Zoq_Elia
Senator (1k+ posts)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا دور خلافت
حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد تین دن تک مسند خلافت خالی رہی، اس عرصہ میں لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے اس منصب کے قبول کرنے کے لئے سخت اصرار کیا، انہوں نے پہلے اس بارِ گراں کے اٹھانے سے انکار کردیا ؛لیکن آخر میں مہاجرین وانصار کے اصرار سے مجبور ہوکر اٹھانا پڑا،(طبری : ۳۰۱۰)اور اس واقعہ کے تیسرے دن ۲۱/ذی الحجہ دوشنبہ کے دن مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جناب علی مرتضی ٰ کے دست اقدس پر بیعت ہوئی۔
مسند نشین خلافت ہونے کے بعد سب سے پہلے کام حضرت عثمان ؓ کے قاتلوں کا پتہ چلانا اور ان کو سزا دیناتھا؛لیکن دقت یہ تھی کہ شہادت کے وقت صرف ان کی بیوی نائلہ بنت الفرافصہ موجود تھیں جو اس کے سوا کچھ نہ بتاسکیں کہ محمد بن ابی بکر ؓ دو آدمیوں کے ساتھ جن کو وہ پہلے سے پہنچانتی نہیں تھیں، اندر آئے،حضرت علی ؓ نے محمد بن ابی بکر ؓ کو پکڑا تو انہوں نے قسم کھا کر اپنی برات ظاہر کی کہ وہ قتل کے ارادے سے ضرور داخل ہوئے تھے ؛لیکن حضرت عثمان ؓ کے جملہ سے محجوب ہوکر پیچھے ہٹ آئے،البتہ ان دونوں نابکاروں نے بڑھ کر حملہ کیا جن کووہ بھی نہیں جانتے کہ کون تھے؟ حضرت نائلہ ؓ نے بھی اس بیان کی تصدیق کی کہ محمدبن ابی بکر ؓ شریک نہ تھے، غرض تحقیق وتفتیش کے باوجود قاتلوں کا پتہ نہ تھا، تاریخ کی کتابوں میں قاتلوں کے مختلف نام مذکور ہیں، لیکن شہادت کی قانونی حیثیت سے وہ مجرم ثابت نہیں ہوتے اس لئے مجرموں کا کوئی پتہ نہ چلا اورحضرت علی ؓ اس وقت کوئی کاروائی نہ کرسکے۔
جیسا کہ اوپر مذکور ہوا حضرت علی ؓ کے نزدیک اس انقلاب کا اصلی سبب عمال کی بے اعتدالیاں تھیں اور بڑی حد تک یہ صحیح بھی ہے اس لئے آپ نے تمام عثمانی عمال کو معزول کرکے عثمان بن حنیف کو بصرہ کا عامل مقرر کیا،عمارہ بن حسان کو کوفہ کی حکومت سپرد کی، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو یمن کی ولایت پر مامور کیا اورسہل کو حکومت شام کافرمان دے کر روانہ کیا، سہل تبوک کے قریب پہنچے تو امیر معاویہ کے سوار مزاحم ہوئے اوران کو مدینہ جانے پر مجبور کیا،اس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو معلوم ہوا کہ ان کی خلافت جھگڑوں سے پاک نہیں ہے۔
حضرت علی ؓ نے امیر معاویہ کو لکھا کہ مہاجرین وانصار نے اتفاق عام کے ساتھ میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اس لئے یا تو میر ی اطاعت کرویا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ، امیر معاویہ نے اپنے خاص قاصد کی معرفت جواب بھیجا اورخط میں صرف بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد مکتوب الیہ کا اوراپنا نام لکھا،قاصد نہایت طرار اور زبان آور تھا اس نے کھڑے ہوکر کہاصاحبو! میں نے شام میں پچاس ہزار شیوخ کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ عثمان ؓ کی خون آلود قمیص پر ان کی ڈاڑھیاں آنسوؤں سے تر ہیں اور انہوں نے عہد کرلیا ہے کہ جب تک اس خونِ ناحق کا قصاص نہیں لیں گے، اس وقت تک ان کی تلواریں بے نیام رہیں، قاصد یہ کہہ چکا توحضرت علی ؓ کی جماعت میں سے خالد بن زفر عبسی نے اس کے جواب میں کہا‘‘تمہارا برا ہو!کیا تم مہاجرین وانصار کو شامیوں سے ڈراتے ہو؟ خدا کی قسم نہ تو قمیص عثمان ؓ،قمیص یوسف علیہ السلام ہے اور نہ معاویہ کو یعقوب علیہ السلام کی طرح غم ہے،اگر شام میں اس قدر اس کو اہمیت دی گئی ہے تو تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ اہل عراق اس کی کچھ پرواہ نہیں کرتے۔
حضرت عائشہؓ کی قصاص پر آمادگی
امیرمعاویہ کے مناقشات کا ابھی آغاز ہوا ہی تھا کہ دوسرا قضیۂ نامرضیہ پیدا ہوگیایعنی حضرت عائشہ ؓ مکہ سے مدینہ واپس ہورہی تھیں، راستہ میں ان کے ایک عزیز ملے ان سے حالات دریافت کئے تو معلوم ہوا کہ عثمان ؓ شہید کردیئے گئے اور علی ؓ خلیفہ منتخب ہوئے ؛لیکن ہنوز فتنہ کی گرم بازاری ہے، یہ خبر سن کر پھر مکہ واپس ہوگئیں، لوگوں نےواپسی کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ عثمان ؓ مظلوم شہید کردیئے گئے اورفتنہ دبتا ہوا نظر نہیں آتا، اس لئے تم لوگ خلیفہ مظلوم کا خون رائیگاں نہ جانے دو اور قاتلوں سے قصاص لیکر اسلام کی عزت بچاؤ۔
( طبری : ۳۰۹۸)
حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد مدینہ میں فتنہ و فساد کے آثار دیکھ کر حضرت طلحہ ؓ اور زبیر بھی حضرت علی ؓ سے اجازت لے کر مکہ چلے گئے تھے، حضرت عائشہ ؓ نے ان سے بھی وہاں کے حالات دریافت کئے ،انہوں نے بھی شوروغوغہ کی داستان سنائی، ان کے بیان سے حضرت عائشہ ؓکے ارادوں میں اور تقویت ہوئی اورانہوں نے خلیفہ مظلوم کے قصاص کی دعوت شروع کردی۔
حقیقت یہ ہے کہ واقعات کی ترتیب اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعض سیاسی تسامح نے عام طورپر ملک میں بدنظمی پیداکردی تھی، حضرت عثمان ؓ کے قاتلوں کا پتہ نہ چلنا ان کے اعداء کو اپنا معاون وانصار بنانا اورمسند خلافت پر متمکن ہونے کے ساتھ تمام عمال کو برطرف کردینا لوگوں کو بدظن کردینے کے لئے کافی تھا، انہی بدگمانیوں نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کو بھی حضرت عثمان ؓ کے قصاص پر آمادہ کردیا؛چنانچہ قصاص کی تیاریاں شروع ہوگئیں، عبداللہ بن عامر حضرمی والی مکہ مروان بن حکم سعید بن العاص اور دوسرے بنی امیہ نے جو مدینہ سے مفرور ہوکر مکہ میں پناہ گزین تھے، نہایت جوش کے ساتھ اس تحریک کو پھیلایا اور ایک معتدبہ جمعیت فراہم کرکے روانہ ہوئے کہ پہلے بیت المال قبضہ کرکے مالی مشکلات میں سہولت پیداکریں، پھر بصرہ ،کوفہ اور عراق کی دوسری نوآبادیوں میں اس تحریک کی اشاعت کرکے لوگوں کو اپنا ہم آہنگ بنائیں۔
سفر عراق
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مکہ کی تیاریوں کا حال معلوم ہوا تو آپ نے بھی اس خیال سے عراق کا قصد کیا وہاں مخالفین سے پہلے پہنچ کر بیت المال کی حفاظت کا انتظام کریں اوراہل عراق کو وفاداری کا سبق دیں، انصارکرام کو اس ارادہ کی خبر ہوئی تو وہ بارگاہ خلافت میں حاضر ہوئے اورحضرت عقبہ بن عامر ؓ نے جو بڑے پایہ کے صحابی اورغزوہ بدر میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہ چکے تھے، انصار کی جانب سے گذارش کی کہ دارالخلافہ چھوڑ کر جانا کسی طرح مناسب نہیں ہے، عمر فاروق ؓ کے عہد میں بڑی بڑی جنگیں پیش آئیں ؛لیکن انہوں نے کبھی مدینہ سے باہر قدم نہیں نکالا، اگر اُس وقت خالد ؓ،ابوعبیدہ ؓ، سعدوقاص ؓ، ابو موسیٰ اشعری ؓ نے شام وایران کو تہ وبالا کردیا تھا تو اِس وقت بھی ایسے جانبازوں کی کمی نہیں،حضرت علی ؓ نے فرمایا ،یہ صحیح ہے ؛لیکن عراق پر مخالفین کے تسلط سے نہایت دشواری پیش آئے گی وہ اس وقت مسلمانوں کی بہت بڑی نوآبادی ہے وہاں کے بیت المال بھی مال وزر سے پر ہیں، اس لئے میرا وہاں موجود رہنا نہایت ضروری ہے اور مدینہ میں عام منادی کرادی کہ لوگ سفر عراق کے لیےتیار ہوجائیں ،چند محتاط صحابہ کے سوا تقریبا ًاہل مدینہ ہمرکاب ہوئے،ذی قار پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضرت طلحہ ؓ اورزبیر ؓ سبقت کرکے بصرہ پہنچ گئے ہیں اور بنو سعد کے علاوہ تقریبا تمام بصرہ والوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔
حضرت امام حسن ؓ کا سفرِ کوفہ
یہ سن کر حضرت علی ؓ نے ذی قار میں قیام کیا اور حضرت امام حسن ؓ کو حضرت عماربن یاسر ؓ کے ساتھ کوفہ روانہ کیا کہ لوگوں کو مرکز خلافت کی اعانت پر آمادہ کریں،حضرت امام حسن ؓ جس وقت کوفہ پہنچے،حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ والی کوفہ مسجد میں ایک عظیم الشان مجمع کے سامنے تقریر کررہے تھے کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جس فتنہ کا خوف دلایا تھا وہ اب سرپر ہے، اس لئے ہتھیار بے کار کردو اوربالکل عزلت نشین ہوجاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فتنہ وفساد کے وقت سونے والا بیٹھنے والے سے اور بیٹھنے والا چلنے والے سے بہتر ہے، اس اثنا میں حضرت امام حسن ؓ مسجد میں داخل ہوئے اورحضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے کہا تم بھی ہماری مسجد سے نکلو اورجہا ں جی چاہے چلے جاؤ۔
اس کے بعد منبر پر کھڑے ہوکر لوگوں کو امیرالمؤمنین کی مساعدت پر آمادہ کیا ،حجر بن عدی کندی نے جو کوفہ کے نہایت معزز اور ذی اثر بزرگ تھے حضرت امام حسنؓ کی تائید کی اور کہا صاحبو !امیرالمؤمنین نےخود اپنے صاحبزادہ کو بھیج کر تمہیں دعوت دی ہے اس دعوت کو قبول کرو اور علم حیدری کے نیچے مجتمع ہوکر فتنہ وفساد کی آگ کو سرد کردو میں خود سب سے پہلے چلنے کو تیار ہوں۔
غرض حضرت امام حسن ؓ اور حجر بن عدی کی تقریروں نے لوگوں کو حضرت علی ؓ کی اعانت پر آمادہ کردیا اورہرطرف سے امیر المومنین کی اطاعت اورفرمانبرداری کی صدائیں بلند ہوئیں اور دوسرے ہی دن صبح کے وقت تقریباً ساڑھے نوہزار جانبازوں کی ایک جماعت مسلح ہوکر حضرت امام حسن ؓ کے ساتھ روانہ ہوئی اور مقام ذی قار میں امیر المومنین کی فوج سے مل گئی، جناب امیر ؓ نے اپنی فوج کونئے سرے سے ترتیب دے کر بصرہ کا رخ کیا،اس وقت بصرہ کا یہ حال تھا کہ وہ تین گروہوں میں منقسم تھا،ایک خاموش اورغیر جانبدار تھا، دوسراحضرت علی ؓ کا طرف دار تھا اور تیسرا حضرت عائشہ ؓ اورحضرت طلحہ ؓ وغیرہ کا حامی ،خانہ جنگی کی یہ تیاریاں دیکھ کر پہلی جماعت نے مصالحت کی بڑی کوشش کی ؛بلکہ ہرفریق کے نیک نیک لوگ اس کی تائید میں تھے، حضرت علی ؓ اورحضرت عائشہ ؓ دونوں چاہتے تھے کہ جنگ کی نوبت نہ آنے پائے اورکسی طرح باہمی اختلافات دور ہوجائیں، صلح کی گفتگو ترقی پر تھی اور فریقین جنگ کے تمام احتمالات دلوں سے دور کرچکے تھے اور رات کے سناٹے میں ہر فریق آرام کی نیند سورہا تھا، دونوں فریقوں میں کچھ ایسے عناصر شامل تھے جن کے نزدیک یہ مصالحت ان کے حق میں سم قاتل تھی، حضرت علی ؓ کی فوج میں سبائی انجمن کے ارکان اورحضرت عثمان ؓ کے قاتلوں کا گروہ شامل تھا اور حضرت عائشہ ؓ کی طرف کچھ اموی تھے، حضرت عثمان ؓ کے قاتل اورسبائی سمجھے کہ اگر یہ مصالحت کامیاب ہوگئی تو ان کی خیر نہیں، اس لئے انہوں نے رات کی تاریکی میں حضرت عائشہ ؓ کی فوج پر شبخون مارا،گھبراہٹ میں فریقین نے یہ سمجھ کر کہ دوسرے فریق نے دھوکہ دیا،ایک دوسرے پر حملہ شروع کردیا،حضرت عائشہ ؓ اونٹ پر آہنی ہودہ رکھواکر سوار ہوئی کہ وہ اپنی فوج کو اس حملہ سے روک سکیں ،حضرت علی ؓ نے بھی اپنے سپاہیوں کو روکا مگر جو فتنہ پھیل چکا تھا وہ کب رک سکتا تھا، ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی وجہ سے ان کی فوج میں غیر معمولی جوش وخروش تھا، قلب فوج میں ان کا ہودج تھا، محمد بن طلحہ ؓ سواروں کے افسر تھے عبداللہ بن زبیر ؓ پیادہ فوج کی سربراہی پر مامور تھے اورپوری فوج کی قیادت حضرت طلحہ وزبیر ؓ کے ہاتھوں میں تھی۔
جنگ جمل
دوران جنگ میں حضرت علی ؓ گھوڑا بڑھا کر میدان میں آئے اور حضرت زبیر ؓ کو بلا کر کہا‘‘ابو عبداللہ! تمہیں وہ دن یاد ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم علی ؓ کو دوست رکھتے ہو؟ تو تم نے عرض کیا تھاہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،یاد کرو، اس وقت تم سے حضور صلی انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک دن تم اس سے ناحق لڑوگے’’ حضرت زبیر ؓ نے جواب دیا،ہاں اب مجھے بھی یاد آیا۔
( مستدرک حاکم ج ۳ : ۱۳۶۶)
یہ پیشین گوئی یاد کرکے حضرت زبیر ؓ جنگ سے کنارہ کش ہوگئے اوراپنے صاحبزادے عبداللہ ؓ سے فرمایا، جان پدر! علی ؓ نے ایسی بات یاد دلادی کہ تمام جنگ کا تمام جوش فرو ہوگیا، بے شک ہم حق پر نہیں ہیں، اب میں اس جنگ میں شرکت نہ کروں گا تم بھی میرا ساتھ دو؛لیکن حضرت عبداللہ ؓ نے انکار کیا تو وہ تنہا بصرہ کی طرف چل کھڑے ہوئے کہ وہاں سے سامان لے کر کسی طرف نکل جائیں، حضرت طلحہ نے حضرت زبیر کو جاتے دیکھا تو ان کا ارادہ بھی متزلزل ہوگیا،مروان بن حکم کو معلوم ہوا تو انہوں نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو ایک ایسا تاک کر تیر مارا کہ جو گھٹنے میں پیوست ہوگیا، یہ تیر زہر میں بجھا ہواتھا،زہر کے اثر سے ان کا کام تمام ہوگیا، اب میدان جنگ میں صرف ام المومنین حضرت عائشہ اوران کے جان نثار فرزند رہ گئے، جنگ کی ابتداء ہوچکی تھی،دیر تک گھمسان کی جنگ ہوتی رہی، ام المومنین ؓ زرہ پوش ہودج میں بیٹھی تھیں، نامرتبہ شناس سبائی آپ کے ساتھ گستاخیاں کررہے تھے اورآپ کو گرفتارکرنا چاہتے تھے،حضرت عائشہ ؓ کے وفادار بیٹوں میں بنوضبہ اس اونٹ کی حفاظت میں اپنی لاشوں پہ لاشیں گرارہے تھے ،بکربن وائل ،ازواوربنوضبہ اونٹ کو اپنے حلقہ میں لے کر اس جوش ثبات اوروارفتگی کے ساتھ لڑے کہ خود حیدرکرار ؓ کو حیرت تھی ،عبداللہ بن زبیر اونٹ کی نکیل پکڑے تھے وہ زخمی ہوکر گرے تو فوراً دوسرے نے بڑھ کر پکڑلی،ماراگیا تو تیسرے نے اس کی جگہ لے لی، اس طرح یکے بعد دیگرے سترآدمیوں نے اپنے آپ کو قربان کردیا،(طبری ۳۱۸۶ ومستدرک حاکم ج ۳ : ۳۶۶)بصرہ کا شہسوارعمروبن بحرہ اس جوش سے لڑرہا تھا کہ حضرت علی ؓ کی فوج کا جوشخص اس کے سامنے پہنچ جاتا تھا ،مارا جاتا تھا اورابن بحرہ کی زبان پر یہ رجز جاری تھا۔
یاامان یاخیر ام نعلم والام تغذ وولم ھاوترحم
اے ہماری بہترین اور ماں بچوں کو کھلاتی ہے اوران پر رحم کرتی ہے
الا ترین کم جوادلک تختلی مامتہ والمعصم
کیا تو نہیں دیکھتی کہ کتنے گھوڑے زخمی کئے جاتے ہیں اور ان کی کھوپڑی اورکلائی کاٹی جاتی ہے
آخر کار حضرت علی ؓ کی فوج کے مشہو شہسوارحارث بن زبیرازدی نے بڑھ کر اس کا مقابلہ کیا اورتھوڑی دیر تک تیغ وسنان کے ردل وبدل کے بعد دونوں ایک دوسرے کے وار سے کٹ کر ڈھیر ہوگئے۔
اونٹ کے سامنے بنوضبہ حیرت انگیز شجاعت کے ساتھ سدِسکندری بنے دشمنوں کو روکے کھڑے تھے اورجب تک ایک شخص بھی زندہ رہا اس نے پشت نہیں پھیری اور یہ رجز ان کی زبان پرتھا:۔
الموت احلی عندنا من العسل نحن بنوضبۃ اصحاب الجمل
موت ہمارے نزدیک شہد سے زیادہ شیریں ہے ہم ضبہ کی اولاد اونٹ کے محافظ ہیں
نحن بنوالموت الذالموت نزل ننعی ابن عفان باطراف الاسل
ہم موت کے بیٹے ہیں، جب موت اترے ہم عثمان بن عفان کی موت کی خبر نیزوں سے پھیلا رہے ہیں
ردواعلینا شیخنا ثم یجل
ہمارے سردار کو ہم کوواپس کردو تو پھر کچھ نہیں
حضرت علی ؓ نے دیکھا کہ جب تک اونٹ بٹھایا نہ جائے گا مسلمانوں کی خونریزی رک نہیں سکتی، اس لئے آپ کے اشارے سے ایک شخص نے پیچھے سے جاکر اونٹ کے پاؤں پر تلوار ماری، اونٹ بلبلا کر بیٹھ گیا، اونٹ بیٹھتے ہی حضرت عائشہ ؓ کی فوج کی ہمت چھوٹ گئی اورحضرت علی ؓ کے حق میں جنگ کا فیصلہ ہوگیا، آپ نے حضرت عائشہ ؓ کے بھائی محمد بن ابی بکر ؓ کو جو حضرت علی ؓ کے ساتھ تھے، حکم دیا کہ اپنی ہمشیرہ محترمہ کی خبر گیری کریں اورعام منادی کرادی کہ بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے، زخمیوں پر گھوڑے نہ دوڑائے جائیں مالِ غنیمت نہ لوٹا جائے،جو ہتھیار ڈال دیں وہ مامون ہیں، پھر خودام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس حاضر ہوکر مزاج پرسی کی اوربصرہ میں چند دن تک آرام وآسائش سے ٹھہرانے کے بعد محمد بن ابی بکر ؓ کے ہمراہ عزت واحترام کے ساتھ مدینہ بھیج دیا، بصرہ کی چالیس شریف ومعزز خواتین کو پہنچانے کے لئے ساتھ کیا اوررخصت کرنے کے لئے خود چند میل تک ساتھ گئے اورایک منزل تک اپنے صاحبزادوں کو مشائعت کے لئے بھیجا۔
حضرت عائشہ ؓ نے رخصت ہوتے وقت لوگوں سے فرمایا کہ میرے بچو!ہماری باہمی کشمکش محض غلط فہمی کا نتیجہ تھی،ورنہ مجھ میں علی ؓ میں پہلے کوئی جھگڑانہ تھا، حضرت علی ؓ نے بھی مناسب الفاظ میں تصدیق کی اورفرمایا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم محترم اورہماری ماں ہیں، ان کی تعظیم وتوقیر ضروری ہے،غرض پہلی رجب ۳۶ھ سنیچر کے روز حضرت عائشہ ؓ مدینہ کی طرف روانہ ہوگئیں۔
بصرہ میں چند روز قیام کے بعد حضرت علی ؓ نے کوفہ کا عزم کیا اور ۱۲/رجب ۳۶ھ دوشنبہ کے روز داخل شہر ہوئے،اہل کوفہ نے قصرامارت میں مہمان نوازی کا سامان کیا؛لیکن زہد وقناعت کے شہنشاہ نے اس میں فروکش ہونے سے انکار کیا اورفرمایاکہ حضرت عمربن الخطاب ؓ نے ہمیشہ ان عالی شان محلات کو حقارت کی نظر سے دیکھا مجھے بھی اس کی حاجت نہیں ،میدان میرے لئے بس ہے؛چنانچہ میدان میں قیام فرمایا اورمسجد اعظم میں داخل ہوکر دورکعت نماز ادا کی اورجمعہ کے روز خطبہ میں لوگوں کو اتقاوپرہیز گاری اوروفاشعاری کی ہدایت کی۔
جنگ جمل کے بعد حضرت علی ؓ نے مدینہ چھوڑ کر کوفہ میں مستقل اقامت اختیار کی اور دارالحکومت حجاز سے عراق منتقل ہوگیا۔ لوگوں نے اس تبدیلی کے مختلف وجوہ بیان کئے ہیں مگر ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت سے حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو توہین ہوئی اس نے علی مرتضی کو مجبور کیا کہ وہ آئندہ سلطنت کے سیاسی مرکز کو علمی اورمذہبی مرکز سے علیحدہ کردیں، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کوفہ میں حضرت علی ؓ کے طرفداری اورحامیوں کی اس وقت سب سے بڑی تعداد تھی،گوحضرت علی ؓ مدینہ کو سیاسی شروفتن سے بچانے کے لئے عراق کو دارالحکومت بنایا تھا؛لیکن اس کا کوئی مفید نتیجہ مرتب نہیں ہوا اس سے مدینہ کی سیاسی اہمیت ختم ہوگئی اورخود حضرت علی ؓ مرکز اسلام سے دور ہوگئے جو سیاسی حیثیت سے آئندہ ان کے لئے مضر ثابت ہوا۔
بہرحال حضرت علی ؓ نے کوفہ میں قیام فرما کر ملک کا ازسرنونظم ونسق قائم کیا، حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو بصرہ کی ولایت سپردکی،مدائن پر یزید بن قیس،اصفہان پر محمد بن سلیم، کسکر پرقدامہ بن عجلان ازدی،ہجستان پر ربعی بن کاس اور تمام خراسان پر خلیدبن کا س کو مامور کرکے بھیجا، خلید خراسان پہنچے تو ان کو خبر ملی کہ خاندان کسریٰ کی ایک لڑکی نے نیشا پور پہنچ کر بغاوت کرادی ہے؛چنانچہ انہوں نے نیشاپور پر فوج کشی کرکے بغاوت فرو کی اوراس کو بارگاہ خلافت میں بھیج دیا،جناب امیر نے اس کے ساتھ نہایت لطف وکرم کا برتاؤکیا اوراس سے فرمایا کہ اگر وہ پسند کرے تو اپنے فرزند امام حسن سے نکاح کردیں، اس نے کہا کہ وہ ایسے شخص سے شادی کرنا نہیں چاہتی جو ابھی خود مختار نہ ہو، اگر خودجناب امیر اپنے عقد نکاح سے مشرف فرمائیں تو بطیب خاطر حاضر ہوں،حضرت علی ؓ نے انکار کیا اوراسے آزاد کردیا کہ جہاں چاہے رہے اور جس سے چاہے بیاہ کرے۔
جزیرہ موصل اورشام کے متصلہ علاقوں پر اشترنخعی کو مامور کیا،اشترنے بڑھ کر شام کے بعض علاقوں پر قبضہ کرلیا؛لیکن امیر معاویہ ؓ کے عامل ضحاک بن قیس نے حران اوررقہ کے درمیان مقابلہ کرکے اشترکو پھر موصل جانے پر مجبور کیا،اشتر نے موصل میں قیام کرکے شامی فوج سے مستقل چھیڑ چھاڑ کردی اور اس سیلاب کو آگے بڑھنے سے روکے رکھا۔
صلح کی دعوت
اگرچہ حضرت علی ؓ کو یہ معلوم تھا کہ امیر معاویہ آپ کی خلافت تسلیم نہیں کریں گے تاہم اتمام حجت کے لئے ایک دفعہ پھر صلح کی دعوت دی اورجریر بن عبداللہ کو قاصد بنا کر بھیجا،جریر ایسے وقت امیر معاویہ کے پاس پہنچے کہ ان کے دربار میں روسائے شام کا مجمع تھا، امیر معاویہ نے خط لے کر پہلے خود پڑھا، پھر ببانگ بلند حاضرین کوسنایا، بعد حمد ونعت کے خط کا مضمون یہ تھا:۔
۔"تم اور تمہارے زیر اثر جس قدر مسلمان ہیں،سب پر میری بیعت لازم ہے کیونکہ مہاجرین وانصار نے اتفاق عام سے مجھے منصب خلافت کے لئے منتخب کیا ہے، ابوبکر،عمر اورعثمان ؓ کو بھی انہی لوگوں نے منتخب کیا تھا، اس لئے جو شخص اس بیعت کے بعد سرکشی اوراعراض کرے گا وہ جبرواطاعت پر مجبورکیا جائے گا،پس تم مہاجرین وانصار کی اتباع کرو یہی سب سے بہتر طریقہ ہے،ورنہ جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ، تم نے عثمان ؓ کی شہادت کو اپنی مقصد برآری کا وسیلہ بنایا ہے ،اگر تم کو عثمان ؓ کے قاتلوں سے انتقام لینے کا حقیقی جوش ہے تو پہلے میری اطاعت قبول کرو ،اس کے بعد باضابطہ اس مقدمہ کو پیش کرو،میں کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا ،ورنہ تم نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ محض دھوکہ اورفریب ہے"۔
امیر معاویہ بائیس برس سے شام کے والی تھے، اس طویل حکومت نے ان کے دل میں استقلال وخود مختاری کی تمنا پیدا کردی تھی، جس کے حصول کے لئے اس سے بہتر موقع میسر نہیں آسکتا تھا، نیز حضرت عثمان ؓ کی شہادت ،حضرت علی ؓ کی خلافت اوراموی عمال کی برطرفی سے بنوامیہ اوربنو ہاشم کی دیرینہ چشمک پھر تازہ ہوگئی تھی، حضرت علی ؓ کے معزول کردہ تمام اموی عمال امیر معاویہ کے گردوپیش جمع ہوگئے تھے، بہت سے قبائل عرب جو اگرچہ اموی نہ تھے ؛لیکن امیر معاویہ کی شاہانہ دادودہش نے ان کو بھی ان کا طرفدار بنادیا تھا،بعض صحابہ بھی اپنے مقاصد کے لئے ان کے دست وبازو بن گئے تھے،حضرت عمروبن العاص نے مصر کی حکومت کا عہدہ لے کر اعانت وساعدت کا وعدہ کرلیاتھا،حضرت مغیرہ بن شعبہ جو عرب کے نامور مدبروں میں تھے اور پہلے حضرت علی ؓ کے طرفدار تھے آپ سے دل برداشتہ ہوکر امیرمعاویہ کے ساتھ ہوگئے تھے، عبید اللہ بن عمر جنہوں نے اپنے والد کے خون کے جوش انتقام میں ایک پارسی نومسلم ہر مزان کو بے وجہ قتل کردیا تھا اورحضرت عثمان ؓ نے ان سے قصاص نہیں لیا تھا حضرت علی ؓ کی مسند نشینی کے بعد مقدمہ قائم ہونے کے خوف سے بھاگ کر امیر معاویہ کے دامن میں پناہ گزین ہوگئے تھے، امیر معاویہ نے ایک اورمامورمدبر زیاد بن امیہ کو جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حامیوں میں تھا، اپنے ساتھ ملا لیا تھا، اکابر شام کی پہلےہی سے ان کو تائید وحمایت حاصل تھی،ان کی مدد سے انہوں نے حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے واقعہ کو جس سے تمام مسلمان سخت متاثر تھے، سارے شام میں پھیلایا، ہر ہرگاؤں ،قصبہ اورشہر میں اس کی اشاعت کے لئے خطیب مقرر کئے،دمشق کی جامع مسجد میں حضرت عثمان ؓ کے خون آلود پیراہن اورحضرت نائلہ کی کٹی ہوئی انگلیوں کی نمائش کی جاتی تھی۔
(طبری : ۳۲۵۵)
ان تدبیروں سے لوگوں کو حضرت عثمان ؓ کے خون کے انتقام کا جوش پیدا کرنے کے بعد اپنے حاشیہ نشینوں کے مشورہ سے حضرت علی کے خط کا جواب لکھا اورحسب معمول قاتلین عثمان ؓ کو حوالہ کردینے پر اصرارکیا، ابو مسلم نے جو خط کا جواب لے کر گئے تھے،دربارخلافت میں خط پیش کرنے کے بعد رنج کے طورپر گذارش کی کہ اگر عثمان ؓ کے قاتلوں کو ہمارے حوالہ کردیا جائے تو ہم اور تمام اہل شام خوشی کے ساتھ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہیں، فضل وکمال کے لحاظ سے آپ ہی خلافت کے حقیقی مستحق ہیں،جناب امیر ؓ نے دوسرے روز صبح کے وقت جواب دینے کا وعدہ فرمایا،ابو مسلم جب دوسرے روز حاضر ہوئے تو وہاں تقریباً دس ہزار مسلح آدمیوں کا مجمع تھا،ابو مسلم کو دیکھ کر سب نے ایک ساتھ ببانگ بلند کہا، ہم سب عثمان ؓ کے قاتل ہیں، ابو مسلم نے مستعجب ہوکر بارگاہ خلافت میں عرض کیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ سب نے باہم سازش کرلی ہے، حضرت علی ؓ نے فرمایا تم اس سے سمجھ سکتے ہو کہ عثمان ؓ کے قاتلوں پر میرا کہاں تک اختیار ہے؟
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے پھر امیر معاویہ ؓ کو لکھا کہ وہ ناحق ضد سے باز آجائیں اور حضرت عثمان ؓ کے قتل میں ان کی کوئی شرکت نہ تھی، عمروبن العاص کو علیحدہ لکھا کہ دنیا طلبی چھوڑ کر حق کی حمایت کرو؛لیکن زمین مسلمانوں کے خون کی پیاسی تھی،گوجنگ جمل میں دس ہزار مسلمانوں کا خون پی چکی تھی ؛لیکن ابھی اس کی پیاس نہ بجھی تھی، اس لئے مصالحت اورخانہ جنگی کے سدباب کی تمام تر کوششیں ناکام رہیں اورحضرت علی ؓ کو مجبور ہوکر قبضۂ شمشر پر ہاتھ رکھنا پڑا،تمام عمال وحکام کو دوردراز حصص ملک سے جنگ میں شریک ہونے کے لئے بلایا،اورتقریباًاسی ہزار کی جمعیت کے ساتھ حدودشام کا رخ کیا۔
معرکۂ صفین
جب یہ فوج گراں فرات کو عبور کرکے سرحد شام میں داخل ہوئی تو امیر معاویہ کی طرف سے ابوالدعورسلمیٰ نے مقدمۃ الجیش کو آگے بڑھنے سے روکا، علوی فوج کے افسر زیاد بن النفرا اور شریح بن ہانی نے تمام دن نہایت جاں بازی کے ساتھ مقابلہ کیا، اسی اثنا میں اشترنخعی کمک لے کر پہنچ گئے، ابوالدعورنے دیکھا کہ اب مقابلہ دشوار ہے اس لئے رات کی تاریکی میں فوج کو ہٹالیا اورامیر معاویہ کو فوج مخالف کی آمد کی اطلاع دی ،انہوں نے صفین کے میدان کو مدافعت کے لئے منتخب کیا اورپیش قدمی کرکے مناسب موقعوں پر مورچے جمادیئے،گھاٹ کو اپنے قبضہ میں لے کر سلمی کو ایک بڑی جمعیت کے ساتھ متعین کردیا کہ علوی فوج کو دریا سے پانی نہ لینے دیں۔
پانی کے لئے کشمکش
ابوالدعورنے اس حکم کی تعمیل کی؛چنانچہ حضرت علی ؓ کی فوج صفین پہنچی تو اس کو پانی کی وجہ سے سخت دقت پیش آئی،حضرت علی ؓ نے حکم دیا کہ شامی فوج کا مقابلہ کرکے بزورگھاٹ پر قبضہ کرلیا جائے؛چنانچہ پہلے چند آدمی اتمام حجت کے لئے آشتی کے ساتھ دریا کی طرف بڑھے ؛لیکن جیسے ہی قریب پہنچے ہر طرف سے تیروں کی بارش شروع ہوگئی،حضرت علی ؓ کی فوج پیش دستی کی منتظر تھی ،سب نے ایک ساتھ مل کر حملہ کردیا،ابولدعورنے دیر تک ثبات واستقلال کے ساتھ مقابلہ کیا عمرو بن العاص نے بھی اپنی کمک سے تقویت دی؛لیکن پیاسوں کو پانی سے روکنا آسان نہ تھا، آخر کارشامی دستوں کے پاؤں اکھڑ گئے اورگھاٹ پر تشنہ کاموں کا قبضہ ہوگیا، اب جودقت امیر المومنین کی فوجوں کو ہوئی تھی وہی امیر معاویہ کو پیش آئی؛ لیکن جناب مرتضٰی کی حمیت انسانی نے کسی کو تشنہ کام رکھنا گوارانہ کیا اورشامی فوج کو دریاسے پانی لینے کی اجازت دیدی،(ابن اثیر جلد ۳ : ۳۳۵) چنانچہ دونوں فوجیں ایک ساتھ دریا سے سیراب ہونے لگیں اور باہم اس قدر اختلاط پیدا ہوگیا کہ دونوں کیمپوں کے سپاہیوں میں دوستانہ آمدورفت شروع ہوگئی یہاں تک کہ بعضوں کو خیال ہوا کہ اب صلح ہو جائے گی۔
میدانِ جنگ میں مصالحت کی آخری کوشش
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جنگ شروع کرنے سے قبل ایک دفعہ پھر اتمام حجت کے لئے بشیربن عمروبن محصن انصاری،سعید بن قیس ہمدانی اورشبث بن ربعی کو امیر معاویہ کے پاس بھیج کر مصالحت کی آخری کوشش کی ؛لیکن کامیابی نہ ہوئی دونوں طرف علماء ،فضلاء اورحفاظ قرآن کی ایک جماعت موجود تھی جو دل سے اس خونریزی کو ناپسند کرتی تھی، اس نے مسلسل تین ماہ تک جنگ کو روکے رکھا اوراس درمیان میں برابر مصالحت کی کوشش کرتی رہی، اس اثنا میں دونوں طرف سے تقریباً پچاسی دفعہ حملہ کا ارادہ کیا گیا؛ لیکن ان بزرگوں نے ہمیشہ درمیان میں پڑکر بیچ بچاؤ کرادیا، غرض ربیع الاول ،ربیع الثانی اورجمادی الاولی تین مہینے صرف صلح کے انتظار میں گزرگئے؛لیکن اس کی کوئی صورت نہ نکل سکی اورجمادی الاآخر کے شروع میں جنگ چھڑگئی۔
آغاز جنگ
لڑائی کا یہ طریقہ تھا کہ دونوں طرف سے دن میں دو دفعہ یعنی صبح و شام تھوڑی تھوڑی فوج میدان جنگ میں اترتی تھی اور کشت وخون کے بعد اپنے فردوگاہ پر واپس جاتی تھی، فوج کی کمان حضرت علی ؓ کبھی خود کرتے تھے اور کبھی باری باری سے اشترنخعی ،حجر بن عدیؓ، شبث ربعی، خالدبن المعمرہ، زیاد بن النضر، زیاد بن حصفہ التیمی ،سعید بن قیس ،محمد بن حنفیہ ،معقل بن قیس اورقیس بن سعد اس فرض کو انجام دیتے تھے،یہ سلسلہ جمادی الآخر کی آخر تاریخوں تک جاری رہا ؛لیکن جیسے ہی رجب کا ہلال طلوع ہوا، اشہر حرم کی عظمت کے خیال سے دفعۃً دونوں طرف سے جنگ رک گئی، اس التواء سے خیرخواہان امت کو پھر ایک مرتبہ مصالحت کی کوشش کا موقع مل گیا؛چنانچہ حضرت ابوالدرداء ؓ اورحضرت ابوامامہ باہلی ؓ نے امیر معاویہ کے پاس جاکر ان سے حسب ذیل گفتگوکی:۔
حضرت ابولدرداء ؓ:تم علیؓ سے لڑتے ہوکیا وہ امامت کے تم سے زیادہ مستحق نہیں ہیں؟
امیرمعاویہ:میں عثمان ؓ کے خون ناحق کے لئے لڑتا ہوں
حضرت ابوالدرداء: کیا عثمان ؓ کو علیؓ نے قتل کیا ہے؟
امیر معاویہ: قتل تو نہیں کیا ہے،قاتلوں کو پناہ دی ہے، اگر وہ ان کو میرے سپرد کردیں تو سب سے پہلے بیعت کرنے کو تیارہوں۔
اس گفتگو کے بعد حضرت ابوالدردا ءؓ اورحضرت ابوامامہ ؓ حضرت علی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور امیر معاویہ کی شرائط سے مطلع کیا، اسے سن کر تقریباً بیس ہزار سپاہیوں نے علوی فوج سے نکل کر کہا کہ ہم سب عثمان ؓ کے قاتل ہیں،حضرت ابوالدرداء اور حضرت ابو امامہ ؓ نے یہ رنگ دیکھا تو لشکر گاہ چھوڑکر ساحلی علاقہ کی طرف چلے گئے اور اس جنگ میں کوئی حصہ نہیں لیا۔
غرض پہلی رجب سے اخیر محرم ۳۷ھ تک طرفین سے سکوت رہا اورکوئی قابل ذکر معرکہ پیش نہ آیا،آغاز صفر سے پھر ازسرنوجنگ شروع ہوگئی اوراس قدر خونریزلڑائیاں پیش آئیں کہ ہزاروں عورتیں بیوہ اورہزاروں بچے یتیم ہوگئے، پھر بھی اس خانہ جنگی کا فیصلہ نہ ہوا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس طوالت سے تنگ آکر اپنی فوج کے سامنے نہایت پرجوش تقریر کی اور اس کو فیصلہ کن جنگ کے لئے ابھارا،تمام فوج نے نہایت جوش وخروش کے ساتھ اس تقریر کو لبیک کہا اوراپنے حریف پر اس زور سے حملہ کیا کہ شامی فوج کی صفیں درہم برہم ہوگئیں اور بڑے بڑے بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے،حیدرکرار خود فوج کے آگے تھے اور اس جانبازی سے لڑرہے تھے کہ حریف کی صفیں چیرتے ہوئے امیر معاویہ کے مقصورہ تک پہنچ گئے،آپ کی زبان پر یہ رجز جاری تھا:۔
اضربھم ولااری معاویۃ الجاحظ العین العظیم الحاویۃ
قریب پہنچ کر پکارکر کہا‘‘معاویہ!خلق خدا کا خون گراتے ہو،آؤ ہم تم باہم اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کرلیں۔’’
اس مبارزت پر عمروبن العاص ؓ اورامیر معاویہ میں حسب ذیل مکالمہ ہوا:۔
عمروبن العاص : بات انصاف کی ہے۔
امیر معاویہ : خوب کیا انصاف ہے؟تم جانتے ہو کہ جو اس شخص کے مقابلہ میں جاتا ہے پھر زندہ نہیں بچتا۔
عمروبن العاص:جو کچھ ہو،تاہم مقابلے کے لئے نکلنا چاہئے۔
امیر معاویہ :تم چاہتے ہو کہ مجھے قتل کراکے میرے منصب پر قبضہ کرو۔
امیر معاویہ کے اعراض پر عمروبن العاص خود شیرخدا کے مقابلے کے لئے نکلے،دیر تک دونوں میں تیغ سنان کا ردو بدل ہوتا رہا، ایک دفعہ حضرت علی ؓ نے ایسا وار کیا کہ اس سے سلامت بچنا ناممکن تھا،عمروبن العاص اس بدحواسی کے ساتھ گھوڑے سے گرے کہ بالکل برہنہ ہوگئے،فاتح خیبر نے اپنے حریف کو برہنہ دیکھ کر منہ پھیر لیا اورزندہ چھوڑ کر واپس چلے آئے۔
اس جنگ کے بعد تھوڑی تھوڑی فوج سے مقابلہ ہونے کے بجائے پوری فوج کے ساتھ جنگ ہونے لگی، چند دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ جمعہ کے روز عظیم الشان جنگ پیش آئی جو شدت وخونریزی کے لحاظ سے تاریخ اسلام میں اپنی نظیر آپ ہے،صبح سے شام اورشام سے دوسری صبح تک اس زور کا رن پڑاکہ نعروں کی گرج،گھوڑوں کی ٹاپوں اورتلواروں کی جھنکاروں سے کرہ ارض تھرارہا تھا اسی مناسبت سے اس کو لیلۃ الہر یر کہتے ہیں۔
دوسری صبح کو مجروحین ومقتولین کے اٹھانے کے لئے جنگ ملتوی ہوئی، حضرت علی ؓ نے اپنے طرفداروں کو مخاطب کرکے نہایت جوش سے تقریر کی اورفرمایا‘‘جانبازو!ہماری کوششیں اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ انشاء اللہ کل اس کا آخری فیصلہ ہوجائیگا،پس آج کچھ آرام لینے کے بعد اپنے حریف کو آخری شکست دینے کے لئے تیار ہوجاؤ اوراس وقت تک میدان سے منہ نہ موڑوجب تک اس کا قطعی فیصلہ نہ ہوجائے۔
امیر معاویہ اورعمروبن العاص نے اس وقت تک نہایت جانبازی ،شجاعت اورپامردی کے ساتھ اپنی فوجوں کو سرگرم کا رزاررکھا تھا؛لیکن لیلۃ الہریر کی جنگ سے انہیں بھی یقین ہوگیا تھا کہ اب لشکر حیدری کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے،قبیلوں کے سردار بھی ہمت ہار گئے،اشعث ابن قیس نے اعلانیہ دربار میں کھڑے ہوکر کہا اگر مسلمانوں کی باہمی لڑائی ایسی ہی قائم رہی تو تمام عرب ویران ہوجائے گا، رومی شام میں ہمارے اہل وعیال پر قبضہ کرلیں گے، اس طرح ایران دہقان اہل کوفہ کی عورتوں اوربچوں پر متصرف ہوجائیں گے، ،تمام درباریوں کی نظریں امیر معاویہ کے چہرہ پر گڑگئیں اورسب نے بالاتفاق اس خیال کی تائید کی۔
یہ رنگ دیکھ کر امیر معاویہ نے جناب مرتضیٰؑ کو لکھا کہ‘‘اگر ہم کو اورخودآپ کو معلوم ہوتاکہ یہ جنگ اس قدر طول کھینچے گی تو غالباً ہم دونوں اس کو چھیڑنا پسند نہ کرتے، بہر حال اب ہم کو اس تباہ کن جنگ کا خاتمہ کردینا چاہئے ہم لوگ بنی عبد مناف ہیں اورآپس میں ایک دوسرے پر کوئی فوقیت نہیں، اس لئے مصالحت ایسی ہو کہ طرفین کی عزت وآبرو برقرار رہے؛لیکن اب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مصالحت سے انکار کیا اوردوسرے روز علی الصباح زرہ بکتر سے آراستہ ہوکر اپنی فوج ظفر موج کے ساتھ میدان میں صف آراء ہوئے؛لیکن حریف نے جنگ ختم کردینے کا تہیہ کرلیا تھا، عمروبن العاص نے کہا اب میں ایک ایسی چال چلوں گا کہ یا تو جنگ کا خاتمہ ہی ہوجائے گا یہ علی ؓ کی فوج میں پھوٹ پڑجائے گی؛چنانچہ دوسری صبح شامی فوج ایک عجیب منظر کے ساتھ میدان جنگ میں آئی،آگے آگے دمشق کا مصحفِ اعظم پانچ نیزوں پر بندھا ہوا تھا اوراس کو پانچ آدمی بلند کئےہوئے تھے، اس کے علاوہ جس جس کے پاس قرآن پاک تھا اس نے اس کو نیزے پر باندھ لیاتھا، حضرت علی ؓ کی طرف سے اشترنخعی نے ایک جمعیت عظیم کے ساتھ حملہ کیا توقلب سے فضل بن اوہم ،میمنہ سے شریح الجذامی اورمیسرہ سے زرقاء بن معمربڑھے اورچلا کر کہا گروہِ عرب!خدارومیوں اورایرانیوں کے ہاتھ سے تمہاری عورتوں اوربچوں کو بچائے تم فنا ہوگئے،دیکھو یہ کتاب اللہ ہمارے اورتمہارے درمیان ہے، اسی طرح ابوالدعور سلمیٰ اپنے سرپر کلام مجید رکھے ہوئے لشکر حیدری کے قریب آئے اور ببانگ بلند کہا‘‘اے اہل عراق یہ کتاب اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان حکم ہے، اشترنخعی نے اپنے ساتھیوں کوسمجھایا کہ حریف کی چال ہے اورجوش دلا کر نہایت زوروشورسے حملہ کردیا؛لیکن شامیوں کی چال کامیاب ہوگئی۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے لوگوں کو لاکھ سمجھایا کہ مصاحف کا بلند کرنا محض عیاری ہے ہم کو اس دام تزویر سے بچنا چاہئے، کردوس بن ہانی،سفیان بن ثور اورخالد بن العمر نے بھی امیر المومنین کی تائید کی اورکہا کہ پہلے ہم نے ان کو قرآن کی طرف دعوت دی تو انہوں نے کچھ پرواہ نہ کی، لیکن جب ناکامی و نامرادی کا خوف ہوا تو اس مکاری کے ساتھ ہمیں دھوکہ دینا چاہتے ہیں؛لیکن شامیوں کا جادو چل چکا تھا،اس لئے باوجود سعی وکوشش ایک جماعت نے نہایت سختی کے ساتھ اصرار کیا کہ قرآن کی دعوت کو رد نہ کرنا چاہئے اوردھمکی دی کہ اگر قرآن کے درمیان میں آنے کے بعد بھی جنگ بند نہ ہوگی تو وہ نہ صرف فوج سے کنارہ کش ہوجائے گی؛ بلکہ خود جناب امیر ؓ کا مقابلہ کرےگی، معربن فد کی،زیدبن حصین،سنبی اورابن الکواء اس جماعت کے سرگروہ تھے،اسی طرح اشعث بن قیس نے عرض کیا امیر المومنین ! میں جس طرح کل آپ کا جان نثار تھا اسی طرح آج بھی ہوں؛لیکن میری بھی یہی رائے ہے کہ قرآن مجید کو حکم مان لینا چاہئے،غرض یہ چال ایسی کامیاب ہوئی کہ جناب مرتضیٰ کو مجبورا ًاپنی فوج کو بازگشت کا حکم دینا پڑا،اشترنخعی اس وقت نہایت کامیاب جنگ میں مصروف تھے ،اس لئے واپسی کا حکم سن کر ان کو بڑا صدمہ ہوا اورفردوگاہ پر واپس جانے کے بعد ان میں اور مسعر بن مذکی اورابن الکواء وغیرہ میں جنہوں نے التوائے جنگ پر مجبور کیا تھا نہایت تلخ گفتگوہوئی اورقریب تھا کہ باہم کشت وخون کی نوبت پہنچ جائے ؛لیکن جناب امیر ؓ نے درمیان میں پڑکر معاملہ کورفت وگذشت کردیا۔
التوائے جنگ کے بعد دونوں فریق میں خط وکتابت شروع ہوئی اورطرفین کے علماء ،فضلاء کا اجتماع ہوا اوربحث ومباحثہ کے بعد قرار پایا کہ اس قضیہ کا فیصلہ دوحکم کے سپرد کردیا جائے اور وہ قرآن و سُنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشنی میں فیصلہ کریں، شامیوں نے اپنی طرف سے عمروبن العاص کا نام پیش کیا، اہل عراق کی طرف سے اشعث بن قیس نے ابوموسیٰ اشعری کا نام لیا،حضرت علی ؓ نے اس سے اختلاف کیا اورحضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے بجائے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو تجویز کیا، لوگوں نے کہا عبداللہ بن عباسؓ اورآپ تو ایک ہی ہیں، حکم کو غیر جانبدار ہونا چاہئے، اس لئے جناب امیر ؓ نے دوسرا نام اشترنخعی کا لیا، اشعث بن قیس نے برافروختہ ہوکر کہا‘‘جنگ کی آگ اشترہی نے بھڑکائی ہے اور ان کی رائے تھی کہ جب تک آخری نتیجہ نہ ظاہر ہو ہر فریق دوسرے سے لڑتا رہے، اس وقت تک ہم اس کی رائے پر عمل کرتے رہے، ظاہر ہے کہ جس کی رائے یہ ہے اس کا فیصلہ بھی یہی ہوگا، حضرت علی ؓ نے جب دیکھا کہ لوگ ابوموسیٰ اشعری کے علاوہ اورکسی پر رضا مند نہیں تو تحمل وبردباری کے ساتھ فرمایا جس کو چاہو حکم بناؤ مجھے بحث نہیں ۔
حضرت ابوموسیٰ اشعر ی ؓ جنگ سے کنارہ کش ہوکر ملک شام کے ایک گاؤں میں گوشہ نشین ہوگئے تھے،لوگوں نے قاصد بھیج کر ان کو بلایا اوردونوں فریق کے ارباب حل وعقد ایک عہد نامہ ترتیب دینے کے لئے مجتمع ہوئے،کاتب نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد لکھا ہذا ماقضی علیہ امیر المومنین،امیر معاویہ نے کہا اگر امیرالمؤمنین تسلیم کرلیتا توپھر جھگڑاہی کیا تھا،عمروبن العاص نے مشورہ دیا کہ صرف نام پر اکتفاکیا جائے، لیکن احنف ابن قیس اورحضرت علی ؓ کے دوسرے جاں نثاروں کو اس لقب کا محوہونا نہایت شاق تھا، فدائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا خدا کی قسم یہ سنت کبریٰ ہے ،صلح حدیبیہ (ذوقعدہ ۶ھ ) میں رسول اللہ کے فقرے پر ایسا ہی اعتراض ہواتھا اس لئے جس طرح حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے دست مبارک سے مٹایا تھا، اسی طرح میں بھی اپنے ہاتھ سے مٹاتا ہوں،غرض معاہدہ لکھا گیا اوردونوں طرف کے سربرآوردہ آدمیوں نے دستخط کرکے اس کو موثق کیا،معاہدہ کا خلاصہ یہ ہے۔
علی ؓ،معاویہ اوران دونوں کے طرفدار باہمی رضا مندی کے ساتھ عہد کرتے ہیں کہ عبداللہ بن قیس (ابوموسیٰ اشعری ؓ ) اورعمروبن العاص قرآن پاک اورسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جو فیصلہ کریں گے اس کے تسلیم کرنے میں ان کو پس و پیش نہ ہوگا، اس لئے دونوں حکم کے لئے نہایت ضروری ہے کہ وہ قرآن اورسنت نبوی کو نصب العین بنائیں اورکسی حالت میں اس سے انحراف نہ کریں،حکم کی جان اوران کا مال محفوظ رہے گا اوران کے حق فیصلہ کی تمام امت تائید کرے گی،ہاں اگر فیصلہ کتاب اللہ اورسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوگا تو تسلیم نہیں کیا جائے گا اورفریقین کو اختیار ہوگا کہ پھر ازسرنوجنگ کو اپنا حکم بنائیں۔
خارجی فرقہ کی بنیاد
معاہدہ تیرہویں صفر ۳۷ ھ چہارشنبہ کے روز ترتیب پایا، اشعث بن قیس تمام قبائل کو اس معاہدہ سے مطلع کرنے پر مامور ہوئے، وہ سب کو سناتے ہوئے جب غزہ کے فرودگاہ پر پہنچے تو دو آدمیوں نے کھڑے ہوکر کہا کہ خدا کے سوا اورکسی کو فیصلہ کا حق نہیں اورغضب ناک ہو کہ شامی فوج پر حملہ کردیا اورلڑکر مارے گئے، اسی طرح قبیلہ مراد اوربنو راست اوربنو تمیم نے بھی اس کو ناپسند کیا، بنو تمیم کے ایک شخص غزوہ بن اُدیہ نے اشعث سے سوال کیا کہ کیا تم لوگ اللہ کے دین میں آدمیوں کا فیصلہ قبول کرتے ہو؟ اگر ایسا ہے تو بتاؤ کہ ہمارے مقتول کہاجائیں؟ اورغضب ناک ہو کر تلوار کا ایسا وار کیا کہ اگر خالی نہ جاتا تو اشعث کا کام ہی تمام ہوجاتا،بہت سے آدمیوں نے خود حضرت علی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس معاہدہ کی نسبت اپنی بیزاری ظاہرکی، محزربن خنیس نے عرض کیا ،امیر المومنین اس معاہدہ سے رجوع کرلیجئے، واللہ میں ڈرتا ہوں کہ شاید آپ کا انجام برانہ ہو، غرض ایک معتدبہ جماعت نے اس کو ناپسند کیا اورانجام کار اسی ناپسندیدگی نے ایک مستقل فرقہ کی بنیاد قائم کردی جس کا ذکرآگے آئے گا۔
تحکیم کا نتیجہ
حضرت علی ؓ اورامیر معاویہ نے دومۃ الجندل کو جو عراق اورشام کے وسط میں تھا بالاتفاق حکمین کے لئے اجلاس کا مقام منتخب کیا اور ہر ایک نے اپنے اپنے حکم کے ساتھ چار چار سوآدمیوں کی جمعیت ساتھ کردیا، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے ساتھ جو فوج گئی تھی اس کے افسر شریح بن ہانی اورمذہبی نگران حضرت عبداللہ بن عباس ؓ تھے،حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت سعد وقاص ؓ اورحضرت مغیرہ بن شعبہ وغیرہ بھی جو اپنے ورع وتقویٰ کے باعث اس خانہ جنگی سے الگ رہے تھے، تحکیم کی خبر سن کر اس کا آخری فیصلہ معلوم کرنے کے لئے دومۃ الجندل میں آئے، حضرت مغیرہ بن شعبہ نے جو نہایت نکتہ رس اورمعاملہ فہم بزرگ تھے پہنچنے کے ساتھ ابوموسیٰ اشعر ی اور عمروبن العاص سے علیحدہ علیحدہ گفتگو کرکے ان کی رائے کا اندازہ کیا تو انہیں یقین ہوگیا کہ ان دونوں میں اتحاد رائے ممکن نہیں ہے؛چنانچہ انہوں نے اسی وقت اعلانیہ پیشن گوئی کی کہ اس تحکیم کا نتیجہ خوش آئند نہ ہوگا، بہرحال دونوں حکم حسب قرارداد گوشہ خلوت میں مجتمع ہوئے،عمروبن العاص نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو اپنا ہم خیال بنانے کے لئے ان کی غیر معمولی تعظیم وتوقیر شروع کی تعریف وتوصیف کے پل باندھ دیئے،اصل مسئلہ کے متعلق جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ یہ ہے:۔
ابوموسیٰ ؓ :عمرو تم ایک ایسی رائے کے متعلق کیا خیال رکھتے ہو جس سے خدا کی خوشنودی اورقوم کی بہبودی دونوں میسر آئے؟
عمروبن العاص :وہ کیا ہے؟
ابو موسیٰؓ ،عبداللہ بن عمرؓ نے ان خانہ جنگیوں میں کسی طرح حصہ نہیں لیا ہے، ان کو منصب خلافت پر کیوں نہ متمکن کیا جائے۔
عمروبن العاص،معاویہ میں کیا خرابی ہے؟
ابوموسی ؓ، معاویہ نہ تو اس منصب جلیل کے لئے موزوں ہیں اور نہ ان کو کسی طرح کا استحقاق ہے، ہاں اگر تم مجھ سے اتفاق کرو تو فاروق اعظم ؓ کا عہد لوٹ آئے اور عبداللہ اپنے باپ کی یاد پھر تازہ کردیں۔
عمروبن العاص، میرے لڑکے عبداللہ پر آپ کی نظر انتخاب کیوں نہیں پڑتی فضل و منقبت میں تو وہ بھی کچھ کم نہیں۔
ابوموسیٰ ؓ، بیشک تمہارا لڑکا صاحب فضل ومنقبت ہے؛ لیکن ان خانہ جنگیوں میں شریک کرکے تم نے ان کے دامن کو بھی ایک حد تک داغدار کردیا ہے، برخلاف اس کے طیب ابن طیب عبداللہ بن عمر ؓ کا لباس تقویٰ ہر قسم کے دھبوں سے محفوظ ہے،بس آؤ انہی کو مسندخلافت پر بٹھادیں۔
عمروبن العاص: ابوموسیؓ! اس منصب کی صلاحیت صرف اس میں ہوسکتی ہے جس کے دو داڑھ ہوں،ایک سے کھائے اور دوسرے سے کھلائے۔
ابوموسیؓ ،عمرو! تمہارا براہو،کشت وخون کے بعد مسلمانوں نے ہمارا دامن پکڑا ہے اب ہم ان کو پھر فتنہ وفساد میں مبتلا نہیں کریں گے۔
عمروبن العاص ،پھر آپ کی کیا رائے ہے؟
ابوموسیٰ ؓ،ہمارا خیال ہے کہ علی ؓ اورمعاویہ ؓ دونوں کو معزول کردیں اور مسلمانوں کی مجلس شوریٰ کو پھر سے اختیاردیں کہ جس کو چاہے منتخب کرے۔
عمروبن العاص، مجھے بھی اس سے اتفاق ہے۔
مذکورہ بالاقرارداد کے بعد جب دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو عبداللہ بن عباس ؓ نے ابو موسیٰ ؓ کے پاس جاکر کہا‘‘خدا کی قسم !مجھے یقین ہے کہ عمرونے آپ کو دھوکہ دیا ہوگا، اگر کسی رائے پر اتفاق ہوا ہو توآپ ہر گز اعلان میں سبقت نہ کیجئے گا، وہ نہایت غدار ہے،کیاعجب ہے کہ آپ کے بیان کی مخالفت کربیٹھے،ابوموسی ؓ نے کہا کہ ہم لوگ ایسی رائے پر متحد ہوئے ہیں کہ اس میں اختلاف کی گنجائش ہی نہیں،غرض دوسرے روز مسجد میں مسلمانوں کا مجمع ہوا، حضرت ابوموسی اشعری نے عمروبن العاصؓ سے فرمایا کہ وہ منبر پر چڑھ کر فیصلہ سنائیں،انہوں نے عرض کیا میں آپ پر سبقت نہیں کرسکتا ،آپ فضل ومنقبت میں، سن وسال میں،غرض ہر حیثیت سے ہم سے افضل اورہمارے بزرگ ہیں۔
حضرت ابوموسی ؓ پرعمروبن العاص ؓکا جادو چل گیا؛چنانچہ آپ بغیر پس وپیش کےکھڑے ہوگئے اورحمد وثنا کے بعد کہا‘‘صاحبو! ہم نے علی ؓ اور معاویہ دونوں کو معزول کیا اور پھر نئے سرے سے مجلس شوریٰ کو انتخاب کا حق دیا، وہ جس کو چاہے اپنا امیر بنائے، ابو موسی اپنا فیصلہ سنا کر منبر پر سے اترے عمرو بن العاص نے کھڑے ہوکر کہا‘‘صاحبو!علی ؓ کو جیسا کہ ابوموسیٰ ؓ نے معزول کیا میں بھی معزول کرتا ہوں ؛لیکن معاویہ ؓ کو اس منصب پر قائم رکھتا ہوں، کیونکہ وہ امیر المؤمنین عثمان ؓ کے ولی اورخلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ بہت نیک دل اور سادہ دل بزرگ تھے، اس خلاف بیانی سے ششد رہ گئے،چلا کر کہنے لگے یہ کیا غداری ہے،یہ کیا بے ایمانی ہے،سچ یہ ہے کہ تمہاری حالت بالکل اس کتے کی طرح ہے جس پر لادوجب بھی ہانپتا ہے اور چھوڑو تو بھی ہانپتا ہے، انما مثلک کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھث اوتترکہ یلھث ، عمرو بن العاص نے کہا اورآپ پر چارپائے بروکتا بے چند کی مثل صادق آتی ہے،مثلک کمثل الحمار یحمل اسفارا،عمروبن العاصؓ کے بیان سے مجمع میں سخت برہمی پیدا ہوگئی،شریح بن ہانی نے عمروبن العاصؓ کو کوڑے سے مارنا شروع کیا،اس طرف سے ان کے ایک لڑکے نے شریح پر حملہ کردیا؛لیکن بات بڑھنے نہیں پائی اورلوگوں نے بیچ بچاؤ کر کے رفت وگذشت کردیا، حضرت ابوموسیٰ ؓ کو اس قدر ندامت ہوئی کہ اس وقت مکہ روانہ ہوگئے اور تمام عمرگوشہ نشین رہے۔
خوارج کی سرکشی
پہلے گزرچکا ہے کہ تحکیم کو حضرت علی ؓ کے اعوان وانصار میں سے معتدبہ جماعت نے ناپسند کیا تھا؛چنانچہ جب آپ صفین سے کوفہ تشریف لائے تو اس نے اپنی ناپسندید گی کا ثبوت اس طرح دیا کہ تقریباً بارہ ہزار آدمیوں نے لشکر حیدری سے کنارہ کش ہوکر حردار میں اقامت اختیار کی،حضرت علی ؓ نے حضرت عبداللہ بن عباس کو سمجھانے کے لئے بھیجا، انہیں ناکامی ہوئی توخود تشریف لے گئے اورمناظرہ ومباحثہ کے بعد راضی کرکے سب کو کوفہ لے آئے یہاں یہ افواہ پھیل گئی کہ جناب امیر ؓ نے ان کی خاطر داری کے لئے تحکیم کو کفر تسلیم کرکے اس سے توبہ کی ہے،حضرت علی ؓ کے کان میں اس کی بھنک پہنچی تو آپ نے خطبہ دے کر اس کی تکذیب کی اورفرمایا کہ پہلے ان ہی لوگوں نے جنگ ملتوی کرنے پر مجبور کیا، پھر تحکیم پر ناپسندیدگی ظاہر کی اوراب چاہتے ہیں کہ عہد شکنی کرکے قبل از فیصلہ پھر جنگ شروع کردوں، خدا کی قسم ! یہ نہیں ہوسکتا ،حاضرین میں اُس جماعت کے لوگ بھی موجود تھے وہ سب ایک ساتھ چلا آٹھے‘‘ لاحکم الا اللہ’’ یعنی فیصلہ کا حق صرف اللہ کو ہے اور ایک شخص نے سامنے آکر نہایت بلند آہنگی سے کہا:۔
وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَo لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
(زمر:۶۵ )
۔"اے محمد تم اورتمہارے قبل انبیا پر یہ وحی بھیجی گئی کہ اگر تم نے خدا کی ذات میں دوسرے کو شریک بنایا تو تمہارے سب اعمال بیکارہوجائیں گے اور تم خسارہ اٹھانے والوں میں ہوں گے۔"۔
حضرت علی ؓ نے برجستہ جواب دیا:۔
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّلَا یَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِیْنَ لَا یُوْقِنُوْنَ
توصبر کر،خداکا وعدہ حق ہے اورجولوگ یقین نہیں رکھتے وہ تیرا استخفاف نہ کریں۔
غرض رفتہ رفتہ اس جماعت نے ایک مستقل فرقہ کی صورت اختیار کرلی، دومۃ الجندل کی تحکیم کا افسوس ناک نتیجہ ملک میں شائع ہوا تو اس فرقہ نے جناب مرتضیٰ کی بیعت توڑکر عبداللہ بن وہب الراسبی کے ہاتھ پر بیعت کی اور کوفہ، بصرہ، انبار اورمدائن وغیرہ میں جس قدر اس فرقہ کے لوگ موجود تھے وہ سب نہروان میں جمع ہوئے اور عام طورپر قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا۔
خارجیوں کا عقیدہ تھا کہ معاملات دین میں سرے سے حکم مقرر کرنا کفر ہے، پھر ان دونوں حکم نے جس طریقہ پراس کا فیصلہ کیا اس کے لحاظ سے خود وہ دونوں اوران کے انتخاب کرنے والے کافر ہیں اور اس عقیدہ سے جس کو اتفاق نہ ہو اس کا خون مباح ہے؛چنانچہ انہوں نے عبداللہ بن خباب اوران کی اہلیہ کو نہایت بیددردی سے قتل کردیا،اسی طرح ام سنان اورصید اویہ کو مشق ستم بنایا اورجو انہیں ملا اس کو یا تو اپنا ہم خیال بناکر چھوڑایا تلوار کے گھاٹ اتاردیا ،حضرت علی ؓ کو ان جگر خراش واقعات کی اطلاع ہوئی توحارث بن مرہ کو دریافت حال کے لئے بھیجا،خارجیوں نے ان کا بھی کام تمام کردیا۔
جناب مرتضیٰ ؓ اس وقت نئے سرے سے شام پر فوج کشی کی تیاری فرمارہے تھے ؛لیکن جب خارجیوں کی سرکشی اورقتل وغارت اس حد تک پہنچ گئی تو اس ارادہ کو ملتوی کرکے ان خارجیوں کی تنبیہ کے لئے نہروان کا قصد کرنا پڑا۔
معرکہ نہروان
نہروان پہنچ کر حضرت ابوایوب انصاری ؓ اورقیس بن سعد بن عبادہ ؓ کو خارجیوں کے پاس بھیجا کہ وہ بحث و مباحثہ کرکے ان کو ان کی غلطی پر متنبہ کریں،جب ان دونوں کو ناکامی ہوئی تو خارجیوں کے ایک سردار ابن الکواکوبلاکر خود ہر طرح سمجھا یا؛لیکن ان کے قلوب تاریک ہوچکے تھے، اس لئےارشاد وہدایت کے تمام مساعی ناکام رہے،اورجناب امیر ؓ نے مجبور ہوکر فوج کو تیاری کا حکم دیا،میمنہ پر حجربن عدی،میسرہ پر شیث بن ربعی،پیادہ پرحضرت ابوقتادہ انصاری ؓ اورسواروں پر حضرت ابوایوب ؓ کو متعین کرکے باقاعدہ صف آرائی کی۔
خارجیوں میں ایک جماعت ایسی تھی جس کو حیدر کرار ؓ سے جنگ آزمائی ہونے میں پس و پیش تھا،ایک بڑا گروہ کوفہ چلا گیا اورایک ہزار آدمیوں نے توبہ کرکے علم حیدری کے نیچے پناہ لی،اورعبداللہ بن وہب الراسبی کے ساتھ صرف چارہزارخارجی باقی رہ گئے؛لیکن یہ سب منتخب اورجانباز تھے اس لئے انہوں نے میمنہ اورمیسرہ پر اس زور کا حملہ کردیا کہ اگر جاں نثاران علی ؓ میں غیر معمولی ثبات واستقلال نہ ہوتا توان کا روکنا سخت مشکل تھا، خارجیوں کی حالت یہ تھی کہ ان کے اعضاء کٹ کٹ کر جسم سے علیحدہ ہوجاتے تھے؛ لیکن ان کی حملہ آوری میں فرق نہیں آتا تھا،شریح بن ابی ادنیٰ کا ایک پاؤں کٹ گیا تو تنہا ایک ہی پاؤں پر کھڑا ہوکر لڑتا رہا،اسی طرح خارجی ایک ایک کرکے کٹ کر مر گئے،جنگ ختم ہونے کے بعد حضرت علی ؓ نے خارجی مقتولین میں اس شخص کو تلاش کرنا شروع کیا جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی؛چنانچہ تمام علامات کے ساتھ ایک لاش برآمد ہوئی تو فرمایا اللہ اکبر! خداکی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر صحیح ارشاد فرمایا تھا۔"۔
جنگ نہروان سے فارغ ہونے کے بعدحضرت علی ؓ نے شام کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا ؛لیکن اشعث بن قیس نے کہا‘‘امیر المومنین !ہمارے ترکش خالی ہوگئے ہیں، تلواروں کی دھاریں مڑ گئی ہیں، نیزوں کے پھل خراب ہوگئے ہیں، اس لئے ہم کو دشمن پر فوج کشی کرنے سے پہلے اسباب وسامان درست کرلینا چاہئے،جناب امیر ؓ نے اشعث کی رائے کے مطابق نخیلہ میں پڑاؤ کرکے لوگوں کو تیاری کا حکم دیا؛لیکن لوگ تیار ہونے کے بجائے آہستہ آہستہ دس دس بیس بیس کوفہ کھسکنے لگے،یہاں تک کہ آخر میں کل ایک ہزار کی جمعیت ساتھ رہ گئی۔حضرت علی ؓ نے یہ رنگ دیکھا تو سردست شام پر فوج کشی کا ارادہ ترک کردیا اورکوفہ واپس جاکر اقامت اختیار کی۔
مصر کے لئے کش مکش
پہلے گزرچکا ہے کہ جناب مرتضیٰ ؓ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے ساتھ عہدعثمانی کے تمام عمال کو معزول کرکے نئے عمال مقرر کئے تھے؛چنانچہ مصر کی ولایت حضرت قیس بن سعدانصاری ؓ کے سپرد ہوئی تھی، انہوں نے حکمت عملی سے تقریبا تمام اہل مصر کو جناب امیر ؓ کی خلافت پر راضی کرکے ان سے آپ کی بیعت لے لی صرف قصبہ خرتبا کے لوگوں کو تامل ہوا اورانہوں نے کہا جب تک معاملات یکسو نہ ہو جائیں اس وقت تک ان سے بیعت کے لئے اصرار نہ کیا جائے، البتہ والی مصر کی اطاعت وفرمانبرداری میں کوتاہی نہ کریں گے اورنہ ملک کے امن وسکون کو صدمہ پہنچائیں گے،قیس بن سعد نہایت پختہ کار اورصاحب تدبیر تھے، انہوں نے اس بھڑکے چھتے کو چھیڑنا خلافِ مصلحت سمجھا اورانہیں امن وسکون کی زندگی بسر کرنے کی اجازت دے دی، اس رواداری کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل خرتبا مطیع وفرماں بردار ہوگئے، اورخراج وغیرہ ادا کرنے میں انہوں نے کبھی کوئی جھگڑانہیں کیا۔
جنگ صفین کی تیاریاں شروع ہوئیں تو امیر معاویہ ؓ کو خوف ہوا کہ اگر وہ دوسری طرف سے قیس بن سعد اہل مصر کو لے کر شام پر چڑھ آئے تو بڑی دقت کا سامنا ہوگا ،اس لئے انہوں نے قیس بن سعد کو خط لکھا کر اپنا طرفدار بنانا چاہا قیس بن سعد ؓ نے دنیا سازی کے طورپر نہایت گول جواب دے کر ٹال دیا، امیر معاویہ ؓ فورا اس کو تاڑگئے اوران کو لکھا کہ تم مجھے دھوکہ دینا چاہتے ہو،مجھ جیسا شخص کبھی تمہارے دام فریب کا شکار نہیں ہوسکتا افسوس تم اس کو فریب دیتے ہو جس کا ادنی سا اشارہ مصر کو پامال کرسکتا ہے قیس بن سعد ؓ نے اس تحریر کا جواب نہایت سخت دیا اورلکھا کہ تمہاری دہمکی سے نہیں ڈرتا،خدانے چاہا تو خود تمہاری اپنی جان کے لالے پڑجائیں گے۔
حضرت قیس بن سعد نہایت بلند پایہ اور ذی اثر بزرگ تھے،رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکثر غزوات میں انصار کے علم بردار رہے تھے،امیر معاویہ ؓ نے جب دیکھا کہ ان کے مقابلہ میں کچھ پیش نہ جائے گی تو انہوں نے ان کے مصر سے ہٹانے کی تدبیر کی ان کے متعلق مشہور کردیا کہ قیس بن سعد ؓ میرے طرفدار ہیں،رفتہ رفتہ یہ افواہ دربارِ خلافت پہنچی،محمد بن ابی بکر ؓ وغیرہ نے اس کو اور بھی بڑھا چڑھا کر بیان کیا اوراہل خرتبا کے بیعت نہ کرنے کا واقعہ ثبوت میں پیش کیا۔
جناب امیر ؓ نے اس افواہ سے متاثر ہوکر قیس بن سعد ؓ کو خرتباوالوں سے بیعت کے لئے لڑنے کا حکم دیا، انہوں نے جواب دیا کہ خرتبا تقریبا دس ہزار نفوس کی آبادی ہے اس میں بسربن ارطاۃ، مسلمہ بن مخلد اورمعاویہ بن خدیج جیسے جنگ آزما بہادر موجود ہیں،ان سے لڑائی خریدنا مصلحت نہیں ہے جب دربارِخلافت سے مکرراصرار ہوا تو انہوں نے استعفادے دیا، قیس کی جگہ محمد بن ابی بکر ؓ والی مصر مقرر ہوئے، یہ کمسن ناتجربہ کارتھے، ان کےطرزِ عمل نے مصر میں شورش وبے چینی کی آگ بھڑکادی اورانہوں نے خرتبا والوں سے چھیڑ کرکے ان کو آمادہ پر خاش کردیا،حضرت علی ؓ کو ان حالات کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے معرکہ صفین کے بعد اشترنخعی کو مصر روانہ کیا کہ وہ محمد بن ابی بکر کو سبکدوش کرکے ملک کے حالات درست کریں؛لیکن امیر معاویہ ؓ نے راستے میں زہر دلا کر اشترنخعی کا کام تمام کرادیا اورعمرو بن العاص ؓ کے ماتحت ایک زبردست مہم مصر روانہ کی،محمد بن ابی بکر ؓ کے لئے اس فوج کا مقابلہ نہایت دشوار تھا ،تاہم دوہزار کی جمعیت فراہم کرا کے وہ اس جانبازی سے لڑے کہ عمروبن العاص ؓ کو معاویہ بن خدیج رئیس خرتباکی مددطلب کرنی پڑی؛ لیکن اس دوران میں امیر معاویہ ؓ نے ایک بڑی جمعیت کے ساتھ آکر پیچھے سے گھیر لیا اورمحمد بن ابی بکر ؓ کے ساتھی یا تو مارے گئے یا جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے ،محمد بن ابی بکر ؓ نے بھی ایک ویران کھنڈر میں پناہ لی؛ لیکن عمروبن العاص ؓکے جاسوسوں نے ڈھونڈ نکالا اور معاویہ بن خدیج نے نہایت بے رحمی کے ساتھ قتل کرکے لاش کو ایک مردہ گدھے کے پیٹ میں ڈال دیا،اس افسوسناک طریقہ پر ۳۸ھ میں مصر کی قسمت کا فیصلہ ہوگیااورحضرت علی ؓ اپنی مجبوریوں کے باعث محمد بن ابی بکر کی کوئی مددنہ کرسکے۔
اسی سال یعنی ۳۸ھ میں امیر معاویہ ؓ نے اہل بصرہ کو جناب مرتضٰی کی اطاعت سے برگشتہ کرکے اپنی حکومت کا طرفداربنانے کے لئے عبداللہ بن حضرمی کو بصرہ بھیجا،عبداللہ کو اس مہم میں بڑی کامیابی ہوئی،قبیلۂ بنو تمیم اورتقریبا ًتمام اہل بصرہ نے اس دعوت کو لبیک کہا اورحضرت علی ؓ کے عامل زیاد کو بصرہ چھوڑ کر حدان میں پناہ گزین ہونا پڑا، بارگاہ خلافت کو اس کی اطلاع ہوئی تو حضرت علی ؓ نے عین بن ضبیعہ کو ابن حضرمی کی ریشہ دوانیوں کے انسداد پر مامور کیا؛ لیکن قبل اس کے کہ انہیں کامیابی ہو،امیر معاویہ ؓ کے ہوا خواہوں نے ناگہانی طورپر قتل کردیا، عین بن ضبعیہ کے بعد جناب امیر نے جاریہ بن قدامہ کو ابن حضرمی کی سرکوبی پر مامور کیا،انہوں نے نہایت حکمت عملی کے ساتھ بصرہ پہنچ کر ابن حضرمی اوراس کے ساتھیوں کو گھیرلیا اوران کی پناہ گاہ کو نذر آتش کرکے خاک سیاہ کردیا اوراہل بصرہ نے دوبارہ اطاعت قبول کرلی،امیر المومنین کے ترحم نے عفوعام کا اعلان کیا۔
بغاوتوں کا استیصال
جنگ نہروان میں گوخارجیوں کا زور ٹوٹ چکا تھا تاہم ان کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں ملک میں موجود تھیں اوراپنی ریشہ دوانیوں سے روز ایک نہ ایک فتنہ برپا کرتی رہتی تھیں؛چنانچہ ایک خارجی خریت بن راشد کا صرف یہ کام تھا کہ وہ مجوسیوں ،مرتدوں اورنومسلموں کو اپنے دام تزویر میں پھنساکر ملک میں ہر طرف لوٹ مارکرتا پھرتا تھا اورہر جگہ ذمیوں کو بھڑکا کر بغاوت کرادیتا تھا، حضرت علی ؓ نے زیاد بن حفصہ اورایک روایت کے مطابق معقل بن قیس کو جب رامہر مز سے روانہ ہوئے تو ان لوگوں نے دور تک مشایعیت کی،ایرانی مردوں اور عورتوں نے خدا حافظ کہا اوران کی جدائی پر بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔
امیر معاویہ کا جارحانہ طریق عمل
جنگ صفین کے التواء اورمسئلہ تحکیم نے ایک طرف تو حضرت علی ؓ کی جماعت میں تفریق واختلاف ڈال کر خارجیوں کو پیدا کردیا اوردوسری طرف اس سے بھی بڑھ کر یہ ہوا کہ آپ کےمخصوص ہمدموں اورجانثاروں کے عزم وارادے بھی پست ہوگئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پھر وہ جنگ سے پہلو تہی کرنے لگے، جناب امیر ؓ نے بارہا شام پر چڑھائی کا قصد کیا،پرجوش خطبوں سے اپنے ساتھیوں کو حمایت حق کی دعوت دی اورطعن آمیز جملوں سے ان کی رگِ غیرت کو جوش میں لانے کی کوشش کی؛ لیکن شیعان علی ؓ کے دل ایسے پثرمردہ ہوگئے تھے اوران کی ہمتیں ایسی پست ہوچکی تھیں کہ پھر وہ کسی طرح آمادہ نہ ہوئے، اس سلسلے کے جو خطبے حضرت علی ؓ کی طرف منسوب اورنہج البلاغۃ میں موجود ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضر ت علی ؓ کو اپنے حامیوں اورطرفداروں کی اس سرد مہری کا کتنا صدمہ تھا،امیر معاویہ ؓ اس حقیقت حال سے ناواقف نہ تھے، انہوں نے شیعان علی کی پست ہمتی سے فائدہ اٹھا کر مدافعت کے بجائے اب جارحانہ قدم اُٹھایا اور ۳۹ھ میں فوج کے چھوٹے چھوٹے دستے حجاز،عراق اورجزیرہ میں پھیلادیئے کہ وہ بدامنی پھیلا کر جناب مرتضی ؓ کو پریشانیوں میں اضافہ کریں؛چنانچہ نعمان بن بشر نے دوہزار کی جمعیت سے عین التمر پر،سفیان بن عوف نے چھ ہزار کی فوج سے انبار اورمدائن وغیرہ پر،عبداللہ بن مسعدہ فزاری نے ایک ہزار سات سو آدمیوں سے تیماء پر ضحاک بن قیس نے وافضۃ کے نشیبی حصہ پر اورامیر معاویہ ؓ نے دجلہ کے ساحلی علاقوں پر حملہ کرکے بیت المال لوٹ لیا اور شیعان علی ؓ کو تہ تیغ کرکے لوگوں کو اپنی حکومت کے سامنے گردن اطاعت خم کرنے پر مجبور کردیا۔
کرمان وفارس کی بغاوتوں کو فرو کرنا
حیدرکرار کی ہمت مردانہ نے گو بہت جلد امیر معاویہ ؓ کے حملہ آور دستوں کو ممالک مقبوضہ سے نکال دیا، تاہم اس سے ایک عام بدامنی اوربے رعبی پیدا ہوگئی،کرمان وفارس کے عجمیوں نے بغاوت کرکے خراج دینے سے انکار کردیا، اکثرصوبوں نے اپنے یہاں کے علوی نکال دیئے اور ذمیوں نے خود سری اختیار کرلی،حضرت علی ؓ نے اس عام بغاوت کے فروکرنے کے متعلق مشورہ طلب کیا،لوگوں نے عرض کیا،زیاد بن ابیہ سے زیاہ اس کام کے لئے کوئی شخص موزوں نہیں ہوسکتا، اس لئے زیاد اس مہم پر مامور ہوئے،انہوں نے بہت جلد کرمان ،فارس اورتمام ایران میں بغاوت کی آگ فرو کرکے امن وسکون پیدا کردیا،بغاوت فرو ہونے کے بعدحضرت علی ؓ نے ایرانی باغیوں کے ساتھ اس لطف ومدارت کا سلوک کیا کہ ایران کا بچہ بچہ منت پذیری کے جذبات سے لبریز ہوگیا ،ایرانیوں کا خیال تھا کہ امیر المومنین علی بن ابی طالب ؓ کے طریق جہانبا نی نے نو شیروانی طرز حکومت کی یاد بھلادی۔
فتوحات
گذشتہ حالات سے یہ معلوم ہوگیا ہوگا کہ حضرت علی ؓ کو اندرونی شورشوں اورخانگی جھگڑوں کے دبانے سے اتنی فرصت نہ مل سکی کہ وہ اسلام کے فتوحات کے دائرہ کو بڑھاسکتے،تاہم آپ بیرونی امور سے غافل نہ رہے؛چنانچہ سیستان اورکابل کی سمت میں بعض عرب خود مختار ہوگئے تھے،ان کو قابو میں کرکے آگے قدم بڑھایا،(فتوح البلدان بلاذری باب سیستان وکابل) اور۳۸ھ میں بعض مسلمانوں کو بحری راستہ سے ہندوستان پر حملہ کرنے کی اجازت دی،اس وقت کوکن بمبئی کا علاقہ سندھ میں شامل تھا،مسلمان رضا کار سپاہیوں نے سب سے پہلے اسی عہد میں کوکن پر حملہ کیا۔
( ایضاً ذکر فتوح السند)
حجاز اورعرب کے قبضہ کے لئے کشمکش
امیر معاویہ نے ۴۰ھ میں پھر ازسرنو چھیڑ چھاڑ شروع کی اوربسربن ارطاۃ کو تین ہزار کی جمعیت کے ساتھ حجاز روانہ کیا،اس نے بغیر کسی مزاحمت وجنگ کے مکہ اور مدینہ پر قبضہ کرکے یہاں کے باشندوں سے زبردستی امیر معاویہ کے لئے بیعت لی، پھر وہاں سےیمن کی طرف بڑھا،حضرت ابوموسی اشعر ی ضی اللہ عنہ نے پہلے سے پوشیدہ طور پر یمن کے عامل عبید اللہ بن عباس کو بسر بن ابی ارطاۃ کے حملہ کے اطلاع کردی اور یہ بھی لکھ دیا کہ جولوگ معاویہ کی حکومت تسلیم کرنے میں لیت و لعل کرتے ہیں وہ ان کو نہایت بے دردی سے تہ تیغ کردیتا ہے، عبیداللہ بن عباس نے اپنے کو اس مقابلہ ے عاجز دیکھ کر عبداللہ بن عبدالمدان کو اپنا قائم مقام بنایا اور خود دربار خلافت سے مدد طلب کرنے کے لیے کوفہ کی راہ لی،بسر بن ابی ارطاۃ نے یمن پہنچ کر نہایت بے دردی کے ساتھ عبیداللہ بن عباس کے دو صغیر السن بچوں اور شیعان علی کی ایک بڑی جماعت کو قتل کردیا۔
دوسری طرف شامی سواروں نے سرحد عراق پر ترکتاز شروع کردی اوریہاں کی محافظ سپاہ کو شکست دے کر انبار پر قبضہ کرلیا، حضرت علی ؓ کو بسربن ابی ارطاۃ کے مظالم کا حال معلوم ہوا تو آُ پ نے جاریہ بن قدامہ اوروہب بن مسعود کو چارہزار کی جمعیت کے ساتھ اس کی سرکوبی کے لئے یمن وحجاز کی مہم پر مامور کیا اورکوفہ کی جامع مسجد میں پرجوش خطبے دے کر لوگوں کو حدود عراق سے شامی فوج نکال دینے پر ابھارا،اوریہ تقریریں ایسی مؤثر تھیں کہ اہل کوفہ کے مردہ قلوب میں بھی فوری طورپر روح پیدا ہوگئی اورہر گوشہ سے صدائے لبیک بلند ہوئی؛لیکن جب کوچ کا وقت آیا تو صرف تین سو آدمی رہ گئے، جناب مرتضیٰ کو اہل کوفہ کی اس بے حسی پر نہایت صدمہ ہوا،حجر بن عدی اورسعید بن قیس ہمدانی نے عرض کیا،امیرالمومنین بغیر تشدد کے لوگ راہ پر نہ آئیں گے،عام منادی کرادیں کی بلا استثناء ہر شخص کو میدان جنگ کی طرف چلنا پڑے گا جو اس میں تساہل یا اعراض سے کام لے گا اس کو سخت سزادی جائے گی، اب صورتِ حال ایسی تھی کہ اس مشورہ پر عمل کرنے کے سواچارہ نہ تھا اس لئے حضرت علی ؓ نے اس کا اعلان عام کردیا اور معقل کورساتیق بھیجا کہ وہاں سے جس قدر بھی سپاہی مل سکیں جمع کرکے اسےلے آئیں ؛لیکن یہ تیاریاں ابھی حد تکمیل کو نہیں پہنچی تھیں کہ ابن ملجم کی زہر آلود تلوار نے جام شہادت پلادیا، اناللہ وانا الیہ راجعون
اس جانگداز واقعہ اوراندوہناک سانحہ کی تفصیل یہ ہے کہ واقعہ نہروان کے بعد چند خارجیوں نے حج کے موقع پر مجمتع ہوکر مسائل حاضرہ پر گفتگو شروع کی اوربحث ومباحثہ کے بعد بالاتفاق یہ رائے قرار پائی کہ جب تک تین آدمی علی ؓ، معاویہ ، اورعمروبن العاص صفحہ ہستی پر موجود ہیں دنیائے اسلام کو خانہ جنگیوں سے نجات نصیب نہیں ہوسکتی؛چنانچہ تین آدمی ان تینوں کے قتل کرنے کے لئے تیار ہوگئے،عبدالرحمن بن ملجم نے کہا کہ میں علی ؓ کے قتل کا ذمہ لیتا ہوں، اسی طرح نزال نے معاویہ ؓ اور عبداللہ نے عمروبن العاص کے قتل کا بیڑہ اٹھایا، اورتینوں اپنی اپنی مہم پر روانہ ہوگئے، کوفہ پہنچ کر ابن ملجم کے ارادہ کو قطام نامی ایک خوب صورت خارجی عورت نے اورزیادہ مستحکم کردیا، اس مہم میں کامیاب ہونے کے بعد اس سے شادی کا وعدہ کیا اورجناب مرتضیٰ کے خون کا مہر قراردیا۔
غرض رمضان ۴۰ ھ میں تینوں نے ایک ہی روز صبح کے وقت تینوں بزرگوں پر حملہ کیا ،امیر معاویہ اور عمروبن العاص اتفاقی طورپر بچ گئے،امیر معاویہ ؓ پر وار اوچھاپڑا، عمروبن العاص اس دن امامت کے لئے نہیں آئے تھے،ایک اورشخص ان کا قائم مقام ہوا تھا وہ عمروبن العاص کے دھوکہ میں مارا گیا،جناب مرتضیٰ کا پیمانہ حیات لبریز ہوچکاتھا،آپ مسجدمیں تشریف لائے اور ابن ملجم کو جو مسجد میں آکر سورہا تھا،جگایا،جب آپ نے نماز شروع کی اورسرسجدہ میں اور دل رازونیاز الہی میں مصروف تھا کہ اسی حالت میں شقی ابن ملجم نے تلوار کا نہایت کاری وارکیا،سرپر زخم آیا اورابن ملجم کو لوگوں نے گرفتار کرلیا،(طبری : ۲۴۵۷، ۲۴۵۸) حضرت علی ؓ اتنے سخت زخمی ہوئے تھے کہ زندگی کی کوئی امید نہ تھی اس لئے حضرت امام حسن ؓ اورامام حسین ؓ کو بلاکر نہایت مفید نصائح کئے اورمحمد بن حنفیہ کے ساتھ لطف ومدارت کی تائید کی،جندب بن عبداللہ نے عرض کیا امیرالمومنین!آپ کے بعد ہم لوگ امام حسن کے ہاتھ پر بیعت کریں،فرمایا اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہنا چاہتا تم لوگ خود اس کو طئےکرو، اس کے بعد مختلف وصیتیں کیں،قاتل کے متعلق فرمایا کہ معمولی طورپر قصاص لینا،
(ایضاًص ۲۴۶۱)
تلوار زہر میں بجھی ہوئی تھی اس لئے نہایت تیزی کے ساتھ اس کا اثر تمام جسم میں سرایت کر گیا اور اسی روز یعنی ۲۰/رمضان ۴۰ھ جمعہ کی رات کو یہ فضل وکمال اوررشدوہدایت کا آفتاب ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا، حضرت امام حسن ؓ نے خود اپنے ہاتھ سے تجہیز وتکفین کی،نماز جنازہ میں چار تکبیروں کے بجائے پانچ تکبیریں کیں اوررات کو پوشیدہ دفن کیا
وضاحت: یہ سارے کا سارا مضمون اہل سُنت برادران کی ایک ویب سائیٹ سے نقل کیا ہے۔ جو بنیادی طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور حکومت کے بارے میں اہل سُنت کے نقطہ نگاہ کی وضاحت کرتا ہے۔ اھل تشیع برادران کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اہل سُنت برادران کا بھی اس مضمون کے تمام مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور حکومت کے حالات مختصراً اسلیے نقل کیے ہیں تاکہ اُس دور کے واقعات سے کُچھ نہ کُچھ آگہی ہو کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور حکومت کے واقعات کم نقل کیے جاتے ہیں۔اور جو غور و فکر کرتے ہیں وہ صحیح اور غلط میں تمیز کرلیتے ہیں۔
- Featured Thumbs
- http://s25.postimg.org/bh7stm33z/Ali.png
Last edited: