ایجنسیوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون سازی،گھنٹی کون باندھے گا؟ انصار عباسی

1713349985110.png


ایجنسیوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون سازی کی سفارش، بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟

انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق فیض آباد دھرنا کمیشن نے حکومت سے کہا ہے کہ تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ایک قانونی نظام میں لایا جائے تاکہ ان کے کام کو منظم کیا جا سکے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ ماضی میں آئی ایس آئی اور آئی بی سمیت ملک کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون بنانے کی کچھ کوششیں اور متعدد مرتبہ مطالبات سامنے آتے رہے ہیں لیکن ایسا کبھی ہوا نہیں۔

رپورٹ کے مطابق اب فیض آباد دھرنا کمیشن پھر وہی تجویز پیش کر رہا ہے۔ کمیشن نے یہ مشاہدہ پیش کیا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کوئی قانون موجود نہیں، اور ساتھ ہی اس ضمن میں ضروری قانون سازی اور شرائط کار (ایس او پیز ) بنانے کی سفارش کی ہے۔

پاکستان اُن چند جمہوری ممالک میں شامل ہے جہاں انٹیلی جنس ایجنسیاں بلا روک ٹوک کام کرتی ہیں کیونکہ ان پر لگام ڈالنے یا ان کے اقدامات پر سوال پوچھنے یا کارکردگی پر سوال اٹھانے والا کوئی قانون موجود نہیں۔

ملک کی سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسیاں (آئی ایس آئی اور آئی بی) پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ا یگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے قائم کی گئی تھیں لیکن ان کے کام کاج کی نگرانی کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ فی الوقت یہ ایجنسیاں ایسے ایس او پیز کے تحت کام کرتی ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

ماضی میں مختلف اوقات پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قانون سازی کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کا معاملہ اٹھایا جاچکا ہے اور اس معاملے پر بحث بھی ہوئی ہے لیکن کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں اس وقت کے ڈی جی انٹیلی جنس بیورو ڈاکٹر شعیب سڈل نے قانون سازی کے حوالے سے اقدامات کیے تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک قانون کا مسودہ تیار کرکے حکومت کو پیش کیا تھا۔

یہ مسودہ انہوں نے مختلف ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کیلئے کی گئی قانون سازی کا جائزہ لینے کے بعد تیار کیا تھا۔ شعیب سڈل نے رضاکارانہ طور پر اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ ایک قانون کے ذریعے انٹیلی جنس بیورو کی پارلیمانی نگرانی ہونا چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں چند جمہوری ممالک نے اپنی ایجنسیوں کو بغیر کسی قانونی فریم ورک کے کام کیلئے چھوڑ دیا ہے۔ حتیٰ کہ جن ممالک میں پہلے آمریت تھی وہاں بھی انٹیلی جنس ایجنسیوں کیلئے اصلاحات کی گئی ہیں۔

عمر چیمہ کی دی نیوز میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، بہتر انداز سے کام کرنے والی جمہوریتیں پارلیمانی نگرانی کے بغیر کام نہیں کرتیں۔ ان ممالک میں امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اسپین، ناروے، لکسمبرگ، آسٹریلیا، بیلجیم، کینیڈا، نیدرلینڈ اور دیگر شامل ہیں,نیدرلینڈز نے تو اپنی فوجی انٹیلی جنس کو پارلیمانی نگرانی کے تابع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں بیشتر قانون سازی گزشتہ دو دہائیوں میں کی گئی، اور برطانیہ ایسے ممالک میں نمایاں ہے جنہوں نے 1989ء میں قانون سازی کا آغاز کیا تھا۔

برطانیہ نے 1989ء میں ایم آئی فائیو کیلئے قانون کو باضابطہ شکل دے کر اسے سیکورٹی سروس ایکٹ کا نام دیا۔ اس کے بعد 1994ء میں ایم آئی سکس کیلئے بھی قانون بناکر اسے انٹیلی جنس سروس ایکٹ کا نام دیا,قانونی حیثیت کا تقاضا ہے کہ سیکورٹی فورسز صرف قانون میں وضع کردہ اختیارات کے تحت کام کریں۔ دیگر ملکوں میں رائج طریقوں کے برعکس، برطانیہ نے غیر ملکی انٹیلی جنس آپریشنز کیلئے ایم آئی سکس کیلئے قانون سازی کی۔

انٹیلی جنس ضروریات کیلئے ریاستیں مختلف ادارہ جاتی انتظام کرتی ہیں۔ ترکی، اسپین، نیدرلینڈز اور بوسنیا ہرزیگووینا جیسے ممالک میں ملکی اور بیرونی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کا کام ایک ہی ایجنسی سے لیا جاتا ہے,دیگر ممالک مثلاً برطانیہ، پولینڈ، ہنگری اور جرمنی وغیرہ میں ملکی اور بیرونی انٹیلی جنس ضروریات کیلئے علیحدہ علیحدہ ایجنسیاں ہیں۔ کینیڈا واحد ملک ہے جہاں کوئی غیر ملکی خفیہ ایجنسی نہیں۔


تجزیہ کاروں نے کہا کہ حکومت فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن رپورٹ پر کچھ نہیں کرے گی،سویلین حکومت کا فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ میں جنرل فیض کو کلین چٹ دینا دلچسپ ہے،وفاقی حکومت اور وزیراعظم نے کبھی نہیں کہا کہ جنرل فیض حمید نے دستخط ان کی مرضی کیخلاف کیے تھے۔

تجزیہ کار ارشادبھٹی ،سلیم صافی ،ریما عمر اور عمر چیمہ نے اظہار خیال کیا۔ ارشاد بھٹی نے کہا کہ سویلین حکومت کا فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ میں جنرل فیض کو کلین چٹ دینا دلچسپ ہے، کچھ لوگ گنگناتے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئیں گے فیض حمید اینڈ کمپنی کو لگ پتا چل جائے گا اب انکوائری رپورٹ آگئی ہے، فیض آباد دھرنا ختم کرانے کیلئے کردار ادا کرنے پر اس وقت کی حکومت فوج کو سیلوٹ کررہی تھی،احسن اقبال معاہدے پر جنرل فیض حمید کے دستخط کیخلاف نہیں تھے، اگر احسن اقبال خلاف تھے تو کم از کم دستخط کرنے سے انکار ہی کردیتے،

جنرل فیض حمید حکومت اور آرمی چیف کے کہنے پر معاہدے کیلئے پھرتیاں دکھارہے تھے۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عموماً فوج سویلین حکومت کی مدد کرتی ہے، فیض آباد دھرنا جنرل فیض حمید کے دستخط کی وجہ سے موضوع بحث بن گیا، عمران خان کے دور حکومت میں ٹی ایل پی کے ساتھ بھی ایک معاہدہ ہوا تھا اس میں بھی جنرل فیض حمید کا بنیادی کردار تھا، اس معاملہ میں جنرل فیض حمید کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ معاہدے پر ان کے ساتھ وزراء کے دستخط بھی ہیں، وفاقی حکومت اور وزیراعظم نے کبھی نہیں کہا کہ جنرل فیض حمید نے دستخط ان کی مرضی کیخلاف کیے تھے۔​
 
Last edited by a moderator:

Mocha7

Minister (2k+ posts)
After the May 9 vandalism by PTI, political and democratic forces have little room left. Zardari and Sharif are not saints either.
 

Enlightened10

Minister (2k+ posts)
After the May 9 vandalism by PTI, political and democratic forces have little room left. Zardari and Sharif are not saints either.
There are strong evidences that 9 may was not done by Pti but it was done by Isi and Pdm. But there are bigger issues than 9 May. ON 9 MAY FOOJ PROVED THAT THEY CANNOT DEFEND CORE COMMANDER HOUSE BUT CAN ATTACK IT. BUT THEY CAN DEFEND HOUSE OF AN ORDINARY SSG SOLDIER AND CAN SEND A UNIT
 

Enlightened10

Minister (2k+ posts)
View attachment 7952

ایجنسیوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون سازی کی سفارش، بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟

انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق فیض آباد دھرنا کمیشن نے حکومت سے کہا ہے کہ تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ایک قانونی نظام میں لایا جائے تاکہ ان کے کام کو منظم کیا جا سکے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ ماضی میں آئی ایس آئی اور آئی بی سمیت ملک کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون بنانے کی کچھ کوششیں اور متعدد مرتبہ مطالبات سامنے آتے رہے ہیں لیکن ایسا کبھی ہوا نہیں۔

رپورٹ کے مطابق اب فیض آباد دھرنا کمیشن پھر وہی تجویز پیش کر رہا ہے۔ کمیشن نے یہ مشاہدہ پیش کیا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کوئی قانون موجود نہیں، اور ساتھ ہی اس ضمن میں ضروری قانون سازی اور شرائط کار (ایس او پیز ) بنانے کی سفارش کی ہے۔

پاکستان اُن چند جمہوری ممالک میں شامل ہے جہاں انٹیلی جنس ایجنسیاں بلا روک ٹوک کام کرتی ہیں کیونکہ ان پر لگام ڈالنے یا ان کے اقدامات پر سوال پوچھنے یا کارکردگی پر سوال اٹھانے والا کوئی قانون موجود نہیں۔

ملک کی سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسیاں (آئی ایس آئی اور آئی بی) پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ا یگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے قائم کی گئی تھیں لیکن ان کے کام کاج کی نگرانی کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ فی الوقت یہ ایجنسیاں ایسے ایس او پیز کے تحت کام کرتی ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

ماضی میں مختلف اوقات پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قانون سازی کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کا معاملہ اٹھایا جاچکا ہے اور اس معاملے پر بحث بھی ہوئی ہے لیکن کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں اس وقت کے ڈی جی انٹیلی جنس بیورو ڈاکٹر شعیب سڈل نے قانون سازی کے حوالے سے اقدامات کیے تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک قانون کا مسودہ تیار کرکے حکومت کو پیش کیا تھا۔

یہ مسودہ انہوں نے مختلف ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کیلئے کی گئی قانون سازی کا جائزہ لینے کے بعد تیار کیا تھا۔ شعیب سڈل نے رضاکارانہ طور پر اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ ایک قانون کے ذریعے انٹیلی جنس بیورو کی پارلیمانی نگرانی ہونا چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں چند جمہوری ممالک نے اپنی ایجنسیوں کو بغیر کسی قانونی فریم ورک کے کام کیلئے چھوڑ دیا ہے۔ حتیٰ کہ جن ممالک میں پہلے آمریت تھی وہاں بھی انٹیلی جنس ایجنسیوں کیلئے اصلاحات کی گئی ہیں۔

عمر چیمہ کی دی نیوز میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، بہتر انداز سے کام کرنے والی جمہوریتیں پارلیمانی نگرانی کے بغیر کام نہیں کرتیں۔ ان ممالک میں امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اسپین، ناروے، لکسمبرگ، آسٹریلیا، بیلجیم، کینیڈا، نیدرلینڈ اور دیگر شامل ہیں,نیدرلینڈز نے تو اپنی فوجی انٹیلی جنس کو پارلیمانی نگرانی کے تابع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں بیشتر قانون سازی گزشتہ دو دہائیوں میں کی گئی، اور برطانیہ ایسے ممالک میں نمایاں ہے جنہوں نے 1989ء میں قانون سازی کا آغاز کیا تھا۔

برطانیہ نے 1989ء میں ایم آئی فائیو کیلئے قانون کو باضابطہ شکل دے کر اسے سیکورٹی سروس ایکٹ کا نام دیا۔ اس کے بعد 1994ء میں ایم آئی سکس کیلئے بھی قانون بناکر اسے انٹیلی جنس سروس ایکٹ کا نام دیا,قانونی حیثیت کا تقاضا ہے کہ سیکورٹی فورسز صرف قانون میں وضع کردہ اختیارات کے تحت کام کریں۔ دیگر ملکوں میں رائج طریقوں کے برعکس، برطانیہ نے غیر ملکی انٹیلی جنس آپریشنز کیلئے ایم آئی سکس کیلئے قانون سازی کی۔

انٹیلی جنس ضروریات کیلئے ریاستیں مختلف ادارہ جاتی انتظام کرتی ہیں۔ ترکی، اسپین، نیدرلینڈز اور بوسنیا ہرزیگووینا جیسے ممالک میں ملکی اور بیرونی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کا کام ایک ہی ایجنسی سے لیا جاتا ہے,دیگر ممالک مثلاً برطانیہ، پولینڈ، ہنگری اور جرمنی وغیرہ میں ملکی اور بیرونی انٹیلی جنس ضروریات کیلئے علیحدہ علیحدہ ایجنسیاں ہیں۔ کینیڈا واحد ملک ہے جہاں کوئی غیر ملکی خفیہ ایجنسی نہیں۔


تجزیہ کاروں نے کہا کہ حکومت فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن رپورٹ پر کچھ نہیں کرے گی،سویلین حکومت کا فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ میں جنرل فیض کو کلین چٹ دینا دلچسپ ہے،وفاقی حکومت اور وزیراعظم نے کبھی نہیں کہا کہ جنرل فیض حمید نے دستخط ان کی مرضی کیخلاف کیے تھے۔

تجزیہ کار ارشادبھٹی ،سلیم صافی ،ریما عمر اور عمر چیمہ نے اظہار خیال کیا۔ ارشاد بھٹی نے کہا کہ سویلین حکومت کا فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ میں جنرل فیض کو کلین چٹ دینا دلچسپ ہے، کچھ لوگ گنگناتے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئیں گے فیض حمید اینڈ کمپنی کو لگ پتا چل جائے گا اب انکوائری رپورٹ آگئی ہے، فیض آباد دھرنا ختم کرانے کیلئے کردار ادا کرنے پر اس وقت کی حکومت فوج کو سیلوٹ کررہی تھی،احسن اقبال معاہدے پر جنرل فیض حمید کے دستخط کیخلاف نہیں تھے، اگر احسن اقبال خلاف تھے تو کم از کم دستخط کرنے سے انکار ہی کردیتے،

جنرل فیض حمید حکومت اور آرمی چیف کے کہنے پر معاہدے کیلئے پھرتیاں دکھارہے تھے۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عموماً فوج سویلین حکومت کی مدد کرتی ہے، فیض آباد دھرنا جنرل فیض حمید کے دستخط کی وجہ سے موضوع بحث بن گیا، عمران خان کے دور حکومت میں ٹی ایل پی کے ساتھ بھی ایک معاہدہ ہوا تھا اس میں بھی جنرل فیض حمید کا بنیادی کردار تھا، اس معاملہ میں جنرل فیض حمید کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ معاہدے پر ان کے ساتھ وزراء کے دستخط بھی ہیں، وفاقی حکومت اور وزیراعظم نے کبھی نہیں کہا کہ جنرل فیض حمید نے دستخط ان کی مرضی کیخلاف کیے تھے۔​
[COLOR=var(--YLNNHc)]انصار عباسی منافق خود ایجنسیوں کا سب سے بڑا ٹاؤٹ ہے۔[/COLOR]​
 

Mocha7

Minister (2k+ posts)
there is no room since 1948 , if you think otherwise you are either biased or foolish
Who said that? When Niazi was sitting on the agencies sponsored dharna, Zardari extended his support to the government and agencies/ GHQ pressure and PTI failed at that time. The reason why Zardari supported the PMLN government is a separate issue, but only dumbos believe that the establishment has always been this influential.
 

Fawad Javed

Minister (2k+ posts)
Who said that? When Niazi was sitting on the agencies sponsored dharna, Zardari extended his support to the government and agencies/ GHQ pressure and PTI failed at that time. The reason why Zardari supported the PMLN government is a separate issue, but only dumbos believe that the establishment has always been this influential.
dude, get your facts straight Couple of generals were supporting him on their own, but not the establishment