
آئی ایم ایف نے پاکستان کے ریونیو منصوبے پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا، آئی ایف پاکستان کے مشترکہ آمدنی اور اخراجات کے منصوبوں سے غیر مطمئن ہے،جس کے لیے اضافی معلومات طلب کرلی ہیں، جن میں ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات شامل ہیں۔
آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ جولائی2022 سے جون 2023 تک ماہانہ بنیادوں پر پٹرولیم لیوی اور پٹرولیم مصنوعات کے استعمال کے تخمینے کی تفصیلات فراہم کی جائیں،ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کو شبہ ہے کہ حکومت محصولات کی وصولی کے بارے میں تخمینوں میں مبالغہ آرائی کررہی ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کے اس دعوے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں کہ وہ اب بھی رواں مالی سال کے دوران پیٹرولیم لیوی کے ذریعے 800 ارب روپے کی آمدن حاصل کرسکتا ہے، اس مد میں حالیہ بجٹ میں 855 ارب روپے کا ہدف رکھا گیا تھا۔تاہم پہلی سہ ماہی کے دوران صرف 47 ارب روپے ہی جمع ہوسکے تھے، یہ رقم وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار کے مطابق اکتوبر کے اختتام تک 80 ارب روپے سے تجاوز کرگئی تھی۔
دوسری جانب پاکستان نے عالمی ادارے کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر پیٹرولیم لیوی کا ہدف پورا نہ ہوسکا تو پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس عائد کیا جاسکتا ہے،وزارت خزانہ کے حکام اس بارے میں پرامید دکھائی دیتے ہیں کہ پٹرولیم لیوی اور پٹرولیم مصنوعات کے استعمال کی صورتحال میں بہتری آئے گی کیونکہ سیلاب کے بعد اب کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آنا شروع ہوگئی ہے۔
حکومت نے پہلے ہی پیٹرول پر 50 روپے فی لیٹر لیوی عائد کر رکھی ہے اور ڈیزل کے نرخوں میں بھی اضافہ کرنا شروع کردیا ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اختلاف رائے کی وجہ سے ہی عالمی ادارے کے مشن کی آمد میں بھی خاصی تاخیر ہوچکی ہے، اس مشن کی آمد پر نویں جائزے کی تکمیل ہونی تھی، جس کے بعد قرضے کی 1.2ارب ڈالر پر مشتمل اگلی قسط کی ادائیگی کی منظوری دے دی جاتی۔
آئی ایم ایف کی ٹیم کو 26 اکتوبر کے آس پاس پاکستان آنا تھا، تاہم فی الحال فریقین دورے کے لیے نئی تاریخ پر متفق نہیں ہوسکے۔ نویں جائزے کی تکمیل میں رکاوٹ کے باعث دیگر عالمی قرض دہندگان سے رقوم ملنے میں بھی تاخیر ہورہی ہے، جس سے زرمبادلہ کے ملکی ذخائر اور شرح مبادلہ پر دبائو مسلسل بڑھ رہا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/imfhahaii.jpg