jani1
Chief Minister (5k+ posts)

اللہ بھلا کرے۔۔آخری حصہ۔۔(اک سبق آموزسفر نامہ)۔
تحریر:جانی
دسمبر۲۰، ۲۰۱۸۔
اگلی صُبح ہم پلان کے مطابق جلدی نکلے، ۔ اور مُختلف خوبصورت پہاڑوں وڈھلانوں سے دریا کے کنارے گزرتے ہوئےمانسہرہ پہنچے، جہاں ہمیں ناشتہ کرایا گیا۔جو تقریبا نو سے دس بجے کے درمیان تھا۔۔مگر ۔ راستے بھر ایک اور فکر کا ساتھ رہا ، فکر تھی واپسی کی، ۔۔ہمیں نہیں تھا معلوم کہ کب واپسی ہوگی اس لیئے،کراچی سے آتے ہوئے ہم نے واپسی کی کوئی کسی قسم کی بکنگ نہیں کرائی تھی۔۔
اللہ بھلا کرے۔۔ میرے دوست کا، ۔ جو افسر ہوکے بھی نہیں دکھتا، مگر تعلقات ہے ہر کسی سے رکھتا۔۔ اپنے دو چار الگ الگ جونیئرز کو فون ملایا اور ہماری ٹکٹ ہوگئی، ایک نجی ائیرلائن میں۔۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ ہماری فلائیٹ تھی رات نوبجے اور ہم پہنچے تھےدن کے دو بجے۔۔مطلب ایک بار پھر اسلام آباد تھا اور ہم تھے، ۔ جس میں کم از کم چار گھنٹوں کو کل کرنا تھا۔۔جیسا کہ میں بتا چکا کہ میرا دوست ایک تعلقاتی بندہ ہے، اس کے دو چار سابقہ کولیگ یہاں بھی تھے، اس لیئے سوچھا انہیں بُلوایا جائے، ۔اور مقام تھا سینچورین مال۔۔ اگرچہ نام بڑا ہے۔۔ مگر یقین مانیئے۔۔ کہ تھکاوٹ تھی یا، مالوں سے اس دل کی بھراوٹ۔۔کہ اس مال نے زیادہ مُتاثر نہ کیا۔۔
اللہ بھلا کرے ۔۔وہ دوست آگئے۔۔مگر تھوڑی دیر سے۔۔اور پھرگپ شپ بھی لگی۔یہاں تک کہ ہم فلائیٹ کے لیئے لیٹ ہوگئے۔۔کریم سروس کو بُلوایا۔۔ مگر ۔۔انہوں نےکچھ دیر انتظار کرواکے نہ آنے کا کہا، ۔۔میرے دوست کے دوستوں میں سے ایک نے ایک کالی پیلی ٹیکسی رُکوائی۔۔ اور خلاف توقع خود بھی پھنس پھنسا کر بیٹھ گئے۔۔ان کے بیٹھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ انہیں ایئر پورٹ جانے کے شارٹ کٹ معلوم تھے،۔۔ جب مین روڈ ختم ہوا۔۔ تب بھی ایئر پورٹ کی مین بلڈنگ یا ٹرمینل تک جانے کے لیےکوئی ساتھ کلومیٹر کا راستہ باقی تھا۔۔اس دوران ٹیکسی والے بابے کی نماز چھوٹ جانے پر بار بار فریاد نے الگ پریشانی میں ڈالا۔۔اور دل میں سوچھتے رہے اگر نماز کا اتنا ہی خیال تھا تو سواری اُٹھائی ہی کیوں۔۔بحرحال ہمیں مین گیٹ پر چھوڑ کر وہ ایک طرف کو نکل گئے اور ہم ، ہمارے نیئے نویلے اسلام آباد ایئر پورٹ کی طرف۔۔ جو نیا نویلا کیا تھا کہ ایک جھمیلا تھا۔۔ہم بھاگ کے گئے کہ اندرون ملک فلائیٹ روانگی والا گیٹ مل جائے۔۔ مگر ایسے کیسے۔۔
اللہ بھلا کرے ۔۔ ان کا جنہوں نے یہ ایئر پورٹ جلد بازی یا شوبازی میں کھلواتو لیا۔۔ مگر ابھی بہت کچھ باقی تھا۔۔ نیچھے سے اوپر اور پھر نیچھے کرتے بالآخر دیوانوں کو ان کی منزل مل گئی۔۔ اور ہم جہاز میں بیٹھ گئے۔۔
کراچی پہنچے تو سامان کے بیلٹ کی جگہ پر ایک آخری جھک جھک کا سامنا کرنا پڑا۔۔وہ یہ تھا کہ۔۔ جب ہم بیلٹ کے پاس پہنچے تو مجھے ایک لاوارث سی ٹرالی نظر آئی۔۔ جس میں سامان لادھا جاتا ہے۔۔ میں نے اس پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ۔۔ ایک دیسی بُوڑھاو ، بُروسلی کی طرح پُرتی سے مڑا ، اور کہا۔۔ دس از مائن۔۔آئے ایم ہولڈنگ اٹ۔۔ یعنی یہ میری ہے ۔۔یہ سُننا تھا کہ میں پیچھے ہٹا اور دونوں ہاتھ ہوا میں لہرادیے۔۔ کہ لو میاں اپنی چیز۔۔
مگر ۔اللہ بھلا کرے ۔۔ اس دیسی انگریز کا جو اپنی انگریجی شلوار قمیض والے کو پینڈُو سمجھ کر نکالنے پہ تُل گیا۔۔اور مزید گویا ہوا۔۔ اٹس ناٹ فیئر ہاں۔۔شاید اب میرے چار دن کی تھکاوٹ کو نکالنے کا وقت تھا۔۔میں نے دو چار ڈونلڈ ٹرمپانہ انداز والے جملے اس پر کسے۔۔ تو اس کا دماغ کسی پرچی والے کی طرح ٹھکانے آیا۔۔ مگر میرا دوست مصر تھا کہ غلطی میری تھی۔۔ اس لیئے مجھے معافی مانگنی چاہیئے تھی۔۔ جس پر اسے بھی آڑے ہاتھوں لیا۔۔ مگر دومنٹ میں کراچی ایئرپورٹ سے نکلنے والے شیشے کے سلائیڈنگ ڈور پر نظر پڑی تو بے ساختہ ہنسہ آئی۔۔ بلکہ قہقہہ لگایا کہ۔۔ کیا کمال کا سفر تھا۔۔ کہ کراچی پہنچنے تک ہم بس ایک دوسرے کے گریبان تک نہیں پہنچے باقی سب کچھ کہہ و کر ڈالا۔۔ جس میں اکثر میری طرف سے شرارتیں ہوتی تھیں۔ اور اس بے چارے کا صبر۔۔
اللہ بھلا کرے اس کا بھی کہ وہ سمجھ گیا ۔ اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کی چھوٹی و موٹی باتوں کو درگزر کردیا۔۔اس سفر نامے میں سبق کیا ملا۔۔ اگر تو آپ کوئی بہت بڑے سبق کی توقع لیئے پچھلے تین حصوں سے اس سفر نامے سے چمٹے ہوئے ہیں تو ۔۔ اپنی توقعات اور خیالات کے ساتھ دل کو بھی تھام لیجیئے۔۔ کہ سبق تو بیچ بیچ میں بیان ہوچکا۔۔ اب یہ تو آپ پر ہے کہ کس بات کو سبق کے طور پر لیں اور کس کو بک بک کے طور پر۔۔ مگر ہاں۔۔ اتنا ضرور ہے کہ۔۔جب بھی شمال کی طرف نکلیں ۔۔ تو کھبی بھی اس دھوکے میں نہ آئیں کہ آپ چار دنوں میں پورا شمال دیکھ آئیں گے۔۔ کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں۔۔اور اگر دیکھ بھی لیں گے تو وہ بس گاڑی کی کھڑکی سے دیکھنا ہوگا۔۔یعنی سفر ہی سفر۔۔
اللہ بھلا کرے۔۔ جھیل سیفُ الملوک کا۔۔ جو اس قصے میں وہ واحد جگہ تھی جہاں ہم دونوں دوست بغیر گائیڈ کے گئے۔۔ اور تھوڑا انجوائے بھی کیا۔۔جیپ کے سفر کی کی تکالیف کے باوجود۔۔ جب ہمیں چار گھنٹے فارغ مل پائے تھے۔۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ۔ ہمیشہ ایک جگہ کا اتنخاب کریں۔۔اس کے لیئے گھر سے ہوم ورک کریں۔۔ آئی مین انٹرنیٹ پر۔۔ فون وغیرہ پر۔ اور وہاں چار چھ دن سکون سے گزاریں کھائیں پیئیں۔۔ سوئیں۔۔ اور اللہ کو یاد کریں۔۔اس میں زیادہ مزہ آئے گا۔۔ بنسبت تھوڑے عرصے میں زیادہ جگہیں دیکھنے کی لالچ سے۔۔۔آپ سب کی دعاوں کا طلبگار۔۔
Last edited: