اسلامی طرز حکومت کیا ہے؟
کیا مشاورت ہی کافی ہے؟؟؟ کیا موجودہ طرز جمہور کا الیکشن اس کا بدل ہے؟؟
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و حدیث ہی اسلامی طرز حکومت کا منبع ہونا چاہیے۔
اللہ رب العزت نے نفاذ اسلام کے فرمان کو جن آیات میں بیان فرمایا وہ ہیں:
(1) ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا (سورة الفتح:۲۸)
(اللہ!) وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ہدایت (کی کتاب) اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ (سورة الفتح:۲۸)
اسلامی طرز حکومت قرآن و حدیث کا نفاذ کا فیصلہ جہور کے ووٹ سے نہیں، بلکہ اللہ تعالی کے مطابق کیا جاتا ہے۔
اب غور کرنے کی بات ہے کہ اگر عوام یا کوئی ادارہ، جماعت وغیرہ وغیرہ نظام اسلام اس لئے نافذ کریں کہ یہ لوگوں کی ڈیمانڈ ہے تو ان کا معاملہ کچھ اور ہو گا۔ جبکہ اس نظام کو اگر اللہ کا حکم جان کر نافذ کیا جائے تو یہ اللہ کے خوف اور اس کی محبت کی خاطر اسلامی نظام حکومت قیام ہو گا۔
تو اسلامی طرز حکومت کاطریقہ صرف اور صرف وہی قابل قبول ہو گا جس کا اللہ تعالی نے حکم دیا اور محمد رسول اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً نافذ کیا۔
خلافت ہی اسلامی طرز حکومت ہے
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ (سورۃ النور:55)
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین میں خلافت عطا فرماهے گاجیسا ان سے پہلے لوگوں کو بھی خلافت دے چکا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں
۔
اب سوال یہ پیدا ہوگا کہ صادق و امین میں تمیز کیسے ہوگی اس کا جواب یہ ہے کہ معاشرہ میں لوگوں کی اکثریت یا گلی ،محلہ، گاؤں اور شہر میں جس شخص کے بارے میں عوام کی رائے یہ ہوتی ہے کہ وہ اچھا ہے یا وہ برا ہے تو اس پیمانہ کو ہی معاشرہ معیار مقرر کر لیتا ہے ورنہ تو کسی کے ماتھے پر ’’اچھائی یا برائی ‘‘ درج نہیں کی جاتی ۔
صادق کون ہے جو سچا ہے اور سچا وہ ہے جو جھوٹ نہیں بولتا ، جھوٹے شخص پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے ۔ امین وہ ہے جو امانتدار ہے وہ کسی طرح بھی خیانت نہیں کرتا اگر وہ قومی خزانہ کا محافظ ہے تو خیانت نہ کرے قومی املاک کا رکھوالا ہے تو حفاظت میں کوتاہی نہ کرے اسلامی طرز حکومت کے تحت کوئی شخص حکومت کا رکن ہونے کا اہل نہیں جو جھوٹا اور بددیانت ہے ، سوسائٹی افراد کی ذاتی و اجتماعی زندگی کے کردار سے واقف ہوتی ہے۔ یہ کوئی بہانہ نہیں ہے کہ انہیں صادق و امین کا علم نہ ہو ۔ صادق و امین قسم کے لوگ ہی خلافت کا فیصلہ کریں گے۔
رسول اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کا فیصلہ کرتے ہوئے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا (مفہوم) ابوعبیدہ بن الجرح کو رسول اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امین الامت قرار دیا ہے لہٰذا انہیں خلیفہ بنا لو۔ جبکہ ’’امین الامت‘‘ رضی اللہ عنہ نے ’’صدیق‘‘ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی ابتدا فرمائی۔ اور پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے۔
آج بھی انہی کے کردار کے حامل لوگ ہوں گے تو اللہ تعالی سے امید خلافت ہو سکتی ہے۔
ایضاً۔
اس تھریڈ پر مختلف قسم کے سوالات آئے ہیں، کچھ سوالات محض تجاہل عارفانہ کی بنیاد پر ، بحث برائے بحث کی نیت سے کئے گئے ہیں۔
کیا اسلامی طرز حکومت میں اقلیتی فرقہ معدوم ہوجائیں گے اور گیر مسلم کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟؟؟
وہ حکومت جس کو ہم اسلامی حکومت کہتے ہیں ، اس کی نوعیت فرقہ وارانہ مہیں ہے۔توحید اور رسالت پر پر امت میں اتفاق ہےاور یہی اسلامی حکومت کی اساس ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی خصوصیت جو اسلامی حکومت کو تمام دوسری حکومتوں سے ممتا زکرتی ہے وہ یہ ہے کہ قومیت کا عنصر اس میں قطعی نا پید ہے۔
قدیم زمانہ میں لوگ صرف خاندانوں یا طبقوں کی حکومت سے واقف تھے۔ بعد میں نسلی اور قومی حکومتوں سے واقف ہوئے۔ محض ایک اسلامی حکومت ،جو بلا لحاظ قومیت اسٹیٹ کو چلانے لگے،دنیا کے تنگ ذہن میں یہ کبھی نہ سما سکی ۔
عیسائیت نے اس تخیل کا بہت ہی دھندلا سا نقش پایا، مگر اس کو وہ مکمل نظام فکر نہ مل سکا جس کی بنیا د پر کوئی اسٹیٹ تعمیر ہوتا ۔ انقلاب فرانس میں اصولی حکومت کے تخیل کی ذر اسی جھلک انسان کی نظر کے سامنے آئی مگر نیشنلزم کی تاریکی میں گم ہوگئی۔ اشتراکیت نے اس تخیل کا خاصا چرچا کیا حتی کہ ایک حکومت بھی اس کی بنیاد پر تعمیر کرنے کی کوشش کی ، اور اس کی وجہ سے دنیا کی سمجھ میں یہ تخیل کچھ کچھ آنے لگا تھا، مگر اس کے رگ وپے میں بھی آخر کار نیشنلزم گھس گیا۔ ابتداءسے آج تک تمام دنیا میں صرف اسلام ہی وہ مسلک ہے جو قومیت کے ہر شائبہ سے پاک کرکے حکومت کا ایک نظام خالص آئیڈیالوجی کی بنیاد پر تعمیر کرتا ہے اور تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ اس آئیڈیالوجی کو قبول کرکے غیر قومی حکومت بنائیں۔
یہ چیز چونکہ نرالی ہے، اور گردو پیش کی تمام دنیا اس کے خلاف چل رہی ہے ، اس لیے نہ صر ف غیر مسلم بلکہ خود مسلمان بھی اس کو اور اس کے جملہ اثرات)کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جو لوگ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں، مگر جن کے اجتماعی تصورات تمام تر یورپ کی تاریخ اور یورپ ہی کے سیاسیات اور علوم عمران (سوشل سائنسيز) سے بنے ہیں، ان کے ذہن کی گرفت میں یہ تصور کسی طرح نہیں آتا ہے
اس دنیا کے تمام لیڈروں میں سے صرف ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ تنہا لیڈ ر ہیں جن کی زندگی میں ہم کو اس تحریک کی ابتدائی دعوت سے لے کر اسلامی اسٹیٹ کے قیام تک اور پھر قیام کے بعد اس اسٹیٹ کی شکل، دستور، داخلی و خارجی پالیسی اور نظم مملکت کے نہج تک ایک ایک مرحلے اور ایک ایک پہلو کی پوری تفصیلات اور نہایت مستند تفصیلات ملتی ہیں
۔ و اللہ اعلم بالصواب۔
کیا مشاورت ہی کافی ہے؟؟؟ کیا موجودہ طرز جمہور کا الیکشن اس کا بدل ہے؟؟
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و حدیث ہی اسلامی طرز حکومت کا منبع ہونا چاہیے۔
اللہ رب العزت نے نفاذ اسلام کے فرمان کو جن آیات میں بیان فرمایا وہ ہیں:
(1) ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا (سورة الفتح:۲۸)
(اللہ!) وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ہدایت (کی کتاب) اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ (سورة الفتح:۲۸)
اسلامی طرز حکومت قرآن و حدیث کا نفاذ کا فیصلہ جہور کے ووٹ سے نہیں، بلکہ اللہ تعالی کے مطابق کیا جاتا ہے۔
اب غور کرنے کی بات ہے کہ اگر عوام یا کوئی ادارہ، جماعت وغیرہ وغیرہ نظام اسلام اس لئے نافذ کریں کہ یہ لوگوں کی ڈیمانڈ ہے تو ان کا معاملہ کچھ اور ہو گا۔ جبکہ اس نظام کو اگر اللہ کا حکم جان کر نافذ کیا جائے تو یہ اللہ کے خوف اور اس کی محبت کی خاطر اسلامی نظام حکومت قیام ہو گا۔
تو اسلامی طرز حکومت کاطریقہ صرف اور صرف وہی قابل قبول ہو گا جس کا اللہ تعالی نے حکم دیا اور محمد رسول اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً نافذ کیا۔
خلافت ہی اسلامی طرز حکومت ہے
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ (سورۃ النور:55)
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین میں خلافت عطا فرماهے گاجیسا ان سے پہلے لوگوں کو بھی خلافت دے چکا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں
۔
اب سوال یہ پیدا ہوگا کہ صادق و امین میں تمیز کیسے ہوگی اس کا جواب یہ ہے کہ معاشرہ میں لوگوں کی اکثریت یا گلی ،محلہ، گاؤں اور شہر میں جس شخص کے بارے میں عوام کی رائے یہ ہوتی ہے کہ وہ اچھا ہے یا وہ برا ہے تو اس پیمانہ کو ہی معاشرہ معیار مقرر کر لیتا ہے ورنہ تو کسی کے ماتھے پر ’’اچھائی یا برائی ‘‘ درج نہیں کی جاتی ۔
صادق کون ہے جو سچا ہے اور سچا وہ ہے جو جھوٹ نہیں بولتا ، جھوٹے شخص پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے ۔ امین وہ ہے جو امانتدار ہے وہ کسی طرح بھی خیانت نہیں کرتا اگر وہ قومی خزانہ کا محافظ ہے تو خیانت نہ کرے قومی املاک کا رکھوالا ہے تو حفاظت میں کوتاہی نہ کرے اسلامی طرز حکومت کے تحت کوئی شخص حکومت کا رکن ہونے کا اہل نہیں جو جھوٹا اور بددیانت ہے ، سوسائٹی افراد کی ذاتی و اجتماعی زندگی کے کردار سے واقف ہوتی ہے۔ یہ کوئی بہانہ نہیں ہے کہ انہیں صادق و امین کا علم نہ ہو ۔ صادق و امین قسم کے لوگ ہی خلافت کا فیصلہ کریں گے۔
رسول اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کا فیصلہ کرتے ہوئے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا (مفہوم) ابوعبیدہ بن الجرح کو رسول اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امین الامت قرار دیا ہے لہٰذا انہیں خلیفہ بنا لو۔ جبکہ ’’امین الامت‘‘ رضی اللہ عنہ نے ’’صدیق‘‘ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی ابتدا فرمائی۔ اور پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے۔
آج بھی انہی کے کردار کے حامل لوگ ہوں گے تو اللہ تعالی سے امید خلافت ہو سکتی ہے۔
ایضاً۔
اس تھریڈ پر مختلف قسم کے سوالات آئے ہیں، کچھ سوالات محض تجاہل عارفانہ کی بنیاد پر ، بحث برائے بحث کی نیت سے کئے گئے ہیں۔
کیا اسلامی طرز حکومت میں اقلیتی فرقہ معدوم ہوجائیں گے اور گیر مسلم کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟؟؟
وہ حکومت جس کو ہم اسلامی حکومت کہتے ہیں ، اس کی نوعیت فرقہ وارانہ مہیں ہے۔توحید اور رسالت پر پر امت میں اتفاق ہےاور یہی اسلامی حکومت کی اساس ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی خصوصیت جو اسلامی حکومت کو تمام دوسری حکومتوں سے ممتا زکرتی ہے وہ یہ ہے کہ قومیت کا عنصر اس میں قطعی نا پید ہے۔
قدیم زمانہ میں لوگ صرف خاندانوں یا طبقوں کی حکومت سے واقف تھے۔ بعد میں نسلی اور قومی حکومتوں سے واقف ہوئے۔ محض ایک اسلامی حکومت ،جو بلا لحاظ قومیت اسٹیٹ کو چلانے لگے،دنیا کے تنگ ذہن میں یہ کبھی نہ سما سکی ۔
عیسائیت نے اس تخیل کا بہت ہی دھندلا سا نقش پایا، مگر اس کو وہ مکمل نظام فکر نہ مل سکا جس کی بنیا د پر کوئی اسٹیٹ تعمیر ہوتا ۔ انقلاب فرانس میں اصولی حکومت کے تخیل کی ذر اسی جھلک انسان کی نظر کے سامنے آئی مگر نیشنلزم کی تاریکی میں گم ہوگئی۔ اشتراکیت نے اس تخیل کا خاصا چرچا کیا حتی کہ ایک حکومت بھی اس کی بنیاد پر تعمیر کرنے کی کوشش کی ، اور اس کی وجہ سے دنیا کی سمجھ میں یہ تخیل کچھ کچھ آنے لگا تھا، مگر اس کے رگ وپے میں بھی آخر کار نیشنلزم گھس گیا۔ ابتداءسے آج تک تمام دنیا میں صرف اسلام ہی وہ مسلک ہے جو قومیت کے ہر شائبہ سے پاک کرکے حکومت کا ایک نظام خالص آئیڈیالوجی کی بنیاد پر تعمیر کرتا ہے اور تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ اس آئیڈیالوجی کو قبول کرکے غیر قومی حکومت بنائیں۔
یہ چیز چونکہ نرالی ہے، اور گردو پیش کی تمام دنیا اس کے خلاف چل رہی ہے ، اس لیے نہ صر ف غیر مسلم بلکہ خود مسلمان بھی اس کو اور اس کے جملہ اثرات)کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جو لوگ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں، مگر جن کے اجتماعی تصورات تمام تر یورپ کی تاریخ اور یورپ ہی کے سیاسیات اور علوم عمران (سوشل سائنسيز) سے بنے ہیں، ان کے ذہن کی گرفت میں یہ تصور کسی طرح نہیں آتا ہے
اس دنیا کے تمام لیڈروں میں سے صرف ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ تنہا لیڈ ر ہیں جن کی زندگی میں ہم کو اس تحریک کی ابتدائی دعوت سے لے کر اسلامی اسٹیٹ کے قیام تک اور پھر قیام کے بعد اس اسٹیٹ کی شکل، دستور، داخلی و خارجی پالیسی اور نظم مملکت کے نہج تک ایک ایک مرحلے اور ایک ایک پہلو کی پوری تفصیلات اور نہایت مستند تفصیلات ملتی ہیں
۔ و اللہ اعلم بالصواب۔