Annie
Moderator
کچھ ماہ پہلے روٹین کی طرح ایک میٹنگ اٹینڈ کی ، میٹنگ کے شرکاء میں زیادہ تر اعلی تعلیم یافتہ گورے، سکھ اور مسلمان ممبرز بھی شامل تھے ، وہاں ایک سچا عدالتی ڈیڈ لاک کیس سٹڈی شیئر کیا گیا ، کیس کے ڈیڈ لاک ہونے سے وہ دلچسب تو تھا ہی لیکن میٹنگ کے ممبرز کو اس کا حل دینے کے لیے پانڈر (سوچ بچار ) کی دعوت بھی دی گئی ،کہ اس کا کیا حل ہو اس پواینٹ پر وہاں سکوت طاری تھا ہر شخص گُم سُم تھا کیوں کے اسکا کوئی فیصلہ نظر نہ آتا تھا، وہ سچا کیس سٹڈی دلچسب ہونے کی وجہ سے یہاں شیئر کیا جا رہا ہے اس خیال کے ساتھ کے ہو سکتا ہے یہ عدالتی کیس پڑھنے والوں کو بھی پانڈر کرنے پر مجبور کرے
تنازع دو مسافروں کا : ایک سچا عدالتی ڈیڈ لاک کیس
کئی صدیوں سے پہلے کے دور میں دو مسافر کسی منزل کی جانب سفر پرگامزن تھے ، دونوں کی آپس میں اچھی سلام دعا ہو گئی ، اپنے سفری سامان کے ساتھ انکے پاس اپنے کھانے کا بھی بندوبست تھا پہلے مسافر کے پاس کھانے کو تین روٹیاں تھیں جبکے دوسرے مسافر کے پاس پانچ روٹیاں تھیں ... انکا سفر ایک دوسرے کی صحبت میں اچھا گزر رہا تھا ، ابھی وہ راستے میں ہی تھے کے انھیں ایک اور اجنبی مسافر ملا ، اسکی منزل کہیں اور تھی ، تیسرے مسافر کی بھی سلام دعا دونوں مسافروں سے ہوئی اور وہ تینوں آپس میں اچھے اخلاق اور حسن سلوک سے اپنا سفر جاری رکھے ہوۓ تھے ..اب دوپہر کو کھانے کا وقت ہوا ، پہلے دو مسافروں کے پاس تو کھانے کو روٹیاں تھیں لیکن تیسرے مسافر کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا . پہلے دو مسافروں نے مل بیٹھ کر کھانے کا کا ارادہ کیا دونوں نے اپنی اپنی روٹیاں وہیں دسترخوان بچھا کر رکھ دیں ساتھ میں انہوں نے خلوص دل سے تیسرے مسافر کو بھی کھانے میں دعوت دی ، سب روٹیاں دستر خوان پر تھیں تیسرا مسافر بھی دعوت ملنے پر اس کھانے میں شامل ہوا، بغیر کسی تفریق کے تینوں نے مل کر کھانا کھایا ، تیسرا مسافر ان دونوں کے خلوص سے انکا شکرگزار تھا ، تھوڑی دیر کے سفر کے بعد تیسرے اجنبی مسافر کو دوسری سمت میں اپنی منزل کو جانا تھا ، وہ مسافر وہاں سے دونوں مسافروں کو الوادع کہتے ہوۓ رخصت ہوتا ہے لیکن جانے سے پہلے وہ دونوں مسافروں کی فراخدلی اور حسن سلوک کے شکریہ کے طور پر دوسرے مسافر کو آٹھ درہم دیتا ہے اور کہتا ہے کے آپ یہ درہم آپس میں رکھ لیجئے گا...اسکے بعد وہ تیسرا مسافر رخصت ہو جاتا ہے ،
✮✮✮
دوسرا مسافر جسکو وہ آٹھ درہم دے کر جاتا ہے وہ خود پانچ درہم رکھتا ہے اور پہلے مسافر کو تین درہم دیتا ہے یہ کہتے ہوۓ کا تمہاری تین روٹیاں تھیں تم تین درہم رکھو میری پانچ روٹیاں تھیں میں پانچ درہم رکھوں گا ، اس پر پہلے مسافر کو سخت اعتراض تھا وہ کہتا تھا نہیں آٹھ درہم ہیں میں چار درہم لوں گا اور تم بھی چار درہم رکھو اس لیے کے ہم نے مل کر کھایا ہے علاوہ اجنبی مسافر نے یہ ہی کہا تھا تم دونوں آپس میں رکھ لینا
کچھ دیر پہلے جو واقفیت محض خلوص پر تھی جہاں کھانا بلکل بے غرض ہو کر آپس میں بانٹا گیا اب وہاں درہم آجانے پر ایک دم تنازع پیدا ہو گیا ، دوسرے مسافر کا موقف تھا میں چار درہم کیوں رکھوں میں پانچ درہم رکھوں گا کہ میری پانچ روٹیاں تھیں ، پہلا مسافر کہتا تھا میں تین درہم کیوں لوں میں چار درہم لوں گا کے آٹھ درہم برابر تقسیم ہونا چاہییں ، وہ تین درہم لینے پر تیار نہ تھا ، سارا فساد ایک درہم پر تھا نہ تو پہلا مسافر ایک درہم چھوڑھنے کو تیار تھا نہ ہی دوسرا مسافر.........یاد رہےاس دورمیں درہم کی کافی ویلیو تھی .. اور وہ کوئی معمولی رقم نہ تھی
کچھ دیر پہلے جو واقفیت محض خلوص پر تھی جہاں کھانا بلکل بے غرض ہو کر آپس میں بانٹا گیا اب وہاں درہم آجانے پر ایک دم تنازع پیدا ہو گیا ، دوسرے مسافر کا موقف تھا میں چار درہم کیوں رکھوں میں پانچ درہم رکھوں گا کہ میری پانچ روٹیاں تھیں ، پہلا مسافر کہتا تھا میں تین درہم کیوں لوں میں چار درہم لوں گا کے آٹھ درہم برابر تقسیم ہونا چاہییں ، وہ تین درہم لینے پر تیار نہ تھا ، سارا فساد ایک درہم پر تھا نہ تو پہلا مسافر ایک درہم چھوڑھنے کو تیار تھا نہ ہی دوسرا مسافر.........یاد رہےاس دورمیں درہم کی کافی ویلیو تھی .. اور وہ کوئی معمولی رقم نہ تھی
✮✮✮
فساد بڑھتا ہے اور معاملہ عدالت تک جاتا ہے .. سارا فتنہ ایک درہم کی ملکیت کا تھا ، اگر کسی عدالت کا قاضی فیصلہ کرتا ہے کے دوسرا مسافر پانچ درہم رکھ لے کے اسکی پانچ روٹیاں تھیں جبکے جس مسافر کی تین روٹیاں تھیں وہ تین درہم رکھے .. تو یہ فیصلہ اس مسافر کو قبول نہ تھا، وہ فیصلے کے خلاف اپیل کرتے ہوۓ یہ کیس اگلی عدالت میں لے جاتا ہے ... جب کوئی قاضی یہ فیصلہ کرتا کے دونوں مسافر آدھا آدھا آپس میں تقسیم کر کے چار چار درہم رکھیں تو پانچ روٹیوں والے مسافر کو یہ فیصلہ منظور نہ ہوتا ..وہ اس کے خلاف اس سے اوپر والی عدالت میں اپیل کر کے اپنا کیس لے جاتا- یوں ایک درہم پر نہ ختم ہونے والا تنازع تھا آخر کویہ ایک ڈیڈ لاک کیس بن گیا کیوں کے تیسرے مسافر کا کسی کو علم نہ تھا کے وہ کون تھا اور کہاں چلا گیا یا تو وہ فیصلہ کر دیتا کے کونسا مسافر کتنے درہم رکھےلیکن اسکو تلاش کرنا ناممکن تھا جو بھی فیصلہ ہونا تھا عدالت نے ہی کرنا تھا
اس پوائنٹ پر آکر میٹنگ میں دعوت دی گئی کے پانڈر کیجیے کے اس کیس کا کیا درست فیصلہ ہو سکتا ہے .. پانڈر کرنے کے باوجود سب شرکاء چپ تھے کے اسکا کوئی حل نظر نہیں آتا تھا جبکے کیس کئی عدالتوں تک لے جایا گیا تھا ..ہر عدالتی فیصلے کے باوجود ایک درہم کا جھگڑا اسی طرح موجود رہا
اس عدالتی ڈیڈلاک کیس کی کئی نچلی عدالتوں میں پیشی اور سماعت ہونے اور فیصلوں کو قبول نہ کیے جانے کے بعد اس کیس کی آخری منزل تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کی عدالت ..
.
اس پوائنٹ پر آکر میٹنگ میں دعوت دی گئی کے پانڈر کیجیے کے اس کیس کا کیا درست فیصلہ ہو سکتا ہے .. پانڈر کرنے کے باوجود سب شرکاء چپ تھے کے اسکا کوئی حل نظر نہیں آتا تھا جبکے کیس کئی عدالتوں تک لے جایا گیا تھا ..ہر عدالتی فیصلے کے باوجود ایک درہم کا جھگڑا اسی طرح موجود رہا
اس عدالتی ڈیڈلاک کیس کی کئی نچلی عدالتوں میں پیشی اور سماعت ہونے اور فیصلوں کو قبول نہ کیے جانے کے بعد اس کیس کی آخری منزل تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کی عدالت ..
✮✮✮
حضرت عمررضی اللہ عنہہ کی عدالت معمول کی طرح کیس کے شہرت پا جانے اور لوگوں کی دلچسبی رکھنے کے سبب کھچا کھچ بھری تھی
حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے دونوں فریقین کا مؤقف سنا .جنکا کہنا تھا ہم سب نے برابر کھانا کھایا اس کیس کا فیصلہ کیا جاۓ . سب سن کر کچھ ہی دیر میں آپ رضی اللہ عنہہ نے آخری فیصلہ کر دیا
آپکا فیصلہ تھا کے آٹھ درہم میں سے جس مسافر کی پانچ روٹیاں تھیں اسکو سات درہم ملیں گے اور جسکی تین روٹیاں تھیں اسکو صرف ایک درہم ملے گا
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کا یہ آخری فیصلہ میٹنگ میں شئیر کیا گیا اسکو سن کر میٹنگ روم میں ایک سناٹا چھا گیا ... جیسے سب ہی سن کر گم سم ہو گۓ ہوں وہاں موجود بڑے بڑے پڑھے لکھے انگریز بھی اس ذہانت ، فراست اور تدبر کی دھول کو بھی نہ پہنچ سکے ، جسکی بنیاد پر کیس کا آخری فیصلہ ہوا
: حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نےعدالت میں اپنے فیصلے کی کچھ یوں تفصیل بیان کی
چونکہ ٹوٹل روٹیاں آٹھ تھیں اور مسافر تین تھے..ایک روٹی کے تین حصے ہوں تو آٹھ روٹیوں کے چوبیس ٹکڑے بنتے ہیں ان چوبیس ٹکڑوں (حصوں ) کو تینوں میں تقسیم کیا جاۓ تو فی مسافر روٹی کے آٹھ ٹکڑے یا حصے آتے ہیں .. جس مسافر کی تین روٹیاں تھیں اسکی روٹیوں کے ٹوٹل نو حصے بنتے ہیں جس میں سے آٹھ تو اسنے خود کھا لیے ہیں اور اسکی روٹیوں میں سے صرف ایک حصہ ہی اجنبی مسافر کو ملا ، جبکے وہ مسافر جسکی پانچ روٹیاں تھیں اسکو بھی تینوں مسافروں میں برابر تقسیم کیا جاۓ تو پانچ روٹیوں کو تین سے ضرب دینے پر ٹوٹل پندرہ حصے بنتے ہیں اس میں سے آٹھ حصے اس نے خود کھاۓ اور بقیہ سات اجنبی مسافر نے کھاۓ اسلئے پانچ روٹیوں والے مسافر کو سات اور تین روٹیوں والے مسافر کو صرف ایک ہی درہم ملے گا
یہ وہ فیصلہ تھا کے اب فریقین کے پاس کسی اعتراض کی کوئی گنجائش نہ تھی یوں حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کی ذہانت اور تدبر سے ایک ڈیڈ لاک کیس کا فیصلہ ہوا
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام یونیورسٹیوں سے میتھ ، اکاونٹنگ ، یا اکنامکس کی ڈگریاں تو نہ رکھتے تھے لیکن انکی تربیت اور تعلیم نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سایہ مبارک میں جسطرح ہوئی اس سے ثابت ہوتا ہے آج کے دور کے ہارورڈ ، آکسفورڈ یا کیمبرج کے سکالرز اور جینیس بھی انکے سامنے کوئی حثیت نہیں رکھتے
✮✮✮
Last edited: