Pakistani1947
Chief Minister (5k+ posts)
امت مسلمہ ایک قوم ہے اور اس قوم کا ایک بھی قابل اعتماد فرد چاند دیکھنے کی گواہی دے دے وہ تمام امت کے لیے کافی ہے مثال کے طور پر کوئی مسلمان آسٹریلیا سے گواہی دیتا ہے کہ چاند نظر آ گیا ہے تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ جیسے ہی ان کے علاقے میں صبح نمودار ہوتی ہے وہ عید کی نماز کا اہتمام کریں
پہلے مواصلاتی نظام ایسا نہ تھا جیسے آج ہے لہذا چھوٹ تھی- مثال کے طور پر پہلے امریکا میں رہنے والی لڑکی کی ٹیلیفونک نکاح پاکستان میں رہنے والے لڑکے سے بیک وقت قائم ہو سکتا ہے اور علماء اسے تسلیم کرتے ہیں، حوالہ، باوجود اسکے کہ پہلے زمانے میں یہ ممکن نہ تھا
درحقیقت اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو یہ اجازت ہی نہیں کہ وہ انگریز کی کھنچی ہوئی ’’مقدس‘‘ لکیروں کو کسی بھی بنیاد پر مٹانے کی جسارت کر سکیں۔ استعمار نے اس کی اجازت نہیں دے رکھی کہ ان کے ایجنٹ مسلمانوں میں کسی بھی قسم کی وحدت کو پروان چڑھنے دیں۔ اس کا حکم لارڈ کرزن نے خلافت کے انہدام کے بعد اپنی مشہور تقریر میں دیا تھا۔ وہ کہتا ہے: ’’ہمیں ہر اس چیز کو ٹھکانے لگا دینا چاہئے جو مسلمانوں کی نسل کے درمیان کسی بھی قسم کا اسلامی اتحاد پیدا کرتی ہو۔ جیسا کہ ہم پہلے ہی خلافت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ لہذا ہمیں یہ کوشش کرنا چاہئے کہ مسلمان میں دوبارہ اتحاد پیدا نہ ہو سکے، نہ فکری اتحاد نہ تمدنی اتحاد‘‘۔
آئیے اب نظر ڈالتے ہیں ان دلائل پر جو رمضان اور عید کے چاند کی روئیت کے بارے میں قرآن و سنت میں وارد ہوئے ہیں:
۰ حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ
’’اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے رکھو اور اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے افطار کر لو، اگر تم پر بادل چھائے ہوں تو ۳۰ دنوں کی گنتی پوری کر لو‘‘ (صحیح بخاری - 1909 islam360)۔
O حدیث میں صُومُوا، أَفْطِرُوا اور لِرُؤْيَتِهِ کے الفاظ قابل غور ہیں
O ’’صُومُوا‘‘ اور ’’أَفْطِرُوا‘‘ جمع کے صیغے ہیں جو تمام مسلمانوں کو محیط ہیں۔ یعنی تم سب مسلمان روزہ رکھو اور افطار کرو۔
O لفظ ’’لِرُؤْيَتِهِ‘‘ کا لفظی معنی ہے ’’اس کے دیکھے جانے پر‘‘۔ واضح رہے کہ یہ حدیث تمام مسلمانوں کو فرداً فرداً چاند دیکھنے کا حکم نہیں دیتی بلکہ کسی اور کے چاند دیکھنے کو کافی قرار دیتی ہے۔
O چنانچہ حدیث کا مطلب ہے کہ چاند کے دیکھے جانے پر تمام مسلمان روزے شروع کریں یعنی رمضان شروع کریں اور تمام مسلمان روزہ رکھنا چھوڑ دیں یعنی عید کریں
O یہ حدیث رمضان کی شروعات اور اختتام کو چاندکے دیکھے جانے کے ساتھ منسلک کرتی ہے جبکہ اس بات کی کوئی تخصیص نہیں کرتی کہ یہ چاند کون دیکھے۔ وہ شخص اچھا مسلمان ہو یا کافر وغیرہ۔ اس کی تخصیص اگلی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔
۰ امام سرخسیؒ نے المبسوط میں ابن عباسؓ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے: ’’مسلمانوں نے صبح روزہ نہ رکھا کیونکہ انہیں چاند نظر نہ آیا۔ پھر ایک بدو پہنچا اور اس بات کی شہادت دی کہ اس نے چاند دیکھا ہے۔ تو رسول اللہ ا نے فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ بدو نے کہا: ہاں! آپ ا نے فرمایا: اللہ اکبر!تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے۔ پس آپ ا نے روزہ رکھا اور تمام لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ‘‘ ۔ اس حدیث کو ابو داؤدؒ نے بھی ابن عباسؓ سے مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے (سنن ابو داؤد حدیث نمبر ۲۳۳۳)۔
O آپ ﷺ نے ایک اعرابی کی رویت کو، جسے آپ ﷺ شاید جانتے بھی نہ تھے، قبول کیا جس نے مدینہ کے باہر چاند دیکھا تھا
O یہ حدیث اپنے علاقے سے باہر چاند نظر آنے کے حکم کو بیان کرتی ہے کیونکہ وہ بدو مدینہ کے باہر سے آیا تھا
O آپ ﷺ نے اس کی رؤیت کو قبول کرنے کی محض ایک شرط لگائی یعنی کہ آیا کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں
O مندرجہ بالا دونوں حدیث کو جوڑ کر حکم یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی بھی مسلمان چاند کے دیکھے جانے کی گواہی دے دے تو اس کی گواہی معتبر سمجھی جائیگی اور تمام مسلمانوں پر فرض ہو جائے گا کہ وہ اس کے مطابق رمضان کی شروعات اور اختتام کریں
O رہی بات یہ کہ وہ اگر جھوٹ بول رہا ہو تو گناہ کا وبال اس کے سر ہوگا اور ہم اللہ کے ہاں حکم شرعی پر چلنے کی وجہ سے سرخرو ہوں گے
O اس حدیث میں رسول اللہﷺ کا یہ کہنا کہ ’’تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے‘‘ قابل ذکر ہے اور اس سے رو گردانی نہیں کی جانی چاہئے رمضان کے مسئلے کی وضاحت کے بعد عید کے دن کے مسئلے کی وضاحت بھی ضروری ہے : جیسا کہ رمضان کے آغاز کا فیصلہ چاند نظر آنے پر ہوتا ہے اسی طرح عید کاانحصار بھی چاند کے نظر آنے پر ہے۔ اس سے متعلق ابوہریرہؓ نے رسول اللہ ﷺسے یہ حدیث روایت کی ہے : ’’رسول اللہ ﷺنے دو دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے : عیدالاضحیٰ اور عید الفطرکے دن‘ ‘(بخاری و مسلم2672)۔
یہ حدیث درست عید کا دن متعین کرنے کو انتہائی اہم مسئلہ بنا دیتی ہے۔ آئیے اب عید سے متعلق احادیث کا مطالعہ کریں:
O رمضان کے آخری دن لوگوں میں ( چاند کی رویت پر ) اختلاف ہو گیا، تو دو اعرابی آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ انہوں نے کل شام میں چاند دیکھا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو افطار کرنے اور عید گاہ چلنے کا حکم دیا۔‘‘(سنن ابو داؤد ۔2339 islam360)۔۔
لہٰذا اگر مسلمانوں کو اپنے خطے میں چاند نظر نہ آئے اور وہ رمضان کو جاری رکھے ہوئے ہوں لیکن بعد میں انہیں یہ پتہ چلے کہ کسی اور خطے میں چاند نظر آ چکا ہے، تو ان پر لازم ہے کہ وہ روزہ توڑ دیں ۔ ان واضح دلائل کی بنیاد پر فقہائے حنفی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ اختلاف مطلع کا کوئی اعتبار نہیں، فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’درمختار‘ میں درج ہے ؛’’مطلع مختلف ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اگر مغربی ممالک والے چاند دیکھ لیں تو مشرقی ممالک کو اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔‘‘(جلد اول، صفحہ 149)۔ احناف کی دیگر کتابوں جیسے فتاویٰ عالمگیری، فتح القدیر، بحرالرائق، طحاوی، زیلعی وغیرہ میں بھی یہی درج ہے۔ مالکی اور حنبلی فقہ کا بھی اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ علامہ شامی لکھتے ہیں کہ ’’اختلاف مطلع کے غیر معتبر ہونے پر ہمارا بھی اعتبار ہے اور مالکیوں اور حنابلہ کا بھی۔‘‘ (شامی جلد4، صفحہ 105)۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں: اگر لوگ رمضان سمجھ کر عید الفطر کے دن روزہ رکھ رہے ہوں اور پھر ان تک قطعی ثبوت پہنچ جائے کہ رمضان کا نیا چاند ان کے رمضان شروع کرنے ایک دن پہلے دیکھ لیا گیا تھا اور اب وہ (درحقیقت) اکتیسویں )۳۱) دن میں ہیں، تو انہیں اس دن کا روزہ توڑ لینا چاہئے، چاہے جس وقت بھی ان تک یہ خبر پہنچے۔‘‘ (موطا، کتاب ۱۸، نمبر ۴۔۱۔۱۸) جہاں تک شافعیوں کا تعلق ہے تو وہ ایک رائے پر متفق نہیں جیسا کہ علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں کہ: ’’ ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ کسی ایک جگہ چاند کا نظر آنا تمام روئے زمین کو شامل ہے۔‘‘(شرح صحیح مسلم، جلد اول، صفحہ 348) ابن تیمیہ ؒ الفتاویٰ جلد پنجم صفحہ ۱۱۱ پر لکھتے ہیں: ’’ایک شخص جس کو کہیں چاند کے دیکھنے کا علم بروقت ہو جائے تو وہ روزہ رکھے اور ضرور رکھے، اسلام کی نص اور سلف صالحین کا عمل اسی پر ہے۔ اس طرح چاند کی شہادت کو کسی خاص فاصلے میں یا کسی مخصوص ملک میں محدود کر دینا عقل کے بھی خلاف ہے اور اسلامی شریعت کے بھی‘‘۔
(والله أعلم)
پہلے مواصلاتی نظام ایسا نہ تھا جیسے آج ہے لہذا چھوٹ تھی- مثال کے طور پر پہلے امریکا میں رہنے والی لڑکی کی ٹیلیفونک نکاح پاکستان میں رہنے والے لڑکے سے بیک وقت قائم ہو سکتا ہے اور علماء اسے تسلیم کرتے ہیں، حوالہ، باوجود اسکے کہ پہلے زمانے میں یہ ممکن نہ تھا
درحقیقت اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو یہ اجازت ہی نہیں کہ وہ انگریز کی کھنچی ہوئی ’’مقدس‘‘ لکیروں کو کسی بھی بنیاد پر مٹانے کی جسارت کر سکیں۔ استعمار نے اس کی اجازت نہیں دے رکھی کہ ان کے ایجنٹ مسلمانوں میں کسی بھی قسم کی وحدت کو پروان چڑھنے دیں۔ اس کا حکم لارڈ کرزن نے خلافت کے انہدام کے بعد اپنی مشہور تقریر میں دیا تھا۔ وہ کہتا ہے: ’’ہمیں ہر اس چیز کو ٹھکانے لگا دینا چاہئے جو مسلمانوں کی نسل کے درمیان کسی بھی قسم کا اسلامی اتحاد پیدا کرتی ہو۔ جیسا کہ ہم پہلے ہی خلافت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ لہذا ہمیں یہ کوشش کرنا چاہئے کہ مسلمان میں دوبارہ اتحاد پیدا نہ ہو سکے، نہ فکری اتحاد نہ تمدنی اتحاد‘‘۔
آئیے اب نظر ڈالتے ہیں ان دلائل پر جو رمضان اور عید کے چاند کی روئیت کے بارے میں قرآن و سنت میں وارد ہوئے ہیں:
۰ حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ
’’اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے رکھو اور اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے افطار کر لو، اگر تم پر بادل چھائے ہوں تو ۳۰ دنوں کی گنتی پوری کر لو‘‘ (صحیح بخاری - 1909 islam360)۔
O حدیث میں صُومُوا، أَفْطِرُوا اور لِرُؤْيَتِهِ کے الفاظ قابل غور ہیں
O ’’صُومُوا‘‘ اور ’’أَفْطِرُوا‘‘ جمع کے صیغے ہیں جو تمام مسلمانوں کو محیط ہیں۔ یعنی تم سب مسلمان روزہ رکھو اور افطار کرو۔
O لفظ ’’لِرُؤْيَتِهِ‘‘ کا لفظی معنی ہے ’’اس کے دیکھے جانے پر‘‘۔ واضح رہے کہ یہ حدیث تمام مسلمانوں کو فرداً فرداً چاند دیکھنے کا حکم نہیں دیتی بلکہ کسی اور کے چاند دیکھنے کو کافی قرار دیتی ہے۔
O چنانچہ حدیث کا مطلب ہے کہ چاند کے دیکھے جانے پر تمام مسلمان روزے شروع کریں یعنی رمضان شروع کریں اور تمام مسلمان روزہ رکھنا چھوڑ دیں یعنی عید کریں
O یہ حدیث رمضان کی شروعات اور اختتام کو چاندکے دیکھے جانے کے ساتھ منسلک کرتی ہے جبکہ اس بات کی کوئی تخصیص نہیں کرتی کہ یہ چاند کون دیکھے۔ وہ شخص اچھا مسلمان ہو یا کافر وغیرہ۔ اس کی تخصیص اگلی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔
۰ امام سرخسیؒ نے المبسوط میں ابن عباسؓ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے: ’’مسلمانوں نے صبح روزہ نہ رکھا کیونکہ انہیں چاند نظر نہ آیا۔ پھر ایک بدو پہنچا اور اس بات کی شہادت دی کہ اس نے چاند دیکھا ہے۔ تو رسول اللہ ا نے فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ بدو نے کہا: ہاں! آپ ا نے فرمایا: اللہ اکبر!تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے۔ پس آپ ا نے روزہ رکھا اور تمام لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ‘‘ ۔ اس حدیث کو ابو داؤدؒ نے بھی ابن عباسؓ سے مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے (سنن ابو داؤد حدیث نمبر ۲۳۳۳)۔
O آپ ﷺ نے ایک اعرابی کی رویت کو، جسے آپ ﷺ شاید جانتے بھی نہ تھے، قبول کیا جس نے مدینہ کے باہر چاند دیکھا تھا
O یہ حدیث اپنے علاقے سے باہر چاند نظر آنے کے حکم کو بیان کرتی ہے کیونکہ وہ بدو مدینہ کے باہر سے آیا تھا
O آپ ﷺ نے اس کی رؤیت کو قبول کرنے کی محض ایک شرط لگائی یعنی کہ آیا کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں
O مندرجہ بالا دونوں حدیث کو جوڑ کر حکم یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی بھی مسلمان چاند کے دیکھے جانے کی گواہی دے دے تو اس کی گواہی معتبر سمجھی جائیگی اور تمام مسلمانوں پر فرض ہو جائے گا کہ وہ اس کے مطابق رمضان کی شروعات اور اختتام کریں
O رہی بات یہ کہ وہ اگر جھوٹ بول رہا ہو تو گناہ کا وبال اس کے سر ہوگا اور ہم اللہ کے ہاں حکم شرعی پر چلنے کی وجہ سے سرخرو ہوں گے
O اس حدیث میں رسول اللہﷺ کا یہ کہنا کہ ’’تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے‘‘ قابل ذکر ہے اور اس سے رو گردانی نہیں کی جانی چاہئے رمضان کے مسئلے کی وضاحت کے بعد عید کے دن کے مسئلے کی وضاحت بھی ضروری ہے : جیسا کہ رمضان کے آغاز کا فیصلہ چاند نظر آنے پر ہوتا ہے اسی طرح عید کاانحصار بھی چاند کے نظر آنے پر ہے۔ اس سے متعلق ابوہریرہؓ نے رسول اللہ ﷺسے یہ حدیث روایت کی ہے : ’’رسول اللہ ﷺنے دو دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے : عیدالاضحیٰ اور عید الفطرکے دن‘ ‘(بخاری و مسلم2672)۔
یہ حدیث درست عید کا دن متعین کرنے کو انتہائی اہم مسئلہ بنا دیتی ہے۔ آئیے اب عید سے متعلق احادیث کا مطالعہ کریں:
O رمضان کے آخری دن لوگوں میں ( چاند کی رویت پر ) اختلاف ہو گیا، تو دو اعرابی آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ انہوں نے کل شام میں چاند دیکھا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو افطار کرنے اور عید گاہ چلنے کا حکم دیا۔‘‘(سنن ابو داؤد ۔2339 islam360)۔۔
لہٰذا اگر مسلمانوں کو اپنے خطے میں چاند نظر نہ آئے اور وہ رمضان کو جاری رکھے ہوئے ہوں لیکن بعد میں انہیں یہ پتہ چلے کہ کسی اور خطے میں چاند نظر آ چکا ہے، تو ان پر لازم ہے کہ وہ روزہ توڑ دیں ۔ ان واضح دلائل کی بنیاد پر فقہائے حنفی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ اختلاف مطلع کا کوئی اعتبار نہیں، فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’درمختار‘ میں درج ہے ؛’’مطلع مختلف ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اگر مغربی ممالک والے چاند دیکھ لیں تو مشرقی ممالک کو اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔‘‘(جلد اول، صفحہ 149)۔ احناف کی دیگر کتابوں جیسے فتاویٰ عالمگیری، فتح القدیر، بحرالرائق، طحاوی، زیلعی وغیرہ میں بھی یہی درج ہے۔ مالکی اور حنبلی فقہ کا بھی اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ علامہ شامی لکھتے ہیں کہ ’’اختلاف مطلع کے غیر معتبر ہونے پر ہمارا بھی اعتبار ہے اور مالکیوں اور حنابلہ کا بھی۔‘‘ (شامی جلد4، صفحہ 105)۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں: اگر لوگ رمضان سمجھ کر عید الفطر کے دن روزہ رکھ رہے ہوں اور پھر ان تک قطعی ثبوت پہنچ جائے کہ رمضان کا نیا چاند ان کے رمضان شروع کرنے ایک دن پہلے دیکھ لیا گیا تھا اور اب وہ (درحقیقت) اکتیسویں )۳۱) دن میں ہیں، تو انہیں اس دن کا روزہ توڑ لینا چاہئے، چاہے جس وقت بھی ان تک یہ خبر پہنچے۔‘‘ (موطا، کتاب ۱۸، نمبر ۴۔۱۔۱۸) جہاں تک شافعیوں کا تعلق ہے تو وہ ایک رائے پر متفق نہیں جیسا کہ علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں کہ: ’’ ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ کسی ایک جگہ چاند کا نظر آنا تمام روئے زمین کو شامل ہے۔‘‘(شرح صحیح مسلم، جلد اول، صفحہ 348) ابن تیمیہ ؒ الفتاویٰ جلد پنجم صفحہ ۱۱۱ پر لکھتے ہیں: ’’ایک شخص جس کو کہیں چاند کے دیکھنے کا علم بروقت ہو جائے تو وہ روزہ رکھے اور ضرور رکھے، اسلام کی نص اور سلف صالحین کا عمل اسی پر ہے۔ اس طرح چاند کی شہادت کو کسی خاص فاصلے میں یا کسی مخصوص ملک میں محدود کر دینا عقل کے بھی خلاف ہے اور اسلامی شریعت کے بھی‘‘۔
(والله أعلم)
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/8BvRpNV/image.jpg
Last edited: