سائفر کیس: ایف آئی اے پراسیکیوٹر کے دئیے گئے ثبوت مذاق بن گئے

shahai1h1h1m1h.jpg

گزشتہ روز سائفر کیس میں پراسیکیوٹر نے لیکڈ آڈیو کا ثبوت پیش کیا اور کہا کہ عمران خان سمیت چار لوگوں کی لیکڈ آڈیو انٹرنیٹ پر موجود ہے جس میں کہا گیا کہ سائفر سے کھیلتے ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ لیکڈ آڈیو کو انٹرنیٹ پر کس نے پوسٹ کیا؟

جس پر پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ کسی نامعلوم کی جانب سے یہ آڈیو انٹرنیٹ پر ڈالی گئی،

ججز کے استفسار پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ اظہر نامی شخص کا ویریفائیڈ ٹویٹر اکاؤنٹ ہے جس پر آڈیو اپلوڈ کی گئی

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے ریمارکس نے ریمارکس دئیے کیا اس اظہر کو بلا کر پوچھا گیا؟ اس اظہر سے پوچھیں تو سہی کہ اس نے وزیراعظم آفس کی آڈیو کیسے Bug کر لی؟اگر بَگ کر لی تو کیا وہ اسے عدالت میں پیش کرنے کی جرات بھی کرے گا؟ یہ اظہر تو بہت کام کا آدمی ہے یہ تو اثاثہ ہے اور ہو سکتا ہے،اظہر نے وزیراعظم کے گھر سے وزیر خارجہ کے ساتھ گفتگو بَگ کر کے انٹرنیٹ پر لگا دی،

اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کہتے ہیں اظہر کو چھوڑ دیں لیکن جو اس نے کہا وہ بالکل درست ہے،کیا آپ انٹرنیٹ پر آنے والی ہر چیز کو درست مان لیتے ہیں؟ آپ نے انٹرنیٹ پر آنے والی چیز پر دس دس سال سزا دے دی ؟

اسکے بعدپی ٹی وی کے کیمرہ مین کو بطور گواہ لے آئے جس نے عمران خان کی 27 مارچ کی تاریخ ریکارڈ کی تھی، اس پر جسٹس گل اورنگزیب نے طنزیہ انداز میں سوال کیا کہ یہ آپکا سٹار گواہ ہے؟

ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ اس کیمرہ مین نے عمران خان کی تقریر ریکارڈ کی، کیمرہ مین نے بیان دیا کہ میں نے دیکھا عمران خان نے کاغذ لہرایا اور پھر اپنی جیب میں ڈال لیا۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے اس پر کہا کہ کیمرہ مین تو پھر اعظم خان سے بھی سٹار گواہ بن گیا جس نے سائفر دیکھ بھی لیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے جواب دیا کہ کیمرہ مین یہ کیسے کہہ سکتا ہے وہ تو بتا سکتا ہے کہ یہ ریکارڈنگ میں نے ہی کی ہے یا نہیں کی،

پھر وزارتِ خارجہ سے اقرا اشرف نامی گواہ کو سامنے لے آئے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹر وزارت خارجہ اقرا اشرف نے لکھا کہ یہ فائنل ٹرانسکرپٹ نہیں ہے، اقرا اشرف نے لکھا کہ مجھ سے ایف آئی اے نے جلدی میں یہ ٹرانسکرپٹ لکھوایا ، اقرا اشرف نے ایمانداری سے کام لیا ۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اقراء اشرف نے اپنے بیان میں لکھا کہ یہ میرا حتمی بیان نہیں، میں تو ایک غیرحتمی بیان پر انحصار نہیں کر سکتا، آپ کر سکتے ہیں؟

اس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ بولے،میرا کیس صرف اس ڈاکومنٹ پر انحصار نہیں کرتا ہے، میرے پاس اور بھی شواہد ہیں

بعدازاں ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے سائفر معاملے پر مختلف اخبارات کی خبروں کا حوالہ دینا شروع کردئیے۔

پراسکیوٹر کی جانب سے سائفر معاملے پر مختلف اخبارات کی خبروں کا حوالہ دینے پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا ان اخبارات کی خبروں سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔

جس پر پراسیکیوٹر بولے اخبارات کے اندر سیکریٹ معلومات کو لیک کیا گیا ہے ۔

جسٹس میاں گل نے استفسار کیا کونسی ایسی معلومات تھیں جو اخبارات میں لیک ہوئیں ۔

پراسیکیوٹر بولے گواہوں کے بیانات پر بات کرنے کے بعد اس بارے عدالت کو آگاہ کروں گا

 

wasiqjaved

Chief Minister (5k+ posts)
مجھے تو اتنا پتا ہے کہ جب کوئی دوسرا ملک ہمیں دھمکی دے رہا تھا تو عوام کا نمائندہ وزیر اعظم عمران خان ہمیں بتا رہا تھا کہ کیسے سائفر کو چھپایا جا رہا تھا.

کون چھپا رہا تھا؟ حرامی باجوہ!
GCZ9fUNX0AAXnqW