sajoo
MPA (400+ posts)
کیا ایک اور نو مارچ آرہا ہے؟ عامر خاکوانی&am
![](/proxy.php?image=http%3A%2F%2Fwww.topstoryonline.com%2Fwp-content%2Fuploads%2F2012%2F06%2Fchaudhry-iftikhar.jpg&hash=a3a3aa77ec28745fec2b5ae6ca078bf6)
Top Story Online: Published on 14. Jun, 2012
دو دن سے میں پاکستان کی نامور انگریزی لکھنے والی ادیبہ بیپسی سدھوا کا شاہکار
ناول جنگل والا صاحب ( کروایٹر کا اردو ترجمہ ) پڑھ رہا ہوں۔ بیپسی کمال کی لکھاری ہیں، ان کے ناول دی برائیڈ، آئس کینڈی مین، امریکن بریٹ وغیرہ عالمی سطح پر پزیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ آئس کینڈی مین پر بالی وڈ میں ارتھ کے نام سے فلم بن چکی ہے۔ میرے زیرمطالعہ ناول کروایٹر کا ترجمہ امریکہ میں مقیم پروفیسر عمر میمن نے کیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ترجمے کا حق ادا کر دیا۔
یہ ناول ایک پارسی خاندان کے گرد گھومتا ہے جس نے انیسویں صدی کے اوائل میں یعنی تقسیم برصغیر پاک وہند سے چالیس پنتالیس سال پہلے لاہور میں رہائش اختیار کی۔ اس لٹے پٹے گھرانے کے واحد کفیل فریدوں جنگل والا نے بعد میں حیران کن ترقی کی ۔ وافر مقدار میں دولت کمائی اور ساتھ ہی بے پناہ اثرورسوخ بھی۔ ہزاروں میل دور سے پارسی فیملیاں اپنے کام کرانے کے لئے فریدوں کے پاس آتے تھے اور وہ اپنے تعلقات کی بنا پر لاہور میں بیٹھے بیٹھے ان کے مسائل حل کرا دیتا۔
اسی فریدوں جنگل والا نے اپنی کامیاب زندگی کے تجربات کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے ایک بار اپنے بچوں سے
پوچھا،’’دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے؟ ‘‘ پھر ان کے جواب رد کرتے ہوئے کہا،’’ نہیں چینی نہیں، پیسہ بھی نہیں، ماں کا پیار بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا میں سب سے میٹھی چیز تمہاری غرض ہے ۔ ہاں اس کے بارے میں سوچو، تمہاری اپنی غرض ، تمہاری خواہشات ، عافیت اور اطمینان کا سرچشمہ ۔ غرض دادا گیر کو خوشامدی بنا دیتی ہے اور ظالم کو رحمدلی پر اکساتی ہے۔ اسےحالات کہہ لو، خودغرضی کہہ لو، جو چاہے کہہ لو، لیکن اول اخر یہ ہوتی تمہاری غرض ہی ہے ۔ دنیا میں ہونے والی ہر بھلائی صرف آدمی کی اپنی مطلب براری کی خاطر ہی ہوتی ہے۔
وہ آدمی جو تھوکنے کے قابل ہے ، تم اسے کس وجہ سے برداشت کر لیتے ہو؟ غرض تمہیں دشمن سے بھائی کی طرح محبت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔‘‘ زمانہ شناس فریدوں اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کا سبق سکھاتے ہوئے کہتا ہے،’’ اپنے وقت میں سب کے لئے میں بھی وہی بن گیا جو وہ چاہتے تھے ۔ جو حکم میری ضرورت اور میری خواہشات نے دیا ، میں نے وہی کیا۔ یہ ضرورتیں آدمی میں لوچ پیدا کرتی ہیں، اسے لچکیلا اور خاکسار بناتی ہیں۔ پھر جب ایک بار وسیلہ ہاتھ میں آ جائے و ٹھاٹ سے بیٹھے بھلائی کرتے رہو، بے حد وبے حساب۔ میں نے ایک یتیم خانے اور ہسپتال کو چندہ دیا، پانی کا نل بھی بنوایا۔۔۔۔۔‘‘
ناول میں فریدوں کی کامیابی کے سفر کی تفصیل بیان کی گئی کہ کس طرح اس نے کہیں پرخوشامد سے کہیں پیسے ،کہیں شراب کی بوتلیں، کہیں پرناچنے والی لڑکیاں پہنچا کر اپنے کام نکلوائے، پولیس افسروں اور انتظامیہ کے دیگر اہلکاروں سے تعلقات بنائے، انہیں تحفے تحائف دیے، ان کے ذاتی مسائل اپنے ذمے لے کر حل کئے، اپنی کمیونٹی میں لوگوں کے کام کئے تاکہ مقبولیت حاصل ہو، خود دکان میں آگ لگا کر جعلی کلیم حاصل کئے ۔ جہاں کام پھنسا وہاں نوٹ لگا کر فائلوں کو پہیے لگوا دیے۔ اس سب کے نتجے میں اسے کنگ میکر کا درجہ حاصل ہو گیا، اپنی برادری کا وہ سب سے بااثر شخص بن گیا۔
مختلف معاشروں میں کامیاب آدمیوں کی کامیابی کی داستانیں اپنے اپنے انداز کی ہوتی ہے، ہمارے طرح کے پس ماندہ اور غیر منظم معاشروں میں البتہ ترقی کے زینے چرھنے کا طریقہ اس سے ملتا جلتا ہی ہے۔ استحصالی طبقات ایک دوسرے سے گٹھ جوڑ کر کے اور چالاک موقعہ پرست انسان ان طبقوں اور اداروں کے ساتھ جڑ کر ایسا نیٹ ورک بناتے ہیں جو انہیں طاقتور ترین حیثیت تک لے جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ڈاکٹر ارسلان افتخار کے حوالے سے اٹھنے والا تنازع تیزی سے پھیلائو اختیار کر رہا ہے۔ اس کے مختلف پہلوئوں پر بات ہو رہی ہے، ہونی بھی چاہیے۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس پر ہے کہ اب کی بار اس طاقتور ترین شخصیت کے بارے میں بھی بات ہو رہی ہے ، جس کے خلاف ایک لفظ بھی نیہں شائع ہوسکتا تھا۔
[HI]
دو سال پہلے ایک معروف کالم نگار نے بتایا کہ ملک کے سب سے بڑے اخبار میں جہاں وہ کالم لکھتا ہے ، پہلے ہی دن ادارتی سیکشن کے سربراہ کی طرف سے یہ بتا دیا گیا کہ تین افراد ایسے ہیں ،جن کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں چھپ سکتا، اس لئے بھول کر بھی نہ لکھئے گا کہ کہیں پروف ریڈنگ میں چیک نہ ہو اور وہ لفظ یا جملہ شائع ہی نہ ہو جائے۔ ان میں سے ایک صاحب یہی پراپرٹی کنگ ہیں جو آج کل ذوالفقار مرزا بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ امید ہے آپ یہ نہیں پوچھیں گے کہ باقی دو صاحب کون ہیں۔ان صاحب کی روشنی سے بھی زیادہ تیز رفتارترقی پر کوئی بات ہی نہیں کرتا تھا، کر بھی نہیں سکتا تھا۔
[/HI]
کچھ بڑے بڑے نام تو خرید لئے گئے تھے، باقی ماندہ اس لئے مجبور تھے کہ میڈیا ہائوسز اشتہارات کی قوت کے آگے بے بس ہوتے ہیں۔ کوئی یہ سوال نہیں کرتا تھا کہ چند ہزار روپے سے شروع ہونے والا سفر آج کئی سوارب تک پہنچ گیا۔ پولیس، فوج، انتظامیہ، فوج، میڈیا غرض ہر جگہ ان کے وفادار موجود تھے، بہت سے بڑے بڑے لوگ براہ راست اور کچھ کے صاحبزادگان لاکھوں روپے مشاہرے پر ملازم تھے۔ اب یہ سوال آٹھائے جا رہے ہیں، ان کے جواب بھی لینے چاہیے۔ یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ میڈیا کے جو طاقتور لوگ ان کے پے رول پر ہیں، وہ بھی بے نقاب ہونے چاہیں، لاہور میں دو دن سے ایک ٹیکسٹ میسج گردش کر رہا ہے ،جس میں دس طاقتور اینکر، کالم نگاروں کے نام اور ان کو ملنے والے مبینہ کروڑوں کے فوائد کی تفصیل درج ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ، ویسے اس بحران کے دوران اخباری رپورٹوں، کالموں اور ٹاک شوز کو غور سے دیکھیں تو خود معلوم ہوجائے گا کہ کون کہاں کھڑا ہے؟
