جوڈیشل ایکٹوازم اور عدالتی سکینڈلز

Qarar

MPA (400+ posts)
Qarar-nama
@qarar501

پاکستان کی عدلیہ کے ماضی کو دیکھتے ھوئے میرا ہمیشہ سے یہ یقین رہا ہے کہ عدلیہ ایک ایسا گلا سڑا جوہڑ ہے جس میں صاف ستھرے ججز بھی اپنی تمام تر اخلاقیات، روایات اور اصولوں سمیت غرق ہوجاتے ہیں
میں نے دس پندرہ سال پہلے امریکی سپریم کورٹ کے جج اینٹونن سکالیا کا انڑویو سنا جس میں انہوں نے کہا کہ ججز کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ آئین اور قانون سے باہر جاکر فیصلے نہ دیں اور نہ ہی ایسے آرڈرز پاس کریں جوکہ قانون بنانے کے مترادف ہوں --امریکی جج نے ایک ایسی مثال دی جوکہ میرے لیے بہت حیران کن تھی مگر اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ امریکی ججز قانون کی تشریح کیسے کرتے ہیں --جج صاحب نے کہا کہ امریکا میں انیس سو انیس سے پہلے خواتین کو ووٹ دینے کی آزادی نہیں تھی --اگر اس سے پہلے کوئی خاتون ان کے پاس فیصلے کے لیے آتی اور ووٹ کا حق مانگتی تو وہ جج کے طور پر اس کی درخواست کو ریجیکٹ کردیتے کیونکہ ایک جج آئین اور قانون میں درج کیے گئے الفاظ سے آگے نہیں جاسکتا --عورتوں کو ووٹ کا حق دینا امریکی کانگریس کا حق تھا اور عوامی نمائندوں نے عوامی پریشر پر بلآخر عورتوں کو ان کا حق دے دیا --ایک جج کے طور پر امریکی سپریم کورٹ مقننہ کے اختیارات نہیں سنبھال سکتی تھی حالانکہ ذاتی طور پر وہ سمجھتے تھے کہ عورتوں سے بہت ناانصافی ہو رہی تھی

میں آج کے اس مضمون میں پاکستان کی عدلیہ کے کچھ حالیہ فیصلوں اور سکینڈلز پر کچھ الفاظ تحریر کرنا چاہوں گا --بیشترپاکستانی ججز اپنے آپ کو مسیحا سمجھتے ہیں جنھیں خدا نے کسی خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے --زیادہ ترججز فیصلہ کرتے وقت قانون اور آئین سے ماورا صرف داد و تحسین یا نظریہ ضرورت کے لیے فیصلے دیتے ہیں -- کچھ ہفتے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب محسن اختر کیانی نے نگران وزیراعظم کاکڑ صاحب کو "ذاتی حیثیت" میں عدالت طلب کیا اور لاپتا افراد کے کیس میں پوچھ گچھ کی -- اس طلبی پر میڈیا میں جج کیانی کی بہت تعریف کی گئی کہ کیا نڈر اور بہادر جج ہے --میری نظر میں یہ یہ ایک پی آر سٹنٹ سے زیادہ کچھ نہیں تھا --اس سے جج صاحب کی انا کو ضرور تسکین مل گئی ہوگی اور دنیا کو یہ پیغام بھی مل گیا ہوگا کہ پاکستانی عدلیہ بہت طاقتور ہے مگر کیا اس سے کیس کا بھی کوئی فائدہ ہوا ہوگا؟ بلکل نہیں -- جو بات نگران وزیراعظم کاکڑ نے عدالت میں بتائی کیا وہی بات اٹارنی جنرل نہیں بتا سکتے تھے؟ -- اگر عدالت کی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہی تھا تو کیا مسنگ پرسن کمیشن کے چیئرمین ریٹائرڈ جج جاوید اقبال کو بلانا ضروری نہیں تھا کہ تم کس مرض کی دوا ہو جو کئی سالوں سے بھاری بھرکم تنخواہ لے رہے ہو مگر ایک ٹکے کا کام نہیں کیا ہے --مگر چونکہ وہ پیٹی بھائی جج ہے اس لیے اسے استثنیٰ حاصل ہے --جج کیانی صاحب چاہتے تو آئی ایس آئی چیف کو بھی طلب کر سکتے تھے، بلوچستان کے کور کمانڈر کو بھی بلا سکتے تھے مگر عدالتی اختیار کا ہتھوڑا چلا تو صرف ایک سویلین پر --کاکڑ صاحب چاہتے تو آئین میں وزیراعظم کو دئیے گئے استثنیٰ کے پیچھے چھپ سکتے تھے مگر انہوں نے گوارا نہیں کیا مگر اہم بات یہ ہے کہ کیا جج صاحب کو پتا نہیں تھا کہ وزیراعظم کو پیشی سے استثنیٰ حاصل ہے --تو کس لیے عدالتی اختیار کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا اور ایسا آرڈر پاس کیا گیا؟

جج بابر ستار کی جج بننے سے پہلے عمومی شہرت بہت اچھی تھی لیکن جج بننے کے بعد انہوں نے کچھ ایسے آرڈرز پاس کیے ہیں جس پر مجھے کافی تشویش ہے --جج بابر ستار نے امریکا سے تعلیم حاصل کی ہے --وہ یہ ضرور جانتے ہونگے کہ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے کیا اختیارات ہیں --لیکن انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کی آڈیو لیکس پر قائمہ کمیٹی کو اپنے کام سے روکنے پر آئین کی بڑی خلاف ورزی کی ہے --قائمہ کمیٹی کا واحد کام سرکاری افسروں یا پرائیویٹ شہریوں کو بلا کر پوچھ گچھ کرنا ہوتا ہے --چاہے یہ مہنگائی کا مسئلہ ہو، کرپشن ہو یا عوامی اہمیت کا کوئی اور معاملہ -- جج بابر ستار کو بخوبی علم ہے کہ قائمہ کمیٹی کو عدالت کی طرح سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں --امریکا میں بھی قائمہ کمیٹیاں آئے دن کسی نہ کسی وزیر کو ، ایف بی آئی اور سی آئی اے کے سربراہان کو، گوگل، فیس بک یا ٹویٹر کے مالکان کو بلا کر سوال و جواب کرتی رہتی ہیں مگر جج صاحب کو یہ بھی گوارا نہیں ہوسکا کہ قائمہ کمیٹی نجم ثاقب سے دو چار سوال ہی کرسکے --ایک ایسا سٹے آرڈر دیا ہوا ہے جوکہ مہینوں سے جاری ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لارہا --یعنی ججز کے ساتھ ساتھ ان کی فیملی کو بھی مکمل استثنیٰ؟

جج بابر ستار کا نام ایک اور آرڈر میں بھی آیا جب انہوں نے اس بات پر سماعت شروع کردی اور حکومتی اداروں سے باز پرس کی، ڈانٹ ڈپٹ کی کہ نئے ججز کو رہائش الاٹ کرنے میں تاخیر ہو رہی ہے اور یہ عدلیہ کی "آزادی" کے منافی ہے --کیا بڑی بات ہو گئی اگر سرکاری رہائش میں کچھ تاخیر ہے --بھاری بھرکم الاؤنس تو مل ہی رہا ہے --کیا کورٹ کے پاس اتنا ٹائم ہے کہ ان سطحی قسم کی درخواستوں کو سنا جاۓ چہ جائیکہ ان پر آرڈر بھی پاس کیا جاۓ؟

جج بابر ستار صاحب کا گرین کارڈ کا ایک مبینہ سکینڈل بھی سوشل میڈیا میں کافی دنوں سے گردش کر رہا ہے --کافی لوگوں کو اس میں کچھ کنفیوژن بھی ہے کچھ لوگ سمجھتے ہیں یہ اچھا نہیں اور کچھ گرین کارڈ کو سرف سفری دستاویز قرار دے رہے ہیں --میں ذاتی طور پر چونکہ گرین کارڈ اور پھر شہریت کے مراحل سے گزرا ہوں تو میں اس پر اپنی رائے ضرور دینا چاہوں گا --بہت اچھی بات ہے کہ جج صاحب کو ایک ہنرمند فرد کے طور پر امریکا میں مستقل سکونت کے لیے غالباً دو ہزار پانچ میں گرین کارڈ ملا -- گرین کارڈ دس سال کے لیے ملتا ہے اور اسے جتنی بار بھی چاہے مزید دس سال کے لیے تجدید کروائی جاسکتی ہے --تاہم لوگوں کی اکثریت اس گرین کارڈ کو پانچ سال بعد شہریت کارڈ میں تبدیل کروا لیتی ہے -- شہریت کارڈ کی شرط یہ ہے کہ کم از کم پانچ سال گرین کارڈ ہو اور ان پانچ سالوں میں کم از کم تین سال امریکا میں رہائش ہو --جج بابر ستار کے بیوی بچوں نے یہ شرطیں پوری کرکے شہریت کارڈ لے لیے، شہریت کارڈ دکھا کر امریکی پاسپورٹ (سفری دستاویز) بھی لے لیے مگر جج صاحب خود چونکہ پاکستان آگئے اور وکالت شروع کردی تو اس لیے شہریت کی یہ شرائط کو ابھی پورا نہیں کرتے -- تاہم شہریت نہ لینے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا --انہوں نے غالباً جج بننے سے کچھ عرصہ پہلے گرین کارڈ کی تجدید کروائی تھی --اور یہاں دوستو اصل اور بڑا مسئلہ معرض وجود میں آتا ہے

امریکی قانون کے مطابق گرین کارڈ صرف ان افراد کو جاری کیا جاتا ہے جو یہ درخواست اور حلف نامہ دیتے ہیں کہ وہ امریکا میں مستقل رہائش رکھتے ہیں یا رکھیں گے --گرین کارڈ اور شہریت میں صرف اور صرف ایک ہی فرق ہے اور وہ یہ کہ گرین کارڈ ہولڈر الیکشن میں ووٹ نہیں ڈال سکتا ورنہ اسے تمام تر حقوق اور سہولتیں حاصل ہیں جو شہریوں کو ہیں
امریکی قانون یہ کہتا ہے کہ گرین کارڈ کو کچھ وجوہات کی بنا پر کینسل بھی کیا جاسکتا ہے --مثَلاً اگر آپ درخواست میں غلط بیانی سے کام لیں، کوئی جرم کا ارتکاب کریں اور آپ کو عدالت سے سزا ہوجائے یا آپ امریکا کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں مستقل رہائش پذیر ہوجائیں یا پھر عارضی بنیادوں پر چھ مہینوں سے زیادہ امریکا سے باہر رہیں --چھ مہینوں سے زیادہ عرصہ باہر رہنے کی صورت میں آپ کو مقامی امریکی قونصلیٹ سے ایک خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہے اور وجوہات بیان کرنا ہوتی ہیں اور اس خصوصی اجازت نامے کو دکھا کر آپ واپس امریکا میں آسکتے ہیں --یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سرکاری افسر اور دوسرے افراد جو گرین کارڈ ہولڈر ہیں وہ چھ مہینوں سے پہلے ہی امریکا کا ایک چکر لگا آتے ہیں تاکہ کوئی مسئلہ نہ ہو --عام طور پر امریکی امیگریشن افسران بھی یہ چیک نہیں کرتے کہ یہ بندا امریکا میں ہر سال میں چھ مہینے رہ بھی رہا ہے یا صرف چکر لگا رہا ہے -- میرے ایک دوست کی والدہ جن کے پاس گرین کارڈ تھا وہ ڈیڑھ سال بعد امریکا آئیں --امیگریشن افسر نے ایک عمومی قسم کا سوال کیا کہ امریکا سے باہر کتنی دیر قیام کیا تھا؟ میرے دوست کی والدہ نے بجائے جھوٹ بولنے کے یہ کہ دیا کہ ڈیڑھ سال -- اب وہ افسر بھی کچھ اصولی قسم کا تھا --چاہتا تو وارننگ دے کر چھوڑ سکتا تھا مگر اس نے مزید سوال و جواب کیے تو بزرگ خاتون گھبرا گئیں اور اعتراف کرلیا کہ وہ اپنے بیٹے اور اور نواسوں کو ملنے آتی ہیں اور مستقل امریکا میں رہائش پذیر نہیں ہیں --اس پر افسر نے انہیں بتایا کہ اس صورت میں انہیں گرین کارڈ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس نے ایک دس سال کا ملٹیپل اینٹری ویزا جاری کردیا کہ وہ جب چاہیں اپنے بیٹے بہو اور نواسوں سے مل سکتی ہیں --تاہم ساتھ ساتھ اس افسر نے گرین کارڈ کینسل کردیا
میرا دوست اپنی والدہ پر بہت خفا ہوا کہ جھوٹ کیوں نہیں بولا کہ چار مہینے بعد واپس امریکا آرہی تھیں --اس افسر نے کونسا چیک کرنا تھا --اب میرا دوست کہ تو درست رہا تھا --امیگریشن افسر کے پاس لمبی لائن ہوتی ہے -- صرف دو سے تین منٹ ہوتے ہیں وہ وہاں آپکے جھوٹ پکڑنے نہیں بیٹھے -- مگر اصولی طور پر دیکھا جاۓ تو کیا قانونی اور اخلاقی طور پر یہ درست ہے؟
لہٰذا جج بابر ستار صاحب نے اپنا گرین کارڈ کا سٹیٹس بیس سالوں سے دھوکہ دہی سے برقرار رکھا ہے --انہوں نے اوریجنل گرین کارڈ لیتے وقت اور پھر دس سال بعد تجدید کرواتے وقت یہ اقرار کیا ہے کہ وہ مستقل امریکا میں رہائش رکھتے ہیں --انہوں نے اپنی امریکی شہری بیوی اور اپنے امریکا میں موجود گھر کا ایڈریس درخواست میں لکھا ہے جس پر کہ گرین کارڈ بھیجا جاتا ہے --امریکی قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان میں کسی ایڈریس پر گرین کارڈ بھیجا جائے
اس ساری بیک گراؤنڈ کے بعد میرا جج صاحب سے سوال ہے کہ انہوں نے اپنی اوریجنل گرین کارڈ اور پھر تجدید کروانے کروانے والی درخواستوں میں غلط بیانی اور جھوٹ سے کیوں کام لیا؟
ان کا ارادہ تو مستقل امریکا میں رہنے کا تھا ہی نہیں
اسلام آباد ہائی کورٹ کی حالیہ پریس ریلیز میں یہ واضح ہے کہ جج صاحب دو ہزار پانچ میں ہی مستقل طور پر پاکستان آگئے تھے اوران کا امریکا میں مستقل سکونت کا ارادہ نہیں تھا اور ان کے پاس شہریت بھی نہیں ہے لہذا صاف ظاہر ہے کہ جج صاحب نے گرین کارڈ کے فوائد کو برقرار رکھنے کے لیے امریکی حکومت کو دھوکہ دیا --کیا انہیں گرین کارڈ کی تجدید کروانے کی بجاۓ صرف ویزا نہیں رکھنا چاہیے تھا؟
کیا منصوبہ یہ تو نہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا میں بیوی بچوں کے پاس واپس جایا جاۓ، شہریت حاصل کی جاۓ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ گرین کارڈ سٹیٹس برقرار رکھا جاۓ؟
میری نظر میں جج صاحب امریکی حکومت سے فراڈ کے مرتکب ھوئے ہیں، صادق اور امین نہیں رہے اور جج کے منصب پر رہنے کے اہل نہیں رہے --اگر کوئی شخص چاہے تو امریکا میں ان کے خلاف دھوکہ دہی کا کیس کرسکتا ہے جس کا نتیجہ گرین کارڈ سے محرومی اور آیندہ کے لیے امریکا کے دروازے بند ہونا بھی شامل ہے

جج بابر ستار کا ایک اور مشہور کیس شہریار آفریدی والا ہے جس میں انہوں نے ایک افسر کو توہین عدالت پر سزا دی --یہ بھی اختیار سے تجاوز ہے کیونکہ قانون انتظامیہ کو ایم پی او کے تحت نظربندی کے اختیار کی اجازت دیتا ہے --یہ درست ہے کہ اکثر انتظامیہ اس قانون کو غلط استعمال کرتی ہے مگر اس کا حل یہ نہیں کہ ایک جج بھی قانون سے ماورا فیصلے دینے شروع کردے --آپ فوری ریلیف دے دیں یا پھر قانون کو ہی غلط اور آئین سے متصادم قرار دے دیں --ایک افسر کو رائج الوقت قانون کا استعمال کرنے پر سزا نہیں دی جاسکتی --اور پھر یہ کس قسم کا فیصلہ ہے کہ شہریار آفریدی کو مستقبل کے کسی مقدمے میں جوکہ ابھی درج ہی نہیں ہوا اس میں بھی گرفتار نہ کیا جاۓ --کیا جج صاحب نے ہارورڈ یونیورسٹی سے اس قسم کا کوئی قانون پڑھا ہے؟ کیونکہ پاکستان کے کسی آئین اور قانون میں تو ایسی کوئی چیز درج نہیں کہ جج حضرات مستقبل کے مقدمات میں بھی ریلیف دے سکتے ہیں
میں صاف سمجھتا ہوں کہ جج صاحبان ایسا کیوں کرتے ہیں --وہ سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ لوگوں کو غیر قانونی اور فضول مقدمات میں گرفتار کر رہی ہے لہذا لوگوں کو ریلیف ملنا چاہیے اور زیادتی بند ہونی چاہیے مگر اگر ججز ایسے آرڈر پاس کرنا شروع کردیں جو خود آئین اور قانون سے ماورا ہوں تو پھر دونوں میں فرق کیا رہ گیا؟ کل کو کسی جج نے یہ آرڈر دے دیا کہ پارلیمانی طرز حکومت غیر اسلامی ہے لہٰذا فوراً خلافت یا صدارتی نظام کو نافذ کیا جاۓ --تو کیا ایسا آرڈر صحیح ہوگا؟ ایک دفعہ کسی جج کو قانون سے باہر نکل کر فیصلے دینے کی عادت ہوجاۓ تو یہ سلسلہ رکنے والا نہیں

ایک اور مثال سندھ ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس عقیل عباسی کی ہے -- یہ بات قانونی حلقوں میں عام ہے کہ ان جج صاحب سے جسٹس بندیال اور باقیوں نے بہت زیادتی کی --ان سے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ لا کر ان کا حق مارا گیا
میں نے جسٹس عقیل عباسی کے حالیہ ایک دو کیسز کا مطالعہ کیا ہے -- ان جج صاحب میں بھی انتظامیہ کے اختیارات سلب کرنے کرنے کے جراثیم پائے جاتے ہیں -- انہوں نے ایکس یا ٹویٹر کی بحالی کو آزادی اظہار رائے سے جوڑ دیا ہے --دیکھیں میں ذاتی طور پر ایکس کی بحالی چاہتا ہوں --ان حربوں سے معلومات کی رسائی کو محدود نہیں کیا سکتا مگر کیا جج صاحب مجھے بتا سکتے ہیں کہ ایلون مسک کی امریکی کمپنی نے کیا آپ کے کورٹ کو درخواست کی ہے کہ ایکس کو پاکستان میں بحال کیا جاۓ؟ یہ ایک غیر ملکی کمپنی ہے اور پاکستان کی منتخب حکومت کسی بھی غیر ملکی کمپنی پر پابندی لگانے کا پورا اختیار رکھتی ہے --چاہے پابندی غلط ہو مگر کورٹ کو انتظامیہ کے اختیارات میں مداخلت کو کوئی حق حاصل نہیں --انتظامیہ نے پابندی لگائی ہے اور پبلک پریشر پر انتظامیہ ہی اسے ہٹا سکتی ہے --جج صاحبان اپنی ٹانگ اڑانے سے باز رہیں -- یہاں ججز ڈیم بنارہے ہیں یا تجاوزات کو ہٹوا رہے ہیں مگر ان لاکھوں کیسز کے بارے میں کچھ نہیں کرہے جوکہ سالوں سے التوا کا شکار ہیں

یہی جج عقیل عباسی صاحب ابھی کچھ دنوں پہلے کراچی اور سندھ میں امن و امان سے متعلق ایک ایسے اجلاس کی صدارت کرتے پائے گئے جس میں سندھ کے سرکاری افسران اور پولیس وغیرہ شامل تھے -- صاف ظاہر ہے کہ جج صاحب نے عملاً سندھ کے وزیراعلی کے اختیارات سنبھال لیے ہیں
لہذا میری جوڈیشل کمیشن سے درخواست ہے کہ چیف جسٹس عقیل عباسی کو سپریم کورٹ میں لانے سے پرہیز کیا جاۓ یا کم از کم پہلے ان سے ان حرکتوں کی پوچھ گچھ کی جائے
میری جسٹس بندیال کے بارے میں اچھی رائے نہیں ہے مگر شاید انہوں نے جج عقیل عباسی کو نظر انداز کر کے کوئی برا فیصلہ نہیں کیا تھا --ان صاحب کو عدلیہ اور انتظامیہ کی حدود و قیود کی کوئی خاص سمجھ نہیں

میں اس مضمون کا اختتام ایک آخری جج صاحب سے کروں گا جنہوں نے میری پہلی رائے کو غلط ثابت کیا --میں جج محمد علی مظہر کے بارے میں یہ ابتدائی راۓ رکھتا تھا کہ یہ سنیارٹی کو نظر انداز کرکے سفارشی طور پر سپریم کورٹ میں لائے گئے ہیں --تاہم لائیو نشریات میں انہوں نے ثابت کیا کہ انہیں قانون اور آئین پر دسترس حاصل ہے اور یہ بہت اچھے سوال کرتے ہیں اور بہت ذہین جج ہیں --سپریم کورٹ کو ایسے ججوں کی ضرورت ہے

کاش سیاسی جماعتیں اپنے اختیارات کو سمجھیں اور پارلیمنٹ دوبارہ ججز تعیناتی کا اختیار سنبھال لے جوکہ ایک غاصب چیف جسٹس افتخار نے دھونس اور دھمکیوں سے ہتھیا لیا تھا --امریکا کی طرح قائمہ کمیٹیوں میں امیدواروں کی پیشیاں ہوں اور ان ججز سے پروموشن یا تعیناتی سے پہلے انٹرویوز ہوں اور ان سے ماضی میں پاس کئے گئے آرڈرز کا حساب لیا جاۓ

کاش مگر کاش
 
Last edited by a moderator:

انقلاب

Chief Minister (5k+ posts)
Qarar-nama
@qarar501

پاکستان کی عدلیہ کے ماضی کو دیکھتے ھوئے میرا ہمیشہ سے یہ یقین رہا ہے کہ عدلیہ ایک ایسا گلا سڑا جوہڑ ہے جس میں صاف ستھرے ججز بھی اپنی تمام تر اخلاقیات، روایات اور اصولوں سمیت غرق ہوجاتے ہیں
میں نے دس پندرہ سال پہلے امریکی سپریم کورٹ کے جج اینٹونن سکالیا کا انڑویو سنا جس میں انہوں نے کہا کہ ججز کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ آئین اور قانون سے باہر جاکر فیصلے نہ دیں اور نہ ہی ایسے آرڈرز پاس کریں جوکہ قانون بنانے کے مترادف ہوں --امریکی جج نے ایک ایسی مثال دی جوکہ میرے لیے بہت حیران کن تھی مگر اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ امریکی ججز قانون کی تشریح کیسے کرتے ہیں --جج صاحب نے کہا کہ امریکا میں انیس سو انیس سے پہلے خواتین کو ووٹ دینے کی آزادی نہیں تھی --اگر اس سے پہلے کوئی خاتون ان کے پاس فیصلے کے لیے آتی اور ووٹ کا حق مانگتی تو وہ جج کے طور پر اس کی درخواست کو ریجیکٹ کردیتے کیونکہ ایک جج آئین اور قانون میں درج کیے گئے الفاظ سے آگے نہیں جاسکتا --عورتوں کو ووٹ کا حق دینا امریکی کانگریس کا حق تھا اور عوامی نمائندوں نے عوامی پریشر پر بلآخر عورتوں کو ان کا حق دے دیا --ایک جج کے طور پر امریکی سپریم کورٹ مقننہ کے اختیارات نہیں سنبھال سکتی تھی حالانکہ ذاتی طور پر وہ سمجھتے تھے کہ عورتوں سے بہت ناانصافی ہو رہی تھی

میں آج کے اس مضمون میں پاکستان کی عدلیہ کے کچھ حالیہ فیصلوں اور سکینڈلز پر کچھ الفاظ تحریر کرنا چاہوں گا --بیشترپاکستانی ججز اپنے آپ کو مسیحا سمجھتے ہیں جنھیں خدا نے کسی خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے --زیادہ ترججز فیصلہ کرتے وقت قانون اور آئین سے ماورا صرف داد و تحسین یا نظریہ ضرورت کے لیے فیصلے دیتے ہیں -- کچھ ہفتے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب محسن اختر کیانی نے نگران وزیراعظم کاکڑ صاحب کو "ذاتی حیثیت" میں عدالت طلب کیا اور لاپتا افراد کے کیس میں پوچھ گچھ کی -- اس طلبی پر میڈیا میں جج کیانی کی بہت تعریف کی گئی کہ کیا نڈر اور بہادر جج ہے --میری نظر میں یہ یہ ایک پی آر سٹنٹ سے زیادہ کچھ نہیں تھا --اس سے جج صاحب کی انا کو ضرور تسکین مل گئی ہوگی اور دنیا کو یہ پیغام بھی مل گیا ہوگا کہ پاکستانی عدلیہ بہت طاقتور ہے مگر کیا اس سے کیس کا بھی کوئی فائدہ ہوا ہوگا؟ بلکل نہیں -- جو بات نگران وزیراعظم کاکڑ نے عدالت میں بتائی کیا وہی بات اٹارنی جنرل نہیں بتا سکتے تھے؟ -- اگر عدالت کی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہی تھا تو کیا مسنگ پرسن کمیشن کے چیئرمین ریٹائرڈ جج جاوید اقبال کو بلانا ضروری نہیں تھا کہ تم کس مرض کی دوا ہو جو کئی سالوں سے بھاری بھرکم تنخواہ لے رہے ہو مگر ایک ٹکے کا کام نہیں کیا ہے --مگر چونکہ وہ پیٹی بھائی جج ہے اس لیے اسے استثنیٰ حاصل ہے --جج کیانی صاحب چاہتے تو آئی ایس آئی چیف کو بھی طلب کر سکتے تھے، بلوچستان کے کور کمانڈر کو بھی بلا سکتے تھے مگر عدالتی اختیار کا ہتھوڑا چلا تو صرف ایک سویلین پر --کاکڑ صاحب چاہتے تو آئین میں وزیراعظم کو دئیے گئے استثنیٰ کے پیچھے چھپ سکتے تھے مگر انہوں نے گوارا نہیں کیا مگر اہم بات یہ ہے کہ کیا جج صاحب کو پتا نہیں تھا کہ وزیراعظم کو پیشی سے استثنیٰ حاصل ہے --تو کس لیے عدالتی اختیار کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا اور ایسا آرڈر پاس کیا گیا؟

جج بابر ستار کی جج بننے سے پہلے عمومی شہرت بہت اچھی تھی لیکن جج بننے کے بعد انہوں نے کچھ ایسے آرڈرز پاس کیے ہیں جس پر مجھے کافی تشویش ہے --جج بابر ستار نے امریکا سے تعلیم حاصل کی ہے --وہ یہ ضرور جانتے ہونگے کہ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے کیا اختیارات ہیں --لیکن انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کی آڈیو لیکس پر قائمہ کمیٹی کو اپنے کام سے روکنے پر آئین کی بڑی خلاف ورزی کی ہے --قائمہ کمیٹی کا واحد کام سرکاری افسروں یا پرائیویٹ شہریوں کو بلا کر پوچھ گچھ کرنا ہوتا ہے --چاہے یہ مہنگائی کا مسئلہ ہو، کرپشن ہو یا عوامی اہمیت کا کوئی اور معاملہ -- جج بابر ستار کو بخوبی علم ہے کہ قائمہ کمیٹی کو عدالت کی طرح سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں --امریکا میں بھی قائمہ کمیٹیاں آئے دن کسی نہ کسی وزیر کو ، ایف بی آئی اور سی آئی اے کے سربراہان کو، گوگل، فیس بک یا ٹویٹر کے مالکان کو بلا کر سوال و جواب کرتی رہتی ہیں مگر جج صاحب کو یہ بھی گوارا نہیں ہوسکا کہ قائمہ کمیٹی نجم ثاقب سے دو چار سوال ہی کرسکے --ایک ایسا سٹے آرڈر دیا ہوا ہے جوکہ مہینوں سے جاری ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لارہا --یعنی ججز کے ساتھ ساتھ ان کی فیملی کو بھی مکمل استثنیٰ؟

جج بابر ستار کا نام ایک اور آرڈر میں بھی آیا جب انہوں نے اس بات پر سماعت شروع کردی اور حکومتی اداروں سے باز پرس کی، ڈانٹ ڈپٹ کی کہ نئے ججز کو رہائش الاٹ کرنے میں تاخیر ہو رہی ہے اور یہ عدلیہ کی "آزادی" کے منافی ہے --کیا بڑی بات ہو گئی اگر سرکاری رہائش میں کچھ تاخیر ہے --بھاری بھرکم الاؤنس تو مل ہی رہا ہے --کیا کورٹ کے پاس اتنا ٹائم ہے کہ ان سطحی قسم کی درخواستوں کو سنا جاۓ چہ جائیکہ ان پر آرڈر بھی پاس کیا جاۓ؟

جج بابر ستار صاحب کا گرین کارڈ کا ایک مبینہ سکینڈل بھی سوشل میڈیا میں کافی دنوں سے گردش کر رہا ہے --کافی لوگوں کو اس میں کچھ کنفیوژن بھی ہے کچھ لوگ سمجھتے ہیں یہ اچھا نہیں اور کچھ گرین کارڈ کو سرف سفری دستاویز قرار دے رہے ہیں --میں ذاتی طور پر چونکہ گرین کارڈ اور پھر شہریت کے مراحل سے گزرا ہوں تو میں اس پر اپنی رائے ضرور دینا چاہوں گا --بہت اچھی بات ہے کہ جج صاحب کو ایک ہنرمند فرد کے طور پر امریکا میں مستقل سکونت کے لیے غالباً دو ہزار پانچ میں گرین کارڈ ملا -- گرین کارڈ دس سال کے لیے ملتا ہے اور اسے جتنی بار بھی چاہے مزید دس سال کے لیے تجدید کروائی جاسکتی ہے --تاہم لوگوں کی اکثریت اس گرین کارڈ کو پانچ سال بعد شہریت کارڈ میں تبدیل کروا لیتی ہے -- شہریت کارڈ کی شرط یہ ہے کہ کم از کم پانچ سال گرین کارڈ ہو اور ان پانچ سالوں میں کم از کم تین سال امریکا میں رہائش ہو --جج بابر ستار کے بیوی بچوں نے یہ شرطیں پوری کرکے شہریت کارڈ لے لیے، شہریت کارڈ دکھا کر امریکی پاسپورٹ (سفری دستاویز) بھی لے لیے مگر جج صاحب خود چونکہ پاکستان آگئے اور وکالت شروع کردی تو اس لیے شہریت کی یہ شرائط کو ابھی پورا نہیں کرتے -- تاہم شہریت نہ لینے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا --انہوں نے غالباً جج بننے سے کچھ عرصہ پہلے گرین کارڈ کی تجدید کروائی تھی --اور یہاں دوستو اصل اور بڑا مسئلہ معرض وجود میں آتا ہے

امریکی قانون کے مطابق گرین کارڈ صرف ان افراد کو جاری کیا جاتا ہے جو یہ درخواست اور حلف نامہ دیتے ہیں کہ وہ امریکا میں مستقل رہائش رکھتے ہیں یا رکھیں گے --گرین کارڈ اور شہریت میں صرف اور صرف ایک ہی فرق ہے اور وہ یہ کہ گرین کارڈ ہولڈر الیکشن میں ووٹ نہیں ڈال سکتا ورنہ اسے تمام تر حقوق اور سہولتیں حاصل ہیں جو شہریوں کو ہیں
امریکی قانون یہ کہتا ہے کہ گرین کارڈ کو کچھ وجوہات کی بنا پر کینسل بھی کیا جاسکتا ہے --مثَلاً اگر آپ درخواست میں غلط بیانی سے کام لیں، کوئی جرم کا ارتکاب کریں اور آپ کو عدالت سے سزا ہوجائے یا آپ امریکا کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں مستقل رہائش پذیر ہوجائیں یا پھر عارضی بنیادوں پر چھ مہینوں سے زیادہ امریکا سے باہر رہیں --چھ مہینوں سے زیادہ عرصہ باہر رہنے کی صورت میں آپ کو مقامی امریکی قونصلیٹ سے ایک خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہے اور وجوہات بیان کرنا ہوتی ہیں اور اس خصوصی اجازت نامے کو دکھا کر آپ واپس امریکا میں آسکتے ہیں --یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سرکاری افسر اور دوسرے افراد جو گرین کارڈ ہولڈر ہیں وہ چھ مہینوں سے پہلے ہی امریکا کا ایک چکر لگا آتے ہیں تاکہ کوئی مسئلہ نہ ہو --عام طور پر امریکی امیگریشن افسران بھی یہ چیک نہیں کرتے کہ یہ بندا امریکا میں ہر سال میں چھ مہینے رہ بھی رہا ہے یا صرف چکر لگا رہا ہے -- میرے ایک دوست کی والدہ جن کے پاس گرین کارڈ تھا وہ ڈیڑھ سال بعد امریکا آئیں --امیگریشن افسر نے ایک عمومی قسم کا سوال کیا کہ امریکا سے باہر کتنی دیر قیام کیا تھا؟ میرے دوست کی والدہ نے بجائے جھوٹ بولنے کے یہ کہ دیا کہ ڈیڑھ سال -- اب وہ افسر بھی کچھ اصولی قسم کا تھا --چاہتا تو وارننگ دے کر چھوڑ سکتا تھا مگر اس نے مزید سوال و جواب کیے تو بزرگ خاتون گھبرا گئیں اور اعتراف کرلیا کہ وہ اپنے بیٹے اور اور نواسوں کو ملنے آتی ہیں اور مستقل امریکا میں رہائش پذیر نہیں ہیں --اس پر افسر نے انہیں بتایا کہ اس صورت میں انہیں گرین کارڈ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس نے ایک دس سال کا ملٹیپل اینٹری ویزا جاری کردیا کہ وہ جب چاہیں اپنے بیٹے بہو اور نواسوں سے مل سکتی ہیں --تاہم ساتھ ساتھ اس افسر نے گرین کارڈ کینسل کردیا
میرا دوست اپنی والدہ پر بہت خفا ہوا کہ جھوٹ کیوں نہیں بولا کہ چار مہینے بعد واپس امریکا آرہی تھیں --اس افسر نے کونسا چیک کرنا تھا --اب میرا دوست کہ تو درست رہا تھا --امیگریشن افسر کے پاس لمبی لائن ہوتی ہے -- صرف دو سے تین منٹ ہوتے ہیں وہ وہاں آپکے جھوٹ پکڑنے نہیں بیٹھے -- مگر اصولی طور پر دیکھا جاۓ تو کیا قانونی اور اخلاقی طور پر یہ درست ہے؟
لہٰذا جج بابر ستار صاحب نے اپنا گرین کارڈ کا سٹیٹس بیس سالوں سے دھوکہ دہی سے برقرار رکھا ہے --انہوں نے اوریجنل گرین کارڈ لیتے وقت اور پھر دس سال بعد تجدید کرواتے وقت یہ اقرار کیا ہے کہ وہ مستقل امریکا میں رہائش رکھتے ہیں --انہوں نے اپنی امریکی شہری بیوی اور اپنے امریکا میں موجود گھر کا ایڈریس درخواست میں لکھا ہے جس پر کہ گرین کارڈ بھیجا جاتا ہے --امریکی قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان میں کسی ایڈریس پر گرین کارڈ بھیجا جائے
اس ساری بیک گراؤنڈ کے بعد میرا جج صاحب سے سوال ہے کہ انہوں نے اپنی اوریجنل گرین کارڈ اور پھر تجدید کروانے کروانے والی درخواستوں میں غلط بیانی اور جھوٹ سے کیوں کام لیا؟
ان کا ارادہ تو مستقل امریکا میں رہنے کا تھا ہی نہیں
اسلام آباد ہائی کورٹ کی حالیہ پریس ریلیز میں یہ واضح ہے کہ جج صاحب دو ہزار پانچ میں ہی مستقل طور پر پاکستان آگئے تھے اوران کا امریکا میں مستقل سکونت کا ارادہ نہیں تھا اور ان کے پاس شہریت بھی نہیں ہے لہذا صاف ظاہر ہے کہ جج صاحب نے گرین کارڈ کے فوائد کو برقرار رکھنے کے لیے امریکی حکومت کو دھوکہ دیا --کیا انہیں گرین کارڈ کی تجدید کروانے کی بجاۓ صرف ویزا نہیں رکھنا چاہیے تھا؟
کیا منصوبہ یہ تو نہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا میں بیوی بچوں کے پاس واپس جایا جاۓ، شہریت حاصل کی جاۓ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ گرین کارڈ سٹیٹس برقرار رکھا جاۓ؟
میری نظر میں جج صاحب امریکی حکومت سے فراڈ کے مرتکب ھوئے ہیں، صادق اور امین نہیں رہے اور جج کے منصب پر رہنے کے اہل نہیں رہے --اگر کوئی شخص چاہے تو امریکا میں ان کے خلاف دھوکہ دہی کا کیس کرسکتا ہے جس کا نتیجہ گرین کارڈ سے محرومی اور آیندہ کے لیے امریکا کے دروازے بند ہونا بھی شامل ہے

جج بابر ستار کا ایک اور مشہور کیس شہریار آفریدی والا ہے جس میں انہوں نے ایک افسر کو توہین عدالت پر سزا دی --یہ بھی اختیار سے تجاوز ہے کیونکہ قانون انتظامیہ کو ایم پی او کے تحت نظربندی کے اختیار کی اجازت دیتا ہے --یہ درست ہے کہ اکثر انتظامیہ اس قانون کو غلط استعمال کرتی ہے مگر اس کا حل یہ نہیں کہ ایک جج بھی قانون سے ماورا فیصلے دینے شروع کردے --آپ فوری ریلیف دے دیں یا پھر قانون کو ہی غلط اور آئین سے متصادم قرار دے دیں --ایک افسر کو رائج الوقت قانون کا استعمال کرنے پر سزا نہیں دی جاسکتی --اور پھر یہ کس قسم کا فیصلہ ہے کہ شہریار آفریدی کو مستقبل کے کسی مقدمے میں جوکہ ابھی درج ہی نہیں ہوا اس میں بھی گرفتار نہ کیا جاۓ --کیا جج صاحب نے ہارورڈ یونیورسٹی سے اس قسم کا کوئی قانون پڑھا ہے؟ کیونکہ پاکستان کے کسی آئین اور قانون میں تو ایسی کوئی چیز درج نہیں کہ جج حضرات مستقبل کے مقدمات میں بھی ریلیف دے سکتے ہیں
میں صاف سمجھتا ہوں کہ جج صاحبان ایسا کیوں کرتے ہیں --وہ سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ لوگوں کو غیر قانونی اور فضول مقدمات میں گرفتار کر رہی ہے لہذا لوگوں کو ریلیف ملنا چاہیے اور زیادتی بند ہونی چاہیے مگر اگر ججز ایسے آرڈر پاس کرنا شروع کردیں جو خود آئین اور قانون سے ماورا ہوں تو پھر دونوں میں فرق کیا رہ گیا؟ کل کو کسی جج نے یہ آرڈر دے دیا کہ پارلیمانی طرز حکومت غیر اسلامی ہے لہٰذا فوراً خلافت یا صدارتی نظام کو نافذ کیا جاۓ --تو کیا ایسا آرڈر صحیح ہوگا؟ ایک دفعہ کسی جج کو قانون سے باہر نکل کر فیصلے دینے کی عادت ہوجاۓ تو یہ سلسلہ رکنے والا نہیں

ایک اور مثال سندھ ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس عقیل عباسی کی ہے -- یہ بات قانونی حلقوں میں عام ہے کہ ان جج صاحب سے جسٹس بندیال اور باقیوں نے بہت زیادتی کی --ان سے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ لا کر ان کا حق مارا گیا
میں نے جسٹس عقیل عباسی کے حالیہ ایک دو کیسز کا مطالعہ کیا ہے -- ان جج صاحب میں بھی انتظامیہ کے اختیارات سلب کرنے کرنے کے جراثیم پائے جاتے ہیں -- انہوں نے ایکس یا ٹویٹر کی بحالی کو آزادی اظہار رائے سے جوڑ دیا ہے --دیکھیں میں ذاتی طور پر ایکس کی بحالی چاہتا ہوں --ان حربوں سے معلومات کی رسائی کو محدود نہیں کیا سکتا مگر کیا جج صاحب مجھے بتا سکتے ہیں کہ ایلون مسک کی امریکی کمپنی نے کیا آپ کے کورٹ کو درخواست کی ہے کہ ایکس کو پاکستان میں بحال کیا جاۓ؟ یہ ایک غیر ملکی کمپنی ہے اور پاکستان کی منتخب حکومت کسی بھی غیر ملکی کمپنی پر پابندی لگانے کا پورا اختیار رکھتی ہے --چاہے پابندی غلط ہو مگر کورٹ کو انتظامیہ کے اختیارات میں مداخلت کو کوئی حق حاصل نہیں --انتظامیہ نے پابندی لگائی ہے اور پبلک پریشر پر انتظامیہ ہی اسے ہٹا سکتی ہے --جج صاحبان اپنی ٹانگ اڑانے سے باز رہیں -- یہاں ججز ڈیم بنارہے ہیں یا تجاوزات کو ہٹوا رہے ہیں مگر ان لاکھوں کیسز کے بارے میں کچھ نہیں کرہے جوکہ سالوں سے التوا کا شکار ہیں

یہی جج عقیل عباسی صاحب ابھی کچھ دنوں پہلے کراچی اور سندھ میں امن و امان سے متعلق ایک ایسے اجلاس کی صدارت کرتے پائے گئے جس میں سندھ کے سرکاری افسران اور پولیس وغیرہ شامل تھے -- صاف ظاہر ہے کہ جج صاحب نے عملاً سندھ کے وزیراعلی کے اختیارات سنبھال لیے ہیں
لہذا میری جوڈیشل کمیشن سے درخواست ہے کہ چیف جسٹس عقیل عباسی کو سپریم کورٹ میں لانے سے پرہیز کیا جاۓ یا کم از کم پہلے ان سے ان حرکتوں کی پوچھ گچھ کی جائے
میری جسٹس بندیال کے بارے میں اچھی رائے نہیں ہے مگر شاید انہوں نے جج عقیل عباسی کو نظر انداز کر کے کوئی برا فیصلہ نہیں کیا تھا --ان صاحب کو عدلیہ اور انتظامیہ کی حدود و قیود کی کوئی خاص سمجھ نہیں

میں اس مضمون کا اختتام ایک آخری جج صاحب سے کروں گا جنہوں نے میری پہلی رائے کو غلط ثابت کیا --میں جج محمد علی مظہر کے بارے میں یہ ابتدائی راۓ رکھتا تھا کہ یہ سنیارٹی کو نظر انداز کرکے سفارشی طور پر سپریم کورٹ میں لائے گئے ہیں --تاہم لائیو نشریات میں انہوں نے ثابت کیا کہ انہیں قانون اور آئین پر دسترس حاصل ہے اور یہ بہت اچھے سوال کرتے ہیں اور بہت ذہین جج ہیں --سپریم کورٹ کو ایسے ججوں کی ضرورت ہے

کاش سیاسی جماعتیں اپنے اختیارات کو سمجھیں اور پارلیمنٹ دوبارہ ججز تعیناتی کا اختیار سنبھال لے جوکہ ایک غاصب چیف جسٹس افتخار نے دھونس اور دھمکیوں سے ہتھیا لیا تھا --امریکا کی طرح قائمہ کمیٹیوں میں امیدواروں کی پیشیاں ہوں اور ان ججز سے پروموشن یا تعیناتی سے پہلے انٹرویوز ہوں اور ان سے ماضی میں پاس کئے گئے آرڈرز کا حساب لیا جاۓ

کاش مگر کاش
تم جتنے بھی بڑے فلسفی بن جاؤ تمہارا ایف اے پاس ٹٹ پونجھیا پکڑا جاتا ہے
 

sensible

Chief Minister (5k+ posts)
ہمنے تو یہ بھی سنا تھا کہ فوج کے اندر احتساب کا نظام موجود ہے تو پاکستان توڑنے کا احتساب کیوں نہیں ہوا ۔چار بار مارشل لا لگانے کا احتساب۔جرنیلوں کی حرام کی کمائ کا احتساب ہوا؟بلکہ پاکستان کی سڑکوں پر سویلنز کو اور دوسرے اداروں کو دھمکیاں دیتی فوجیوں کی فیملیوں کا احتساب ہوا؟
اور تو نے اگر عام شہریوں سے ٹھکائ کرانی ہے تو اس طرح کے بکواس کرنا ورنہ تیرے جیسےٹٹوں کو عوام نے الیکشن میں جیسے کچومر نکالا تھا ایسے ہی نکلے گا تیرا بھی۔کتے کا بچہ فورم کو بند کیا ہوا ہے اور یہاں ٹٹی پھیلانے آیا ہے پھر بھی
 

Qarar

MPA (400+ posts)
تم جتنے بھی بڑے فلسفی بن جاؤ تمہارا ایف اے پاس ٹٹ پونجھیا پکڑا جاتا ہے
یار ایف اے بھی کم تعلیم نہیں ہے
😀
اس فورم پر بھی کئی مہینوں بعد آنا ہوا مگر کوئی تبدیلی نہیں .. ہر دوسرا بندا آکر چول ہی مارتا ہے ..سبجیکٹ پر کوئی بات نہیں کرتا
میرا سوال یہ کہ اپنی گرین کارڈ درخواست میں جھوٹ بول کر اور جعل سازی کرکے پکڑے جانے کے بعد جج بابر ستار صاحب صرف دوسروں پر جرمانے کرکے اس صورتحال سے نکل سکتے ہیں؟
 

انقلاب

Chief Minister (5k+ posts)
یار ایف اے بھی کم تعلیم نہیں ہے
😀
اس فورم پر بھی کئی مہینوں بعد آنا ہوا مگر کوئی تبدیلی نہیں .. ہر دوسرا بندا آکر چول ہی مارتا ہے ..سبجیکٹ پر کوئی بات نہیں کرتا
میرا سوال یہ کہ اپنی گرین کارڈ درخواست میں جھوٹ بول کر اور جعل سازی کرکے پکڑے جانے کے بعد جج بابر ستار صاحب صرف دوسروں پر جرمانے کرکے اس صورتحال سے نکل سکتے ہیں؟
چول مارنے کے لیے ایف اے بھی بہت بڑی ڈگری ہے، ٹٹ پُونجھیا ساب
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
Qarar-nama
@qarar501

پاکستان کی عدلیہ کے ماضی کو دیکھتے ھوئے میرا ہمیشہ سے یہ یقین رہا ہے کہ عدلیہ ایک ایسا گلا سڑا جوہڑ ہے جس میں صاف ستھرے ججز بھی اپنی تمام تر اخلاقیات، روایات اور اصولوں سمیت غرق ہوجاتے ہیں
میں نے دس پندرہ سال پہلے امریکی سپریم کورٹ کے جج اینٹونن سکالیا کا انڑویو سنا جس میں انہوں نے کہا کہ ججز کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ آئین اور قانون سے باہر جاکر فیصلے نہ دیں اور نہ ہی ایسے آرڈرز پاس کریں جوکہ قانون بنانے کے مترادف ہوں --امریکی جج نے ایک ایسی مثال دی جوکہ میرے لیے بہت حیران کن تھی مگر اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ امریکی ججز قانون کی تشریح کیسے کرتے ہیں --جج صاحب نے کہا کہ امریکا میں انیس سو انیس سے پہلے خواتین کو ووٹ دینے کی آزادی نہیں تھی --اگر اس سے پہلے کوئی خاتون ان کے پاس فیصلے کے لیے آتی اور ووٹ کا حق مانگتی تو وہ جج کے طور پر اس کی درخواست کو ریجیکٹ کردیتے کیونکہ ایک جج آئین اور قانون میں درج کیے گئے الفاظ سے آگے نہیں جاسکتا --عورتوں کو ووٹ کا حق دینا امریکی کانگریس کا حق تھا اور عوامی نمائندوں نے عوامی پریشر پر بلآخر عورتوں کو ان کا حق دے دیا --ایک جج کے طور پر امریکی سپریم کورٹ مقننہ کے اختیارات نہیں سنبھال سکتی تھی حالانکہ ذاتی طور پر وہ سمجھتے تھے کہ عورتوں سے بہت ناانصافی ہو رہی تھی

میں آج کے اس مضمون میں پاکستان کی عدلیہ کے کچھ حالیہ فیصلوں اور سکینڈلز پر کچھ الفاظ تحریر کرنا چاہوں گا --بیشترپاکستانی ججز اپنے آپ کو مسیحا سمجھتے ہیں جنھیں خدا نے کسی خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے --زیادہ ترججز فیصلہ کرتے وقت قانون اور آئین سے ماورا صرف داد و تحسین یا نظریہ ضرورت کے لیے فیصلے دیتے ہیں -- کچھ ہفتے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب محسن اختر کیانی نے نگران وزیراعظم کاکڑ صاحب کو "ذاتی حیثیت" میں عدالت طلب کیا اور لاپتا افراد کے کیس میں پوچھ گچھ کی -- اس طلبی پر میڈیا میں جج کیانی کی بہت تعریف کی گئی کہ کیا نڈر اور بہادر جج ہے --میری نظر میں یہ یہ ایک پی آر سٹنٹ سے زیادہ کچھ نہیں تھا --اس سے جج صاحب کی انا کو ضرور تسکین مل گئی ہوگی اور دنیا کو یہ پیغام بھی مل گیا ہوگا کہ پاکستانی عدلیہ بہت طاقتور ہے مگر کیا اس سے کیس کا بھی کوئی فائدہ ہوا ہوگا؟ بلکل نہیں -- جو بات نگران وزیراعظم کاکڑ نے عدالت میں بتائی کیا وہی بات اٹارنی جنرل نہیں بتا سکتے تھے؟ -- اگر عدالت کی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہی تھا تو کیا مسنگ پرسن کمیشن کے چیئرمین ریٹائرڈ جج جاوید اقبال کو بلانا ضروری نہیں تھا کہ تم کس مرض کی دوا ہو جو کئی سالوں سے بھاری بھرکم تنخواہ لے رہے ہو مگر ایک ٹکے کا کام نہیں کیا ہے --مگر چونکہ وہ پیٹی بھائی جج ہے اس لیے اسے استثنیٰ حاصل ہے --جج کیانی صاحب چاہتے تو آئی ایس آئی چیف کو بھی طلب کر سکتے تھے، بلوچستان کے کور کمانڈر کو بھی بلا سکتے تھے مگر عدالتی اختیار کا ہتھوڑا چلا تو صرف ایک سویلین پر --کاکڑ صاحب چاہتے تو آئین میں وزیراعظم کو دئیے گئے استثنیٰ کے پیچھے چھپ سکتے تھے مگر انہوں نے گوارا نہیں کیا مگر اہم بات یہ ہے کہ کیا جج صاحب کو پتا نہیں تھا کہ وزیراعظم کو پیشی سے استثنیٰ حاصل ہے --تو کس لیے عدالتی اختیار کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا اور ایسا آرڈر پاس کیا گیا؟

جج بابر ستار کی جج بننے سے پہلے عمومی شہرت بہت اچھی تھی لیکن جج بننے کے بعد انہوں نے کچھ ایسے آرڈرز پاس کیے ہیں جس پر مجھے کافی تشویش ہے --جج بابر ستار نے امریکا سے تعلیم حاصل کی ہے --وہ یہ ضرور جانتے ہونگے کہ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے کیا اختیارات ہیں --لیکن انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کی آڈیو لیکس پر قائمہ کمیٹی کو اپنے کام سے روکنے پر آئین کی بڑی خلاف ورزی کی ہے --قائمہ کمیٹی کا واحد کام سرکاری افسروں یا پرائیویٹ شہریوں کو بلا کر پوچھ گچھ کرنا ہوتا ہے --چاہے یہ مہنگائی کا مسئلہ ہو، کرپشن ہو یا عوامی اہمیت کا کوئی اور معاملہ -- جج بابر ستار کو بخوبی علم ہے کہ قائمہ کمیٹی کو عدالت کی طرح سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں --امریکا میں بھی قائمہ کمیٹیاں آئے دن کسی نہ کسی وزیر کو ، ایف بی آئی اور سی آئی اے کے سربراہان کو، گوگل، فیس بک یا ٹویٹر کے مالکان کو بلا کر سوال و جواب کرتی رہتی ہیں مگر جج صاحب کو یہ بھی گوارا نہیں ہوسکا کہ قائمہ کمیٹی نجم ثاقب سے دو چار سوال ہی کرسکے --ایک ایسا سٹے آرڈر دیا ہوا ہے جوکہ مہینوں سے جاری ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لارہا --یعنی ججز کے ساتھ ساتھ ان کی فیملی کو بھی مکمل استثنیٰ؟

جج بابر ستار کا نام ایک اور آرڈر میں بھی آیا جب انہوں نے اس بات پر سماعت شروع کردی اور حکومتی اداروں سے باز پرس کی، ڈانٹ ڈپٹ کی کہ نئے ججز کو رہائش الاٹ کرنے میں تاخیر ہو رہی ہے اور یہ عدلیہ کی "آزادی" کے منافی ہے --کیا بڑی بات ہو گئی اگر سرکاری رہائش میں کچھ تاخیر ہے --بھاری بھرکم الاؤنس تو مل ہی رہا ہے --کیا کورٹ کے پاس اتنا ٹائم ہے کہ ان سطحی قسم کی درخواستوں کو سنا جاۓ چہ جائیکہ ان پر آرڈر بھی پاس کیا جاۓ؟

جج بابر ستار صاحب کا گرین کارڈ کا ایک مبینہ سکینڈل بھی سوشل میڈیا میں کافی دنوں سے گردش کر رہا ہے --کافی لوگوں کو اس میں کچھ کنفیوژن بھی ہے کچھ لوگ سمجھتے ہیں یہ اچھا نہیں اور کچھ گرین کارڈ کو سرف سفری دستاویز قرار دے رہے ہیں --میں ذاتی طور پر چونکہ گرین کارڈ اور پھر شہریت کے مراحل سے گزرا ہوں تو میں اس پر اپنی رائے ضرور دینا چاہوں گا --بہت اچھی بات ہے کہ جج صاحب کو ایک ہنرمند فرد کے طور پر امریکا میں مستقل سکونت کے لیے غالباً دو ہزار پانچ میں گرین کارڈ ملا -- گرین کارڈ دس سال کے لیے ملتا ہے اور اسے جتنی بار بھی چاہے مزید دس سال کے لیے تجدید کروائی جاسکتی ہے --تاہم لوگوں کی اکثریت اس گرین کارڈ کو پانچ سال بعد شہریت کارڈ میں تبدیل کروا لیتی ہے -- شہریت کارڈ کی شرط یہ ہے کہ کم از کم پانچ سال گرین کارڈ ہو اور ان پانچ سالوں میں کم از کم تین سال امریکا میں رہائش ہو --جج بابر ستار کے بیوی بچوں نے یہ شرطیں پوری کرکے شہریت کارڈ لے لیے، شہریت کارڈ دکھا کر امریکی پاسپورٹ (سفری دستاویز) بھی لے لیے مگر جج صاحب خود چونکہ پاکستان آگئے اور وکالت شروع کردی تو اس لیے شہریت کی یہ شرائط کو ابھی پورا نہیں کرتے -- تاہم شہریت نہ لینے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا --انہوں نے غالباً جج بننے سے کچھ عرصہ پہلے گرین کارڈ کی تجدید کروائی تھی --اور یہاں دوستو اصل اور بڑا مسئلہ معرض وجود میں آتا ہے

امریکی قانون کے مطابق گرین کارڈ صرف ان افراد کو جاری کیا جاتا ہے جو یہ درخواست اور حلف نامہ دیتے ہیں کہ وہ امریکا میں مستقل رہائش رکھتے ہیں یا رکھیں گے --گرین کارڈ اور شہریت میں صرف اور صرف ایک ہی فرق ہے اور وہ یہ کہ گرین کارڈ ہولڈر الیکشن میں ووٹ نہیں ڈال سکتا ورنہ اسے تمام تر حقوق اور سہولتیں حاصل ہیں جو شہریوں کو ہیں
امریکی قانون یہ کہتا ہے کہ گرین کارڈ کو کچھ وجوہات کی بنا پر کینسل بھی کیا جاسکتا ہے --مثَلاً اگر آپ درخواست میں غلط بیانی سے کام لیں، کوئی جرم کا ارتکاب کریں اور آپ کو عدالت سے سزا ہوجائے یا آپ امریکا کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں مستقل رہائش پذیر ہوجائیں یا پھر عارضی بنیادوں پر چھ مہینوں سے زیادہ امریکا سے باہر رہیں --چھ مہینوں سے زیادہ عرصہ باہر رہنے کی صورت میں آپ کو مقامی امریکی قونصلیٹ سے ایک خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہے اور وجوہات بیان کرنا ہوتی ہیں اور اس خصوصی اجازت نامے کو دکھا کر آپ واپس امریکا میں آسکتے ہیں --یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سرکاری افسر اور دوسرے افراد جو گرین کارڈ ہولڈر ہیں وہ چھ مہینوں سے پہلے ہی امریکا کا ایک چکر لگا آتے ہیں تاکہ کوئی مسئلہ نہ ہو --عام طور پر امریکی امیگریشن افسران بھی یہ چیک نہیں کرتے کہ یہ بندا امریکا میں ہر سال میں چھ مہینے رہ بھی رہا ہے یا صرف چکر لگا رہا ہے -- میرے ایک دوست کی والدہ جن کے پاس گرین کارڈ تھا وہ ڈیڑھ سال بعد امریکا آئیں --امیگریشن افسر نے ایک عمومی قسم کا سوال کیا کہ امریکا سے باہر کتنی دیر قیام کیا تھا؟ میرے دوست کی والدہ نے بجائے جھوٹ بولنے کے یہ کہ دیا کہ ڈیڑھ سال -- اب وہ افسر بھی کچھ اصولی قسم کا تھا --چاہتا تو وارننگ دے کر چھوڑ سکتا تھا مگر اس نے مزید سوال و جواب کیے تو بزرگ خاتون گھبرا گئیں اور اعتراف کرلیا کہ وہ اپنے بیٹے اور اور نواسوں کو ملنے آتی ہیں اور مستقل امریکا میں رہائش پذیر نہیں ہیں --اس پر افسر نے انہیں بتایا کہ اس صورت میں انہیں گرین کارڈ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس نے ایک دس سال کا ملٹیپل اینٹری ویزا جاری کردیا کہ وہ جب چاہیں اپنے بیٹے بہو اور نواسوں سے مل سکتی ہیں --تاہم ساتھ ساتھ اس افسر نے گرین کارڈ کینسل کردیا
میرا دوست اپنی والدہ پر بہت خفا ہوا کہ جھوٹ کیوں نہیں بولا کہ چار مہینے بعد واپس امریکا آرہی تھیں --اس افسر نے کونسا چیک کرنا تھا --اب میرا دوست کہ تو درست رہا تھا --امیگریشن افسر کے پاس لمبی لائن ہوتی ہے -- صرف دو سے تین منٹ ہوتے ہیں وہ وہاں آپکے جھوٹ پکڑنے نہیں بیٹھے -- مگر اصولی طور پر دیکھا جاۓ تو کیا قانونی اور اخلاقی طور پر یہ درست ہے؟
لہٰذا جج بابر ستار صاحب نے اپنا گرین کارڈ کا سٹیٹس بیس سالوں سے دھوکہ دہی سے برقرار رکھا ہے --انہوں نے اوریجنل گرین کارڈ لیتے وقت اور پھر دس سال بعد تجدید کرواتے وقت یہ اقرار کیا ہے کہ وہ مستقل امریکا میں رہائش رکھتے ہیں --انہوں نے اپنی امریکی شہری بیوی اور اپنے امریکا میں موجود گھر کا ایڈریس درخواست میں لکھا ہے جس پر کہ گرین کارڈ بھیجا جاتا ہے --امریکی قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان میں کسی ایڈریس پر گرین کارڈ بھیجا جائے
اس ساری بیک گراؤنڈ کے بعد میرا جج صاحب سے سوال ہے کہ انہوں نے اپنی اوریجنل گرین کارڈ اور پھر تجدید کروانے کروانے والی درخواستوں میں غلط بیانی اور جھوٹ سے کیوں کام لیا؟
ان کا ارادہ تو مستقل امریکا میں رہنے کا تھا ہی نہیں
اسلام آباد ہائی کورٹ کی حالیہ پریس ریلیز میں یہ واضح ہے کہ جج صاحب دو ہزار پانچ میں ہی مستقل طور پر پاکستان آگئے تھے اوران کا امریکا میں مستقل سکونت کا ارادہ نہیں تھا اور ان کے پاس شہریت بھی نہیں ہے لہذا صاف ظاہر ہے کہ جج صاحب نے گرین کارڈ کے فوائد کو برقرار رکھنے کے لیے امریکی حکومت کو دھوکہ دیا --کیا انہیں گرین کارڈ کی تجدید کروانے کی بجاۓ صرف ویزا نہیں رکھنا چاہیے تھا؟
کیا منصوبہ یہ تو نہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا میں بیوی بچوں کے پاس واپس جایا جاۓ، شہریت حاصل کی جاۓ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ گرین کارڈ سٹیٹس برقرار رکھا جاۓ؟
میری نظر میں جج صاحب امریکی حکومت سے فراڈ کے مرتکب ھوئے ہیں، صادق اور امین نہیں رہے اور جج کے منصب پر رہنے کے اہل نہیں رہے --اگر کوئی شخص چاہے تو امریکا میں ان کے خلاف دھوکہ دہی کا کیس کرسکتا ہے جس کا نتیجہ گرین کارڈ سے محرومی اور آیندہ کے لیے امریکا کے دروازے بند ہونا بھی شامل ہے

جج بابر ستار کا ایک اور مشہور کیس شہریار آفریدی والا ہے جس میں انہوں نے ایک افسر کو توہین عدالت پر سزا دی --یہ بھی اختیار سے تجاوز ہے کیونکہ قانون انتظامیہ کو ایم پی او کے تحت نظربندی کے اختیار کی اجازت دیتا ہے --یہ درست ہے کہ اکثر انتظامیہ اس قانون کو غلط استعمال کرتی ہے مگر اس کا حل یہ نہیں کہ ایک جج بھی قانون سے ماورا فیصلے دینے شروع کردے --آپ فوری ریلیف دے دیں یا پھر قانون کو ہی غلط اور آئین سے متصادم قرار دے دیں --ایک افسر کو رائج الوقت قانون کا استعمال کرنے پر سزا نہیں دی جاسکتی --اور پھر یہ کس قسم کا فیصلہ ہے کہ شہریار آفریدی کو مستقبل کے کسی مقدمے میں جوکہ ابھی درج ہی نہیں ہوا اس میں بھی گرفتار نہ کیا جاۓ --کیا جج صاحب نے ہارورڈ یونیورسٹی سے اس قسم کا کوئی قانون پڑھا ہے؟ کیونکہ پاکستان کے کسی آئین اور قانون میں تو ایسی کوئی چیز درج نہیں کہ جج حضرات مستقبل کے مقدمات میں بھی ریلیف دے سکتے ہیں
میں صاف سمجھتا ہوں کہ جج صاحبان ایسا کیوں کرتے ہیں --وہ سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ لوگوں کو غیر قانونی اور فضول مقدمات میں گرفتار کر رہی ہے لہذا لوگوں کو ریلیف ملنا چاہیے اور زیادتی بند ہونی چاہیے مگر اگر ججز ایسے آرڈر پاس کرنا شروع کردیں جو خود آئین اور قانون سے ماورا ہوں تو پھر دونوں میں فرق کیا رہ گیا؟ کل کو کسی جج نے یہ آرڈر دے دیا کہ پارلیمانی طرز حکومت غیر اسلامی ہے لہٰذا فوراً خلافت یا صدارتی نظام کو نافذ کیا جاۓ --تو کیا ایسا آرڈر صحیح ہوگا؟ ایک دفعہ کسی جج کو قانون سے باہر نکل کر فیصلے دینے کی عادت ہوجاۓ تو یہ سلسلہ رکنے والا نہیں

ایک اور مثال سندھ ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس عقیل عباسی کی ہے -- یہ بات قانونی حلقوں میں عام ہے کہ ان جج صاحب سے جسٹس بندیال اور باقیوں نے بہت زیادتی کی --ان سے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ لا کر ان کا حق مارا گیا
میں نے جسٹس عقیل عباسی کے حالیہ ایک دو کیسز کا مطالعہ کیا ہے -- ان جج صاحب میں بھی انتظامیہ کے اختیارات سلب کرنے کرنے کے جراثیم پائے جاتے ہیں -- انہوں نے ایکس یا ٹویٹر کی بحالی کو آزادی اظہار رائے سے جوڑ دیا ہے --دیکھیں میں ذاتی طور پر ایکس کی بحالی چاہتا ہوں --ان حربوں سے معلومات کی رسائی کو محدود نہیں کیا سکتا مگر کیا جج صاحب مجھے بتا سکتے ہیں کہ ایلون مسک کی امریکی کمپنی نے کیا آپ کے کورٹ کو درخواست کی ہے کہ ایکس کو پاکستان میں بحال کیا جاۓ؟ یہ ایک غیر ملکی کمپنی ہے اور پاکستان کی منتخب حکومت کسی بھی غیر ملکی کمپنی پر پابندی لگانے کا پورا اختیار رکھتی ہے --چاہے پابندی غلط ہو مگر کورٹ کو انتظامیہ کے اختیارات میں مداخلت کو کوئی حق حاصل نہیں --انتظامیہ نے پابندی لگائی ہے اور پبلک پریشر پر انتظامیہ ہی اسے ہٹا سکتی ہے --جج صاحبان اپنی ٹانگ اڑانے سے باز رہیں -- یہاں ججز ڈیم بنارہے ہیں یا تجاوزات کو ہٹوا رہے ہیں مگر ان لاکھوں کیسز کے بارے میں کچھ نہیں کرہے جوکہ سالوں سے التوا کا شکار ہیں

یہی جج عقیل عباسی صاحب ابھی کچھ دنوں پہلے کراچی اور سندھ میں امن و امان سے متعلق ایک ایسے اجلاس کی صدارت کرتے پائے گئے جس میں سندھ کے سرکاری افسران اور پولیس وغیرہ شامل تھے -- صاف ظاہر ہے کہ جج صاحب نے عملاً سندھ کے وزیراعلی کے اختیارات سنبھال لیے ہیں
لہذا میری جوڈیشل کمیشن سے درخواست ہے کہ چیف جسٹس عقیل عباسی کو سپریم کورٹ میں لانے سے پرہیز کیا جاۓ یا کم از کم پہلے ان سے ان حرکتوں کی پوچھ گچھ کی جائے
میری جسٹس بندیال کے بارے میں اچھی رائے نہیں ہے مگر شاید انہوں نے جج عقیل عباسی کو نظر انداز کر کے کوئی برا فیصلہ نہیں کیا تھا --ان صاحب کو عدلیہ اور انتظامیہ کی حدود و قیود کی کوئی خاص سمجھ نہیں

میں اس مضمون کا اختتام ایک آخری جج صاحب سے کروں گا جنہوں نے میری پہلی رائے کو غلط ثابت کیا --میں جج محمد علی مظہر کے بارے میں یہ ابتدائی راۓ رکھتا تھا کہ یہ سنیارٹی کو نظر انداز کرکے سفارشی طور پر سپریم کورٹ میں لائے گئے ہیں --تاہم لائیو نشریات میں انہوں نے ثابت کیا کہ انہیں قانون اور آئین پر دسترس حاصل ہے اور یہ بہت اچھے سوال کرتے ہیں اور بہت ذہین جج ہیں --سپریم کورٹ کو ایسے ججوں کی ضرورت ہے

کاش سیاسی جماعتیں اپنے اختیارات کو سمجھیں اور پارلیمنٹ دوبارہ ججز تعیناتی کا اختیار سنبھال لے جوکہ ایک غاصب چیف جسٹس افتخار نے دھونس اور دھمکیوں سے ہتھیا لیا تھا --امریکا کی طرح قائمہ کمیٹیوں میں امیدواروں کی پیشیاں ہوں اور ان ججز سے پروموشن یا تعیناتی سے پہلے انٹرویوز ہوں اور ان سے ماضی میں پاس کئے گئے آرڈرز کا حساب لیا جاۓ

کاش مگر کاش
images
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
کاش سیاسی جماعتیں اپنے اختیارات کو سمجھیں اور پارلیمنٹ دوبارہ ججز تعیناتی کا اختیار سنبھال لے جوکہ ایک غاصب چیف جسٹس افتخار نے دھونس اور دھمکیوں سے ہتھیا لیا تھا --امریکا کی طرح قائمہ کمیٹیوں میں امیدواروں کی پیشیاں ہوں اور ان ججز سے پروموشن یا تعیناتی سے پہلے انٹرویوز ہوں اور ان سے ماضی میں پاس کئے گئے آرڈرز کا حساب لیا جاۓ

I will agree with you on this point, but our parliamentarians must uphold the highest ethical standards and remain steadfast in their resistance against corruption or undue pressure from the establishment.
 

Qarar

MPA (400+ posts)
I will agree with you on this point, but our parliamentarians must uphold the highest ethical standards and remain steadfast in their resistance against corruption or undue pressure from the establishment.
عوامی نمائندوں کے لیے معیار مختلف اور اونچا کیوں ہے ..ان کو تو بہت پارسا ہونا چاہیے مگر ججز کے لیے کیا یہ ضروری نہیں؟
عوامی نمائندوں کو جعلی ڈگری پر ، جائیداد چھپانے پر ، ٹیکس ریٹرن میں ہیرا پھیری پر ، اور غلط حلف ناموں پر نا اہل کیا جا چکا ہے …لیکن ایک جج کو اسی نوعیت کی جعل سازی پر چھوڑ دیا جانا چاہیے؟ جج بابر ستار کی مستقل رہائش پاکستان میں ہے مگر گرین کارڈ برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے امریکی امیگریشن والوں سے جھوٹ بولا ہے
سوال صرف یہ کہ دو مختلف سٹینڈرڈز کیوں؟ یا تو دونوں کو چھوڑ دیں یا دونوں کو دھر لیں
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
عوامی نمائندوں کے لیے معیار مختلف اور اونچا کیوں ہے ..ان کو تو بہت پارسا ہونا چاہیے مگر ججز کے لیے کیا یہ ضروری نہیں؟
عوامی نمائندوں کو جعلی ڈگری پر ، جائیداد چھپانے پر ، ٹیکس ریٹرن میں ہیرا پھیری پر ، اور غلط حلف ناموں پر نا اہل کیا جا چکا ہے …لیکن ایک جج کو اسی نوعیت کی جعل سازی پر چھوڑ دیا جانا چاہیے؟ جج بابر ستار کی مستقل رہائش پاکستان میں ہے مگر گرین کارڈ برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے امریکی امیگریشن والوں سے جھوٹ بولا ہے
سوال صرف یہ کہ دو مختلف سٹینڈرڈز کیوں؟ یا تو دونوں کو چھوڑ دیں یا دونوں کو دھر لیں
Why just Justice Babar Sattar, why not the current CJ Qazi fraud?
The CJ couldn't justify the ownership of his properties in the UK and is still the CJ.
Babar Sattar, as a green card holder, has not committed any illegal act and is entitled to hold any government post in Pakistan.