اونٹنی کا دودھ غذا بھی ، شفا بھی

USTADBONA

Senator (1k+ posts)
419201_56061947.jpg


انسانی جسم سے پسینے کے اخراج کی وجہ سے نمک کم ہوجاتا ہے، اونٹنی کا دودھ اس مرض میں بہترین علاج ہے


اونٹ صحرا کی شدید گرمی میں اپنے جسم میں پانی کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ پانی بخارات کے ذریعے سے اس کے جسم سے کم سے کم خارج ہوتا ہے۔ جب اونٹ کو پانی کی کمی کا سامنا ہوتا ہے تو اس وقت بھی اس کے دودھ میں پانی کی خاصی مقدار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ دوسرے نمکیات جیسا کہ سوڈیم کلورائیڈ کی بھی خاصی مقدار ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ نمک انسان کی جسمانی ضروریات کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے، خاص طور پر صحرا میں جہاں گرمی کی وجہ سے پسینے کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔

پسینے کے ساتھ ساتھ سوڈیم کلورائیڈ بھی ہمارے جسم سے خارج ہوتا ہے۔ نمکیات کی یہ کمی ہمارے جسم میں کئی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔ اس صورت حال میں اونٹی کا دودھ پینے سے سوڈیم کلورائیڈ کی کمی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اونٹنی کا دودھ ساخت کے اعتبار سے انسانی دودھ سے ملتا جلتا ہے۔ لحمیات (پروٹینز) اور حیاتین (وٹامنز) سے بھر پور ہونے کی وجہ سے کم زور بچوں اور بڑوں کو توانائی دیتا ہے۔ اس میں کیلشیم، حیاتین الف، ب اور ب2 کے علاوہ کئی اہم معدنیات مثلاً پوٹاشیم، جست، تانبا، میگنیزیم، سوڈیم اور فولاد ہوتا ہے۔

گائے کا دودھ بہتر ہوتا ہے یا اونٹنی کا؟ یہ سوال لوگوں کے ذہن میں آتا رہتا ہے۔ ماہرین غذائیت کہتے ہیں کہ اونٹنی کے دودھ میں چربی گائے کے دودھ سے کم ہوتی ہے۔ پوٹاشیم، فولاد، تانبا، میگنیزیم، سوڈیم اور جست گائے کے دودھ کی نسبت اونٹنی کے دودھ میں بلند ترین سطح پر ہوتا ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں گائے کے دودھ کے مقابلے میں فولاد دس گنا زیادہ ہوتا ہے۔ حیاتین ج گرمی اور خشک سالی کے دنوں میں اونٹ کے دودھ میں بڑھ جاتی ہے۔

صحرا میں چونکہ سبزیاں اور پھل زیادہ میسر نہیں ہوتے، اس لیے اونٹنی کے دودھ کا پینا حیاتین ج کی کمی کو پورا کرنے میں مدد گار ہوتا ہے۔ حیاتین ج سے قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ شدید گرمی کے موسم میں حیاتین ج دھوپ کی حدت اور لو لگنے سے بھی بچاتی ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں حیاتین ج 23 ملی گرام فی لیٹر ہوتی ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں ضد جرثونی مرکبات ہوتے ہیں جو انسانی جسم کے لیے بہت فائدے مند ہوتے ہیں۔

برصغیر کے علاوہ دنیا میں سب سے زیادہ گائے کا دودھ پیا جاتا ہے۔ طبی حقائق بتاتے ہیں کہ گائے کے دودھ کے مقابلے میں کیلشیم کی مقدار اونٹنی کے دودھ میں زیادہ ہوتی ہے۔ اونٹنی کا دودھ جوڑوں کے درد اور بھربھری ہڈیوں کے امراض کو دور کرتا ہے۔ اونٹنی کے دودھ سے بننے والی مصنوعات میں پنیر، برفی، گلاب جامن اور دوسری بہترین اشیا لذیذ ہونے کے ساتھ ساتھ غذائیت سے بھی بھرپور ہوتی ہیں۔ اونٹنی کے دودھ سے بننے والی پنیر بہت لذیذ ہوتی ہے اور اس کی مانگ مشرق وسطیٰ اور یورپ میں کافی ہے۔

ہمارے ملک میں بیکری سازی کی صنعت میں اونٹنی کا دودھ مٹھائیاں بنانے کے لیے بہترین نعم البدل ہو سکتا ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں حیاتین، نمکیات، لحمیات اور چکنائی خاصی مقدار میں ہوتی ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اونٹنی قدرت کا ایک انمول عطیہ ہے کیونکہ اس میں انسولین کی خاصی مقدار ہوتی ہے، جو گائے کے دودھ کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔

انسولین ایک ہارمون ہے جو ذیابیطس کے مریضوں میں کم مقدار میں بنتا ہے اور انہیں یہ ہارمون ادویہ کی شکل میں لینا پڑتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں میں اونٹنی کا دودھ ایک شافی علاج کے طور پر اکسیر ہے۔ زمانہ قدیم سے ہندوستان میں آیورویدک طریق علاج کے طور پر اونٹنی کا دودھ یرقان، اطحال تلی، دق، دمے اور بواسیر کے امراض کے علاج میں دوا کے طور پر استعمال ہوتا آ رہا ہے۔

اونٹنی کے دودھ میں پائے جانے والے غذائیت بخش اجزا میں سب سے اہم لیکٹوفلاون ہے جو یرقان کے مریضوں میں جگر کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بہت مفید ہے۔ یرقان اور جگر کے سرطان میں جگر کی کارکردگی بہت کمزور ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں اونٹنی کا دودھ جگر کی نشوونما اور اس کو کارآمد بنانے میں مفید سمجھا جاتا ہے۔

اونٹنی کے دودھ میں کولیسٹرول مناسب مقدار میں پایا جاتا ہے، جو دل کے امراض میں مبتلا افراد کے لیے اچھا غذائی متبادل ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں دق کا جرثومی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، جب کہ گائے اور بھینس کے دودھ میں یہ پایا جاتا ہے۔ اگر اونٹنی کا دودھ غذائی متبادل کے طور پر پیا جائے تو اس سے اس مہلک اور متعددی مرض سے بچا جا سکتا ہے۔

اونٹنی کا دودھ ایک بہترین قبض کشا دوا کے طور پر بھی پیا جاتا ہے۔ یہ دودھ اگر بیمار آدمی کو پلایا جائے تو اس سے نہ صرف وہ شفایاب ہو جائے گا، بلکہ یہ دودھ اس کی ہڈیوں کی بڑھوتری میں بھی مدد گار ثابت ہو گا۔

Source
 
Last edited by a moderator:

Back
Top