبی اکرم نے ہبہ کو اپنے اوپر حرام قرار دیا.


اگرچہ یہ واقعہ پہلی دو آیتوں سے تو مطابقت رکھتا ہے کہ یہ تمام بیویوں کی خوشنودی کے لئے اقدام کیا گیا تھا اور دوسرا یہ کہ ہبہ کی اجازت صرف نبی اکرم کے لئے تھی نہ کہ باقی مسلمانوں کے لئے. لیکن آگے چل کر دیکھیں گے کہ یہ سوره کے دور نزول سے مطابقت نہیں رکھتی.


تو پہلی دو آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی اکرم نے اپنی بیویوں کی خاطر ایک ایسی چیز حرام کی جو کہ خاص نبی کے لئے حلال تھی. اور الله نے پھر نبی کی شرزنش کی اور بتایا کہ صرف الله ہی تمہارا کارساز ہے اور وہی دانا اور حکمت والا ہے.


ان دونوں الفاظ میں بھی بہت اہمیت ہے. یہاں پر دانا اور حکمت والی صفات بیان کی گئی ہیں. الله جانتا ہے جو حکم اس نے دیا ہے اور جیسا کہ ہمارا ایمان ہے کہ یہ دین آخری دین اور نبی اکرم آخری نبی ہے تو الله بتا رہا ہے کہ اس دین اور آپ کی سنت کے ہر حکم اور عمل میں بیش بہا دانائی کی باتیں ہیں اور حکمت کی باتیں ہے. اگر کوئی چیز خاص آپ کے لئے حلال کی گئی ہے تو اس میں بھی حکمت ہے. کیونکہ اسلام نے عالمی اور آفاقی دین بننا ہے اور آپ نے رہتی دنیا تک کے لئے نبی آخر الزمان بننا ہے. اور الله آپ کی حمایت میں اور آپ کی مدد میں ہر وقت آپ کا ساز ہے.


اب اتے ہیں اگلی تین آیتوں کی طرف


وَاِذۡ اَسَرَّ النَّبِىُّ اِلٰى بَعۡضِ اَزۡوَاجِهٖ حَدِيۡثًا*ۚ فَلَمَّا نَـبَّاَتۡ بِهٖ وَاَظۡهَرَهُ اللّٰهُ عَلَيۡهِ عَرَّفَ بَعۡضَهٗ وَاَعۡرَضَ عَنۡۢ بَعۡضٍ*ۚ فَلَمَّا نَـبَّاَهَا بِهٖ قَالَتۡ مَنۡ اَنۡۢبَاَكَ هٰذَا*ؕ قَالَ نَـبَّاَنِىَ الۡعَلِيۡمُ الۡخَبِیْرُ‏ ﴿۳﴾ اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُكُمَا*ۚ وَاِنۡ تَظٰهَرَا عَلَيۡهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوۡلٰٮهُ وَجِبۡرِيۡلُ وَصَالِحُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ*ۚ وَالۡمَلٰٓٮِٕكَةُ بَعۡدَ ذٰلِكَ ظَهِيۡرٌ‏ ﴿۴﴾ عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنۡ طَلَّقَكُنَّ اَنۡ يُّبۡدِلَهٗۤ اَزۡوَاجًا خَيۡرًا مِّنۡكُنَّ مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓٮِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓٮِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبۡكَارًا‏ ﴿۵﴾


اور (یاد کرو) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی تو (اس نے دوسری کو بتا دی) ۔ جب اس نے اس کو افشاء کیا اور خدا نے اس (حال) سے پیغمبر کو آگاہ کردیا تو پیغمبر نے ان (بی بی کو وہ بات) کچھ تو بتائی اور کچھ نہ بتائی۔ تو جب وہ ان کو جتائی تو پوچھنے لگیں کہ آپ کو کس نے بتایا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اس نے بتایا ہے جو جاننے والا خبردار ہے ﴿۳﴾ اگر تم دونوں خدا کے آگے توبہ کرو (تو بہتر ہے کیونکہ) تمہارے دل کج ہوگئے ہیں۔ اور اگر پیغمبر (کی ایذا) پر باہم اعانت کرو گی تو خدا اور جبریل اور نیک کردار مسلمان ان کے حامی (اور دوستدار) ہیں۔ اور ان کے علاوہ (اور) فرشتے بھی مددگار ہیں ﴿۴﴾ اگر پیغمبر تم کو طلاق دے دیں تو عجب نہیں کہ ان کا پروردگار تمہارے بدلے ان کو تم سے بہتر بیبیاں دے دے۔ مسلمان، صاحب ایمان فرمانبردار توبہ کرنے والیاں عبادت گذار روزہ رکھنے والیاں بن شوہر اور کنواریاں ﴿۵﴾


پہلی چیز جو نوٹ کرنے والی ہے وہ یہ ہے کہ آیات کا آغاز وَاِذۡ ، جس کا مطلب ہے کہ یہ ایک نئی بات ہے. بہت سی تفاسیر نے پہلی پانچ آیتوں کو ایک ہی قصہ پر مذکور کر دیا ہے. کچھ نے پہلے حصہ پر ایک روایت اور دوسرے حصہ پر ایک دوسری روایت لگا دی ہے. یعنی حضرت حفصہ کو راز کی بات بتائی کہ میں حضرت ماریہ کو حرام کر رہا ہوں تو انھوں نے وہ راز حضرت عائشہ کو بتا دیا. لیکن پھر چوتھی آیت میں جبرئیل اور نیک کردار مسلمانوں کا ذکر بے محل لگتا ہے. اور قرآن یقیناً الله کا کلام ہے تو اس میں کسی بھی لفظ کا بے محل ہونا نا ممکن ہے.


اس سورہ کی ایک مربوط تفسیر کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں سورہ کا دور نزول کا اندازہ ہو. جیسے پہلے بتایا گیا کہ سوره کی دوسری آیات میں قسموں کو توڑنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تو یہ سورہ اس وجہ سے سوره مائدہ کے بعد ائی ہے. اسی طرح اس سوره کی پانچویں آیت نبی اکرم کی بیویوں کو بتایا گیا ہے کے نبی تم کو طلاق بھی دے سکتے ہیں. تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ سوره، سوره احزاب سے پہلے نازل ہوئی ہے. سوره مائدہ سے پہلے سوره نساء بھی ا چکی تھی اور سوره مجادلہ بھی.


جب یہ معلوم ہو گیا کہ سوره تحریم سوره احزاب سے پہلے ہے تو اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ ہبہ کا قصہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ احزاب میں ہی الله نے بیویوں کو طلاق دینے کا حق نبی سے لے لیا اور سوره احزاب میں ہی الله نے ہبہ کی اجازت بھی نبی کو دی. تو اس وجہ سے ہبہ کا قصہ سوره کے دور نزول سے مطابقت نہیں رکھتا. اب دیکھتے ہیں کہ قرآن اس سوره میں کس واقعہ یا بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے.


سوره نساء غزوہ احد کے بعد ائی ہے. جیسا کے معلوم ہے کہ غزوہ احد میں مسلمانوں کی کثیر تعداد، کچھ روایتوں کی رو سے ٧٠ کے قریب مسلمان شہید ہو گئے تھے. تو اس وجہ سے بہت سے عورتیں بیوہ ہوئیں اور بہت سے بچے بھی یتیم ہوئے. ان حالات میں سوره نساء آئی جس میں ٤ شادیوں کی اجازت، وراثت کے قوانین اور یتیموں کے بارے میں احکامات ائے ہیں. لیکن سوره نساء کا آغاز يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ سے ہو رہا ہے. يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ سے آغاز کا مطلب ہے کہ یہ احکامات نبی کو نکال کر مسلمانوں کے لئے ہیں. اس لئے ہمیں معلوم ہے کہ نبی کی وراثت بھی کوئی نہیں تھی اور اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ چار شادیوں کا قانون بھی نبی پر لاگو نہیں تھا. لیکن نبی اکرم نے بیویوں کی خوشنودی کے لئے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ٤ شادیوں سے زیادہ نہیں کریں گے. اس وقت نبی اکرم کی زوجیت میں ٤ بیویاں ہی تھیں، حضرت سودہ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ اور حضرت ام سلمہ تھیں.


اسلام کو الله نے آفاقی اور عالمی مذہب بنانا تھا اور اس مقصد کے لئے تمام سماجی اور معاشرتی رسمیں جو اسلام سے متصادم تھیں ان کو بھی روکنا تھا. اسی لئے سوره مجادلہ جو سوره تحریم سے پہلے آئی ہے اس میں منہ بولے رشتوں پر ایک پہلی ضرب لگائی گئی ہے. اور ساتھ ہی ساتھ الله نے چہ مگوییاں، سرگوشیاں اور شازیشیں کرنے والوں کو سخت عذاب کی نوید بھی سنائی ہے. ہمارے آج کے معاشروں میں بھی اگر کوئی بات ہماری رسم و رواج کے خلاف ہو تو سخت طوفان برپا ہو جاتا ہے. تو الله نے اپنے نبی کے ذریعہ جب منہ کے رشتوں پر ضرب لگائی تو یقیناً مشرکین اور منافقین مدینہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ مسلمانوں کے دلوں میں شکوک پیدا کیے ہوں گے اور ان کی معاشرتی حمیت کے ذریعہ ان کو اسلام سے متنفر کرنے کی کوشش کی ہو گی.


جس کی وجہ سے الله نے مسلمانوں کو تلقین کی وہ ان چہ مگویوں کا حصہ نہ بنیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَنَاجَيۡتُمۡ فَلَا تَـتَـنَاجَوۡا بِالۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ وَمَعۡصِيَتِ الرَّسُوۡلِ وَتَنَاجَوۡا بِالۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰى*ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِىۡۤ اِلَيۡهِ تُحۡشَرُوۡنَ‏ ﴿۹﴾
مومنو! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرنا بلکہ نیکوکاری اور پرہیزگاری کی باتیں کرنا۔ اور خدا سے جس کے سامنے جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہنا ﴿۹﴾



پہلی دو آیتوں میں خطاب نبی سے ہے جس میں نبی سے کہا گیا ہے کہ آپ نے جو صرف ٤ شادیاں کرنے کی قسم کھائی ہے اس کو توڑیں.


تو اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگلی تین آیتیں کیا ہیں؟ سوره مجادلہ میں جب الله نے منہ بولے رشتوں پر ضرب لگائی ہو گی تو ساتھ ہی آپ کو بتا دیا ہو گا کہ زینب بنت جحش بھی آپ کی زوجہ بنیں گی. اور آپ نے یہ راز کی بات اپنی ایک بیوی (حضرت حفصہ) کو بتا دی. اور اس بیوی نے یہ راز دوسری بیوی (حضرت عائشہ) کو بتا دیا.


یہاں پر قرآن میں ہی الله بیان کر رہا ہے کہ الله نے اپنے نبی کو اس بات سے اگاہ کر دیا کہ آپ کا راز آپ کی بیوی نے کسی اور کو بھی بتا دیا ہے. اس سے حدیث خفی کی بھی دلیل ملتی ہے کہ نبی اکرم کو جو کچھ کہا جاتا تھا وہ سب کا سب قرآن نہیں ہے بلکہ بہت سی باتیں قرآن سے باہر بھی ہیں. دوسری بات یہ کہ جس بیوی (حضرت حفصہ) نے آپ کے راز کی پردہ داری نہ کی آپ نے اس بیوی (حضرت حفصہ) کو بتا دیا کہ اس نے جو راز کو دوسری بیوی (حضرت عائشہ) کے سامنے افشاں کیا ہے وہ آپ کو معلوم ہو گیا ہے. یہاں پر ایک اور بات جو واضح ہوتی ہے کہ الله نے دوسری بیوی (حضرت عائشہ) کے راز کو نہ بتانے کو دو دفعہ بیان کیا ہے. ایک دفعہ جب الله نے کہا


خدا نے اس (حال) سے پیغمبر کو آگاہ کردیا
یعنی خدا نے اس راز کو افشاں کرنے کا بتایا نہ کہ دوسری بیوی (حضرت عائشہ) نے



اور دوسری دفعہ جب پہلی بیوی (حضرت حفصہ) کو بتایا کہ مجھے معلوم ہو گیا ہے
تو جب وہ ان کو جتائی تو پوچھنے لگیں کہ آپ کو کس نے بتایا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اس نے بتایا ہے جو جاننے والا خبردار ہے.



اس سے اگلی آیت میں ہے
اگر تم دونوں الله کی جناب میں توبہ کرو تو (بہتر) ورنہ تمہارے دل تو مائل ہو ہی چکے ہیں اوراگر تم آپ کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو بے شک الله آپ کا مددگار ہے اور جبرائیل اور نیک بخت ایمان والے بھی اور سب فرشتے اس کے بعد آپ کے حامی ہیں ﴿۴﴾



اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی بیوی (حضرت حفصہ) نے ایک راز کو افشاں کیا اور دوسری بیوی (حضرت عائشہ) نے وہ راز تو نبی اکرم کو بھی نہیں بتایا کہ مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ آپ ایک اور شادی کرنے لگے ہیں تو پھر دونوں بیویوں سے کیوں توبہ کا مطالبہ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ راز الله کا راز تھا جو جبریل امین سے نبی اکرم کو بھیجا گیا تھا. یہ کوئی عام معمولی راز نہیں تھا. اس لئے الله نے بیویوں کو سرزنش کرتے ہوۓ کہا کہ نبی اکرم کے مددگاروں میں تو الله اور فرشتے بھی شامل ہیں. تو دوسری بیوی کے سامنے جب یہ رات افشاں ہو رہا تھا تو ایک تو اس کو پہلی بیوی کو روکنا چاہیے تھا اور دوسرا یہ کہ اگر راز افشاں ہو ہی گیا تھا تو دوسری بیوی کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ تم اب نبی اکرم کو بتا دو کہ تم نے یہ راز مجھ پر ظاہر کر دیا ہے.


یہاں پر ایک بات یہ بتانی بھی ضروری ہے کہ الله نے مثبت ابدان استعمال کیا ہے یعنی دونوں بیویوں کے دلوں میں پہلے ہی شرمندگی اور ندامت ہے لیکن اگر وہ توبہ کرتیں ہیں تو یہ ان کے لئے اور بھی بہتر ہے.


اس سے اگلی آیت ہے


عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنۡ طَلَّقَكُنَّ اَنۡ يُّبۡدِلَهٗۤ اَزۡوَاجًا خَيۡرًا مِّنۡكُنَّ مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓٮِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓٮِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبۡكَارًا‏ ﴿۵﴾
اگر نبی تمیں طلاق دے دے تو بہت جلد اس کا رب اس کے بدلے میں تم سے اچھی بیویاں دے دے گا فرمانبردار ایمان والیاں نمازی توبہ کرنے والی عبادت گزار روزہ دار بیوائیں اور کنواریاں ﴿۵﴾



اس آیت میں شرزنش کا پہلو تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ الله یہ مومنوں کو بھی بتا رہا ہے کہ امہات المومنین فرمانبردار ایمان والیاں نمازی توبہ کرنے والی عبادت گزار روزہ دار ہیں. کیونکہ یہاں پر تقابلی صیغہ استعمال ہوا ہے. جیسے اگر کوئی کہے کہ اگر تم یہ سافٹ ویئر نہیں بنا سکو گے تو میں تم سے بھی زیادہ قابل بندہ لے اؤں گا. تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص ابھی سافٹ ویئر بنا رہا ہے وہ خود بھی قابل ہے.


دوسری چیز جو اس آیت میں الله نے واضح کی ہے کہ الله نے اپنے نبی آخر الزماں کے لئے پہلے بیوائیں اور پھر کنواری عورتوں کا ذکر کیا ہے.


چھٹی آیت سے بارہویں آیت تک اس واقعہ کا اختتامیہ ہے. اور یہ درحقیقت سوره مجادلہ میں شروع کے گئے مضمون کا تسلسل بھی ہے. جیسے کہ پہلے بیان کیا گیا کہ سوره مجادلہ جو اس سے پہلے ائی ہے اور جس میں الله نے سختی سے مسلمانوں کو چہ مگوییوں، سرگوشیوں سے منع کیا ہے اس پر یہاں پر بھی سخت الفاظ میں تنقید کی گئی ہے.


يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَاَهۡلِيۡكُمۡ نَارًا وَّقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ عَلَيۡهَا مَلٰٓٮِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعۡصُوۡنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمۡ وَيَفۡعَلُوۡنَ مَا يُؤۡمَرُوۡنَ‏ ﴿۶﴾
اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر فرشتے سخت دل قوی ہیکل مقرر ہیں وہ الله کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انہیں حکم دے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے ﴿۶﴾



مطلب یہ کہ الله جو احکامات دے رہا ہے ان پر پورا پورا عمل کرو بیشک یہ تمھارے رسم و رواج کے خلاف ہیں لیکن یہ اسلام سے مطابقت نہیں رکھتے. تو تم بھی ان کی پیروی کرنا چھوڑ دو اور الله کے احکامات کی نافرمانی نہ کرو. اسی لئے الله نے ایک تو جہنم کا ذکر کیا ہے اور دوسرا فرشتوں کا جو کہ وہی کرتے ہیں جن کا ان کو حکم دیا جاتا ہے. تو مسلمانوں کو بھی درحقیقت یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ سچ میں مسلمان ہیں تو وہ بھی الله کے احکامات کی اسی طرح اتباع اور پیروی کریں جیسے فرشتے کرتے ہیں.


يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَا تَعۡتَذِرُوا الۡيَوۡمَ*ؕ اِنَّمَا تُجۡزَوۡنَ مَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿۷﴾
اے کافرو آج بہانے نہ بناؤ تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے ﴿۷﴾
اس آیت میں الله خاص مشرکین اور عام منافقین سے مخاطب ہے کہ تم لوگ جو چہ مگوییاں، سرگوشیاں کر رہے تھے اور الله کے احکامات کے خلاف مسلمانوں کو متنفر کر رہے تھے الله اس سے خوب واقف ہے اور آج اس سخت حکم انے کے بعد تم اپنے آپ کو نیک اور مسلمان ثابت کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ الله تم کو تمہاری ان حرکتوں کا خوب بدلہ دے گا.



يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ تَوۡبَةً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰى رَبُّكُمۡ اَنۡ يُّكَفِّرَ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَيُدۡخِلَـكُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ ۙ يَوۡمَ لَا يُخۡزِى اللّٰهُ النَّبِىَّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ* ۚ نُوۡرُهُمۡ يَسۡعٰى بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَبِاَيۡمَانِهِمۡ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَ تۡمِمۡ لَـنَا نُوۡرَنَا وَاغۡفِرۡ لَـنَا* ۚ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿۸﴾
اے ایمان والو الله کے سامنے خالص توبہ کرو کچھ بعید نہیں کہ تمہارا رب تم سے تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں بہشتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جس دن الله اپنے نبی کو اور ان کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے رسوا نہیں کرے گا ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش دے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ﴿۸﴾



یہاں الله ان مسلمانوں سے مخاطب ہے کہ جو غلطی سے منافقین اور مشرکین کی چہ مگوییوں اور سرگوشیوں کی وجہ سے ان کے بہکاوے میں آ گئے تھے. الله ان کو امید اور یاس دے رہا ہے کہ تم لوگ اب توبہ کر لو تو تم لوگوں کو بھی انہی جنتوں اور باغوں میں داخل کر دے جس میں باقی اہل ایمان اور نیک لوگوں کو داخل کرے گا اور تم لوگوں کو بھی ویسا ہی انعام ملے گا جیسا باقیوں کو ملے گا.


يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ جَاهِدِ الۡكُفَّارَ وَالۡمُنٰفِقِيۡنَ وَاغۡلُظۡ عَلَيۡهِمۡ*ؕ وَمَاۡوٰٮهُمۡ جَهَنَّمُ*ؕ وَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ‏ ﴿۹﴾
اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے ﴿۹﴾



یہ آیت بہت ہی اہم ہے. اس میں الله اپنے نبی کی وساطت تمام مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دے رہا ہے لیکن یہ کونسا جہاد ہے؟ یہ جہاد در حقیقت ان کافروں اور منافقوں سے ہے جنھوں نے مسلمانوں پر کوئی تلوار لے کر حملہ نہیں کیا بلکہ مسلمانوں میں پھیل کر چہ مگوییاں، سرگوشیاں اور افواہیں پھیلائی ہیں. تو یہاں پر نبی اور مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ ان پر سختی کرو اور ان کو روکو. اگر وہ کہیں بیٹھ کر الله کے احکامات پر چہ مگوییاں کرتے اور مسلمانوں کو متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو یہ کام نہ کرنے دو. ان کو اپنی محفلوں سے نکل دو یا ان کو اپنی محفلوں میں ایسے باتیں کرنے سے روک دو. یہ جو سماجی اور معاشرتی رسم و رواج کی آڑ لے کر اسلام کے قوانین پر تنقید اور تضحیک کر رہے ہیں. یا افواہیں پھیلا رہے ہیں ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے.


سوره کا آغاز عورتوں سے ہوا تھا اور الله اس کا اختتام بھی عورتوں پر کر رہا ہے. تو آخری تین آیتوں میں دو نیک اور دو بری عورتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے.
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّـلَّذِيۡنَ كَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ* ؕ كَانَـتَا تَحۡتَ عَبۡدَيۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَـيۡنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمۡ يُغۡنِيَا عَنۡهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيۡــًٔا وَّقِيۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيۡنَ‏ ﴿۱۰﴾
الله کافرو ں کے لیے ایک مثال بیان کرتا ہے نوح اور لوط کی بیوی کی وہ ہمارے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں پھر ان دونوں نے ان کی خیانت کی سو وہ الله کے غضب سے بچانے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور کہا جائے گا دونوں دوزخ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہو جاؤ ﴿۱۰﴾



تو پہلے جو دو بیویوں کی مثال الله دے رہا ہے وہ حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیوی ہیں. دونوں الله کے نبی اور برگزیدہ شخصیات ہیں لیکن قرآن کے دوسرے مقامات پر بتایا گیا ہے کہ دونوں کی بیویاں اسلام پر چلنے کی بجائے اس وقت کے معاشرتی رسم و رواج کے مطابق چلتی رہیں اور ان کا انجام بھی کافروں کے ساتھ ہوا. اور یہاں پر بیان کیا جا رہا ہے کہ ان کا آخرت میں بھی ٹھکانا جہنم ہی ہو گا.


یہاں پر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ وہ نبی کے گھر سے نسبت رکھنے کے باوجود بھی کیونکہ انھوں نے الله کے احکامات کے تابع اپنی زندگیوں کو نہیں کیا اور اسی راہ پر چلتی رہیں جس پر اس وقت اور جگہ کے لوگ چل رہے تھے تو ان پر کوئی رحم نہیں کیا گیا. تو اصل چیزے نسبت یا خاندان نہیں بلکہ اپنی زندگیوں کو الله کے تابع کرنا ہے


اگلی دو آیتوں میں دو نیک عورتوں کا ذکر ہو رہا ہے.
وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّـلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ*ۘ اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِىۡ عِنۡدَكَ بَيۡتًا فِى الۡجَـنَّةِ وَنَجِّنِىۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَعَمَلِهٖ وَنَجِّنِىۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَۙ‏ ﴿۱۱﴾ وَمَرۡيَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِىۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَهَا فَنَفَخۡنَا فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَصَدَّقَتۡ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهٖ وَكَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِيۡنَ‏ ﴿۱۲﴾
اور الله ایمان داروں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کرتا ہے جب اس نے کہاکہ اے میرے رب میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے کام سے نجات دے اور مجھے ظالموں کی قوم سے نجات دے ﴿۱۱﴾ اور مریم عمران کی بیٹی (کی مثال بیان کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا پھر ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کو اور اس کی کتابوں کو سچ جانا اوروہ عبادت کرنے والو ں میں سے تھی ﴿۱۲﴾



یہاں پر الله فرعون جو کہ حضرت موسیٰ کا مدمقابل اور ان کا سب سے بڑا دشمن تھا کی بیوی کا ذکر کر رہا ہے جو اس الله کے سب سے بڑے نافرمان کے گھر میں تھی نے اپنی زندگی کو فرعون کی الله سے نافرمانی والی زندگی سے بچا کر رکھا اور اپنی زندگی کو جس قدر ممکن ہو سکا الله کی تابعداری میں گزاری. تو وہ ایک برے گھر میں ہوتے ہوئے بھی الله کے نزدیک قدر و منزلت پا گئیں اور جس کا ذکر الله اپنی آخری کتاب میں کر رہا ہے اور قیامت تک کے لئے ان کی نیکی اور بزرگی کا ذکر ہوتا رہے گا.

اسی طرح الله حضرت مریم کا ذکر کر رہا ہے. یہاں پر غور کی بات یہ ہے کہ الله ان کی اس زندگی کا ذکر کر رہا ہے جو حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے پہلے کی ہے. یعنی ان کی جوانی کی زندگی کا. اور الله واضح کر رہا ہے کہ ان کی فضیلت کی وجہ ان کے الله کے احکامات کی اطاعت شعاری ہے نہ کہ حضرت عیسیٰ کی والدہ ماجدہ ہونا
 
Last edited by a moderator:

Caylu

Politcal Worker (100+ posts)
سورۃ تحریم، مدنی سورۃ ہے۔ اس کے ۲ رکوع اور ۱۲ ایتیں ہیں۔ عام طور پر اس کا زمانہ نزول ۶ ہجری بتایا جاتا ہے لیکن اگے ہم دیکھیں گے سورۃ کے الفاظ اس کا زمانہ نزول خود بتا دیں گے۔

سورۃ کی پیلی ایت ہی کسی واقعہ کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جس کی وجہ سے متعدد واقعات اس سورۃ کی شان نزول میں بیان کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ قران ہدایت کے لیے ہے نا کہ واقعات بتانے کے لیے لیکن ساتھ ہی ساتھ اللہ نے قران کو نہ صرف مبین یعنی روشن بلکہ فرقان یعنی کسوٹی، سچ اور جھوٹ کو پرکھنے والا بھی بیان کیا ہے۔ تو ائیے دیکھتے ہیں قران کی کسوٹی پر یہ واقعات پورا اترتے ہیں۔ اس سے پہلے سورۃ کی پہلی ۲ ایتیوں کا ترجمہ

بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكَ*ۚ تَبۡتَغِىۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِكَ*ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿۱﴾ قَدۡ فَرَضَ اللّٰهُ لَـكُمۡ تَحِلَّةَ اَيۡمَانِكُمۡ*ؕ وَاللّٰهُ مَوۡلٰٮكُمۡ*ۚ وَهُوَ الۡعَلِيۡمُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿۲﴾

اے پیغمبر جو چیز خدا نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو؟ (کیا اس سے) اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو؟ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے ﴿۱﴾ خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے۔ اور خدا ہی تمہارا کارساز ہے۔ اور وہ دانا (اور) حکمت والا ہے ﴿۲﴾

اس سلسلے میں مختلف واقعات اتے ہیں جن کو مختلف تفاسیر میں بیان کیا گیا ہے ان آیات کے شان نزول کے طور پر. ہم ان واقعات کو مختصر طور پر یہاں بیان کریں گے. ان کی تفصیلات مختلف تفاسیر یا حدیث کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں.

پہلا واقعہ حضرت ماریہ سے مطلق ہے. واقعہ یوں ہے کے نبی اکرم کا معمول تھا کہ عصر سے مغرب کے درمیان اپنی بیویوں کی طرف باری باری جاتے تھے. تو ایک دن اپنے روز کے معمول کے مطابق اپنی بیویوں کے وقت کے دوران حضرت حفصہ کی طرف گئے. تو حضرت حفصہ موجود نہیں تھیں اور اتنے میں حضرت ماریہ آ گئیں. اتنے میں حضرت حفصہ بھی واپس ا گئیں تو انھوں نے آپ کو اور حضرت ماریہ کو اپنے بستر پر دیکھ کر سخت ناراضگی کا اظہار کیا. نبی اکرم نے حضرت حفصہ کی دل جوئی کے لئے حضرت حفصہ کو کہا کہ وہ حضرت ماریہ کو اپنے اوپر حرام کرتے ہیں.

اس واقعہ میں ایک نہیں بلکہ کئی سقم ہیں. پہلی بات آیت میں اَزۡوَاجِكَ* کے الفاظ ائے ہیں. جو عربی میں تین یا اس سے زیادہ بیویوں کے لئے استعمال ہوتا ہے. جب کہ واقعہ میں ایک بیوی کا ذکر ہے. تو واقعہ کو کچھ بہتر کرنے کے لئے کچھ لوگوں نے اس واقعہ کا ایک پش منظر ڈالا کہ حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ نبی اکرم سے حضرت ماریہ کو علیحدہ کرنے کے لئے کہتی رہتی تھیں. لیکن پھر بھی دو بیویاں بنتی ہیں جو کہ تین سے کم ہیں.

دوسری بات یہ ہے کہ ایت میں لَـكَ* کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے کہ کوئی چیز جو خاص نبی اکرم کے لئے الله نے حلال کی تھی. لونڈی تو ہر کسی کے لئے حلال ہے اور اس کے حلال کرنے کا ایک طریقہ ہے.

تیسری بات کہ واقعہ میں اتا ہے کہ نبی اکرم نے حضرت ماریہ کو حرام قرار تو دیا لیکن حضرت حفصہ کو کہا کہ کسی کو بتانا نہ. تو اس میں چھپانے کی کیا حکمت تھی؟ اگر حضرت ماریہ کو حرام کرنے میں صرف حضرت حفصہ کی خوشنودی تھی یا تمام بیویوں کی خوشنودی تھی؟ اگر تمام بیویوں کو خوشنودی تھی تو پھر تو چھپانا نہیں چاہیے تھا.

یہ روایت قرآن کے ایک اور حکم سے بھی متصادم ہے. الله نے سوره نور میں بیویوں کے پاس جانے کے افضل اوقات بیان کیے ہیں اور وہ عشا کے بعد، فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت. جب کے روایت صاف کہ رہی ہے کہ عصر کے بعد یہ واقعہ ہوا ہے. تو قرآن کے اس حکم سے بھی یہ واقعہ متصادم ہے.

دوسرا واقعہ جو عام طور پر اس کی شان نزول میں پیش کیا جاتا ہے وہ شہد کا واقعہ ہے. جس میں کچھ طرح بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت زینب کے گھر میں شہد آیا تھا اور جب نبی اکرم ان کے گھر جاتے تو وہ آپ کو شہد پیش کرتیں اور آپ شہد کھانے کی وجہ سے وہاں کچھ زیادہ دیر ٹھہرتے جس کی وجہ سے حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، اور حضرت سودہ نے اپس میں طے کیا کہ نبی اکرم جب ان کی طرف آئیں گے تو وہ نبی کو کہیں گی کہ آپ کے منہ سے بو ا رہی ہے. نبی اکرم کو ہر قسم کی بو ناگوار گزرتی تھی تو جب آپ کو اپ کی باقی بیویوں نے یہ کہا تو آپ نے شہد کو اپنے اوپر حرام قرار دے دیا.

واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ بیویوں کی خواہش شہد کو حرام قرار دینے میں تو نہ تھی بلکہ وہ تو چاہتی تھیں کہ آپ حضرت زینب کی طرف وقت زیادہ نہ گزاریں. تو حضرت زینب شہد کی جگہ کوئی اور نبی اکرم کو محبوب چیز لا کر رکھ دیتیں تو کیا ہوتا؟ تو قرآن کی ایت تو واضح کر رہی کہ آپ نے جو چیز حرام کی وہ بیویوں کو خوشنودی کے لئے کی یعنی نبی اکرم کو بیویوں کی خوشنودی معلوم تھی.
دوسری بات کہ سوره تحریم کی دوسری آیات کہہ رہی ہے کہ "خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے" یعنی اس سے پہلے ہی الله قسموں کے کفارے کے متعلق احکامات نازل کر چکا ہے اور یہ احکامات سوره مائدہ میں ائے ہیں. آیات ٨٩.

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغۡوِ فِىۡۤ اَيۡمَانِكُمۡ وَلٰـكِنۡ يُّؤَاخِذُكُمۡ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الۡاَيۡمَانَ* ۚ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطۡعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِيۡنَ مِنۡ اَوۡسَطِ مَا تُطۡعِمُوۡنَ اَهۡلِيۡكُمۡ اَوۡ كِسۡوَتُهُمۡ اَوۡ تَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ* ؕ فَمَنۡ لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ* ؕ ذٰ لِكَ كَفَّارَةُ اَيۡمَانِكُمۡ اِذَا حَلَفۡتُمۡ* ؕ وَاحۡفَظُوۡۤا اَيۡمَانَكُمۡ* ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿۸۹﴾
خدا تمہاری بےارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل وعیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو (اور اسے توڑ دو) اور (تم کو) چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو اس طرح خدا تمہارے (سمجھانے کے) لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو ﴿۸۹﴾

لیکن اس آیت سے پہلے آیت ٨٧ اور ٨٨ بھی بہت اہم ہیں.

وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَكَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَاۤ اُولٰٓٮِٕكَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِيۡمِ‏ ﴿۸۶﴾ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَيِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوۡا* ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُعۡتَدِيۡنَ‏ ﴿۸۷﴾ وَكُلُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا* وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِىۡۤ اَنۡـتُمۡ بِهٖ مُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۸۸﴾

مومنو! جو پاکیزہ چیزیں خدا نے تمہارے لیے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ﴿۸۷﴾ اور جو حلال طیّب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ اور خدا سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو ﴿۸۸﴾

آیت ٨٧ کہہ رہی ہے کہ مومنوں پاکیزہ حلال کھانے پینے کی چیزوں کو حرام نہ کرو. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ آیت نازل ہو چکی تھی جو کہ واضح ہے سوره تحریم سے تو پھر صاحب قرآن، مجسم قرآن کیسے ایک حلال پاکیزہ شہد کو حرام کر سکتے تھے؟ کیا آپ نبی سے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ قرآن میں دے گئے احکام کی نافرمانی کریں گے؟

دوسری بات شہد ایک پاک حلال چیز ہے جو کہ تمام مومنوں/مسلمانوں کے لئے حلال ہے نہ کہ صرف نبی اکرم کے لئے. جب کہ سوره تحریم کی آیات کہ رہی ہے کہ آپ اس چیز کو کیوں حرام کر رہے ہیں جو ہم نے آپ کے لئے حلال کی ہے یعنی وہ چیز جو حلال کی گئی ہے وہ صرف نبی کے لئے ہے نہ کہ تمام مسلمانوں کے لئے.

اس کے علاوہ ایک تیسرا واقعہ بھی اتا ہے اور وہ ہے کہ الله نے نبی اکرم کے لئے ہبہ کو حلال قرار دیا تھا. ہبہ یہ ہے کہ کوئی عورت اپنے اپ کو نبی اکرم کی زوجیت میں دے دے. اور نبی اکرم بھی اس کو پسند کر لیں تو وہ عورت اپ کی زوجیت میں ا جائے گی. تو ایسا ہوا کہ عورتیں امہات المومنین کے گھر میں آ کر اپنے آپ کو ہبہ کے لئے پیش کرتی تھیں. جس سے ایک انسانی فطرت کے تحت امہات المومنین کو پسند نہیں آتا تھا. تو نبی اکرم نے ہبہ کو اپنے اوپر حرام قرار دیا.

اگرچہ یہ واقعہ پہلی دو آیتوں سے تو مطابقت رکھتا ہے کہ یہ تمام بیویوں کی خوشنودی کے لئے اقدام کیا گیا تھا اور دوسرا یہ کہ ہبہ کی اجازت صرف نبی اکرم کے لئے تھی نہ کہ باقی مسلمانوں کے لئے. لیکن آگے چل کر دیکھیں گے کہ یہ سوره کے دور نزول سے مطابقت نہیں رکھتی.

تو پہلی دو آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی اکرم نے اپنی بیویوں کی خاطر ایک ایسی چیز حرام کی جو کہ خاص نبی کے لئے حلال تھی. اور الله نے پھر نبی کی شرزنش کی اور بتایا کہ صرف الله ہی تمہارا کارساز ہے اور وہی دانا اور حکمت والا ہے.

ان دونوں الفاظ میں بھی بہت اہمیت ہے. یہاں پر دانا اور حکمت والی صفات بیان کی گئی ہیں. الله جانتا ہے جو حکم اس نے دیا ہے اور جیسا کہ ہمارا ایمان ہے کہ یہ دین آخری دین اور نبی اکرم آخری نبی ہے تو الله بتا رہا ہے کہ اس دین اور آپ کی سنت کے ہر حکم اور عمل میں بیش بہا دانائی کی باتیں ہیں اور حکمت کی باتیں ہے. اگر کوئی چیز خاص آپ کے لئے حلال کی گئی ہے تو اس میں بھی حکمت ہے. کیونکہ اسلام نے عالمی اور آفاقی دین بننا ہے اور آپ نے رہتی دنیا تک کے لئے نبی آخر الزمان بننا ہے. اور الله آپ کی حمایت میں اور آپ کی مدد میں ہر وقت آپ کا ساز ہے.

اب اتے ہیں اگلی تین آیتوں کی طرف

وَاِذۡ اَسَرَّ النَّبِىُّ اِلٰى بَعۡضِ اَزۡوَاجِهٖ حَدِيۡثًا*ۚ فَلَمَّا نَـبَّاَتۡ بِهٖ وَاَظۡهَرَهُ اللّٰهُ عَلَيۡهِ عَرَّفَ بَعۡضَهٗ وَاَعۡرَضَ عَنۡۢ بَعۡضٍ*ۚ فَلَمَّا نَـبَّاَهَا بِهٖ قَالَتۡ مَنۡ اَنۡۢبَاَكَ هٰذَا*ؕ قَالَ نَـبَّاَنِىَ الۡعَلِيۡمُ الۡخَبِیْرُ‏ ﴿۳﴾ اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُكُمَا*ۚ وَاِنۡ تَظٰهَرَا عَلَيۡهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوۡلٰٮهُ وَجِبۡرِيۡلُ وَصَالِحُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ*ۚ وَالۡمَلٰٓٮِٕكَةُ بَعۡدَ ذٰلِكَ ظَهِيۡرٌ‏ ﴿۴﴾ عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنۡ طَلَّقَكُنَّ اَنۡ يُّبۡدِلَهٗۤ اَزۡوَاجًا خَيۡرًا مِّنۡكُنَّ مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓٮِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓٮِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبۡكَارًا‏ ﴿۵﴾

اور (یاد کرو) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی تو (اس نے دوسری کو بتا دی) ۔ جب اس نے اس کو افشاء کیا اور خدا نے اس (حال) سے پیغمبر کو آگاہ کردیا تو پیغمبر نے ان (بی بی کو وہ بات) کچھ تو بتائی اور کچھ نہ بتائی۔ تو جب وہ ان کو جتائی تو پوچھنے لگیں کہ آپ کو کس نے بتایا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اس نے بتایا ہے جو جاننے والا خبردار ہے ﴿۳﴾ اگر تم دونوں خدا کے آگے توبہ کرو (تو بہتر ہے کیونکہ) تمہارے دل کج ہوگئے ہیں۔ اور اگر پیغمبر (کی ایذا) پر باہم اعانت کرو گی تو خدا اور جبریل اور نیک کردار مسلمان ان کے حامی (اور دوستدار) ہیں۔ اور ان کے علاوہ (اور) فرشتے بھی مددگار ہیں ﴿۴﴾ اگر پیغمبر تم کو طلاق دے دیں تو عجب نہیں کہ ان کا پروردگار تمہارے بدلے ان کو تم سے بہتر بیبیاں دے دے۔ مسلمان، صاحب ایمان فرمانبردار توبہ کرنے والیاں عبادت گذار روزہ رکھنے والیاں بن شوہر اور کنواریاں ﴿۵﴾

پہلی چیز جو نوٹ کرنے والی ہے وہ یہ ہے کہ آیات کا آغاز وَاِذۡ ، جس کا مطلب ہے کہ یہ ایک نئی بات ہے. بہت سی تفاسیر نے پہلی پانچ آیتوں کو ایک ہی قصہ پر مذکور کر دیا ہے. کچھ نے پہلے حصہ پر ایک روایت اور دوسرے حصہ پر ایک دوسری روایت لگا دی ہے. یعنی حضرت حفصہ کو راز کی بات بتائی کہ میں حضرت ماریہ کو حرام کر رہا ہوں تو انھوں نے وہ راز حضرت عائشہ کو بتا دیا. لیکن پھر چوتھی آیت میں جبرئیل اور نیک کردار مسلمانوں کا ذکر بے محل لگتا ہے. اور قرآن یقیناً الله کا کلام ہے تو اس میں کسی بھی لفظ کا بے محل ہونا نا ممکن ہے.

اس سورہ کی ایک مربوط تفسیر کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں سورہ کا دور نزول کا اندازہ ہو. جیسے پہلے بتایا گیا کہ سوره کی دوسری آیات میں قسموں کو توڑنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تو یہ سورہ اس وجہ سے سوره مائدہ کے بعد ائی ہے. اسی طرح اس سوره کی پانچویں آیت نبی اکرم کی بیویوں کو بتایا گیا ہے کے نبی تم کو طلاق بھی دے سکتے ہیں. تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ سوره، سوره احزاب سے پہلے نازل ہوئی ہے. سوره مائدہ سے پہلے سوره نساء بھی ا چکی تھی اور سوره مجادلہ بھی.

جب یہ معلوم ہو گیا کہ سوره تحریم سوره احزاب سے پہلے ہے تو اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ ہبہ کا قصہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ احزاب میں ہی الله نے بیویوں کو طلاق دینے کا حق نبی سے لے لیا اور سوره احزاب میں ہی الله نے ہبہ کی اجازت بھی نبی کو دی. تو اس وجہ سے ہبہ کا قصہ سوره کے دور نزول سے مطابقت نہیں رکھتا. اب دیکھتے ہیں کہ قرآن اس سوره میں کس واقعہ یا بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے.

سوره نساء غزوہ احد کے بعد ائی ہے. جیسا کے معلوم ہے کہ غزوہ احد میں مسلمانوں کی کثیر تعداد، کچھ روایتوں کی رو سے ٧٠ کے قریب مسلمان شہید ہو گئے تھے. تو اس وجہ سے بہت سے عورتیں بیوہ ہوئیں اور بہت سے بچے بھی یتیم ہوئے. ان حالات میں سوره نساء آئی جس میں ٤ شادیوں کی اجازت، وراثت کے قوانین اور یتیموں کے بارے میں احکامات ائے ہیں. لیکن سوره نساء کا آغاز يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ سے ہو رہا ہے. يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ سے آغاز کا مطلب ہے کہ یہ احکامات نبی کو نکال کر مسلمانوں کے لئے ہیں. اس لئے ہمیں معلوم ہے کہ نبی کی وراثت بھی کوئی نہیں تھی اور اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ چار شادیوں کا قانون بھی نبی پر لاگو نہیں تھا. لیکن نبی اکرم نے بیویوں کی خوشنودی کے لئے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ٤ شادیوں سے زیادہ نہیں کریں گے. اس وقت نبی اکرم کی زوجیت میں ٤ بیویاں ہی تھیں، حضرت سودہ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ اور حضرت ام سلمہ تھیں.

اسلام کو الله نے آفاقی اور عالمی مذہب بنانا تھا اور اس مقصد کے لئے تمام سماجی اور معاشرتی رسمیں جو اسلام سے متصادم تھیں ان کو بھی روکنا تھا. اسی لئے سوره مجادلہ جو سوره تحریم سے پہلے آئی ہے اس میں منہ بولے رشتوں پر ایک پہلی ضرب لگائی گئی ہے. اور ساتھ ہی ساتھ الله نے چہ مگوییاں، سرگوشیاں اور شازیشیں کرنے والوں کو سخت عذاب کی نوید بھی سنائی ہے. ہمارے آج کے معاشروں میں بھی اگر کوئی بات ہماری رسم و رواج کے خلاف ہو تو سخت طوفان برپا ہو جاتا ہے. تو الله نے اپنے نبی کے ذریعہ جب منہ کے رشتوں پر ضرب لگائی تو یقیناً مشرکین اور منافقین مدینہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ مسلمانوں کے دلوں میں شکوک پیدا کیے ہوں گے اور ان کی معاشرتی حمیت کے ذریعہ ان کو اسلام سے متنفر کرنے کی کوشش کی ہو گی.

جس کی وجہ سے الله نے مسلمانوں کو تلقین کی وہ ان چہ مگویوں کا حصہ نہ بنیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَنَاجَيۡتُمۡ فَلَا تَـتَـنَاجَوۡا بِالۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ وَمَعۡصِيَتِ الرَّسُوۡلِ وَتَنَاجَوۡا بِالۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰى*ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِىۡۤ اِلَيۡهِ تُحۡشَرُوۡنَ‏ ﴿۹﴾
مومنو! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرنا بلکہ نیکوکاری اور پرہیزگاری کی باتیں کرنا۔ اور خدا سے جس کے سامنے جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہنا ﴿۹﴾

پہلی دو آیتوں میں خطاب نبی سے ہے جس میں نبی سے کہا گیا ہے کہ آپ نے جو صرف ٤ شادیاں کرنے کی قسم کھائی ہے اس کو توڑیں.

تو اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگلی تین آیتیں کیا ہیں؟ سوره مجادلہ میں جب الله نے منہ بولے رشتوں پر ضرب لگائی ہو گی تو ساتھ ہی آپ کو بتا دیا ہو گا کہ زینب بنت جحش بھی آپ کی زوجہ بنیں گی. اور آپ نے یہ راز کی بات اپنی ایک بیوی (حضرت حفصہ) کو بتا دی. اور اس بیوی نے یہ راز دوسری بیوی (حضرت عائشہ) کو بتا دیا.

یہاں پر قرآن میں ہی الله بیان کر رہا ہے کہ الله نے اپنے نبی کو اس بات سے اگاہ کر دیا کہ آپ کا راز آپ کی بیوی نے کسی اور کو بھی بتا دیا ہے. اس سے حدیث خفی کی بھی دلیل ملتی ہے کہ نبی اکرم کو جو کچھ کہا جاتا تھا وہ سب کا سب قرآن نہیں ہے بلکہ بہت سی باتیں قرآن سے باہر بھی ہیں. دوسری بات یہ کہ جس بیوی (حضرت حفصہ) نے آپ کے راز کی پردہ داری نہ کی آپ نے اس بیوی (حضرت حفصہ) کو بتا دیا کہ اس نے جو راز کو دوسری بیوی (حضرت عائشہ) کے سامنے افشاں کیا ہے وہ آپ کو معلوم ہو گیا ہے. یہاں پر ایک اور بات جو واضح ہوتی ہے کہ الله نے دوسری بیوی (حضرت عائشہ) کے راز کو نہ بتانے کو دو دفعہ بیان کیا ہے. ایک دفعہ جب الله نے کہا

خدا نے اس (حال) سے پیغمبر کو آگاہ کردیا
یعنی خدا نے اس راز کو افشاں کرنے کا بتایا نہ کہ دوسری بیوی (حضرت عائشہ) نے

اور دوسری دفعہ جب پہلی بیوی (حضرت حفصہ) کو بتایا کہ مجھے معلوم ہو گیا ہے
تو جب وہ ان کو جتائی تو پوچھنے لگیں کہ آپ کو کس نے بتایا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اس نے بتایا ہے جو جاننے والا خبردار ہے.

اس سے اگلی آیت میں ہے
اگر تم دونوں الله کی جناب میں توبہ کرو تو (بہتر) ورنہ تمہارے دل تو مائل ہو ہی چکے ہیں اوراگر تم آپ کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو بے شک الله آپ کا مددگار ہے اور جبرائیل اور نیک بخت ایمان والے بھی اور سب فرشتے اس کے بعد آپ کے حامی ہیں ﴿۴﴾

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی بیوی (حضرت حفصہ) نے ایک راز کو افشاں کیا اور دوسری بیوی (حضرت عائشہ) نے وہ راز تو نبی اکرم کو بھی نہیں بتایا کہ مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ آپ ایک اور شادی کرنے لگے ہیں تو پھر دونوں بیویوں سے کیوں توبہ کا مطالبہ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ راز الله کا راز تھا جو جبریل امین سے نبی اکرم کو بھیجا گیا تھا. یہ کوئی عام معمولی راز نہیں تھا. اس لئے الله نے بیویوں کو سرزنش کرتے ہوۓ کہا کہ نبی اکرم کے مددگاروں میں تو الله اور فرشتے بھی شامل ہیں. تو دوسری بیوی کے سامنے جب یہ رات افشاں ہو رہا تھا تو ایک تو اس کو پہلی بیوی کو روکنا چاہیے تھا اور دوسرا یہ کہ اگر راز افشاں ہو ہی گیا تھا تو دوسری بیوی کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ تم اب نبی اکرم کو بتا دو کہ تم نے یہ راز مجھ پر ظاہر کر دیا ہے.

یہاں پر ایک بات یہ بتانی بھی ضروری ہے کہ الله نے مثبت ابدان استعمال کیا ہے یعنی دونوں بیویوں کے دلوں میں پہلے ہی شرمندگی اور ندامت ہے لیکن اگر وہ توبہ کرتیں ہیں تو یہ ان کے لئے اور بھی بہتر ہے.

اس سے اگلی آیت ہے

عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنۡ طَلَّقَكُنَّ اَنۡ يُّبۡدِلَهٗۤ اَزۡوَاجًا خَيۡرًا مِّنۡكُنَّ مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓٮِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓٮِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبۡكَارًا‏ ﴿۵﴾
اگر نبی تمیں طلاق دے دے تو بہت جلد اس کا رب اس کے بدلے میں تم سے اچھی بیویاں دے دے گا فرمانبردار ایمان والیاں نمازی توبہ کرنے والی عبادت گزار روزہ دار بیوائیں اور کنواریاں ﴿۵﴾

اس آیت میں شرزنش کا پہلو تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ الله یہ مومنوں کو بھی بتا رہا ہے کہ امہات المومنین فرمانبردار ایمان والیاں نمازی توبہ کرنے والی عبادت گزار روزہ دار ہیں. کیونکہ یہاں پر تقابلی صیغہ استعمال ہوا ہے. جیسے اگر کوئی کہے کہ اگر تم یہ سافٹ ویئر نہیں بنا سکو گے تو میں تم سے بھی زیادہ قابل بندہ لے اؤں گا. تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص ابھی سافٹ ویئر بنا رہا ہے وہ خود بھی قابل ہے.

دوسری چیز جو اس آیت میں الله نے واضح کی ہے کہ الله نے اپنے نبی آخر الزماں کے لئے پہلے بیوائیں اور پھر کنواری عورتوں کا ذکر کیا ہے.

چھٹی آیت سے بارہویں آیت تک اس واقعہ کا اختتامیہ ہے. اور یہ درحقیقت سوره مجادلہ میں شروع کے گئے مضمون کا تسلسل بھی ہے. جیسے کہ پہلے بیان کیا گیا کہ سوره مجادلہ جو اس سے پہلے ائی ہے اور جس میں الله نے سختی سے مسلمانوں کو چہ مگوییوں، سرگوشیوں سے منع کیا ہے اس پر یہاں پر بھی سخت الفاظ میں تنقید کی گئی ہے.

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَاَهۡلِيۡكُمۡ نَارًا وَّقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ عَلَيۡهَا مَلٰٓٮِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعۡصُوۡنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمۡ وَيَفۡعَلُوۡنَ مَا يُؤۡمَرُوۡنَ‏ ﴿۶﴾
اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر فرشتے سخت دل قوی ہیکل مقرر ہیں وہ الله کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انہیں حکم دے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے ﴿۶﴾

مطلب یہ کہ الله جو احکامات دے رہا ہے ان پر پورا پورا عمل کرو بیشک یہ تمھارے رسم و رواج کے خلاف ہیں لیکن یہ اسلام سے مطابقت نہیں رکھتے. تو تم بھی ان کی پیروی کرنا چھوڑ دو اور الله کے احکامات کی نافرمانی نہ کرو. اسی لئے الله نے ایک تو جہنم کا ذکر کیا ہے اور دوسرا فرشتوں کا جو کہ وہی کرتے ہیں جن کا ان کو حکم دیا جاتا ہے. تو مسلمانوں کو بھی درحقیقت یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ سچ میں مسلمان ہیں تو وہ بھی الله کے احکامات کی اسی طرح اتباع اور پیروی کریں جیسے فرشتے کرتے ہیں.

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَا تَعۡتَذِرُوا الۡيَوۡمَ*ؕ اِنَّمَا تُجۡزَوۡنَ مَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿۷﴾
اے کافرو آج بہانے نہ بناؤ تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے ﴿۷﴾
اس آیت میں الله خاص مشرکین اور عام منافقین سے مخاطب ہے کہ تم لوگ جو چہ مگوییاں، سرگوشیاں کر رہے تھے اور الله کے احکامات کے خلاف مسلمانوں کو متنفر کر رہے تھے الله اس سے خوب واقف ہے اور آج اس سخت حکم انے کے بعد تم اپنے آپ کو نیک اور مسلمان ثابت کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ الله تم کو تمہاری ان حرکتوں کا خوب بدلہ دے گا.

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ تَوۡبَةً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰى رَبُّكُمۡ اَنۡ يُّكَفِّرَ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَيُدۡخِلَـكُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ ۙ يَوۡمَ لَا يُخۡزِى اللّٰهُ النَّبِىَّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ* ۚ نُوۡرُهُمۡ يَسۡعٰى بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَبِاَيۡمَانِهِمۡ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَ تۡمِمۡ لَـنَا نُوۡرَنَا وَاغۡفِرۡ لَـنَا* ۚ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿۸﴾
اے ایمان والو الله کے سامنے خالص توبہ کرو کچھ بعید نہیں کہ تمہارا رب تم سے تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں بہشتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جس دن الله اپنے نبی کو اور ان کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے رسوا نہیں کرے گا ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش دے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ﴿۸﴾

یہاں الله ان مسلمانوں سے مخاطب ہے کہ جو غلطی سے منافقین اور مشرکین کی چہ مگوییوں اور سرگوشیوں کی وجہ سے ان کے بہکاوے میں آ گئے تھے. الله ان کو امید اور یاس دے رہا ہے کہ تم لوگ اب توبہ کر لو تو تم لوگوں کو بھی انہی جنتوں اور باغوں میں داخل کر دے جس میں باقی اہل ایمان اور نیک لوگوں کو داخل کرے گا اور تم لوگوں کو بھی ویسا ہی انعام ملے گا جیسا باقیوں کو ملے گا.

يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ جَاهِدِ الۡكُفَّارَ وَالۡمُنٰفِقِيۡنَ وَاغۡلُظۡ عَلَيۡهِمۡ*ؕ وَمَاۡوٰٮهُمۡ جَهَنَّمُ*ؕ وَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ‏ ﴿۹﴾
اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے ﴿۹﴾

یہ آیت بہت ہی اہم ہے. اس میں الله اپنے نبی کی وساطت تمام مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دے رہا ہے لیکن یہ کونسا جہاد ہے؟ یہ جہاد در حقیقت ان کافروں اور منافقوں سے ہے جنھوں نے مسلمانوں پر کوئی تلوار لے کر حملہ نہیں کیا بلکہ مسلمانوں میں پھیل کر چہ مگوییاں، سرگوشیاں اور افواہیں پھیلائی ہیں. تو یہاں پر نبی اور مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ ان پر سختی کرو اور ان کو روکو. اگر وہ کہیں بیٹھ کر الله کے احکامات پر چہ مگوییاں کرتے اور مسلمانوں کو متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو یہ کام نہ کرنے دو. ان کو اپنی محفلوں سے نکل دو یا ان کو اپنی محفلوں میں ایسے باتیں کرنے سے روک دو. یہ جو سماجی اور معاشرتی رسم و رواج کی آڑ لے کر اسلام کے قوانین پر تنقید اور تضحیک کر رہے ہیں. یا افواہیں پھیلا رہے ہیں ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے.

سوره کا آغاز عورتوں سے ہوا تھا اور الله اس کا اختتام بھی عورتوں پر کر رہا ہے. تو آخری تین آیتوں میں دو نیک اور دو بری عورتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے.
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّـلَّذِيۡنَ كَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ* ؕ كَانَـتَا تَحۡتَ عَبۡدَيۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَـيۡنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمۡ يُغۡنِيَا عَنۡهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيۡــًٔا وَّقِيۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيۡنَ‏ ﴿۱۰﴾
الله کافرو ں کے لیے ایک مثال بیان کرتا ہے نوح اور لوط کی بیوی کی وہ ہمارے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں پھر ان دونوں نے ان کی خیانت کی سو وہ الله کے غضب سے بچانے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور کہا جائے گا دونوں دوزخ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہو جاؤ ﴿۱۰﴾

تو پہلے جو دو بیویوں کی مثال الله دے رہا ہے وہ حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیوی ہیں. دونوں الله کے نبی اور برگزیدہ شخصیات ہیں لیکن قرآن کے دوسرے مقامات پر بتایا گیا ہے کہ دونوں کی بیویاں اسلام پر چلنے کی بجائے اس وقت کے معاشرتی رسم و رواج کے مطابق چلتی رہیں اور ان کا انجام بھی کافروں کے ساتھ ہوا. اور یہاں پر بیان کیا جا رہا ہے کہ ان کا آخرت میں بھی ٹھکانا جہنم ہی ہو گا.

یہاں پر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ وہ نبی کے گھر سے نسبت رکھنے کے باوجود بھی کیونکہ انھوں نے الله کے احکامات کے تابع اپنی زندگیوں کو نہیں کیا اور اسی راہ پر چلتی رہیں جس پر اس وقت اور جگہ کے لوگ چل رہے تھے تو ان پر کوئی رحم نہیں کیا گیا. تو اصل چیزے نسبت یا خاندان نہیں بلکہ اپنی زندگیوں کو الله کے تابع کرنا ہے

اگلی دو آیتوں میں دو نیک عورتوں کا ذکر ہو رہا ہے.
وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّـلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ*ۘ اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِىۡ عِنۡدَكَ بَيۡتًا فِى الۡجَـنَّةِ وَنَجِّنِىۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَعَمَلِهٖ وَنَجِّنِىۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَۙ‏ ﴿۱۱﴾ وَمَرۡيَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِىۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَهَا فَنَفَخۡنَا فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَصَدَّقَتۡ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهٖ وَكَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِيۡنَ‏ ﴿۱۲﴾
اور الله ایمان داروں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کرتا ہے جب اس نے کہاکہ اے میرے رب میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے کام سے نجات دے اور مجھے ظالموں کی قوم سے نجات دے ﴿۱۱﴾ اور مریم عمران کی بیٹی (کی مثال بیان کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا پھر ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کو اور اس کی کتابوں کو سچ جانا اوروہ عبادت کرنے والو ں میں سے تھی ﴿۱۲﴾

یہاں پر الله فرعون جو کہ حضرت موسیٰ کا مدمقابل اور ان کا سب سے بڑا دشمن تھا کی بیوی کا ذکر کر رہا ہے جو اس الله کے سب سے بڑے نافرمان کے گھر میں تھی نے اپنی زندگی کو فرعون کی الله سے نافرمانی والی زندگی سے بچا کر رکھا اور اپنی زندگی کو جس قدر ممکن ہو سکا الله کی تابعداری میں گزاری. تو وہ ایک برے گھر میں ہوتے ہوئے بھی الله کے نزدیک قدر و منزلت پا گئیں اور جس کا ذکر الله اپنی آخری کتاب میں کر رہا ہے اور قیامت تک کے لئے ان کی نیکی اور بزرگی کا ذکر ہوتا رہے گا.

اسی طرح الله حضرت مریم کا ذکر کر رہا ہے. یہاں پر غور کی بات یہ ہے کہ الله ان کی اس زندگی کا ذکر کر رہا ہے جو حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے پہلے کی ہے. یعنی ان کی جوانی کی زندگی کا. اور الله واضح کر رہا ہے کہ ان کی فضیلت کی وجہ ان کے الله کے احکامات کی اطاعت شعاری ہے نہ کہ حضرت عیسیٰ کی والدہ ماجدہ ہونا
 
Last edited by a moderator:

Back
Top