Afaq Chaudhry
Chief Minister (5k+ posts)
[h=3]سیدمنورحسن
[/h]
امیرجماعت اسلامی پاکستان
[FONT="][/FONT]
[FONT="]معیشت کو قومی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے لیکن پے درپے حکومتوں کی ناسمجھی، عاقبت نااندیشی اور لوٹ مار نے ملکی معیشت کا برا حال کیا ہے۔ چینی حاصل کرنی، ہوش رُبا بل جمع کروانی، بلکتے بچوں کے لیے دوا حاصل کرنی، حتیٰ کہ اپنے رُوٹ کی گاڑی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے خوار ہوتے عوام کو تو ملکی معیشت کو سمجھنے کے لیے مزید شواہد کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن جو لوگ اعداد و شمار کی روشنی میں حالات کا تجزیہ کرنے کے ہنر سے آراستہ ہیں وہ نسبتاً زیادہ مایوس نظر آتے ہیں۔قومی وقار کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے کے بعد پاکستان کی خودمختاری، حتیٰ کہ سلامتی تک کو دا[/FONT][FONT="]ﺅ[/FONT][FONT="] پر لگادیا گیا ہے۔ ملک پر بیرونی قرضے 55 ارب ڈالر سے زائد ہوچکے ہیں۔ اندرونی قرضے 43 کھرب روپے ہوچکے ہیں۔ امریکی دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے صرف گزشتہ برس کے دوران 8 ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں۔ ہماری قیادت نے قوم کے لیے وہ راستہ چنا ہے جس میں ہمیں سیکڑوں پیاز بھی کھانے پڑرہے ہیں اور سیکڑوں جوتے بھی۔ امریکی غلامی کے اس تاوان کے ساتھ ساتھ ہمیں جو قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے اس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ ملک امریکی کالونی بن چکا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم کی سیکورٹی بلیک واٹر کے تربیت یافتہ حضرات و خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں شراکت کی بنیاد پر طے شدہ پاکستان کا حصہ تک ادا نہیں کیا جارہا اور پاکستان کے سربراہِ مملکت تک 1.6 ارب ڈالر کی معمولی رقم کے لیے ایک سے زائد مرتبہ امریکا کی منتیں کرچکے ہیں۔ ملک کے وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ اگر امریکا سے پاکستان کو مدد نہ ملی تو بجٹ خسارہ بڑھ جائے گا۔ بدامنی اور لُوٹ مار کا دور دورہ ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور نام نہاد فرینڈز آف پاکستان کو ملکی معاملات کو نچلی سطح تک بھی براہِ راست چلانے کی کھلی اجازت دے دی گئی ہے۔کالعدم این آر او سے فائدہ اٹھانے والے تین درجن سے زائد افراد ملکی سیاسی سیٹ اَپ کا حصہ ہیں، جن کے سرخیل ملک کے سربراہ ہیں۔ بدعنوانی، بدانتظامی،ٹیکس چوری اور امرا کو حاصل بے جا مراعات کی وجہ سے قومی خزانے کو تقریباً 800 ارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک کی پالیسیوں کی وجہ سے امیر اور غریب طبقات میں فرق بہت زیادہ نمایاں ہوگیا ہے۔ گزشتہ دس سال میں تقریباً 5 ہزار ارب روپے غریب اور متوسط طبقے سے مال دار طبقات کو منتقل ہوچکے ہیں۔ گزشتہ تقریباً دو سال کے عرصے میں 16 ملین سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے جاچکے ہیں۔ گزشتہ تین برس میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 26.7 فی صد کمی آچکی ہے۔بھارتی ہٹ دھرمی اور پاکستانی اربابِ اقتدار کی نااہلی کی وجہ سے پاکستان کے دریا خشک ہورہے ہیں اور اب بات صرف بجلی کے بحران تک محدود نہیں ہے بلکہ خدانخواستہ قحط سالی تک پہنچتی نظر آرہی ہے۔ دریا[/FONT][FONT="]ﺅ[/FONT][FONT="]ں کے بہا[/FONT][FONT="]ﺅ[/FONT][FONT="] میں 21فی صد اور ذخیرہ شدہ پانی میں 34 فی صد کمی آچکی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق زراعت کے شعبے میں جو تنزل نظر آرہا ہے اس کی ایک وجہ اگرچہ بارشوں کا کم ہونا بھی ہے لیکن زیادہ اہم وجہ کسانوں کو ان کی محنت کا پھل نہ ملنے کی وجہ سے ان میں پائی جانے والی مایوسی ہے۔ ان حالات میں ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوئی محدود تبدیلی کافی نہیں ہوگی۔ اس موضوع پر تیار کی جانے والی لاتعداد سرکاری اور غیر سرکاری رپورٹوں میں جو سفارشات دی گئی ہیں، موجودہ نظام میں رہتے ہوئے شاید ان سے بہتر تجاویز نہیں دی جاسکتیں۔ ضرورت ایک بڑی اور بنیادی تبدیلی کی ہی، ایک ایسی تبدیلی جس میں سوچ، زاویہ[/FONT][FONT="] [/FONT][FONT="]نگاہ، عمل کا انداز اور رویّے و رجحانات سب میں بہتری لائی جائے۔ میری کوشش ہوگی کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ہمارے پیشِ نظر انتظامی تبدیلیوں اور اصلاحات کو بیان کرنے کے بجائے اس پورے فریم ورک کو آپ کے سامنے رکھ سکوں جو ہماری دانست میں پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ناگزیر ہے۔ جماعت اسلامی کے ہر منشور میں وہ اقدامات متعین طور پر بیان کردیے گئے ہیں جو ان[/FONT][FONT="] ideals [/FONT][FONT="]تک پہنچنے کے لیے ہمارے پیشِ نظر ہیں۔ پاکستان کے قیام کے 63 برس بعد یہ کہتے ہوئے بھی دکھ محسوس ہوتا ہے کہ سب سے پہلے ہمیں اپنے ملک کے تشخص اور اس کی منزل کا تعین کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے نظریاتی تشخص یا قومی اہداف کے حوالے سے ہم بالکل تہی دست ہیں، ملک کے 16کروڑ عوام نہ صرف اس سے باخبر اور آگاہ ہیں بلکہ اس کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار بھی ہیں۔ ملک کا آئین ان بنیادوں کو غیر مبہم انداز میں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ صرف اس ملک کے حکمرانوں کو اپنے طرزِعمل اور قومی پالیسیوں کو اس سوچ سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ترقی اور بڑھوتری کی باتیں محض ایک خواب ہوں گی۔اس کے ساتھ ہمیں ترقی کے مفہوم کو درست طور پر متعین[/FONT][FONT="] (redefine) [/FONT][FONT="]کرنا ہوگا۔ موجودہ سرمایہ دارانہ عالمی نظام میں ترقی صرف معاشی نمو تک محدود ہے۔ گویا اس نقطہ نظر کی رُو سے انسانی ترقی میں بنیادی اہمیت روپے پیسے[/FONT][FONT="] (money) [/FONT][FONT="]کو حاصل ہی، جب کہ انسانی فلاح محض اس کا نتیجہ قرار پاتی ہے۔ ہمیں اپنے نقطہ نظر کے مطابق انسانیت کی فلاح کو اپنا محور قرار دینا ہوگا اور معاشی بڑھوتری محض اس کا ایک مظہر ہوگا۔ انسانی خوبیوں کو پروان چڑھانا اور ان میں اخوت و محبت پر مبنی ایسے تعلقات استوار کرنا ہمارا مطمحِ نظر ہوگا جس میں تعلق کی بنیاد انسانیت ہو نہ کہ پیسہ۔ اس حوالے سے ہمارے لیے کسی فرد کی جسمانی، سماجی اور اخلاقی ترقی بھی اسی قدر اہم ہوگی جتنی موجودہ دنیا میں اس کی معاشی ترقی ہے۔[/FONT][FONT="]l [/FONT][FONT="]ہمہ جہت حکمت عملی کی ضرورت: اس وژن کو اگر قابلِ عمل اقدامات کی صورت میں ڈھالا جائے تو ہمیں پانچ جہتوں میں بیک وقت کام کرنا ہوگا جن میں سے ہر ایک دوسرے سے وابستہ ہی: 1- معاشی،2-سماجی، 3- انتظامی، 4-اخلاقی اور [/FONT][FONT="]5- [/FONT][FONT="]تزویراتی یعنی اسٹرے ٹیجک۔ اس مقصد کے لیے اگلے دس سال کے لیے ایک فریم ورک تجویز کیا جاسکتا ہے۔ اس ساری کاوش کا ہدف ایک اسلامی، منصفانہ، ترقی پسند[/FONT][FONT="] (progressive)[/FONT][FONT="]، اور خوش حال معاشرے کا قیام ہے۔جب ہم ان پانچ جہتوں میں کام کرنے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر ان پانچوں میں سے اخلاقی جہت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور زندگی کے دیگر تمام دائروں میں اس کا عملی نفاذ ہوگا۔[/FONT][FONT="]''If character is lost, everything is lost'' [/FONT][FONT="]شاید ایک گھسا پٹا جملہ محسوس ہو، لیکن یہ زندگی کے پورے فلسفے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ہم جس معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہیں اس میں معاشی، سماجی، انتظامی اور اسٹریٹجک سمیت تمام پہلو[/FONT][FONT="]ﺅ[/FONT][FONT="]ں میں اسلام کے دیے گئے بلند ترین اخلاقی معیارات کی جھلک نظر آئے گی۔[/FONT][FONT="]l [/FONT][FONT="]معاشی پہلو: معاشی میدان میں ترقی کے لیے ایک ایسا معاشرہ ہمارے پیش نظر ہے جس میں وسیع البنیاد[/FONT][FONT="] (broad based) [/FONT][FONT="]اور پائیدار[/FONT][FONT="] (sustainable) [/FONT][FONT="]معاشی ترقی کا ہدف اس انداز میں حاصل کیا جائے کہ عوام کے مختلف طبقات کے درمیان سماجی و معاشی بنیادوں پر فرق کم سے کم ہو اور ہر ایک کو ملازمت اور زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی ہو۔ اس مقصد کے لیے ہمارے اگلے دس سال کا ہدف مسلسل اور وسیع تر بنیادوں پر جی ڈی پی میں سات سے آٹھ فی صد اور فی کس آمدن میں پانچ سے چھ فی صد اضافہ ہے۔ کم آمدن والے 20 فی صد پاکستانیوں کے قومی آمدن میں سات فی صد حصے کو بڑھا کر [/FONT][FONT="]15 [/FONT][FONT="]فی صد کیا جائے گا تاکہ معاشی ناہمواریوں میں کمی کی جاسکے۔ بے روزگاری کی شرح کو 5 فی صد تک لانا اور تمام شہریوں کے لیے فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانا بھی اسی ہدف کا حصہ ہے۔ [/FONT]
[FONT="]مذکورہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جمع شدہ رقوم گردش میں لانے کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی ، سرمایہ کاری میں اضافے اور برآمدات کے حجم میں ترقی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ معیشت کے تمام شعبوں میں تعلیم و تربیت کی اعلیٰ سہولیات فراہم کی جائیں اور[/FONT][FONT="] R & Dکی طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے جدید ترین ٹیکنالوجی اور اعلیٰ انتظامی معیارات کو عمل میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے موثر انفرااسٹرکچر ناگزیر ہے۔ معاشی میدان میں ان شعبوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے گی جن کے نتیجے میں ملازمتیں پیدا ہوں اور ملکی مصنوعات میں اضافہ ہو۔ خصوصاً ایسے شعبہ جات کو ترقی دی جائے گی جن کے potential سے اب تک درست طور پر استفادہ نہیں کیا گیا، مثلاً سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جس کو اپنی اقدار و روایات کی پاس داری کے ساتھ پروان چڑھاکر بڑے معاشی، سماجی اور اسٹریٹجک فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کے لیے خصوصی مراعات اور اقدامات (incentives & initiatives) کے ذریعے پیداواری صلاحیت، اعلیٰ ترین معیار اور تیار و خام مال کی اسٹوریج کے ساتھ ساتھ ڈسٹری بیوشن کی طرف بھی توجہ دی جائے گی۔l سماجی پہلو: سماجی میدان میں ترقی کے لیے ہر پاکستانی کے لیے بلاامتیاز شہری سہولیات اور مساوی مواقع کی فراہمی۔ تعلیم، صحت، صفائی جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ذریعے انسانی استعداد ِ کار میں اضافی، نادار اور ضرورت مند خواتین و حضرات کے لیے سوشل سیکورٹی کے شفاف اور ہمہ گیر نظام اور پاکیزہ ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ ہر سطح پر سادگی پر مبنی طرزِ زندگی کے فروغ کے ساتھ ساتھ کنزیومر کلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ اس سب کے ساتھ ساتھ ایسے انسانی رویّے پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے گی جن پر عمل کرتے ہوئے معاشرے میں انسانوں کے درمیان امتیازات کو کم سے کم کیا جاسکے۔سماجی شعبے میں اگلے دس برسوں میں مذکورہ بالا اہداف حاصل کرنے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے تعاون سے سرکاری طور پر سوشل انفرااسٹرکچر پروان چڑھایا جائے گا جس کے ذریعے تمام شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ خصوصی توجہ کے محتاج افراد اور علاقوں کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ایسے منصوبے تیار کیے جائیں گے جن کی مدد سے ان افراد اور علاقوں کو قومی زندگی میں زیادہ نمایاں کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔ اس سب کے ساتھ ہمارے پیش نظر یہ بھی ہے کہ انسانی ترقی اور نشوونما کے لیے بہتر ماحول ایک بنیادی ضرورت ہے۔ تعلیم کا ایک ایسا یکساں نظام مرتب کیا جائے گا جو ہماری ملّی اقدار، قومی اہداف اور سماجی و معاشی حکمت ِ عملی سے ہم آہنگ ہو۔ ہم تمام قومی پالیسیوں اور ترقیاتی منصوبوں میں صاف ماحول کی فراہمی کو پیشِ نظر رکھیں گے۔l انتظامی پہلو: انتظامی حوالے سے کسی بھی معاشرے میں قانون کی حکمرانی، انصاف اور عدل پر مبنی نظام ناگزیر ہے۔ جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کے بہتر سے بہتر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے نہ صرف جان، مال، آبرو کے تحفظ کو یقینی بنانا ضروری ہے بلکہ بلاامتیاز حقوق کی فراہمی اور ایک دوسرے کے اعتقادات اور نقطہ ہائے نظر کا احترام بھی لازم ہے۔ عدلیہ، انتخابی اداروں، ادارہ شماریات، اسٹیٹ بینک اور دیگر احتسابی اداروں کی مکمل خود مختاری اور غیرجانب داری کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس سب کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ بھی اعتقاد ہے کہ مثبت طور پر پیش کی گئی کسی بھی تنقید یا آراءپر کسی قسم کی کوئی قدغن فکروسوچ اور ترقی کے جذبے کو ماند کردیتی ہے۔ان انتظامی اصلاحات کو عملی صورت دینے کے لیے عدالتی عمل کو شفاف اور فعال بنانے کی طرف توجہ دی جائے گی۔ کرپشن، انتقامی رویوں اور اداروں میں انتظامی و سیاسی حوالوں سے مداخلت کے کلچر کو ختم کرکے خالص پیشہ ورانہ بنیادوں پر کارکردگی کے رجحان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اسلام کے شوریٰ کے اصول کو ہروقت اور ہر حوالے سے مدنظر رکھتے ہوئے ہر سطح پر جمہوری اور نمائندہ اداروں کو مضبوط بنایا جائے۔ تمام سرکاری اداروں میں مسلسل جائزے اور احتساب کے ذریعے کارکردگی میں مسلسل بہتری کو یقینی بنایا جائے گا۔l اخلاقی پہلو: ملکی قیادت کا کام صرف وسائل کی تقسیم اور انتظام ہی نہیں بلکہ قوم کی رہنمائی اور قومی کردار کی تشکیل بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے قومی کردار کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام کی سوچ اور اُمنگوں کے مطابق ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس میں جبر کا ماحول پیدا کیے بغیر ذاتی احساس کی بنا پر بھلائی کے فروغ اور برائی کا راستہ روکنے کا کلچر پیدا ہو۔ افراد ِ معاشرہ میں خداخوفی، دیانت داری، قانون پسندی اور رواداری کی خصوصیات پیدا کی جائیں۔ انسانی حقوق کی پاس داری اور مردو خواتین کے درمیان توازن کی بنیاد پر کردار کا تعین ہو، جس کے نتیجے میں ہر فرد کی استعدادِ کار میں اضافہ اور صلاحیتوں کا بہتر سے بہتر استعمال ممکن ہو۔افرادِ معاشرہ میں ان اخلاقی خوبیوں کو پیدا کرنے کے لیے اسلام کے پورے نظام اور اس کی بنیادوں کو کسی افراط و تفریط کے بغیر ایک تدریج اور تسلسل کے ساتھ قومی کردار کا حصہ بنایا جائے گا۔ تعلیم و تربیت اور میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے روایتی اور غیرروایتی طریقوں سے اسلامی ثقافت، قانون کا احترام اور دیگر ذاتی و اجتماعی خوبیاں پیدا کرنے پر زور دیا جائے گا۔ ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا جس میں مثبت اور تعمیری سوچ پروان چڑھے۔l اسٹریٹجک پہلو: جب ہم قومی زندگی کے اسٹریٹجک پہلو کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پیشِ نظر ہوتا ہے کہ ہم ملک میں سیاسی استحکام اور قابلِ اعتماد دفاعی صلاحیت کے ساتھ پائیدار ترقی کو یقینی بنائیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ خودانحصاری کی بنا پر علاقائی تعاون کو یقینی بنائیں اور پاکستان کو اس قابل بنائیں کہ عالمی سطح پر اس کو ایک قابلِ قدر مقام دلایا جاسکے۔ اس سب کے لیے اندرونِ ملک اس بات کو تسلیم کرنا اور عالمی سطح پر اس کا پرچار کرنا ضروری ہوگا کہ مختلف علاقوں، اعتقادات اور کمیونٹیز کے لوگوں کے طرزِ زندگی کا احترام کیے بغیر امن کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔اسٹریٹجک اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہرسطح پر آزاد اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔ ملکی دفاع کو مضبوط اور ایسی داخلہ و خارجہ پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جن سے پاکستان کے دوستوں میں اضافہ اور دشمنوں میں کمی ہو، اور اس کے ساتھ ساتھ بداندیش حکومتوں اور گروہوں کے خلاف ایک مضبوط سدِّجارحیت بھی حاصل ہو۔ ملکی وسائل کے بہتر اور زیادہ سے زیادہ استعمال اور مصنوعی طرزِ زندگی کی حوصلہ شکنی کے ذریعے خودانحصاری کو قومی شعار قرار دیا جائے گا۔ علاقائی ممالک اور تنظیمات کے ساتھ معاشی میدان میں قریبی تعاون کے ساتھ ساتھ دیگر امور پر بھی انھیں ہم خیال بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ ایک واضح سوچ اور وژن کے ساتھ بین الاقوامی فورموں پر فعال کردار ادا کرتے ہوئے ملکی مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ ہمارے پیشِ نظر ہے کہ ملکی سلامتی اور وقار پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر باہم مفاہمت اور رواداری کو فروغ دیا جائے۔میں آپ کے سامنے ایک واضح سوچ اور لائحہ عمل کے ساتھ یہ تمام باتیں رکھ رہا ہوں اور مجھے اس بات کا بھرپور احساس ہے کہ اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے قومی اداروں کی مضبوطی کو یقینی بنانا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بات کسی شک و شبہ کے بغیر کہی جاسکتی ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت عوام میں سے ہونے کی وجہ سے ان کے مسائل اور اُمنگوں سے آگاہ اور ان کے حل کے لیے افرادی اور فکری صلاحیتوں سے مالامال ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کم از کم کسی مشترکہ ایجنڈے پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔پاکستان کے مسائل کا ایک بڑا حصہ اس صورت میں حل ہوسکتا ہے جب کہ پاکستان کے عوام کو اپنے حکمرانوں پر اعتماد ہو۔ نہایت خوش نما اور جامع منصوبے بھی اپنے اعلان کے پہلے ہی دن سرد خانے میں ڈال دیے جاتے ہیں کیونکہ نہ تو عوام کو ان کی تنفیذ کا یقین ہوتا ہے اور نہ ہی حکمران فی الواقع ان کو روبہ عمل لانا چاہتے ہیں۔ اگر حکمرانوں پر عوام کا اعتماد بحال ہوجائے تو پاکستانی عوام واقعتا یکجان ہوکر بہتری کی سمت سفر کرسکتے ہیں۔ الحمدللہ امانت و دیانت کے حوالے سے ہمیں یہ اعتماد حاصل ہے۔[/FONT][FONT="][/FONT]