چہلم امام حسین علیہ السلام

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
چہلم امام حسین علیہ السلام

n00585982-b.jpg

تحریر: توقیر ساجد

نجف سے کربلاء پیدل چلنے والے زائرین کی خدمت کا سلسلہ جاری تھا۔ رپورٹر علی بسیجی نے عراقی خادم سے دریافت کیا کہ جب یہ کروڑوں لوگ اپنے اپنے وطن لوٹ جاتے ہیں تو آپ کو کیسا لگتا ہے۔ دن رات زواروں کی خدمت کرنے والے شخص نے کہا جب یہ عشاق یہاں سے روانہ ہو جاتے ہیں تو گویا ہماری روح ہی نکل جاتی ہے، ایک طویل انتظار کا سلسلہ شروع ہو جاتا کہ کب اربعین کے دن آئیں گے اور ہم زائرین کی خدمت کریں گے۔ یہ جذبہ صرف ایک موکب پر موجود عراقی کا نہیں ہے بلکہ تمام خادمین کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ یہ صدام کے دور حکومت کے خاتمہ کے دنوں کی بات ہے کہ جونہی کوفہ، بصرہ اور بغداد کے اہل تشیع نے میڈیا کے ذریعے سے یہ جانا کہ صدام کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ہے تو انہی دنوں ایام عزاء تھے۔ عزاداروں نے پیدل ہی کربلاء کا رخ کیا، اس سے قبل خفیہ راستوں سے کربلاء کی طرف جاتے تھے، کہونکہ صدام کے دور حکومت میں ہزاروں اہل تشیع کو شہید کیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ کربلاء کے لئے بڑی شاہراوں کی بجائے خفیہ راستوں سے جایا جاتا تھا۔ اس سفر کے دوران اہل تشیع راستوں پر رات میں سفر کرنے والوں کے لئے چراغ سے روشنی اور زمین پر تیر کے نشان سے رہنمائی کرتے تھے، اگر کوئی مسافر راہ مل جاتا تو اس کی گھر میں خدمت کی جاتی۔

صدام کی حکومت کے خاتمہ تک یہ سلسلہ یونہی جاری رہا، لیکن ظالمانہ حکومت کا تختہ الٹا تو اہل تشیع بھی پیدل نجف، بغداد، بصرہ اور کوفہ سے روانہ ہوئے۔ پیدل چلنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ اس موقع پر موجود عالمی میڈیا نے دکھایا کہ صدام کے جانے کے بعد یہ لوگ کس قدر بیتابی سے پیدل کربلاء کی طرف گامزن ہیں۔ پیدل چلنے والوں کیلئے عراقیوں نے خدمت کیلئے چائے، پانی اور کھانوں کا انتظام کیا، رفتہ رفتہ یہ سلسلہ جاری رہا۔ اربعین اور عاشور کے دنوں میں پیدل کربلاء کی طرف سفر میں زائرین کی تعداد بڑھنے لگی اور اس بات کو دنیا نے میڈیا ذریعے سے جانا، یہ وہی میڈیا جو اب کروڑوں زائرین کا پیدل سفر سکھانے قاصر ہے، لیکن اب کی بار گذشتہ سال سے زیادہ زائرین نے شرکت کی اور اگلے سالوں میں یہ تعداد اس سے بھی زیادہ بڑھ جائے گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کربلا کی طرف سفر کا آغاز کس زائر نے کیا، جبکہ آئمہ اہلبیت لیھم السلام کے فرامین کے مطابق اس کی اہمیت بھی بیان کی گئی ہے۔ معروف اہلسنت محقق محمد عامر حسینی لکھتے ہیں کہ 20 صفر المظفر 61ھ کو جابر بن عبداللہ الانصاری کی کربلا آمد اور وہاں پہ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت والے واقعے کو چھپایا گیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش بھی ہے کہ اہل بیت اطہار کا سیاسی کیمپ جسے بجا طور پہ کبار صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین کے ایک بہت بڑے دھارے کی مدد حاصل تھی، اسے ایک اقلیتی ٹولہ بناکر دکھایا جائے اور قیام حسین کے بعد پیدا ہونے والے ردعمل کو بھی ہلکا سا ارتعاش بناکر دکھایا جائے۔ جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ کی کربلا آمد کے بارے عطیہ بن سعد بن جنادہ ؒکوفی روایت کرتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ الانصاری ؓنے فرات پہ پہنچ کر اچھی طرح سے غسل کیا، پھر بازار سے جا کر نئے کپڑے خریدے اور قبر امام حسین کا رخ کیا اور اس دوران آپ نے ذکر حسین جاری رکھا اور جب یہ قبر امام حسین ؑپہ پہنچے تو انہوں نے اپنے آپ کو قبر امام ؑپہ گرا دیا۔

قبر کو اپنے گالوں سے مس کیا اور اتنا روئے کہ غش کر گئے۔ جب اٹھے تو انہوں نے قبر پہ کھڑے ہوکر کچھ یوں کہا بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ہیں اور دو وصیت والے کے بیٹے ہیں۔ آپ سبیل ہدایت ہیں اور جن کو کسا میں چھپایا ان میں آپ کا نمبر پانچواں ہے، آپ سید النقبا کے بیٹے ہیں اور عورتوں کی سردار فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا کے بیٹے ہیں۔ آپ کی حیات طیب، آپ کی موت طیب اور میں گواہی دیتا ہوں آپ پہ جو گزرا، وہ ویسے ہی ہے جیسے آپ کے بھائی ابن زکریا (حضرت یحییٰ ) پہ گزرا تھا۔ جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی 20 صفرالمظفر 61ھ کو قبر امام حسین رضی اللہ عنہ پرحاضری کے بعد سے مسلم سماج کے اندر سے ہر 20 صفرالمظفر کو کربلا حاضری کی ایک روایت شروع ہوئی اور آج تک یہ جاری و ساری ہے اور اسے قریب قریب سبھی مذاہب کے ماننے والوں نے اس روایت کو شرف قبولیت بخشا ہے، یہ ایک عالمی فیسٹویل بن گیا ہے اور یہ انسانیت سے محبت اور ظلم کے خلاف تجدید عہد کرنے والاواقعہ بن گیا ہے۔

بے شک اہل سنت اور اہل تشیع کے نزدیک 20 صفر المظفر یعنی اربعین کی ایک مذہبی حیثیت اور تعبیر ہے، لیکن عالمی سطح پہ اس کی ایک عمومی اور مطلق اہمیت بن گئی ہے اور یہ امام حسینؑ کے عالمی استعارہ بن جانے سے جڑی ہے۔ 30 ہزار کی لشکر یزید کی فوج کے سامنے 72 افراد کی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مزاحمت کی یاد بن جانے والا یہ عظیم الشان واقعہ ان سب شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے والا واقعہ بن چکا ہے اور اس دن کو زندہ کرنے کا کریڈٹ جابر بن عبداللہ الانصاریؓ اور عطیہ بن سعد بن جنادہ ؒکوفی کو جاتا ہے۔ عطیہ نے جبر و ظلم کے خلاف تاریخی مزاحمت کو اتہاس کے پنوں پہ محفوظ رکھنے کی بہت بڑی قیمت ادا کی۔ اسے کوفہ سے جلاوطن ہونا پڑا، پھر اس نے فارس میں محمد بن قاسم ثقفی کے ہاتھوں بڑا تشدد سہا اور سو کوڑے کھائے، خراسان میں جلاوطنی کاٹی اور پھر وہاں سے بھی روپوشی کی زندگی گزاری اور 61ھ کے بعد سے مسلسل اس نے بنو امیہ کے خلاف زیر زمین لڑائی کی، وہ بیک وقت ایک مجاہد آزادی بھی تھے اور ساتھ ساتھ وہ مظلوموں کی تاریخ کے شاہد اور گواہ بھی تھے۔

کروڑوں زائرین کی خدمت انجام دینے اور اس عظیم سفر کا آغاز کرنے والے صحابی جابر بن عبداللہ الانصاری اور سفر زیارت کی روایت کو زندہ کرنے پر پر دنیا بھر کے عاشقین امام عراقیوں کے ساتھ ساتھ جابر بن عبداللہ الانصاریؓ اور عطیہ بن سعد بن جنادہ کوفی ؒکا شکریہ ان الفاظ سے کرتے ہیں۔
تم شریف لوگوں میں سے ہو
تم کریم لوگوں میں سے ہو
امام حسین کی خدمت و محبت کیلئے
جو کچھ ہے سب لٹا رہے ہو
پروردگار برکت ڈالے
تمہاری نعمتوں میں اضافہ کرے
ہم آپ کے شکر گزرا ہیں
ان تمام سخاوتوں میں
ان قربانیوں پر
جو امام کی راہ میں پرخلوص ہیں

Source
 
Last edited:

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
اُس کی شہرت تیرے اخبار کی محتاج نہیں


n00585143-b.jpg






تحریر: ثاقب اکبر

سانحہ لق و دق صحرا میں ہوا۔ تہذیبی مراکز کہیں دور تھے۔ کسی کو توقع نہ تھی کہ سانحے کی خبر اس طرح سے پھیلے گی کہ استبداد شاہی کی چولیں ہل جائیں گی، جو فخر سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے اس قتل سے اپنے مقتولین کا بدلہ لے لیا اور یہ کہہ کر کولہے مٹکاتے تھے اور جام پہ جام لنڈھائے چلے جا رہے تھے، لیکن دیر نہ گزری تھی کہ منظر بدلنے لگا، مقتولِ صحرا کے قتل کا الزام کوئی قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ پھر اگلا مرحلہ آیا، شام کے دربار میں بادشاہ کا نشہ ہرن ہوچکا تھا۔ ردعمل دربار کے اندر ہی نہیں، پردے کے پیچھے بھی محسوس ہونے لگا تھا۔ اس نے قافلۂ اسراء کی بزرگ خاتون سے کہا: جو ہونا تھا ہوچکا، اب تم خون بہا لے لو۔ زینب کبریٰ گویا ہوئیں: اے یزید! تو غلط کہتا ہے کہ جو ہونا تھا ہوچکا، جو ہوا ہے وہ ہونے والے کی تمہید ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ جب حسینؑ کا خون رنگ لائے گا، غریب اور مظلوم پسے ہوئے لوگ اُن کے قیام سے سبق حاصل کریں گے اور ظالموں کے خلاف اٹھے کھڑے ہوں گے اور یہ جو تم نے کہا کہ خون بہا لے لو، تو حسینؑ کا خون بہا قیامت کے دن حسینؑ کی ماں فاطمہؑ کو دینا۔

دنیا کے کتنے بڑے بڑے واقعات ہیں، جو زندہ تہذیبوں کے بڑے بڑے مراکز میں رونما ہوئے، لیکن نسیاً منسیاً ہوگئے۔ کہیں اور کیوں تلاش کریں، سانحہ کربلا کے بعد اگلے ہی برس مدینۃ النبیؐ میں بہت المناک فاجعہ رونما ہوا۔ تاریخ اسے واقعہ حرّہ کے نام سے یاد کرتی ہے، لیکن اپنے پڑوسی مسلمانوں سے پوچھ کر دیکھیے، شہر کے پڑھے لکھے لوگوں سے پوچھ لیجیے کسے کتنا یاد ہے۔ اس سے اگلے برس یزید کی فوجوں نے خانۂ کعبہ پر چڑھائی کی۔ اس کا غلاف جلا دیا گیا۔ منجنیق سے اس پر پتھر برسائے گئے۔ تاریخ نے واقعہ اپنے حافظے میں محفوظ رکھا ہے، لیکن عوام کو اس کی کتنی خبر ہے؟ مکہ و مدینہ سے بڑا شہر تو آج بھی مسلمانوں کی نظر میں کوئی نہیں۔ وہاں پر ہونے والے واقعات اور اتنے بڑے واقعات جاننے کے لئے تاریخ کی ورق گردانی کی ضرورت ہے، لیکن پوچھ لیجیے کسی مسلمان سے حسین ؑ کون تھے، کہاں شہید ہوئے، کس تاریخ کو شہید ہوئے، ان کا قاتل کون ہے؟ آپ کو مراکش سے سنکیانگ تک ایک ہی جواب ملے گا، بچے سے پوچھیں، خاتون سے پوچھیں، کسی بوڑھے سے پوچھیں۔ ہاں البتہ خوابیدہ ضمیر قلم فروش اور عاقبت نا اندیش یزید کے مدح خوان آج بھی ٹامک ٹوئیاں مارتے پھرتے ہیں اور حدیث و تاریخ کے کہنہ ذخیروں سے اس کی بچت کے لئے کوئی جعلی ہی سہی، عبارت تلاش کرنے میں لگے ہیں۔ ان عقل کے اندھوں کو جَلی حروف میں لکھا اور اکناف عالم میں گونجتا پیغمبر اسلامؐ کا یہ فرمان دکھائی دیتا ہے نہ سنائی:
الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنۃ
حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔

تاریخ کے دھندلکوں میں سرگرداں ان لوگوں کو اگر محقق کہا جائے تو پھر محققین کا نام کچھ اور رکھ لیا جائے۔
خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

آج حسینؑ بہت یاد آئے، اس لیے کہ دل ان دنوں کسی اور ہی آب و ہوا میں ہے، ہر طرف سے قافلے کربلا کی طرف رواں دواں ہیں اور بہت سے تو اس سرزمین عشاق پر پہنچ چکے ہیں۔ کہنے کو اسلام آباد میں ہوں، لیکن یوں لگتا ہے کہ کبھی نجف کے قافلے کے ساتھ اور کبھی کربلا کے قافلے کے ساتھ، کبھی اِس ضریح کے سامنے کبھی اُس ضریح کے سامنے، عجیب جلال و جمال کے پرتو میں ہوں۔علیہ السلام
دل کہاں ٹھہرے کہ جان دلبراں کربل میں ہے
کروڑوں انسان اس وقت کربلا کا رُخ کئے ہوئے ہیں۔ اگر آسمان سے کوئی تصویر بنانے کے قابل ہوتا تو مشرق و مغرب سے نکلنے والے قافلوں کی عکاسی کرتا۔ کوئی ایسا کیمرہ ہوتا جو عاشقان حسین کے وجد و کیف کو بھی فلما لیتا۔ کوئی ایسا عکاس ہوتا جو یہ بتا سکتا کہ کس طرح سے صعوبتیں جھیل جھیل کر خوف اور دہشت کی وادیوں کو عبور کرکے کس کس عمر کے لوگ کیسے کیسے کربلا میں داخل ہو رہے ہیں، تو ایک دنیائے حیرت سامنے آجاتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت میں آیا ہے کہ
ان فی قتل الحسین حرارۃ فی قلوب المومنین لم تبرد ابدابے شک! امام حسینؑ کے قتل سے سے اہل ایمان کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا ہوگی کہ جو ہرگز ٹھنڈی نہ ہوسکے گی۔

محققین کہتے ہیں کہ اگر کسی حدیث میں کوئی پیشگوئی کی گئی ہو، تو خارج میں اس کا وقوع پذیر ہو جانا ہی اس کی صحت اور درستی کے لئے کافی ہے۔ کہاں ہیں محققین جو دیکھیں اور پھر بتائیں کہ کیا یہ پیشگوئی حرف بہ حرف اپنی پوری قوت سے سرزمین کربلا پر جلوہ ریز نہیں ہوچکی؟ یہی نہیں روز اربعین یہ تو وہ عاشق ہیں، جو کربلا جا پہنچے، کتنے ہیں جو شہر شہر، کوچہ کوچہ، اس براعظم میں اور اس براعظم میں، اس ملک میں اور اس ملک میں یوم عاشور اور یوم اربعین حسینی پر یاحسین ؑ یاحسین ؑ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے نبی پاکؐ کی صداقت کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب سوچ رہا تھا کہ ذہن اس طرف چلا گیا کہ ہمارے اخبارات کو کیا ہوا۔ کیا ان تک خبر نہیں پہنچی کہ اڑھائی کروڑ سے زیادہ انسان امام حسینؑ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے کربلا جا پہنچے ہیں؟ کیا ہمارے ٹی وی چینلز کو پتہ نہیں چلا کہ دنیا میں اتنا بڑا واقعہ رونما ہو رہا ہے۔؟ سچ کہیے کہ اگر دنیا میں کہیں ایک دن ایک ملین افراد جمع ہو جائیں، کسی بھی عنوان سے تو ہمارے اخبارات، شہ سرخیاں نہیں لگائیں گے؟ ہمارے کالم نگار اس پر تبصرے نہیں کریں گے؟ ہمارے ٹی وی چینلز کیا بار بار بریکنگ نیوز نہ چلائیں گے؟ کیا ٹی وی چینلز پر بیٹھے ہوئے اینکرز اس پر چیخ و چنگھاڑ نہ کریں گے اور مبصرین کرام اس پر اپنی دانشوری کے جوہر نہ دکھائیں گے؟ لیکن حسین ؑ کیا آج بھی مظلوم ہیں کہ ان کی یاد میں گھروں سے نکلنے والے کروڑوں بے قرار روحوں کے ذکر سے اخبارات بھی خالی ہیں اور ٹی وی چینلز بھی محروم ہیں۔ یہ سوچ رہا تھا کہ اچانک میری آنکھوں کے سامنے یہ عبارت ابھری:۔
اُس کی شہرت تیرے اخبار کی محتاج نہیں

Source
 

Tutiya

Senator (1k+ posts)
na kaheen Allah aur na hi kaheen Muhammad pbuh ka kaheen zikar hota ha, Muhammad Mustafa pbuh say ziada jitni ahmiat, Ha Imam Hussain RA ko di jaati ho, sara waqt sara saal, ahl-b-bait k gird ghoomta ho, har saal vohi rona peetna, mujhay bohat galat lagta ha. lagta ha deen bus Ahl e bait ko follow karna ha aur baqiyoun say bughuz.
 

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
Chaaliswan "چالیسواں"

40th day after death has no basis in islam...it is completely an Orthodox Christian ritual and basis.

وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۸۵﴾

"And whoever desires other than Islam as religion - never will it be accepted from him, and he, in the Hereafter, will be among the losers."

(Aal-Imran)

"The 40th Day after death is a traditional memorial service, family gathering, ceremonies and rituals in memory of the departed on the 40th day after his/her death. The 40th Day concludes the 40-day memorial period and has a major significance in traditions of Orthodox Slavs. It is believed that the soul of the departed remains wandering on Earth during the 40-day period, coming back home, visiting places the departed has lived in as well as his fresh grave. The soul also completes the journey through the Aerial toll house finally leaving this world. The rituals during the period aim to let the soul go in order to keep it from returning and bothering the living.

https://en.m.wikipedia.org/wiki/40th_Day_after_death
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم

حضرت امام حسین سے پیار کرنے والا ان کا حکم مانے گا

آج کوئی ایک بھی ایسا نہی ہے جو ان کا کہنا مانتا ہو
 

انجام

MPA (400+ posts)
Chaaliswan "چالیسواں"

40th day after death has no basis in islam...it is completely an Orthodox Christian ritual and basis.

وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۸۵﴾

"And whoever desires other than Islam as religion - never will it be accepted from him, and he, in the Hereafter, will be among the losers."

(Aal-Imran)

"The 40th Day after death is a traditional memorial service, family gathering, ceremonies and rituals in memory of the departed on the 40th day after his/her death. The 40th Day concludes the 40-day memorial period and has a major significance in traditions of Orthodox Slavs. It is believed that the soul of the departed remains wandering on Earth during the 40-day period, coming back home, visiting places the departed has lived in as well as his fresh grave. The soul also completes the journey through the Aerial toll house finally leaving this world. The rituals during the period aim to let the soul go in order to keep it from returning and bothering the living.

https://en.m.wikipedia.org/wiki/40th_Day_after_death
آپ کی پیش کردہ ایت مبارکہ میں چالیسویں کہیں ذکر نہیں۔ وکی پیڈیا تو آج کی پیداوار ہے۔ اسلام پر کوئی دلیل نہیں۔ کئی اعمال اور عقائد یہود و نصاری اور مسلمانوں کے مشترک ہیں ۔ اس وجہ سے ہر بات کو رد کرتے جائیں گے۔
مسلمانوں کے چالیسویں میں کونسے عقائد واعمال ہیں جو خلاف اسلام ہیں؟ جس کی وجہ سے آپ نے رد کیا؟
 

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
آپ کی پیش کردہ ایت مبارکہ میں چالیسویں کہیں ذکر نہیں۔ وکی پیڈیا تو آج کی پیداوار ہے۔ اسلام پر کوئی دلیل نہیں۔ کئی اعمال اور عقائد یہود و نصاری اور مسلمانوں کے مشترک ہیں ۔ اس وجہ سے ہر بات کو رد کرتے جائیں گے۔
مسلمانوں کے چالیسویں میں کونسے عقائد واعمال ہیں جو خلاف اسلام ہیں؟ جس کی وجہ سے آپ نے رد کیا؟

میں نے ویکیپیڈیا سے صرف اتنا ثابت کیا ہے کہ مرنے کے بعد چالیسویں دن کی عیسائ اورتھوڈکس میں کیا اہمیت ہے

اسلام میں چالیسویں کہ منطق آپ بتادیں کہ قرآن و حدیث سے اسکی کیا اہمیت ہے۔۔۔۔چالیسواں دن کیوں پچاسواں اور پینتالسواں دن کیوں نہیں


اور یہ چالیسواں صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ہی سنتے ہیں

حضرت فاطمہ حضرت علی حضرت حسن اور دیگر اہل بیت کے چالیسویں کے جلوس نہیں سنے
اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چالیسواں بھی نہیں سنا نا دیکھا کسی کو مناتے

میں نے جو آیت پیش کی ہے وہ عام ہے۔۔یعنی اسلام کے سوا دیگر مذاھب سے لئے گئے مستعار نظریات باطل ہیں
 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)
میں نے ویکیپیڈیا سے صرف اتنا ثابت کیا ہے کہ مرنے کے بعد چالیسویں دن کی عیسائ اورتھوڈکس میں کیا اہمیت ہے

اسلام میں چالیسویں کہ منطق آپ بتادیں کہ قرآن و حدیث سے اسکی کیا اہمیت ہے۔۔۔۔چالیسواں دن کیوں پچاسواں اور پینتالسواں دن کیوں نہیں


اور یہ چالیسواں صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ہی سنتے ہیں

حضرت فاطمہ حضرت علی حضرت حسن اور دیگر اہل بیت کے چالیسویں کے جلوس نہیں سنے
اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چالیسواں بھی نہیں سنا نا دیکھا کسی کو مناتے

میں نے جو آیت پیش کی ہے وہ عام ہے۔۔یعنی اسلام کے سوا دیگر مذاھب سے لئے گئے مستعار نظریات باطل ہیں
جناب میرا سوال یہ بھی تھا کہ اس آیت سے چالیسویں کو رد کیا۔ آپ نے کہا کہ دیگر مذہب کے مستعار نظریات باطل ہیں۔ اس پر بھی میرا سوال موجود تھا کہ اسلام کی کئی تعلیمات سابقہ مذاہب کا تسلسل ہیں۔ تو اس آیت کی رو سے نماز روزہ حج زکوۃ سبھی کو رد کرنا شروع کر دیں؟؟
اگر عام ایات سے ہر بات رد ہوتی ہے پھر اسلام کا اللہ حافظ۔۔۔

 

انجام

MPA (400+ posts)
[FONT=&amp]اسلام اور مسلمانوں میں مختلف دنوں کے تعین میں جو کچھ میرا مطالعہ ہے وہ یہ کہ آپ کسی کو ایصال ثواب کے لئے کوئی بھی دن مختص کر سکتے ہیں۔ اس کو کوئی مخصوص نام دینا آپ کی اپنی سہولت یا علاقائی رواج ہو سکتا ہے۔ مگر وہی دن کسی عمل کے لئے مخصوص نہیں ۔ نہ ہی ایسا کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص انہی معروف مخصوص دنوں میں اہتمام کرتا ہے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اگر کوئی شخص ایصال ثواب کے لئے عوامی اہتمام نہیں کرتا صرف اپنے طور پر گھر کے افراد کرتے ہیں یا بالکل بھی نہیں کسی بھی صورت میں انپر کوئی شرعی پابندی نہیں۔ نہ ہی گناہ کے حقدار۔
جتنی بھی مخصوص مجالس میں شرکت کا موقع ملا انمیں قرآن مجید کی تلاوت، نعت رسول مقبولﷺ، کہیں مختصر بیان۔ اور حسب استطاعت طعام کا اہتمام ہوتا ہے۔
ہر مسلک کے لوگ اپنے رشتہ داروں یا مسلک کے اکابرین کو خراج تحسین پیش کرنے کےلئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر یہی کچھ کرتے ہیں۔
اعمال ایک جیسے ہیں مگر ناموں پر جھگڑا ہے۔ کچھ لوگ فکری و مسلکی اختلاف کے سبب دوسرے مسلک کی ہر بات اور عمل کو رد کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں اور انکے لئے یہی اسلام کی سب سے بڑی خدمت ہے۔


[/FONT]​
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
جتنا عزا داروں کو دبانے کی کوشش کرو اتنا ہی اور جلوس امڈ آتا ہے

دہشت گردی ، خود کش حملے ، آل سعود کا ریال ، خارجیوں کے فتوے ، تکفیریوں کی جلن غرض کتنی ہی رکاوٹیں ہیں پر عزا داران ہیں کہ کھینچے چلے آتے ہیں
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
اور سنو ! بد کردار ، فاسق و فاجر لوگوں کی سنت پر چلنے والے اب دوسروں کو شرک کا تانا دیں گے اور دوسروں کو دین سکھائیں گے
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
شیعہان علی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے امام حسین کی قربانی کو یاد رکھا اور ان کا ذکر باقی رکھا . . . . یعنی اللّه نے اس کام کے لئے شیعہان علی کو چنا

باقی نام نہاد مسلمانوں کا کیا کہنا ! انہوں نے تو بدر کے شہدا کو بھی بھلا دیا ہے ، . . . . کسی سے بھی شہدا کا نام پوچھ لیں آئیں بایں شعائیں ہی سننے کو ملیں گی ، ان کی کتابوں میں سے دانستہ شہدا کا نام نکال کر حاکم کے مضحکہ ہیز قصے بھر دیے گیے ہیں
 

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
جناب میرا سوال یہ بھی تھا کہ اس آیت سے چالیسویں کو رد کیا۔ آپ نے کہا کہ دیگر مذہب کے مستعار نظریات باطل ہیں۔ اس پر بھی میرا سوال موجود تھا کہ اسلام کی کئی تعلیمات سابقہ مذاہب کا تسلسل ہیں۔ تو اس آیت کی رو سے نماز روزہ حج زکوۃ سبھی کو رد کرنا شروع کر دیں؟؟
اگر عام ایات سے ہر بات رد ہوتی ہے پھر اسلام کا اللہ حافظ۔۔۔


جناب میرے سوالوں کا ایک بھی جواب نا دیا

چالیسواں کا کوئ اسلامی تصور پیش کریں پھر بات بنے گی
وگرنہ تب تک یہ عیسائ تصور ہی رہے گا

اگر تو اسکی تعلیم رسول اللہﷺ یا صحابہ کرام سے ثابت نہیں تو پھر اسلامی کہاں سے یوا تصور
 

انجام

MPA (400+ posts)
جناب میرے سوالوں کا ایک بھی جواب نا دیا

چالیسواں کا کوئ اسلامی تصور پیش کریں پھر بات بنے گی
وگرنہ تب تک یہ عیسائ تصور ہی رہے گا

اگر تو اسکی تعلیم رسول اللہﷺ یا صحابہ کرام سے ثابت نہیں تو پھر اسلامی کہاں سے یوا تصور

اسلام اور مسلمانوں میں مختلف دنوں کے تعین میں جو کچھ میرا مطالعہ ہے وہ یہ کہ آپ کسی کو ایصال ثواب کے لئے کوئی بھی دن مختص کر سکتے ہیں۔ اس کو کوئی مخصوص نام دینا آپ کی اپنی سہولت یا علاقائی رواج ہو سکتا ہے۔ مگر وہی دن کسی عمل کے لئے مخصوص نہیں ۔ نہ ہی ایسا کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص انہی معروف مخصوص دنوں میں اہتمام کرتا ہے تو بھی کوئی حرج نہیں۔
اعمال ایک جیسے ہیں مگر ناموں پر جھگڑا ہے۔ کچھ لوگ فکری و مسلکی اختلاف کے سبب دوسرے مسلک کی ہر بات اور عمل کو رد کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں اور انکے لئے یہی اسلام کی سب سے بڑی خدمت ہے۔

آپ کی بات کا یہ جواب میں پہلے ہی دے چکا ہوں۔
اب کسی بھی علاقے میں کوئی ایک گروہ جماعت، یا مسلک کے لئے نماز جمعہ ، نماز عیدین کی طرح کا دن نہ تو مقرر ہے۔ نہ ہی دن کے تعین کی ممانعت۔ تیسرا ، چالیسواں، برسی، دسواں ، عرس، سالانہ کانفرنس، سالانہ ختم الغرض یہ سارے وہ مختلف نام ہیں جو ہر مسلک والے اپنی مرضی سےلیتے ہیں۔

آپ نے اپنے
اسا تذہ کی تعلیم کے مطابق اپنے علاوہ مسالک کے تمام اعمال کو جہالت، دین میں مداخلت الغرض وہ تمام کچھ ثابت کرنے ہیں جس سے ان کی تردید اور مخالفت
[FONT=&amp] ہوتی ہو۔ تمہاری ان فضولیات کے لئے میرا دماغ خراب نہیں۔
اسلام اور
قرآن تمہاری اور میری مرضی کے تابع نہیں۔ بلکہ یہ عالمگیر دین ہے جو ایسے بنیادی ضابطے عطا کرتا ہے جن سے آنے والے وقتوں میں ہر دور میں رہنمائی لی جاسکے۔
[/FONT]
[FONT=&amp]اگر تمہاری من پسند باتیں تمہاری مرضی کے مطابق قرآن ،سنت اور عمل صحابہ سے نہ ہوں تو پہلے سنت کے مطابق گدھے پر سفر شروع کرو ۔ تیر اور تلوار سے جہاد کرو۔ اون،سوف /ٹاٹ/ بوری کا پیوند لگا لباس پہنو ۔ پھر تمہاری مرضی کا بقیہ دین بھی اسلام کی تعلیمات سے اخذ کردونگا۔ [/FONT]
 

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)




آپ کی بات کا یہ جواب میں پہلے ہی دے چکا ہوں۔
اب کسی بھی علاقے میں کوئی ایک گروہ جماعت، یا مسلک کے لئے نماز جمعہ ، نماز عیدین کی طرح کا دن نہ تو مقرر ہے۔ نہ ہی دن کے تعین کی ممانعت۔ تیسرا ، چالیسواں، برسی، دسواں ، عرس، سالانہ کانفرنس، سالانہ ختم الغرض یہ سارے وہ مختلف نام ہیں جو ہر مسلک والے اپنی مرضی سےلیتے ہیں۔

آپ نے اپنے
اسا تذہ کی تعلیم کے مطابق اپنے علاوہ مسالک کے تمام اعمال کو جہالت، دین میں مداخلت الغرض وہ تمام کچھ ثابت کرنے ہیں جس سے ان کی تردید اور مخالفت
[FONT=&amp] ہوتی ہو۔ تمہاری ان فضولیات کے لئے میرا دماغ خراب نہیں۔
اسلام اور
قرآن تمہاری اور میری مرضی کے تابع نہیں۔ بلکہ یہ عالمگیر دین ہے جو ایسے بنیادی ضابطے عطا کرتا ہے جن سے آنے والے وقتوں میں ہر دور میں رہنمائی لی جاسکے۔
[/FONT]
[FONT=&amp]اگر تمہاری من پسند باتیں تمہاری مرضی کے مطابق قرآن ،سنت اور عمل صحابہ سے نہ ہوں تو پہلے سنت کے مطابق گدھے پر سفر شروع کرو ۔ تیر اور تلوار سے جہاد کرو۔ اون،سوف /ٹاٹ/ بوری کا پیوند لگا لباس پہنو ۔ پھر تمہاری مرضی کا بقیہ دین بھی اسلام کی تعلیمات سے اخذ کردونگا۔ [/FONT]

لو جی...کھودا پہاڑ نکلا چوہا...مجھے پتا ہوتا کہ آپنے وہی عامیانہ دلائل دینے ہیں جو ہر گلی کے نکڑ پر کھڑا جاہل دیتا ہے تو میں آپ سے بحث ہی نا کرتا

دین یعنی عبادات وغیرہ میں ہونے والا اضافہ یا کمی ایک بلکل مختلف بات ہے
اور دنیاوی ایجادات اور دنیاوی اشیاء و معاملات میں اضافہ و کمی ایک بلکل مختلف بات

عبادات میں
اصل حرمت ہے یعنی کوئی عبادت بغیر شرعی دلیل کے جائز نہیں بلکہ حرام ہے جیسے عید میلاد عرس چالیسواں دسواں برسی وغیرہ...جب تک ان امور کے لئے نبوی صلی الله علیہ وسلم سے دلیل نہیں ہوگی یہ تمام امور حرام ہیں

دنیاوی معاملات میں
اصل اباحت ہے یعنی کوئی بھی شے یا معاملہ بغیر شرعی دلیل کے جائز ہے بلکل حلال ہے جیسے کمپیوٹر موبائل جہاز وغیرہ...جب تک انکے حرام ہونے کی کوئی ٹھوس شرعی دلیل نا ہو یہ حلال ہیں

الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات دینی امور میں تھیں اور ان امور میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے دین ہم تک پنہچا دیا...اور وہ مکمل ہوچکا...عبادات کا طریقہ عبادت کے دن اوقات مقامات کی تفصیل ہمیں بتادی
اب کسی ایرے غیرے نتھو کھیرے کو اجازت نہیں دی جاسکتی کے وہ ہندوانہ و کافرانہ نظریات کو دین میں داخل کرے اور ضد کرے کے اسکو دین سمجھا جائے

 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)

لو جی...کھودا پہاڑ نکلا چوہا...مجھے پتا ہوتا کہ آپنے وہی عامیانہ دلائل دینے ہیں جو ہر گلی کے نکڑ پر کھڑا جاہل دیتا ہے تو میں آپ سے بحث ہی نا کرتا

دین یعنی عبادات وغیرہ میں ہونے والا اضافہ یا کمی ایک بلکل مختلف بات ہے
اور دنیاوی ایجادات اور دنیاوی اشیاء و معاملات میں اضافہ و کمی ایک بلکل مختلف بات

عبادات میں
اصل حرمت ہے یعنی کوئی عبادت بغیر شرعی دلیل کے جائز نہیں بلکہ حرام ہے جیسے عید میلاد عرس چالیسواں دسواں برسی وغیرہ...جب تک ان امور کے لئے نبوی صلی الله علیہ وسلم سے دلیل نہیں ہوگی یہ تمام امور حرام ہیں

دنیاوی معاملات میں
اصل اباحت ہے یعنی کوئی بھی شے یا معاملہ بغیر شرعی دلیل کے جائز ہے بلکل حلال ہے جیسے کمپیوٹر موبائل جہاز وغیرہ...جب تک انکے حرام ہونے کی کوئی ٹھوس شرعی دلیل نا ہو یہ حلال ہیں

الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات دینی امور میں تھیں اور ان امور میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے دین ہم تک پنہچا دیا...اور وہ مکمل ہوچکا...عبادات کا طریقہ عبادت کے دن اوقات مقامات کی تفصیل ہمیں بتادی
اب کسی ایرے غیرے نتھو کھیرے کو اجازت نہیں دی جاسکتی کے وہ ہندوانہ و کافرانہ نظریات کو دین میں داخل کرے اور ضد کرے کے اسکو دین سمجھا جائے

میں غیر ضروری بحث نہیں چاہتا تھا۔ اب جو اپ کو شوق چلا تو چلیں یہ بتا ہی دیں کہ اصول اپ نے قرآن یا سنت کہاں سے اخذ کئے؟ قرآن پاک کی تدوین، ترویج، اشاعت ، احادیث کی کتب کی تدوین علم الفقہ عقائد ،لغت، یہ سب آج دین کی بنیادی اساسیں ہیں۔ ان کا ثبوت کہاں سے نکلا۔
اصول حرمت و اباحت کس صحابی نے لکھے ہیں؟



 

Sphere Manisfest

Senator (1k+ posts)
جزاک اللہ. شیئر کرنے شکریہ. ایک سورس بہت عرصے سے ڈھونڈھ رہا ہوں لیکن نہیں ملتا. شاید آپ یا کوئی اور بھائی کوئی لنک نکال پائیں. والد مرحوم کی کسی کتاب میں جارج برنارڈ شا کا ایک قول کبھی پڑھا تھا، اس قول کے اوریجنل سورس کی تلاش ہے. برنارڈ شا جو خود شاید ایتھیسٹ تھا ایک جگہ لکھتا ہے کہ:
" میں نے پوری تاریخ پڑھی ہے لیکن کہیں خدا کے وجود کا ثبوت نہیں ملتا. لیکن ایک واقعہ ہے جس سے مجھے لگتا ہے کہ شاید کہیں کوئی خدا موجود ہے. وہ واقعہ کربلا کا ہے جہاں حسین نامی ایک شخص اس نامعلوم خدا کا پرچم لئے کھڑا ہے، اس کے ساتھ بچے بھی ہیں اور عورتیں بھی. مقابلے میں ہزاروں کا لشکر ہے. ایک ایک کر کے اس شخص کے ساتھی قتل کیے جا رہے ہیں لیکن لوگوں کے قدموں میں لغزش نہیں آ رہی. موت سامنے ہے، بچے بچے کو معلوم ہے کہ ہم سب مار دیے جائیں گے. چھ ماہ کے بچے سے لیکر اسی سالہ بوڑھے تک کو مار دیا گیا ہے لیکن کسی بچے، کسی لڑکی، کسی جوان، کسی عورت، کسی آدمی نے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹایا. آخر یہ کونسا یقین ہے جو انہیں اس ناقابل یقین ثابت قدمی پر قائم رکھے ہوے ہے. مجھے لگتا ہے کہ ان لوگوں کی نظریں سامنے زمین پر تھی ہی نہیں. یہ لوگ صرف آسمان پر نظریں جماے اسی خدا کی طرف دیکھ رہے تھے جس کے پاس جانے کی تمنا کے سامنے انکی اس دنیاوی مصیبت کی کوئی حیثیت نہیں تھی. اگر اس دن ایک بچے کا قدم بھی لڑکھڑا جاتا تو آج میں یہ سطریں نہ لکھتا اور کسی خدا کے وجود کے امکان کو رد کر دیتا لیکن ایسا نہیں ہوا. دنیا کی تمام تر تاریخ میں صرف ایک یہ واقعہ ہے جس کے مرکزی کرداروں کا حیرت انگیز یقین اور انکا پاے استقامت مجھے خدا کے ممکنہ وجود پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے."

...........
 

Back
Top