اس خاکسار کا تعلق ان لوگوں میں سے نہیں جو شخصیات کا بت بنا کر ان کی پرستش کرتے ہیں، البتہ یہ بھی ہے کہ کسی کی مقبولیت سے چڑ کر خواہ مخواہ کی بت شکنی کا بھی قائل نہیں۔چیف جسٹس صاحب ایک انسان ہیں، خامیوں اور خوبیوں کامجموعہ، ان میں بھی شخصی تضادات بھی ہوں گے، ظاہر ہے ہر ایک میں ہوتے ہیں۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ چیف جسٹس اپنی تمام تر کمزوریوں اور تعصبات(اگر کچھ ہیں) کے باوجود قابل فروخت نہیں ہیں۔ ماضی میں ایسے جج صاحبان گزرے ہیں، ان کی داستانیں زبان زدعام بھی ہیں، جن کے گینگسٹروں سے تعلقات تھے، ان کے حوالے سے مشہور تھا کہ وکیل کرنے کے بجائے جج ہی کر لیا جائے، ایک صاحب کے داماد جس کیس میں وکیل ہوتے ، صرف اسی کیس ہی میں نیب کے ملزم کی ضمانت ممکن ہو سکتی تھی۔ ان داماد موصؤف کی وکالت ان دنوں چمک اٹھی تھی، سسر صاحب کے ریٹآئر ہوتے ہی ان کا دفتر بھی بھائیں بھائیں کرنے لگا۔
[HI]
چیف جسٹس اگر قابل فروخت ہوتے اور یاد رہے کہ اب تو یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ اگر وہ رضامند ہوجاتے تو کروڑوں نہیں بلکہ دو چار ارب تو آسانی سے کما سکتے تھے، پھر اتنا بڑا ٹریپ پھیلانے کی ضرورت ہی نہیں آنی تھی، جو شخص قابل فروخت ہوتا ہے ، اس سے براہ راست بات ہوتی ہے، اس کے بیٹے کو پھانسنے کی کوشش کوئی نہیں کرتا۔ کم ازکم یہ تو اندازہ ہوگیا کہ اس سسٹم مین ایک شخص ایسا ہے جسے مالی طاقت کے ذور پر خریدا نہیں جا سکتا، ویسے بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ کرپٹ شخص کبھی بھی سسٹم کے خلاف کھڑا ہونے کی جرات نہیں کر سکتا۔کوئی کرپٹ جج آئی ایس آئی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا ہونا تو درکنار بات کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا۔ مسنگ پرسنز جیسے معاملے میں تو ویسے بھی بڑوں بڑوں کے پر جلتے ہیں۔ اس آتشیں حلقے میں جانے کی جرات کوئی سرپھرا ہی کر سکتا ہے۔
اس خاکسار کے خیال میں یہ سب طوفان اٹھانے کا ایک ہی مقصد ہے کہ سپریم کورٹ میں بحریہ ٹائون کے خلاف چلنے والے کیسز چیف جسٹس نہ سن سکیں ، نیب نے باسٹھ ارب کے فراڈ کیس کی تفتیش شروع کی ہے ، یہ بھی اتنا بڑا معاملہ ہے کہ اگر اس کے حقائق سامنے اآ جائیں تو بڑی محنت اور ہوشیاری سے تعمیر کی گئی کئی سلطنتیں یک لخت مسمار ہوجائیں گی، غضب خدا کا ڈیم کے نام پر زمین لی گئی، تیس ہزار کنال کل اراضی اور ایک لاکھ کنال سے زائد فروخت کر دی گئی۔ اصل زمین سے تین گنا زیادہ۔ ایک لاکھ سے زیادہ متاثریں موجود ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹروں کو یہ سوچنا چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ملک ریاض جیسا ٹائیکون اس قدر دبائو میں آ کر آل آئوٹ وار پر اتر آیا ہے۔
[/HI]
یہ بچکانہ کہانی مجھ سے تو ہضم نہیں ہوسکتی کہ ڈاکٹر ارسلان کی بلیک میلنگ سے تنگ آ کر ایسا کیا گیا۔ ایسا کون شخص ہے جو تین برسوں سے بغیر کسی مقصد کے بلیک میل ہو رہا ہو۔ کوئی احمق سے احمق شخص بھی بلیک میلر کو رقم کسی وجہ سے دیتا ہے ۔ جب بلیک میلر کوئی ریلیف نہیں دے رہا تو تین سال تک کون اسے پیسے دے سکتا ہے۔ ملک صاحب اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں، انہیں بخوبی اندازہ تھا کہ ارسلان کتنے پانی میں ہے، وکلا کمیونٹی سے زیادہ متحرک، فعال اور عقابی نگاہ رکھنے والی کمیونٹی اور کہیں نہیں ہے ۔ اگر ڈاکٹر ارسلان کا سپریم کورٹ میں ذرا بھی اثر ورسوخ ہوتا تو پنڈی اور لاہور کی بار کونسلوں میں افواہوں کا سیلاب آ جاتا۔ چیف کے بدترین دشمن بھی یہ بات مانتے ہیں کہ ان پر کوئی اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ ان پر یہ تقنید تو کی جاتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے خلاف کیسز وہ زور شور سے سن رہے ہیں ،مگر شریف برادران کے خلاف کیسز سلو چل رہے ہیں، یہ الزام البتہ کوئی نہیں لگاتا کہ شریف خاندان سے پیسے اور مفاد لے کر ایسا کیا جا رہا ہے۔
رہی ملک ریاض کی منگل کی شام کی پریس کانفرنس تو اس خاکسار نے اپنی صحافتی زندگی میں اتنی تیزی کے ساتھ بائونس ہوجانے والی پریس کانفرنس کبھی نہیں دیکھی۔ انہوں نے جو سوالات اٹھائے ، اگلے ایک گھنٹے میں ان کے جواب مل گئے اور ملک صاحب کی حامی لابی کو پسپا ہونا پڑا۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب پلان کے مطابق ہو رہا ہے۔ ملک صاحب نے پریس کانفرنس دانستہ کی تھی، مقصد چیف کو ڈائریکٹ نشانہ بنانا اور اس قدر گرد وغبار اڑانا ہے کہ چیف کا اجلا چہرہ دھندلا جائے۔ ابھی کئی رائونڈ اور بھی باقی ہیں۔ ترکش میں اور بھی تیر موجود ہوں گے۔ دو تین دنوں بعد انکشافات کے دوسرے سلسلے کی بات اس لئے کہی جا رہی ہے کہ اس دوران افواہیں اڑیں اور پھر وہ وقت آ جائے جب صدر زرداری چیف صاحب کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج دیں۔
[HI]
نومارچ دو ہزار سات کے ری پلے کی تیاری ہو رہی ہے۔ چیف سے نجات پانا سسٹم کے تمام بڑوں کی ضرورت بن گئی ہے، دیکھنا یہ ہے کہہ پہلے کی طرح عوام ان کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے ، وکلا کس حد تک منظم ہو کر باہر آتے ہیں میڈیا کی اکثریت کیا موقف اختیار کرے گی، سیاسی جماعتیں خاص کر شریف برادران اور تحریک انصآف کیا لائحہ عمل اپناتے ہیں، سب سے اہم ایک بار پھر سپریم کورٹ کا اتحاد ہوگا۔ چار پانچ ججوں پر کام کرنے کی افواہیں آڑ رہی ہیں، لاہور سے جانے والے ایک جج صاحب کو باغی گروپ کی قیادت کی افواہ بھی گردش کر رہی ہے۔
[/HI]
امید ہے کہ یہ سب افواہیں ہوں گی۔ یہ بات یاد رکھی جائے کہ اگر کسی طرح چیف جسٹس کو بھیجا گیا تو پھر یہ سیاسی نظام بھی نہیں بچے گا، عوامی ردعمل پھر صورتحال کو ایسی پوزیشن میں لے جائے گا کہ پھر جمہوریت کی ٹرین پٹری سے ہر حال میں اتر جائے گی۔ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ اگرچہ ادارے اہم ہوتے ہیں، افراد نہیں ، مگر بعض اوقات افراد اپنےکیریکٹر اور جرات کے باعث زیادہ اہمیت اخیتار کر لیتے ہیں، بھٹو صاحب ایک فرد ہی تھے ، کوئی ادارہ نہیں ، مگر انہیں ہٹانے کا نقصان آج تک ملک بھگت رہا ہے ۔ پسند ہو یا نہ ہو، لیکن اگر کوئی شخص جرات کر کے اسٹیبلشمنٹت اور نادیدہ قوتوں کے خلاف کھڑا ہو گیا ہے تو اسے ہر حال میں سپورٹ کرنا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑی یہ آخری دیوار بھی گر گئی تو ملک پر ڈائنو ساروں ہی کا راج ہوگا ۔ تاریخ کا یہ باب تو سب کو یاد ہو گا ہی کہ ان ڈائنوسارز نے
ایک دوسرے کو کھا کر اس عہد ہی کا خاتمہ کر دیا تھا۔
__________________
![](/proxy.php?image=http%3A%2F%2Fwww.topstoryonline.com%2Fwp-content%2Fuploads%2F2012%2F06%2Famir1.jpg&hash=aca6cb77ddc55dffee5a8fdc2c3ae810)
عامر خاکوانی معروف صحافی ہیں، روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے ان کے کالم قاریئن میں بہت مقبول ہیں۔
کیا ایک اور نو مارچ آرہا ہے؟ عامر خاکوانی کی تحریر
![](/proxy.php?image=http%3A%2F%2Fwww.topstoryonline.com%2Fwp-content%2Fuploads%2F2012%2F06%2Fchaudhry-iftikhar.jpg&hash=a3a3aa77ec28745fec2b5ae6ca078bf6)
Top Story Online: Published on 14. Jun, 2012
دو دن سے میں پاکستان کی نامور انگریزی لکھنے والی ادیبہ بیپسی سدھوا کا شاہکار
ناول جنگل والا صاحب ( کروایٹر کا اردو ترجمہ ) پڑھ رہا ہوں۔ بیپسی کمال کی لکھاری ہیں، ان کے ناول دی برائیڈ، آئس کینڈی مین، امریکن بریٹ وغیرہ عالمی سطح پر پزیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ آئس کینڈی مین پر بالی وڈ میں ارتھ کے نام سے فلم بن چکی ہے۔ میرے زیرمطالعہ ناول کروایٹر کا ترجمہ امریکہ میں مقیم پروفیسر عمر میمن نے کیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ترجمے کا حق ادا کر دیا۔
یہ ناول ایک پارسی خاندان کے گرد گھومتا ہے جس نے انیسویں صدی کے اوائل میں یعنی تقسیم برصغیر پاک وہند سے چالیس پنتالیس سال پہلے لاہور میں رہائش اختیار کی۔ اس لٹے پٹے گھرانے کے واحد کفیل فریدوں جنگل والا نے بعد میں حیران کن ترقی کی ۔ وافر مقدار میں دولت کمائی اور ساتھ ہی بے پناہ اثرورسوخ بھی۔ ہزاروں میل دور سے پارسی فیملیاں اپنے کام کرانے کے لئے فریدوں کے پاس آتے تھے اور وہ اپنے تعلقات کی بنا پر لاہور میں بیٹھے بیٹھے ان کے مسائل حل کرا دیتا۔
اسی فریدوں جنگل والا نے اپنی کامیاب زندگی کے تجربات کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے ایک بار اپنے بچوں سے
پوچھا،’’دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے؟ ‘‘ پھر ان کے جواب رد کرتے ہوئے کہا،’’ نہیں چینی نہیں، پیسہ بھی نہیں، ماں کا پیار بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا میں سب سے میٹھی چیز تمہاری غرض ہے ۔ ہاں اس کے بارے میں سوچو، تمہاری اپنی غرض ، تمہاری خواہشات ، عافیت اور اطمینان کا سرچشمہ ۔ غرض دادا گیر کو خوشامدی بنا دیتی ہے اور ظالم کو رحمدلی پر اکساتی ہے۔ اسےحالات کہہ لو، خودغرضی کہہ لو، جو چاہے کہہ لو، لیکن اول اخر یہ ہوتی تمہاری غرض ہی ہے ۔ دنیا میں ہونے والی ہر بھلائی صرف آدمی کی اپنی مطلب براری کی خاطر ہی ہوتی ہے۔
وہ آدمی جو تھوکنے کے قابل ہے ، تم اسے کس وجہ سے برداشت کر لیتے ہو؟ غرض تمہیں دشمن سے بھائی کی طرح محبت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔‘‘ زمانہ شناس فریدوں اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کا سبق سکھاتے ہوئے کہتا ہے،’’ اپنے وقت میں سب کے لئے میں بھی وہی بن گیا جو وہ چاہتے تھے ۔ جو حکم میری ضرورت اور میری خواہشات نے دیا ، میں نے وہی کیا۔ یہ ضرورتیں آدمی میں لوچ پیدا کرتی ہیں، اسے لچکیلا اور خاکسار بناتی ہیں۔ پھر جب ایک بار وسیلہ ہاتھ میں آ جائے و ٹھاٹ سے بیٹھے بھلائی کرتے رہو، بے حد وبے حساب۔ میں نے ایک یتیم خانے اور ہسپتال کو چندہ دیا، پانی کا نل بھی بنوایا۔۔۔۔۔‘‘
ناول میں فریدوں کی کامیابی کے سفر کی تفصیل بیان کی گئی کہ کس طرح اس نے کہیں پرخوشامد سے کہیں پیسے ،کہیں شراب کی بوتلیں، کہیں پرناچنے والی لڑکیاں پہنچا کر اپنے کام نکلوائے، پولیس افسروں اور انتظامیہ کے دیگر اہلکاروں سے تعلقات بنائے، انہیں تحفے تحائف دیے، ان کے ذاتی مسائل اپنے ذمے لے کر حل کئے، اپنی کمیونٹی میں لوگوں کے کام کئے تاکہ مقبولیت حاصل ہو، خود دکان میں آگ لگا کر جعلی کلیم حاصل کئے ۔ جہاں کام پھنسا وہاں نوٹ لگا کر فائلوں کو پہیے لگوا دیے۔ اس سب کے نتجے میں اسے کنگ میکر کا درجہ حاصل ہو گیا، اپنی برادری کا وہ سب سے بااثر شخص بن گیا۔
مختلف معاشروں میں کامیاب آدمیوں کی کامیابی کی داستانیں اپنے اپنے انداز کی ہوتی ہے، ہمارے طرح کے پس ماندہ اور غیر منظم معاشروں میں البتہ ترقی کے زینے چرھنے کا طریقہ اس سے ملتا جلتا ہی ہے۔ استحصالی طبقات ایک دوسرے سے گٹھ جوڑ کر کے اور چالاک موقعہ پرست انسان ان طبقوں اور اداروں کے ساتھ جڑ کر ایسا نیٹ ورک بناتے ہیں جو انہیں طاقتور ترین حیثیت تک لے جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ڈاکٹر ارسلان افتخار کے حوالے سے اٹھنے والا تنازع تیزی سے پھیلائو اختیار کر رہا ہے۔ اس کے مختلف پہلوئوں پر بات ہو رہی ہے، ہونی بھی چاہیے۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس پر ہے کہ اب کی بار اس طاقتور ترین شخصیت کے بارے میں بھی بات ہو رہی ہے ، جس کے خلاف ایک لفظ بھی نیہں شائع ہوسکتا تھا۔
[HI]
دو سال پہلے ایک معروف کالم نگار نے بتایا کہ ملک کے سب سے بڑے اخبار میں جہاں وہ کالم لکھتا ہے ، پہلے ہی دن ادارتی سیکشن کے سربراہ کی طرف سے یہ بتا دیا گیا کہ تین افراد ایسے ہیں ،جن کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں چھپ سکتا، اس لئے بھول کر بھی نہ لکھئے گا کہ کہیں پروف ریڈنگ میں چیک نہ ہو اور وہ لفظ یا جملہ شائع ہی نہ ہو جائے۔ ان میں سے ایک صاحب یہی پراپرٹی کنگ ہیں جو آج کل ذوالفقار مرزا بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ امید ہے آپ یہ نہیں پوچھیں گے کہ باقی دو صاحب کون ہیں۔ان صاحب کی روشنی سے بھی زیادہ تیز رفتارترقی پر کوئی بات ہی نہیں کرتا تھا، کر بھی نہیں سکتا تھا۔
[/HI]
کچھ بڑے بڑے نام تو خرید لئے گئے تھے، باقی ماندہ اس لئے مجبور تھے کہ میڈیا ہائوسز اشتہارات کی قوت کے آگے بے بس ہوتے ہیں۔ کوئی یہ سوال نہیں کرتا تھا کہ چند ہزار روپے سے شروع ہونے والا سفر آج کئی سوارب تک پہنچ گیا۔ پولیس، فوج، انتظامیہ، فوج، میڈیا غرض ہر جگہ ان کے وفادار موجود تھے، بہت سے بڑے بڑے لوگ براہ راست اور کچھ کے صاحبزادگان لاکھوں روپے مشاہرے پر ملازم تھے۔ اب یہ سوال آٹھائے جا رہے ہیں، ان کے جواب بھی لینے چاہیے۔ یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ میڈیا کے جو طاقتور لوگ ان کے پے رول پر ہیں، وہ بھی بے نقاب ہونے چاہیں، لاہور میں دو دن سے ایک ٹیکسٹ میسج گردش کر رہا ہے ،جس میں دس طاقتور اینکر، کالم نگاروں کے نام اور ان کو ملنے والے مبینہ کروڑوں کے فوائد کی تفصیل درج ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ، ویسے اس بحران کے دوران اخباری رپورٹوں، کالموں اور ٹاک شوز کو غور سے دیکھیں تو خود معلوم ہوجائے گا کہ کون کہاں کھڑا ہے؟
اس خاکسار کا تعلق ان لوگوں میں سے نہیں جو شخصیات کا بت بنا کر ان کی پرستش کرتے ہیں، البتہ یہ بھی ہے کہ کسی کی مقبولیت سے چڑ کر خواہ مخواہ کی بت شکنی کا بھی قائل نہیں۔چیف جسٹس صاحب ایک انسان ہیں، خامیوں اور خوبیوں کامجموعہ، ان میں بھی شخصی تضادات بھی ہوں گے، ظاہر ہے ہر ایک میں ہوتے ہیں۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ چیف جسٹس اپنی تمام تر کمزوریوں اور تعصبات(اگر کچھ ہیں) کے باوجود قابل فروخت نہیں ہیں۔ ماضی میں ایسے جج صاحبان گزرے ہیں، ان کی داستانیں زبان زدعام بھی ہیں، جن کے گینگسٹروں سے تعلقات تھے، ان کے حوالے سے مشہور تھا کہ وکیل کرنے کے بجائے جج ہی کر لیا جائے، ایک صاحب کے داماد جس کیس میں وکیل ہوتے ، صرف اسی کیس ہی میں نیب کے ملزم کی ضمانت ممکن ہو سکتی تھی۔ ان داماد موصؤف کی وکالت ان دنوں چمک اٹھی تھی، سسر صاحب کے ریٹآئر ہوتے ہی ان کا دفتر بھی بھائیں بھائیں کرنے لگا۔
[HI]
چیف جسٹس اگر قابل فروخت ہوتے اور یاد رہے کہ اب تو یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ اگر وہ رضامند ہوجاتے تو کروڑوں نہیں بلکہ دو چار ارب تو آسانی سے کما سکتے تھے، پھر اتنا بڑا ٹریپ پھیلانے کی ضرورت ہی نہیں آنی تھی، جو شخص قابل فروخت ہوتا ہے ، اس سے براہ راست بات ہوتی ہے، اس کے بیٹے کو پھانسنے کی کوشش کوئی نہیں کرتا۔ کم ازکم یہ تو اندازہ ہوگیا کہ اس سسٹم مین ایک شخص ایسا ہے جسے مالی طاقت کے ذور پر خریدا نہیں جا سکتا، ویسے بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ کرپٹ شخص کبھی بھی سسٹم کے خلاف کھڑا ہونے کی جرات نہیں کر سکتا۔کوئی کرپٹ جج آئی ایس آئی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا ہونا تو درکنار بات کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا۔ مسنگ پرسنز جیسے معاملے میں تو ویسے بھی بڑوں بڑوں کے پر جلتے ہیں۔ اس آتشیں حلقے میں جانے کی جرات کوئی سرپھرا ہی کر سکتا ہے۔
اس خاکسار کے خیال میں یہ سب طوفان اٹھانے کا ایک ہی مقصد ہے کہ سپریم کورٹ میں بحریہ ٹائون کے خلاف چلنے والے کیسز چیف جسٹس نہ سن سکیں ، نیب نے باسٹھ ارب کے فراڈ کیس کی تفتیش شروع کی ہے ، یہ بھی اتنا بڑا معاملہ ہے کہ اگر اس کے حقائق سامنے اآ جائیں تو بڑی محنت اور ہوشیاری سے تعمیر کی گئی کئی سلطنتیں یک لخت مسمار ہوجائیں گی، غضب خدا کا ڈیم کے نام پر زمین لی گئی، تیس ہزار کنال کل اراضی اور ایک لاکھ کنال سے زائد فروخت کر دی گئی۔ اصل زمین سے تین گنا زیادہ۔ ایک لاکھ سے زیادہ متاثریں موجود ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹروں کو یہ سوچنا چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ملک ریاض جیسا ٹائیکون اس قدر دبائو میں آ کر آل آئوٹ وار پر اتر آیا ہے۔
[/HI]
یہ بچکانہ کہانی مجھ سے تو ہضم نہیں ہوسکتی کہ ڈاکٹر ارسلان کی بلیک میلنگ سے تنگ آ کر ایسا کیا گیا۔ ایسا کون شخص ہے جو تین برسوں سے بغیر کسی مقصد کے بلیک میل ہو رہا ہو۔ کوئی احمق سے احمق شخص بھی بلیک میلر کو رقم کسی وجہ سے دیتا ہے ۔ جب بلیک میلر کوئی ریلیف نہیں دے رہا تو تین سال تک کون اسے پیسے دے سکتا ہے۔ ملک صاحب اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں، انہیں بخوبی اندازہ تھا کہ ارسلان کتنے پانی میں ہے، وکلا کمیونٹی سے زیادہ متحرک، فعال اور عقابی نگاہ رکھنے والی کمیونٹی اور کہیں نہیں ہے ۔ اگر ڈاکٹر ارسلان کا سپریم کورٹ میں ذرا بھی اثر ورسوخ ہوتا تو پنڈی اور لاہور کی بار کونسلوں میں افواہوں کا سیلاب آ جاتا۔ چیف کے بدترین دشمن بھی یہ بات مانتے ہیں کہ ان پر کوئی اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ ان پر یہ تقنید تو کی جاتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے خلاف کیسز وہ زور شور سے سن رہے ہیں ،مگر شریف برادران کے خلاف کیسز سلو چل رہے ہیں، یہ الزام البتہ کوئی نہیں لگاتا کہ شریف خاندان سے پیسے اور مفاد لے کر ایسا کیا جا رہا ہے۔
رہی ملک ریاض کی منگل کی شام کی پریس کانفرنس تو اس خاکسار نے اپنی صحافتی زندگی میں اتنی تیزی کے ساتھ بائونس ہوجانے والی پریس کانفرنس کبھی نہیں دیکھی۔ انہوں نے جو سوالات اٹھائے ، اگلے ایک گھنٹے میں ان کے جواب مل گئے اور ملک صاحب کی حامی لابی کو پسپا ہونا پڑا۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب پلان کے مطابق ہو رہا ہے۔ ملک صاحب نے پریس کانفرنس دانستہ کی تھی، مقصد چیف کو ڈائریکٹ نشانہ بنانا اور اس قدر گرد وغبار اڑانا ہے کہ چیف کا اجلا چہرہ دھندلا جائے۔ ابھی کئی رائونڈ اور بھی باقی ہیں۔ ترکش میں اور بھی تیر موجود ہوں گے۔ دو تین دنوں بعد انکشافات کے دوسرے سلسلے کی بات اس لئے کہی جا رہی ہے کہ اس دوران افواہیں اڑیں اور پھر وہ وقت آ جائے جب صدر زرداری چیف صاحب کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج دیں۔
[HI]
نومارچ دو ہزار سات کے ری پلے کی تیاری ہو رہی ہے۔ چیف سے نجات پانا سسٹم کے تمام بڑوں کی ضرورت بن گئی ہے، دیکھنا یہ ہے کہہ پہلے کی طرح عوام ان کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے ، وکلا کس حد تک منظم ہو کر باہر آتے ہیں میڈیا کی اکثریت کیا موقف اختیار کرے گی، سیاسی جماعتیں خاص کر شریف برادران اور تحریک انصآف کیا لائحہ عمل اپناتے ہیں، سب سے اہم ایک بار پھر سپریم کورٹ کا اتحاد ہوگا۔ چار پانچ ججوں پر کام کرنے کی افواہیں آڑ رہی ہیں، لاہور سے جانے والے ایک جج صاحب کو باغی گروپ کی قیادت کی افواہ بھی گردش کر رہی ہے۔
[/HI]
امید ہے کہ یہ سب افواہیں ہوں گی۔ یہ بات یاد رکھی جائے کہ اگر کسی طرح چیف جسٹس کو بھیجا گیا تو پھر یہ سیاسی نظام بھی نہیں بچے گا، عوامی ردعمل پھر صورتحال کو ایسی پوزیشن میں لے جائے گا کہ پھر جمہوریت کی ٹرین پٹری سے ہر حال میں اتر جائے گی۔ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ اگرچہ ادارے اہم ہوتے ہیں، افراد نہیں ، مگر بعض اوقات افراد اپنےکیریکٹر اور جرات کے باعث زیادہ اہمیت اخیتار کر لیتے ہیں، بھٹو صاحب ایک فرد ہی تھے ، کوئی ادارہ نہیں ، مگر انہیں ہٹانے کا نقصان آج تک ملک بھگت رہا ہے ۔ پسند ہو یا نہ ہو، لیکن اگر کوئی شخص جرات کر کے اسٹیبلشمنٹت اور نادیدہ قوتوں کے خلاف کھڑا ہو گیا ہے تو اسے ہر حال میں سپورٹ کرنا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑی یہ آخری دیوار بھی گر گئی تو ملک پر ڈائنو ساروں ہی کا راج ہوگا ۔ تاریخ کا یہ باب تو سب کو یاد ہو گا ہی کہ ان ڈائنوسارز نے
ایک دوسرے کو کھا کر اس عہد ہی کا خاتمہ کر دیا تھا۔
__________________
![](/proxy.php?image=http%3A%2F%2Fwww.topstoryonline.com%2Fwp-content%2Fuploads%2F2012%2F06%2Famir1.jpg&hash=aca6cb77ddc55dffee5a8fdc2c3ae810)
عامر خاکوانی معروف صحافی ہیں، روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے ان کے کالم قاریئن میں بہت مقبول ہیں۔
Last edited: