barca
Prime Minister (20k+ posts)
خود اذیتی۔۔۔۔۔۔ایک نفسیاتی عارضہ
خود اذیتی ایک ذہنی و نفسیاتی عارضہ ہے۔ یہ دراصل اپنے ان جذبات واحساسات کو سکون دینے کی ایک کوشش ہے کہ جن کو خود اذیت پسند لوگ معاشرے کے دیگر افراد کے ساتھ بانٹ نہیں سکتے یا پھر کسی ڈر یا خوف کی بنا پر وہ اسے دوسرے افراد پر ظاہر کرنے سے گھبراتے ہیں۔
یہ عارضہ عام طور پر ان لوگوں کو لاحق ہوتا ہے کہ جن کے ماضی کسی کربناک صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں مثلاً شدید محبت میں ناکامی، خانگی زندگی کی تلخیاں یا ناکامی، محرومیاں، جنسی زیادتی، کسی پیارے کا بچھڑ جانا وغیرہ۔ آپ اسے ایسا ہی سمجھ لیں کہ جس طرح کسی دکھ یا غم میں ہم زاروقطار رو کر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں اور ہمارا ذہنی و نفسیاتی توازن دوبارہ متوازن ہو جاتا ہے‘ اسی طرح خود اذیت پسند افراد رونے کی بجائے خود کو اذیت دے کر یہ توازن حاصل کرتے ہیں۔
کچھ افراد کو اتنا غصہ آتا ہے یا وہ اتنے جارح ہو جاتے ہیں کہ ان کو خود سے ہی خوف محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ اس انتہائی حالت میں کسی کو کوئی بڑا نقصان نہ پہنچا دیں اور اسی وجہ سے وہ اس حد سے بڑھے ہوئے غصے یا جارحانہ پن کا رخ اپنی ذات کی طرف موڑ لیتے ہیں جس کا نتیجہ خود اذیتی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ خود اذیت پسند افراد کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ یہ افعال دوسروں کی توجہ کے حصول کی خاطر کرتے ہیں جبکہ خود اذیت پسندی کا شکار افراد کے خیال میں یہی وہ واحد طریقہ ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنی پریشانیوں اور مسائل کو کم کر سکتے ہیں، جبکہ بعض افراد کو اپنے لاشعور میں دبے اس مسئلے کا بھی ادراک نہیں ہوتا اور وہ نہیں جانتے کہ وہ خود کو کیوں اور کس لئے اذیت دے رہے ہیں۔
خود اذیتی پہلے پہل محرومی‘ ناکامی یا مایوسی وغیرہ میں غیر ارادی طور پر سر زد ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے اور بعد ازاں ذاتی سکون کے حصول کی خاطر یہ ایک عادت میں تبدیل ہو جاتی ہے یا ہو سکتی ہے مگر ضروری نہیں کہ ہر بار خود اذیتی کی شدت نفسیاتی مسئلہ کی شدت سے ہم آہنگ ہو ۔ عام طور پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد خود اذیتی کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ جب تک وہ یہ عمل نہیں دوہراتے انہیں سکون کا وہ معیار حاصل نہیں ہوتا جس کے وہ متلاشی ہوتے ہیں اور اس سکون کے حصول کیلئے وہ بار بار اس عمل کو دوہراتے ہیں اور بعض اوقات اس عمل کے خوفناک نتائج گہرے زخم‘ شدید انفیکشن یا مستقل معذوری کی صورت میں بھی سامنے آتے ہیں۔
خود اذیتی کے عام طریقوں میں بازوئوں ،ہاتھوں، ٹانگوں اور بعض اوقات چہرے‘ پیٹ‘ چھاتی حتی کہ اعضائے تولید کو تیز دھار آلات مثلا بلیڈ‘ چھری،شیشہ یا قینچی وغیرہ سے کٹ لگانا شامل ہے۔ کچھ افراد خود کو جلا کر، جسم کو ناخنوں سے کھرچ کر، خود کومکے اور تھپڑ مار کر یا دروازوں اور دیواروں وغیرہ سے ٹکریں مار کر سکون حاصل کرتے ہیں جبکہ دانتوں سے جسم کو کاٹنا جلد میں تیز دھار آلات کھبونا اور ضرر رساں اشیا نگل جانا خود اذیتی کی دیگر اقسام ہیں۔ خود اذیتی کے کچھ طریقے مثلاً بال نوچنا‘ پلکیں اور بھنویں اکھیڑنا اور جسم پر چٹکیاں کاٹنا ایسے افعال ہیں کہ جن میں طبی امداد کی ضرورت نہیں پڑتی۔
یک سروے کے مطابق ہسپتالوں میں داخل ہونے والے 10 فیصد افراد خود اذیتی کی وجہ سے ہسپتال پہنچتے ہیں۔ عورتیں عام طور پر 15 سے 25 سال کے درمیان جبکہ مرد 20سے 30 سال کے درمیان اس عارضہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ مگر ضروری نہیں کہ تمام مرد و عورتیں اسی عمر میں خود اذیتی میں مبتلا ہوں۔ اس نفسیاتی عارضہ میں مبتلا عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ منشیات اور الکوحل کا زیادہ مقدار میں استعمال بھی خود اذیتی کی ایک شاخ ہے اور اس میں لازماً طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔ حد سے زیادہ سگریٹ نوشی بھی اسی زمرے میں آتی ہے مگر سگریٹ نوش افراد کا مقصد خود کو نقصان پہنچانا نہیں ہوتا مگر اس کے ذیلی اثرات و نقصانات سے صرف نظر ممکن نہیں جبکہ جسمانی خود اذیتی کے عادی افراد کا مقصد ہی خود کو نقصان پہنچانا یا زخمی کرنا ہوتا ہے۔
اس قسم کے افراد خود کو باقاعدگی سے زخمی کر کے یا نقصان پہنچا کر سکون حاصل کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے مسائل کو چھپانے کے طریقے ڈھونڈ رکھے ہوتے ہیں اور جب کبھی یہ خود کو حد سے زیادہ نقصان پہنچا دیتے ہیں اور ان کو طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے تو اپنے شدت اور اذیت پسندانہ افعال کو چھپانے کیلئے ان کے پاس گھڑی گھڑائی کہانیاں موجود ہوتی ہیں یا پھر وہ راز کے افشاء ہونے کے خوف کے زیر اثر طبی امداد ہی حاصل نہیں کرتے جس کے خوف ناک نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں
خود اذیتی ایک ذہنی و نفسیاتی عارضہ ہے۔ یہ دراصل اپنے ان جذبات واحساسات کو سکون دینے کی ایک کوشش ہے کہ جن کو خود اذیت پسند لوگ معاشرے کے دیگر افراد کے ساتھ بانٹ نہیں سکتے یا پھر کسی ڈر یا خوف کی بنا پر وہ اسے دوسرے افراد پر ظاہر کرنے سے گھبراتے ہیں۔
یہ عارضہ عام طور پر ان لوگوں کو لاحق ہوتا ہے کہ جن کے ماضی کسی کربناک صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں مثلاً شدید محبت میں ناکامی، خانگی زندگی کی تلخیاں یا ناکامی، محرومیاں، جنسی زیادتی، کسی پیارے کا بچھڑ جانا وغیرہ۔ آپ اسے ایسا ہی سمجھ لیں کہ جس طرح کسی دکھ یا غم میں ہم زاروقطار رو کر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں اور ہمارا ذہنی و نفسیاتی توازن دوبارہ متوازن ہو جاتا ہے‘ اسی طرح خود اذیت پسند افراد رونے کی بجائے خود کو اذیت دے کر یہ توازن حاصل کرتے ہیں۔
کچھ افراد کو اتنا غصہ آتا ہے یا وہ اتنے جارح ہو جاتے ہیں کہ ان کو خود سے ہی خوف محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ اس انتہائی حالت میں کسی کو کوئی بڑا نقصان نہ پہنچا دیں اور اسی وجہ سے وہ اس حد سے بڑھے ہوئے غصے یا جارحانہ پن کا رخ اپنی ذات کی طرف موڑ لیتے ہیں جس کا نتیجہ خود اذیتی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ خود اذیت پسند افراد کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ یہ افعال دوسروں کی توجہ کے حصول کی خاطر کرتے ہیں جبکہ خود اذیت پسندی کا شکار افراد کے خیال میں یہی وہ واحد طریقہ ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنی پریشانیوں اور مسائل کو کم کر سکتے ہیں، جبکہ بعض افراد کو اپنے لاشعور میں دبے اس مسئلے کا بھی ادراک نہیں ہوتا اور وہ نہیں جانتے کہ وہ خود کو کیوں اور کس لئے اذیت دے رہے ہیں۔
خود اذیتی پہلے پہل محرومی‘ ناکامی یا مایوسی وغیرہ میں غیر ارادی طور پر سر زد ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے اور بعد ازاں ذاتی سکون کے حصول کی خاطر یہ ایک عادت میں تبدیل ہو جاتی ہے یا ہو سکتی ہے مگر ضروری نہیں کہ ہر بار خود اذیتی کی شدت نفسیاتی مسئلہ کی شدت سے ہم آہنگ ہو ۔ عام طور پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد خود اذیتی کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ جب تک وہ یہ عمل نہیں دوہراتے انہیں سکون کا وہ معیار حاصل نہیں ہوتا جس کے وہ متلاشی ہوتے ہیں اور اس سکون کے حصول کیلئے وہ بار بار اس عمل کو دوہراتے ہیں اور بعض اوقات اس عمل کے خوفناک نتائج گہرے زخم‘ شدید انفیکشن یا مستقل معذوری کی صورت میں بھی سامنے آتے ہیں۔
خود اذیتی کے عام طریقوں میں بازوئوں ،ہاتھوں، ٹانگوں اور بعض اوقات چہرے‘ پیٹ‘ چھاتی حتی کہ اعضائے تولید کو تیز دھار آلات مثلا بلیڈ‘ چھری،شیشہ یا قینچی وغیرہ سے کٹ لگانا شامل ہے۔ کچھ افراد خود کو جلا کر، جسم کو ناخنوں سے کھرچ کر، خود کومکے اور تھپڑ مار کر یا دروازوں اور دیواروں وغیرہ سے ٹکریں مار کر سکون حاصل کرتے ہیں جبکہ دانتوں سے جسم کو کاٹنا جلد میں تیز دھار آلات کھبونا اور ضرر رساں اشیا نگل جانا خود اذیتی کی دیگر اقسام ہیں۔ خود اذیتی کے کچھ طریقے مثلاً بال نوچنا‘ پلکیں اور بھنویں اکھیڑنا اور جسم پر چٹکیاں کاٹنا ایسے افعال ہیں کہ جن میں طبی امداد کی ضرورت نہیں پڑتی۔
یک سروے کے مطابق ہسپتالوں میں داخل ہونے والے 10 فیصد افراد خود اذیتی کی وجہ سے ہسپتال پہنچتے ہیں۔ عورتیں عام طور پر 15 سے 25 سال کے درمیان جبکہ مرد 20سے 30 سال کے درمیان اس عارضہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ مگر ضروری نہیں کہ تمام مرد و عورتیں اسی عمر میں خود اذیتی میں مبتلا ہوں۔ اس نفسیاتی عارضہ میں مبتلا عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ منشیات اور الکوحل کا زیادہ مقدار میں استعمال بھی خود اذیتی کی ایک شاخ ہے اور اس میں لازماً طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔ حد سے زیادہ سگریٹ نوشی بھی اسی زمرے میں آتی ہے مگر سگریٹ نوش افراد کا مقصد خود کو نقصان پہنچانا نہیں ہوتا مگر اس کے ذیلی اثرات و نقصانات سے صرف نظر ممکن نہیں جبکہ جسمانی خود اذیتی کے عادی افراد کا مقصد ہی خود کو نقصان پہنچانا یا زخمی کرنا ہوتا ہے۔
اس قسم کے افراد خود کو باقاعدگی سے زخمی کر کے یا نقصان پہنچا کر سکون حاصل کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے مسائل کو چھپانے کے طریقے ڈھونڈ رکھے ہوتے ہیں اور جب کبھی یہ خود کو حد سے زیادہ نقصان پہنچا دیتے ہیں اور ان کو طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے تو اپنے شدت اور اذیت پسندانہ افعال کو چھپانے کیلئے ان کے پاس گھڑی گھڑائی کہانیاں موجود ہوتی ہیں یا پھر وہ راز کے افشاء ہونے کے خوف کے زیر اثر طبی امداد ہی حاصل نہیں کرتے جس کے خوف ناک نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں
Last edited: