میں نے عثمان کے بارے میں جو کچھ کہا سچ کہا .
(Qur'an 9:100) وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
اور جو لوگ قدیم میں پہلے ہجرت کرنے والوں اور مدد دینے والو ں میں سے اور وہ لوگ جو نیکی میں ان کی پیروی کرنے والے ہیں الله ان سے راضی ہوئےاوروہ اس سے راضی ہوئےان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے
یہ شیعہ ہی ہیں جو قرآن کی واضح آیت رسول الله ﷺ کے اصحاب کے بارے میں سننے کے باوجود ان کے بارے میں اپنی غلیظ زبان کھولتے ہیں - یقینا یہ لوگ وہ ہیں جو ہمارے ہاتھوں میں موجود قرآن کی حقانینت کے قائل ہہیں ہیں اور تقیہ کرتے ہوۓ کہتے ہم تو اس قرآن کو مکمل مانتے ہیں جو رسول الله پر نازل ہوا تھا جبکہ دل میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عثمان نے قرآن میں تحریف کر دی تھی- أستغفر الله -ان کا یہ عقیدہ ان کی کتابوں سے بلکل عیاں ہے،
کلک کریں "پوسٹ نمبر ١٩""،
شیعوں اور سنیوں دونوں کے مطابق نیچے بیان کی گئی آیت غزوہ احد کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔جب الله نے کہا ہے کہ اس نے انہیں معاف کردیا ہے لہذا اس معاملے میں آپ کو کچھ کہنے کا حق نہیں ہے
(Qur'an 3:155) إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ
بے شک وہ لوگ جو تم میں پیٹھ پھیر گئے جس دن دونوں فوجیں ملیں سو شیطان نے ان کے گناہ کے سبب سے انہیں بہکا دیا تھا اور الله نے ان کو معاف کر دیا ہے بے شک الله بخشنے والا تحمل کرنے والا ہے
صحابہ رضی اللہ عنہ - اگرچہ وہ سب سے اچھے لوگ ہیں - وہ بھی انسان تھے ، اور ان کے مابین ایسا واقع ہوا جو عام طور پر تنازعات اور اختلاف رائے رکھنے والے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن وہ نیک کام کرنے میں سب سے آگے رہنے والے لوگ تھے ، اور وہ حق کے علم میں بھی سب سے آگے تھے ، اس پر عمل کرنے کے دوران اگر کسی غلطی کا ارتکاب ہو جاتا، جو کہ انسان ہونے کے ناطے ممکن ہے، تو اس غلطی سے رجوح کرنے اور اپنی اصلاح کرنے میں میں بھی بلکل دیر نہیں کرتے تھے۔
وہ تمام لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک دن اللہ کے سامنے جوابدہ ہونگے ، انہیں چاہیے کہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہما کے مابین پیدا ہونے والے اختلافات پر بحث کرنے سے گریز کریں۔ اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں مثبت سوچیں۔
ہمارے نزدیک تمام اصحاب رسول ﷺ قبل احترام ہیں بشمول چاروں خلیفہ رضوان اللہ عنھم اجمعین، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غلطیوں سے مبرا تھے - ان سے غلطیاں ہوئیں لیکن ہمیں ان کی نیت پر کوئی شبہ نہیں اور انہوں نے بھی اپنی غلطیوں کی نشاندہی پر اصلاح کی پوری کوشش کی - یہاں ہمارا مقصد حضرت علی رضي الله عنه کی شان میں کمی کرنے کی کوئی نیت نہیں بلکہ آپ کو سمجھانے کے لئے کچھ احادیث بیان کی جا رہی ہیں- مثال کے طور پر اس بڑھ کر حضرت علی رضي الله عنه کی فضیلت کیا ہوگی
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور روح کو تخلیق کیا ! نبی امی ﷺنے مجھے بتا دیا تھا کہ ’’ میرے ساتھ مومن کے سوا کوئی محبت نہیں کرے گا اور منافق کے سوا کوئی بغض نہیں رکھے گا ۔
Sahih Muslim - 240 - Islam360
اب کچھ احادیث حضرت علی رضي الله عنه کے غلطیوں سے پاک "معصوم " نہ ہونے کی دلیل میں
علی رضی الله عنہ نے کچھ ایسے لوگوں کو زندہ جلا دیا جو اسلام سے مرتد ہو گئے تھے، جب ابن عباس رضی الله عنہما کو یہ بات معلوم ہوئی ۱؎ تو انہوں نے کہا: اگر ( علی رضی الله عنہ کی جگہ ) میں ہوتا تو انہیں قتل کرتا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”جو اپنے دین ( اسلام ) کو بدل ڈالے اسے قتل کرو“، اور میں انہیں جلاتا نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”اللہ کے عذاب خاص جیسا تم لوگ عذاب نہ دو“، پھر اس بات کی خبر علی رضی الله عنہ کو ہوئی تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی الله عنہ نے سچ کہا
Jam e Tirmazi - 1458-islam360
مسور رضی اللہ عنہ نے ایک قصہ بیان کیا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں ابوجہل کی ایک بیٹی ( جمیلہ نامی رضی اللہ عنہا ) کو پیغام نکاح دے دیا تھا۔ میں نے خود سنا کہ اسی مسئلہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسی منبر پر کھڑے ہو کر صحابہ کو خطاب فرمایا۔ میں اس وقت بالغ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ فاطمہ مجھ سے ہے
۔ اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ ( اس رشتہ کی وجہ سے ) کسی گناہ میں نہ پڑ جائے کہ اپنے دین میں وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان بنی عبد شمس کے ایک اپنے داماد ( عاص بن ربیع ) کا ذکر کیا اور دامادی سے متعلق آپ نے ان کی تعریف کی ‘ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات کہی سچ کہی ‘ جو وعدہ کیا ‘ اسے پورا کیا۔ میں کسی حلال ( یعنی نکاح ثانی ) کو حرام نہیں کر سکتا اور نہ کسی حرام کو حلال بناتا ہوں۔ لیکن اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گی۔
Sahih Bukhari-3110-islam360
میرا چلینج ہے آپ لوگوں کو کہ مجھے رافضی کہو ، کافر کہو چاہے جو کچھ بھی کہو لیکن خبردار مجھے جھوٹا کہنے کی ہمت نہ کرنا
ہمیں معلوم ہے کہ صرف آپ جھوٹے نہیں آپ کا پورا مہذب جھوٹ پر مبنی ہے
شیعہ مذہب میں تقیہ کے معنی ہیں کہ ظاہری طور پر کوئی ایسی چیز پیش کرنا جو ان کے اندرونی طور پر اعتقاد سے مختلف ہے اور اس قبیح عمل کو اپنے مذہبی فریضے کے طور پر ادا کرنا ، ۔ اس طرح انہوں نے غلط تاویلاتاور مسلمانوں سے عداوت کے باعث جھوٹ اور دھوکہ دہی کو اللہ کے دین سے منسوب کیا۔
اس فاسد عقیدے کا اہل سنت کے عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اہل سنت کے نزدیک جھوٹ بولنا منافقین کی ایک خوبی ہے۔ ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے پر قائم رہتا ہے جب تک کہ وہ اللہ کے ساتھ جھوٹا نہ ہو۔ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور ہر چیز میں جھوٹ بولنے پر قائم رہتے ہیں ، پھر وہ اس کو اپنے عقائد اور مذہب کا حصہ سمجھتے ہیں۔
اہل سنت والجماعت کا طریقہ حق اور انصاف پر مبنی ہے۔ جھوٹ بولنا ان کے مذہب کا حصہ نہیں ، الحمد للہ
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة الله عليه کہتے ہیں: رافضی فرقوں سے سب سے زیادہ جاہل اور کذاب ہیں ، اور متن کے عقیدہ یا عقلی ثبوت سے دور دراز ہیں۔ وہ تقیہ کو اپنے مذہب کے بنیادی اصولوں میں سے ایک مانتے ہیں ، اور وہ اہل بیت کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں ، جس کی حد صرف اللہ کو معلوم ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے جعفرصادق سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا: "تقیہ میرا مذہب اور میرے آباؤ اجداد کا دین ہے۔" لیکن تقیہ منافقت کی علامتوں میں سے ایک ہے۔ حقیقت میں ان کے معاملے میں ، وہ جو زبانی کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے ، اور یہی منافقت کا جوہر ہے
"مجموع الفتاوى" (13 /263) .
انہوں نے یہ بھی کہا:
جہاں تک رافدیوں کی بات ہے تو ، ان کی جدت کی بنیاد بدعت ہے اور جان بوجھ کر جھوٹ بولنا جو ان میں عام ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ جب انہوں نے کہا: ہمارا مذہب تقیّہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے کوئی زبانی طور پر کچھ کہتا ہے جبکہ ان کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے ، اور یہ جھوٹ اور منافقت ہے۔ پھر بھی اس کے باوجود وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو خارج کرنے کے لئے (سچے) مومن ہیں ، اور وہ ابتدائی مومنین کو مرتد اور منافق قرار دیتے ہیں ، جبکہ وہ اس بیان کے خود مستحق ہیں۔ مسلمانوں میں کوئی بھی ایسا گروہ نہیں جو بڑے اعتماد
مسلمان ہونے کا دعوه کرتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں کوئی بھی منافقت اور ارتداد کے میں ان کے قریب تر ہے ، اور ان کے علاوہ کسی اور گروہ میں مرتد اور منافق کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔
"منهاج السنة النبوية" (1 /30)
اس میں "الموسوعة الميسرة" في بيان أصول الشيعة (1/ 54) میں کہا گیا ہے ، جس میں شیعوں کے بنیادی عقائد پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے:
تقیہ: - امامی شیعہ کے معنی ہیں - اسے اپنے مذہب کے بنیادی اصولوں میں سے ایک سمجھتے ہیں ، اور وہ اس پر عمل کرنا اسی طرح فرض سمجھتے جیسا کہ نماز کا پڑھنا۔ ان کے لئے یہ واجب ہے اور جب تک پوشیدہ امام ظاہر نہ ہو اس سے پرہیز کرنا جائز نہیں ہے۔ جو شخص امام کے ظاہر ہونے سے پہلے تقیہ سے باز آجائے وہ ان کے مطابق اللہ کے دین،امامیوں کا دین، کو چھوڑ گیا
ڈاکٹر ناصر بن عبد الله القفاري نے کہا:
شیعہ کی اہم کتاب المفیدمیں ے تقیہ کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی ہے: تقیہ کا مطلب ہے سچ کو چھپانا ، اس پر اعتقاد کو چھپانا ، کسی کے اصلی عقائد کو ان لوگوں سے چھپانا جو ایک سے مختلف ہیں اور کھلے عام اس کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں جس سے مذہبی یا دنیاوی لحاظ سے منفی نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔
اس طرح المفید نے تقیہ کی تعریف ان لوگوں سے نقصان اٹھانے کے خوف سے عقائد کو پوشیدہ رکھنا کی ہے - یعنی اہل سنت سے ، جیسا کہ عام طور پر ایسا ہوتا ہے جب وہ اس اصطلاح کو استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بظاھر اہل سنت کی (جس کو وہ باطل سمجھتے ہیں) کی پیروی کرتے ہیں اور رافضی مذہب کو چھپاتے ہیں ، جسے وہ سچا سمجھتے ہیں۔ لہذا کچھ سنیوں کا خیال ہے کہ جو لوگ اس عقیدہ پر قائم ہیں وہ منافقوں سے بھی بدتر ہیں ، اور وہ خوف کے مارے مسلمان ہونے کا ظاہری مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کے معاملے میں ، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ چھپا رہے ہیں وہ حق ہے ، اور یہ کہ ان کا راستہ رسولوں اور آئمہ کا راستہ ہے۔أستغفر الله
"أصول مذهب الشيعة الإمامية" (2/ 805)
ماخوز