بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ( 1 ) شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( 2 ) سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ( 3 ) بڑا مہربان نہایت رحم والا
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ( 4 ) انصاف کے دن کا حاکم
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ( 5 ) (اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ( 6 ) ہم کو سیدہے رستے پر چلا
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ( 7 ) ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے
حمد کا ترجمہ اردو میں عموماً تعریف کیا جاتا ہے لیکن امین احسن اصلاحی صاحب نے اس کا ترجمہ شکر کیا ہے، لکھتے ہیں [FONT=&]الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [/FONT][FONT=&]( 2 )[/FONT][FONT=&] [/FONT]شکر کا سزاوار حقیقی اللہ ہے، کائنات کا رب۔
[FONT=&]آیت کی تفسیر اور الفاظ کی وضاحت ۔ امین احسن اصلاحی
حمد: حمد کا ترجمہ عام طور پر قرآن مجید کے مترجموں نے تعریف کیا ہے۔ لیکن میں نے اس کا ترجمہ شکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں بھی یہ لفظ اس ترکیب کے ساتھ استعمال ہوا ہے اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے جس مفہوم کو ہم شکر کے لفظ سے ادا کرتے ہیں مثلاً وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا۔۔۴۳ : اعراف۔ انہوں نے کہا شکر کا سزا وار ہے اللہ جس نے ہمیں اس کی ہدایت بخشی۔ وَاٰخِرُ دَعْوَاہُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔۔۱۰ : یونس۔ اور ان کی آخری صدا یہ ہو گی کہ شکر ہے اللہ کے لئے جو عالم کا رب ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَہَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ۔۔۳۹ : ابراھیم۔ شکر ہے اللہ کے لئے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمٰعیل اور اسحٰق عطا فرمائے۔
استعمالات کے لحاظ سے اگرچہ حمد کا لفظ شکر کے مقابل میں زیادہ وسیع ہے، شکر کا لفظ کسی کی صرف انہی خوبیوں اور انہی کمالات کے اعتراف کے موقع پر بولا جاتا ہے جن کا فیض آدمی کو خود پہنچ رہا ہو۔ برعکس اس کے حمد ہر قسم کی خوبیوں اور ہر قسم کے کمالات کے اعتراف کے لئے عام ہے، خواہ ان کا کوئی فیض خود حمد کرنے والے کی ذات کو پہنچ رہا ہو یا نہ پہنچ رہا ہو۔ تاہم شکر کا مفہوم اس لفظ کا جزو غالب ہے۔ اس وجہ سے اس کے ترجمہ کا پورا پورا حق ادا کرنے کے لئے یا تو تعریف کے لفظ کے ساتھ شکر کا لفظ بھی ملانا ہو گا یا پھر شکر ہی کے لفظ سے اس کو تعبیر کرنا زیادہ مناسب رہے گا تاکہ یہ سورہ جس احساس شکر اور جس جذبۂ سپاس کی تعبیر ہے اس کا پورا پورا اظہار ہو سکے۔ یہ اظہار صرف تعریف کے لفظ سے اچھی طرح نہیں ہوتا۔ آدمی تعریف کسی بھی اچھی چیز کی کر سکتا ہے اگرچہ اس کی اپنی ذات سے اس کا کوئی دور کا بھی واسطہ نہ ہو، لیکن یہ سورہ ہماری فطرت کے جس جوش کا مظہر ہے وہ جوش ابھرا ہی ہے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ورحمانیت کے ان مشاہدات سے جن کا تعلق براہ راست ہمارے ذات سے ہے۔ اگر یہ اچھی طرح واضح نہ ہوسکے تو اس سور ہ کی جو اصل روح ہے وہ واضح نہ ہو سکے گی۔ شکر کے لفظ سے سورہ کا یہ پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
If one has learned sense of making proper sense of things only then there is a possobility that one may be able to understand the text of the quran in its proper context. One can find a lot of help for this purpose HERE and HERE.