جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلہ،قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کا بوجھ اٹھانے سے انکا

jmanso11h.jpg

مفرور اور اشتہاری کو الیکشن لڑنے سے روکنے کی کوئی پابندی آئین میں ہے نہ قانون میں۔ عدالتیں اور ریٹرننگ افسران اپنے طور پر اضافی پابندیاں نہیں لگا سکتے، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ کا طاہر صادق کیس میں فیصلہ

جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کے حق پر کسی بھی قسم کی پابندی نمائندہ حکومت کے دل پر حملہ کرنے کے مترادف ہے
https://twitter.com/x/status/1752294610380935367
میجر طاہر صادق کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ امیدواروں کی اہلیت / نااہلیت کے متعلق اگر آئین یا قانون میں کوئی ابہام ہو تو پھر انتخابی قوانین کی تشریح امیدوار کے حق میں ہی کی جائے گی
https://twitter.com/x/status/1752399993921744997
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اپنی پسند کے امیدوار کو آزادی سے ووٹ دینے کا حق جمہوری معاشرے کی روح ہے، ووٹ دینے کے حق پر کسی بھی قسم کی پابندی منتخب حکومت کے دل پر حملہ کرنے کے مترادف ہے، جمہوریت کا انحصار اس پر ہے کہ عوام منتخب حکومت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہوں، عوام کے انتخاب پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، عوام کا مینڈیٹ حکومت کی تقدیر بدل سکتا ہے، سپریم کورٹ

عوام انتخابی عمل اور ووٹ کے ذریعے جمہوریت اور ملک کے عوامی معاملات میں حصہ لیتے ہیں، اس طرح شہری ووٹ دے کر اپنی پسند کی حکومت کی تشکیل کا انتخاب کرنے کے اپنے حق سے لطف اندوز ہوتے ہیں

فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ایک آزاد ملک میں ووٹ کا حق استعمال کرنے سے زیادہ قیمتی حق اور کوئی نہیں، اگر ووٹ کا حق مجروح ہو رہا ہو تو دیگر تمام حقوق محض خیالی ہیں

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 17 کی تشریح کرتے ہوئے کہا آرٹیکل 17(2) کے تحت سیاسی جماعت بنانا یا اس کا ممبر منتخب ہونا ہی الیکشن لڑنے کا حق نہیں بلکہ اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینا بھی حق ہے، اگر سیاسی انصاف کی آئینی اہمیت کے تحت شہریوں کی اپنی پسند کے نمائندوں کا آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا حق تسلیم نہ کیا جائے تو آرٹیکل 17(2) کھوکھلا ہے، شہریوں کا بطور ووٹر انتخابات میں حصہ لینا جمہوری حکومت کی بنیاد ہے

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ ووٹ کے حق کا استعمال شہریوں کی پسند کا اظہار ہے جس کو آئین کے آرٹیکل 19 سے بھی سپورٹ حاصل ہے، اپنے بنیادی حقوق کا استعمال کر کے شہری اپنی تقدیر کا فیصلہ اپنی پسند کی حکومت بنا کر کرتے ہیں
https://twitter.com/x/status/1752375601242218739
فیصلے کے مطابق امیدوار کا الیکشن لڑنا اور ووٹر کا ووٹ دینا امیدوار کی اہلیت اور نااہلی کو طے کرتا ہے، امیدواروں کی اہلیت اور نااہلی کا تعین کرنے کا مقصد الیکشن لڑنے والے امیدواروں کی دیانتداری اور انتخابی عمل کی افادیت برقرار رکھنا ہے، یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ عوامی عہدہ رکھنے والے کچھ معیارات پر پورا اترتے ہوں، ایک مضبوط جمہوری معاشرے میں اہلیت اور نااہلی کا معیار کی واضح تشریح کی جاتی ہے جس کے بارے عوام کو آگاہی ہوتی ہے اور اس کا یکساں اطلاق کیا جاتا ہے، اہلیت اور نااہلی کا آئین میں واضح طور پر لکھا جانا چاہیے

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابی قوانین حق رائے دہی کے حق میں بنائے جانے چاہیے تاکہ ووٹرز کے پاس اپنے مستقبل کی قیادت کے انتخاب کے لیے زیادہ سے زیادہ چوائس ہو، ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر عدالتوں کو کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد کرنے کے معاملات کو دیکھنا چاہیے

شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ درخواست گزار کے خلاف اعتراض کنندہ اشتہاری مجرم کا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا، ریکارڈ سے ایسا کچھ ثابت نہیں ہوتا کہ درخواست گزار ایک اشتہاری مجرم ہے، کیس کو سنے بغیر کسی کو اشتہاری مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا، کسی اشتہاری کا صرف اس کے متعلقہ کیس تک ہی تعلق ہوتا ہے اس کا دیگر مقدمات سے کوئی تعلق نہیں بنتا، آئین اور الیکشن ایکٹ میں اشتہاری مجرم کے الیکشن لڑنے پر کوئی پابندی نہیں، الیکشن کمیشن اس بات کو یقینی بنائے کہ درخواست گزار عام انتخابات میں حصہ لے سکے،الیکشن کمیشن چاہے تو اعتراض کنندہ سے کیس کے اخراجات وصول کر سکتا ہے
https://twitter.com/x/status/1752383195465777647