Sohail Shuja
Chief Minister (5k+ posts)
پچھلے کافی دنوں سے حکومت کو اس بات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ پچھلے دورِ حکومت میں جی ڈی پی کی شرح ساڑھے چار فیصد تھی اور اس حکومت کے دور میں پہلے یہ شرح منفی میں گئی اور پھر اب بہ مشکل اٹھ رہی ہے۔
کہنے والوں نے دنیا کے سامنے اس بات کو ایسا گھمایا ہے کہ لگتا ہے جیسے معیشت کا تمام انحصار جی ڈی پی پر ہی ہوتا ہے۔
لیکن ماہر معاشیات ایسا نہیں سمجھتے۔ اس کے لیئے ہمیں چاہیئے کہ پہلے جی ڈی پی کو سمجھیں کہ یہ کیا ہوتا ہے اور کس لیئے استعمال کیا جاتا ہے؟
جی ڈی پی کسی بھی معیشت کے اندر صرف معاشی سرگرمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کی معیشت میں قریباً اتنا کاروبار ہورہا ہے۔ اسکو سمجھنے کے لیئے جی ڈی پی کا فارمولا دیکھتے ہیں۔
کہنے والوں نے دنیا کے سامنے اس بات کو ایسا گھمایا ہے کہ لگتا ہے جیسے معیشت کا تمام انحصار جی ڈی پی پر ہی ہوتا ہے۔
لیکن ماہر معاشیات ایسا نہیں سمجھتے۔ اس کے لیئے ہمیں چاہیئے کہ پہلے جی ڈی پی کو سمجھیں کہ یہ کیا ہوتا ہے اور کس لیئے استعمال کیا جاتا ہے؟
جی ڈی پی کسی بھی معیشت کے اندر صرف معاشی سرگرمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کی معیشت میں قریباً اتنا کاروبار ہورہا ہے۔ اسکو سمجھنے کے لیئے جی ڈی پی کا فارمولا دیکھتے ہیں۔
اوپر دیئے گئے فارمولے کے حساب سے پہلی چیز ہے کہ لوگوں کا اشیاء کا استعمال کتنا ہے؟ دوسری شے ہے کہ سرمایہ کاری کتنی ہوئی، تیسری چیز ہے کہ حکومت نے کتنا خرچ کیا اور چوتھا آتا ہے کرنٹ اکاوٗنٹ یعنی برآمدات منفی درآمدات۔
سیدھے حساب میں دیکھا جائے تو جب لوگ مالی طور پر آسودہ ہونگے تو زیادہ خرچ کریں گے، دوسرا یہ کہ سرمایہ کاری کتنی بڑھی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ سرمایہ کاری سے معاشی حرکات عمل میں آتی ہیں، کوئی فیکٹری لگتی ہے یا پھر کسی کاروبار میں پیسہ لگایا جاتا ہے تاکہ منافع کمایا جاسکے، تیسری چیز یہ کہ جب حکومت عوام پر زیادہ خرچ کرے گی تو بھی معاشی حرکات ہونگی، مثلاً حکومت اگر ایک ہسپتال بنوائے گی تو اسکا ٹھیکا کسی کنسٹرکشن کمپنی کو جائے گا، وہ کمپنی سیمنٹ، سریا، مزدور اور مشینری بازار سے خریدے گی اور اسطرح معیشت چلے گی۔ چوتھی چیز ہے ہمارا کرنٹ اکاوٗنٹ یعنی کل برآمدات منفی کل درآمدات۔ اس سے بھی معلوم چلتا ہے کہ معیشت کیا ملک کے اندر زیادہ چل رہی ہے یا پھر آپ ملک میں صرف چیزیں منگوا رہے ہیں اور آپ کی انڈسٹری اس خلا کو پورا نہیں کر پا رہی۔
اب معاشی ماہرین کیوں جی ڈی پی کو کسی معیشت کی ترقیّ کا اصل پیمانہ نہیں سمجھتے، ہم ان نقاط پر آتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ جی ڈی پی میں کہیں یہ ظاہر نہیں کیا جاتا کہ لوگوں کے اخراجات کے بڑھنے کی وجہ سے کیا ان کی زندگیاں بھی آسان ہورہی ہیں یا نہیں؟ مثلاً اگر ایک شخص اپنے گاوٗں میں نوکری تلاش نہیں کرسکا اور اسے شہر آنا پڑا تو وہ ایک تو اپنے شہر میں رہنے کے اخراجات بھی برداشت کرتا ہے اور دوسرا اسے کچھ پیسے گھر بھی بھیجنے پڑتے ہیں۔ اسطرح اسکا کل خرچہ زیادہ ہی ہوگا، لیکن اگر وہی شخص اپنے گاوٗں میں رہتے ہوئے اس سے کم پیسوں کا بھی روزگار تلاش کر لے گا تو اسکا خرچہ بھی کم ہوگا، لیکن گھر کے پاس رہنے کی وجہ سے وہ اپنے گھر کے کافی سارے کام خود کرسکتا ہے اور اسکی زندگی میں آسودگی بھی زیادہ ہوگی۔ ضروریات بڑھ جانے کا مطلب معاشی ترقی نہیں۔
دوسرا یہ ہے کہ سرمایہ کاری کتنی آئی؟ لیکن جی ڈی پی یہ بتانے سے قاصر رہتی ہے کہ یہ سرمایہ کاری کس قیمت پر آئی اور اسکا بعد میں معیشت پر کیا اثر رونما ہوگا؟ مثلاً سرمایہ کاری اس بنیاد پر ہورہی ہے کہ بجلی گھر لگائے جایئنگے اور ان کے نہ چلنے کے اوپر بھی حکومت عوام کے ٹیکس کے پیسے سے انھیں ادائیگی کرے گی، تو اسکا معیشت کو کیا فائدہ ہوا؟ نہ بجلی سستی ہوئی اور نہ صنعت کو کوئی فائدہ ہوا، الٹا عوام کے ٹیکس کے پیسے پر ڈاکہ زنی ہوگئی۔ لہٰذا جن سالوں میں یہ انویسٹمنٹ ملک کے اندر آتی جائیگی، تب تک آپکو جی ڈی پی اوپر جاتا ہوا دکھائی دے گا اور جب یہ منصوبے مکمل ہوجائیگنے اوران بجلی گھروں کو مفت کے پیسے دینے پڑیں گے، تو آپکو جی ڈی پی نیچے جاتا ہوا دکھائی دے گا۔
تیسرا یہ کہ حکومت نے فلاحی کاموں پر کتنا خرچ کیا۔ جی ڈی پی اس بات سے بھی بے بہرہ ہوتا ہے کہ یہ خرچ کیسے کیا جارہا ہے اور اس سے عوام کو فوائد کیا حاصل ہورہے ہیں؟ مثلاً اگر تین سال تک دو سو ارب روپے کا اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ بنایا جارہا ہے تو ہر سال آپکو قریباً پینسٹھ ارب روپے کا جی ڈی پی بڑھتا ہوا نظر آئے گا۔ جب منصوبہ ختم ہوجائے گا تو یہ جی ڈی پی نیچے چلا جائے گا۔ لیکن اس کے بعد اگر آپ کو اس منصوبے کو چلانے کے لیئے حکومتی سبسڈی کی طرف دیکھنا پڑے تو یہ پیسہ عوام کے کس کام کا؟ جی ڈی پی یہ دیکھنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔ ہاں اگر یہ پیسہ کسی ڈیم کے منصوبے پر لگایا جاتا تو ڈیم بننے کے بعد نہ صرف اس سے بجلی پیدا ہوتی، جس سے عوام کو سستی بجلی فراہم کی جاتی بلکہ زراعت میں بھی اضافہ ہوتا اور لوگوں کے روزگار کشادہ ہوتے۔ لیکن جی ڈی پی کبھی یہ نہیں بتا سکتا کہ حکومت کے اخراجات کی مد میں جو پیسہ لگایا گیا، اس سے ملک کی معیشت پر آگے جا کر کیا اثرات مرتّب ہونے ہیں؟
ساتھ ہی اس کے ساتھ یہ بھی مسئلہ ہے کہ حکومت کے خرچ کیئے گئے پیسے میں کتنی کرپشن ہوئی؟ کیا ایک منصوبہ جو سو ارب روپے میں مکمّل ہوسکتا تھا اس پر خواہ مخواہ دو سو ارب تو نہیں لگائے گئے؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ جی ڈی پی اس کرپشن میں اڑے پیسے کو بھی اپنے اندر شمار کرتا ہے۔
پھر باری آتی ہے کرنٹ اکاوٗنٹ کی، کہ برآمدات اور درآمدات میں کتنا فرق ہے؟ یہاں جی ڈی پی بھی یہ بتانے سے قاصر رہتا ہے کہ ایسا فرق کیوں آرہا ہے؟ کیا حکومت اپنے چند منظور نظر لوگوں کو درآمدات میں غیر منضفانہ چھوٹ دے کر مقامی انڈسٹری کو تباہ کر رہی ہے؟ جیسا کہ ہم نے زرداری دور میں آئی سی آئی کے پورٹ قاسم پر لگے نیفتھا کریکنگ پلانٹ کے ساتھ ہوتے ہوئے دیکھا۔ یہ پاکستان کا واحد نیفتھا کریکر تھا، جس کی وجہ سے پاکستان میں اپنا پلاسٹک اور مضنوعی ربر بنتا تھا۔ لیکن زرداری دور میں درآمد شدہ پلاسٹک اور خام ربر پر ڈیوٹی معاف کر دی گئی اور یہ صنعت یہیں تباہ ہوگئی۔ آج تک پاکستان اپنی ضرورت کا پلاسٹک اور مصنوعی ربر درآمد کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
دوسرا یہ کہ برآمدات بھی کس قسم کی ہورہی ہیں؟ اگر تو یہ صنعتی مصنوعات ہیں، تب تو کچھ ٹھیک ہے، لیکن اگر یہ برآمدات خام مال کی صورت میں ہیں اور یہ خام مال بھی اگر محدود ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے تو پھر یہ بھی ایک معیشت کے لیئے خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے۔ جیسا کہ نواز شریف کے دور میں اکثر چائنیز کمپنیوں کو پاکستان میں خام دھات کو برآمد کیا جارہا تھا۔
www.thenews.com.pk
تو جناب، تمام گفتگو کا حاصل وصول یہ کہ جی ڈی پی صرف ایک اشارہ ہے اسطرف کہ ملک کی معیشت چل رہی ہے، لیکن کسطرح چلائی جارہی ہےاور اسمیں کیا کیا شعبدہ بازیاں کی جارہی ہیں یہ نہیں بتا سکتا۔
یہ بلکل ایسے ہی ہے کہ جی ڈی پی یہ تو بتا سکتا ہے کہ انسان چل رہا ہے، لیکن یہ نہیں بتاسکتا کہ اسکا رُخ جہنمّ کی طرف ہے یا جنّت کی طرف؟
موجودہ حالات میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دور میں جی ڈی پی ساڑھے چار فیصد تھا، تو وہ یہ نہیں بتانا چاہتے کہ یہ ساڑھے چار فیصد انھوں نے مہنگے قرضے لے کر، سو ارب کا پروجیکٹ دو سو ارب میں بنا کر، حاصل کیا، اور منصوبے بھی ایسے کہ جن سے مجال ہے کہ عوام کو ایک روپے کا بھی فائدہ حاصل ہوا ہو یا وہ ملک کی معیشت میں کمائی کر کے مزید معاشی ترقی کا باعث بنیں۔
موجودہ حکومت کے دور میں جی ڈی پی کی شرح کا نیچے آنے کا مسئلہ ہی تھا کہ ایک تو کسی ایسے منصوبے پر پیسے نہیں لگائے گئے، دوسرا پرانے منصوبوں پر لیئے گئے قرضوں کی ادائیگیاں کی جارہی ہیں اور تیسرا یہ کہ برآمدات کو بڑھانے کے لیئے درآمدات کو بند کیا گیا ہے، تاکہ مقامی انڈسٹری سے کمی کو پورا کرے۔ اور اسی لیئے ان مقامی انڈسٹری میں جان آتی معلوم ہورہی ہے، دوسرا یہ کہ یہ سفید ہاتھی جیسے بجلی گھروں کے منصوبے نہیں لگنے دیئے جارہے، بلکہ ان کی جگہہ ڈیم بنانے پر توّجہ دی جارہی ہے۔
لہٰذا جو لوگ صرف جی ڈی پی کی شرح کو دکھا کر منہہ چڑاتے ہیں، ان کو یہ پیغام ہے کہ ذرا اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کر دیکھیں۔ اسطرح جی ڈی پی کی شرح کو بڑھا دینا سوائے شعبدہ بازی کے اور کچھ نہیں۔ اگر ان کے دور میں معاشی ترقی اتنی ہی مضبوط بنیادوں پر ہورہی ہوتی تو حکومت کے بدلتے ہی اگلے سال یہ تمام ترقّی یکدم ایسے غائب نہ ہوتی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ انھوں نے پیسہ صحیح جگہہ پر لگایا ہوتا تو موجودہ حکومت کی بری سے بری پرفارمنس پر بھی ملک میں معاشی استحکام جاتے جاتےجاتا۔ جبکہ یہاں تو بلکل ایسا معاملہ ہوا جیسے غبارے میں سے ہوا نکال دی جاتی ہے۔
References:سیدھے حساب میں دیکھا جائے تو جب لوگ مالی طور پر آسودہ ہونگے تو زیادہ خرچ کریں گے، دوسرا یہ کہ سرمایہ کاری کتنی بڑھی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ سرمایہ کاری سے معاشی حرکات عمل میں آتی ہیں، کوئی فیکٹری لگتی ہے یا پھر کسی کاروبار میں پیسہ لگایا جاتا ہے تاکہ منافع کمایا جاسکے، تیسری چیز یہ کہ جب حکومت عوام پر زیادہ خرچ کرے گی تو بھی معاشی حرکات ہونگی، مثلاً حکومت اگر ایک ہسپتال بنوائے گی تو اسکا ٹھیکا کسی کنسٹرکشن کمپنی کو جائے گا، وہ کمپنی سیمنٹ، سریا، مزدور اور مشینری بازار سے خریدے گی اور اسطرح معیشت چلے گی۔ چوتھی چیز ہے ہمارا کرنٹ اکاوٗنٹ یعنی کل برآمدات منفی کل درآمدات۔ اس سے بھی معلوم چلتا ہے کہ معیشت کیا ملک کے اندر زیادہ چل رہی ہے یا پھر آپ ملک میں صرف چیزیں منگوا رہے ہیں اور آپ کی انڈسٹری اس خلا کو پورا نہیں کر پا رہی۔
اب معاشی ماہرین کیوں جی ڈی پی کو کسی معیشت کی ترقیّ کا اصل پیمانہ نہیں سمجھتے، ہم ان نقاط پر آتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ جی ڈی پی میں کہیں یہ ظاہر نہیں کیا جاتا کہ لوگوں کے اخراجات کے بڑھنے کی وجہ سے کیا ان کی زندگیاں بھی آسان ہورہی ہیں یا نہیں؟ مثلاً اگر ایک شخص اپنے گاوٗں میں نوکری تلاش نہیں کرسکا اور اسے شہر آنا پڑا تو وہ ایک تو اپنے شہر میں رہنے کے اخراجات بھی برداشت کرتا ہے اور دوسرا اسے کچھ پیسے گھر بھی بھیجنے پڑتے ہیں۔ اسطرح اسکا کل خرچہ زیادہ ہی ہوگا، لیکن اگر وہی شخص اپنے گاوٗں میں رہتے ہوئے اس سے کم پیسوں کا بھی روزگار تلاش کر لے گا تو اسکا خرچہ بھی کم ہوگا، لیکن گھر کے پاس رہنے کی وجہ سے وہ اپنے گھر کے کافی سارے کام خود کرسکتا ہے اور اسکی زندگی میں آسودگی بھی زیادہ ہوگی۔ ضروریات بڑھ جانے کا مطلب معاشی ترقی نہیں۔
دوسرا یہ ہے کہ سرمایہ کاری کتنی آئی؟ لیکن جی ڈی پی یہ بتانے سے قاصر رہتی ہے کہ یہ سرمایہ کاری کس قیمت پر آئی اور اسکا بعد میں معیشت پر کیا اثر رونما ہوگا؟ مثلاً سرمایہ کاری اس بنیاد پر ہورہی ہے کہ بجلی گھر لگائے جایئنگے اور ان کے نہ چلنے کے اوپر بھی حکومت عوام کے ٹیکس کے پیسے سے انھیں ادائیگی کرے گی، تو اسکا معیشت کو کیا فائدہ ہوا؟ نہ بجلی سستی ہوئی اور نہ صنعت کو کوئی فائدہ ہوا، الٹا عوام کے ٹیکس کے پیسے پر ڈاکہ زنی ہوگئی۔ لہٰذا جن سالوں میں یہ انویسٹمنٹ ملک کے اندر آتی جائیگی، تب تک آپکو جی ڈی پی اوپر جاتا ہوا دکھائی دے گا اور جب یہ منصوبے مکمل ہوجائیگنے اوران بجلی گھروں کو مفت کے پیسے دینے پڑیں گے، تو آپکو جی ڈی پی نیچے جاتا ہوا دکھائی دے گا۔
تیسرا یہ کہ حکومت نے فلاحی کاموں پر کتنا خرچ کیا۔ جی ڈی پی اس بات سے بھی بے بہرہ ہوتا ہے کہ یہ خرچ کیسے کیا جارہا ہے اور اس سے عوام کو فوائد کیا حاصل ہورہے ہیں؟ مثلاً اگر تین سال تک دو سو ارب روپے کا اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ بنایا جارہا ہے تو ہر سال آپکو قریباً پینسٹھ ارب روپے کا جی ڈی پی بڑھتا ہوا نظر آئے گا۔ جب منصوبہ ختم ہوجائے گا تو یہ جی ڈی پی نیچے چلا جائے گا۔ لیکن اس کے بعد اگر آپ کو اس منصوبے کو چلانے کے لیئے حکومتی سبسڈی کی طرف دیکھنا پڑے تو یہ پیسہ عوام کے کس کام کا؟ جی ڈی پی یہ دیکھنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔ ہاں اگر یہ پیسہ کسی ڈیم کے منصوبے پر لگایا جاتا تو ڈیم بننے کے بعد نہ صرف اس سے بجلی پیدا ہوتی، جس سے عوام کو سستی بجلی فراہم کی جاتی بلکہ زراعت میں بھی اضافہ ہوتا اور لوگوں کے روزگار کشادہ ہوتے۔ لیکن جی ڈی پی کبھی یہ نہیں بتا سکتا کہ حکومت کے اخراجات کی مد میں جو پیسہ لگایا گیا، اس سے ملک کی معیشت پر آگے جا کر کیا اثرات مرتّب ہونے ہیں؟
ساتھ ہی اس کے ساتھ یہ بھی مسئلہ ہے کہ حکومت کے خرچ کیئے گئے پیسے میں کتنی کرپشن ہوئی؟ کیا ایک منصوبہ جو سو ارب روپے میں مکمّل ہوسکتا تھا اس پر خواہ مخواہ دو سو ارب تو نہیں لگائے گئے؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ جی ڈی پی اس کرپشن میں اڑے پیسے کو بھی اپنے اندر شمار کرتا ہے۔
پھر باری آتی ہے کرنٹ اکاوٗنٹ کی، کہ برآمدات اور درآمدات میں کتنا فرق ہے؟ یہاں جی ڈی پی بھی یہ بتانے سے قاصر رہتا ہے کہ ایسا فرق کیوں آرہا ہے؟ کیا حکومت اپنے چند منظور نظر لوگوں کو درآمدات میں غیر منضفانہ چھوٹ دے کر مقامی انڈسٹری کو تباہ کر رہی ہے؟ جیسا کہ ہم نے زرداری دور میں آئی سی آئی کے پورٹ قاسم پر لگے نیفتھا کریکنگ پلانٹ کے ساتھ ہوتے ہوئے دیکھا۔ یہ پاکستان کا واحد نیفتھا کریکر تھا، جس کی وجہ سے پاکستان میں اپنا پلاسٹک اور مضنوعی ربر بنتا تھا۔ لیکن زرداری دور میں درآمد شدہ پلاسٹک اور خام ربر پر ڈیوٹی معاف کر دی گئی اور یہ صنعت یہیں تباہ ہوگئی۔ آج تک پاکستان اپنی ضرورت کا پلاسٹک اور مصنوعی ربر درآمد کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
دوسرا یہ کہ برآمدات بھی کس قسم کی ہورہی ہیں؟ اگر تو یہ صنعتی مصنوعات ہیں، تب تو کچھ ٹھیک ہے، لیکن اگر یہ برآمدات خام مال کی صورت میں ہیں اور یہ خام مال بھی اگر محدود ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے تو پھر یہ بھی ایک معیشت کے لیئے خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے۔ جیسا کہ نواز شریف کے دور میں اکثر چائنیز کمپنیوں کو پاکستان میں خام دھات کو برآمد کیا جارہا تھا۔

Chiniot mining case adjourned till 17th
LAHORE: An accountability court on Saturday adjourned the hearing of Chiniot mining case till April 17.The court has ordered issuance of advertisement again for declaring accused Arshad Waheed as...

تو جناب، تمام گفتگو کا حاصل وصول یہ کہ جی ڈی پی صرف ایک اشارہ ہے اسطرف کہ ملک کی معیشت چل رہی ہے، لیکن کسطرح چلائی جارہی ہےاور اسمیں کیا کیا شعبدہ بازیاں کی جارہی ہیں یہ نہیں بتا سکتا۔
یہ بلکل ایسے ہی ہے کہ جی ڈی پی یہ تو بتا سکتا ہے کہ انسان چل رہا ہے، لیکن یہ نہیں بتاسکتا کہ اسکا رُخ جہنمّ کی طرف ہے یا جنّت کی طرف؟
موجودہ حالات میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دور میں جی ڈی پی ساڑھے چار فیصد تھا، تو وہ یہ نہیں بتانا چاہتے کہ یہ ساڑھے چار فیصد انھوں نے مہنگے قرضے لے کر، سو ارب کا پروجیکٹ دو سو ارب میں بنا کر، حاصل کیا، اور منصوبے بھی ایسے کہ جن سے مجال ہے کہ عوام کو ایک روپے کا بھی فائدہ حاصل ہوا ہو یا وہ ملک کی معیشت میں کمائی کر کے مزید معاشی ترقی کا باعث بنیں۔
موجودہ حکومت کے دور میں جی ڈی پی کی شرح کا نیچے آنے کا مسئلہ ہی تھا کہ ایک تو کسی ایسے منصوبے پر پیسے نہیں لگائے گئے، دوسرا پرانے منصوبوں پر لیئے گئے قرضوں کی ادائیگیاں کی جارہی ہیں اور تیسرا یہ کہ برآمدات کو بڑھانے کے لیئے درآمدات کو بند کیا گیا ہے، تاکہ مقامی انڈسٹری سے کمی کو پورا کرے۔ اور اسی لیئے ان مقامی انڈسٹری میں جان آتی معلوم ہورہی ہے، دوسرا یہ کہ یہ سفید ہاتھی جیسے بجلی گھروں کے منصوبے نہیں لگنے دیئے جارہے، بلکہ ان کی جگہہ ڈیم بنانے پر توّجہ دی جارہی ہے۔
لہٰذا جو لوگ صرف جی ڈی پی کی شرح کو دکھا کر منہہ چڑاتے ہیں، ان کو یہ پیغام ہے کہ ذرا اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کر دیکھیں۔ اسطرح جی ڈی پی کی شرح کو بڑھا دینا سوائے شعبدہ بازی کے اور کچھ نہیں۔ اگر ان کے دور میں معاشی ترقی اتنی ہی مضبوط بنیادوں پر ہورہی ہوتی تو حکومت کے بدلتے ہی اگلے سال یہ تمام ترقّی یکدم ایسے غائب نہ ہوتی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ انھوں نے پیسہ صحیح جگہہ پر لگایا ہوتا تو موجودہ حکومت کی بری سے بری پرفارمنس پر بھی ملک میں معاشی استحکام جاتے جاتےجاتا۔ جبکہ یہاں تو بلکل ایسا معاملہ ہوا جیسے غبارے میں سے ہوا نکال دی جاتی ہے۔

Why GDP is no longer the most effective measure of economic success
As a macroeconomic indicator, GDP fails to capture much of the value created in the modern world. New metrics promise to track everything from happiness to natural capital

Incubator
The U.S. Chamber of Commerce Foundation harnesses the power of business to create solutions for the good of America and the world.

Shortcomings of GDP - Know the Limitations of Using GDP
Gross Domestic Product (GDP) refers to the total economic output achieved by a country over a period of time. While GDP is generally a good

GDP Is Not a Measure of Human Well-Being
GDP was not designed to assess welfare or the well being of citizens. It was designed to measure production capacity and economic growth. Yet policymakers and economists often treat GDP as an all-encompassing unit to signify a nation’s development, combining its economic prosperity and societal...

Last edited: