القاعدہ کے ملک میں ایک امریکی صحافی کا جہا&#15

ibneislam

Banned
-----------.1alqa title.jpg
تحریر:کاسی کومبز​
کاسی کومبز پہلا وہ غیر ملکی اور امریکی صحافی تھا، جسے القاعدہ کے جہادیوں نے یمن میں حال ہی میں قائم کی گئی اپنی امارت اسلامیہ کادورہ بغیر کسی رکاوٹ کےکرنے کی اجازت دی تاکہ القاعدہ اور عوام الناس کے مابین تعلقات اور القاعدہ کی امارت اسلامیہ کی حقیقت امریکی صحافی کے زبانی ساری دنیا کومعلوم ہوسکے۔ کاسی کومبز یمن میں القاعدہ کی نو قائم شدہ مملکت سے کافی تصاویر بھی لائے۔ یہ تصاویر اور کاسی کومبز کی تحریر قارئین کے لئے پیش ہے۔ادارہ


جعار، یمن: القاعدہ کا کوئی ملک نہیں ہے۔ یہ بات مجھ سے میرے یمنی سیکیورٹی گارڈ نے اُس وقت کہی جب ہم نے جنوبی یمن میں القاعدہ کے نئے گڑھجعار کی جانب جاتی ناہموار اور کھڈوں سے بھری روڈ پر تیرویں اور آخری ملٹری چیک پوائنٹ کو پار کیا۔ اُس نے کہا: جب اس علاقے کو حکومت سے خالی ویران میں دیکھتے ہیں تو یہ چلے جاتے ہیں۔انصار الشریعہ (یعنی اسلامی شریعت کے مددگار) کے نام سے القاعدہ نے مارچ ۲۰۱۱ میں جعار کو بڑے مناسب انداز میں اپنے کنٹرول میں لیا۔ انہوں نے فوراً اس پُرسکون علاقے کا نام بدل کر وقار رکھ دیا، جس کا مطلب ہے عزت، وقار، بلندی، اور یہاں پر اپنی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی بالکل ویسی ہی جیسی طالبان نے افغانستان میں قائم کی تھی۔اس قصبے کا حصول ، جسے یہاں کے نئے القاعدہ حکام مجھے میرے یہاں کے پورے سفر میں وقار کہنے پر اصرار کرتے رہے، انصار الشریعہ کی فتوحات کے تسلسل میں یہ سب سے حالیہ فتح تھی۔ اس گروہ نے پچھلے سال میں جنوبی یمن کے صوبے ابین کے بیشتر حصوں کا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے یمن میں جنگ شروع کی تھی۔
میرے گارڈ نے بتایا: یہ ویسا ہی ہے جیسا افغانستان میں طالبان نے کیا تھا ۔
بے شک، جنوبی یمن کے ان سب حالات نے واشنگٹن کے اندیشے کی دوبارہ تائید ہی کی ہے کہ تنظیم القاعدہ برائے جزیرۂ عرب ، جو کہ ۲۰۰۹ میں القاعدہ کی سعودی اور یمنی شاخوں کے ادغام سے وجود میں آئی تھی اب وہ یمن میں اپنے ایک نئے اہم مرکز کی بنیاد ڈال رہی تھی۔سی آئی اے ڈائریکٹر ، ڈیوڈ پٹریاس نے کہا تھا کہ تنظیم القاعدہ برائے جزیرہ عرب عالمی جہاد میں ایک خطرناک ترین علاقائی عنصر کے طور پر ابھری ہے۔ اُس کا یہ بیان عین ان لیک ہونے والی رپورٹوں کے ساتھ ہی آیا ہے کہ جس میں کہا گیاہے کہ سی آئی اے کا ڈرون پروگرام اُن القاعدہ کے جنگجوؤں کی فہرست تیار کر رہا ہے جنہیں جنوبی یمن میں نشانہ بنانا ہے ۔
یمن کی نئی نازک حکومت اب القاعدہ اور امریکی کاروائیوں کے درمیان پھنس گئی ہے۔ میرے جعار کے سفر سے کچھ پہلے ہی، یمن کے نئے صدر، عبد الرحمن منصور الہادی، نے ایک بڑا ملٹری آپریشن شروع کیا تاکہ ابین کا دارالخلافہ زنجبار واپس لیا جا سکے، اور ایک بظاہر غیر حکومتی علاقے میں حکومت کی رٹ قائم کرنے کی جانب قدم بڑھانے کا آغاز کیا جا سکے۔ تاہم یہ حملہ ایک ذلت آمیز شکست ثابت ہوا۔ لڑائی میں کوئی ۱۸۵ کے قریب یمنی فوجی مارے گئے اور ۷۳ قیدی بنے، جو کہ القاعدہ کے قید ساتھیوں کی رہائی کا ذریعہ بنے۔
میرے القاعدہ کے میزبانوں کے مطابق، اُن کے صوبے میں داخل ہونے والا میں پہلا غیر یمنی صحافی تھا۔ میں نے اُنہیں ویسا ہی مہمان نواز پایا جیسا کہ ملک کے باقی یمنیوں، جن سے میں ملا، کو پایا تھا۔ کیا یہ اس لیئے تھا کیونکہ میں ایک رپورٹر تھا اور وہ ایک اچھا تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے؟ یا پھر وہ حقیقتاً سمجھتے تھے کہ امریکی القاعدہ کے جہادیوں کے ساتھ اکٹھے رہ سکتے ہیں۔
-----------.1alqaeeda 1.jpg

اوپر کی تصویرمیں اسامہ بن لادن کی فریم کی ہوئی فوٹو، جعار پٹرول پمپ کے اشتہار کے نیچے لٹک رہی ہے۔ پٹرول کلرک کی کرسی کے سامنے پانچ گیلن پیٹرول کے کین قطاروں میں بے یار و مددگار پڑے ہیں۔ انصار الشریعہ کے ایک رکن کے مطابق، یہ جعار میں امن و امان کا ثبوت ہے۔اُس نے بتایا: ہمیں پٹرول کی چوکیداری کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ یہ چوروں سے محفوظ ہے۔
-----------.1alqaeeda 2.jpg

اونٹوں کا قافلہ
یمنی حکومت کے مطابق، تقریباً ایک لاکھ افراد ابین میں اپنے گھروں سے کوچ کر گئے ہیں کیونکہ القاعدہ اور حکومتی فورسز کے درمیان لڑائی مئی میں شروع ہو گئی تھی۔ جیسے ہی ہم جعار کے نزدیک پہنچے، ابین کے رہنے والے مہاجرین ، جن میں سے بیشتر بازو بھر سامان اُٹھائے ہوئے تھے، ان مہاجرین سے بھری وینیں ہماری الٹی سمت میں جاتے ہوئے ہمارے ساتھ سے گزریں۔ ریوڑ آتی گاڑیوں کے رستے میں حائل ہوا۔
-----------.1alqaeeda 3.jpg

یقینِ مستحکم
القاعدہ کا کالے اور سفید رنگ کا جھنڈا، جسے پہنچانے میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں، زنگ آلود لوہے کے ڈرم سے اٹکایا ہوا ہے۔ جھنڈے پر عربی زبان میں معروف کلمہ شہادت چھپاہوا ہے: لا الہ الااللہ محمد الرسول اللہ۔ یہ علامتی نشان پورے جعار میں جگہ جگہ موجود ہے۔
-----------.1alqa4.jpg

نئے ذمہ داران
جہادی جنگجو، جن میں کچھ بڑے مرد، کچھ لڑکے شامل ہیں، سب کے سب کلاشنکوف،ہینڈ گرنیڈ اور خنجر باندھے، گرد آلود روڈوں پر موٹر سائیکلوں پر گشت کرتے ہیں جو انہیں انصار الشریعہ نے دیئے ہیں۔انصار الشریعہ کے اراکین یمنی ملٹری ٹرک پر جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں، یہ ٹرک انہوں نے گزشتہ دن زنجبار کے باہر ہونے والی لڑائی میں حاصل کیا تھا، اس لڑائی میں ۱۸۵ یمنی فوجی کی ہلاکت اور ۷۳ کا قید ہونا رپورٹ ہوا ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہتھیاروں سے بھرے دو اس سے بڑے ٹرک بھی حاصل کیئے ہیں۔ تنظیم القاعدہ برائے جزیرۂ عرب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک ٹینک اور دو ایمبولینس بھی راکٹ لانچروں، مارٹر توپ خانے اور طیارہ شکن گنوں کے ساتھ قبضے میں لی گئی ہیں۔

-----------.1alqa5.jpg
القاعدہ کے ساتھ کھانا
جعار میں میری آمد کے کئی پُر تناؤ اور غیر یقینی لمحات کے بعد، جب سپاہی میرے دورے کے مقصد کی تصدیق کر رہے تھے، ایک بڑی عمر کے انصاراشریعہ کے رکن نے میری طرف دیکھ کر کہا: کوئی مسئلہ نہیں کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ انہوں نے اور ان کے ساتھ اُن کے ساتھیوں نے واضح کر دیا کہ میں اس دن کیلئے اُن کا مہمان ہوں، اور انہوں نے اصرار کیا کہ ہم اکٹھے کھاناکھائیں۔ ٹھوس فرش، جسے چاروں جانب سے باقی عمارت نے گھیر رکھا تھا، پر چوکڑی ڈال کر بیٹھے ہم مٹھی بھر کر چاول اور بھُنا ہوا گوشت کھا رہے تھے، اور پھر بعد میں تازہ کٹے ہوئے سیب، مالٹے اور کیلے بھی۔

گفتگو، القاعدہ اور امریکی حکومت کے درمیان نا ختم ہونے والی جنگ کی طرف چلی گئی۔ایک انصار الشریعہ کے ممبر نے کہا: جب تک امریکہ اپنی جمہوریت ہم پر ٹھونستا رہے گا، ہم (اس سے) لڑائی جاری رکھیں گے۔ اُس نے کہا: ہمیں جمہوریت نہیں چاہیئے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں ہم پر چھوڑ دیا جائے۔شرعی جیل
لکیرِ ممنوعہ، اور ان کو پار کرنے کے نتائج، امارت اسلامیہ وقار میں بالکل واضح ہیں۔انصار الشریعہ کے ایک رکن نے کہا: اگر آپ بازار سے خوراک چُراتے ہیں کیونکہ آپ بھوکے ہیں، تو ہم ہاتھ نہیں کاٹیں گے۔ لیکن یقیناً ہم اس کا پسِ منظر (سیاق و سباق) دیکھیں گے۔ مثال کے طور پر اگر آپ نماز کے وقت میں چوری کرتے ہیں، یا اگر آپ جیسے ۶۵ ڈالر سے زیادہ کی چوری کرتے ہیں تو پھر ہم کاٹتے ہیں۔انصار الشریعہ کے سپاہیوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں جعار کے دو افراد سے سگریٹ پینے اور مقامی نسوار چبانے کے بارے میں پوچھوں کہ کیا نئے مقتدران ان کی ان اخلاقی خرابیوں پر نرم ہیں (چھوٹ دے رکھی ہے)؟ ان افراد نے کہا: ہم جب چاہیں یہ کھا سکتے ہیں اور سگریٹ پی سکتے ہیں۔ ایک سپاہی نے کہا: ہم مانتے ہیں کہ سگریٹ اور مقامی تمباکو یا نسوار غلط ہیں۔ یہ معاشرے کیلئے برے ہیں مگر ممنوع نہیں ہیں۔ ہم انہیں غلط کام چھوڑ دینے پر راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ہم انہیں مجبور نہیں کرتے۔

سپاہی نے مزید کہا کہ: فی الحقیقت جب انصار الشریعہ نے جعار پر گرفت حاصل کی تو تمباکو کے بازار کو شہر کے کونے میں منتقل کر دیا، مگر انہوں نے اسے مکمل ختم نہیں کیا۔ یمن میں کچھ کا کہنا ہے کہ اس گروہ نے چھوٹ صرف اراکین اپنی جانب کھینچنے کیلئے دے رکھی ہے، اور مستقبل میں ان منع کرنے والی چیزوں پر یلغاری نوعیت کی کاروائی کریں گے۔
میزائیل کسی میں کوئی فرق نہیں کرتے
جعارکا رہنے والا ایک نوجوان لڑکااس عمارت کے ملبے کے سامنے کھڑا ہے، جسے انصار الشریعہ کے مطابق سعودی میزائیلوں نے تباہ کیا ہے۔ (میں اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا)۔ اس نے کہا: اس کی تباہی کے وقت اس عمارت میں کوئی نہیں تھا، لیکن کچھ زخمی ہوئے تھے۔ اس نے کہا: جبکہ وہ آسمان میں ڈرون کی آواز کو سن سکتا تھا، جعار میں کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا، صرف میزائیل داغے گئے۔
ملے جلے تاثرات
مختلف شہریت، رہن سہن اور عمر والے وقاریوں کا ہجوم مرکزی بازار کے قریب ہماری وین کے گرد جمع ہو گیا۔ بہت سے متجسس تھے کہ ہم کون ہیں؟ ہم کیوں آئے ہیں، اور ہم یہاں تک کیسے پہنچ گئے۔ ایک امریکی کو اپنے شہر میں دیکھ کر کچھ لوگ بیزار دکھائی دیئے، جبکہ کچھ نے یمنی مہمان داری کی روایت کا اظہار کرتے ہوئے اصرار کیا کہ ہم رات یہیں رکیں۔ لیکن جیسا کہ انصار الشریعہ سے وعدہ تھا، ہم غروب آفتاب سے پہلے واپس چلے گئے۔
 

ibneislam

Banned
اسرائیل کے ساتھ القاعدہ کی براہ راست جنگ ت&#17

------------.jpg11112qw.jpg11aa.jpg
سبیل احمد انبالوی
عراق کے نائب وزیر داخلہ نے چند ہفتے قبل انکشاف کیا تھا کہ ان کے ملک سے جہادی شام کا رُخ کررہے ہیں اور وہاں صدر بشار الاسد کے مخالفین کو اسلحہ بھی بھیجا جا رہا ہے۔
نائب وزیر داخلہ عدنان الاسدی نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے ساتھ انٹرویو میں بتایا تھا کہ ''ہمارے پاس ایسی انٹیلی جنس اطلاعات ہیں جن کے مطابق عراقی جہادی شام میں چلے گئے ہیں اور عراقی سرحدوں سے شام میں اسلحہ کی اسمگلنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے''۔اسدی نے بتایا کہ ''دارالحکومت بغداد سے ہتھیار صوبہ نینویٰ میں بھیجے جارہے ہیں اورصوبائی دارالحکومت موصل میں اس وقت اسلحے کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے کیونکہ وہیں سے شام میں حزب اختلاف کو اسلحہ وگولہ باورد بھیجا جا رہا ہے''۔عراقی نائب وزیر داخلہ کے بہ قول کلاشنکوف رائفل کی قیمت پہلے ایک سو سے دو سو ڈالرز کے درمیان تھی اور اب یہ قیمت بڑھ کر ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔اس اسلحہ کو ربیعہ کراسنگ کے ذریعے شامی علاقے میں بھیجا جا رہا ہے کیونکہ اس علاقے میں سرحد کے دونوں جانب ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھنے والے خاندان آباد ہیں۔اس کے علاوہ شامی شہر ابوکمال کے نزدیک واقع سرحدی گذرگاہ سے بھی اسلحہ شام اسمگل کیا جا رہا ہے۔
بہت سے لوگ اسے شام میں شعیہ حکومت کے خلاف سنی عوام کی بغاوت اور القاعدہ کی اس میںشمولیت سمجھیں گےمگر معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ اصل میں القاعدہ اور جہادی گروپ عرصے سے اپنے آپ کو اس علاقے میں مستحکم کر کے ایک بڑی اور آخری جنگ کی تیاریاں کررہے ہیں۔ جو کام اسلامی حکومتوں کے کرنا تھا، وہ تو انہوں نے نہیں کیا یا کرنے کی کوشش کی اور بری طرح ناکامی ہوئی یعنی اسرائیل سے فلسطین کی آزادی مگر اب اس کام کو کرنے کا بیڑا جہادی گروپس نے اٹھایا ہے اور اس معاملے کی سربراہی القاعدہ کررہی ہے۔ اگر القاعدہ کی ویب سائٹس کا مطالعہ کیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اس کی تمام تر تیاریاں اس خطے میں اسرائیل کے ساتھ ایک آخری جنگ لڑنے کے لئے کی جا رہی ہیں اور اس کا آغاز امریکہ کے عراق پر حملے سے ہوا تھا جس کے بعد اسامہ بن لادن نے الزرقاوی کو ایک خط لکھا تھا جو پکڑا گیا تھا۔ اس خط میں اسامہ نے القاعدہ کمانڈر کو کہا تھا کہ وہ فوری طور پر شیعوں پر حملے روک دے اور تمام تر تیاریاں عراق کو اسرائیل پر حملے کے لئے مرکز بنانے پر صرف کرے۔ اس وقت تک جہادیوں کو اسرائیل تک پہنچنے کا صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ کسی طرح محصور غزہ تک پہنچیں اور پھر اسرائیل سے دو دو ہاتھ کریں مگر غزہ تک پہنچنے سے پہلے کئی ممالک ان کا شکار کرنے کو تیار رہتے تھے اور اسرائیل محفوظ تھا مگر آج دس سال بعد صورتحال بلکل بدل چکی ہے اور جہادی گروپ اور القاعدہ کئی حکومتوں کو گرا کر کئی اطراف سے اسرائیلی سرحدوں پر دستک دے رہے ہیں۔ اسرائیل کے ایک طرف لبنان ہے اور یہاں جہادی پہلے سے موجود ہیں۔ دوسری طرف مصر ہے جہاں اسرائیل نواز حکومت ختم ہوچکی اور اب یہاں اسرائیلی سرحد پر جہادی گروپ کئی حملے کرچکے ہیں اور یہیں سے غزہ کو راستہ جاتا ہے جو پہلے مصر کی اسرائیل نواز حکومت نے بند کررکھا تھا مگر اب یہ راستہ بھی جہادیوں کے کنٹرول میں ہے اور ہر ہر چیز آسانی سے غزہ لے جارہے ہین۔ مصر کے ساتھ ہی لیبیا ہے جو اس خطے میں جہادیوں کے اسلحے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ یہاں القاعدہ اور جہادیوں کو سب سے بڑی کامیابی ملی اور قذافی کے جو اسلحہ جمع کررکھا تھا وہ اب جہادیوں کے ہاتھ میں ہے اور یہیں سے وہ شام اور غزہ بھی لے جارہے ہیں۔ تازہ لڑائی شام میں ہو رہی ہے جو اسرائیلی سرحد پر واقع ہے اور اگر یہاں القاعدہ اور جہادی کامیاب ہوگئے تو اسرائیلی محاصرے میں آجا ئے گا۔شام کی اہمیت القاعدہ کے لئے کیا ہے؟ اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری نے اپنے ایک تازہ ویڈیو پیغام میں ابھی حال ہی میں یہ کہا تھا کہ القاعدہ نیٹ ورک شام میں صدر اسد کے خلاف عوامی تحریک کا حامی ہے۔ پچھلے سال مارچ میں شروع ہونے والی اس تحریک کے دوران شام میں اب تک چھ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
بغداد سے ملنے والی رپورٹوں میں فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ شام میں حکومت مخالف عوامی تحریک کا مرکز ابھی تک وہاں گیارہ ماہ سے جاری عوامی مظاہرے ہیں۔ لیکن اب ان مظاہروں کے ساتھ ساتھ وہاں حکومت مخالف احتجاج کا مرکز وہ مسلح بغاوت بن چکی ہے، جو مسلسل پھیلتی جا رہی ہے۔
عراقی دارالحکومت بغداد میں ملکی وزارت داخلہ کے ہفتے کے روز جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق اب زیادہ سے زیادہ جہادی مسلمانوں نے اپنے ہتھیاروں کے ساتھ عراق سے شام کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔
جہادی سوچ رکھنے والے عرب عسکریت پسند مسلمانوں کی ایک ویب سائٹ انصار المجاہدین نے اپنا ایک ایسا آن لائن پیج بھی شروع کر دیا ہے، جس کا نام شام کے شیر رکھا گیا ہے۔ اس آن لائن پیج پر اس تنظیم کی طرف سے شاندار شام میں جہاد سے متعلق خبریں شائع کی جاتی ہیں۔ اس انٹر نیٹ صفحے پر شام میں اسد انتظامیہ کے خلاف جہاد کی جو خبریں شائع کی جاتی ہیں، ان کے ذریعے شام میں عرب عسکریت پسندوں کی طرف سے جہاد میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
عرب عسکریت پسندوں کی ایک اور ویب سائٹ پر ایک جہادی گروپ کے ایک رکن نے جمعرات کے روز اپنا نام نصر الدین الحسنی بتاتے ہوئے لکھا، ہمارے امیر ابو اسامہ المہاجر عراق سے بہت سے ہتھیار شام پہنچانے کے بعد عراقی شامی سرحد کے قریب مارے گئے۔
اس کے علاوہ ایک اور جہادی ویب سائٹ پر ابھی حال ہی میں یہ اعلان کیا گیا کہ انصار المجاہدین کا ایک سرکردہ عسکریت پسند رہنما ابو حمزہ الشامی گزشتہ ہفتے شامی دارالحکومت دمشق کے نواح میں سرکاری سکیورٹی دستوں کے ایک آپریشن میں مارا گیا۔
اسی انٹر نیٹ ویب سائٹ پر موجودہ ویک اینڈ پر یہ اعلان بھی کیا گیا، ہمارا ایک جہادی ساتھی ابو البُراء شام میں مارا گیا ہے۔ وہ ایسا پہلا جہاد پسند مسلمان تھا، جو اردن سے اس کام کے لیے شام گیا تھا۔
دیگر رپورٹوں کے مطابق اب تک عراق، کویت، مصر اور دیگر عرب ملکوں سے بھی بہت سے عسکریت پسند عرب رضاکار شام جا چکے ہیں۔ ان عسکریت پسندوں کا تعلق ایسی جہادی تنظیموں سے ہے جو دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کی مقامی شاخوں یا اس کے ہم خیال گروپوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔
القاعدہ کے سربراہ ایمن الظاہری کے ابھی حال ہی میں شام میں حکومت مخالف عوامی تحریک کے حق میں دیے گئے بیان کے بعد بغداد میں عراقی نائب وزیر داخلہ عدنان الاسدی نے کل ہفتے کو خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، عراقی خفیہ اداروں کی اطلاعات کے مطابق عراق سے بہت سے جہادی ہتھیاروں کے ساتھ شام جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ بظاہر ابھی تک جاری ہے۔ اب ہم ذکر کرتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف عراق کو مرکز بنانے کا خیال کس کا تھا۔
عراق میں القاعدہ کے مارے گئے کمانڈر ابو معصب الزرقاوی کا اصل نام احمد فاضل تھا۔ وہ 30اکتوبر 1966ء کو اردن کے شہر الزرقا میں پیدا ہوئے ۔اس شہر کی ایک بڑی اکثریت فلسطینی مہاجرین پر مشتمل ہے۔ الزرقاوی کا تعلق دریائے اردن کے مشرقی کنارے میں رہنے والے بدو قبیلے بنو حسن کی خلیلہ شاخ سے تھا ، ان کے آباؤ اجداد 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد اپنی زمینیں چھوڑ کر الزرقا میں پناہ گزین بنے۔
الزرقاوی نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہاں ہر طرف ناانصافی اور غربت تھی ۔وہ چھ بہنیں اور چار بھائی تھے۔ غربت کے باوجود الزرقاوی کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا ۔ وہ گیارہویں جماعت میں پہنچے تو 1984ء میں انکے والد احمد نزال فوت ہوگئے۔ الزرقاوی کو تعلیم چھوڑ کر نوکری کرنی پڑی۔1988ء میں الزرقاوی نے اپنے علاقے کی مسجد حسین بن علی میں فلسطینی عالم ڈاکٹر عبداللہ عزام اور افغان لیڈر پروفیسر سیاف کی تقاریر سنیں۔ سیاف نے الزرقا کے نوجوانوں کو افغانستان میں جہاد کی دعوت دی اور یہی وہ لمحہ تھا جب بائیس سالہ الزرقاوی نے افغانستان جانے کا فیصلہ کیا۔
1989ء کے موسم بہار میں وہ پشاور پہنچے تو ان کا جہادی نام ابو محمد الغریب رکھا گیا۔ ڈاکٹر عبداللہ عزام نے اس نوجوان کو میران شاہ کے راستے سے خوست کے پہاڑوں میں بھیج دیا جہاں الزرقاوی نے عسکری تربیت حاصل کی۔ 1991ء میں الزرقاوی نے جلال الدین حقانی کے ہمراہ خوست کی فوجی چھاؤنی سے افغان کمیونسٹ فوج کو نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکا اور اقوام متحدہ افغان مجاہدین کو کابل کے کمیونسٹ حکمرانوں کے ساتھ مفاہمت پر قائل کرنے کی کوشش میں تھے۔ افغان مجاہدین کے گروپوں میں اختلافات بھی پیدا کئے جا چکے تھے اور دوسری طرف اسلام آباد کے حکمران پاکستان میں موجود عرب مجاہدین کو نکالنے کے درپے تھے۔ اسی زمانے میں الزرقاوی کی ملاقات پشاور میں ایک فلسطینی عالم ابو محمد المقدصی سے ہوئی جو مشرق وسطیٰ میں امن کے نام پر اسرائیل اور عرب حکومتوں میں دوستانہ تعلقات کے سخت مخالف تھے۔ المقدصی کا خیال تھا کہ امریکا کے احکامات بجا لانے والی عرب حکومتوں کے خلاف مسلح بغاوت کا وقت آچکا ہے، الزرقاوی انکی حمایت کررہے تھے جبکہ القاعدہ کا خیال تھا کہ عرب حکومتوں کے خلاف بغاوت کی بجائے اسرائیل اور امریکا کے خلاف مزاحمت کی جائے۔
جب القاعدہ کی قیادت سوڈان منتقل ہوگئی اور الزرقاوی اپنے نئے لیڈر المقدصی کے ساتھ 1993ء میں واپس اردن چلے گئے۔ دونوں نے التوحید کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور اردن میں حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کیلیے اسلحہ اکٹھا کرنے لگے۔ 13ستمبر 1993ء کو اسرائیل اور پی ایل او میں امن معاہدہ ہوگیا۔ الزرقاوی اس معاہدے کے خلاف کھل کر سامنے آگئے اور 29مارچ 1994ء کو گرفتار کرلئے گئے۔ یہ وہ گرفتاری تھی جس نے ایک نئے الزرقاوی کی تشکیل شروع کی ۔1995ء میں الزرقاوی کو عمر قید کی سزادی گئی اور انہیں عمان سے 85کلو میٹر جنوب میں واقع السوقہ جیل بھیج دیا گیا جو ریگستان میں تھی۔ اس جیل میں الزرقاوی کے پاؤں کے ناخن نوچے گئے ، جسم پر زخم لگا کر نمک چھڑ کا گیا اور کئی کئی ماہ تک قید تنہائی میں رکھا گیا۔ اس جیل میں چھ ہزار سے زائد قیدی بند تھے جن میں سے اکثر کا جرم یہ تھا کہ وہ عرب اسرائیل امن معاہدے کو یہودیوں کی فتح سمجھتے تھے۔ اس معاہدے پر تنقید کرنے والے اردن کے ایک صحافی فواد حسین کو بھی السوقہ جیل میں بند کیا گیا ۔ فواد کی اسی جیل میں الزرقاوی کے ساتھ ملاقات ہوئی ان کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے الزرقاوی پر ظلم بڑھتا گیا اس کی شخصیت میں سے لچک ختم ہوتی گئی۔ الزرقاوی نے اپنے ساتھی فقیہہ الشاوش کی مدد سے جیل میں پورا قرآن مجید حفظ کرلیا اور یہ کہنا شروع کردیا کہ اب ہمیں اپنی قوم کی تقدیر اپنے خون سے لکھنی ہے۔
1999ء میں اردن کے بادشاہ شاہ حسین کی موت کے بعد انکے بیٹے عبداللہ نے اقتدار سنبھالا تو الزرقاوی کو عام معافی کے نتیجے میں رہائی مل گئی۔ رہائی کے فوراً بعد وہ پشاور آگئے۔ یہاں الزرقاوی کے ویزے کی معیاد ختم ہوگئی اور انہیں پشاور جیل جانا پڑا ۔کچھ ساتھیوں کی کوشش سے رہائی کے بعد الزرقاوی نے افغانستان کا رخ کیا۔ جلال الدین حقانی کے ذریعہ الزرقاوی نے ہرات میں ایک عسکری تربیت کا کیمپ قائم کرنے کی اجازت حاصل کی۔
اسی زمانہ میں جب القاعدہ کی قیادت کے ساتھ ان کے تعلقات استوار ہوچکے تھے لیکن وہ القاعدہ میں شامل ہونے سے گریزاں تھے کیونکہ وہ بدستور اس نظریے کے حامی تھے کہ جس طرح طالبان نے افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کی ہے اسی طرح عرب مجاہدین کو بھی اپنے ممالک میں اسلامی حکومتوں کے قیام کیلیے جدوجہد کا آغاز کرنا چاہئے۔ دسمبر2001ء میں وہ ہرات سے قندھار آگئے کیونکہ امریکی فوج افغانستان میں داخل ہوچکی تھی اور عرب مجاہدین کا ہر طرف شکار کیا جارہا تھا۔ اردنی صحافی فواد حسین کا دعویٰ ہے کہ قندھار میں بمباری کے دوران الزرقاوی زخمی ہوگئے لیکن کسی طرح اسامہ بن لادن کے پاس تورا بورا پہنچ گئے ، وہاں سے فرار ہو کر خوست اور پھر شمالی وزیرستان پہنچے ۔ یہیں چند دن قیام کیا اور پھر کوئٹہ کے راستے سے افغانستان میں داخل ہو کر ایران کو نکل گئے۔ ایران میں گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کی مدد سے 2003ء میں وہ عراق چلے گئے۔ ایرانی شہر زاہدان سے بغداد تک انکا القاعدہ سے رابطہ رہا لیکن وہ القاعدہ میں شامل نہ ہوئے۔ اب ایک نئی وجہ اختلاف یہ تھی کہ القاعدہ اہل تشیع کے خلاف کارروائیوں کی مخالف تھی لیکن الزرقاوی کا کہنا تھا کہ اہل تشیع نے افغانستان اور عراق میں امریکی فوج کا ساتھ دیا اس لیے ان پر حملے جائز ہیں۔اسی دوران الزرقاوی نے عراق میں ہولناک حملے شروع کردئے مگر ان کا نشانہ شیعہ تھے۔
2004ء میں القاعدہ کی کوششوں سے الزرقاوی نے اپنا موٴقف تبدیل کیا اور اہل تشیع پر حملے بند کردیئے جس کے بعد اسامہ بن لادن نے الزرقاوی کو عراق میں القاعدہ کا امیر مقرر کیا۔ الزرقاوی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ عراق میں مجاہدین کے تمام گروپوں کو متحد کریں، افغانستان ، شام ، اردن، کویت ، مصر، سعودی عرب، لبنان اور ترکی کے نوجوانوں کو تربیت دیں اور اسرائیل کے ساتھ براہ راست تصادم کی تیاری کریں۔ یہاں سے ایک نئے زرقاوی کی ابتدا ہوئی اور اس نے ہزاروں سعودی، مصری، شامی، فلسطینی اور اردنی نوجوانوں کو منظم کر کے عراق میں امریکہ پر ایسے ہولناک حملے کئے کہ ہر طرف تہلکہ مچ گیا۔ دوسری طرف اس نے اسرائیل کے خلاف عراق کو مظبوط مرکز بنانے کا کام بھی شروع کردیا۔ اس کا منصوبہ یہی تھا کہ عراق کے بعد شام میں داخل ہو کر اسرائیل پر حملے کئے جائیں مگر انہیں اپنی زندگی میں یہ سب دیکھنے کو نہ مل سکا مگر اس نے خود یہ بات کہہ بھی دی تھی کہ وہ جس عمارت کی بنیاد رکھ رہا ہے اس کی تعمیر ہوتے نہ دیکھ سکے گا بلکہ اس کے بعد آنے والے اسے تعمیر کریں گے۔
عراق میں مجاہدین شوریٰ کونسل کا قیام الزرقاوی کی عراق میں پہلی اہم سیاسی کامیابی تھی تاہم وہ خاصے غیر محتاط تھے اور اسی لیے عراق میں امریکی بمباری کا نشانہ بن گئے۔ غور کیا جائے تو الزرقا کا یہ جوان 1989ء تک احمد فاضل اور 2003تک ابو محمد الغریب تھا لیکن عراق میں امریکی فوج کے قبضے کے بعد ابو مصعب الزرقاوی پیدا ہوا۔(مصعب انکے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام ہے) 2003ء میں جنم لینے والے الزرقاوی کا آئیڈئیل نورالدین زنگی تھے جنہوں نے 1148ء میں موصل کا اپنا مرکز بنا کر 1169ء تک شام اور مصر پر حکومت قائم کی اور انکی وفات کے بعد صلاح الدین ایوبی نے یروشلم فتح کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ابو مصعب الزرقاوی نے مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی کوکھ سے جنم لیا۔ اسے یقین تھا کہ کوئی اوسلو امن معاہدہ بنو حسن قبیلے کو اسکی کھوئی ہوئی زمین واپس نہیں دلوا سکتا لہٰذا اس نے نورالدین زنگی کا راستہ اختیار کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اسے زنگی کی طرح دجلہ و فرات کی سرزمین میں صرف تحریک مزاحمت کو منظم کرنے کا موقع ملے گا اور یروشلم پر حملہ کوئی اور کریگا ۔ اور ایسا ہی ہوا اسے امریکی فوج نے 2006 میں قتل کردیا مگر اب جہادی گروپ اسرائیلی سرحد پر دستک دے رہے ہیں اور اسرائیل سے آخری جنگ بس شروع ہونے کو ہے۔ افسوس اس بات کا ہے جو کام مسلم حکومتوں کو کرنا تھا وہ جہادیوں کو کرنا پڑا۔
 

jimz84

Senator (1k+ posts)
Re: القاعدہ کے ملک میں ایک امریکی صحافی کا جہا

alqaeda aik topi drama ha....
 
Re: القاعدہ کے ملک میں ایک امریکی صحافی کا جہا

read this and u will know
۔ اب ایک نئی وجہ اختلاف یہ تھی کہ القاعدہ اہل تشیع کے خلاف کارروائیوں کی مخالف تھی لیکن الزرقاوی کا کہنا تھا کہ اہل تشیع نے افغانستان اور عراق میں امریکی فوج کا ساتھ دیا اس لیے ان پر حملے جائز ہیں۔اسی دوران الزرقاوی نے عراق میں ہولناک حملے شروع کردئے مگر ان کا نشانہ شیعہ تھے۔​
 

Back
Top